(کراچی کے معروف جریدہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ نے ۲؍ جنوری کی اشاعت میں ملک کے ممتاز مفکر اور دانش ور جناب احمد جاوید کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس کے مندرجات کی اہمیت اور بلند فکری سطح کے پیش نظر مذکورہ جریدہ کے شکریہ کے ساتھ اسے پیش کیا جا رہا ہے)
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شخصیت اور فکر مذہب، فلسفے، ادب اور تصوف سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کا اصل تشخص کیا ہے؟ یعنی آپ اپنے آپ کو کیا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟
احمد جاوید: یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ میں خود کو ایک مفید مسلمان کہلوانا یا بنانا پسند کرتا ہوں۔ میرے ذہن میں آدمی کا اصل تشخص وہ ہوتا ہے جو اُس کے ذہن میں ترجیح کے طور پر ہو۔ اس سوال کا اگر میں بے تکلفی سے جواب دوں تو وہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں خود میری پہچان صوفی، ادیب وغیرہ کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ’’اللہ سے تعلق کی نسبت پر تشخص کے تمام زاویے تیار ہوجائیں‘‘۔ اپنی ذات کے لیے یہ میرا وہ آئیڈیل تشخص ہے جسے میں اپنے عمل اور خیالات سے حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہوں کہ بندگی میرا تشخص بن جائے۔ اور آدمی کے تشخص میں اس کے نظام تعلق کا بہت دخل ہوتا ہے، اس کا بہت حصہ ہوتا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جس نظام تعلق میں انسان کو پیدا کیا گیا ہے میرے لیے اس نظام تعلق کا زندہ مرکز، اللہ کے ساتھ میرا تعلق بنے۔ میں اپنا مطلوبہ تشخص تو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکوں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا اصل تشخص شخصیت کے مستقبل میں ہوتا ہے، شخصیت کے حال میں نہیں۔ اس لیے میرا مطلوبہ تشخص تو یہ ہے کہ اللہ سے میرا تعلق، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ حق میرا بنیادی تناظر بن جائے، اور اس تناظر سے میں خود کو اور اپنی دنیا کو دیکھنے کی عادت ڈالوں۔ لیکن اگر آپ عملی تشخص پوچھ رہے ہیں تو میں ایک عام آدمی ہوں، جس کی کچھ میدانوں میں تھوڑی بہت کچھ صلاحیتیں ہیں، لیکن مجھے عام آدمی بن کر رہنا پسند ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ فرمائیں کہ آپ کی فکر کی تشکیل میں کن شخصیات اور عوامل کا زیادہ اور اہم کردار رہا ہے؟
احمد جاوید: یہ اللہ رب العزت کی بڑی مہربانی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی میں معنویت پیدا کرنے کا سارا سہرا میرے استادوں اور دوستوں کے سر جاتا ہے۔ ادب میں سلیم احمد میرے مربی، میرے معلم رہے۔ اسی طرح ایک اور شخصیت ہے جن سے میں شاگردی کا دعویٰ تو نہیں کرتا، ہاں البتہ استفادہ کی بات کرسکتا ہوں، ان کا میری شخصیت اور فکر پر غالباً سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ وہ مولانا ایوب دہلویؒ ہیں۔ اسی طرح کراچی کے ایک شاعر تھے رئیس فروغ صاحب، وہ میرے بزرگ اور دوست تھے۔ اگر میری شخصیت میں کچھ ادبی عناصر موجود ہیں تو وہ سلیم احمد، قمر جمیل اور رئیس فروغ کی صحبتوں کی وجہ سے ہیں، اور محمد حسن عسکری کو جم کر شوق سے پڑھنے کے نتیجے میں۔ باقی یہ کہ اگر میری شخصیت میں کوئی مذہبی عناصر ہیں تو ان کا دارومدار مولانا ایوب ؒ کے ساتھ اس تعلق پر ہے جو اُن کے لیے میں محسوس کرتا ہوں۔ مولانا ایوب تو بہت پہلے فوت ہوگئے تھے لیکن سلیم احمد کے ساتھ برسوں تعلق رہا، رئیس فروغ صاحب اور قمر جمیل کے ساتھ برسوں کا تعلق تھا۔ میرا تعلق کراچی سے ہی ہے اور 1980ء میں مَیں نے کراچی چھوڑا۔
فرائیڈے اسپیشل: جیسا کہ آپ نے بتایا، آپ کی مذہبی فکر کے سلسلے میں مولانا ایوب دہلویؒ اور ادبی تربیت کے سلسلے میں حسن عسکری اور سلیم احمد کا کردار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان شخصیتوں کی ہماری اجتماعی زندگی میں اہمیت کیا ہے؟
احمد جاوید: محمد حسن عسکری اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ اس بات پر شبہ کرنے والا ادب اور تنقید سے نابلد ہے۔ عسکری صاحب نے ادب کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ عسکری صاحب نہ ہوتے تو ہمارا ادب وہ اصول دریافت نہ کرپاتا جس کی بنیاد پر ادب خودمختار اور خودکفیل حیثیت سے خود کو استوار اور قائم رکھ سکتاہے۔ ادب کی پوری روایت میں یہ عسکری صاحب کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ وہ نہ ہوتے تو ہم ادب کو خالص ادبی معیار پر پرکھنے کے اصول حاصل نہ کرپاتے۔ وہ جامع الکمالات شخص تھے، ان پر گفتگو کے لیے بہت وقت چاہیے۔ سلیم احمد، عسکری صاحب کے شاگردِ رشید تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ عسکری صاحب کے جانشین تھے۔ سلیم احمد عسکری اسکول کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ سلیم احمد نے عسکری صاحب کے ادبی اصول کو قبول کرکے انہیں عملی تنقید کا حصہ بنانے میں جو بے مثل کامیابی حاصل کی اس نے بھی خصوصاً ہماری ادبی تنقیدی روایت پر بہت اثر ڈالا۔ سلیم احمد ایک اعتبار سے عسکری اسکول کو پھیلانے والی سب سے بڑی قوت کا نام ہے۔ لیکن چونکہ سلیم بھائی کے شعبے زیادہ تھے، وہ میڈیا سے متعلق بھی تھے، ڈراما نگاری بھی کرتے، ریڈیو، ٹی وی اور تھیٹر کے ڈرامے بھی لکھتے تھے، اخبار میں کالم نگاری بھی کرتے تھے، تو ان کے ہاں موضوعات زیادہ ہیں۔ اپنی ہر حیثیت میں سلیم احمد نے ایک پرنسپل کو ملحوظ رکھ کر دکھایا۔ وہ پرنسپل یہ ہے کہ سیاست سے لے کر ادب تک میں ہماری تہذیب کے بنیادی اصول حاکمانہ حیثیت سے باقی رہنے چاہئیں۔ سلیم احمد نے ادب اور تنقید وغیرہ میں ایک ضروری مقصدیت جو درکار ہوتی ہے وہ اپنی شاعری سے بھی اور اپنی تنقید سے بھی پیدا کرکے دکھائی۔ ان کی شخصیت کا دوسرا بڑا پہلو ان کا شاعر ہونا ہے۔ وہ بہت زبردست شاعر تھے۔ ہم اپنے ذوق اور فہم کی کمی، یا اپنے تہذیبی اضمحلال کی وجہ سے ان کی شاعری کی معنویت کو نہیں سراہ پائے۔ ان کی شاعری اپنی تہذیب کے انہدام کا نوحہ ہے، اور ان کی تنقید اپنی تہذیب کی تعمیرنو کا عمل ہے۔ یہ تھے سلیم احمد۔
رہی بات مولانا ایوب دہلوی کی، تو بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہماری روایت کے آخری متکلم تھے۔ ان کے زیادہ موضوعات کلامی تھے، معقولی تھے۔ اگر کبھی متکلم کی حیثیت سے ان کا جائزہ لیا گیا تو وہ ہماری علم الکلام کی روایت میں سب سے آگے کے لوگوں میں شمارکیے جائیں گے۔ مذہبی فکر کے جو مسائل لاینحل چلے آرہے تھے ان میں ایک مسئلہ جبر و قدر تھا۔ اس طرح کے مسائل کو مولانا ایوب دہلوی صاحب نے اس طرح حل کیا کہ ان کی مسلسل جو دشواری پڑھنے یا سننے والے کی نظر سے غائب ہوگئی۔ عقل اپنے آپ کو پورے کا پورا ایمان کے تابع رکھنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہ جائے تو جو شخص عقل کی اس نارسائی کو دور کرے گا وہ اصل میں متکلم ہوگا۔ متکلم کہتے ہی اسے ہیں جو عقل کے ایمانی کردار کو اس کے دیگر وظیفوں پر غالب رکھ کر دکھا دے۔ مولانا ایوب دہلوی گزشتہ سو، دو سو برس کی روایت میں شاید سب سے بڑا مذہبی ذہن ہیں، جنہوں نے عقل کی نارسائی کا ازالہ کیا اور عقل کو ایمانی بننے کے لیے جن دلائل کی ضرورت تھی، وہ دلائل فراہم کیے۔ لیکن افسوس، چونکہ بڑے موضوعات سے ہماری مناسبت ختم ہوچکی ہے اور مولانا کے مخاطبین معمولی لوگ تھے اور اس کے بعد اس معمولی پن میں اضافہ ہوتا چلا گیا، تو اب تو نہ کسی کو جبر و قدر مشکل محسوس ہوتا ہے، اور نہ آسان۔۔۔ کیونکہ وہ اس سے واقف ہی نہیں ہے۔ اس کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کی تعریف و توصیف سامنے نہیں آسکی، ورنہ اگر وہ اچھے زمانوں میں پیدا ہوتے تو ان کا درجہ اُن متکلمین جیسا ہوتا جو مشکلات کو حل کرنے کی ضمانت ہوتے ہیں۔ مولانا پر مجھے یہ اعتماد رہا ہے اور ہے کہ ایمانیات میں، عقل کی ہر مشکل میں، اسے قائل کرنے کی جیسی قوت اُن میں تھی وہ میں نے کسی کی تحریر میں دیکھی نہ تقریر میں۔ یہ ان کا امتیاز تھا۔ شخصیت کے اعتبار سے وہ بہت بڑے آدمی تھے، یعنی بلند کردار اور عمیق علم کو اگر ایک شخص میں جمع دیکھنا ہے تو جب تک آپ مولانا ایوب دہلوی کو دیکھیں یہ تھے مولانا ایوب دہلویؒ ۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے جس انحطاط کا ذکر کیا ہے اُس کے اسباب کیا ہیں؟
احمد جاوید: ہمارا جو سب سے بڑا اجتماعی مرض یا اُم الامراض ہے وہ یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں۔۔۔ ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے، اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھوٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ ہم بہت معمولی لوگ ہیں اور اس معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہوجانا مرض ہے۔ معمولی پن پر راضی ہوجانا موت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: قحط الرجال ہے کہ نہ کوئی بڑا ادیب پیدا ہورہا ہے، نہ بڑا شاعر پیدا ہورہا ہے۔ علماء کے شعبہ میں بھی بہت اچھی صورت حال نہیں ہے۔آپ کے خیال میں یہ حالات کس طرح ختم ہوسکتے ہیں؟
احمد جاوید: بڑے لوگ کیوں نہیں پید ا ہورہے؟ اس کا سبب میں نے بتادیا۔ خواہ شاعری ہو یا دین، دونوں جگہ یہی صورت حال ہے۔ ہم جب تک اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری غیروں پر ڈالتے رہیں گے اُس وقت تک ہم ان کمزوریوں سے نہیں نکل سکتے۔ پھر آپ کا پورا نظام تعلیم عمومی لوگ پیدا کرنے کی مشین ہے، کیونکہ ہر تہذیب کا ایک ذہن ہوتا ہے جو اس کے نظام تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظام تعلیم اس کے اپنے تصورِ علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اور مانگے تانگے پر مبنی ہو، تو ظاہر ہے کہ اس تعلیم سے اس تہذیب کے اجتماعی شعور تقویت کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور، ایک اجتماعی قلب اور ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے۔ اجتماعی شعور کو حالتِ تسکین، حالتِ سیرابی بلکہ حالتِ نمو میں رکھنے کے لیے وہ تہذیب اپنا نظام تعلیم بناتی ہے۔ اسی طرح ہر تہذیب کا ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے جو اس کی مراد کو پہنچانے میں مددکرتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی تہذیب اپنی اوریجنل مراد سے دست بردار ہوکر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کرلے تو اس کا وہ اجتماعی، فطری ارادہ جو اس کی اپنی مراد سے مناسبت رکھنے کی حالت ہی میں عمل میں آسکتا تھا، وہ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ تخلیقی اعمال بجا نہیں لاسکتے۔ آپ بڑے مقاصد کو حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں کرسکتے، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ایک اجتماعی قلب ہوتا ہے جو اس تہذیب کے محبت اور نفرت اور اس تہذیب کے احساسات اور جذبا ت کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات رکھتی ہے۔ اگرتہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہوجائے تو ا س کا قلب دھڑکنا بند کردیتا ہے۔ اس کا قلب معطل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان تین سطحوں پر اگر دیکھیں تو نظر یہ آتا ہے کہ ہم ان تینوں سطحوں پر بانجھ پن کا شکار ہیں۔ اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں ہیں کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ اس کے افکار و اقدار۔یہ رہی ہماری منزل، اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند۔۔۔ اور ہم اس قدر سے وفادار ی رکھتے ہوئے چیزوں کو پسندو نا پسندکرتے ہیں۔ تو جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری، اس کی نگہداشت کا نظام ختم ہوجائے، اس تہذیب کی باطنی قوت کو طاقت فراہم کرنے والا نظام تعلیم کی شکل میں، نظام اخلاق کی شکل میں،نظام انصا ف کی شکل میں وغیرہ وغیرہ، تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہوجاتی ہے۔ بڑا آدمی کہتے ہیں اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو۔ اس لیے جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا وہ پھر خالی لوگ ہی پیدا کرے گی، اس لیے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کا اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے فرمایا کہ بلحاظِ نظام تعلیم، نظام اخلاق اور نظام انصاف ہم بانجھ پن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تبدیلی کے حوالے سے تین قسم کے ماڈل ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان میں اول تبلیغی جماعت کا ماڈل ہے، دوسرا ماڈل جمہوریت کا ہے، تیسرا ماڈل یہ ہے کہ آپ کے پاس طاقت ہو اور اس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے خلافت قائم کرلیں۔ آپ ان ماڈلز کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا کوئی چوتھا طریقہ یا ماڈل بھی موجود ہے جس کے ذریعے تبدیلی آسکتی ہے؟
احمد جاوید: دیکھیے اتفاق یہ ہے، بلکہ اتفاق کیا شاید ہم سب کا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ تینوں ماڈل (یعنی تبلیغی جماعت، جمہوریت اور طاقت سے خلافت قائم کرنے کے خواہش مند) اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرلینے کے باوجود بے اثر، بے نتیجہ اور ناکام ہیں۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں تبلیغی جماعت سے بڑا دعوتی نیٹ ورک نہیں، لیکن اس کے کام کا مسلمانوں کے اجتماعی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا اور مسلم زندگی کو چلانے والے نظام کی تبدیلی کی شکل میں نظر نہیں آتا۔ ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے دائرے میں ناکام ہے، چھوٹے چھوٹے دائروں میں کامیاب ہے۔ اسی طرح دین کی سیاسی تعبیر کرکے غلبہ دین کی وہ جدوجہد جس میں جمہوریت کو ذریعہ مان لیا گیا ہے، جسے آج کل کی اصطلاح میں مذہبی سیاسی جماعتیں کہتے ہیں، یہ جماعتیں مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا بڑا اور شاید سب سے مضبوط نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑی فکر بھی ہے، کارکنوں کا اخلاص اور عمل کی قوت بھی ہے۔ جو ایک سیاسی جماعت کی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان کے پاس ہیں۔ ان کا ایک بیانیہ بھی ہے، اس بیانیے کو عمل میں لانے کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی فوج بھی موجود ہے، اور اپنی جماعت کو بچانے والا ایک فیئر ڈسپلن بھی حاضر ہے، مگر یہ سب خوبیاں رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی پہلے دینی شناخت یا تشخص رکھنے میں کامیاب ہوئی، اس کے بعد اس میں غائب ہوگئی۔ سیاسی وجود یا شناخت کچھ حاصل ہوئی، لیکن اب سیاست سے بھی غائب ہوگئی ہے۔ اب موجودہ صورت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی نہ کوئی دینی وقعت رہ گئی ہے، نہ سیاسی اہمیت۔ یہ گویا ایک ماڈل کی مکمل ناکامی کا ایک نمونہ ہے۔
اور تیسرا ماڈل جس کا آپ نے ذکر کیا کہ غلبہ بذریعہ طاقت برائے قیام خلافت، تو یہ desperation میں اٹھی ہے، یہ گویا احتجاج میں اٹھی ہے، یہ پچھلے دو ماڈلز کی مسلسل اور مکمل ناکامی کے مشاہدے سے پیدا ہوئی ہے، کیونکہ یہ ردعمل ہے۔ ہر زمانے میں عالمگیر سطح پر تبدیلی کا ایک میکنزم ہوتا ہے جس کی حق اور باطل دونوں کے ترجمانوں کو پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو تیسرا گروپ ہے، ان کا المیہ یہ ہے کہ جو موجودہ Universal mechanics of change ہیں، ان سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ایک عالمگیر مزاج کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی سے خود کو بالکل لاتعلق رکھ کر دنیا میں تبدیلی لانے کا خواب دیکھنا گویا ناممکن کو ممکن فرض کرلینا ہے۔ جو عسکریت پسند جماعتیں ہیں یا خلافت کے قیام کی پُرامن جدوجہد کرنے والی تحاریک ہیں، یہ دونوں اپنے زمانے کی روح سے لڑرہی ہیں اور روحِ عصر سے لڑائی کامیاب نہیں ہوتی۔ اسلام نے غلامی وغیرہ کے رد میں خود بھی یہ کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ جمہوریت پوری دنیا کے اجتماعی لاشعور کا عقیدہ بن چکی ہے، اب اس سے بلاوجہ کی لڑائی چھیڑ کر لوکل تبدیلی لانے کے لیے پوری دنیا کو اس کی اساس سے ہٹانے کی کوشش کرنا ایک ناسمجھی کا کام ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ذہن میں آتے ہی ناکام ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس پر جو عمل ہورہا ہے، افسوس کہ وہ عسکریت پسندی کی شکل میں ہورہا ہے۔ عسکریت پسندی جو ہے، وہ قدیم زمانے کی بناوٹ کے مطابق تو تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی تھی، لیکن جدید دنیا کی ساخت یہ ہے کہ کسی گروپ کی عسکریت پسندی سوشل یا ریاستی سطح کے چیلنج کا باعث کبھی نہیں بن سکتی اور نہ کبھی بنی ہے۔ اس لیے جو لوگ عسکریت میں ملوث نہیں مگر ان کے مقاصد سے متفق ہیں، ان کے لیے یہ ایک المیہ بھی ہے۔ دوسرا یہ ایک دہشت کا سا تصور ہے کہ آپ اپنے تصور میں کھلے ہوئے پھول کو باہر کی زمین میں اگانے کے لیے اس زمین میں آگ لگا رہے ہیں اور پہلے سے کھلے ہوئے پھولوں کو پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ یہ بہت پست ذہنی اور کمی کی علامت ہے۔
میرے خیال میں ہمیں حقیقت میں جس ماڈل کی ضرورت ہے وہ بنیادی طور پر تو دعوتی ہے۔ اس میں کچھ طاقتور عناصر ظاہر ہے کہ سیاسی ہوں گے۔ تو دعوت اور سیاست کو ملا کر معاشرے کو اپنی بنیادی اقدار پر ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کرنا ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جو غالب مذہبی قوتیں ہیں وہ ریاستی اسٹرکچر میں تبدیلی لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں بہ نسبت معاشرتی دروبست میں انقلاب لانے کے، جبکہ انسانوں میں دیرپا انقلاب کی ہر قسم فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خودبخود بدلنے لگتا ہے۔ تو ہمارے یہاں معاشرے کو بدلنے کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں ہے۔ فرد کو بدلنے کا تصور ہے جسے تبلیغی جماعت بہت اچھی طرح استعمال کررہی ہے۔ لیکن یہ مسلم معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ مسلم معاشرے کے قیام کو اپنا مقصد بناکر اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنا، اس کی تحریک چلانا، یہ دستیاب مذہبی جماعتوں کا موضوع یا مقصد نہیں ہے جو میرے خیال میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔ اب اگر ہماری تہذیب یعنی مسلم تہذیب کی تجدید یا بقا کا کوئی بھی کام ہوگا تو وہ اپنی صورت اور معنویت میں معاشرتی ہوگا، سیاسی یا ریاستی نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے کام کرنے والی جماعت یا جماعتیں ناکام ہوگئی ہیں؟ تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی، جماعتوں میں اصلاحات کے ذریعے؟ یا پھر کسی نئی جماعت یا تحریک کی ضرورت ہے؟
احمد جاوید: یہ ثانوی باتیں ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دینی جماعتیں اپنے اندر بنیادی اور مؤثر تبدیلی لائیں۔ جیسے مسلم لیگ۔ جس مسلم لیگ نے پاکستان بنایا ہے، یہ پہلے جاگیرداروں کا کلب تھا، اس نے خود کو بدل کر پاکستان بنایا تھا۔ لیکن یہ ثانوی باتیں ہیں کہ یہ خود کو بدلیں یا اس کی جگہ نئی جماعت بنائیں، دونوں صورتوں میں نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ اصل میں سب سے زیادہ ضروری یہ سمجھنا ہے کہ دین کس طرح کی اجتماعیت ہم سے طلب کرتا ہے۔ اس طلب کو درست انداز میں سمجھ کر اسے اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں سے عمل میں لانا۔۔۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلم معاشرے کا اگر ایک نمونہ بھی مسلمان پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان پر مغرب کی یلغار ہی نہیں رک جائے گی بلکہ مغرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوجائے گا۔ کیونکہ مغرب کو ایک روحانی معاشرے کی پیاس لگی ہوئی ہے جو وہاں کے حساس اور ذہین طبقات محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم روحانی بنیادوں پر ایک فلاحی اور انسانی معاشرہ بناکر دکھادیں تو مغرب ایک گولی چلائے بغیر فتح ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اس کو تو روتے ہیں کہ عالم اسلام میں کوئی حکومت اسلامی نہیں ہے، لیکن اس طرف نظر نہیں کرتے کہ عالم اسلام میں کوئی معاشرہ اسلامی ہے یا نہیں؟ ہمیں اس بات کی کسک محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت عالم اسلام میں کوئی ایک معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ معاشرے میں تبدیلی آجائے تو ریاست میں خود بخود آجاتی ہے۔میرے خیال میں تبدیلی کا یہ نظریاتی طریقہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: عالم اسلام میں کئی اسلامی تحریکیں کام کررہی ہیں، آپ ان کی جدوجہد کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: سب کی خامیاں ایک جیسی ہیں۔ اخوان المسلمون ہے، الجزائر کی اسلامک فرنٹ ہے وغیرہ وغیرہ، جو بھی سیاسی جدوجہد کرنے والی جماعتیں ہیں، وہ ایک جیسی ہیں۔ وہ سب نظام بدلنے کی بات کرتی ہیں۔ جبکہ تبلیغی جماعت کے مقابلے میں دعوتی جماعتیں بہت کم ہیں اور چھوٹی ہیں۔ تو اس میں ہمیں اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر عالم اسلام کی دعوتی فضا پر اپلائی کرنا ٹھیک لگتا ہے۔ ہمارے ہاں دین کی دعوت کا ایک نظام ہے، دین کو دعوت بنانے کی ایک تحریک ہے، اور یہ دونوں ناکام ہیں۔ پورے عالم اسلام میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ کوئی مذہبی، اسلامی سیاسی تحریک کامیاب ہوئی ہو۔
فرائیڈے اسپیشل: اب ہم ادب سے متعلق کچھ گفتگو کرلیتے ہیں۔ ادب کے دائرے میں مختلف نکتہ ہائے نظر موجود ہیں۔ کچھ لوگ ادب برائے ادب کے قائل ہیں، کچھ لوگ ادب برائے مقصدیت کے قائل ہیں۔ آپ کی نظر میں ایک انسانی معاشرے میں ادب کا حقیقی کردار اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
احمد جاوید: اب یہ سوال موجود ہی نہیں ہے کہ ادب برائے زندگی ہوتا ہے کہ ادب برائے ادب ہوتا ہے۔ وہ تنازع کی فضا گزر چکی ہے۔ اب وہ ہمارا ماضی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اشتراکیت اور جدیدیت سے پیدا ہونے والی تحریک میں تصادم کی فضا تھی۔ اشتراکی کہتے تھے کہ ادب مقصد کے تحت ہوتا ہے، جبکہ جدیدیت پسند کہتے تھے کہ نہیں ادب کا مقصد ادب ہی ہوتا ہے۔ یعنی ادب ایک جمالیاتی مشغلہ ہے، اس کا کوئی سیاسی اور اخلاقی پہلو نہیں ہوتا۔ وہ دور اب گزر گیا۔ آج کے ادیب کو ان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔اب فضا یہ ہے کہ ادب زندگی میں انسان کی داخلی اور خارجی صورت حال میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے: اگر میرا جمالیاتی شعور اور احساس نظرانداز ہوجائے تو میرے شعور اور میرے وجود میں ایک بنیادی نقص رہ جائے گا۔ یعنی یہ کہ آپ کا مذہبی شعور بھی بہت پختہ ہو، آپ کا عقلی شعور بھی بہت پختہ ہو، آپ کا اخلاقی شعور بھی بہت پختہ ہو لیکن آپ چیزوں کو خوبصورتی اور بدصورتی میں تقسیم اور اس کا فیصلہ نہ کرسکتے ہوں تو گویا آپ کا ادراک اور آپ کی سطح وجود کم تر ہے۔ جمالیاتی شعور یعنی چیزوں کو خوبصورتی اور بدصورتی کے تناظر میں دیکھنا اور ان میں فرق کرنا، جیسے عقل کرتی ہے کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے، یہ مفید ہے یا مضر ہے۔ مذہبی شعور کہتا ہے کہ حق ہے یا باطل ہے، یہ حلال ہے یا حرام ہے۔ اخلاقی شعور کہتا ہے کہ یہ بھلا ہے یا برا ہے، خیر ہے یا شر ہے۔ یہ سب ان کے وجودِ کار ہیں۔
تو اگر ہم حق و باطل، حلال و حرام، مفید و مضر اور خیر و شر تک ہیں تو ہم تعمیر ہوئے۔ لیکن چیزیں اپنا جمیل ہونا اور بدصورت ہونا میرے اندر پیدا نہ کریں تو ان چیزوں کے بارے میں میرا فہم، ان چیزوں سے میرا تعلق ناقص رہ جائے گا۔ اور میری عقل نے ان چیزوں کا جس طرح ادراک کیا ہے اس میں کمی رہ جائے گی۔ یعنی میری عقل بھی سیرابی کے تجربے سے محرو م رہ جائے گی، میری مذہبیت بھی اطمینان کے تجربے سے خالی رہ جائے گی، میرے اخلاق بھی دل کی نرمی سے، دل کی حرارت سے منقطع حالت میں رہ جائیں گے۔ تو گویا جمالیاتی شعور اور طرزِ احساس کی یہ اہمیت ہے کہ یہ انسان کے شعور اور وجود دونوں کی تکمیل میں لازمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ کمزور یا معدوم حالت میں ہیں تو انسان شعور اور وجود دونوں سطح پر ایک کم تر ہستی رہ جائے گا۔ یہ تو رہا اصولی مطلب۔ اب دوسرا مطلب یہ ہے کہ میری سب سے بڑی آرزوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ جو جانے، جو مانے، جو کرے اس میں اس کا دل لگے۔ اس میں اسے تسکین محسو س ہو۔وہ اسے ایک خوبصورتی کی فضا میں رکھے۔کہ جس مورتی کو اس نے ڈھونڈ کرنکالا ہے اسے ٹاٹ کے بورے میں جمع نہ کرے بلکہ اس کے لیے اچھا صندوق بنائے۔اخلاق بھی یہ چاہتا ہے کہ عمل صرف مبنی بر خیر نہ ہو، بلکہ میرے خیر میں ایک کشش اور جمال بھی ہو۔ مذہبی شعور بھی یہ چاہتا ہے کہ اللہ آپ کی طرف یکسو ہوں۔احسان کے ساتھ ہو۔خوبصورتی کے ساتھ ہو۔ حسن کے ساتھ ہو۔گویا حسن ہر شعورکے ہر حاصل میں ایک نئی چمک دمک پیدا کرتا ہے، ایک کشش پیدا کرتا ہے، وہ عقل کے لیے معقول کو،مذہبی ذہن کے لیے عقیدے کو پر کشش بناتا ہے جو ان عقائد اور ان نظریات سے تسکین پانے کے لیے ضروری ہے۔
تو جمالیاتی شعور میرے عقائد،نظریات اور اعمال کو پرکشش بنانے کا کام کرتا ہے۔ان کو بدلے بغیر، ان کو چھیڑے بغیر۔لیکن اگر فرض کیا کہ خدا میرے لیے پرکشش نہ رہے تو خدا کو ماننے کی تمام تفصیلات رکھنے کے باوجو د مجھے اس سے تسکین نہیں حاصل ہوگی، مجھے اس سے ایک زندہ تعلق کا تجربہ نصیب نہیں ہوگا۔ ان معنوں میں جمالیات علم الحضور ہے۔یہ حضوری کا احساس ہے۔یہ غیب میں حضوری کی لگن پید اکرنے کی قوت ہے۔ اگر یہ نہ رہے تو اس کے نتیجے میں پھر شعور کی اور طبیعت کی حالتیں، اندرخام اور ناتمام رہ جائیں گی۔بڑا ادب یہ کام کرتا ہے کہ وہ انسانی شعور اور اس کی طبیعت کو بلند کرتا ہے۔ اس کی تمام صلاحیتوں کو، تمام قابلیتوں کو حالتِ تسکین میں کرتے ہوئے اس کے تمام عقائد و تصورات کو حسین اور پرکشش بناتا ہے۔ جمالیات مجھے کوئی نظریہ نہیں دیتی، جمالیات میرے مانے ہوئے نظریے کی تزئیین کردیتی ہے۔ اسے خوبصورت بنادیتی ہے۔ تو ادب اگر واقعی تخلیقی ادب ہے تو اس کا یہ کردار، اس کا یہ کارنامہ سامنے کی چیز ہے۔ اسی وجہ سے افلاطون نے کہا تھا کہ ’’یونانی تہذیب کا بانی ہومر ہے‘‘۔ اس نے کسی فلسفی کا نام نہیں لیا کیونکہ اس نے یونانی تہذیب کے جو آئیڈیلز تھے انہیں پُرکشش بنادیا تھا، انہیں خوبصورت کردیا تھا۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’احسان کیا ہے؟‘‘ کا جواب دیتے ہیں تو فرماتے ہیں: ’’اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ تو گویا اللہ کو دیکھنے کا حال ایک پختہ جمالیاتی شعور کے بغیر ناممکن ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے بڑے ادب کا ذکر کیا۔ بڑا ادب کس طرح تخلیق پاتا ہے؟ یا بڑا ادیب کیسے پیدا ہوتا ہے؟
احمد جاوید: جب کوئی زبان اور تہذیب بڑائی کی سطح پر ہو یا بڑائی سے تازہ تازہ گری ہو تو بڑا ادیب اور بڑا ادب پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر تہذیب اور زبان میں مادہ عظمت رہ ہی نہ جائے اور اس مادہ کو دیر ہوگئی ہو تو پھر بڑے ادیب اور بڑے ادب کا پیدا ہونا محال ہے۔ زبان اور تہذیب میں بڑائی کا جوہر عملی حالت میں موجود نہ ہو تو بڑا ادب نہیں پیدا ہوسکتا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے ادبی استاد سلیم احمد ؒ نے آج سے تیس، پینتیس سال پہلے ’’ادب کی موت‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ اس جملے کی معنویت کیا ہے اور اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟کیا ادب کی واقعی موت واقع ہوگئی ہے؟
احمد جاوید: جب انہوں نے یہ بات کہی تھی تو اُس وقت میں بھی موجود تھا۔ اُن کے یہاں ہونے والی نشستوں میں یہ ایک موضوع بھی تھا کہ ’’ادب کی موت‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے کہ جس نے یہ بات کہی ہے اگر اُس شخص نے اس کی تشریح کردی ہے تو اسی بات کو حتمی کہیں گے۔ سلیم احمد نے ایک سلسلہ کلام میں یہ بات کہی تھی۔ وہ سلسلہ کلام شروع ہوتا ہے نطشے سے، نطشے نے کہا تھا کہ ’’خدا مر گیا ہے‘‘۔ اس پر سلیم احمد کی تعبیر کے مطابق نطشے کہہ رہا ہے کہ وہ آدمی فنا ہوگیا ہے جس کا سب سے بڑا مسئلہ ’’خدا‘‘ تھا، تو نطشے نے اصل میں خداپرست آدمی کی موت کا اعلان کیا۔ اسی طرح اگلا نعرہ لگا کہ ’’انسان مر گیا ہے‘‘۔ اس پر سلیم بھائی فرماتے تھے کہ وہ انسان مرگیا ہے جو خود کو اپنا مقصود سمجھتا تھا، یا خود کو مرکزِ کائنات سمجھتا تھا۔ ایک شفٹ آیا نا کہ پہلے خدا مرکز کائنات تھی، اس کی موت کا اعلان نطشے نے کردیا اور اس کی جگہ آدمی کو مرکز کائنات بنایا، پھر پتا چلا کہ اب آدمی بھی مر گیا ہے یعنی اب آدمی بھی کائنات کا مرکز نہیں رہا تو اس تسلسل میں سلیم احمد نے کہا کہ ’’ادب مرگیا ہے‘‘۔ یعنی وہ آدمی غائب ہوگیا ہے جس کے لیے ادب ایک سنجیدہ مسئلہ اور مشغلہ تھا۔ یہ اُن کے اس اعلان کا انہی کے بیان کردہ الفاظ میں براہِ راست مطلب ہے۔ اس لیے میرے نکتہ نگاہ سے یہ بات بالکل درست ہے کہ ادب کی موت واقع ہوگئی ہے۔
اس بات کو دو چیزوں پر غور کرکے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے: (1) کیا ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ رہنے کا دعویٰ کرسکتی ہے؟کیا ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہماری تہذیب اپنے اصول پر زندہ ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ ہم کہیں گے ہماری تہذیب مر گئی ہے۔ (2) کیا ہماری زبان اپنے سیمنٹکس(semantics) معنویاتی کے ساتھ، اپنے لسانیاتی اسٹرکچرز کے ساتھ، اپنی علامات (symbolism) کے ساتھ زندہ رہ گئی ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ نہیں۔ تو جب ہم اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی زندگی کا انکار کررہے ہیں تو ادب انہی دونوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تہذیب مر گئی ہے کہنا درست ہو، زبان فوت ہوگئی ہے کہنا درست ہو، اور ان دونوں اموات کی موجودگی میں ہم یہ امکان روا رکھیں کہ ادب زندہ رہ جائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ تو ادب بھی مر گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب میں انسان کی فضیلت دو چیزوں کی بنیاد پر ہے: تقویٰ اور علم۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اور کیا یہ دو فضیلتیں ہمارے معاشرے میں فضیلتوں کی حیثیت میں موجود ہیں؟
احمد جاوید: آپ علم و تقویٰ کے جو اصول بتارہے ہیں، بلاشبہ ہماری روایت میں انسانی فضیلت کی یہ دو بنیادیں ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری روایت میں اس کے معنی ہیں: حق کا علم، علم ہے اور اس علم سے نفس پر مرتب ہونے والا حال تقویٰ ہے۔ علم اللہ کی معرفت ہے اس کی تخلیقی قدرت سے آگاہی کے ساتھ۔ اللہ کو جاننا ہے اس کی تخلیق کے اندر تک جھانک لینے کی صلاحیت کے ساتھ۔ یہ علم ہے۔ اس میں دونوں طرح کے علم آگئے۔ لیکن اس علم کا مادہ معرفتِ الٰہی ہے۔ معرفتِ کائنات کا بھی مادہ اصل میں معرفتِ خداوندی ہے۔ تو ایسا علم جو حضور حق رکھتا ہے اور کائنات کے اندر تک جھانکنے کی صلاحیت فراہم کرسکتا ہے، میری طبیعت اور میری نبض پر جو اثر چھوڑے گا، میری نبض کی جو conditioning کرے گا، جس حالت کو میری نبض کی بنیادی حالت بنائے گا اُس بنیادی حالت کا نام تقویٰ ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ آدمی اللہ کو جانتا ہو اور اللہ سے ڈرتا نہ ہو۔ تقویٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ڈر ہے جو اللہ کی معرفت کے پیڑ کی سب سے اونچی شاخ پر لگنے والا پھل ہے۔ اس سے توازن قائم ہوتا ہے۔ تہذیب کا نفس تقویٰ پر ہے۔ تہذیب کاذہن (mind) علم پر ہے۔ انسان بہ اعتبارِ نفس اگر کامل ہے تو متقی ہے، اور بہ اعتبارِ شعور اگر پختہ ہے تو صاحبِ علم ہے، یعنی علم کائنات کے حساب سے عارفِ خداوندی ہے۔ یہ جو ہم پیچھے نوحہ پڑھتے آرہے ہیں، اسی سے جوڑ کر دیکھ لیں کہ علم و تقویٰ کی یہ فضیلتیں موجود نہیں ہیں، جبھی تو ہم اس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ آخر علم کیا ہے؟ جس میں ایمان بالغیب یقینی ہو اور حضور خداوندی بھی حتمی ہو، یہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ حضور سے پیدا ہوتا ہے، علم غیب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح حضور و غیب کے توازن سے بننے والا انسان، اس کا ذہن، اس کا معاشرہ، اس کی انفرادیت وہ سارا عمل مکمل طور پر رکا ہوا ہے جبھی تو ہم یہ نوحہ پڑھ رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کا تعلق فلسفے اور اس کی تفہیم سے بھی ہے، مگر ہماری تاریخ میں فلسفہ کو علم کی ایک خطرناک شاخ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امام غزالی ؒ نے فلسفے کو بالادست علم کی حیثیت سے رد کیا۔ آپ ہمیں یہ بتائیے کہ ہمارے لیے فلسفے کا جاننا کتنا اہم ہے؟ اور کیوں؟
احمد جاوید: امام غزالی ؒ نے جس نکتے کے تحت فلسفے کو رد کیا ہے اس کی ایک بہت مضبوط بنیاد ہے۔ وہ یہ کہ فلسفہ عقل کو حاکم مانتا، عقل کی حکومت تسلیم کرتا، اور وحی سے بے نیاز رہنا چاہتا ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے فلسفے کو رد کیا ہے۔ اس کی تفصیلات تکنیکی ہیں۔ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اس سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ فلسفہ ایمان کے لیے خطرناک ہے لہٰذا اسے نہیں پڑھنا چاہیے۔ اس میں واقعی صورت حال یہ ہے کہ بغیر تیاری کے اور جوشِ تقلید میں فلسفہ پڑھنا ایمان کے لیے خطرناک ہے۔ ایمان کو نقصان پہنچا سکتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پہنچاتا آیا ہے۔ اب اس کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ اس کے باوجود ایک مذہبی آدمی جو ذہین ہے، وہ فلسفہ پڑھتا ہے تو اس کی نظر میں فلسفے کی کیا افادیت ہے؟ یعنی اتنے ضرر کے پہلو اس علم میں ہیں، اس کے باوجود اگر کوئی مذہبی آدمی فلسفہ پڑھتا ہے تو وہ فلسفے سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یا فلسفے میں کیا افادیت دیکھتا ہے؟ کہ وہ اس خطرے کو خاطر میں لائے بغیر اسے پڑھ رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر اس کا ایک جملے میں جواب دوں تو وہ یہ ہوگا کہ ’’فلسفے کو جاننا بہتر ہے، فلسفے کی ماننا خطرناک ہے‘‘۔ فلسفے کو جاننے سے ذہنی سطحیت دور ہوتی ہے۔ فلسفے کو ماننے سے ایمانی ذہن کمزور پڑتا ہے۔ اس لیے جو لوگ فلسفے کو تقلید کی نظر سے نہیں بلکہ حقیقت تک پہنچانے والے علم کی حیثیت دے کر پڑھتے ہیں انہیں یہ فائدہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کے ذہن میں سطحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ان کے ذہن میں گراوٹ نہیں پیدا ہوتی۔ ان میں ذہانت کا ملکہ ضرور بڑھتا ہے۔ تو فلسفہ ذہانت کا ملکہ بڑھاتا ہے، حقائق کا علم فراہم نہیں کرتا۔ فلسفہ جاننا ان لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے جو اپنے دین کا عقلی دفاع کرنے کی ذمہ داری ادا کرنا چاہتے ہیں، اور اگر یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر نہیں ہے تو میرے لیے فلسفہ پڑھنا ایک خطرناک عمل زیادہ ہے، مفید ہونے کے امکانات کم ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مغربی فکر سے متاثر لوگ تنقید کرتے ہیں کہ فلسفے سے متعلق غزالیؒ کے رد سے مسلمانوں میں ارتقا کا عمل رک گیا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ گئے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
احمد جاوید: یہ تنقید ذرا جلدی میں کی گئی ہے۔ آپ نے غزالی ؒ کو اتنا بڑا بنادیا کہ اُن کے اتنا کچھ کہنے پر تو کچھ ہوا نہیں، لیکن ایک خرابی ہی ان کے کہنے پر آپ میں پیدا ہوگئی۔ آپ نے غزالی ؒ کو ایک scape goat بنا دیا ہے، اور وہ تہذیب کتنی بھولی ہے جو ایک آدمی کے کہنے پر اپنے ارتقا کے عمل کو روکنے پر تیار ہوگئی! حالانکہ غزالی ؒ کی سب سے کم پڑھی جانے والی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ ہے۔ یہ سب بہانے بازیاں ہیں۔ اور غزالی ؒ نے فلسفے کے تین یا چار مسائل پر کہا کہ یہ کفر ہے۔ مادہ قدیم ہے۔ یہ ماننا کفر ہے۔ کلاسیکل فلسفہ اس عقیدے پر کھڑا ہوا ہے کہ مادہ قدیم ہے، زمانہ قدیم ہے۔ اٹھائیس یا بتیس میں سے چار مسائل ہیں جن پر انہوں نے کہا کہ یہ کفر ہیں، باقی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں یہ فلسفہ مفید ہے۔ پھر یہ کہ غزالی ؒ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ فلسفے کی کتاب کی طرف آنکھ اٹھانا بھی منع ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسفہ پڑھتے وقت یہ احتیاطیں کرو۔ یہ جو اتنے بڑے بڑے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں،کیا آج پرویز ہود بھائی کو طبیعات کی کوئی تھیوری پیش کرنے سے غزالی ؒ نے روک رکھا ہے؟ یہ بہانے بازیاں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ مسلم تہذیب میں ارتقا کا عمل رکنے کے عوامل کچھ اور ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کی ذمہ داری بھی غزالی ؒ پر نہیں جاتی۔ابن رشد نے تہافت فلاسفہ کا رد لکھا ہے۔وہ تو پچاس، ساٹھ صفحات کا ایک رسالہ ہے، اس کا رد اس سے دس گنا ضخیم ہے۔اس میں ابن رشد نے کہا ہے کہ غزالی پر مجھے اس بات کا شک نہیں ہے کہ وہ فلسفہ جانتے نہیں تھے،اس لیے ان کی کتاب پر اعتراض کیا، مجھے تو غزالی ؒ سے شکوہ یہ ہے کہ وہ فلسفہ مجھ سے زیادہ جانتے تھے لیکن متعصب تھے۔
فرائیڈے اسپیشل: کہا یہ جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی نہ کرنامسلمانوں کے زوال کا سبب۔ کیا آپ کے خیال میں تہذیب کے ارتقا میں ٹیکنالوجی کوئی معیار ہے؟
احمد جاوید: آج ٹیکنالوجی نے جدید دنیا کی بناوٹ میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرلی ہے، یعنی آپ کا آرام اور آپ کی طاقت یہ ٹیکنالوجی ہے،آپ ٹیکنالوجی کے بغیر طاقت ور قوم نہیں بن سکتے، اور اسی طرح ٹیکنالوجی کے بغیر معاشرے کے لوگوں کو راحت فراہم نہیں کرسکتے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ معاشرے کی ضرورت ہے کہ اس کے باشندے راحت میں رہیں، یہ معاشرے کا مقصود ہے۔ اسی طرح ریاست کی ضرورت ہے کہ وہ طاقتور ہو، اس کے بغیر ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ تو ہماری ریاست اور معاشرے میں زوال کے جو عوامل ہیں ان میں ایک یقیناًٹیکنالوجی میں پسماندہ رہ جانا بھی ہے۔ یعنی فزیکل سائنسز میں پیچھے رہ جانا۔ لیکن یہ سبب اصولی نہیں ہے۔ یہ بہت سے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ ہم جب اپنی ترقی اور پسماندگی کو ناپیں گے تو اس میں معیار مغرب کو نہیں بنائیں گے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی سوسائٹی کو بنائیں گے۔ ہم اپنی تہذیب کو ترقی یا تنزل کے معیارات پر دیکھنے کا جب آغاز کریں گے تو ترقی یافتہ تہذیب کیا ہوتی ہے، اس کا ماڈل مغرب سے نہیں بلکہ اپنے ماضی سے لیں گے جب ہم مسلم معاشرہ یا ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
لیکن ہمارے یہاں ایک اور مصیبت جو پیدا ہوگئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے مغرب کو کامیابی اور ترقی کا لازمی ماڈل سمجھ لیا ہے اور ہماری تہذیب کے اسبابِ مرگ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی ترقی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ویسی ترقی ہوگی جیسی کہ مغرب نے کی ہے۔ جب بھی ہم طاقت کا لفظ استعمال کریں گے تو وہی طاقت جو مغرب کے پاس ہے۔ جیسے ہی ہم ایک فلاحی معاشرے کا تصور قائم کریں گے تو یہ کہیں گے کہ وہی فلاحی معاشرہ جو ناروے نے قائم کیا، یا مغرب میں قائم ہوا، وغیرہ وغیرہ۔ تو جو تہذیب اپنے آئیڈیلزکی حفاظت کرنے سے قاصر رہ جائے وہ پھر اسی طرح کیمرہ لیے لیے پھرتی رہے کہ کہیں کوئی ترقی نظر آجائے تو اس کی تصویر اتار سکے۔ اس لیے ہماری تہذیب اس وقت کیمرہ بردار آدمی کی طرح ہے جو دوسروں کے دروازوں کی، دیواروں کی تصاویر کھینچ رہا ہے کہ میں اپنا گھر بنواؤں گا تو اس نقشے پر بنواؤں گا، یا اس ڈیزائن پر بنواؤں گا۔یہ تو مکمل طور پر دست نگری کو تسلیم کرلینا ہے جوہماری موت کا سب سے بڑا مظہرہے۔ ہم مکمل طور پر دست نگر ہوگئے ہیں، یعنی اپنے تصورِ خدا کو بھی مغربی ذہن کے مطابق بنانا چاہتے ہیں، یعنی سائنسی بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے تصورِ انسان کو بھی مغرب سے اخذ کرنے کی عادت ڈال چکے ہیں۔ ہم اپنے تصورِ دنیا میں بھی مغرب کی نقالی کے جنون میں مبتلا ہیں۔ مطلب یہ کہ اتنے زیادہ انحصار کی حالت میں کوئی تہذیب اپنے امتیازات کے ساتھ قائم کیسے رہ سکتی ہے؟
فرائیڈے اسپیشل: مغربی دنیا اگرچہ باطل کی پرستش کرتی ہے لیکن اس کے باوجود اُسے عالمگیر غلبہ حاصل ہے۔ آخر مغرب کے عالمگیر غلبے کی وجوہات کیا ہیں؟
احمد جاوید: اس کی دو ہی وجوہات ہیں: اول طاقت اور دوم علم۔ غلبے اور مغلوبیت کے جو اسباب ہوتے ہیں وہ قانونِ قدرت میں ہیں، قانونِ ہدایت میں نہیں ہیں۔ تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بنایا ہوا ایک نظام قدرت ہے، جس میں کافر بھی اس کے مطابق ہوجائے گا تو غالب ہوجائے گا، اور مومن اس کی خلاف ورزی کرے گا تو مغلوب ہوجائے گا۔ تو طاقت اور علم، یہ مغرب کے غلبے کے مکینکس کے دو پارٹ ہیں۔ غلبہ اُس قوم کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کے پاس طاقت نہ ہو۔ اس قوم کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کے پاس دنیا کا علم نہ ہو۔ جو معاصر دنیا ہے اس کا علم، یہ عروج و زوال کا معیار ہے۔ اس کا تیسرا معیار اخلاقی ہے، کہ وہ معاشرہ اپنے آپ کو مربوط رکھنے، اپنے آپ کو ایک نظام میں ڈھالنے کے لائق ہو۔ یہ تینوں ضرورتیں مغرب نے پوری کردیں۔ یہ تینوں چیزیں جب تک کسی قوم میں موجود ہیں اُس وقت تک اس قوم کو زوال نہیں ہوگا، چاہے وہ کافر ہو یا مومن۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا مغرب کمزور پڑرہا ہے؟
احمد جاوید: مغرب کمزور پڑتا رہتا ہے، لیکن اس کے ہاں رپیئرنگ کا نظام بہت مضبوط ہے۔ وہ اپنی کمزوری کو فوراً بھانپ لیتا ہے اور اس کا علاج کرلیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مغرب میں کتنے بڑے بڑے معاشی زلزلے آئے، کتنے بڑے بڑے معاشرتی زلزلے آئے، انہوں نے سب کو ایک ڈھب سے رام کرلیا، کیونکہ ان کا تو کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی ایشو اٹھا تو مغربی معاشرے میں ایک ہلچل پیدا ہوئی۔ اس سے بالادست قوتوں نے بھانپ لیا کہ اس کے نتیجے میں مغربی معاشرے کا جو تانا بانا ہے، وہ کمزور پڑجائے گا تو انہوں نے اسے لیگل کور دے دیا کہ قانوناً یہ جائز ہے۔ تو وہ ہرچیز کو رپیئر کرلیتے ہیں کیونکہ وہ کسی کمٹمنٹ پر نہیں ہیں۔ ان میں خدا کو جواب دینے کا تصور نہیں ہے، ان کے ماڈلز یا محرکاتِ عمل دینی، مذہبی یا ایمانی نہیں ہیں۔ ان کا ماڈل تو یہ ہے کہ ہمیں طاقتور رہنا ہے اور اپنے لوگوں کو آرام سے رکھنا ہے، اس کے لیے ہمیں جو جو کمپرومائز کرنے پڑیں، جیسی جیسی لچک دکھانی پڑے، جتنا جتنا قانون کو، تعلیم کو بدلنا پڑے ہم بدلتے رہیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ امریکہ کے معروف دانشور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے 1990 کی دہائی میں تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تھا، لیکن تہذیبوں کے تصادم کی باتیں اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ بھی بہت پہلے کرچکے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال ؒ اور مودودی ؒ اور سیموئیل پی ہن ٹنگٹن کے تناظر میں کیا کوئی فرق پایا جاتا ہے اور اس نظریے کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے؟
احمد جاوید: تہذیبوں کے تصادم کا آئیڈیا بہت قدیم ہے۔ یونان میں بھی تھا۔ یہ ان لوگوں (اقبال اور مودودی صاحب) کا اندازہ تھا، اور یہ نظریاتی نوعیت کا زیادہ تھا۔ یہ قیاس تھا، تصور تھا۔مغرب یہ کرنے جارہا ہے۔ ہم یہ کرنے جارہے ہیں۔ اگلے تیس سال بعد زمین پر یہ صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ تو دونوں کے یہاں یہ تصور آئیڈیلسٹک تھا کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ اسلامی نظریہ زندگی مغربی نظریہ حیات سے بالآخر تصادم کی صورت میں نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ اُن کا تصورِ انسان الگ، بنیادی تصورات الگ۔۔۔ ہمارے بنیادی تصورات الگ۔۔۔ تو علمی تصادم تو جاری ہے، اس لیے یہ عملی تصادم بھی بن سکتا ہے۔ پیش گوئی نہیں صرف ایک قیاس تھا۔ ہن ٹنگٹن کا کام یہ ہے کہ اس نے اس نظریے کو بالکل clinically بناکر دکھادیا ہے۔ اس پر ورک آؤٹ کرکے دکھادیا ہے۔ دنیا میں بعد میں آنے والے نظریے میں اس نظریے کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ اس لیے ہن ٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ واقعی ایک نظریہ ہے، اور اقبالؒ وغیرہ کا تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ایک تصور ہے جو اپنی بنیادوں پر بالکل درست ہے۔ ہن ٹنگٹن تصور سازی نہیں کررہا، وہ مستقبل کی دنیا کی پیشگی تصویر کھینچ رہا ہے۔ وہ کوئی نظریاتی باتیں نہیں کررہا، وہ واقعات بیان کررہا ہے۔ جہاں تک ہمارے نزدیک اہمیت کی بات ہے، اقبالؒ اور ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا جو پیراڈائم ہے، اس کے مطابق ہم اس تصادم سے گزر رہے ہیں، اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تصادم زندگی کی تمام سطحوں پر عملی حالات میں برپا ہوکر رہے گا بشرطیکہ ہم، ہم کہلانے کے لائق تو بنیں۔ آپ کی امت اپنی تہذیبی، اخلاقی اور نظریاتی قوت کے ساتھ مغرب کے سامنے صف آرا تو نہیں ہوسکی اور نہ ہی ہونے کا کوئی منصوبہ دکھائی دیتا ہے، نہ تیاری نظر آرہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ جو امت کا منصوبہ یا تصور ہے یہ کیسے اور کہاں بنے گا؟ کسی ایک جگہ بنے گا؟ امت تو کہیں نظر بھی نہیں آرہی! اس کا وجود کہاں ہے؟پاکستان میں بنے گا، ترکی میں یا سعودی عرب میں؟ اور پوری دنیا کے لیے یہ نظریۂ امت کیسے قابل قبول ہوگا؟یا یہ کہ آج کے جغرافیائی دور میں تبدیلی کس طرح آئے گی؟
احمد جاوید: امتِ مسلم اجتماعیت اور قومیتوں کے مجموعے کو کہتے ہیں، یعنی مسلم تہذیبیں، قومیں اور ممالک ہم عقیدہ ہونے کی بنیاد پر، ہم مقصد ہونے کی اساس پر ایک دائرۂ وحدت کے اندر ہیں۔ اس دائرۂ وحدت کا نام امت ہے۔ اور اس امت کو پاکستانی اور ملائشین ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم مختلف قوموں، معاشروں، ریاستوں اور ثقافتوں کے ہوتے ہوئے بھی متحد ہوسکتے ہیں۔ یہ اتحاد جب برپا ہوجائے گا تو ہم قوم کے ساتھ ساتھ امت کا تشخص بھی حاصل کرلیں گے۔ امت کا تشخص قومیت کی نفی سے نہیں ہے، قومیت کو اپنے اندر جذب کرلینے سے ہے۔ ان معنوں میں مسلمان عملاً اب بھی امت ہیں، لیکن امت کا یہ تصور کہ اس کا سیاسی نظم، اس کا ریاستی اسٹرکچر ایک حاکم کے تابع ہو، ایک حکومت کے تحت ہو تو یہ اب محالات میں سے ہے، نہ ہی یہ اسلام کا مطالبہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کو اس وقت دنیا میں وہ نرم زمین کہاں نظر آرہی ہے جہاں سے تبدیلی کے امکانات ہیں؟
احمد جاوید: اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ترکی وہ خطۂ زمین ہے جہاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ وہ مرحلہ شروع ہوگیا ہے، اور اگر یہ کامیابی سے چلتا رہا تو ترکی سینٹر آف امہ بننے کی قابلیت رکھتا ہے، کیونکہ طاقت، علم، اخلاق،کمٹمنٹ اور آزادی کا جذبہ۔۔۔ یہ تمام چیزیں ان میں موجود ہیں۔ وہ نفسیاتی طور پر آزاد لوگ ہیں۔ یہ سب عناصر مل کر کسی قوم کو اپنی ہم خیال اقوام کے لیے نمونہ یا لیڈر بناسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جب ہم اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو تین نقطہ ہائے نظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ مغرب قابلِ تقلید ہے اور مسلمانوں کو آنکھ بندکرکے مغربی فکر کی تقلید کرنی چاہیے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے جو علماء کا ہے کہ مغرب کو یکسر مستردکردیا جائے، اور وہ کہتے ہیں کہ مغرب باطل ہے اور باطل کی پیروی ممکن نہیں۔ تیسرا نقطہ نظر ہے جو درمیان کی راہ نکالتا ہے اور مغرب اور مشرق کے اندر امتزاج تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان جو تصادم ہے اس کی راہ روکی جاسکتی ہے اور اس سے دونوں تہذیبوں کو بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ ان تین نقطہ ہائے نظر کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
احمد جاوید: یہ ایک پرانا منظرہے جس میں یہی تین باتیں مغرب کے بارے میں کہی جارہی تھیں۔ سرسید کے دور کے فوراً بعد مغرب کے حوالے سے یہ تین رویّے پیدا ہوئے تھے۔ ان تینوں رویوں کے پیچھے ایک مفروضہ قائم کرنے کی غلطی ہے، یعنی ان تینوں کی پشت پر بنیادی مفروضہ ہی غلط ہے کہ تہذیبیں معاہدوں کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتیں۔ تہذیبوں کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ آرگینک (Organic) ہوتا ہے۔ وہ کسی مذاکرات، ناپ تول یا سیاسی فیصلوں کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ سارے فیصلے اور منصوبہ بندیاں اثرانداز تو ہوتی ہیں لیکن یہ تصور کرلینا کہ ہم مغرب کی تہذیب کو مکمل طور پر روکنے کا ایک پلان بناکر اس کی پابندی کریں یا اس کو مکمل طور پر قبول کرنے کا منصوبہ تیار کرکے اس کے پیچھے رہیں، اس کو عمل میں لائیں، یا یہ کرلیں کہ دین کا تعلق رکھیں، یہ چیزیں کسی طرح کے فیصلوں سے نہیں پیدا ہوتیں۔ مغربی تہذیب سے ہمارے تعلق کی جیسی بھی نوعیتیں بنیں گی وہ یکطرفہ نہیں ہوں گی، وہ ایسی نہیں ہوں گی کہ جیسے ہم نے پہلے کوئی فیصلہ کیا، اب تعلق کا سارا نظام ہمارے پہلے کیے گئے فیصلے پر چل رہا ہے۔ گویا یہ ایک مصنوعی سوچ ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ مغرب اس وقت عالمگیر تہذیب بننے کے عمل میں ہے۔ جس چیز کو ہم ستّر اسّی برس پہلے مغربی تہذیب کہتے تھے اُس کا ایک جغرافیہ تھا مغربی یورپ اور امریکہ ملاکر۔ لیکن اب جو مغربی تہذیب ہے وہ مغرب کے جغرافیہ میں محصور نہیں ہے۔ اب مغربی تہذیب ہندوستان اور چین میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس وقت موجود تہذیبی مظاہر میں ایک مغرب ہی ہے جو عالمگیر تہذیب بننے کے عمل سے سردست کامیابی کے ساتھ گزر رہا ہے اور اس کو جو چیلنج پیش آرہے ہیں وہ معمولی نوعیت کے ہیں۔ اب حقیقی اور برسرزمین صورت حال یہ ہے۔ اس طغیانی اور مغرب کے اس تہذیبی طوفان میں، مغرب کے اس عالمگیر اخلاقی، علمی، عقلی غرض ہر طرح کے تہذیبی غلبے کے ماحول میں ہم یہ فکر کررہے ہیں کہ ہم بطور مسلمان اپنے تہذیبی امتیاز کی حفاظت کیسے کریں؟ ہم خود کو مغربی تہذیب میں ضم اور جذب ہوجانے سے کیسے بچائیں؟ یہ اس وقت کا مسلم سولائزیشن کو درپیش ایک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو کچھ طریقوں سے حل کرنے یا اس مسئلے سے نکلنے کے لیے کچھ راستے ہم اپنے سامنے ایسے موجود پاتے ہیں جن سے یہ امید باندھی جاسکے کہ یہ ہمیں مغرب کے تہذیبی غلبے سے بچانے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک راستہ یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار کریں، اور کیوں کہ مغربی تہذیب کے پھیلاؤ میں اس کی قوت کا بہت عمل دخل ہے لہٰذا اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوت ہی کا استعمال ضروری ہے۔ مسلم تہذیب اپنے کچھ پاکٹس میں طاقت کے خلاف مزاحمت ((Power Resistance کررہی ہے کہ اس کا راستہ ہم طاقت سے روک لیں گے، جس کی ایک موجودہ صورت حال جنگجوئی (Milintancy) ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کچھ تنکے آپس میں اتحاد کرکے سونامی کو روکنے کا منصوبہ بنائیں۔یہ انتہائی لغو خیال اور بے معنی طرزعمل ہے۔ یہ جنگجوئی مغرب کے غلبے کی قبولیت میں اضافہ کررہی ہے، یعنی مغربی تہذیب کو اخلاقی جواز فراہم کررہی ہے۔ تہذیبوں کے پھیلاؤ میں جو سب سے بڑے جواز ہوتے ہیں ان میں سے ایک جواز ان کی اخلاقی برتری ہوتا ہے۔ تو داعش وغیرہ کے مقابلے میں مغربی تہذیب یا داعش کا ہر ہدف اخلاقی طور پر ان سے بلند ہوگا۔ اب مغرب کے خلاف تشدد کا رویہ اور دہشت گردی کے واقعات جتنے بڑھتے چلے جائیں گے، ان سے مغرب کے جسم پر خراش تک نہیں آئے گی بلکہ ان کی طرف ہمارا رویہ بدلنے لگے گا اور ہم ان کی اخلاقی برتری کے قائل ہونے لگیں گے۔ تو اس سے ان کے پھیلاؤ کا راستہ اور زیادہ ہموار ہوجائے گا۔
دوسرا رویہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی وہ اقدار، مغربی نظام کے وہ عناصر جن کی عالمگیریت مسلم ہوچکی ہے، جو اس وقت دنیا کا قانون بن چکے ہیں اور ان کا موجد مغرب ہے، مثلاً جمہوریت، مائلڈ کیپٹلزم (mild capitalism)، انسانی حقوق کا تصور، آزادئ اظہار کا آئیڈیا، دین بدلنے کی آزادی وغیرہ، تو ہم مغرب کی یہ جو قدریں آفاقی اقدار کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں، ہم ان میں سے کچھ قدریں منتخب کرکے اختیار کرلیں۔ دو راستے ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت اختیار کرلیں، کیونکہ جمہوریت کے نتائج اچھے ہیں۔ ہم آزادئ اظہار اختیار کرلیں، ہم انسانی حقوق کی وہی فہرست مان لیں جو مغرب نے بنائی ہے اور اقوام متحدہ سے منظور کروائی ہے، تو اس کے ساتھ ساتھ ہم نماز، روزہ جاری رکھیں۔ ہم اپنا آئین نیا بنادیں کہ جس میں لکھ دیا جائے کہ قرآن و سنت سے ٹکراؤ رکھنے والا کوئی قانون نہیں بن سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو ہم اسلام کو آئینی طور پر غالب رکھیں اور زندگی کا پورا مزاج جو ہے، وہ مغرب سے نزدیک رہ کر بنائیں۔ مغرب میں ضم ہوئے بغیر اپنی بعض شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے، یا یوں کہیں کہ اپنی اُن شناختوں کو برقرار رکھتے ہوئے، جن پر مغرب کو اعتراض نہیں ہے، ہم اپنے ان تہذیبی امتیازات کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کو چلانے والا اجتماعی نظام ،چاہے وہ سیاست کے دائرے میں ہو، اخلاق کے دائرے میں ہو، چاہے معیشت میں ہو، چاہے تعلیم میں ہو، چاہے انصاف میں ہو، وہ ہم مغرب سے نقل کریں، مغرب سے پورا پیکیج لے لیں اور اس پیکیج کو لے کر بس اس پر عنوان یہ لگادیں کہ یہ ہماری ہی تہذیب کے بنیادی عناصر ہیں جو مغرب نے ہم سے لیے تھے۔ تو ہم گویا اپنی دی ہوئی چیز اُن سے واپس لے رہے ہیں۔ تو دوسرا رویہ یہ ہے، ٹھیک ہے نا! مغرب کی بنائی ہوئی دنیا کو مغرب ہی کا ایجاد کیا ہوا نظام چلا سکتا ہے۔ ہم اس وقت مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں رہتے ہیں اور اس دنیا میں رہنے کے لیے انھی کے بنائے ہوئے نظام کے محتاج ہیں۔ یہ دنیا کسی اور نظام سے چل نہیں سکتی۔
تیسرا رویہ ابھی تصور کی سطح پر ہے، ابھی اس کے مظاہر پیدا نہیں ہورہے۔ وہ رویہ ہے مغرب سے لاتعلق ہوکر مثبت انداز میں اپنی تہذیب کو اس کی بنیادی اقدار پر چلانے کا عمل شروع کیا جائے۔ جیساکہ دنیا میں کئی خطے ہیں جو مغرب سے لاتعلق ہوکر اپنی تہذیبی اقدار کو بچانے، برقرار رکھنے اور برسرعمل رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں، تو اس ماڈل کو ہم بھی اپنالیں۔ تو یہ تین ممکنہ راستے ہیں جن سے ہم یہ امید باندھ رہے ہیں کہ شاید یہ ہمارے دینی اور تہذیبی بقا میں ہمارے معاون ثابت ہوں۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی راستے کو سفر کے قابل بنانے کا جو سامان ہوتا ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ ہم نے ریل کی پٹری کے تین نقشے بنالیے ہیں، لیکن اس نقشے پر پٹری بچھانے کا سامان ہمارے پاس نہیں ہے۔ تو ان تینوں تصورات پر عمل کرنے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں، وہ ہمارے پاس نہیں ہیں، اس وجہ سے ہم ایک طرح سے عادی ہوگئے ہیں کہ تصور میں اپنے امتیاز کی حفاظت کرتے ہیں اور عملاً مغرب کی پیروی میں چلتے رہیں۔ ہماری موجودہ صورت حال یہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آئیڈیل طریقہ کیا ہے؟
احمد جاوید: آئیڈیل طریقہ مغرب سے تصادم کی فضا ختم کرکے اپنے prospective سے ترقی اور کامیابی کے تصورات کو عمل میں لانا ہے۔ ہمیں یہ کہنے کے لائق ہونا چاہیے کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہمیں قبول نہیں، کامیابی کا مغربی نظام ہمیں قبول نہیں، ہم انسانی فضائل اور انسانی زندگی کی آسانیوں اور راحتوں کا اپنا ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور کو عمل میں لانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری خوشحالی سود سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ آئیڈیل ہے، ہم اس کے پابند ہیں کہ ہمارا مال سود سے پاک ہو، ہمارے اخلاق حیا کی بنیاد پر ہوں، آزادی یا کاروبارکی بنیاد پر نہیں۔ ہماری شخصیت انکسار کے جوہر سے تعمیر ہو، کسی اور تصور سے نہیں۔ میں صرف مثال دے رہا ہوں۔ تو جب تک ہم اسلام کا ورلڈ ویو بنانے یا بتانے اور اسے عمل میں لانے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک ہمیں مغرب کے تسلط سے بچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہر امت، قوم، تہذیب کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کا ورلڈ ویو کیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ورلڈ ویو سے آپ کی کیا مراد ہے؟
احمد جاوید: ورلڈ ویو سے مراد ہے: اس کا تصورِ علم کیا ہے؟ اس کا تصورِ دنیا کیا ہے؟ اس کا تصورِ انسان کیا ہے؟ جب تک ہم اپنے ورلڈ ویو کو فراموشی کی دھند سے نکال کر سب سے پہلے خود اپنے ذہن میں لانے اور اپنی زبان سے اظہار دینے کے لائق نہیں ہوں گے اُس وقت تک مغرب کے تسلط سے نکلنے کا کوئی نقشہ تیار نہیں ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: اس آئیڈیل تصور کا شعور ہمارے معاشرے میں کس طبقے کو ہونا چاہیے یا ہوگا؟
احمد جاوید: اس کا شعورتو آ پ کے حاکم طبقے کو ہونا چاہیے آپ کے علماء کو ہونا چاہیے آپ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا احساس عام ہونا چاہیے۔ حقیقت کی دو نسبتیں ہوتی ہیں۔ اس کا شعور اُن طبقات کو ہونا چاہیے جو سوسائٹی کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جو اپنے فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے اسباب رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ احساس اور شعور تو ہمیں کسی طبقے میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ علماء کی صورت حال بھی مختلف نہیں بلکہ ان کے بارے میں ایک طبقے کی رائے ہے کہ علماء مغرب کے بارے میں ہی نہیں جانتے، اس کا شعور وہ کیسے رکھ سکتے ہیں!
احمد جاوید: یہ صحیح بات ہے۔ یہ اعتراف صحیح ہے کہ ہمارے علماء مغرب کو نہیں سمجھتے۔ لیکن صرف اتنی سی بات نہیں ہے، ہمارے پی ایچ ڈی بھی مغرب کو نہیں سمجھتے۔ یہ جو مکاری کی جاتی ہے نا کہ زوال کی ساری ذمہ داری مذہبی طبقے پر ڈال دی جائے، یہ چالاکی اور عیاری ہے۔ مغرب کو نہ سمجھنا اگر ایک جرم ہے تو اس کے بڑے مجرم علماء نہیں ہیں، کیونکہ ان کی ذمہ داریوں میں مغرب کو سمجھنا ثانوی ذمہ داری ہے۔ اس کے ذمہ دار جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقات ہیں جنہوں نے مغربی نظام تعلیم میں اپنی تحصیلات مکمل کی ہیں اور مغرب کے حوالے سے اتنے ہی جاہل ہیں جتنے گاؤں کا کوئی مولوی۔ تو فہم مغرب جو ہے نا یعنی وہ فہم جوان کی تہذیب کے اثرات، ان کی تہذیب کے مزاج، ان کی تہذیب کے چھپے ہوئے (Hidden) مقاصد کو سمجھ سکے، وہ شعور ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں بالکل نہیں ہے اور اپنی تہذیب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کا کوئی احساس ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقات میں نہیں ہے۔ مولویوں میں کم از کم اپنی تہذیب کے تحفظ کا احساس تو ہے۔ جدید تعلیم یافتہ آدمی اپنی تہذیب کا غدار ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب کی وفاداری کی رمق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ یہ مغرب کا سب سے کامیاب حربہ ہے کہ وہ اپنے سے مختلف تہذیبوں کے تعلیمی نظام میں سرایت کرکے انجام دیتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ جو علم کی بات کرتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنا بھی فساد ہے وہ تعلیم یافتہ لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے اور اس میں جدید تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم یافتہ دونوں ہی شامل ہیں بدنام جاہل ہیں ان کا کیا قصور؟
احمد جاوید: جاہلوں کا قصور یہ ہے کہ وہ جاہل نہ رہتے تو علم کا غلط استعمال نہ ہوتا جہل اپنی جگہ جرم ہے۔جو بھی مقتدا اس کا رہنے پر راضی ہے وہ اپنے انسان رہنے پر انکار کرنے پر راضی ہے۔ یہ الگ بات ہے ہم دوسری بات جو آپ کہہ رہے ہیں وہ بات بھی ٹھیک ہے۔علم کے بغیر نہ گمراہی کو قوت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ ہدایات کو، یہ نیچرل اصول ہے یعنی ابوجہل بننے کے لیے بھی ذہین ہونا ضروری ہی اور ابوبکر بننے کے لیے بھی صاحب علم ہونا ضروری ہے ۔ جھوٹا شعور نہ ابوجہل بن سکتا ہے نہ ابوبکرؓبن سکتا ہے وہ ایک نیچرل نظام ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم سے فساد زیادہ پھیل رہا ہے اور ہماری جدید تعلیم سے الحاد پھیل رہا ہے؟ یہ کیا وجہ ہے؟ کوئی تہذیب ان دو سوالوں کا جواب دیے بغیر وجود ہی میں نہیں آسکتی۔ علم کیا ہے اور علم کس لیے ہوتا ہے؟ مغرب کہتا ہے علم محسوسات کا علم ہے اور علم آرام سے، آزادی اور سلامتی ‘ خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ہے۔ علم دنیا کو اپنے لیے آسان اور پرآسائش بنانے کے لیے ہے۔ان کے پاس دنوں کا واضح جواب ہے اوروہ ان دنوں جوابات کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کامیاب ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ علم محسوساتی (Empirical) ہوتا ہے، اس سے انہوں نے فزکس، میتھی میٹکس اور تمام علوم جو دنیا اورانسان سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک لائن پیدا کرکے دکھادی پھر اس علم کو نتیجہ خیز بنا کر دکھادیا انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ایٹم ہوتا ہے۔ ہم ایٹم کو پکڑ کر استعمال بھی کرسکتے ہیں اور استعمال کرکے دکھادیا، انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ خوشحالی ہونی چاہیے ہم وہ خوشحالی لاکر دنیا کے لیے دکھابھی چکے ہیں۔ یہ خوشحالی ہمارا تصور ہے او ریہ دیکھ لو کہ اس تصور کو ہم نے کس طرح عملی روپ دے دیا۔
تو وہ (مغرب) واضح ہیں انہوں نے پوری طرح یکسو ہوکر اپنی تہذیب کی تعمیر میں ان دو جوابات سے مدد لی اور ان دو جوابات کو زندگی کے تمام گوشوں میں جاری کرکے دکھادیا اورنہ صرف اپنے اندر کی زندگی میں بلکہ جوان کے اس نظریے کو قبول کرلے وہ بھی ان کے معیار پر خوشحال ہوسکتا ہے ترقی یافتہ ہوسکتا ہے عالم اسلام میں جتنی بھی ترقی اور خوشحالی ہے وہ مغربی اصول کی تقلید کے نتیجے میں ہے۔ اسلامی تعلیم کے نتیجے میں نہیں ہے۔ یہ مغرب کے تسلط کا ناقابل تردید ثبوت ہے ۔آپ کو بھی ترقی کرنے کے لیے دنیاوی معاملات میں مسلمان ہونا چھوڑنا پڑتا ہے یہ ہے مغرب کا غلبہ ،کہ تمہیں ترقی کرنی ہے تو خدا کو چھوڑ کر کرنی ہے اور اس پر انہوں نے ہمیں قائل کرلیا ہے چاہے زبان سے اعتراف نہ کریں چاہے اس کا ہمیں ادراک نہ ہو لیکن عالم اسلام میں جہاں جہاں چھوٹی موٹی ترقیاں نظر آتی ہیں ان سب کا سرچشمہ مغرب کے یہ دو اصول ہیں۔وہ اسلام کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ ملائیشیا نے اگر کچھ ترقی کی ہی تو کس اسلامی تعلیم سے کی ہے؟ مغربی ماڈل پہ کی ہے ترکی اگر کچھ ترقی کررہا ہے تو کس اسلامی تعلیم سے کررہاہے؟ مغر ب کے اصول ترقی کی تقلید کرکے کررہاہے تو اتنے غلبے میں پسے ہوئے ہم لوگ ہیں تو اس میں سے نکلنے یا اس میں مسلمان کی حیثیت سے سانس لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ان دو سوالوں کا جواب پہلے بتائیں اپنے جواب میں خود کو کلیئر کریں اور پھر اس جواب کو عمل میں لانے کی اجتماعی سرگرمیوں کا پورا ایک مربوط نظام بنائیں اب اس میں چاہے سو سال لگیں چاہے پچاس سال لگیں لیکن یہ کیے بغیر ہم تہذیبی بقا حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ ہے اس سوال کاجواب کہ علم کیا ہوتا ہے؟ علم کس لیے ہوتا ہے؟
فرائیڈے اسپیشل: اب اس میں ایک سوال تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی کے پس منظر میں اٹھتا ہے کہ کیا تحریکوں کی ناکامی واقعی ان کی ناکامی ہوتی ہے تحریکوں اور جماعتؤں کا کام تو جدوجہد کرنا ہے آپ سے سوال جدوجہد کا ہوگا؟ آپ کا پیغام قبول ہوا یا نہیں ہوا لوگ تبدیل ہوئے نہیں ہوئے یہ مطلوب نہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
احمد جاوید: نہیں اس کو دوسری طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک تحریک اگر پچاس سال سے ناکام ہے، اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپارہی اور اپنے کام میں لگی ہوئی ہے تو اسے ناکام نہیں کہا جائے گا۔ بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے دینی معنوں میں بھی ناکام نہیں کہا جائے گا دنیاوی معنوں میں بھی ناکام نہیں کہا جائے گا۔ اسے ناکام کہنے کا کوئی دینی یا عقلی جواز نہیں ہے، لیکن ا گر کوئی تحریک اس طرح کی ہو، وہ سکڑنے لگے، اس کا ایکٹی وزم کم ہونے لگے، اس کے مقاصد بدلنے لگیں تو پھر کہا جائے گا کہ یہ ناکام ہوگئی ہے ۔ ہمارے یہاں مشکل یہ ہے کہ وہ ناکامی کے احساس سے بچانے والی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اب تیزی سے کم ہوتی جارہی ہیں۔جدوجہد تو کررہے ہیں، بس جدوجہد کرتے رہنے پر ہم راضی ہیں۔ اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے، ان سے غافل ہیں۔ یہ مذہبی طبقے کا ایک ڈایلیما ہے کہ آپ انقلاب لانے کی جدوجہد میں مخلص بھی ہیں، سرگرم بھی ہیں، لیکن انقلاب لانے کے لیے جو قوت اور صلاحیت لازماً درکا ہے، اس قوت و صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور مربوط کوشش نہیں کررہے۔
اب جماعت اسلامی یا کوئی بھی معروف سیاسی ذریعہ سے غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والی مخلص جماعت، اس طرح کی کوئی بھی جماعت ہو، ان سے یہ پوچھا جائے کہ تم جو اسلامی نظام لانے کے لیے اپنے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہو، اس میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے۔ وہ اسلامی نظام عمل میں کس طرح آئے گا؟ سودی نظام سے نکلنے کا کوئی لٹریچر ہے تمہارے پاس سے؟ تمہارے پاس موجودہ نیشن اسٹیٹ کے جو شہری مساوات کا حق ہے، اس کو اسلام سے کس طرح جوڑوگے، اس کا کوئی narativeہے تمہارے پاس ؟ کیپٹلسٹ معیشت میں جو باریکیاں، پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان کا کوئی احساس ہے تمہارے پاس؟ کیپٹلزم کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ مغرب کے بارے میں تمہاری کیا انڈر اسٹیڈنگ ہے؟ اور پھر اسلامی نظام ‘ اللہ کی حاکمیت‘ حاکمیت اعلیٰ ‘ اللہ کا قانون‘ شریعت کا طریقہ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا‘ یہ سب تمہاری وجہ سے بے معنی نعرے لگنے لگے ہیں۔ کیونکہ تم اس کے معنی بتاتے ہی نہیں ہو‘ اللہ کی حاکمیت کس اسٹرکچر میں ہوگی؟ جیسے مغرب نے کہا ناں؟ مغرب نے ایک ڈسکورس (Discourse) کیا جمہوریت کا، جمہوریت ایک مغربیوں کے لیے دین ہے۔ انہوں نے بتادیا جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے۔ انہوں نے ایک لائن بنائی ناں۔ اس طرح اللہ کی حاکمیت ‘ اللہ کے بندوں کے لیے یہ ان کا سلوگن ہے جمہوریت نے اپنے سلوگن کو عمل میں لانے کے لیے تمام وسائل تمہاری نظروں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: مولانا مودودیؒ نے معیشت‘ اسلامی معیشت پر بہت لکھا سود کے حوالے سے ’’سود‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھی اور آج اگر دیکھا جائے تو دوسری طرف مولانا تقی عثمانی نے اسلامی بینک کا نظام متعارف کروادیا کام تو ہوا ہے اور ہورہا ہے؟
احمد جاوید: پہلی مثا ل لے لیتے ہیں، مولانا مودودی کا ’’مسئلہ سود‘‘۔اس کتاب کا بڑا فائدہ اوربڑی برکت یہ ہے کہ اس سے مسلمان کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ سود حرام ہے، بس۔ بلاسودی معیشت کا ایک نظام کے طو رپر کیسے پتہ چلے گا، اس کی کوئی رہنمائی ہے اس کتاب میں؟ سرمایہ دارانہ capitalisticسودی معیشت کی متبادل معیشت کے ضروری خدوخال اور ورکنگ پیپر ہے اس کتاب میں ؟ یا کسی بھی عالم کی کتاب میں؟ اس طرح تھوڑی ہوتا ہے۔ ایڈم اسمتھ کو پڑھیں تو آپ کو کیپٹلزم کی بائبل نظر آجائے گی۔ تو بلاسودی معیشت اپنی ورک ایبل حالت میں کہاں ہے؟ پھر یہ کہ کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی اسلامی مملکت کہلانے والے ملک میں بلاسودی نظام معیشت سرے سے موجود نہیں ہے۔ تو اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ علماء کے ذہن میں معیشت کا نظام بنانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ موجودہ معیشت کے دروبست کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ کیپٹلزم کا سامنا کرکے معیشت کا ایک ڈھانچہ بنانے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ بس ہوا میں احکام کی سطح پر بات کررہے ہیں کہ یہ حکم قرآن میں ہے، یہ حکم حدیث میں ہے، یہ حکم اخلاقی طور پر ضروری ہے۔ اخلاق بھی کتابی، قرآن و حدیث بھی کتابی، یہ سارے احکام اپنی تعاملی صورتوں میں ایک نظام کو چلانے والے کیسے بنیں گے؟یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے بھی معلوم ہے، سود حرام ہے۔
اب دوسرا ماڈل تقی عثمانی صاحب کا ہے۔ تقی عثمانی بڑے عالم ہیں، میں عالم نہیں ہوں۔ میرے ایک دوست ہیں، سینئر بینکر ہیں اور انٹلکچول بینکر ہیں۔ وہ نظام معیشت اور عالمی نظام معیشت کو تقی عثمانی سے ایک ارب گنا زیادہ جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ رام کا نام رحیم رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، جو ہم ان سے فرمائش کرتے ہیں کہ اس کو جائز بنا دیں، اس کو اسلامی بنادیں، وہ ہمارے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ ہمیں کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے، اسے اسلامی اصطلاحات میں بدل دیتے ہیں اور تھوڑا سا اس میں (ضابطے) Procedural change لے آتے ہیں۔عمل اور اس کی بنیاد اور اس کا نتیجہ وہی رہتا ہے۔ یہ وہی تصور ہے کہ مغرب پر ہم غالب نہیں آسکتے، مغرب سے ہم لڑ نہیں سکتے تو اب بعض مغربی اقدار میں کچھ جزوی اور غیر موثر آرائشی تبدیلیاں کرکے اسے مشرف بہ اسلام کرلو۔ یہ مذاق ہے اور یہ ہماری طرف سے ایک مکمل اعتراف شکست ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی شہرت ماہر اقبالیات کی بھی ہے۔ آپ نے اپنی عمر کا طویل عرصہ فکر اقبال کو عام کرنے میں بسر کیا۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کی فکر ہمارے لیے اور بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟
احمد جاوید: اقبال ہماری جدید روایات میں وہ آدمی ہیں جن کے یہاں ہم اسلامی ورلڈ ویو کو زیادہ کامل حالت تلاش کرسکتے ہیں۔ اقبال معاصرین میں غالباً عالم اسلام میں سب سے ممتاز اور منفرد آدمی ہیں جنہوں نے اس ضرورت کا ادراک کیا کہ اسلامی ورلڈ ویو جو ہے وہ پہلے تشکیل دینا چاہیے اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی کو پہلے بیان ہونا چاہیے واضح ہونا چاہیے ورلڈ ویو کی میں نے تعریف کردی کہ تصور خدا‘ تصور انسان‘ تصور کائنات اور تصور علم‘ اقبال کے علاوہ یہ ورلڈ ویو اتنی اونچی ذہنی سطح اور اتنی مضبوط جذباتی سطح دونوں سطح پر ظاہر ہوا ہے وہ ان کے معاصرین کو اس کا شعور اور احساس نہیں تھا۔ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ اور افادیت یہ ہے کہ جب بھی ہم ہوش میں آکر اپنا ورلڈ ویو بنانے کی کوشش کریں گے تو اس میں اقبال سے مدد لینی ناگزیر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اقبال کے بارے میں آپ کے استاد سلیم احمد سمیت کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری اور اقبال کے خطبات میں تضاد پایا جاتا ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
احمد جاوید: اقبال کی شاعری اور خطبات میں تضاد نہیں ہے، موضوعات کا فرق ہے اور موضوعات کا بیان کرنے کا فرق ہے۔ تضاد کہیں نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: وضاحت فرمایئے؟
احمد جاوید: وضاحت تو اس بات کی ہونی چاہیے کہ کہاں تضاد دیکھا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں عشق اور اپنے خطبات میں عقل کی فوقیت کے قائل نظر آتے ہیں۔ شاعری میں ایک مذہبی انسان کو ہم دیکھتے ہیں تو خطبات میں مغربی فکر سے متاثر دکھائی دیتے ہیں؟
احمد جاوید: نہیں وہ شاعری میں بھی مغربی فکر سے متاثر ہیں اور خطبات میں بھی ہیں۔ لیکن خطبات میں وہ مغربی فکر کا سامنا کرکے مغربی ذہن کے لیے قابل قبول تصور اسلام بتانے کی کوشش کررہے ہیں۰ شاعری میں ان کا مخاطب مسلمان ہے جس میں وہ اپنے ہی ورلڈ ویو سے آشنا کرنے کی جذبے اور عقل دونوں سطحوں پر کوششیں کررہے ہیں۔ تو مخاطب بدل جانے کے فرق سے طریقۂ کلام بدل گیا ہے اور استدلال کا نظام بدل گیا ہے اور وہ بدلنا ضروری تھا۔ غیر مسلم کے سامنے یا غیر مسلم طبیعت کی سامنے اسلام کو جس طرح پیش کیا جائے گا، وہ اس سے مختلف ہوگا جیسا کہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔تضاد کی نسبت نہیں ہے، تنوع کہہ سکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سلیم احمد صاحب نے جب اس رائے کا اظہار کیا تو ان کے سامنے آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا؟ ان سے بات ہوئی؟
احمد جاوید: ’’اقبال ایک شاعر‘‘ انہوں نے لکھی وہ بہت جلدی میں لکھی، انہوں نے وہ کتاب ایک مہینے میں لکھی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب سلیم بھائی نے یہ کہا تھا تو ہم اس بات کے قائل تھے کہ خطبات کا اقبال کوئی اور ہے شاعری کا اقبال کوئی اور ہے خطبات کا اقبال مغرب سے مغلوب ہوچکا ہے اور شاعری کا اقبال مغرب سے لڑنے پر اکساتا ہے۔ اس وقت میری بھی یہی رائے تھی جو استاد کی رائے ہے اوریہ فطری بات ہے لیکن جب میرا خود اقبالیات سے عملی تعلق سلیم احمد کے انتقال کے دو سال بعد پیدا ہوا ہے تو جب میں اقبالیات کے شعبے سے متعلق ہوا اور جب میں نے اقبال کو تفصیل سے اور زیادہ سنجیدگی سے پڑھا تو پھر مجھے یہ معلوم ہوا کہ سلیم احمد کی اس رائے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اقبال ایک بہت منضبط آدمی تھے۔ تضاد چھوٹے ذہن کے افکار میں ہوتا ہے ایک آدمی چیزوں کا holistic View کلی نقطہ نظر کھتا ہو اس میں غلطی ہوسکتی ہے کہ مغرب کی وجہ سے ترقی کررہاہے عالم اسلام علم نہ ہونے کی وجہ سے تنزل میں ہیں یہی وہ خطبات ہیں بھی کہتے ہیں۔شاعری مغرب کے تصور وجود کے مقابلے میں اسلام کا تصور وجود پیش کرتی ہے اور خطبات مغرب کے تصور علم کے سامنے اسلام کا تصور علم پیش کرتے ہیں تو اتنے بڑے بنیادی تھیمز(موضوعات) کا ادراک اور کلام کے دو ذرائع اختیار کرنا بڑے آدمی کاکام ہے ۔
فرائیڈے اسپیشل: آج کل سیکولرزم اور لبرل ازم کی اصطلاح ایک بار پھر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اس موضوع پر بہت بات کی جارہی ہے اورلکھا بھی جارہا ہے یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا سیکولرزم کفر ہے؟آخر ان کا مطلب کیا ہے؟ ذرا ہمیں سمجھایئے؟
احمد جاوید: سیکولرزم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں لبرلزم ایک رویہ ہے سیکولرازم ایک نظام ہے ان میں فرق یہ ہے کہ سیکولرزم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا اس کی لیے کسی خدا ئی ہدایات نامے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سیکولرزم ہے لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے ایمان بھی ٹھیک ہے آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے مومن ہونے کا راستہ بھی صاف رہے یہ رویہ ہے کہ کافر سے اس کی کفر کی بنیاد پر دوری نہ محسوس کرنا اور مومن سے اس کی ایمان کی بنیاد پر خصوصی محبت محسوس نہ کرنا یہ لبرل ازم ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک شخص اگر مسلمان ہے او روہ خود کو سیکولر کہے تو کیا اس نے اسلام کی جس بنیاد کا حلف لیا ہے اس کی خلاف ورزی کررہاہے؟
احمد جاوید: خلاف ورزی ہے ‘ مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔ سیکولزم کا مطلب ہے دنیا میں خدا کے اختیارات کو سلب کرلینا‘ خدا کو غیر متعلق کردینا تو سیکولر ازم مذہب کی اور خاص طور پر اسلام کی نفی ہے۔ عیسائیت نے تو اپنی اس پوزیشن کو قبول کرلیا کہ چلو دین انفرادی معاملہ ہے لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہی اس پر ہے کہ انسان اس کی انفرادیت اور اجتماعیت سب کی سب اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے یعنی اسلام کو انسان کی اجتماعی انفرادی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے اور سیکولرازم اس کو مانتا ہی نہیں۔ کہتا ہے، مرکز انسان خود ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے جو اساتذہ ہیں وہ اپنی بات کو آسان اسلوب میں بیان کرنے والے ہیں مثلا ایوب دہلوی، سلیم احمد وغیرہ لیکن بہت سے لوگوں کو آپ کے اظہار کا سانچہ بہت مشکل، ادق اور پیچیدہ محسوس ہوتا ہے اس کا کیا سبب ہے؟
احمد جاوید: میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں صداقت ہے یا نہیں ہے کیونکہ میں اپنے اوپر غور نہیں کرتا۔ لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو اپنی دفاع کی نیت کیے بغیر میں یہ کہوں گاکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ سلیم احمد کے اسٹائل میں ایک سلاست تھی لیکن مولانا ایوبؒ کی گفتگو آسان نہیں تھی۔ مولانا ایوب صاحب کی گفتگو میں بہت اصطلاحات تھیں وہ گفتگو عالموں کے لیے تھیں۔ میں یہ سمجھتا ہو کہ مخاطب میں فرق پیدا ہو جانے کی وجہ سے مجھے مشکل پسندی کا چارج سننا پڑتا ہے کیونکہ سامعین وہ نہیں رہے۔ اگرہمارے سامعین بھی مولانا ایوب صاحب اور سلیم احمد اور حسن عسکری جیسے ہوتے تو میرا خیال ہے کہ میرا طرز کلام ان کے لیے سہل تھا اب صورت یہ ہے کہ اخبار پڑھنے کی صلاحیت لے کر لوگ حقائق کی کھوج میں نکلتے ہیں۔ یعنی آپ جن سے بات کر رہے ہیں انہوں نے بمشکل اخبار کو پڑھ کر سمجھنا سیکھا ہے اب آپ ان سے بات کرتے ہیں حیات و کائنات کے مسائل کی یا کچھ گہرے مسائل کی تو وہ انہیں مشکل لگتے ہیں۔ لیکن وہ مشکل ہوتے نہیں ہیں میرے خیال میں، میں چیزوں کو واضح کرنے کا مزاج رکھتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں پہلے دو فقرے یا تمہیدی جملے ایسے بولتا ہوں جو اصطلاحی ہو اور جس میں بات پوری ہو جائے اور جو اس علمی معیار کے مطابق ہوں تو اس کے بعد زیادہ وقت انہی کی وضاحت میں لگاتا ہوں تو جس کی گفتگو میں وضاحت کرنے کا عمل زیادہ ہو اس کو مشکل کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ دوسرا مجھے ایک چیز کا جیسے بہت احساس رہتا ہے کہ علم کی اور علم کے بیان کی سطح کو گرنے نہ دیا جائے مخاطب کو دعوت دی جائے تم اوپراٹھو خود کو اس کاپابند نہ کیا جائے کہ میں علم کو اس کی سطح فہم پر گرا دوں،ہمارے زوال کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ہمالیہ کو کہتے ہیں کہ اپنا قد چھوٹا کرو تو میں تم سے معانقہ کروں گا۔ اگر تم نے اپنی بلندی برقرار رکھی تو میں چلا، تو یہ ذہن اونچائی کی کشش سے محروم ہو گیا ہے۔ مشکل میں ایک ذہین آدمی کے لیے دلکشی ہوتی ہے اس کو سوچ اس پر غور کرے اور اس کو حل کرے تو جن لوگوں نے مجھ سے کہا تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مشکل ہے تو میں نے ان سے ایک سوال کیا اور سب کا جواب مشترک تھا۔ مطلب یہ میں رپورٹ کر رہا ہوں۔ میں نے کہا تم نے غورکرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد یہ کہہ رہے ہو۔ غور کر کے کہہ رہے ہو۔ تمہاری بات مشکل ہے انہوں نے کہا غور کرنے میں نہیں سننے میں مشکل لگی۔ یعنی پہلا تاثر مشکل لگا۔ تو اس کے اندر یہ ارج نہیں پیدا ہوئی کہ ایک آدمی کی یہ بات سننے میں مجھے مشکل لگی ہے تو میں اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش تو کروں نا۔ اس جملے پردو مرتبہ غور تو کر کے دیکھو۔ اب آپ کسی کی بات پر دوسری مرتبہ غور تو کر کے دیکھو۔ اب آپ کسی کی بات پر دوسری مرتبہ غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور پہلے تاثر اس پر فیصلہ کر لیں کہ یہ بات مشکل ہے، لہٰذا میں اس کا مخاطب نہیں بنتا، میں اس پر غور نہیں کروں گا تو یہ تو بہت ہی لکڑی کے دماغ کا کام ہے نا۔ ورنہ ہم بھی چھوٹے تھے، اپنے استادوں کی باتیں نہیں سمجھتے تھے تو وہ حافظے میں رکھتے تھے، کاغذ پر لکھتے تھے اور پھر اگلی ملاقات تک اس پر غور کرتے تھے اور انہیں یہ بات فخریہ بتاتے تھے کہ ہمیں یہ بات آپ کی مشکل لگی اور ہم نے دو دن غور کر کے اس کواس طرح سمجھا ہے یہ درست ہے؟ تو کبھی درست ہوتی تو کہتے تھے، درست ہے۔ کبھی غلط ہوتی تھی تو کہتے تھے، یہاںیہ غلطی تھی اور بات واضح ہو جاتی تھی۔
کمنت کیجے