مسلمان ممالک میں سے مصر ، ترکی اور ایران میں جدیدیت کا عمل کیسا رہا ؟ فائد ہ مند ثابت ہوا یا نقصان دہ ، اس سے کوئی ترقی یا خوشحالی آئی یایہ تنزل کی طرف گئے ؟ جدیدیت کو اپنا نا وقت کی ضرورت بن چکا تھا یا اس کو زبردستی ان معاشروں پر تھوپا گیا ؟ ان معاشروں میں آنے والی جدیدیت میں کوئی خامی تھی یا لانے والوں کا طرز عمل اور طریق کار درست نہیں تھا ؟ ان سوالوں کو کیرم آرم سٹرانگ کی کتاب “The Battle for God “ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ کتاب ویسے تو مجموعی طور پر جدیدیت اور قدامت پسندی کی کشمکش کی تصویر کشی کرتی ہے اور ان سوالوں کو موضوع بناتی ہے کہ مختلف معاشروں اور مذاہب میں جدیدیت کے حوالے سے کیا رسپانس رہا ، اور جدیدیت نے انسانیت کے لیے کیا اچھا اور برا کیا۔ اگر چہ مصنفہ بنیاد پرستی اور مذہب اورخدا کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کی تاریخ یا ایسی کاوشوں کا ذکرکرنا چاہتی ہیں جو ان ناموں پر کی گئیں تاہم میرے خیال میں انہوں نے اس کتاب میں زیادہ ترجدیدیت اور قدامت کی کشمکش کو ہی موضوع بنایا ہے ۔
یورپ میں جدیدیت کا انقلاب یکدم نہیں آگیا تھا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا ارتقاء تھا جبکہ مشرقی معاشروں میں جدیدیت کی اقدار کو نافذ کرنے کی کوششوں نے منفیت کو جنم دیا ۔ ان علاقوں کے حکمرانوں نے بزور بازو جدیدیت کو نافذ کرنے کی کوششیں کیں ۔ مغرب میں جدیدیت کا سفر عوام سےحکمرانوں کی طرف ہوا جبکہ ان علاقوں میں جدیدیت کا سفر حکمرانوں سے عوام کی طرف ہورہا تھا اور صرف ہنگامی نوعیت کے چند حالات کی وجہ سے یہ سب ہورہا تھا۔
مغرب میں جدیدیت کا سفر اقداری سطح پر تھا ، علوم و فنون، ٹیکنالوجی اور سائنس میں تھا ، جبکہ ان علاقوں کو صرف فوجی اور دفاعی طور پر پرانے طور طریقوں کو بدلنے اور اپنی افواج اور اسلحہ کو مغرب کی طرح نئے طرز پر ڈھالنے کی ضرورت تھی ۔ جدید ٹیکنالوجی جس کی بدولت مغرب نے دنیا پر قبضہ پایا، ان کو تین صدیاں لگ گئیں تھیں، لیکن مسلمان علاقوں کے حکمران یکدم وہی سب تبدیلی چاہتے تھے ۔
ان علاقوں میں چونکہ لوگ جدیدیت کو قبول کرنا نہیں چاہ رہے تھے بلکہ حکمران اس کے نفاذ کی کوششوں میں تھے، اس لیے لوگوں کے لیے ان کی اصلاحات سے اجنبیت رہی ۔ جدیدیت زدہ معاشروں میں لوگوں نے خود کو اجنبی محسوس کرنا شروع کردیا تھا ۔ ابتدا اگر چہ ایسی ہی تھی تاہم بعد میں حکمرانوں نے جدیدیت کے نفاذ کے لیے ایک طبقے کی باقاعدہ تربیت کی تو معاشرہ جدیدیت اور قدامت پسندی کے حامیوں کی رزم گاہ بن گیا ۔ اس میں کچھ لوگ جدیدیت کو تمام غموں کی دوا کہتے نظر آئے اور کچھ نے جدیدیت کو اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے زہر قاتل قرار دیا ۔
جدیدیت زدہ معاشرو ں میں لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ دوہری زندگی گزاریں، ایک جدید اور مغربی زندگی اور دوسری اپنی روایتی زندگی ۔ اس دوہرے پن اور دوہری ثقافت نے شناخت کے بحران کو جنم دیا جس سے تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی مسائل ان معاشروں میں پیدا ہوگئے ۔
مغرب میں بھی جدیدیت کا عمل اتنی آسانی سے نہیں رونما ہوگیا تھا ، بلکہ یہ انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوا جس کے لیے خون خرابہ کے علاوہ روحانی خواری بھی اٹھانی پڑی تھی ۔ ایسا نہیں کہ وہاں کشمکش ختم ہوگئی تھی یا ہوگئی ہے بلکہ مختلف ناموں سے کشمکش موجود رہی ہے ۔
مختلف اسلامی ممالک میں جدیدیت کن تجربات سے گزری ، اور اس نے کیا نتائج و اثرات مرتب کیے، ذیل میں تین ملکوں کا اس حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں ۔
محمد علی پاشا کو جدید مصر کا بانی کہا جاتاہے ۔ پاشا مصر میں جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا ، بطور عثمانی حکومت کے نمائندے کے آیا اور بعد میں اس کا آزاد والی بن گیا ۔ محمد علی پاشا نے مصر کو جدید طرز پر ڈھالنے کے حوالے سے جو تبدیلیاں کیں، ان کو دیکھنے سے جدیدیت کا سفر سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ محمد علی پاشا ایک فوجی جرنیل تھا ، مصر میں اس کو برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کا مقابلہ تھا اور ساتھ میں مملوکوں سے خطرہ تھا جن کی یہاں ماضی میں حکومت تھی۔ محمدعلی پاشا نے برطانیہ اور فرانس کی فوجوں ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے ملک کو جدید خطو ط پر ڈھالنا ضروری سمجھا کیونکہ مصر اور سلطنت عثمانیہ کئی مواقع پر فرانس اور برطانیہ سے بری طرح شکست کھا چکے تھے ۔ محمد علی کا ارتکاز چونکہ فوج پر تھا اس لیے جدیدیت براستہ فوج والا معاملہ اپنایاگیا جو کہ مغرب سے بالکل مختلف تھا ۔
محمد علی ٹیکنا لوجی ، تعلیم ، دفاع اور انتطامی امور کے ان کاموں میں یورپ کی تقلید کررہا تھا جو کہ جذبہ جدید کے سکے کا سیدھا رخ تھے ۔ لیکن ان تمام معاملات میں اس کو جن افراد کی ضرورت تھی، وہ اس کے پاس نہیں تھے، جن اقدارا ور آزادیوں کی ضرورت تھی، وہ اس کے ملک میں نہیں تھیں۔ اس کے ملک کے لوگ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، اس نے ایک طرف جبری بھرتیاں کیں تو دوسری طرف اس نے ایسے لوگ تیار کرنے کےلیے سکول و کالجز قائم کیے ۔ محمد علی نے تین صدیوں کا سفر چند سالوں میں کیا اور ایک زبردست اور مضبوط فوج بنائی ۔ اس فوج سے اس نے اردگر د کے علاقوں میں کافی تباہی مچائی اور فتوحات بھی کیں ۔ اس کی فوج ایک مضبوط فوج شمار ہوتی تھی ۔ محمدعلی نے اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا اور خون کی ہولی کھیلی ۔اس نے جدیدیت کو لانا چاہا، لیکن اس کی جمہوری اقدار ، آزادی اور مساوات کو یکسر نظر انداز کردیا ۔
محمد علی کی انتظامیہ و اداروں میں یورپین ، ترکی اور جدیدیت کے حامل اہلکار بھرتی کیے جاتے تھے ۔ اس کے تیار شدہ لوگ مخصوص ذہنیت کے تھے جو قدامت پسندوں سے مختلف تھے ۔ یوں قدیم اور جدید کی آویزش نے جنم لیا ۔ محمدعلی کاروبار میں صنعتیں چلانا چاہتا تھا ،ا ن صنعتوں کے لیے جن تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت تھی، وہ بھی یورپ کے یا محمدعلی کے قائم کردہ مخصوص اداروں کے تربیت یافتہ تھے ۔ جدید صنعت نے مقامی صنعت اور کاریگری کے نظام کو بہت متاثر کیا ۔ مصر میں دو عد د معاشرے بن چکے تھے، ایک قدامت پسندانہ سوچ جبکہ دوسرا جدیدیت کا حامل تھا ۔ اہل مغرب نے بتدریج چرچ اور ریاست کو جدا کیا تھا جبکہ مصر میں ایک ہی مرتبہ یہ کام کردیا گیا۔ان تمام اقدامات سے یہ عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئے تھے ۔
محمد علی نے مصر میں کپاس کی صنعت کو فروغ دیا اور ملک بھر میں کسانوں کو کپاس کی کاشت پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ اس نے جدید تعلیمی اداروں، سڑکوں، نہروں اور صنعتوں کا جال بچھا دیا اور اسکندریہ میں بحری جہاز ساز کارخانہ قائم کیا۔اس نے قاہرہ کو جدید بنیادوں پر استوار کیا اور اسے ایک جدید شہر بنایا۔ محمد علی پاشا کی جدیدیت پسندی سے جہاں مصر کو زراعت اور صنعت کے اعتبار سے ترقی ملی، وہیں ترقیاتی کاموں پر اندھا دھند رقم خرچ کرنے سے مصر قرضوں میں جکڑ گیا۔ دیوان مالیہ کے مطابق مصر پر 80 ملین فرانک (2،400،000 پاؤنڈ) قرضہ تھا۔
محمد علی پاشا اور اس کے بعد کے حکمرانوں نے جدیدیت کے تمام تر عمل سے نتیجہ یہی اخذ کیا کہ جدیدیت کا مطلب ہے مغرب کی غلامی ۔ یورپین جس دھوکہ دہی سے دنیا پر قابو پانے کی تگ و دو میں رہتے تھے اور وسائل کو لوٹتے رہتے تھے، اس سے یہ سخت دلبرداشتہ ہوئے ۔محمد علی کے پوتے عباس نے جب یورپ کا رویہ دیکھا تووہ یورپ کی ہر چیز سے نفرت کرتا تھا ، وہ اس نظریے کا حامل تھا کہ مغرب کا مطلب ذلت ہے۔ محمد علی چونکہ برطانیہ اور فرانس سے معاہدہ کرکے سلطنت عثمانیہ سے آزاد مصر کا حکمران بنا تھا، اس لیے مصر میں ان ملکوں کی مداخلت رہی ۔ بعد میں یہ مداخلت اس قدر بڑھی کہ یہ ملک برطانیہ کی کالونی بن کر رہ گیا ۔برطانیہ کے قبضے کے بعد اس معاشرے میں جدیدیت کا عمل اور بھی بڑھ گیا ۔ افکار و نظریات میں مصر میں جمال الدین افغانی ، شیخ عبدہ ، رشید رضا ، ڈاکٹر طہ حسین ، رفاعہ رافع الطہطاوی جیسے اساطین علم مذہب اور جدیدیت کے حوالے سے جدید سوالات کو مختلف انداز سے دیکھ رہے تھے ۔ایسا نہیں کہ یہ معاشرے کو جدیدیت کی طرف دھکیل رہے تھے بلکہ یہ جدیدیت سے پیدا شدہ سوالات اور حالات کا رسپانس دے رہے تھے ۔ سیاسی طور پر مصر میں اس کے بعد اسلامی سوشلزم اورایسی ہی جدیداصللاحات کے نام سے مختلف حکمرانوں نے نظام حکومت چلانا چاہا ۔
سلطنت ترکیہ میں بھی اسی قسم کا عمل دیکھنے میں آیا ۔ترکی میں احمد ویفک پاشا اور مصطفی رشید پاشا جویورپی افکار اور شخصیات سے آشنا تھے ، ان کا یقین تھا کہ سلطنت ترکی اس وقت تک جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور جدید اقوا م میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرسکتی جب تک یہ جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوکر اپنی افواج اور نظام حکومت کو جدید خطوط پر استوار نہیں کرلیتی ۔ سلطنت میں تمام شہریوں کو برابر حیثیت حاصل ہونی چاہیے ، عیسائیوں اور یہودیوں کو اب ذمی نہیں رہنا چاہیے ۔عدالت کے طریق کار میں اصلاح کی گئی اور اس کو فرانسیسی طرز پر ڈھالا گیاا ور شریعہ پس منظر میں چلی گئی ۔ سلطان محمود دوم نے 1826ء میں نئے قوانین متعارف کروادیے ۔ علماء نے ان تمام اصلاحات کی مخالفت کی کہ اس میں تو ا ن کو اپنے اسلامی ورثے سے محروم ہونا پڑے گا ۔ سلطان سلیم ثالث اور اس کے بعد محمود دوم کا تمام تر ارتکاز جدید فوج ، اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر تھا جس کے جلو میں دیگر چیزیں بھی آتی چلی گئیں ۔ بعد میں مصطفی کمال پا شا نے بزور بازو اسلامی نظام اور اس کے نشانا ت پر پابندی عائد کی ، خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا اور سیکولر ترکی کی بنیاد رکھی ۔
ایران بھی جدیدیت کے اسی عمل سے گزرا۔ شہزادہ عباس نے ایک جدید فوج کی ضرورت محسوس کی ۔شاہ عباس نے ایرانی فوج کو جدید طرز پر مسلح کرنے میں برطانیہ سے مدد لی۔ ان انگریزوں نے ایران میں توپ سازی کی صنعت شروع کی اور ایرانی افواج کو توپ خانے سے مسلح کر دیا۔ایرانی بعد کے ادوار میں عثمانیوں کے خلاف صف آرا رہے ۔ صفوی دور علمی لحاظ سے بنجر دور نظر آتاہے، لیکن شاہ عباس کے دور میں علم و فن میں قابل قدر ترقی ہوئی ۔ صفوی سلطنت کے بعد قاچار خاندا ن کے مختلف بادشاہوں میں بھی جدیدیت اور قدامت کی کشمکش جاری رہی ۔ جنگ عظیم میں ایران کو جرمنی کا ساتھ دینے پر شکست ہوئی ۔ اس کے بعد پہلوی خاندانی کی حکومت آئی جو کہ مکمل طور پر مغرب کی منظور نظر اور امریکہ کے اشارہ ابرو پر چلنے والی تھی ۔ اس کے بعد خمینی حکومت بھی اسلامی جدیدیت کا ایک نیا ماڈل تھی جس کی شیعہ روایت میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ولایت فقیہ اور ایسے نظریات بالکل نئے تھے جن کا ماضی میں کبھی کہیں وجود نہیں رہا تھا۔
مسلم معاشروں میں کبھی مغربیت اور جدیدیت کے اثر و نفوذ اور اس کی اقدار کے لیے تشدد کی راہ اپنائی گئی اورکبھی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اس راہ کو اپنایا گیا ۔ اسی طرح یہ دونوں طبقات بھی باہمی آویز ش میں رہے ۔ لیکن ان ممالک میں وہ طبقات جو جدیدیت کو لانا چاہتےتھے ، انہوں نے بھی اپنا مذہب اسلام ہی ظاہر کیا اور سلطنت میں بھی اسلام کو لانے کی بات اگر کی گئی تو اس سے انکار نہیں کیا ۔ ایران میں تو بعد ازاں اسلامی اسٹیٹ قائم ہوئی ، اسی طرح ترکی میں بھی اسلامسٹوں کی حکومت ہے اور مصر میں بھی ایک سروے کے ذریعے یہی بات سامنے آئی کہ وہ لوگ جو جدیدیت کی بات کرتے ہیں، وہ بھی اسلام یا اسلامی نظام کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور اسلامسٹ بہت سی جدید چیزوں کو بالکل ایسے ہی اپنائے ہوئے ہیں جیسے وہ اسلام میں منع نہیں ہیں ۔
مصر میں 1982ء میں ایک سروے میں یہ بات آئی کہ پردہ دار خواتین جو کہ قدامت پسند تھیں، ان میں سے اسی فیصد اس نقطہ نظر کی حامل تھیں کہ تعلیم عورتوں کے لیے لازمی ہے ۔ اٹھاسی فیصد پردہ دار خواتین یہ نقطہ نظر رکھتی تھیں کہ عورتوں کو گھروں سے نکل کر ملازمت اختیار کرنی چاہیے اور پردہ دار خواتین میں 77 فیصد کا ذہن تھا کہ عورتوں کو گریجویشن کرنے کے بعد ملازمت اختیار کرلینی چاہیے ۔ یہ مردو زن کے لیے ایک جیسے حقوق کی خواہاں تھیں ، عورتوں کو ریاستی عہدوں پر تعینات ہونا چاہیے ۔ ایک دلچسپ امر یہ تھا کہ پردہ دار خواتین اور مغرب زدہ خواتین دونوں اس امر پر متفق تھیں کہ ملک میں شرعی نظام نافذ ہونا چاہیے ۔
ترکی ، ایران اور مصر کے حالا ت کے مطالعہ سے یہ بات بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں نے جدیدیت کو جس حدتک قبول کرنے کی ضرورت تھی اس کو قبول کیا ، لیکن اسلام یا اپنی ثقافت سے بے تعلق نہیں ہوئے تھے ۔ قدامت پسندوں نے جدیدیت کی وہ اقدار جو زمانی تبدیلی کے تحت لازمی ہوچکی تھیں، ان کو قبول کیا اور ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے حق میں استعمال کرنا چاہا ۔ اسی طرح جدیدیت کے حامی لوگ بھی اپنی روایت ، مذہب ، ثقافت سے بے تعلق نہیں ہونا چاہتے، ان سے اگر ملک میں شریعت اور اسلام کے نفاذ کی بات کی جائے تو وہ بھی یہ چاہتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلم ریاستوں کو فلاحی ریاستیں بنانے پر تمام تر زور صرف کیاجاتا جس میں اسلامسٹ اور جدت پسند دونوں ابھی تک فیل نظر آتے ہیں ۔
یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جدیدیت میں فرق کرتے ہوئے مصنفہ لکھتی ہیں کہ جدیدیت کا تمام تر عمل مشرق وسطیٰ میں یکسر مختلف واقع ہوا تھا ۔ یہ حصول طاقت ، خود مختاری ، اور نئی اختراع کا عمل نہ تھا جیسا کہ یہ یورپ میں ظہور پذیر واقع ہوا تھا بلکہ یہ محرومیت ، خود انحصاری سے دست برداری اور غیر کامل اور غیر معیاری نقالی کا ایک عمل تھا ۔
یہ مکمل مضمون ہے یا جاری؟ اگر جاری ہے تو وضاحت ہونی چاہیے، مکمل ہے تو عجیب تشنہ تکمیل تحریر ہے
اچھا لکھا ہے۔۔ لیکن جدیدیت نے انسان کی شناخت کے مسائل کو منفی انداز میں نہیں ابھارا تھا۔
بلکہ جنگ عظیم اور صنعتی ترقی سے پہلے انسان اجتماع کا حصہ تھا۔ اس کا وجود شکست و ریخت کا شکار تھا۔ اس کے وجود کو بحیثیت فرد اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ جدیدیت نے اسے بحیثیت فرد اہمیت کا احساس دلایا۔
ایسی کیا چیز تھی جس نے جدیدیت کی تحریک کو کامیاب نہ ہونے دیا؟ وہ عقلیت پرستی کا رجحان تھا۔ مذہب بیزاری تھی۔۔۔
اور مشرق میں کوئی بھی تحریک یا رویہ ہمیشہ مغرب سے ہی آیا ہے۔۔ 😄 مشرقی ادب نے ہمیشہ ان رجحانات کو قبول کر کے اپنے ادب اور معاشرت میں شعوری یا غیر شعوری تبدیلی لانے کی کوشش کی عموماً قبلے کی یہ تبدیلی کا عمل غیر شعوری ہوتا ہے دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا کھویا کیا پایا ۔۔ ؟
اسی کے بعد وجودیت کی تحریک جنم لے لیتی ہے لیکن یہ تمام تحریکیں،رجحانات کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے اس میں اہم کردار تاریخ ادا کرتی ہے نہ کہ شخصیات۔ جدیدیت کو پروان چڑھانے میں بھی انیسویں صدی کی صنعتی ترقی اور جنگوں نے اہم کردار کیا۔