پروفیسر الطاف احمد اعظمی
جب ہم تاریخِ فلسفہ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اور فلسفہ میں مطابقت اور عدم مطابقت کے بارے میں اختلافِ رائے ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ ان دونوں میں مطابقت ہے۔ اس گروہ میں فارابی (م،۹۵۰ ء)اور ابن سینا (م، ۱۰۳۷ء) شامل ہیں۔ دوسرا گروہ ان فلاسفہ کا ہے جو عدمِ مطابقت کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذہب اور فلسفہ کے علاقے الگ الگ ہیں۔ اس لیے ان دونوں کو مصنوعی طریقوں سے جمع کرنا صحیح نہ ہوگا۔ مشہور فلسفی الکندی (م، ۸۷۳ء) اور سجستانی کا یہی نقطۂ نظر تھا۔ اس معاملے میں ابن رشد (م ۱۱۹۸ء) کا تعلق پہلے گروہ سے ہے لیکن اس کا طریقۂ استدلال اس گروہ سے تعلق رکھنے والے فلاسفہ سے مختلف ہے۔
ابن رشد کا خیال ہے کہ مذہب اور فلسفہ میں اصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں کہ دونوں کا مقصد ایک ہے۔ مذہب کا بنیادی مقصد حقیقتِ اعلیٰ یعنی خدا کا عرفان ہے اور یہی فلسفہ کا بھی اصلی ہدف ہے۔(۱)اس نے لکھاہے:’’فلسفہ کا کام اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ موجودات اور اس کے متعلقات پر اس حیثیت سے غور کیا جائے کہ وہ صانع کی طرف رہ نما ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صنعت کی معرفت حاصل ہوگئی تو صانع کی معرفت بھی بدرجۂ اتم حاصل ہوگئی۔‘‘ (۲)
مذہب اسلام نے بھی اہل علم کے لیے خدا کی معرفت کا یہی طریقہ بتایا ہے، یعنی مظاہرِ عالم پر غوروفکر کرکے اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنا۔ ابن رشد نے لکھا ہے :’’ شریعت نے موجودات پر عقل کے ذریعہ غور کرنے اور اس کے ذریعہ ان کی معرفت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے، اور یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب کی آیات سے بالکل واضح ہے جیسا کہ اس نے فرمایا : أَوَلَمْ یَنظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّہُ مِن شَیْْءٍ(سورہ اعراف:۱۸۵) یہ آیت تمام موجوداتِ عالم پر غور کرنے کی ترغیب کے لیے ایک پختہ دلیل (نص) ہے۔‘‘(۳)
ابن رشد کا یہ بھی خیال ہے کہ شریعت نے موجوداتِ عالم پر غور وفکر کی جو دعوت دی ہے اس کا سب سے اعلیٰ ذریعہ عقل و منطق ہے۔ اس نے واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ :’’ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ شریعت نے موجودات اور اعتبارِ موجودات پر عقل کے ذریعہ غور کرنا واجب کردیا ہے، اور اعتبار اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ معلوم سے مجہول کا استنباط اور ستخراج کیا جائے جس کا نام قیاس بالقیاس ہے۔ تو اب یہ بھی واجب ہے کہ ہم موجودات میں قیاسِ عقلی کے ذریعہ غور کریں۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ غور کرنے کی قسموں میں سب سے زیادہ مکمل اور قیاس کی قسموں میں سے سے زیادہ بہتر قیاس کا نام ’’برہان‘‘ ہے۔‘‘ (۴)
لیکن ابن رشد کا یہ خیال پورے طور پر صحیح نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں آثار و مظاہر کائنات پر غور وفکر کی جو دعوت دی گئی ہے اس کا ذریعہ محض عقل اور اس کے متعلقات نہیں بلکہ دوسرے ذرائع بھی اس میں شامل ہیں۔ خود ابن رشد نے موجودات پر غوروفکر سے متعلق جو آیات نقل کی ہیں، اور ان میں سے ایک آیت ہم اوپر نقل کر چکے ہیں، ان میں آیتِ ذیل سے ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
أَفَلَا یَنظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کَیْْفَ خُلِقَتْ وَإِلَی السَّمَاء کَیْْفَ رُفِعَتْ وَإِلَی الْجِبَالِ کَیْْفَ نُصِبَتْ وَإِلَی الْأَرْضِ کَیْْفَ سُطِحَت
(سورہ الغاشیۃ: ۱۷-۱۹)
’’کیا وہ نہیں دیکھتے ہیں کہ تہ برتہ بادل کیسے بنائے گئے، اور آسمان کیسے بلند کیا گیا، اور پہاڑ کیسے کھڑے کیے گئے اور زمین کیسے بچھائی گئی۔‘‘
اس آیت میں جو سوالات قائم کیے گئے ہیں، یعنی بادلوں کی تخلیق ، آسمان (اجرام فلکی) کا فضا میں کسی ظاہری ستون کے بغیر قائم ہونا، زمین کا ہموار اور مسطح ہونا اور اس میں عظیم الجثہ پہاڑوں کا میخوں کی طرح گڑا ہونا، ان کا جواب قیاسِ عقلی کے ذریعہ ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ ان کائناتی حقائق کا انکشاف گہرے مشاہدہ و تجربے کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اور یہ ذریعہ سائنسی علوم ہیں نہ کہ قیاسی علوم۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوا ہے:
قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْْفَ بَدَأَ الْخَلْق (سورہ عنکبوت: ۲۰)
’’ ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ اس نے کس طرح تخلیق کی ابتدا کی۔‘‘
اس آیت کا تعلق بھی واضح طور پر مشاہدہ و تجربہ سے ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قرآن میں خدا اور اس کی صفات کا جو ذکر ہوا ہے وہ تمام تر نظری علم ہے، اور یہ علم بھی انسانی زبان میں ہے جو بہرحال محدودیت رکھتی ہے، لیکن عالمِ موجودات، جو حددرجہ مربوط اور منظم ہے، خدا کے وسیع اور ہمہ گیر علم کا عملی اظہار ہے۔ اس عالمِ فعل کی کلی تفہیم عقلی بحث و استدلال کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے تجربی علوم درکار ہیں، جن کو دوسرے مسلم فلاسفہ کی طرح ابن رشد نے بھی نظر انداز کیا ہے۔اگر مسلمانوں نے آثار و مظاہر کائنات سے متعلق قرآن کی آیات میں غورو فکر کی نوعیت کو ٹھیک طور پر سمجھ لیا ہوتا تووہ مدتوں فلسفہ و منطق کی فضول بحثوں میں اپنی گراں قدر علمی صلاحیتوں کے اتلاف سے بچ گئے ہوتے۔
اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ مابعد الطبیعاتی مسائل میں، جو مذہب اور قدیم فلسفہ دونوں میں اہم مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں، کہاں تک اتحاد و موافقت ہے؟ امام غزالیؒ (م ،۱۱۱۱ء) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ میں بیس ایسے مابعد الطبیعاتی مسائل کا ذکر کیا ہے جو مذہب کی رو سے قابلِ اعتراض ہیں۔ ان میں سے مندرجہ ذیل مسائل قابل ذکر ہیں:
۱۔ علم قدیم ہے۔
۲۔ عالم، زمان اور حرکت سب ازلی ہیں۔
۳۔ تخلیقِ کائنات اور خالق کائنات جیسے الفاظ حقیقی نہیں بلکہ اشاراتی مفہوم رکھتے ہیں۔
۴۔ نفی صفات
۵۔ خدا کی ذات بسیط محض بلا ماہیت ہے۔
۶۔ خدا کو جزئیات کا علم نہیں۔
۷۔ افلاک کی ارواح کاان تمام جزئی امور سے واقف ہونا جو اس کائنات میں رونما ہوتے ہیں۔
۸۔ خرقِ عادت ناممکن ہے۔
۹۔ حشرِ اجساد ممکن نہیں ہے۔
۱۰۔ روح کی انفرادی بقا کا انکار
ان مسائل میں سے چار مسئلے ایسے ہیں جو ارباب مذہب کی نظر میں مذہبی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں، اور وہ یہ ہیں : قدامتِ عالم، خرقِ عادت، حشر اجساد اور روح کی انفرادی بقا کا انکار، اور ان ہی مسائل کی بنیاد پر امام غزالیؒ نے فارابی اور ابن سینا کی تکفیر کی ہے۔ (۵) ہم یہاں اپنی گفتگو صرف ان چار مسائل تک محدود رکھیں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ان مسائل کے بارے میں ابن رشد کے کیا خیالات تھے اور وہ کہاں تک مذہبی فکر سے ہم آہنگ ہیں۔
عالم حادث ہے یا قدیم؟
اس مسئلے میں خود یونانی فلاسفہ میں اختلاف ہے۔افلاطون کی رائے ہے کہ نظامِ عالم حادث ہے، یعنی ایک خاص وقت میں اس کا ظہور ہوا ہے، اس سے پہلے وہ موجود نہیں تھا۔ افلاطون نے یہ بھی کہا ہے کہ حرکتِ منتظمہ بھی، جس سے زمانہ کا قیاس ہوتا ہے، حادث ہے۔ ارسطو کی رائے اس سے مختلف ہے۔ اس کے نزدیک عالم قدیم ہے اور زمانہ بھی قدیم ہے، جس کی ابتدا ایک طرف سے نہیں ہوئی ہے اور نہ انتہا دوسری طرف ہوگی۔
ابن رشد نے اس معاملے میں ارسطو کی پیروی کی ہے لیکن مذہبی خیال کو بھی بالکلیہ رد نہیں کیا ہے۔ اس نے اس مسئلے کی توجیہ اس طور پر کی ہے کہ مذہب اور فلسفے میں مطابقت پیدا ہو۔ چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ عالم مادی تین طرح کے موجودات پر مشتمل ہے: (ا) حسی موجودات، جو ایک مخصوص علت رکھتے ہیں، مثلاً پانی، ہوا، جانور اور نباتات وغیرہ، اور اس معاملے میں اہلِ مذہب اور فلاسفہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، (۲) غیر مرئی ہستی، جو اپنے وجود کے لیے کسی علت کی محتاج نہیں بلکہ واجب الوجود ہے، اور یہ ازلی خدا ہے۔ تمام اہل علم اس پر بھی متفق ہیں، (۳) ان دو وجودوں کے درمیان ایک اور وجود ہے جو پہلے دو وجودوں سے مختلف ہے، اور یہ خود عالم ہے۔ یہ اپنے وجود کے لیے نہ کسی علت کا مرہون ہے اور نہ ہی زمانہ اس سے مقدم ہے۔ اور تیسرے وجود میں متکلمین اور حکماءِ قدیم کا اختلاف ہے۔(۶)
اس تیسرے وجود کا نام فلسفہ کی اصطلاح میں ’’وسط‘‘ اور اول الذکر دو موجودات ’’طرفین‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’وسط‘‘ یعنی عالم کی حقیقت واضح کرتے ہوئے ابن رشد نے لکھا ہے: ’’ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس وجود (عالم) نے وجود حقیقی اور وجودِ قدیم کی ایک شباہت اور عکس کو پالیا ہے۔ جس شخص پر اس کا وہ حال غالب آگیا جہاں اس کے حدوث کی بہ نسبت قدم کی شباہت ہے تو اس نے اس عالم کا نام قدیم رکھ دیا اور جس شخص پر اس کے حدوث کی شباہت غالب آگئی اس نے اس کا نام حادث رکھ دیا، اگرچہ وہ حقیقت میں حقیقی حادث نہیں ہے اور نہ حقیقی قدیم ہے۔ اس لیے کہ محدثِ حقیقی فاسد ہے اور رہا قدیم حقیقی تو اس کے لیے علت نہیں۔‘‘ (۷)
مشّائین (ارسطو اور اس کے پیرو) کے نقطۂ نظر کے اثبات کے بعد ابن رشد نے مذہبی زاویۂ نظر سے بھی اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے اور لکھا ہے :’’ ظاہرِ شرع میں اگر جستجو کی جائے تو ایجادِ عالم (ابداع) کی خبر دینے والی آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عالم کی صورت محدثِ حقیقی ہے مگر نفسِ وجود و زماں دونوں طرف غیر منقطع ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَہُوَ الَّذِیْ خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاء۔ (سورہ ہود: ۷)
ظاہرآیت سے بالکل واضح ہے کہ اس عالم کے وجود سے قبل وجود ہے اور وہ عرش اور پانی ہے، اور اس زمانہ سے قبل زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے:
ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ (سورہ حٰم سجدہ: ۱۱)
اس آیت کا ظاہر بھی مقتضی ہے کہ اللہ تعالیٰ’’سمٰوٰت‘‘ شے سے پیدا کرتے ہیں اور وہ دخان ہے جو سمٰوٰت سے پہلے موجود تھا۔‘‘ (۸)
عالم قدیم ماننے کی صورت میں ثنویت (Dualism) کا الزام عائد ہوتا ہے، (۹) لیکن فلاسفۂ مشّائین اس کی توجیہ کرتے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔عالم کو قدیم ماننے کی وجہ ان کا یہ خیال ہے، اور ابن رشد بھی اس خیال کا حامی تھاکہ عدم محال ہے اس لیے عدم سے کوئی چیز پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔ مشّائین نے اپنے اس خیال کی بنیاد قانونِ تعلیل پر رکھی ہے۔ اس قانون کے مطابق تین باتوں کا ہونا ضروری ہے: (۱) معلول کی کوئی علت ہو، (۲) علت اپنے معلول سے جدا ہو، (۳) علت کے ساتھ معلول بھی موجود ہو، اس میں فصل ممکن نہیں ہے۔ اس قانونِ تعلیل کے مطابق جب کائنات نیست سے ہست ہوئی تو اس کی کوئی نہ کوئی علت ضرور موجود تھی۔ وہ علت مادی نہیں ہو سکتی کیوں کہ مادہ تو اس وقت موجود ہی نہیں تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ خدا کا ارادہ اس کائنات کو ایک خاص لمحے میں معرض وجود میں لانے کا سبب تھا تو سوال پیدا ہوگا کہ خدا کے ارادے میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ کیا تھی۔ یہ مفروضہ علت، جس نے کائنات کی تخلیق کے لیے ایک مخصوص وقت پر خداکے ارادے کو برانگیخت کیا، یقیناًخدا کے ارادے کے علاوہ کوئی اور چیز ہونی چاہیے کیوں کہ علت معلول سے جدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ناممکن الوقوع ہے کیوں کہ خدا کے سوا ابھی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ یہ ساری بحث اس نتیجہ تک لے جاتی ہے کہ یا تو خدا کے سوا کوئی چیز موجود ہی نہیں یا پھر یہ ہے کہ کائنات ازل سے موجود ہے۔ اور یہی آخری بات صحیح ہے۔ پہلی بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ کائنات ہمارے سامنے موجود ہے، اس کا عدمِ محض خارج ازبحث ہے۔‘‘ (۹)
متکلمین کے نزدیک قانونِ تعلیل میں کئی نقائص ہیں۔ امام غزالیؒ نے نظریۂ تعلیل پر اعتراضات کیے ہیں اور حدوث عالم کو خدا کے ارادۂ ازلی پر موقوف رکھا ہے، یعنی خدا کا ارادہ نہ کسی علت کا محتاج ہے اور نہ زمان ومکاں کا، خداکے ارادے کے ساتھ ہی یہ سب چیزیں عدم سے وجود میں آجاتی ہیں۔ انھوں نے اس رائے کے حق میں قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا ہے:
إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْْئاً أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ (سورہ یٓس: ۸۲)
