Home » امام شافعی رحمہ اللہ کا تصور قیاس
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

امام شافعی رحمہ اللہ کا تصور قیاس

 

دوست کا سوال ہے کہ کیا امام شافعی “قیاس علت” کے قائل ہیں؟ جواب: امام شافعی نے اپنے تصور قیاس کو اپنی کتاب “الرسالۃ” میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس پر کچھ بحث ان کی کتاب “الام” میں بھی موجود ہے۔ امام شافعی کے تصور قیاس کو سمجھنے کے لیے ان کی استعمال کردہ دو بنیادی اصطلاحات [key words] کو سمجھنا ضروری ہے؛ ایک “دلائل” جو دلالت کی جمع ہے اگرچہ دلیل کی جمع بھی یہی آ جاتی ہے اور دوسرا “معنی” کہ جو ان کی تحریروں میں کبھی معرفہ یعنی “المعنی” بھی نقل ہو جاتا ہے۔ قیاس کی بابت امام شافعی کے دو جملے اہم ہیں۔ ایک تو ان کی کتاب “الرسالۃ” میں ہے؛ “والاجتهادُ القياسُ” یعنی اجتہاد، قیاس ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور دوسرا ان کی کتاب “الام” میں ہے؛ “وَالْقِيَاسُ قِيَاسَانِ” یعنی قیاس دو قسم پر ہے۔

پہلے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا کل تصور اجتہاد ان کے تصور قیاس میں بند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تصور قیاس میں ہمیں بہت وسعتیں ملتی ہے کہ انہوں نے اجتہاد کی تمام صورتوں کو اپنے تصور قیاس میں سمیٹ لیا ہے۔ امام شافعی نے “الام” میں ایک جگہ لکھا ہے کہ استحسان کا، قیاس کے علاوہ، کوئی تصور ایسا نہیں ہے کہ جس کا کسی مجتہد کو مکلف بنایا گیا ہو، یعنی استحسان بھی قیاس کے تحت ہی قابل قبول ہے، اس کے بغیر نہیں۔ اور دوسرے جملے کا مفہوم یہ ہے کہ امام شافعی نے قیاس کی قسمیں بنائی ہیں، یعنی ان کے نزدیک قیاس کوئی واحد شیء نہیں ہے بلکہ کئی قسم پر منقسم ہے۔ اور قیاس کی ان اقسام کی تفصیل ان کی کتاب “الرسالۃ” اور پھر “الام” میں بھی موجود ہے۔

الرسالۃ میں امام شافعی کا کہنا ہے؛

والقياس ما طُلب بالدلائل على موافقة الخبر المتقدم، من الكتاب أو السنة ۔۔۔ وموافقته تكون من وجهين۔

ترجمہ: پہلے سے موجود کتاب وسنت کی خبر کی، دلائل کے ذریعے سے موافقت، قیاس کہلاتی ہے اور یہ موافقت دو طرح سے ہوتی ہے۔

گویا ان کے نزدیک قیاس ایک سے زائد قسم پر ہے۔ الرسالۃ میں ہی انہوں نے مزید لکھا ہے؛

والقياس من وجهين: أحدهما: أن يكون الشيء في معنى الأصل، فلا يختلف القياس فيه. وأن يكون الشيء له في الأصول أشباهٌ، فذلك يُلحق بأولاها به وأكثرِها شَبَهاً فيه. وقد يختلف القايسون في هذا.

پہلی قسم کو امام شافعی کے شارحین “قیاس معنی” یا پھر “قیاس علت” کا نام دیتے ہیں جبکہ دوسری کو “قیاس شبہ” یا پھر “قیاس غلبۃ الاشباہ” سے موسوم کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے قیاس کے بارے امام صاحب کا کہنا ہے کہ اس میں اختلاف ممکن نہیں جبکہ دوسری قسم میں اہل علم کا اختلاف ہو جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ امام شافعی “معنی” کے لفظ کو وسیع معنی میں استعمال کرتے ہیں کہ جس میں متاخر اصولیین کا تصور علت بھی شامل ہو جاتا ہے۔ “قیاس معنی” یا “قیاس علت” کو امام شافعی کے ہاں مزید دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی صورت “قیاس اولی” ہے یعنی فرع میں علت، اصل سے زیادہ قوی ہو جیسا کہ الرسالۃ میں ہے:

فأقوى القياس أن يحرِّم الله في كتابه أو يحرم رسول الله القليل من الشيء، فيُعْلمَ أن قليله إذا حُرِّم كان كثيره مثلَ قليله في التحريم أو أكثرَ، بفضل الكثرة على القلة.

احناف کے ہاں اس کو “دلالت نص” کہتے ہیں جبکہ شوافع کے ہاں یہ “مفہوم موافق” کہلاتا ہے۔ اصولیین میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ دلالت نص، قیاس کی قسم ہے یا نہیں؟ شوافع اور حنابلہ کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ قیاس ہی کی ایک صورت ہے جبکہ احناف اور بعض شوافع جیسا کہ امام غزالی وغیرہ کے نزدیک دلالت نص، دلالت قیاسی نہیں بلکہ دلالت لفظی ہے۔ امام شافعی اس کو قیاس ہی کی ایک قسم بناتے ہیں۔

اصولیین کے دوسرے گروہ نے یہ پوزیشن لی ہے کہ “دلالت نص” یا “مفہوم موافق” میں علت کا ثبوت لغت سے ہوا ہے نہ کہ مجتہد کے اجتہاد سے۔ اسے بعض حنفی اصولیین جیسا کہ صاحب “کشف الاسرار” نے یوں بیان کیا ہے کہ دلالت نص میں منصوص اور غیر منصوص کو “معنی لغوی” کی بنا پر جمع کیا جاتا ہے اور علت ظاہر ہوتی ہے جبکہ قیاس میں علت کا استنباط، مسالک علت کی بنا پر ہوتا ہے اور علت خفی ہوتی ہے۔ اس اختلاف کا اثر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دلالت نص اور مفہوم موافق، قطعی ہوتا ہے جبکہ قیاس کی دلالت ظنی ہوتی ہے۔ لیکن امام شافعی اس قیاس کہ جسے قیاس جلی بھی کہتے ہیں، کی دلالت کو قطعی ہی مان رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول قیاس کی اس صورت میں اہل علم میں اختلاف ممکن نہیں ہے۔ تو اس اعتبار سے اختلاف لفظی ہوا۔ واضح رہے کہ دلالت نص کو بعض متاخر حنفی اصولیین نے بھی قطعی اور ظنی میں تقسیم کیا ہے لیکن متقدمین احناف کے ہاں ایسی تقسیم نہیں ہے۔

اس اختلاف کا دوسرا اثر یہ بیان کیا گیا کہ دلالت نص اور مفہوم موافق سے غیر منصوص حدود وکفارات ثابت ہوتے ہیں کیونکہ دلالت قطعی ہے۔ لیکن شافعیہ بھی حدود وکفارات کو انہی نصوص سے ثابت کرتے ہیں اگرچہ اس استدلال کو قیاس کی قسم قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ قیاس قطعی الدلالۃ ہی ہے۔ امام شافعی کا کہنا یہ ہے کہ دلالت کی یہ صورتیں قیاس ہی ہیں کیونکہ ان سے ثابت شدہ احکام کو ہم کتاب وسنت نہیں کہہ سکتے؛

قلت: لو كان القياس نصَّ كتاب أو سنة قيل في كل ما كان نصَّ كتاب “هذا حُكمُ الله”، وفي كل ما كان نصَّ السنة “هذا حكم رسول الله”، ولم نَقُل له: “قياس”.۔

امام جوینی، امام غزالی اور علامہ تفتازانی کا کہنا یہ ہے کہ یہ نزاع لفظی ہے اور ہمیں بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعبیر کا فرق ہے، حقیقی یا جوہری فرق نہیں ہے کہ ہر گروہ اپنی تعبیر پر اصرار کر رہا ہے اور اس کے پاس اس کے کچھ دلائل ہیں۔

“قیاس معنی” کے تحت دوسری قسم جسے امام شافعی نے بیان کیا ہے، وہ “قیاس مساوی” ہے؛

وَالْقِيَاسُ قِيَاسَانِ: أَحَدُهُمَا: يَكُونُ فِي مِثْلِ مَعْنَى الْأَصْلِ فَذَلِكَ الَّذِي لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ خِلَافُهُ۔

قیاس مساوی کو بھی قیاس اولی کی طرح “قیاس جلی” ہی کہتے ہیں کیونکہ دونوں کی بنیاد ایک ہے اور وہ “معنی اصل” میں قیاس کرنا ہے۔ امام شافعی کے شارحین نے اس سے ان کی مراد “نفی فارق” کی بنیاد پر فرع کو اصل سے ملا دینا لی ہے۔ بہر حال قیاس مساوی سے مراد یہ بھی ہے کہ علت فرع اور اصل میں مساوی طور موجود ہو۔

اور قیاس کی تیسری صورت “قیاس ادنی” کی ہے کہ جس میں فقہاء کا اختلاف ہے؛

والقياس من وجهين: أحدهما: أن يكون الشيء في معنى الأصل، فلا يختلف القياس فيه. وأن يكون الشيء له في الأصول أشباهٌ، فذلك يُلحق بأولاها به وأكثرِها شَبَهاً فيه. وقد يختلف القايسون في هذا.

یعنی ایک فرع کی کئی ایک اصول [جمع اصل] سے مشابہت ہو تو جس اصل سے اس فرع کی زیادہ مشابہت ہو تو اس اصل کا حکم اس فرع میں جاری کر دیا جائے اور جس اصل سے اس فرع کی مشابہت کم ہو تو اس اصل کا حکم اس فرع میں جاری نہ کیا جائے۔ یہ “قیاس شبہ” کہلاتا ہے کہ جس میں فقہاء کا اختلاف ہے جبکہ “قیاس معنی” میں فقہاء کا اختلاف نہیں ہے۔ امام رازی کے بقول امام شافعی کے ہاں “قیاس ادنی” یا “قیاس شبہ” کی دو صورتیں ہیں؛ پہلی صورت یہ ہے کہ علت کو مستنبط کر کے اصل سے فرع میں حکم جاری کرے۔ اور دوسرا یہ کہ فرع سے مشابہ اصلوں میں سے جس اصل سے زیادہ مشابہت ہو، اس کا حکم فرع میں جاری کرے۔

امام ماوردی کا کہنا یہ ہے کہ امام شافعی کی عبارت “وَالْقِيَاسُ قِيَاسَانِ: أَحَدُهُمَا: يَكُونُ فِي مِثْلِ مَعْنَى الْأَصْلِ فَذَلِكَ الَّذِي لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ خِلَافُهُ، ثُمَّ قِيَاسٌ أَنْ يُشَبِّهَ الشَّيْءَ بِالشَّيْءِ مِنْ الْأَصْلِ، وَالشَّيْءُ مِنْ الْأَصْلِ غَيْرُهُ، فَيُشَبِّهَ هَذَا بِهَذَا الْأَصْلِ، وَيُشَبِّهَ غَيْرَهُ بِالْأَصْلِ غَيْرِهِ (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَمَوْضِعُ الصَّوَابِ فِيهِ عِنْدَنَا – وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ – أَنْ يَنْظُرَ، فَأَيُّهُمَا كَانَ أَوْلَى بِشِبْهِهِ صَيَّرَهُ إلَيْهِ إنْ أَشْبَهَ أَحَدَهُمَا فِي خَصْلَتَيْنِ، وَالْآخَرَ فِي خَصْلَةٍ أَلْحَقَهُ بِاَلَّذِي هُوَ أَشْبَهُ فِي خَصْلَتَيْنِ” میں دو قیاسوں میں سے پہلے سے مراد “قیاس معنی” ہے جبکہ دوسرے سے مراد “قیاس شبہ” ہے۔ اور امام شافعی پر یہ اعتراض کرنا کہ “قیاس معنی” میں تو فقہاء کا اختلاف ہو جاتا ہے جبکہ وہ “قیاس خفی” ہو، کا جواب یہ ہے کہ “قیاس جلی” میں تو حکم میں فقہاء کا اختلاف نہیں ہوتا جبکہ “قیاس خفی” میں قیاس کرنے میں اختلاف نہیں ہوتا لبتہ حکم میں ہو سکتا ہے۔ تو یہ امام شافعی کے قول کی تاویل ہے۔

البتہ اس میں شوافع کا اختلاف ہے کہ امام شافعی کے ہاں یہ دوسری قسم “قیاس شبہ” ہے یا “غلبۃ الاشباہ” ہے۔ ابن سمعانی اور امام غزالی کا موقف یہ ہے کہ یہ “قیاس شبہ” ہے جبکہ قاضی ابو بکر الباقلانی اور ابو اسحاق شیرازی کا کہنا یہ ہے کہ یہ “غلبۃ الاشباہ” ہے کہ جس کا دوسرا نام “قیاس علت” ہے۔ “غلبۃ الاشباہ” کو بعض شارحین نے یوں بیان کیا ہے کہ وہ قیاس ہے جو “وصف مناسب” اور “وصف مشابہ” دونوں میں جاری ہو۔ اور پہلی قسم “قیاس علت” کی ہی ہے جبکہ دوسری قیاس شبہ ہے۔ امام شافعی کے ظاہر کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد اصلا “غلبۃ الاشباہ” ہی ہے اگرچہ “قیاس شبہ” بھی ان کی عبارتوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ ابن السبکی کا کہنا یہ ہے کہ “شبہ” در اصل “طرد” اور “مناسب” کے درمیان ایک مقام ہے۔

بعض اہل علم کے مطابق امام شافعی نے “الرسالۃ” میں 79 اور “الام” میں 65 مقامات پر “معنی” کی اصطلاح استعمال کی ہے جو غالب طور علت کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ امام شافعی کے نزدیک نئے پیش آمدہ مسئلے میں پہلے سے کتاب وسنت میں موجود مسائل سے معانی کو جاری کرنا قیاس ہے؛

فإن قال قائل: فاذكر من الأخبار التي تقيس عليها، وكيف تقيس؟ قيل له إن شاء الله: كل حكم لله أو لرسوله وُجِدت عليه دلالة فيه أو في غيره من أحكام الله أو رسوله بأنه حُكِم به لمعنى من المعاني، فنزلت نازلة ليس فيها نص حكمٍ: حُكم فيها حكمُ النازلة المحكومِ فيها، إذا كانت في معناها.

صاحب “کشف الاسرار” کا کہنا ہے کہ سلف “علت” کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ “معنی” کا لفظ استعمال کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ مسلمان کا خون جائز نہیں ہے مگر “بإحدى معان ثلاث”۔ اگرچہ امام شافعی نے علت کا لفظ بھی استعمال کیا ہے: إذَا لَمْ يَكُنْ خَوْفٌ وَوَجَدْنَا فِي الْمَطَرِ عِلَّةَ الْمَشَقَّةِ كَمَا كَانَ فِي الْجَمْعِ فِي السَّفَرِ عِلَّةُ الْمَشَقَّةِ الْعَامَّةِ فَقُلْنَا إذَا كَانَتْ الْعِلَّةُ مِنْ مَطَرٍ فِي حَضَرٍ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔ لیکن اصطلاح کے طور وہ “معنی” کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔

امام شافعی کے “الرسالۃ” میں ان کی عبارت “والدلائلُ هي القياس” یعنی دلائل ہی قیاس ہیں، سے یہ شبہہ نہیں پڑنا چاہیے کہ امام شافعی کے نزدیک قیاس، دلالت اور اس کی اقسام میں ہی بند ہے۔ اگر تو دلالت سے آپ کی مراد، احناف کا تصور دلالت ہے تو یہ مفہوم لینا بالکل غلط ہو گا کہ امام شافعی کا تصور قیاس، دلالت میں بند ہے۔ اور اگر آپ دلالت سے مراد امام شافعی کی دلالت لے رہے ہیں تو پھر بات درست ہے کہ قیاس ان کے نزدیک دلالتوں کا نام ہے۔ لیکن امام شافعی کے نزدیک دلالت ہے کیا، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تو دلائل، دلالت ہی کی جمع ہے۔

امام شافعی کا کہنا یہی ہے کہ اللہ کے حکم تک پہنچنے کے دو ہی رستے ہیں؛ نص یا حمل علی النص۔ اور اس حمل علی النص کو وہ دلالت کہتے ہیں کہ جس کی جمع دلائل ہے۔ اور یہ حمل علی النص یا دلالت پھر دو طرح سے اللہ کے حکم پر رہنمائی کرتی ہے؛ ایک معنی کے رستے سے اور دوسرا مشابہت کے طریق سے۔ تو ایک تو امام شافعی نے یہ واضح کیا ہے کہ قیاس “نص” نہیں ہے بلکہ حمل علی النص ہے جیسا کہ ان کا کہنا ہے:

قلت: لو كان القياس نصَّ كتاب أو سنة قيل في كل ما كان نصَّ كتاب “هذا حُكمُ الله”، وفي كل ما كان نصَّ السنة “هذا حكم رسول الله”، ولم نَقُل له: “قياس”.

اور دوسرا انہوں نے یہ واضح کیا کہ “حمل علی النص” کی کئی صورتیں ممکن ہیں لیکن جو بھی ہیں، بھلے استحسان ہی کیوں نہ ہو، وہ نص ہی کا محمول ہونی چاہییں۔ یہ اہم بات ہے۔ اور نص کے محمول کو وہ من جملہ قیاس یا اجتہاد کہہ دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں