جدید صنعتی دور شروع ہوا تو مشینوں نے انسانوں کی جگہ سنبھال لی اور غلاموں کی مزید ضرورت نہ رہی۔ چنانچہ ازل سے سیانا انسانی ضمیر جاگا اور جن ممالک میں صنعتی ترقی ہو رہی تھی اور غلاموں کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی وہاں سے اس کے خاتمے کی آواز اٹھنے لگی۔
اس آواز نے پوری دنیا میں پھیلنا شروع کیا اور دھیرے دھیرے مختلف ممالک سے یہ ادارہ مٹتا گیا۔ جن ممالک میں صنعتی ترقی نہیں ہوئی اور روایتی زرعی معیشت چلتی رہی وہاں غلامی بھی دیر تک جاری رہی۔ نظریات نے بعد میں جنم لیا، پہلے ضرورت کا خاتمہ ہوا۔
انسانیت کا ضمیر بھی کچھ دیکھ بھال کر ہی جاگتا ہے۔ اگر سلطنت عثمانیہ یا مغل دور کے برصغیر میں صنعتی انقلاب آتا تو غلامی کے خاتمے کا آغاز مسلمان ممالک سے ہوتا اور آج ہم فخر سے کہہ رہے ہوتے کہ اس بدنما ادارے کو ہم نے ختم کیا۔
چونکہ سائنسی ترقی کے باعث یہ سہرا مغرب کے سر پہ سجا دیا گیا اس لیے کبھی ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام اس کا بتدریج خاتمہ چاہتا تھا اور کبھی سرمایہ دارانہ نظام میں کام کرنے والے مزدوروں کو غلاموں سے تشبیہ دے کر دل کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ دونوں دعوے اتنے ہی غلط ہیں جتنا مغرب کا غلامی کے خاتمے کا کریڈٹ لینے کا دعویٰ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کارنامے کا سہرا ان مشینوں کے سر ہے جو تاریخی ارتقا کے ایک مخصوص مرحلے پر مغرب میں ایجاد ہونا شروع ہوئیں۔
اسلام نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی جو اس دور میں ایک انقلابی تصور تھا۔ انسانیت کے سفر میں یہ حکم بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن غلامی کا خاتمہ نہیں کیا گیا کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو تاریخ کا پہیہ رک جاتا۔ جن بحری جہازوں کے ذریعے مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر یلغار کرتی تھیں انہیں غلاموں کے مجبور اور مضبوط بازو سمندر کے سینے پر اڑائے پھرتے تھے۔
تجارتی جہازوں کی بھی یہی صورتحال تھی۔ زراعت پر انحصار کرنے والی تہذیبیں غلاموں کے بغیر ٹھٹھر کر ختم ہو جاتیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں یہی مظلوم طبقہ انسانی تہذیب کو آگے بڑھانے کا فریضہ سر انجام دیتا رہا۔
جب سٹیم انجن بنا تب جا کر ان کی ضرورت کا خاتمہ ہوا، کھیتوں میں مشینری پہنچی تو غلاموں کے بغیر کام چلنا شروع ہوا۔ کارخانوں میں مشینری کا استعمال شروع ہوا تو وہاں بھی غلاموں کی ضرورت باقی نہ رہی۔
مغرب میں بھی غلامی کے خاتمے کا سہرا تجارتی طبقے کے سر ہے جنہیں غلاموں کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے برعکس زراعت پر انحصار کرنے والے مغربی دنیا کے علاقوں نے غلامی کو برقرار رکھنے پر اصرار کیا۔ امریکہ کی خانہ جنگی کی تاریخ پڑھ لیں، اس کی وجہ انہی دو طبقوں کی کشمکش تھی۔
اگر مغربی دنیا صنعتی انقلاب سے کئی صدیاں قبل غلامی کے مکمل خاتمے کا اعلان کرتی تب انہیں تمغہ حریت دیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہزارہا سال تک یہ ادارہ مکمل طور پر قائم و دائم رہا۔ جس طرح افریقہ سے زبردستی غلاموں کو پکڑ پکڑ کر مغربی دنیا میں لایا گیا اس کی تفصیلات پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔
کمنت کیجے