’’جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا حکم ایسا ہے کہ وہ اس چیز سے کہتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
مشائین کے قانونِ تعلیل پر مشہور جرمن فلسفی کانٹ نے بھی اعتراضات کیے ہیں اور لکھا ہے کہ کائنات میں بے شک قانونِ تعلیل جاری ہے لیکن خدا کا ارادہ اس قانونِ تعلیل سے باہر ہے کیوں کہ اس قانون کی تخلیق بھی تو اس کے ارادے ہی نے کی ہے۔
مشائین کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے تخلیقِ عالم کو علت و معلول کے قانون کی روشنی میں دیکھا اور خدا کے ارادۂ ازلی کی فعالیت کو بھول گئے، جس پر قانونِ تعلیل کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لیکن اس نقص کے باوجود مشائین کا نقطۂ نظر صداقت سے بالکل خالی نہیں ہے۔ متکلمین اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ اور اس کا اطلاق اس کی صفتِ تخلیق پر بھی ہوگا۔ اس بنا پر عالم کو قدیم ماننا ہوگا کیوں کہ معلول ہر حال میں علت کے تابع ہوتا ہے۔ عالم کو حادث ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا کی صفتِ تخلیق کو بھی حادث مانا جائے، جو ممکن نہیں۔ یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس تصور میں ثنویت موجود ہے، یعنی خدا بھی قدیم ہے اور عالم بھی قدیم ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ عالم کے قدیم ہونے کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ وہ بالذات قدیم ہے۔ بالذات قدیم تو خدا کی ذات ہے۔ عالم اس کی نسبت سے قدیم ہے، یعنی اس کی علت خداکی قوتِ تخلیق ہے جو محرِکِ اوّل ہے۔ لیکن خدا کسی علت کے بغیر قدیم ہے۔
تخلیق عالم کا عمل خدا کے ارادۂ ازلی کے تابع ہے ، اور یہ ارادہ کسی علت کا محتاج نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں وہ کسی چیز کو عدم سے پیدا کرنے پر قادر ہے، اور سارا عالم عدم ہی سے وجود میں آیا ہے۔ اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائی شدید قسم کی غلط فہمی میں پڑ گئے۔ معلوم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے جو ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ عیسائیوں نے اس سے یہ غلط نتیجہ اخذ کر لیا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں (نعوذ باللہ) ان کے اس غلط خیال کی تردید میں فرمایا گیا ہے:
مَا کَانَ لِلَّہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون (سورہ مریم:۳۵)
’’ اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو اولاد بنائے ، وہ اس چیز سے بالکل پاک ہے۔ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو بس اس کو کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ فواً ہی ہو جاتا ہے۔‘‘
خدا کے ارادہ اور اس کے فعلِ تخلیق میں کوئی زمانی فصل حائل نہیں ہے، وہ ایک ساتھ ظہور میں آتا ہے، بالکل اس طرح جیسے سورج سے روشنی اور پھول سے خوشبو کا اخراج۔ معلوم ہوا کہ خدا کی حیاتِ ابدی میں تخلیقِ عالم کوئی جداگانہ واقعہ نہیں جو کسی خاص وقت میں پیش آیا ہو بلکہ وہ ایک مربوط اور مسلسل تخلیقی عمل ہے اوراس کے وجود کے ساتھ موجودہے۔اس اعتبار سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ عالم کی تخلیق کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا، یہ ازل سے بنتا اور بگڑتا، موجود ہوتا اور فنا ہوتا آیا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اب تک کتنے عوالم وجود میں آئے اور پھر غار فنا میں روپوش ہوگئے۔ یہ سلسلۂ بود و نبود یوں ہی جاری رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں خدا کا عملِ تخلیق کبھی ختم نہ ہوگا۔ موجودہ عالم کو بھی ایک دن نیستی کے سمندر میں غرق ہونا ہے اور پھر ایک نئے عالم کی تخلیق ہوگی ، جیسا کہ آیاتِ ذیل میں فرمایا گیا ہے:
یَوْمَ نَطْوِیْ السَّمَاء کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہُ وَعْداً عَلَیْْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْن (سورہ انبیآء: ۱۰۴)
’’جس دن ہم آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھی ہوئی تحریریں (طومار میں )لپیٹ دی جاتی ہیں۔ اور جس طرح ہم نے اول تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح (فنا کے بعد) دوبارہ تخلیق کا آغاز کریں گے۔ یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، اور ہم ضرور اس کو کریں گے۔‘‘
یَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَیْْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُواْ للّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ
(سورہ ابراہیم: ۴۸)
’’جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی ایک دوسری زمین میں، اور آسمان بھی، اور سب لوگ ایک باجبروت اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔‘‘
جزئیات کا علم
کہا جاتا ہے کہ حکماءِ متقدمین کے نزدیک خدا کو جزئیات کا علم نہیں، اس کو صرف اپنی ذات اور کلیات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ (۱۰) امام غزالیؒ نے اس پر اعتراض کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کو کلیات کے ساتھ اس کے جزئیات کا بھی علم حاصل ہے، دوسرے لفظوں میں اس کا علم کلی بھی ہے اور جزئی بھی۔(۱۱) ابن رشد نے حکماءِ مشائین کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے لکھاہے:’’ ابوحامد غزالی نے حکماءِ مشائین کو غلط سمجھا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکماءِ مشائین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کو جزئیات کا بالکل علم نہیں ہے جب کہ مشائین کی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جزئیات کو ایسے علم سے جانتا ہے جو ہمارے علم جیسا نہیں ہے۔ ہمارا علم جزئی اشیاء کے متعلق معلوم بہ کے ذریعہ معلول ہے۔ لہذا وہ اس کے حدوث کے ساتھ حادث ہوتا ہے اور اس کے تغیر کے ساتھ متغیر ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ کا علم وجود کے ساتھ اس کے مقابل ہے لہذا وہ معلوم کے لیے علت ہے۔ چنانچہ جس شخص نے دونوں علموں کو ایک دوسرے کے ساتھ مشابہ سمجھا اس نے ایک دوسرے کا مقابل کرکے ان کے خواص کو ایک کردیا اور یہ انتہائی جہالت ہے۔‘‘(۱۲)
ابن رشد نے مزیدلکھا ہے :’’ مشائین نے یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ اللہ سبحانہ کو جزئیات کا علم قدیم نہیں ہے۔ ان کی رائے صرف یہ ہے اللہ تعالیٰ کو جزئیات کا علم اس جیسانہیں جیسا کہ ہمیں ہے بلکہ کلیات کا علم بھی ویسا نہیں ہے، اس لیے کہ کلیاتِ معلومہ بھی ہمارے نزدیک طبیعت موجود سے معلول ہیں۔ اس علم (ربّانی) میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ اس لیے وہی بات درست ہے جس تک برہان اور دلیل عقلی نے پہنچایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ علمِ ربانی اس تعریف سے بری ہے کہ اسے کلی یا جزئی کہا جائے۔‘‘(۱۳)
اگر خدا کے علم کے بارے میں حکماء مشائین کا یہی نقطۂ نظر تھا، جیسا کہ ابن رشد نے لکھا ہے ، تو اس معاملے میں مذہب (اسلام) اور فلسفہ میں کوئی نزاع نہیں ہے۔ مذہب کے مطابق خدا کو ہر چیز کا علم ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی اور خواہ وہ پوشیدہ ہو یا ظاہر۔ خدا کا وسیع علم کائنات اور اس کی جملہ اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا ہے:
ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ
(سورہ حدید:۳)
’’وہی اوّل ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا کا فعلِ علم، انسان کے فعلِ علم سے بالکل مختلف ہے، جیسا کہ درج ذیل آیت سے بالکل واضح ہے:
لَیْْسَ کَمِثْلِہِ شَیْْءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ (سورہ شوریٰ: ۱۱)
’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے، اوروہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شریعت کا مقصود یہ نہیں ہے کہ خدا کے علم کی نوعیت کو بتایا جائے کہ وہ ناقابل ادراک ہے، اور اس کو کلی اور جزئی کے خانوں میں تقسیم کیا جائے جیسا کہ اکثر متکلمینِ اسلام نے کیا ہے بلکہ مجرد یہ بتانا ہے کہ خدا بندوں کے جملہ افعال و اعمال کی خبر رکھتا ہے، سب چیزیں اس کی نگاہ کے سامنے ہیں تاکہ ان کو تنبہ ہو اور وہ برے افعال کے ارتکاب سے گریز کریں۔
حشرِ اجساد اور بقائے روح
مشائین کے فلسفہ کی رو سے حشرِ اجساد ممکن نہیں ہے،کیوں کہ ہست سے نیست ہوجانے کے بعد کسی چیز کا دوبارہ اعادہ اسی صورت میں ناممکن ہے۔ اس خیال کی بنیاد اس فلسفیانہ نظریے پر ہے کہ عدم سے کسی چیز کی تخلیق محال ہے۔ اسی طرح مشائین کا خیال ہے کہ روح غیر فانی ہے لیکن اس کا اطلاق کلی روح پر ہوگا، انفرادی روحیں فانی ہیں۔
اس سلسلے میں ابن رشد کے خیال میں ابہام ملتا ہے جو غالباً دیدہ و دانستہ رکھا گیا ہے۔ہم مان کر چلتے ہیں کہ وہ روح کی انفرادی بقا کا قائل تھا۔ لیکن اس کا خیال ہے کہ جسم وہ نہ ہوگا جو اس دنیا میں ہے یعنی بالکل مادی، کیوں کہ موجودہ مادی بدن کا دوبارہ اعادہ ناممکن ہے۔ یا تو نیا جسم بدلے ہوئے حالات کے مطابق بہت لطیف ہوگا یا موجودہ صورت سے بلند تر۔ اس لیے کہ اعادہ ایک زیادہ اونچا درجہ ہے۔(۱۴)
متکلمین اس خیال کے خلاف ہیں اور اس کو غلط سمجھتے ہیں کیوں کہ اس کو تسلیم کرلینے کے معنی دراصل خدا کی طاقت و قدرت کی نفی کے ہیں۔ خدا اس بات پر قادر ہے کہ ارواح کو ان کے موجودہ بدنوں کے ساتھ اٹھائے اور جزا و سزا کے فیصلے کرے۔ اور یقیناًایسا ہی ہوگا۔(۱۵)
متکلمین اسلام کا یہ خیال راقمِ سطور کی نظر میں صحیح نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے مخاطب اوّل اکثر یہ سوال کرتے تھے کہ جب آدمی مرجائے گا اور وقت کے ساتھ اس کا بدن گل سڑ کر مٹی میں رل مل جائے گا تو پھر وہ دوبارہ کس طرح اٹھایا جائے گا؟ اس سوال کے جواب میں فرمایا گیا:
قَالَ مَنْ یُحْیِیْ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ ط وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٍ (سورہ یٰس: ۷۸، ۷۹)
’’کہتا ہے کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب وہ بوسیدہ (ہوکر جزوِ خاک) ہوچکی ہوں گی، کہو کہ وہی ہستی ان کو دوبارہ زندگی دے گی جس نے پہلی بار ان کو خلق کیا۔ وہ ہر طرح کی خلقت کا وسیع علم رکھتا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حشرِ اجساد تو ایک طے شدہ امر ہے لیکن یہ کس شکل و صورت میں ہوگا اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ اسی آیت میں ’’وہو بکل خلق علیم‘‘ کا جملہ بتاتا ہے کہ خدا کی تخلیق کسی ایک صورت میں محدود نہیں ہے، وہ خلاق ہے، اس کی تخلیق کے ان گنت رنگ و روپ ہیں۔ اس لیے نئی زندگی کا قالب موجود ہ مادی قالب سے مختلف ہو سکتا ہے بلکہ اس کو مختلف ہونا چاہیے کہ وہ موجودہ زندگی سے بہرطور ایک برتر زندگی ہوگی۔ درج ذیل آیت سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْنَ۔ عَلَی أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنشِءَکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ (سورہ واقعہ: ۶۰،۶۱)
’’ہم نے ہی تمہارے درمیان موت ٹھہرائی، اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہارے امثال(۱۶) (قوالب) کو بدل دیں، اور تم کو ایک ایسی صورت میں بنادیں جس کا تم کو علم نہیں۔‘‘
البتہ مشائین کا یہ خیا ل محلِ نظر ہے کہ بقا صرف روحِ کلی کے لیے ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ابن رشد بھی اس خیال کا حامی تھا۔ (۱۷) مذہب کی رو سے انفرادی روح کی بقا ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر افراد کے اعمال کی جزا و سزا کا مذہبی تصور بے معنی ہوجاتا ہے۔ قرآن سے روح کی انفرادی بقا کے خیال کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا گیا ہے:
وَلَقَدْ جِءْتُمُوْنَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنَاکُمْ وَرَاءَ ظُہُورِکُمْ (سورہ انعام: ۹۴)
’’تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے بالکل اس طرح جیسے ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا، اور جو چیزیں بھی ہم نے تم کو (دنیا کی زندگی میں )عطا کی تھیں ان کو اپنے پیچھے چھوڑآئے ہو۔‘‘
اکثر مسلم فلاسفہ نے، جن میں ابن رشد بھی شامل ہے، کوشش کی ہے کہ جن مابعد الطبیعاتی مسائل میں فلسفہ اور مذہب ہم آہنگ نہیں ہیں ان میں تطبیق کی صورت پیدا کی جائے اور اختلاف کو رفع کیا جائے۔ لیکن اس کوشش میں انھوں نے مذہب کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور فلسفہ سے ان کی ذہنی مرعوبیت صاف ظاہر ہے۔
ان کے نزدیک اختلافی مسائل میں مذہب اور فلسفہ کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ فلسفہ کی روشنی میں مذہب کے نقطۂ نظر کو سمجھا جائے اور اس کی ایک ایسی تاویل کی جائے جو ’’برہان‘‘ کے مطابق ہو۔ ابن رشد فلسفہ اور مذہب میں جس نوع کی مطابقت کا خواہاں تھا اس کی نوعیت بالکل اسی قسم کی ہے۔ وہ فلسفہ کو سچائی کی سب سے اعلیٰ شکل خیال کرتا تھا (۱۸) اور سمجھتا تھا کہ اس کے برہانی نتائج ہمیشہ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں۔(۱۹)
ابن رشد نے اپنی کتاب ’’فصل المقال ‘‘ میں لکھا ہے:’’ ہم مسلمانوں کی جماعت کو قطعی طور سے یہ معلوم ہے کہ شریعت میں جو کچھ وارد ہوا ہے مطالعۂ ربانی اس کے خلاف نہیں لے جاسکتا ہے اس لیے کہ حق مخالف حق نہیں ہوتا بلکہ اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کی شہادت دیتا ہے۔اگر برہانی نظر ہم کو ایک ایسی چیز تک پہنچا دے جو موجود ہے تو یہ موجود اس حال سے خالی نہیں ہوگا کہ یاتو شریعت میں اس کے متعلق سکوت ہوگا، یا اس کا ذکر ہوگا۔ اگر سکوت ہے تو اس سے یہاں بحث نہیں اور اس کا وہی مرتبہ ہے جس کے متعلق احکام نہ ہوں اور اسے فقیہ قیاسِ شرعی سے استنباط کرتا ہے۔ اگر شریعت میں اس کا ذکر ہے تو اس حال سے خالی نہیں ہوگا کہ یا تو ظاہرِ بیان برہانی نتیجہ کے موافق ہوگا یا مخالف۔ اگر موافق ہے تو پھر کسی بحث کی کوئی ضرورت نہیں، اور اگر مخالف ہے تو اس وقت تاویل کی ضرورت ہوگی۔‘‘(۲۰)
اور یہ تاویل قیاسِ برہانی کی روشنی میں کی جائے گی۔ ابن رشد لکھتا ہے: ’’ہم یہ قطعی طورپر کہتے ہیں کہ جس بات تک برہان نے پہنچایا ہواور ظاہرِ شرع نے اس کی مخالفت کی ہوتو یہ ظاہر عربی قانونِ تاویل کے موافق تاویل قبول کرے گا….. بلکہ ہم یہاں تک کہتے ہیں کہ ظاہر شرع اگر برہانی تاویل کے خلاف ہے تو شرع اور اس کے اجزا کی چھان بین کرنے پر اس کے الفاظ میں بھی وہی پایا جائے گا جس کی بوجہِ تاویل ظاہرا شہادت دی گئی ہے۔‘‘(۲۱)
اہلِ فلسفہ کے اس طریقۂ تاویل کو درست کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم یہ مانیں کہ فلسفہ ہی سچائی تک پہنچنے کا سب سے بڑا معتبر ذریعہ ہے، اور قیاسِ برہانی سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ شک و شبہہ سے بالاتر ہے۔ اور یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ قرآن سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ غیر واضح اور غیر قطعی ہے۔ ابن رشد نے صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ خدا کے کلام میں تاویل ہے۔(۲۲)
ابن رشد کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور قرآن میں قلتِ تدبر کی دلیل ہے قرآن کا حصۂ محکمات اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح اور قطعی الدّلالت ہے۔ اس کی ہر آیت کا ایک ہی مدلول ہے، کیوں کہ ایک سے زیادہ مدلول ہونے کی صورت میں کلام کو واضح اور مبین نہیں کہا جائے گا۔بلاشبہ ایجازِ بیان کی وجہ سے قرآن کی متعدد آیات میں اجمال موجود ہے لیکن اس اجمال کی شرح کا حق نہ کسی فلسفی کو حاصل ہے اور نہ کسی بڑے سے بڑے عالم دین کو۔ قرآن کے ان تمام اجمالات کی شرح و تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے جو ہدایت کے نقطۂ نظر سے طالبِ وضاحت تھے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:
ثُمَّ انّ عَلَیْنَا بِیَانَہ (سورہ قیامہ : ۱۹)
’’پھر ہمارے ہی ذمہ ہے اس کی تفصیل۔‘‘
ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے:
الَرٰ کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ
(سورہ ہود: ۱)
’’اآرا،یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات محکم ہیں (یعنی ان میں حددرجہ ایجاز ہے) پھر ایک حکیم و خبیر ہستی کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی ہے۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اگر کسی مقام پر کوئی معنوی ابہام ہے تو اس کی وضاحت دوسرے مقام پر موزوں آیات کے ذریعہ کی گئی ہے۔ اس منہجِ توضیح کو قرآن میں ’’تصریفِ آیات‘‘ کہا گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے:
اُنظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ۔ (سورہ انعام: ۶۵)
’’دیکھو، ہم کس کس طرح اپنی آیتیں مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ بات کو سمجھ لیں۔‘‘
تصریفِ آیات کی حدود سے باہر جاکر کسی آیت کی عقلی تاویل جائز نہیں ہے۔ رہا قرآن کا حصۂ متشابہات ، اور زیادہ تر اختلافات اسی حصے کی تاویل سے تعلق رکھتے ہیں، تو قرآن نے اس باب میں جس قدر وضاحت کردی ہے اس پر اکتفا لازمی ہے کہ ان کی صحیح حقیقت کا علم خدا کے سوا اور کسی کو بھی نہیں ہے۔ (۲۳) اس معاملے میں بہت زیادہ عقلی کاوش مفید کے بجائے مضر ہے۔
اب تو یہ بات بالکل ثابت ہوچکی ہے کہ عقل اپنے عمل میں محدودیت رکھتی ہے اس لیے مابعد الطبیعاتی مسائل کے حل میں اس کے فیصلوں کو سند کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ کانٹ نے اپنی مشہور کتاب Critique of Pure Reason میں محکم دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حقیقتِ مطلق کی تفہیم میں عقل، جیسا کہ پہلے گمان کیا گیا تھا، ایک قابلِ اعتماد ذریعہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ کے برخلاف مذہب، اگر وہ سچا اور غیر محرف ہے، خدا اور اس کی صفات اور دیگر مابعد الطبیعاتی مسائل کی تفہیم میں سب سے معتبر ذریعہ ہے۔ مذہب جیسا کہ اہلِ فلسفہ کا خیال ہے، محض اندھے اعتقاد اور غیر عقلی اطاعت کا نام نہیں ہے اور نہ ہی اس کے علم کی سطح کسی اور ذریعۂ علم سے پست و فروتر ہے۔(۲۴) وحی جو سچے مذہب کا مصدروماخذ ہے، عقل سے برتر اور اس سے کہیں زیادہ معتبر ذریعۂ علم ہے۔(۲۵) اس لیے مذہب کو فلسفہ سے مطابقت اور مابعد الطبیعاتی امور میں اس کی رہ نمائی کی مطلق ضرورت نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں میں Bonaventure Franciscan کے الفاظ مستعار لوں گا اور اپنی بات اسی پر ختم کروں گا:
Philosophy needs the guidance of faith: far from being self sufficient, it is but a stage toward the higher knowledge that culminated in the vision of God. (۲۶)
’’فلسفہ عقیدے کی رہ نمائی کا محتاج ہے، اس لیے کہ وہ خود مکتفی نہیں ہے، نامکمل ہے۔ اس کے برخلاف عقیدہ ایک برتر درجے کا علم ہے، جو بالآخر خدا کے عرفان تک لے جاتا ہے۔‘‘
ماخذ و حواشی:
(۱) جدید فلسفہ کا رخ مابعد الطبیعاتی مسائل کے بجائے عالمِ طبیعی کی طرف ہوگیا ہے۔ اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ یورپ میں نشأۃ ثانیہ کا آغاز مذہب مخالف رجحانات کے تحت ہوا۔ اس لیے مابعد الطبیعاتی مسائل سے فلسفہ کی عدم دلچسپی بلکہ مخاصمت ناگزیر تھی۔ اب عقیدے کی جگہ عقل (Reason) نے لے لی۔ جدید فلسفہ نے اپنی ترجیحات میں انسان، سول سوسائٹی اور نظامِ فطرت کو اہم جگہ دی اور ان ہی امورِ ثلاثہ سے متعلق مسائل اس کی بنیادی فکر کی حیثیت سے زیرِ بحث آئے ہیں۔
(۲) فصل المقال فیما بین الحکمۃ والشریعۃ من الاتصال، علامہ ابن رشد، اردو ترجمہ: عبید اللہ قدسی، اقبال ریویو، جنوری ۱۹۶۸ء، ص ۱۲
(۳) ایضاً
(۴) ایضاً ، ص ۱۳
(۵) تہافۃ الفلاسفہ، امام غزالی، مطبع مصطفیٰ البابی الحلبی مصر، ص ۹۱
(۶) فصل المقال، ص ۲۳، ۲۴
(۷) ایضاً
(۸) ایضاً، ص ۲۵
(۹) ایضاً، مزید دیکھیں، مختصر اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب، لاہور، ۱۹۹۷ء (مضمون: ابن رشد)، ۳۹
(۱۰) تہافۃ الفلاسفہ، ص ۵۲، ۵۳
(۱۱) ایضاً، ص ۵۳۔۵۶
(۱۲) فصل المقال، ص ۲۲
(۱۳) ایضاً، ص ۲۳
(۱۴) انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، لیڈن ۱۹۲۷ (مضمون : ابن رشد)، ج۲ ، ص ۴۱۲
(۱۵) تہافۃ الفلاسفہ، ص ۸۱۔ ۹۱
(۱۶) اکثر مفسرین نے ’’امثالکم‘‘ کا ترجمہ صحیح نہیں کیا ہے۔ مثلاً مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے :’’ تمہاری جگہ تمہارے جیسے او ر(آدمی) پیدا کردیں۔‘‘ (سورہ واقعہ: ۶۱)
(۱۷) انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، ج۲، ص ۴۱۲
(۱۸) ہسٹری آف فلاسفی اِن اسلام، پروفیسر ٹی، جے، ڈی بوئر، انگریزی ترجمہ: ایڈروڈ آر جونس بی ڈی، لندن، ۱۹۶۵، ص ۱۹۹
(۱۹) انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا، ج ۱۷، ص ۷۴۹
(۲۰) فصل المقال، ص ۱۹
(۲۱) ایضاً
(۲۲) ایضاً، ص ۲۲
(۲۳) دیکھیں سورۂ آل عمران: ۷
(۲۴) ہسٹری آف فلاسفی اِن اسلام، ص ۱۶۸
(۲۵) ’’ یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ، غالب اور قابل تعریف خدا کے راستے کی طرف۔‘‘ (سورہ ابراہیم: ۱)
(۲۶) دی نیو انسائیکلو پیڈیاآف برٹانیکا (مائکر و پیڈیا)، ۱۹۷۴، ج ۱۴، ص ۲۵۹
کمنت کیجے