Home » بچوں کی پرورش اور ماؤں کی مشکلات
سماجیات / فنون وثقافت

بچوں کی پرورش اور ماؤں کی مشکلات

 

آج کا انسانی سماج مختلف النوع معاشروں کا مجموعہ ہے۔ ان معاشروں کی اپنی اساس اور اپنی تاریخ ہے۔ قدیم زمانے میں چونکہ معلومات تک رسائی آسان کام نہ تھا اور سفری سہولتوں کا فقدان تھا، اس لئے یہ معاشرے ایک ہی سورج کے گرد چکر کاٹنے والے مختلف سیاروں کی طرح ایک مرکز سے جڑے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ الگ تھے۔ ان کا ایک دوسرے پر اثر بھی “انسانیت کی کشش” کی صورت میں کشش ثقل کی مانند ہی تھا، غیر مرئی اور غیر منکشف۔ اب جبکہ دنیا گلوبلائزڈ ہو گئی ہے تو نہ صرف افراد ایک دوسرے سے واقف ہو رہے ہیں بلکہ معاشرے بھی اسی طرح ایک دوسرے میں مدغم ہو رہے ہیں جیسے دو کہکشائیں ملتی ہیں۔  دونوں کے ملنے سے بہت کچھ ٹوٹتا ہے اور بہت کچھ نیا بن رہا ہوتا ہے۔ یہی معاملہ آج کے انسانی معاشروں میں ٹوٹنے والے قدیم روایات اور بننے والے نئے تصورات اور طرز ہائے زندگی کا بھی ہے۔

مشرق اور مغرب کے یہ معاشرے جدت کی طرف پیش قدمی کی ابتدائی تاریخ میں جب ٹکرائے تو یورپ نے مسلمان معاشروں سے علم کی قدردانی پائی۔ اب جب کہ یہ گلوبلائزیشن کے باعث دوبارہ ٹکرا رہی ہیں اور مدغم ہو رہی ہیں تو مسلمانوں سمیت تقریباً تمام معاشرے مغرب سے طرزِ زندگی لے رہے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی ایک پورا پیکج ہے۔ یہ علم اور علمیت سے لے کر فیشن تک سب کچھ ہے۔ اس میں ہمیں بہت کچھ لینا ہے تو بہت کچھ ترک کرنا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر معاشرے میں عورت کے کردار اور اس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں وارد ہونے والی تبدیلیوں کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

یہ بات اب ہمارے معاشرے کا متوسط یا سفید پوش طبقہ مان رہا ہے کہ عورت کی “کنٹری بیوشن” کے بغیر گھر کا چولہا، بچوں کی فیس وغیرہ کا معاملہ تن تنہا مرد پورا نہیں کر سکتا  اور درست بھی ہے۔ اس لئے ہانڈی روٹی تو ہوتی رہے گی، یہ معاملات بھی اہم ہیں۔ عورت کو گھر کے باہر کردار ادا کرنے کے قابل سمجھ لیا گیا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں بچوں کی نگہداشت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے اکثر جید علماء اس بات کا درس دیتے ہیں کہ بچے کو سات سال تک ماں سینے سے لگا کر رکھے۔ بچوں کو کم عمر میں سکول بھیج دینا ظلم تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ماحول میں اگر کسی کام کرنے والی عورت کا نومولود بچہ ڈے کیئر جاتا ہے تو بچے کو ترحم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عورت کو  ایسا خاموش تاثر دیا جاتا ہے کہ اس سے بہتر اس پر گھڑوں پانی ڈال دینا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی خاتون، گھر میں رہنے کے باوجود، کسی ڈھائی تین سال کے بچے کو پلے گروپ میں داخل کروانے کی بات کرے تو اول تو یہ بات مانی نہیں جاتی، اور اگر   مانی جائے تو بھی بادل نخواستہ کی کیفیت ہوتی ہے۔

ہم چونکہ قدامت پسند لوگ ہیں اس لئےاگر ہم اپنے ملک کے ماضی قریب کے طرزِ زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اکثر گھر وسیع ہوا کرتے تھے۔ نہ بھی ہوتے تو محلے تو آباد ہوتے ہی تھے۔ اولاد والدین سے زیادہ محلے والوں کے ہاں پل رہی ہوتی تھی۔ میرا اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کا بچپن اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پھر کچھ بڑے ہونے کے بعد بچے گھر سے باہر یا گھر کے ہی کسی کونے میں کھیل کود کرتے رہتے تھے۔ مائیں زیادہ تر گھر کے کام کاج میں مصروف رہتیں اور اکثر صرف کھانے پینے اور سونے کے اوقات میں بچوں کے احوال کا جائزہ لیتی تھیں۔

آج کے حالات میں بچوں کی پرورش والدین اور خاص طور پر ماؤں کے لئے ایک ذہنی کوفت اور اذیت کی وجہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ بات شاید ناگوار لگے، لیکن اکثر و بیشتر خاندان ایک الجھن پریشانی اور غیر ضروری تناو کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی دباؤ کے ساتھ ساتھ گھر کے اندر کا ماحول وہ رویہ پیدا کر رہا ہے جو ہمیں  اپنے ارد گرد نظر آتا ہے۔ گھر چھوٹے ہیں، محلوں میں جانے کی اجازت ہم اپنے بچوں کو خود نہیں دیتے۔ بچوں کی دوستیاں محدود ہیں۔ ان کی جسمانی توانائیوں کو پروان چڑھانے کے لئے جو میدان چاہئے وہ مفقود ہیں۔ اس صورت میں ان کا سارا غبار گھر میں ہی نکلتا ہے جس کو اکثر نیوکلیئر فیملیز میں ایک ماں ہی سنبھالتی ہے۔ اگر جوائنٹ فیملیز ہوں بھی تو زیادہ دیر ان کی اچھل کود اور نہ ختم ہونے والے مطالبات پورے کرنا گھر والوں کے بس کی بات نہیں رہتی۔ یہ معاملات ایک ورکنگ ویمن کے لئے مزید مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
مغربی معاشرے سے موازنہ کیا جائے تو اول تو وہاں اکثر سکولز کے اوقات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ بچے زیادہ تر وقت باہر ہی رہتے ہیں۔ سکولز میں ان پر پڑھائی کے ساتھ کھیل کود اور باقی ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا لازمی ہوتا ہے۔ بچہ نہ صرف ذہنی خوراک حاصل کرتا ہے بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی بہتری کی طرف جاتا ہے۔ سکول کے علاوہ بھی بچوں کے لئے بُک کلبز، سویمنگ، اور مختلف النوع کھیل کود یا مزید پڑھنے کے مختص مقامات ہوتے ہیں جس میں وہ جا سکتے ہیں۔ چھوٹے بچے ڈے کئیر اور پلے گروپ جیسی جگہوں پر تقریباً آدھا دن گزار کر مناسب رویے اور آداب واطوار سیکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ بوجھ جو ہمارے معاشرے میں صرف والدین اٹھاتے ہیں، وہاں پورا معاشرہ نئی نسل کی پرورش میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بانٹ رہا ہوتا ہے۔
اس تناظر میں میرا اہل علم سے یہ سوال ہے کہ جب ہمارا طرزِ زندگی بدل رہا ہے، اور رہنے سہنے کے طریقوں میں پیچیدگی در آئی ہے تو کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ہم خواتین پر ڈالے ہوئے اس بوجھ کو کم کرنے کے لئے، محلے کے متبادل کے طور پر ہی سہی، ان کے لئے ڈے کئیر یا پلے گروپ میں بچے بھیجنے کو “جائز” تصور کر لیں اور ان کو “تم ایک ظالم ماں ہو” والی نظر سے دیکھنے کی حوصلہ شکنی کریں؟

ڈاکٹر سیدہ حور العین

ڈاکٹر سیدہ حور العین نے تقابل مذاہب میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور یونیورسٹی آف پشاور کے کالج آف ہوم اکنامکس میں تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں۔
hoor.sadiq@uop.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں