Home » کیا میں بحث و تناظر ہی نہیں سمجھ رہا؟
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

کیا میں بحث و تناظر ہی نہیں سمجھ رہا؟

 

برادر ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے ہماری معروضات کا جواب لکھا جن کا خلاصہ تین نکات ہیں:
1) ھم نے نیازی صاحب کا مقدمہ درست و مکمل طور پر بیان نہیں کیا
2) مجھے مشتاق صاحب کا مقدمہ ہی سمجھ نہیں آیا
3) میں قواعد فقہیہ و اصولیہ میں فرق گڈمڈکر رہا ہوں
المختصر میں کچھ نہیں سمجھ پارہا ہے۔ خیر، ان دعووں پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
1) کیا میں نے استاد محترم کا نکتہ نظر غلط بیان کیا؟
الف) پہلی بات یہ کہ اگر استاد محترم کے خیالات کا خلاصہ کرتے ہوئے اگر کوئی چوک ہوئی ہو یا پوری طرح نمائندگی نہ ہوسکی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں، بنیادی طور پر ان مختصر نکات کا مقصد قاری کو جاری بحث کا تناظر بتانا تھا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھتے رہیں کہ جب دنیا چاند پر جارہی تھی تو مولوی تعریفات کے الفاظ پر لفظی نزاع کررہے تھے۔ اس مقصد کی غرض سے کہ کیا بحث چل رہی ہے اور کیوں، اختصار کے ساتھ کچھ لکھا۔
آپ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ میں نے جو یہ لکھا کہ نیازی صاحب “نے شاخٹ اور دیگر مستشرقین کے نظریات کا “جواب دینے کےلیے” یہ موقف اختیار کیا کہ امام شافعی کا نظریہ ظاہریت پر مبنی تھا، ہمارے موقف کی صحیح عکاسی نہیں کرتا” ۔۔۔ لیکن میں سمجھ نہیں پایا کہ اس میں غلط کیا ہے؟ خود آپ اگلے پیراگرافس اور اگلی قسط میں عین اسی بات کو مان رہے ہیں کہ نیازی صاحب کا کام جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب کے کام کے نتیجے میں سامنے آیا، وہ کام جو جوزف شاخت نیز شیخ ابو زھرہ کے ساتھ مکالمے پر مبنی تھا۔ پھر آپ نے آگے لکھا ہے کہ “پروفیسر نیازی کی یہ کتاب صرف ماقبل امام شافعی فقہاے کرام کے اصولی مناہج کے فہم کےلیے ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ امام شافعی کے اصولی منہج کا اصل مقام پہچاننے کےلیے بھی نہایت اہم ہے” نیز یہ کہ انہوں نے جوزف شاخت و مستشرقین کی پیدا کردہ کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا وغیرہ۔ تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے جو میں نے کہا کہ انہوں نے امام شافعی کے بارے میں جو موقف اختیار کیا وہ انہی لوگوں کے تناظر کا جواب دینے کے لئے تھا؟ اس میں غلطی کہاں ہے میں سمجھ نہیں پایا۔ البتہ مجھے آپ کے ان مقدمات سے اختلاف ہے گویا نیازی صاحب نے امام شافعی کی فکر کا درست مقام مقرر کردیا ہے اور اسے ماننے میں ان کی تنقیص محسوس نہیں کرنی چاھئے بلکہ یہ انکی عبقریت تھی۔
