بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ مقلد کا ایمان اگر معتبر ہے تو کیا اس سے یہ ثابت نہ ہوا کہ جاننا (علم) و ماننا (ایمان) الگ ہیں؟
1۔ پہلی بات یہ سمجھئے کہ مقلد کے ایمان کی بحث میں کتب کلام میں کافی قیل و قال ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں ایمان کو علم سے الگ نہیں کیا جاتا، اگر کیا جاتا تو یہ بحث ہی نہ ہوتی۔ یہ بحث خود بتارہی ہے کہ اس سے جو فائدہ حاصل کرنا مقصود ہے وہ محل نظر ہے۔
2۔ مقلد کا معنی وہ شخص ہے جو بلا کسی درست دلیل کے محمدﷺ کے دعوی نبوت کی خبر میں ان کے سچے ہونے کی تصدیق کرے، جیسے مثلاً کوئی کہہ دے کہ کل میں نے آلو کھائے تھے اس لئے میں انہیں سچا مانتا ہوں، میری گلی میں مسلمان رہتے ہیں بس اس لئے انہیں سچا مانتا ہوں، میں نے ایک مسلمان لڑکی سے نکاح کرنا ہے اس لئے سچا مانتا ہوں وغیرہ۔ یہاں میں “درست دلیل” کی تفصیل کو چھوڑ دیتا ہوں۔
3۔ جس شخص کے پاس دلیل نہیں اس کی محمدﷺ کی تصدیق کیسے قابل قبول ہے؟ اس پر بحث ہوئی:
الف) بعض نے کہا کہ علم میں دلیل شرط نہیں، صرف مطابق واقعہ جزم یا اعتقاد کافی ہے۔ اس قول والوں کی رو سے مقلد کا ایمان علم رہا اور مسئلہ حل ہوگیا۔
ب) جنہوں نے کہا کہ علم کے لئے دلیل شرط ہے ان میں اختلاف ہوا کہ مقلد کا کیا کریں؟
• بعض نے کہا کہ اس کا ایمان معتبر ہی نہیں یہاں تک کہ دلیل سیکھے۔ یہ بعض ائمہ معتزلہ کا قول ہے۔
• بعض نے کہا کہ ابدی عقاب سے بچنے کے لئے یہ تصدیق بھی معتبر ہے لیکن دلیل نہ سیکھنے کی وجہ سے ایسا شخص گنہگار ہے۔ یہ قول بعض متکلمین اہل سنت نے بھی لیا۔
• بعض اہل علم (اور انہی کی رائے درست ہے) نے دلیل کے معیار کو ایک متکلم کے ہاں دلیل کی تفصیل سے کم کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عامی موٹی موٹی بات بھی جانتا ہوں تو یہی کہا جائے گا کہ اسے دلیل معلوم ہے اگرچہ ایک ماہر متکلم کی طرح اسے بیان کرنے پر قادر نہ ہو۔ مثلا اگر کوئی شخص بجلی کی کڑک کو دیکھ کر کہے “سبحان اللہ” یا “اللہ کی قدرت ہے” وغیرہ، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ دلیل حدوث کو جانتا ہے کہ “یہ واقعہ ایک حادث ہے اور حادث بدون محدث نہیں ہوتا” وغیرہ وغیرہ اگرچہ ایک متکلم کی طرح اسے تھیورائز کرنے سے عاجز ہو۔ ان حضرات نے دلیل کے معیار کو نرم کرکے ایسے عامی کے ایمان کو اس مقلد کے ایمان سے الگ کردیا جس کا ذکر اوپر ہوا، یوں اس شخص کا ایمان بھی علم بن جاتا ہے۔ اس قول کے مطابق عوام کے ایمان کو ابدی عقاب سے بچانے میں معتبر ماننے کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بطور دلیل و علم قبول کرلیا جاتا ہے، جیسے اگر کوئی شخص کہے کہ محمدﷺ کو اس لئے سچا مانتا ہوں کہ انکے امتی امام ابوحنیفہ و امام شافعی رحمہما اللہ جیسے اعلی علم والے ہیں تو یہ بھی دلیل ہے، یعنی ایک متکلم اس کی اس بات کو ہم آھنگی سے بطور دلیل تھیورائز کرلے گا۔ البتہ اگر وہ دلیل بالکل ہی غلط یا غیر متعلق بات ہو تو اس پر مبنی تصدیق ایمان نہیں ہوگا۔ مثلا اگر کوئی کہے کہ میں اس لئے مسلمان ہوں کیونکہ مسلمانوں کے معاشرے میں رہنے کے لئے میں اسے ضرورت سمجھتا ہوں تو محمدﷺ کے سچے ہونے کی یہ تصدیق ایمان نہیں۔ آج کل ہمارے ارد گرد ایسے کلچرل مسلمان بستے ہیں۔ اسی ضمن میں دوسری بات یہ کہی گئی کہ اگر کوئی عامی اتنا سیدھا سادہ ہے کہ کسی بھی دلیل کو سمجھنے سے قاصر ہے، تو اس سے دلیل سیکھنے کی شرعی تکلیف رفع ہوگئی، یوں یہ شخص گنہگار نہ ہوگا۔ اس طرح بھی سیدھے سادھے عوام (masses) کے ایمان کو معتبر رکھتے ہوئے گناہ سے بچانے کی راہ نکلتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جنہوں نے دلیل کو علم کی شرط کہا اور جنہوں نے نہیں کہا، بالاخر ان کی بحث کا حاصل یہی ہے کہ جاننے و ماننے میں فرق نہیں۔ دلیل کو علم کی شرط کہنے والوں نے بھی دلیل کے معیار کو کم کرتے ہوئے عامی کے ایمان کو نرے مقلد کے ایمان سے الگ کرکے اسے علم کہا۔ یوں مقلد کا ایمان اور عامی کا ایمان الگ کیٹیگریز بن جاتی ہیں۔
پس مقلد کے ایمان کی بحث کو ایمان و علم میں دوئی کے لئے پیش نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ بحث بذات خود بتا رہی ہے کہ علم کو ایمان سے الگ کرنا ہی علما کے نزدیک مسئلے کا باعث ہے، اور مقلد کے کیس میں یہی پرابلم لاحق ہوتی ہے۔ جسے ٹھیٹھ معنی میں مقلد کہتے ہیں (جس کی تعریف اوپر دی گئی) اس کے ایمان کو معتبر نہیں مانا جاتا الا یہ کہ اس معاملے میں اسے مرفوع القلم کے حکم میں کہا جائے۔ ایمان کے لئے درست دلیل ہی چاہئے، چاہے آپ اس درست دلیل کا معیار کتنا ہی کم رکھیں، چاہے آپ اس میں اختلاف کریں کہ وہ کم از کم معیار کیا ہے۔ لیکن سرے سے بدون دلیل ایمان، یہ کوئی چیز نہیں ہے اس لئے کہ یہ معرفت نہیں۔ اگر یہ معتبر ہے تو کلچرل مسلمان ہونے سمیت ہر قسم کی پراگمیٹزم پر مبنی تصدیق بھی معتبر بن جائے گی۔
کمنت کیجے