Home » علمی روایت سے انقطاع پر مبنی دینی تعبیر کا رجحان
اسلامی فکری روایت

علمی روایت سے انقطاع پر مبنی دینی تعبیر کا رجحان

 

مولانا وارث مظہری
دین کی حرفی تعبیر کا رجحان تو کسی نہ کسی شکل میں اسلامی علمی روایت میں بہت پہلے سے رہا ہے تاہم موجودہ عہد میں اس میں اضافہ ایک دوسری شکل میں سامنے آیا ہے۔ اور وہ ہےنص کی حرفی تعبیر کے ذریعے اپنی علمی روایت سے مکمل انقطاع کا رجحان۔یہ رجحان بنیادی طور پر اس دعوے پر مبنی ہے کہ ہماری علمی روایت میں قرآن کی تفہیم وتعبیر صحیح طور پر نہیں کی جاسکی۔ اور دین و شریعت کی نہایت مہتم بالشان تعلیمات بھی پردہ ٔخفا میں رہ گئیں۔ تمام فکری اور تہذیبی مسائل در اصل اسی مسئلے کی پیداوار ہیں۔ مخالفین کی طرف سے بہت سے مسائل وموضوعات کے حوالے سے جواعتراضات واشکالات پیش کیے جاتے ہیں ، ان کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ’’قرآن کے بالکل واضح بیانات‘‘ سےدانستہ یا نادانستہ طورپر چشم پوشی کرتے ہوئےہمفسرین ومجتہدین کی تقلید میں متعلقہ نصوص ؍آیات کے وہ معنی اخذ کرلیے گئے ہیں جوقرآن کی منشا کے صریح خلاف ہیں۔
اس کی مختلف مثالوں میں سے ایک مثال دیکھیں۔سوال یہ ہے کہ غلامی کی اسلام میں کیا حقیقت ہے؟ اس تعلق سے علما کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ اسلام نےجہاد کے نتیجے میں مفتوحہ قوموں کے قیدیوں کوغلام بنانے کی اجازت دی ہے کیوںکہ قیدیوں کے مسئلے کا یہ ایک بہتر حل ہے۔خود رسول اللہ نے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا اور صحابہ وتابعین کرا م کے یہاں غلام اور باندیاں تھیں ۔ اس کارواج اموی اورعباسی ادوار میں پورری شدت کے ساتھ باقی رہا۔ تمام فقہا ومجتہدین اس کوجائزقرار دیتے رہے ۔چناں چہ فقہ کی کتابوں میں غلامی کے حوالے سے تفصیلی مسائل موجود ہیں۔ا ن کا موقف یہ ہے کہ اسلام نے غلامی کے رواج پر بندش تونہیں لگائی تاہم غلاموں کی رہائی کے حوالے سے ایسے ترغیبی اور ترہیبی احکامات متعارف کرائے جن کے زیر اثر آہستہ آہستہ اس کا سد باب ہوجائے۔
لیکن زیر تذکرہ رجحان کے مطابق، جس کے نمائندے ہندوپاک دونوں میں پائے جاتے ہیں، درج ذیل آیت کے بعد جوبدرکے موقع پر نازل ہوئی قیدیوںکوقتل کرنے یا لونڈی اور غلام بناکر رکھ لینے کی گنجائش ہمیشہ کے لیے ختم کردی گئی۔(میزان:602):
َوإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا۔’’اور جب ان لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہوجنہوںنے کفر اختیار کررکھا ہے،توگردنیں مارو،یہاں تک کہ جب ان کی طاقت کچل چکے تومضبوطی سے گرفتارکرلوپھر چاہے احسان کرکے چھوڑدو یا فدیہ لے کر‘‘۔(محمد: ۴)
میرے مطالعے کی حدتک اس آیت کا یہ مطلب کسی قابل ذکر عالم ومفسرنے کبھی یہ نہیں لیا۔ چناں چہ کسی بھی معتبر تفسیر کی کتاب سے اس موقف کے حق میں دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ برصغیر ہند میں غالبا سب سے پہلے چراغ علی نے اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا۔جس کوسرسید احمد خاں کے رسالہ’’ ابطال غلامی‘‘(ص،۲۵) کے ذریعے تقویت حاصل ہوئی۔
یہ رجحان یا موقف نہایت درجہ علمی سادہ لوحی پرمبنی ہے۔یہ وقت کے پیچیدہ ترین مسائل کا ریڈی میڈ حل ڈھونڈنے کی کوشش ہے۔اس موقف پرسب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرخیر القرون میں پائی جانے والی غلامی کی مثالوں ،صحابہ وتابعین کے اعمال اور جمہور ائمہ ومجتہدین کے اجتماعی موقف کی کیا تعبیر کی جائے گی ؟ بغیرنکاح کے باندیوں سے استمتاع اور غلاموں سے انتفاع کے ان کے نظریہ وعمل کوکس خانے میں رکھا جائے گا؟
جواب ہے: قرآن سے جوبھی موقف متصادم ہو اس کوقبول کرنے کی ضرورت نہیں۔مجتہدین ومفسرین کو اس کے لیے معذور تصور کیا جائے گا کہ قرآن کا صحیح موقف سمجھنے میں ان سے اجتہادی خطا ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے اس مستقل رجحان کی جس کے مطابق ایسے فکری پیچیدگی رکھنے والے مسائل کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی چودہ سوسالہ علمی وفکری روایت سے اوپر اٹھ کرنصوص کی مجرد تعبیر کے ذریعے ان کا آسان حل دریافت کرلیا جائے اور اس سے پوری علمی روایت کے بارے میں جوپوزیشن بنتی ہےاس سے صرف نظر کرلیا جائے۔اس رجحان کی خطرنا کی کا سب سے اہم پہلویہ ہے کہ آپ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرون اولی میں بھی دین کے نہایت واضح اور صریح احکامات کی صحیح فہم وتفہیم ممکن نہیں ہوپائی۔یہ موقف سیکولر اور دین مخالف رجحان کے حاملین کے ہاتھوں میں ایسا خنجر دے دیتا ہے جس سے وہ بہ آسانی دین کی شہ رگ کوکاٹ سکتے ہیں۔اس کی مثال جسم کے ایک صحیح عضو کوکاٹ کر دوسرے خراب فرض کرلیے گئے عضوکی جگہ اس کی پیوندکاری کی کوشش ہے جس سے اس عضومیں پایا جانے والے’ نقص‘ کا تودور ہونا ممکن نہیں البتہ ایک صحیح تندرست وتوانا عضو کے بے کار ہوجانے کا خدشہ ضرور ہے۔

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں