دینی مدارس برعظیم پاک و ہند کی تاریخ کا تسلسُل بھی ہیں اور اس کا ناگزیر حصہ بھی، اس طرح کہ برعظیم پاک و ہند کی تاریخ ان مدارس کے ذکر کے بغیر نہ تو مکمل ہو سکتی ہے نہ ہی اس خطے کے تہذیبی پس منظر اور روایت کی تفہیم کا مرحلہ آسان ہو سکتا ہے۔یہ اتنی بڑی حقیقت ہے، جس سے شاید خود ہمارے مدارس کے اس وقت کے متعلقین بھی پوری طرح واقف نہ ہوں، کیوں کہ ان کی گفت گو میں یہ تصور کم کم اور خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔
ہم اس ضمن میں چند نکات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
مدارس اور قدیم تعلیمی روایت
ہمارا مدرسہ اس قدیم تعلیمی روایت کا امین ہے، جس کی بنیاد رسمی ہوتے ہوئے بھی غیر رسمی تھی، جہاں آنے والوں کا مقصد محض دینی تعلیم تھا، جہاں استاد اور طالب علم کا باہمی رشتہ کچھ نظریات پر استوار ہوتا، اور جہاں پڑھتے ہوئے پڑھانے کی مشق بھی آپ سے آپ ہوجاتی تھی۔ اس وقت تعلیم انسان کے لیے کسی بھی عنوان سے کسب کا ذریعہ نہیں تھی۔ یہ بحث کہ انسان دینی تعلیم حاصل کر کے اسے ذریعہ معاش بنا سکتا ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ فضلائے مدارس کو ملازمت کرنی چاہیے یا نہیں؟ اور دینی تعلیم اور ملازمت میں کیا رشتہ ہے؟ ایک الگ عنوان ہے، اور ہم دوسری جگہ اس پر اپنا موقف پیش بھی کر چکے ہیں، لیکن وہ قدیم طرز تعلیم یہی تھا کہ اس سے وابستگی صرف اور صرف تعلیم کے لیے تھی، اس وقت بھی اس نظام کے تحت پڑھنے پڑھانے والے دونوں طرح کے لوگ ہی تھے، انتہائی متمول بھی اور انتہائی فاقہ کش بھی، مگر مکتب میں آ کر سب برابر ہوجاتے اور اس ماحول میں کبھی اس نوع کی طبقاتی تقسیم یوں بھی پروان نہ چڑھ سکی کہ وہاں کوئی متمول تھا تو وہ بھی فاقہ کشوں کا قدردان تھا، اور اس خاموشی سے ان کی کفالت کرتا کہ متعلقہ فرد اور خدائے واحد کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ یہ بات محض سرزمین ہندوستان میں مروج دینی تعلیمی نظام کی ہی کی خوبی نہیں، قرن اول سے مسلمانوں کا یہی طریق چلا آ رہا ہے۔ موجودہ نظام مدارس اس حوالے سے اسی کا تسلسُل ہے، اور اس نوع کے سلسلہ تعلیم کی چند بچی کچی جھلکیاں اب یہیں باقی ہیں۔
الف: اس نظام کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اس میں داخل ہونے والے طلبہ بعض اوقات پانچ پانچ اور سات سات برس تک اپنے گھروں سے بالکل لاتعلق رہتے تھے، اپنے گھر بار سے اس نوعیت کی لاتعلقی مکمل طور پر خود اختیاری تھی۔ اس کی شرعی حیثیت میں جائے بغیر یہ نکتہ بھی ہمارے لیے قابل غور ہونا چاہیے کہ آخر اس نظام میں ایسی کیا کشش تھی کہ انسان اپنے خونی اور انتہائی قریبی رشتوں سے یکسر لاتعلق ہو کر اتنا عرصے گھر سے باہر گزارنے پر کیوں کر آمادہ ہو جاتا تھا۔ پھر اس دوران اس کی ضرورتوں کی کفالت بھی اسی نظام تعلیم یا اس سے تعلق اور عقیدت رکھنے والے کچھ افراد کے ذمے تھی۔ ان میں مدرسے کے منتظمین، خصوصاً اساتذہ یا اس مدرسے کے سرپرست اہل ذوق اور اہل خیر حضرات شامل تھے۔
ب:اس نظام تعلیم کا ایک امتیاز اس میں پڑھائے جانے والے مضامین ہیں، جن میں سے بعض مضامین کو شاید آج کی دنیا غیر متعلق بھی قرار دے، لیکن ان کا وجود کسی نہ کسی صورت انہیں مدارس کی برکت سے قائم ہے۔مثال کے طور پر قدیم فلسفہ اور منطق، اسی طرح قدیم ادب عربی کی بعض اہم کتب، جن کی تدریس کی روایت بعض غیر ملکی جامعات کی محدود ترین دنیا کے سوا کہیں موجود نہیں۔
ج: بر عظیم پاک و ہند کا روایتی مدرسہ اس خطے کے عوام میں نہایت گہری جڑیں رکھتا ہے، گوکہ عوام کے تصورات، تاثرات، اہل مدارس سے ارادت کی شکلیں، تعلق کی نوعیتیں اور تعامل کی صورتیں جغرافیائی اعتبار سے مختلف ہوتی جاتی ہیں، مگر سب کا خلاصہ عوام کا ان سے گہرا ربط ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس ربط کے مظاہر درجنوں ہیں، مگر انہیں جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صرف پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس کی تعداد لاکھ بھر سے زیادہ ہے، اور ان سے وابستہ طلبہ کی تعداد کئی لاکھ، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے سالانہ اخراجات یقیناً اربوں میں ہوں گے، مگر کیا باور کیا جاسکتا ہے کہ یہ اخراجات پہلے سے کسی منصوبہ بندی کے بغیر محض توکل علی اللہ پورے ہوتے ہیں، اور جلد یا بہ دیر ہر مدرسے کے پورے ہوجاتے ہیں، جب کہ ان میں بعض مکاتب فکر سے وابستہ ایسے مدارس چند ایک ہی ہوں گے، جنہیں کسی بھی نوعیت کی کوئی گرانٹ ملتی ہو۔ یہ مالی اعتبار سے انتہائی کم درجے کے اہل خیر حضرات سے لے کر انتہائی بڑے درجے کے اہل خیر حضرات کی خاموش امداد سے ہی ممکن ہوتا ہے، یہ امداد بہ جائے خود اس ربط و تعلق کی کھلی دلیل ہے۔
لباس
مدارس کی تہذیبی روایت میں لباس بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے، یہ عامل اس حد تک قوت کا حامل ہے کہ اس میں مبالغے نے بھی بہت سے ناپسندیدہ اثرات مرتب کیے ہیں، مگر اس بات سے مدرسے کے اس تہذیبی پہلو کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ لباس انسان کا تعارف ہے، اور ہر خطے کا امتیازی پہلو، مگر مسلمانوں کے دور مغلوبیت نے ہمیشہ کی طرح ان پر جہاں ذہنی حوالے سے اثرات مرتب کیے، وہیں تہذیبی حوالوں سے بھی ان کی زندگی تشکیک اور انفعالیت کا شکار ہوئی، ایسے میں فقط مدرسہ بہ طور ادارہ اس انفعالیت کے سامنے سد راہ کے طور پر کھڑے رہنے میں کام یاب ہو سکا۔
آج ہمارا کرتا پاجامہ، شلوار قمیض، واسکٹ اور شیروانی، ٹوپی اور پگڑی اگر کہیں موجود ہے، اور محفوظ ہے تو وہ یا تو مدرسہ ہے، یا اس سے متاثر ومستفاد کوئی اور ادارہ۔کہنے میں یہ ایک معمولی بات ہے، مگر جس دنیا میں کم زور پڑتے اور مٹتے ہوئے آثار تہذیب کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر حکومتی سرپرستی کے ساتھ جداگانہ ادارے موجود ہوں، وہاں مدارس کی اس تہذیبی اہمیت کو پوری قوت کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہیے۔
زبان
برعظیم پاک و ہند کے مدارس کی تعلیمی زبان اردو ہے۔ گوکہ افغانستان اور اس سے متصل پاکستان کے بعض علاقوں میں پشتو میں بھی تعلیم دی جاتی ہے، اسی طرح سندھ میں بھی بعض جگہوں پہ سندھی بھی بہ طور زبان تدریس استعمال ہو رہی ہے، لیکن ان کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ اس کے علاوہ اس پورے خطے میں دینی مدارس میں تدریس کے لیے اردو ہی استعمال ہو رہی ہے۔ اس عمل نے اردو زبان کے فروغ میں نہایت غیر معمولی کردار ادا کیا ہے، اور آج اگر اردو دنیا میں نہایت بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی جانے والی چند زبانوں میں سے ایک ہے تو اس میں مدارس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں ایسے بھی بہت سے مدارس موجود ہیں، جہاں پچاس پچاس ممالک کے طلبہ مقیم ہیں اور زیر تعلیم بھی۔ یہ طلبہ آپس کے میل جول سے اردو زبان سیکھتے اور سمجھتے ہیں اور پھر اردو سے ان کا یہ رشتہ تا زیست برقرار رہتا ہے۔ افریقہ سے امریکا اور ایشیا سے یورپ تک دنیا بھر میں اردو پڑھنے لکھنے والے لوگ جس قدر بھی موجود ہیں ان میں بڑا حصہ مدارس یا ان مدارس سے اٹھنے والی تحریکوں سے متاثر ہے اور ان ہی کے طفیل وہ اردو سے واقف ہیں۔ ہم اگر اپنے قریب کے ممالک میں ہی دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ سرکاری سطح پر انڈیا میں ہندی اور بنگلہ دیش میں بنگلہ کو اردو کے مقابل خاص عصبیت کے ساتھ مروج کیا گیا، مگر دونوں جگہ اردو آج بھی موجود ہے، اور بولی، لکھی اور پڑھی جارہی ہے جس کا سب سے اہم سبب وہاں وموجود دینی مدارس ہیں۔
اردو سے واقفیت کی یہ دنیا محض پڑھنے پڑھانے یا بولنے اور سمجھنے تک محدود نہیں، بل کہ یہاں سے بہت بڑی تعداد میں لٹریچر بھی تیار ہو رہا ہے، جس کا اہم حصہ ادب اور متعلقات ادب سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ یوں مدارس کے تہذیبی کردار میں فروغ زبان کے ساتھ ساتھ فروغ ادب کا پہلو بھی نمایاں اور قابل ذکر ہے۔ تفصیل کا محل نہیں، اس باب میں مدرسے اور مولوی کی خدمات صرف اردو ادب تک بھی محدود نہیں، اس میں عربی اور فارسی کا انتہائی بڑا اور قابل قدر و قابل ذکرحصہ بھی شامل ہے۔
برعظیم کی معاشرت اور مدارس
مدارس کے تہذیبی کردار کو جاننا ہو تو برعظیم پاک و ہند کے مسلم معاشرے کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے، اور اسے نظر انداز کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ برعظیم پاک و ہند کا کوئی بھی انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ اس خطے کی عام روایت کے مطابق آج سے کچھ عرصے پہلے تک تو ہر نومولود بچے کے نام رکھنے سے لے کر باقی تمام امور تک محلے یا برادری کے مولوی کا وجود ناگزیر تھا، اب وہ کیفیت پوری طرح تو موجود نہیں، لیکن اس کیفیت میں کمی بھی محض شہروں کی حد تک ہے، دیہاتوں میں مولوی کے اس نوعیت کے گہرے سماجی اثرات آج بھی موجود ہیں۔ پھر یہ روایت آگے بڑھتی ہے تو خصوصیت کے ساتھ نکاح اور اس سے بھی زیادہ وفات اور اس سے منسلک درست یا بعض غیر درست رسومات کی صورت میں مولوی اور مدرسے کے ساتھ سماج کا تعلق نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ہمارے برعظیم میں مرنے اور جینے کے حوالے سے بہت سی رسومات ہیں، کسی حد تک ان میں مبالغے نے دینی مزاج کے برعکس ایسے رجحان بھی پیدا کیے ہیں جو ہماری عمومی دینی روایت کے یا تو منافی ہیں یا اس کے مقابل ہیں یا کم از کم وہ دینی مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں، لیکن اس سے قطع نظر ہم صرف سماجی دائرے میں ان رسومات کے اثرات کو دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا اظہار ان تمام امور سے بہ خوبی ہوتا ہے، چاہے ولادت سے متعلق روایات و رسومات ہوں، چاہے نکاح کی روایت ہو، یا پھر وفات سے وابستہ رسوم و رواج، یعنی وفات، غسل و تکفین، نماز جنازہ، تدفین و دعا۔ اس کے بعد سوئم اور دسویں اور چالیسویں کی روایت یا پھر بزرگان دین کے ایام مناتے ہوئے ان کے عرس اور مذہبی اجتماعات غیرہ کی روایت، نیز محرم، ربیع الاول، معراج، رمضان اور دیگر مذہبی تہواروں کے موقع پر ہمارے عمومی اور مختلف النوع مسلکی رواج و رسوم وغیرہ سب مولوی کی اہمیت ہمارے سامنے بیان کرتے نظر آتے ہیں، اور مولویت کے رشتے سے ہمارے سماج میں مدرسے کی گہرائی تک پیوست جڑیں محسوس کی جاسکتی ہیں۔
مدرسہ اور مدرسے کی بنیادی تخلیق مولوی معاشرے سے جن بنیادوں پر منسلک ہے، ان کے بعض مظاہر ہم علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں۔
افتا
ہمارے معاشرے کا کوئی فرد چاہے کسی قدر دین سے عملی طور پر لاتعلق کیوں نہ ہو،چند بنیادیں ہر ایک کے لیے ایسی واضح موجود ہیں جو اسے بھی مدرسے اور مولوی سے منسلک رکھتی ہیں، ان میں ایک دارالافتا ہے۔ آج ہر بڑے مدرسے کے ساتھ ایک دارالافتا موجود ہے، اور اب تو یہ کیفیت ہے کہ آن لائن افتا اور اس کے ساتھ ساتھ واٹس اپ وغیرہ پر ہر وقت پیش آمدہ مسائل جاننے کی سہولت میسر ہے۔ اس قسم کے دارالافتا سے جو سوالات عام طور پر کی جاتے ہیں ان میں دو تین نوعیتیں نمایاں ہیں، اکثر سوالات نکاح اور طلاق کے حوالے سے کیے جاتے ہیں، یا پھر وراثت کے معاملات میں دارالافتا سے رجوع کیا جاتا ہے،خاص طور پر وراثت نیز نکاح و طلاق کے معاملے میں ہماری بعض عدالتیں بھی ان فتاویٰ کو اہمیت دیتی ہیں اور انہیں اپنے فیصلوں میں ذکر کرتی ہیں۔ اب چاہے جو بھی صورت ہو، یا ان موضوعات کے علاوہ دیگر مسائل کے حوالے سے یہ رابطہ رہتاہو، لیکن ہمارے برعظیم پاک و ہند کے معاشرے میں نوے فیصد سے زائد افراد ایسے ہیں جن کا زندگی میں ایک آدھ بار ضرور کسی دارالافتاسے رابطہ ہوتا ہے، اور مسائل جاننے کے لیے کسی عالم یا مفتی سے رابطے کی مقدار اور اس کا تناسب تو اس قدر ہے کہ اسے شمار کرنا بھی شاید ممکن نہ ہو۔ہمارے معاشرے کے مدرسے اور مولوی سے منسلک ہونے کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، جسے ہم اپنے عام تجزیوں میں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
مکتب۔ناظرہ۔قرآن کی تعلیم
ہمارے معاشروں میں عام لوگوں کا مدرسے سے رابطہ سب سے زیادہ مکتب اور گھروں میں پڑھانے والے حفاظ کرام کے ذریعے ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ان میں سے کس قدر حضرات باقاعدہ حافظ یا قاری ہیں، اور کس قدر عالم ہیں یا یہ کہ ان میں علما موجود ہیں یا نہیں، دل چسپ امر واقعی یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد علمائے کرام کی بھی ہے، جو اپنی معاشی مجبوریوں کے سبب گھر گھر جاکر قرآن کریم پڑھ کر اپنا پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔ان قرآنی مکتبات کی ایک شکل آن لائن کلاس کی صورت میں بھی سامنے آ چکی ہے، تاہم ان تمام صورتوں کے اپنے اپنے فوائد بھی ہیں اور مفاسد بھی،جن پر بات ہونی چاہیے لیکن یہ بحث ہمارے اس موضوع سے الگ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ 99 فیصد افراد اپنے بچوں کو قرآن کریم کی ناظرہ تعلیم کے لئے انہی میں سے کسی ایک شکل کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ عام طور پر گھروں میں استاد کو بلا کر بچوں کو قرآن کریم پڑھایا جارہا ہے اور بعض صورتوں میں محلوں میں مساجد میں یا گھروں میں قائم مکتب کے ذریعے یہ ذمے داری ادا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، دونوں صورتوں میں اگر چہ کہ مدارس سے وابستہ اور باقاعدہ علما کی بڑی تعداد اس سے منسلک نہیں لیکن ان حفاظ یا قاری صاحبان کاعوامی تعارف بنیادی طور پر مولوی اور مدرسے تعارف کا ذریعہ ہے۔ اس غیر روایتی انداز سے بھی ہمارا معاشرہ مدرسے اور مولوی سے منسلک ہےاور بہت گہری وابستگی کے ساتھ منسلک ہے۔
ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے ڈائریکٹر اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے مدیر ہیں۔
syed.azizurrahman@gmail.com
کمنت کیجے