مجھے بنیادی طور پر یہ اعتراض نہیں کہ امام شافعی کی توھین و تنقیص کی جارہی ہے بلکہ یہ اعتراض ہے کہ ان کی فکر کو غلط بیان کیا جارہا ہے۔ فرض کریں اگر کوئی کہے کہ مشائخ احناف کا تصور قیاس نہایت محدود تھا جو قریب قریب علامہ ابن حزم ہی کی طرح تھا کیونکہ ان امور کا انکار ابن حزم بھی نہیں کرتے تھے جو امام دبوسی قیاس کے تحت کہتے تھے۔ رہیں قواعد پر مبنی انکی بعض کتب تو وہ تعلیمی نکتہ نگاہ سے لکھی گئی چیزیں تھیں تاکہ طالب علم یہ سمجھ سکے کہ فروعات کو جامع انداز میں کیسے پیش کیا جاتا ہے (یاد رہے کہ علامہ ابن حزم کے ہاں بھی قواعد فقہیہ پائے جاتے ہیں)۔ اور اس کے ساتھ وہ یہ کہے کہ میں امام دبوسی و مشائخ احناف کی تنقیص نہیں کررہا بلکہ ان کی فکر کا ان سے ماقبل و مابعد فکر کے تناظر میں درست مقام مقرر کر رہا ہوں اور اسی میں ان حضرات کی عبقریت پنہاں ہے ۔۔۔ تو ظاہر ہے محض تنقیص کرنا و نہ کرنا کوئی متعلقہ علمی معاملہ نہیں ہے جسے ایڈریس کیا جائے، آپ کو اس قائل پر بنیادی طور پر یہ اعتراض ہوگا کہ جناب آپ نے مشائخ کی فکر درست بیان نہیں کی۔ یہی معاملہ یہاں ہے
ب) امام شافعی کے نظریہ قیاس سے متعلق نیازی صاحب کے جن اضافی امور کو آپ نے بیان کیا وہ اضافی معلومات درست ہیں مجھے قبول ہے لیکن یہ سب میری بیان کردہ بات کی غلطی کا بیان نہیں ہے۔ میں نے بھی اپنی تحریر کے آخر میں یہ بات لکھی تھی کہ نیازی صاحب امام شافعی کو ایک عظیم مجتہد سمجھتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ وہ قیاس کے مباحث میں امام شافعی کو نظریاتی طور پر داؤد ظاہری کے ساتھ ملاتے اور اسی صف میں کھڑا کرتے ہیں، تو اس پر ان کی صریح عبارات پیش کرسکتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات کہ جس قسم کے قیاس کے امام شافعی قائل تھے اس کے تو داؤد ظاہری جیسے منکرین قیاس بھی قائل تھے، اس بات کے بعد اس نتیجے کو اخذ کرنے میں کونسی علمی غلطی ہے کہ نیازی صاحب امام شافعی کو داؤد ظاہری کی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔
ج) آپ نے گلہ کیا ہے کہ “اسی طرح امام غزالی کی کنٹری بیوشن کے متعلق بھی نیازی صاحب کا موقف درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔ نیازی صاحب ہرگز یہ نہیں کہتے کہ امام غزالی نے حنفی منہج سے چیزیں لے کر شافعی منہج میں شامل کرلیں اور دیگر شافعی اصولیین و فقہاء کو گویا خبر تک نہیں ہوئی”۔
مجھے نہیں معلوم کہ “دیگر شافعی اصولیین و فقہاء کو گویا خبر تک نہیں ہوئی” یہ میرے کن الفاظ کا مفہوم ہے، میں نے یہ لکھا ہے:
“پھر امام جوینی (م 478 ھ) و غزالی (م 505 ھ) نے امام شافعی کے ڈھائی تین سو سال بعد ان کی فکر میں قیاس و قواعد کے مباحث کو شامل کیا، اس عمل میں یہ دونوں حضرات امام دبوسی (م 430 ھ) کے نظریات سے متاثر تھے، مقاصد شریعت پر بھی امام دبوسی نے ابتدائی بحث کی۔”
کیا نیازی صاحب یہ نہیں کہتے کہ یہ حضرات امام دبوسی سے متاثر تھے؟ نیز کیا یہ نہیں کہتے کہ جو چیز انہوں نے شافعی نظام میں بٹھانا چاہی وہ اس میں فٹ نہیں بیٹھتی تھی؟ اور کیا یہ نہیں کہتے ہیں کہ اس سے قواعد کی میتھاڈولوجی نظریاتی چیز بن کر ماند پڑگئی؟ خود آپ نے بھی اپنی پچھلی تحریر میں یہ لکھا ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کا موقف بالکل نہیں سمجھا۔ کیوں؟ کیونکہ میں نے آپ کا موقف یہ متعین کیا: “قواعد فقہیہ نہ دلیل اجمالی میں آتے ہیں اور نہ ہی دلیل تفصیلی میں”
جبکہ آپ کا اصل موقف یہ ہے کہ “شافعی اصولیین کے نزدیک قواعدِ فقہیہ سرے سے اصولِ فقہ بطور علم کا موضوع ہی نہیں ہیں اور قواعدِ فقہیہ سے اخذ شدہ علم کو فقہ نہیں کہا جاسکتا۔ “
میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ میں اسی بات کی تردید کے دلائل دے رہا ہوں جو آپ نے “واوین” کے اندر لکھا ہے کہ آپ کے مطابق شافعی علماء کے نزدیک قواعد فقہیہ اصول فقہ کا موضوع نہیں نیز وہ اس سے ثابت چیز کو حکم شرعی نہیں مانتے۔ میں اسی کے بارے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ نے اس کو ثابت کرنے کے لئے جو منھج اختیار کیا وہ مفید نہیں اور ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کی جاسکی جو آپ کے شافعی علما سے متعلق اس مقدمے کو ثابت کرے۔ میں نے ابتدائے تحریر میں ہی آپ کا موقف یہ لکھا ہے:
“محترم برادر مشتاق صاحب نے دلیل اجمالی و تفصیلی سے متعلق اپنے تجزئیے سے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ دلیل اجمالی و تفصیلی سے متعلق ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔ غلط فہمی کا خلاصہ ان کے نزدیک یہ ہے بعض لوگ فقہ شافعی میں قواعد فقہیہ کی گنجائش سمجھتے ہیں جبکہ فقہ شافعی میں اصلاً اس کی گنجائش موجود نہیں اور یہی بات ان کی (یعنی اصولیین شوافع کی) پیش کردہ اصول فقہ و فقہ کی تعریف میں جھلکتی ہے۔”
مجھے آپ کا موقف بالکل سمجھ آچکا ہے۔ میں بھلا یہ بات کیوں کرنے لگا کہ خود آپ کے نزدیک قواعد فقہیہ اصول فقہ کی تعریف سے خارج ہیں؟ آپ کے پورے ھفتے کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ شوافع نے دلیل اجمالی و تفصیلی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے قاعدہ فقہیہ باہر ہے نیز وہ قاعدہ فقہیہ سے ثابت بات کو فقہی حکم نہیں مانتے ۔۔۔۔ میں اسی کو رد کررہا ہوں اور میں اسی کے بارے میں دو باتیں کہہ رہا ہوں:
1) اولا تو یہ بات ہی درست نہیں کہ شوافع کی ان تعریفات سے قاعدہ فقہیہ خارج از بحث ہے کیونکہ وہ قیاس کی بحث کا باقاعدہ موضوع ہے
2) اور اگر بالفرض مان بھی لیں کہ خارج ہے تب بھی اس سے بس یہ ثابت ہوا کہ ان کی اصول فقہ کی تعریف جامع مانع نہیں، اسے امپروو کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ یہی دوسری بات دکھانا چاھتے ہیں تو اسے بھی مضمون میں کور کرچکا ہوں۔ میری گزارش ہے کہ میری تحریر کو غور سے پڑھئے۔ ہم یہی تو کہہ رہے ہیں کہ محض تعریف کے الفاظ کے اندر سے سب کچھ طے کرنے کا منھج چھوڑ دیجئے کیونکہ تعریف تو صرف تعارف کے لئے ہوتی ہے۔
3) تیسری بات آپ یہ کہتے ہیں کہ میں قاعدہ اصولیہ و فقہیہ کے فرق کو نہیں سمجھ پارہا، چلئے سر مان لیا کہ ایسا ہی ہوگا، اب اس لفظی بحث کو چھوڑ کر اصل بات کی طرف بڑھنا چاہئے کہ قاعدہ کیا ہوتا ہے، یہ کیسے بنتا ہے، قیاس کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے، قاعدہ فقہیہ و اصولیہ کا باہمی ربط و فرق کیا ہے؟ جب ان اصول امور پر بات ہوگی تب بات آگے بڑھے گی۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں