ڈاکٹر محمد زاہد صدیق (ایسوسی ایٹ پروفیسر، نسٹ)
محترم عمران احسن نیازی صاحب اپنی کتاب The original meaning of Hanafi Usul al Fiqh میں علم فقہ کی عام طور پر مروجہ تعریف پر اس بنیاد پر تنقید فرماتے ہیں کہ اس تعریف کی رو سے قواعد فقہیہ نیز ان سے معلوم ہونے والا علم فقہ کی تعریف سے خارج ہوجاتا ہے۔ ان کے مطابق فقہ کی یہ تعریف شافعی نظام فکر کی بازگشت ہے جہاں (الف) قواعد فقہیہ حجت نہیں مانے جاتے کیونکہ (ب) امام شافعی حرفیت پسند (لٹرلسٹ) فقہیہ تھے ، نیز (ج) امام شافعی کے ہاں قاعدے سے استدلال اس لئے نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ آپ عام کو ظنی کہتے ہیں (فی الوقت ہمیں ان تین مقدمات و دلائل سے سروکار نہیں)۔ اسی بنا پر فقہ کی تعریف میں ایسے الفاظ شامل ہوگئے جو قواعد فقہیہ کو ادلۃ شریعۃ کی فہرست سے خارج کردیں۔ پھر متاخرین احناف نے بھی شوافع کے زیر اثر اس تعریف کو اپنا لیا اور ایسا کرتے ہوئے گویا زیادہ غور و فکر سے کام نہیں لیا گیا کہ اس سے قواعد فقہیہ کا وہ علم خارج از اصول فقہ و فقہ ہوجاتا ہے جو فقہ حنفی کی اصل روح ہے۔ محترم برادر ڈاکٹر مشتاق صاحب بھی استاد محترم کی اس رائے کی تصویب فرماتے ہیں۔ ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ فقہ کی تعریف عام طور پر یوں کی جاتی ہے:
العلم بالاحکام الشرعیة العملیة من ادلتها التفصیلیة
اس تعریف میں الفاظ “ادلۃ تفصیلیہ” شامل کرنے کا مقصد اسے “ادلۃ اجمالیہ” سے الگ کرنا ہے جو اصول فقہ کا موضوع ہیں تاکہ فقہ و اصول فقہ میں تمیز قائم ہوسکے۔ ادلۃ اجمالیہ کی مثالیں قرآن، سنت، اجماع وغیرہ ہیں اور اسی طرح یہ قواعد جیسے کہ “امر وجوب کے لئے ہوتا ہے”، “عام قطعی ہوتا ہے “وغیرہ، یہ سب اصول فقہ کا موضوع ہے۔ اس کے برعکس ادلۃ تفصیلیہ کسی “معین دلیل” کا نام ہے، جیسے قرآن کی آیت اقیموا الصلاة سے نماز کی فرضیت ثابت ہونا وغیرہ۔ چنانچہ درج بالا تعریف کے تناظر میں دلیل تفصیلی کے تذکرے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس سے ہونے والے نقصان کا ذکر نیازی صاحب یوں فرماتے ہیں:
Quran sunnah, ijma and qiyas considered as a whole are all addillah ijmaliyyah. The meaning also includes general principles that contain within them a large number of rules. The question is often raised whether the qawaid fiqhiyya can be taken to mean adillah. The answer according to this definition has to be “no they cannot be treated as such”. The definition, therefore, effectively excludes the general principles from this meaning, thus paving the way for a literalist framework for the operation of fiqh” (p. 97)
آپ مزید فرماتے ہیں کہ اس تعریف کی رو سے صرف قواعد فقہیہ ہی نہیں بلکہ مقاصد شریعہ کے تحت ثابت ہونے والے متعدد مصلحتی قواعد بھی فقہ سے خارج ہوجاتے ہیں :
The word detailed evidences (daleel e tafsili) therefore exclude the principle of maslahah (p. 99)
تاہم علمائے شوافع کا لٹریچر دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک قواعد و مصالح نہ دلیل تفصیلی سے خارج ہیں اور نہ ہی دلیل اجمالی سے۔ مثلا علامہ سبکی دلیل نے دلیل اجمالیہ کی 18 و تفصیلیہ کی 17 مثالیں دیتے ہوئے مصلحت مرسلہ کا صراحتا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ قاعدہ و مصلحت اس اعتبار سے دلیل اجمالی بن کر اصول فقہ کا موضوع ہے کہ اس کی حجیت کیسے ثابت ہے، اس کی اقسام کیا کیا ہیں، اس کے حصول کا طریقہ کیا ہے وغیرہ، اصولیین شوافع کے ہاں اس پر تفصیلی بحثیں قیاس کے ابواب میں درج ہوتی ہیں کہ وہ اسے قیاس ہی کی ایک صورت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور اس اعتبار سے یہ دلیل تفصیلی ہے کہ ان کے تحت آنے والے متعدد معین قواعد یا مصلحتیں (مثلا “مسلمانوں کے مجموعی مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح حاصل ہے”، “کسی شے کی علامت کو اس شے کے قائم مقام بنا دیا جاتا ہے” وغیرہ) دلیل تفصیلی کہلاتی ہیں جن سے جزی احکام ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بعینہ اسی طرح ہے کہ مثلا “امر وجوب کے لئے ہے”، یہ قاعدہ اصولیہ یا دلیل اجمالی ہے، پھر اقيموا الصلاة دلیل تفصیلی جس سے وجوب صلاۃ کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح مصلحت (ملائم، غریب یا مرسل) کا حجت ہونادلیل اجمالی ہے، ایک خاص یا معین قاعدہ مصلحت دلیل تفصیلی ہوتی ہے جس سے کسی معاملے کے جواز یا عدم جواز کا حکم معلوم ہوجاتا ہے (جیسے امام غزالی کی یہ مشہور مثال کہ اگر دشمن قلعہ بند ہوکر مسلمان کو ڈھال بنا لیں اور مسلمان کا قتل کئے بغیر کفار تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو کیا ایسا قتل کرنا جائز ہے؟)۔ الغرض ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں۔ ایک “معین مصلحتی قاعدہ ” ایک دلیل تفصیلی ہوتا ہے (اور ایسے بے شمار قواعد ہیں) جسے کسی معین صورت یا فرع پر لاگو کرتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے کہ اس صورت مسئلہ میں وہ علت یا وصف پایا گیا جس کی بنیاد پر متعلقہ قاعدہ تفصیلی وضع کیا گیا۔ اگر جواب اثبات میں ہو تو اسے اس صورت مسئلہ پر لاگو کرکے حکم اخذ کیا جاتا ہے۔
رہی یہ بات کہ کیا شوافع ایسے قواعد کے قائل ہیں جن پر براہ راست کوئی اصل دلالت نہ کرے، تو اس کے اثبات پر ان کی اصول فقہ و قواعد کی کتب گواہ ہیں۔ اگرچہ یہا ں یہ ہمارا موضوع نہیں، تاہم بطور مثال صرف یہ دو عبارات ملاحظہ ہوں۔ علامہ عز الدین عبد السلام (م 660 ھ) “قواعد الاحکام فی مصالح الانام” کتاب میں قواعد کے ذریعے حکم اخذ کرنے کی متعدد مثالیں دینے کے بعد لکھتے ہیں:
وَمَنْ تَتَبَّعَ مَقَاصِدَ الشَّرْعِ فِي جَلْبِ الْمَصَالِحِ وَدَرْءِ الْمَفَاسِدِ، حَصَلَ لَهُ مِنْ مَجْمُوعِ ذَلِكَ اعْتِقَادٌ أَوْ عِرْفَانٌ بِأَنَّ هَذِهِ الْمَصْلَحَةَ لَا يَجُوزُ إهْمَالُهَا، وَأَنَّ هَذِهِ الْمَفْسَدَةَ لَا يَجُوزُ قُرْبَانُهَا، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا إجْمَاعٌ وَلَا نَصٌّ وَلَا قِيَاسٌ خَاصٌّ، فَإِنَّ فَهْمَ نَفْسِ الشَّرْعِ يُوجِبُ ذَلِكَ (ص 2 / 189)
اسی دور کے ایک شافعی عالم الزنجانی (م 656 ھ) کتاب “تخریج الفروع علی الاصول” میں لکھتے ہیں:
ذهب الشَّافِعِي إِلَى أَن التَّمَسُّك بالمصالح المستندة إِلَى كلي الشَّرْع وان لم تكن مستندة إِلَى الجزئيات الْخَاصَّة الْمعينَة جَائِز ۔۔۔ (پھر مثالیں دینے کے بعد کہتے ہیں) ۔۔۔ وَهَذِه مصلحَة لم يشْهد لَهَا أصل معِين فِي الشَّرْع وَلَا دلّ عَلَيْهَا نَص كتاب وَلَا سنةبل هِيَ مستندة إِلَى كلي الشَّرْع وَهُوَ حفظ قانونه فِي حقن الدِّمَاء مُبَالغَة فِي حسم مواد الْقَتْل واستبقاء جنس الْإِنْس وَاحْتج فِي ذَلِك بِأَن الوقائع الْجُزْئِيَّة لَا نِهَايَة لَهَا وَكَذَلِكَ أَحْكَام الوقائع لَا حصر لَهَا وَالْأُصُول الْجُزْئِيَّة الَّتِي تقتبس مِنْهَا الْمعَانِي والعلل محصورة متناهية المتناهي لَا يَفِي بِغَيْر المتناهي، فَلَا بُد إِذا من طَرِيق آخر يتَوَصَّل بهَا إِلَى إِثْبَات الْأَحْكَام الْجُزْئِيَّة وَهِي التَّمَسُّك بالمصالح المستندة إِلَى أوضاع الشَّرْع ومقاصده على نَحْو كلي وَإِن لم يسْتَند إِلَى أصل جزئي (ص 320)
اسی طرح شافعی اصولیین امام جوینی(م 478 ھ) ، غزالی (م 505 ھ) و رازی (م 606 ھ) رحمہم اللہ کے ہاں بھی مصلحت مرسلہ کی قبولیت کا صراحتاً ثبوت ملتا ہے۔ خود امام شافعی (م 204 ھ)کی کتاب “الام” میں استنباط احکام کے ضمن میں قواعد فقہیہ و ضوابط صراحتا مذکور ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اصول فقہ و فقہ کی معروف تعریفات میں ایسا کوئی جھول معلوم نہیں ہوتا جو قواعد و مصلحتوں کے علم کو خارج از فقہ و اصول فقہ قرار کر حنفی تصور فقہ پر ضرب لگاتا ہو اور نہ ہی علمائے شوافع قاعدے کے ذریعے استدلال کو دلیل اجمالی و تفصیلی سے باہر سمجھتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
کمنت کیجے