اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفی کانٹ نے کہا تھا، جب تک انسان نابالغ تھا خدا پر انحصار کرتا تھا۔اپنے آپ کو خدا کا محتاج گردانتا تھا۔سترہویں صدی کی سائنسی پیش رفت نے انسان کو بالغ کردیا۔ اس کو احساس ہوگیا کہ وہ خود خدا ہے،قائم بالذات ہے، خالق کائنات ہے۔ کانٹ کے بعد مغرب کلمہ ”لا الہ الا الانسان“ بن گیاجس کے زیر اثر تصور خدا کا مرکزہ انساں کے تصور سے بدل چکا ہے۔ تو آخر یہ جدیدیت ہے کیا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے معروف دانشور، فلسفی احمد جاویدکہتے ہیں۔
”جدیدیت روایت کا متضاد ہے۔روایت انسان،کائنات اور خدا کی تثلیث پر پیدا ہونے والے نظام شعور اور ضابطہ وجود کو کہتے ہیں۔اہل روایت انہی تین حقیقتوں کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔روایت پسند وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو خدا،انسان اور کائنات کے مربوط تناظر میں دیکھے اور اس کے انفرادی اور تہذیبی فیصلوں میں خدا کے حکم کو ملحوظ رکھا جائے۔روایت کا بنیادی تناظر(principle perspective) خدا ہے۔ جدیدیت روایت کی تثلیث سے خدا کو خارج کر دینے کا نام ہے۔خدا کو شاعرانہ تخیل مان کر زندگی سے لاتعلق کر دینا جدیدیت کا غالب رویہ ہے۔“
کائنات، خدا،انسان کی تثلیث میں خدا کو ہمارے ہاں سے بھی نکالا جارہا ہے۔ تو ان حالات میں ہم پر لازم ہے کہ ان اسباب کا تجزیہ کریں جن کے زیر اثر مغرب کی بے خدا تہذیب اپنے اثرات ہم پرمرتب کررہی ہے۔ ان اسباب کا بہترین تجزیہ محمد حسن عسکری نے کیا ہے۔عسکری صاحب بلاشبہ اور بلا شرکت غیر اردوادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے ذہنوں میں سے ایک ذہن ہیں۔ ہماری طبیعتوں میں اگر عامیانہ پن اور سوقیانہ پن ختم ہو جائے تو عسکری صاحب کی تحریر میں مشعل راہ ہے۔ انہوں نے ادب کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سکھایا۔
سر دست میرے سامنے ان کی کتاب ”جدیدیت” ہے اسے بار ہا پڑھنے کے بعد جو میرے ذہن میں ایک تصویر بن رہی ہے وہ میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ بات پیش نظر ر ہے کہ میں نے یہ مضمون جدید بیت سے جڑ کر لکھا ہے۔ اس میں بند ہو کر نہیں۔
جدیدیت در اصل دو کتابوں کا مجموعہ ہے جس میں ایک کتاب ” نئی اور پرانی گمراہیاں اور دوسری” مغربی گمراہیوں کی فہرست” شامل ہے اور یہ کتاب ابھی تک اردو زبان میں لکھی جانے والی اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب ہے۔ انہوں نے یہ کتاب مدارس کے طلباء اور علماء کے نام کی ہے جو دین کی تبلیغ اور دین کی حفاظت میں اس قدر منہمک رہتے ہیں کہ انہیں مغرب سے اٹھنے والے اٹھنے والی تحریکوں اور مغربی تصورات کو سمجھنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس میں آسان اور سہل انداز میں مغربی تحاریک اور مغربی تصورات کا تعارف پیش کیا اور بتایاہے کہ مغرب کا تصور علم کیا ہے، مغرب کی بنیادی گمراہیاں کیا ہے۔یہ کتاب انہوں نے مدارس میں شاملِ نصاب کرنے کے لیے لکھی تھی لیکن علماء اس طرف متوجہ نہیں ہوئے۔
فرانس کے ایک مشہور فلسفی اور مفکر رینے گیوں (عبدالواحدیحیی) کی کتابوں سے مستفادان کی تحریر ہے۔ وہ بتاتے ہیں آج درپیش گمراہیوں میں کچھ پرانی گمراہیاں ہیں جو دین کے مفہوم کو بدل کے پیدا ہوئی ہیں اور کچھ نئی گمراہیاں ہیں اور نئی گمراہیاں دین کو نشانے پر رکھ کر پیدا ہوئی ہیں۔ مطلب پہلے ہوتا تھا کہ یہ کہا جا تا تھا کہ قرآن یہ کہ رہا ہے اور اس کے حقیقی مفہوم کو بدل کر اسے اپنی خواہش نفس کے مطابق ڈھال دیا جا تا تھا۔ لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ قرآن یہ کیوں کہہ رہا ہے۔ پہلے جو گمراہی تھی وہ محدود تھیں رقبے کے لحاظ سے بھی اور علمیت کے لحاظ سے بھی۔ لیکن اب گمراہیاں لا محدود ہیں اور سائنسی شواہد اور سیاسی قوت اورنئی اصطلاحات کے ساتھ ہیں جو مشترک المعانی ہیں اور بعض محمل ہیں۔
اس کے بعد عسکری صاحب نے مغرب کے ذہن کی تاریخ کوسات ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
(1) یونانی دور
(2) رومی دور
(3) ازمنہ وسطی کا دور
(4) دورنشاۃ ثانیہ
(5) عقلیت کا دور
(6) صنعتی یا سائنسی دور
(7)20ء صدی
(۱)یونانی دور
مغرب چونکہ تحریر کو قابل استناد سمجھتا ہے۔ اس لیے یونان کی معلوم تاریخ جس کے تحریری شواہد موجود ہیں۔ وہ 500 قبل مسیح کا دور ہے۔ یعنی سقراط، افلاطون،ارسطو کا زمانہ۔ معلوم تاریخ میں یہ ہے کہ ان فلاسفہ کو علوم میں توحید حاصل نہیں تھے۔ دراصل فلاسفہ یونان کے دو گروہ ہیں۔ ایک جن کا تعلق خالص یونان سے تھا۔ ان کا دور پانچویں صدی اور چوتھی صدی قبل مسیح کا ہے۔ دوسرا گروہ جس کا تعلق اسکندریہ کی نوآبادی سے تھا جو انھوں نے مصر میں بسائی تھی اس دورکا ترجمان فلاطینوس ہے جسے یورپ کے لوگ نوافلاطونیت کا دور کرتے ہیں۔
عربوں نے فلسفہ طب، نجوم وغیرہ کے علوم انہیں اسکندری فلاسفہ سے حاصل کیے تھے۔ اسکندریہ کے فلاسفہ سے بھی مغرب کا ذہن متاثر ہوالیکن زیادہ اثرات ارسطو اور افلاطون کے ہیں جنہوں نے موجودہ مغربی ذہن کو پیدا کیا ہے۔افکار یونانی کی بنیادی خامی یہ ہیں کہ وحی کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے یونانی ذہن طبیعات میں یوں مشغول ہوا کہ مابعد الطبعیاتی روشنیاں ا سے میسر نہ آسکی یا یوں کہہ لیں کہ وہ وجود کی منزل سے آگے یا عالم حیرت سے اوپر نہ اٹھ سکا۔افلاطون نے صفایائے نفس کوتو ترجیح دی لیکن صفائے قلب کو بھول گیا اور اپنے مکاشفات میں الجھ کر رہ گیا۔ ارسطو یہ فرق تو کرتا تھا کہ عقل کلی بھی ہے اور جزئی بھی لیکن اس نے ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ کیا کردیا۔
ستر ہو میں صدی میں پیدا ہونے والی عقلیت پسندی کی تحریک اسی فکر کا نتیجہ ہے۔ یونانی ذہن کا محبوب ترین موضوع طبیعات ہے لہذا وہ مابعد الطبیعات طرف نہ اٹھ سکا اور ہر چیز کوانسانی نقطہ نظر سے دیکھنے کا عادی ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں پندرہویں اور سولہویں صدی میں انسان پرستی (Humanism) کی تحریک پیدا ہوئی، اور اسی وجہ سے مبدا ومعاد کا انکار کیا گیا اورمسئلہ جبر وقد ر میں الجھن پیدا ہوئی۔
(۲)رومی دور:
یونان کے بعد ذہن مغرب پر سب سے بڑا اثر رومی تہذیب کا ہے۔ انھوں نے فلسفے وفکر میں کوئی قابل قدراضافہ نہیں کیا۔ یہ لوگ تشکیل معاشرہ اورنظم ونسق کے ماہر تھے اور ان لوگوں کا اصل خدا وطن تھا۔ انہیں کی فکر سے بعد میں وطن پرستی کے جذبات پیدا ہوئے۔ان لوگوں نے نفس کشی اور تن پروری کے اصول کو اپنایا۔ ان کے فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ انسان کی اصل مصیبت خواہش ہے اگر خواہش کو دبالیا جائے تو انسان سکون حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن یہ نفس کشی برائے نفس کشی یانفس کشی برائے قوم تھی اور حضرت مجدد صاحب نے اپنے مکتوبات شریف میں بار بار فرمایا کہ ایسے نفس کشی بہت بڑی گمراہی ہے۔ یونانی دور قبل مسیح کا دور تھا۔رومی، عیسوی دور کا ابتدائی حصہ ہے۔
(۳)از منہ وسطی کا دور:
اس کے بعداز منہ وسطی کا دور ہے جو تقر یبا پانچویں صدی سے پندرہویں صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ انتہائی قابل توجہ دور ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے بہت ساری دشواریاں ہیں۔اس کی جوتصویر عقلیت پسندوں اور پروٹسٹنٹ فرقے کے مصنفوں نے کھینچی ہے وہ بڑی حد تک خیالی ہے اور یہی تصویر ہمارے اہل علم تک پہنچی ہے۔عقلیت پسندوں اور پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگوں نے اس دور کا نام ” ظلماتی دور (dark age) رکھا ہے جس میں اقتدار نوابوں کے ہاتھ میں تھا اور شریعت پوپ کے ہاتھ میں تھی۔ عوام کو علم سے محروم رکھا جا تا،ان پر ظلم کیا جا تا تھا۔ اس کی وجہ سے آج ہمارے علماء پر بھی وہی اعتراض کئے جاتے ہیں جو ہم اس دور کی عیسائیت پر کرتے ہیں۔
یہ بات تو تسلیم ہے کہ اس دور میں ظلم تھالیکن یہ کچھ نہ تھا جو پیش کیا جارہا ہے۔ رشتوں کا تقدس اور تنظیم جو ا س دور میں تھی مغرب کو اس کے بعد وہ تقدس اور تنظیم نصیب نہیں ہوسکی۔ اور اس بات کو کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے بھی تسلیم کیا کہ اس دور میں کاری گروں اور کاشت کاروں کو بھی مکمل آزادی حاصل تھی۔ ولیم کہتا ہے: ”مسیحیت کی تاریخ میں سب سے زیادہ نامبارک وہ دن ہے جب اس نے اپنے آپ کو کلیسا سے الگ کر لیا“۔لیکن بہرحال کچھ خرابیاں بھی تھیں جو جزوی تھیں کلی نہیں۔
(۴)دور نشاۃ ثانیہ:
پندرہویں صدی میں جب ترکوں نے قسطنطیہ فتح کیا تو یونانی علماء اپنی کتابیں لے کر یورپ میں پھیل گئے اوریورپ کو دوبارہ فلسفہ یونان پڑھایا جس سے دین بیزاری نے جنم لیا۔
ڈاکٹر شاہد فرہاد اپنی کتاب ”سیکولرازم ایک تعارف“میں پروفیسر خورشید صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں ” سب لوگ کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور عداوت کے اس جوش میں انہوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہی و بالا کرنے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ وہ جنگ جو ابتدا میں عیاش قسم کے اہل کلیسا کے خلاف لڑی جارہی تھی وہ بعد میں عیسائی مذہب کے خلاف بھی شروع ہوگئی۔ اور بعد میں ہر مذہب کے خلاف“
پھردین بیزاری کی اس تحریک کو کلیسا نے بھی تصوف کی مخالفت کرکے مضبوط کردیا۔ جو افسوس کے ساتھ ہمارے کچھ متجددین بھی کررہے ہیں۔ بارہویں،تیرہویں صدی میں ابن عربی کی تعلیمات متصوفانہ حلقوں میں اس قدر مقبول ہوگئیں کہ کلیسا نے ان کو اپنا حریف سمجھتے ہوئے ان کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ جو شخص صرف ابن عربی کا نام لیتا اسے گرفتار کر لیا جاتا۔ یوں یورپ سے تصوف رخصت ہو گیا اور صرف ظاہر رہ گیا۔ اور ان کو بھی یونانی افکار کے مطابق کیا گیا اس وجہ پروٹسٹنٹ فرقہ پیدا ہوا جو عقلیت پسندی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
صاحبان اقتدار اور صاحبان کلیسا کے روز کے جھگڑوں سے لوگوں نے تنگ آ کر پروٹسٹنٹ فرقے کی حمایت شروع کی اور یہ فرقہ پھیلتا چلا گیا اور بچا کھچا دن بھی یورپ سے رخصت ہو گیا۔ عیسائیت کو چونکہ افکار یونانی کے تابع کر دیا گیا تھا۔بعد میں جب افکار یونانی کا رد کیا گیا تو اس کو ردعیسائیت کا سمجھا گیا ہے مذہبی عدالت قائم ہوئی فلاسفہ اور سائنس دانوں کو عبر ناک سزائیں دی گئیں جس سے مذہب کے خلاف ایک نفرت کی پیدا ہو گئی اور وہ افکار یونانی جو عیسائیت کے عقائد بن چکے تھے ان میں بھی کمزوری آ گئی۔
(۵) عقلیت کا دور:
افلاطون نے اپنی تھیوری (The ideas of world) میں اس دنیا کے دنیا کا عقب میں ایک نئی کائنات دریافت کی تھی جو سانچوں کی کائنات ہے۔ اس عالم مادی کے تمام اقسام کے سانچے اس دنیا میں موجود ہیں جو ابدی ہے اور یہ اجسام حادث ہیں۔اس کے لیے دوروسطی میں جولفظ استعمال ہوا form ہے جس کا معنی صورت ہے۔
یونانیوں کی اس بے مثل کامیابی کو دیکارت نے آ کر غارت کر دیا۔ جب اس کے سامنے یہ سوال آیا کہ مادے کا تجزیہ کرنے والے علوم حقیقت (روح) پر استدلال سے لا تعلق ہے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ مادے پر فوکس کر کے ہم حقیقت کو دریافت کرنے والی لا جک سے کام لے سکیں۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ حقیقت پر استدلال کرنے کے عمل میں مادے کا تجزیے کرنے کی کوئی ذہنی یاعملی قوت کام میں لا سکے۔ اس کی تھیوری کے ایک حصہ کا نام(Dual ism)ہے۔ دیکارت نے آ کر کہا مادے سے روح ثابت نہیں ہوسکتی اور روح سے مادہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حقیقت واحد نہیں ہے اور مادہ الگ مستقل حقیقت ہے۔یہ دوئی ذہن مغرب پر بیٹھ گئی دیکارت سے پہلے فلسفی یا تو روح کوحقیقی جانتے تھے یا مادے کو لیکن دیکارت کی اس تقسیم کے بعد مغرب روح کا معنی ہی بھول گیا۔
دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے جس نے کشش ثقل کا قانون دریافت کر کے گویا یہ کہہ دیا کہ یہ کائنات چند قوانین کی پابند ہے جس کو دریافت کر لینا انسانی عقل کے بس میں ہے۔اٹھارویں صدی میں ہیوم نے آ کر کہہ دیا ” جو چیز حواس سے ماوراء ہے اس کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے ”فرانس کے فلسفی کونت نے نظر یہ ثبوتیت پیش کر دیا۔
اب تک وجود خدا کا کھل کر انکار نہیں ہوسکا۔ علت اولی یا علت العلل کے طور پریہ تصور موجود رہا۔ اب اس دور میں وحی کے نور سے لا تعلق عقل کے سنسان جنگل میں مغرب خدا کو تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا جس کے نتیجہ میں ڈی ازم Deism کی تحریک نے جنم لیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خدا کو عقل کے ذریع دریافت کرنا چاہیے اور وہ یہ کہ خدا اس کائنات کو پیدا کر کے خوداس سے الگ ہو گیا ہے۔ ڈی ازم کے نظریات اردو شاعر غالب کے ہاں پائے جاتے ہیں۔
انیسویں میں صدی میں معاشرہ کو مذہب سے لاتعلق کر کے اس کا وجود ثابت کیا گیا۔ پھر تاریخ پرستی کی تحریک (Historicism) نے جنم لیا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ کسی چیز کے سچ یا جھوٹ کا معیار اس کی تاریخ پر ہے۔ اب وہ بیج جس کو پندرہویں صدی میں بویا تھا خار دار جھاڑی کی صورت میں ظاہر ہوا اور کونت کا نظریہ ثبوتیت پیدا ہوا جس کا فلسفیانہ مطلب یہ تھا کہ حقیقت میں مادی کا ئنات ہے، اس سے ماوراء کچھ بھی نہیں۔
اس کے ساتھ natural ism نے جنم لیا جس کے ذریعے فطرت پرستی شروع ہوئی پھر اس ادباء اور شعراء نے ہزاروں نظمیں لکھ ماری۔سرسید کی نیچری تحریک اور حالی صاحب کی فطرت نگاری پر مبنی شاعری کے پس پردہ یہ ہی تحر یک ہی اپنا کردارادا کر رہی تھی۔
پھر جذبات پرستی شروع ہوئی۔ جذبات کو بھی احتراما قبول کیا گیا اور ہراس چیز کو جو جذبات کو ٹھنڈا کرے۔یہاں تک مذہب کو تخیلاتی قرار دے کر جذبات کی تسکین کے لیے قبول کرلیا گیا لیکن ساتھ میں کہا گیا عبادات محض فضول ہیں۔ بس دل میں اخلاص کافی ہے اور آزاد خیالی کو فروغ ملا free thought کہ انسان جو چاہے کرے اور کہے۔
مادیت پرستی نے ذہن مغرب کو پوری طرح مسخ کر دیا تھا۔ لیکن اب تک تخلیق کا ئنات کا نظریہ جوصدیوں سے لا جواب تھا جس کا کوئی قابل لحاظ جواب نہیں بن پا ر ہا تھا کہ اگر کوئی قادرمطلق خدا نہیں ہے تو یہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔ اب یہاں پر خلق کائنات کے نظر یہ کورد کرنے کی جو کاوش ہوئی ہے اس میں دو نظریات کا بہت عمل دخل ہے۔ ایک ڈارون کی تھیوری آف ارتقاء اور بگ بینگ۔
بینگ بینگ کو بیان کرتے ہوئے معروف دانشور احمد جاوید صاحب اپنے ایک لیکچر ” ہمارا مغرب سے اختلاف کہاں پر ہے ” میں فرماتے ہیں بگ بینگ تھیوری کسی بھی طرح سائنسی تیقن حاصل کرنے میں تاحال نا کام ہے، اور اس تھیوری کا اصل مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ کائنات تخلیق نہیں کی گئی، کائنات کا کوئی خالق نہیں، یہ ایک سپر نقطہ یا زرہ تھی، ایک نا قابل پیمائش نقطہ، جس میں ٹائم اور خلا جمع تھے۔ کسی وجہ سے وہ نقطہ پھٹ کر غبارے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس نقطے کے بلاسٹ کر جانے اور داخلی انفجار سے زمان و مکان اور یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے۔
اس نظریہ کی سائنسی تفہیم اس وقت ضروری نہیں ہے۔ میں صرف اس کا نتیجہ عرض کر دیتا ہوں۔ کہ بگ بینگ کے محض امکان کو بھی مان لینے کے نتیجہ میں کائنات کو مخلوق جاننا اور ماننا ناممکن ہو جائے گا۔
یہ پہلا حملہ تھا۔ دوسر احملہ نظر یہ ارتقاء یعنی ڈارون کی تھیوری آف بائیولوجیکل ایوولیوشن۔ مغرب میں جو چیز میں عقیدے کے تحکم اور استقلال کے ساتھ مانی جاتی ہیں ان میں ایک نظریہ ارتقا بھی ہے جو ڈارون کا ہے۔ نظریات ارتقاء اور بھی ہیں۔ لیکن ڈارون کا نظریہ ارتقاء یہ ہے کہ انسان ایک قدرتی انتخاب ہے، ایک فطری اتفاق سے بنا ہے، مخلوق نہیں ہے۔ جس طرح بگ بینگ تھیوری کائنات کے مخلوق ہونے کی نفی میں سب سے بڑی دلیل بن رہی ہے، اسی طرح ڈارون کا نظریہ ارتقا انسان کے مخلوق ہونے پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ یوں بیسویں صدی تک ذہن مغرب ملحد ہو چکا تھا۔
(7) 20 ویں صدی
بیسویں صدی ایجادات کا دور ہے اور نہایت پیچیدہ ہے۔ نہ تو اس کو سائنسی کہہ سکتے ہیں نہ جذبات پرستی کا زمانہ اور نہ ہی مذہبی کیونکہ سارے نظریات تضادات کے ساتھ موجود ہیں۔ دراصل اب تک تو ذہن مغرب نفسیاتی، جذباتی یا عقلی تھا لیکن اب جسم پرستی کا دور ہے۔ یورپ ارواحنا اجسادنا اجسادنا ارواحنا جیسی متصوفانہ زبان استعمال کر کے دراصل جسم پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس صدی میں سب سے زیادواثر ولیم جیمز اور جان ڈیوی کا تھا۔ ان کی تھیوری pragmatism کہلاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی خیال اس وقت مقبول ہوسکتا ہے جب اس کا اثر مادی زندگی میں ہو۔ اس طرح اس نے ایک اور اصطلاح نکالی، وہ ہے”مذہبی تجر بہ“۔ یوں تو ولیم فلسفی تھالیکن اس کو روحوں سے باتیں کرنے بہت شوق تھا جس کے نتیجے میں اس نے اپنی مجنونی روحانیت ایجاد کی۔ اس کا مطلب تھا دعا اور عبادت در اصل محاسبہ نفس کے طریقے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگینوں کی ریزہ کاری ہے
اس کے بعد برگساں ہے جس نے ایک طرف اپنا نظریہ وجدان پیش کر کے عقل پرستی سے جسم پرستی کی طرف متوجہ کیا اور دوسری طرف نظریہ ارتقاء پیش گیا جس میں ڈارون کی تھیوری کو اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ ڈارون یہ کہ رہا تھا کہ یہ کائنات خود کار نظام کے تحت چل رہی ہے لیکن برگساں نے کہا کہ فطرت اور حیات نہ صرف خود چل رہیں ہیں بلکہ زندہ ہیں اور صاحب ارادہ ہیں۔ گو یاڈارون نے اپنی تھیوری میں خدا کا انکار کیا تھا لیکن اس نے ایک نیا خدا ایجاد کر کے دے دیا اور بیسویں صدی کی سائنس کہہ رہی ہے کہ کائنات یا فطرت زندہ ہے جبکہ پرانی سائنس تو کائنات کو ایک مشین تصور کرتی تھی اور ہر چیز کو غیر متوقع اور غیر مستقل کہہ رہی تھی۔ پہلے سائنس مادہ کی تعریف یہ کرتی تھی مادہ توانائی کی ایک شکل ہے جس کی لازمی صفت آفاق میں پھیلا ؤ ہے۔ مطلب پہلے سائنس مادے یا جزلا یتجزی کوئی آخری چیز سمجھتی تھی لیکن آج کی سائنس ایٹم کی تعریف کر رہی ہے کہ یہ کام کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں۔توانائی کو کائنات کی اصل حصول قرار دیا جارہا ہے۔
اس حیات پرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب خواہش نفس کا پجاری بن گیا اور بڑے سے بڑا جانور بنے کا خواہش مند بن گیا۔اس کو مزید تقویت کارل مارکس کے تحر یک کمیونزم نے فراہم کر دی جس کا سادہ مطلب یہ تھا کہ املاک فرد کی نہیں ریاست کی ملکیت ہیں اور اس تک ہر خاص و عام کو رسائی ہونی چاہیے۔ یوں آج کا مغرب ایک جنسیاتی حیوان بن چکا ہے۔ ارسطو نے جب اسے معاشرتی حیوان قرار دیا تھا۔ آج وہ معاشرتی حیوان بڑھ کر جنسی حیوان بن چکا ہے اور ہمارے نئی نسل اس جنسی معاشرے کو ترقی یافتہ بلکہ ترقی کرنے کا معیار سمجھتی ہے۔
یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک
بہر حال یوں مغرب عقل پرستی سے جذبات کی پرستش اور جذبات سے جنسی حیوان بن کے سامنے آ گیا ہے۔ آج مغرب خود کو بڑے سے بڑا جنسی حیوان بنانے کا خواہش مند ہے اور جتنا بڑا جانور بنتا ہے اسے قابل فخر سمجھتا ہے اور اب ہم لالچی اور نادار بچے کی طرح اس کے ہراثر کو قبول کر رہے ہیں۔
تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں
کاش کہ ہم اپنے تصورعلم، تصور انسان تصور کائنات کی تشکیل نو کر کے جس میں مرکزیت واجب الوجود قادر مطلق خدا کو حاصل ہو اور اقتدار اس جنسی حیوان کے ہاتھ سے چھین کر انسان کو اس کا اشرف المخلوقات ہو ناباورکراسکیں۔ اللہ ہمیں حفظ وامان سے نوازے۔
آخر میں اگر میں اپنی بات کا خلاصہ پیش کرنے کے لیے چند جملے عسکری صاحب سے ہی مستعار لے رہا ہوں۔”وقت کی راگنی“ کے پہلے مضمون مشرق اور مغرب کی آویزش میں لکھتے ہیں۔
”مشرقی اور مغربی ادب میں بنیادی اختلاف اس وقت پیدا ہوا۔ جب یورپ نے نشاۃ ثانیہ کے دور میں حقیقت کے اس تصور چھوڑنا شروع کیا جو دونوں کے درمیان مشترک تھا، یہ تصور چھوڑنے کے بعدیورپ پر کیا گزری، اور،مغربی معاشرے میں کیا انقلابات رونما ہوئے یہ ایک بہت لمبی بحث ہے۔مختصرا اور بطریق مجاز یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کے ہر گھر میں خدا کی بجائے واشنگ مشین آگئی،اور ہر گھر والے کی بیوی ڈرائی کلینر بن گئی۔
مزید لکھتے ہیں کہ ”خلاصہ کلام یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ سے لے کر اب تک جن چیزوں کو اہم ترین حقیقت سمجھا گیا وہ سلسلہ وار یہ ہیں۔انسان، تجزیاتی عقل،جذبہ، حسیات، لاشعور، حیوانات، نباتات،غیر نامیاتی مادہ۔اس پورے سلسلے میں مشترک چیز یہ ہے کہ کہ یہ سب مادی دنیا کے اجزاء اور مادے کی مختلف شکلیں ہیں۔ اب سنیے کہ خود مغربی تہذیب کے بڑے نمائندوں نے اپنے معاشرے کی ہر اہم تبدیلی کے پورے عمل کا خلاصہ کس طرح پیش کیاہے۔انیسویں صدی کے آخر میں نٹشے نے اعلان کیا کہ خدا مر گیا۔۱۹۴۵ء کے قریب ڈی ایچ لارنس نے اعلان کیا کہ انسانی تعلقات کا ادب مرگیا۔۱۹۴۵ء کے قریب مالرو نے اعلان کیا کہ انسان مرگیا۔
ماشاءاللہ ، محمد حسن عسکری کی کتاب” جدید یت ” کا خلاصہ کرنے کی ایک بہترین کوشش کی ہے۔ جسکی یقیناً طلباء مدارس کے لیے بے حد مفید ہے ۔ اللہ کریم محرر کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے