Home » ابن الوقت (ڈپٹی نذیر احمد)
اردو کتب تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

ابن الوقت (ڈپٹی نذیر احمد)

 

محمد یونس قاسمی

ابن الوقت مولوی نذیر احمد کا ایک مشہور ناول ہے جو 1888 ء میں لکھا گیا۔ اس میں تین اہم کردار ہیں ۔ نوبل صاحب، ابن الوقت اور حجۃ الاسلام۔ بعض ادبی ماہرین کا خیال ہے کہ ابن الوقت کے کردار سے سرسید پر چوٹ کی گئی ہے اور حجۃ الاسلام کے پردے میں خود مولوی نذیر احمد ہیں۔ بنیادی طور پر اس ناول میں انگریزی معاشرت کی تقلید کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اس کے انجام و عواقب پر بحث کی گئی ہے۔  یہ ناول جس دور کو اپناموضوع بناتا ہے  وہ ہندوستان میں ہونے والی جنگ آزادی 1857 کا دور ہے، جسے انگریز سرکار نے “غدر” کا نام دیا تھا۔

ناول میں موجود مختلف کرداروں میں سے ایک اہم کردارنوبل صاحب فرنگی ہیں اور برطانوی اقتدار کا اہم حصہ ہیں، وہ  یہ چاہتے ہیں کہ   ہندوستان میں برطانوی اقتدار کو طوالت اور استحکام نصیب ہو۔ برطانوی اقتدا کے استحکام کے لیے وہ انگریزی زبان اور اسکی تہذیب کا فروغ ضروری سمجھتے ہیں ۔ وہ اپنی اس فکر کوایک تحریک کا روپ دینے کے لیے ناول میں موجود مرکزی کردار “ابن الوقت” کو امادہ کرتے ہیں تاکہ یہ تاثر مل سکے کہ یہ تحریک خود ہندوستانیوں کے اندر سے اٹھی ہے۔ نوبل صاحب کے افکاراسی امپریل ایجنڈے کا حصہ ہیں جسے ہمیشہ نو آباد کاروں نے مختلف ذرائع سےپھیلانے کی کوشش کی۔

نوبل صاحب کے بقول انگریزی زبان اور خیالات کے پھیلنے سے ایک Gentlemenتیار ہوگا ، جو اپنی ذات میں آزاد خیال ، پختہ ارادوں کا مالک ،عالی حوصلہ ، باہمت ، فیاض ، ہمدرد اور سچا ہونے کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی صاف ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ  یہ وہ حقائق ہیں جو انسان میں انگریزی جانے بغیر پیدا ہونا محال ہیں۔ نوبل صاحب کہتے ہیں کہ موجودہ دور اس طرح کے Gentlemen  کے ظہور کے لیے بے تاب ہے اور  چپکے چپکے سے کوشش کر رہا ہے، نوبل صاحب اچھی طرح سمجھتے ہیں ، اگرچہ ابن الوقت نہیں سمجھتے کہ یہ “چپکے چپکے کی کوشش “کتنے عرصے سے ہو رہی ہے۔ یہ کوشش  دراصل وہ سامراجی ایجنڈا ہے  جس  کی تکمیل کے لیے  کئی رسمی اور غیر رسمی ادارے  وجود میں آئے اور بہت سی تحریکیں اٹھیں۔

انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہم آج بھی اکیسویں صدی میں بھی  نو آبادیاتی کے جدید دور میں جی رہے ہیں۔ ہمارے وہ بزرگ اور اکابر جنھوں نے دانستہ یا نادانستہ اس ایجنڈے کو فروغ دیا، ہم ان کے اخلاص پر شک نہیں کرسکتے، مگر اس دور کے معروضی حالات کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ ۱۸۵۷کی جنگ آزادی کے بعد مختلف رد عمل سامنے آئے اور مختلف حکمت عملیاں وضع کی گئیں جن میں سے ایک حکمت عملی علی گڑھ کی تحریک کی صورت میں بھی سامنے آئی۔

ناول میں ایک کردار نوبل صاحب کے ملازم “جاں نثار” کا بھی ہے جو ابن الوقت کو اسکی وضع قطع کی تبدیلی میں مشورے دیتا ہے۔ یہ کردار بھی بہت دلچسپ ہے اور آج بھی کہیں نہ کہیں ہمیں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہ کردار اپنے نام کی طرح اسم بامسمیٰ ہے۔ ہر وقت انگریزوں کی تعریف میں رطب اللسان رہتا ہے۔ اس کے بقول انگریزوں کے بُرے بھی ہمارے اچھوں سے اچھے ہیں۔جلد ہی  ابن الوقت ریفارمر بننے کے لیے رضا مند ہوجاتا ہے ، لیکن جاں  نثار کا مشورہ ہے کہ حلیہ بھی بدلا جائے تاکہ انگریزوں کی ان سے اجنبیت ختم ہو۔ اس موقع پر جاں نثار اور ابن الوقت میں ہونے والے مکالمے بہت دلچسپ ہیں۔

ابن الوقت ریفارمر بننے اور انگریزی وضع قطع اختیار کرنے کے بعد نوبل صاحب کی طرف سے دی گئی ایک تقریب میں شریک ہوتے ہیں اور وہاں موجودانگریز افسران  سے  خطاب کرتے ہیں۔ یہ تقریر بھی اس ناول کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس تقریر میں ابن الوقت انگریز سرکار کے سامنے مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان موجود اختلافات کو بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں مقیم مختلف اقوام کے مابین کوئی  باہمی اختلافات کی یہ آگ بھڑکائے تو ہندوستانی ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ہماری باہمی چپقلش اور نااتفاقی انگریز سرکار کے لیے کسی  نیک فال  سے کم نہیں ہے۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابن الوقت “لڑاؤ اور حکومت کرو” کا فارمولا پیش کرنے والے پہلے انسان ہیں۔

ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفریق کو بڑھانا اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنا برطانوی حکومت کی حکمت عملی کا تقاضاتھا۔ یہ وہی ہندوستان تھا جہاں مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود سینکڑوں برس حکومت کی تھی اور اب اتنی بڑی تعدادمیں ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد برطانوی سرکار کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا، لہٰذا لسانی، مذہبی اور ثقافتی سطح پر ان میں موجود فرق کو مزید پاٹا گیا جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

ناول کی تیرہویں فصل میں ناول نگار ابن الوقت میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے انگریزی وضع قطع اور طور طریقے اپنا رنگ دکھانے میں کامیاب ہوئے۔ ڈپٹی نذیر احمد، انگریزی وضع اور طور اطوار کو اسلام کی ضد قرار دیتے ہیں کہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ابن الوقت جیسے جیسے انگریزی معاشرت کا حصہ بنتے گئے ہیں ، ساتھ ساتھ وہ مذہب سے بھی دور ہوتے گئے ہیں۔ جسکی ایک وجہ شاید ابن الوقت کے کمزور کردار کا پہلو بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تنہا فرد پر معاشرت ہمیشہ غلبہ پالیتی ہے۔

انسان پر تعلیم اور صحبت کسی نہ کسی طور حاوی ہو کر ہی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  ۱۸۵۷سے قبل انگریزی ز بان، تعلیم اور انگریزی عادات و اطوار کے پھیلاؤ کی منظم کوششیں سامنے آئیں اور ۱۸۵۷ کے بعد ان کوششوں میں تیزی لائی  گئی۔ اس ضمن میں سب سے کامیاب تحریک علی گڑھ کی تھی جو تعلیم، مذہب اور معاشرت کے فروغ کے لیے تھی۔ ایسا نہیں کہ ہم ان مصلحین و مفکرین  میں سے کسی کو بھی ابن الوقت پر قیاس کریں مگر یہ تمام افراد اپنی وضع  قطع اور طوراطوار میں خالص ہندوستانی تھے اور ہر تحریک کی طرح یہ تحریک بھی اپنے اندر مثبت اور منفی دونوں رجحانات لیے ہوئے تھی۔

ابن الوقت کی نئی وضع قطع اور جدید خیالات کو معاشرے میں پذیرائی نہ مل سکی۔ انھیں جگہ جگہ خفت اٹھانا پڑی، آہستہ آہستہ انگریز بھی ان سے بدظن ہوتے گئے۔ یہاں ناول کا ایک اور اہم کردار” حجتہ الاسلام” سامنے آتا ہے، جس کاجائزہ لینابھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ابتداء میں محسوس ہوتا ہے کہ ابن الوقت کے پردے میں ڈپٹی نذیر احمدخود بول رہے ہیں۔ مگر بہت جلد وہ نذیر احمدکے طنز کا نشانہ بنتے بھی نظر آتے ہیں۔ حجتہ الاسلام کو ابن الوقت کے طرزِ  زندگی اور خیالات پر سخت اعتراضات ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انھیں اس میں بھی شبہ نہیں کہ انگریز سرکار ہندوستان کے لیے ایک نعمت ہے۔ انھیں نذیر احمد کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔

اس ناول کو ایک ایسی دستاویز کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں ۱۸۵۷ کے بعد کا ابتدائی دور محفوظ ہو گیا ہے۔ نوآباد کاروں کے عزائم اور مقامی باشندوں کا مختلف طرح کا ردعمل اس میں موجود ہے۔ ہندوستان پر مغربی تعلیم اور تہذیب کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ حاکم اور محکوم کا تعلق کس نوعیت کا ہو گا اور مقامی باشندوں کی آپس کی گروہ بندیاں کیا صورت اختیار کریں گی؟ یہ اور اس طرح کے سوالات پیدا ہو چکے تھے لیکن جواب بعد کے دور میں ملتے نظر آتے ہیں۔

ابن الوقت کے تمسخرانہ کریکٹر سے نوآبادیاتی فکر کے معاملے میں نذیر احمد کے تحفظات نمایاں ہوجاتے ہیں۔ وہ اس فکر سے کبھی مغلوب ہونے اور کبھی مزاحمت کرنے کا انداز اختیار کرنے کا تاثر دیتے ہیں مگر وہ ہندوؤں کے مقابلے میں برطانوی سامراج  کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں اور یوں ان کا یہ خوف سامنے آجاتا ہے کہ صدیوں سے حکمرانی کرنے والے مسلمانوں پر کہیں ہندو حکمران نہ بن جائیں۔ اس لیے وہ اہل کتاب کی حکمرانی کو اپنے  لیےغنیمت سمجھتے ہیں۔

محمد یونس قاسمی

محمد یونس قاسمی نیشنل سکلز یونیورسٹی، اسلام آباد میں علوم اسلامیہ کے استاذ اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
myqasmi1981@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں