سید محمد علی شاہ شیرازی
ترکی سے محبت کے جذبات ہر صاحبِ ایمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے،اس کی وجہ ترکی کا جغرافیہ یا اہلِ ترکی کے علمی ،ادبی یا ثقافتی کارنامے نہیں بلکہ خدمتِ اسلام ہے،یہی وجہ ہےکہ خودتاریخِ ہندمیں تحریکِ خلافت،تحریک ترکِ موالات اورتحریک ریشمی رومال کےعنوان سےخلافتِ عثمانیہ کی حمایت اوراس کے لیےدل و جان ، مال و آن قربان کرنے کے جذبات سے بھری پڑی ہے۔
تعارف:
ترکی کا نام مڈل لاطینی تورکیا سے ماخوذ ہے، یعنی ” ترکوں کی سرزمین”، تاریخی اعتبار سےمشرقی یورپ اور وسطیٰ ایشیاء کے بالکل مختلف علاقے کاحوالہ دیتاہے، جوقرونِ وسطیٰ کےابتدائی دورمیں ترک عوام کے زیر قبضہ تھا،اس وقت سے جب آج کےدورکےکچھ حصوں کوترکوں نےفتح کیا تھا، ترکی کی تاریخ سلجوق سلطنت کی قرونِ وسطیٰ کی تاریخ، سلطنتِ عثمانیہ کی قرونِ وسطیٰ سے لےکر جدید تاریخ اورسن 1920 ءکی دہائی سے جمہوریہ ترکی کی تاریخ پر محیط ہے،یورپ اورایشیاءکےدرمیان محلِ وقوع کےاعتبارسےاہم مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی مشرقی اورمغربی ثقافتوں کے تاریخی چوراہے پر واقع ہے۔
تاریخ:
مورخین عام طورپراس بات پرمتفق ہیں کہ پہلےترک افراد وسطی ایشیاء سے سائبیریا تک کے خطے میں رہتے تھے،تاریخی طور پر یہ چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد قائم ہوئے تھے،ترکی کی طویل تاریخ کو مورخین نےمختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے جیساکہ رومی دور، سلجوقی دور اورعثمانی دور،ہم یہاں ترکی کے اسلامی ادوار کی تفصیل بیان کریں گئے،ترکی کو تاریخ کے اس آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کریں گے جس سے ترکی کی اسلام کے لیے ادا کردہ خدمات شمس نیم روز کی طرح عیاں ہو جائیں گی، اورہم اسےتین ادوار میں تقسیم کررہے ہیں:(1)اسلام کے عروج کا دور(2)اسلام کے زوال کا دور(3)موجودہ صورت حال۔
(1)اسلام کے عروج کا دور:
ترکوں کی تاریخ میں شریعت کی پاسداری ، دینی محبت ، ایفائے عہد اور رواداری کے صدہا واقعات ہیں جن سے اس قوم کی بلند سیرتی کا اندازہ ہوسکتا ہے،مسلمانوں نے ابتدائی فتوحات ہی میں موجودہ ترکی کے مشرقی علاقوں کو اپنے زیرِنگیں کر لیا تھا لیکن اناطولیہ کے وسطی علاقے نہویں صدی میں سلجوقوں کی آمد تک مسلم ریاست نہ بن سکے،بلادِ اسلامیہ پر چنگیز خان کی یلغار کے بعد ترکوں نے وسط ایشیا سے ہجرت کرکے اناطولیہ کو اپنا وطن بنایا،جنگ ملازکرد میں رومیوں پر سلجوقیوں کی عظیم فتح نے اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا اور یوں ترکی کا بیشتر علاقہ ہمیشہ کے لیے بلادِاسلامیہ کا حصہ بن گیا،سلجوقیوں کے زوال کے بعد ترکی کے سیاسی منظر نامے پر عثمانی ابھرے جنہوں نے اسلامی تاریخ کی سب سے عظیم ریاست “سلطنتِ عثمانیہ” تشکیل دی،سلطنتِ عثمانیہ 631سال تک قائم رہی، سولہویں اورسترہویں صدی میں دنیا کی سب سے طاقتور سیاسی قوت تھی،عثمانیوں کی فتوحات ہی کے نتیجے میں اسلام وسط یورپ تک پہنچا اور مشرقی یورپ کا علاقہ عرصہ دراز تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا،سلطنتِ عثمانیہ کی سب سے بڑی فتح وہ شہر ہے جس کی خبر آقا کریم ﷺ نے دی تھی ،اس لیے مسلمان ہر دور میں اسے فتح کرنےکی کوشش کرتے رہے ، صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم میں سے جو پہلا لشکر قسطنطیہ کی مہم پہ گیا اس مہم میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے جن کی وہیں وفات ہوئی ،ان کا مزار بھی استنبول ہی میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے،متعدد سلاطین کے حملوں کے بعد بالآخر قسطنطیہ فتح کرنے کی سعادت خاندانِ آلِ عثمان کے ساتویں نوجوان خلیفہ سلطان محمد فاتح کے حصے میں آئی جس نے خشکی پہ جہاز چلانے کا تاریخی کارنامہ انجام دے کر یہ شہر فتح کیا اوراس کے بعد یہ خلافتِ عثمانیہ کا دارالحکومت قرار پایا اور تقریباً پانچ سو سال تک اسے پورے عالم اسلام میں مرکزیت کا مقام حاصل رہا،انہی خصوصیات کی بنا پر علامہ اقبال نے اس شہر کا ذکر اس طرح کیا ۔
خطّۂ قُسطنطنیّہ، یعنی قیصرکادیار
مہدیِ اُمّت کی سَطوت کا نشانِ پائدار
صورت خاک حرم یہ سر زمین بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہِ لولاکؐ ہے
نگہتِ گُل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تُربتِ ایّوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملّتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کُشت و خُوں کا حاصل ہے یہ شہر
بالآخر مسلمانوں کے زوال کا آغاز بھی یہیں سے ہوا ور الغاءِ خلافت کی صورت میں عالمِ اسلام کے اتحاد پر سب سے کاری ضرب بھی یہیں سے لگائی گئی۔
زوال کا دور:
19مئی 1919ء کو ترکوں نے اتحادی جارحیت کے خلاف تحریک آزادی کا اعلان کیا جس کی قیادت ایک عسکری کمان دار مصطفیٰ کمال پاشا کر رہے تھے۔ 18 ستمبر 1922ء کو تمام جارح افواج کو ترکی سے باہر نکال دیا گیا اور ایک نئی ریاست تشکیل دی گئی جو جمہوریہ ترکیہ کہلائی، یکم نومبر 1922ء کو ترک مجلس (پارلیمان) نے خلافت کا خاتمہ کر دیا اور یوں اس طرح 631 سالہ عثمانی عہد کا خاتمہ ہو گیا ۔ 1923ء کو معاہدہ لوزان کے تحت بین الاقوامی برادری نے نو تشکیل شدہ جمہوریہ ترکیہ کو تسلیم کیا،اسی تناظرمیں تاریخ ہند پہ بھی ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے،پہلی جنگ ِعظیم (١٩١٤ ء تا ١٩١٩ء) کے خاتمے کے بعد انگریز خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے لیےتیزی سے کام کرنے لگے،حالانکہ ہندوستان میں انگریزوں نے جنگ عظیم کے دوران مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ خلافت کا خاتمہ نہیں ہوگامگر جب انگریزوں کی سازش کی خبریں آنے لکھیں تو دسمبر ١٩١٩ءکی خلافت کانفرنس کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جنوری ١٩٢٠ءمیں ایک وفد انگلینڈ بھیجا جائے جو مسلمانوں کے اس مطالبہ سے وہاں کے حکمرانوں کوآگاہ کرے کہ خلافت کو منسوخ نہ کیا جائے،اس موقع پر علامہ اقبال نے ”دریوزہ خلافت“ تحریر کی ۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
ترکی کو احکامِ حق سے بے وفائی سکھانے کے جرم کا ارتکاب مصطفی کمال اتاترک نے کیا ،اتاترک کون تھا اور اس کے کیا عزائم تھے یہاں ہم تفصیل سے بحث کریں گے۔
علامہ ابوالحسن علی ندوی “مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش ” میں لکھتے ہیں:
ہم کمال اتاترک کے مستند و ہمدرد ترک سوانح نگار عرفان اورگاکی کتاب”اتاترک” سے اقتباسات پیش کرنے پہ اکتفاء کرتے ہیں کمال اتاترک نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس کی اصل جنگ مذہب کے خلاف ہے بچپن ہی سے اس کے نزدیک خدا کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،وہ محض اس بات پہ یقین رکھتا تھا کہ زمانہ ماضی میں اسلام محض ایک تخریبی طاقت رہا ہے”تہذیبِ مغرب پہ اس کو عشق و شیفتگی دیدنی ہے “بڑی حد تک مصطفی کمال جس چیز کی تلقین کرتا تھا اس پر وہ خود بھی عامل تھا وہ اس نئے خدا یعنی تہذیبِ جدید کا پرجوش پجاری اور اس کا وفادار تھا اس نے اس لفظ تہذیب کو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا دیا ،جب وہ اس تہذیب کے متعلق گفتگو کرتا تو اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی تھی اوراس کے چہرے پہ ایسی کیفیت نمودار ہوتی تھی جو کسی صوفی کے مراقبہ کے وقت اس کے چہرے پہ نظر آتی ہے۔
گو کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ترکی کو مغرب میں مدغم کرنا چاہتا تھا،اس کے لیے کس درندگی پہ اتر آیا،اس کا ذکر کرتے ہوئے ترک سوانح نگار لکھتا ہے:
مذہبی حلقے کے افراد جنھوں نے لوگوں میں جوش پیدا کیا تھا یا تو پھانسی چڑھا دئیے گئے یا روپوش ہونے پہ مجبور ہوئے ،کہیں رحم و رعایت سے کام نہیں لیا گیا،مصطفیٰ کمال نے منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کر لیا اس کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے استعمال کررہا ہے،لوگ گرفتار کئے جاتے تھے اورمحض اس الزام میں کہ انہوں نے مذاق کیا ہے پھانسی چڑھا دئیے جاتے، بےخطا اور مجرم دونوں یکساں اس کا نشانہ بنے ،اس نے نہ تو تحقیقاتی عدالتوں کو ان کی عاجزانہ کاروائی پر سرزنش کی اور نہ قوم کی مرضی کو شکست دینے میں تامل سے کام لیا۔
کمال اتاترک کا مشہور انگریز سوانح نگار “H.C Armstrong” کمال اتاترک کے اصلاحی و انقلابی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے حسب ذیل الفاظ لکھتا ہے:
اتاترک نے توڑ پھوڑ کی اس زبردست اور عمومی کاروائی کی تکمیل کرنی شروع کی جس کا وہ آغاز کرچکا تھا ،اس نے فیصلہ کیا تھا کہ ترکی کو اپنے بوسیدہ اور متعفن ماضی سے علیٰحدہ کرنا ہے اور اس تمام ملبہ کو ہٹانا ہے جس نے اس کو گھیر رکھا ہے ،اس نے قدیم سیاسی ڈھانچہ کو واقعی توڑ پھینکا ،سلطنت کو جمہوریت سے آشنا کیا اور اس ترکی کو جو ایک شہنشاہی تھا ایک معمولی ملک میں تبدیل کردیا اورایک مذہبی ریاست کو حقیر درجہ جمہوریہ بنادیا،سلطان (خلیفہ)کومعزول کرکے قدیم عثمانی سلطنت سے سارے تعلقات ختم کرلئے تھے۔
جدیدیت کے نفوذ اور ملک کے مذہبی تشخص کے خاتمے کی کوشش کےلیے ترکی زبان کے رسم الخط کی عربی سے لاطینی کی جانب منتقلی اور لادینیت (Secularism) اختیار کرنے کا اعلان قابل ذکر ہے،مصطفی کمال، 1938ء میں انتقال کر گئے،ان کے نائب عصمت انونو ملک کے دوسرے صدر بنے اور ان کے دور میں اتاترک کے منصوبہ تنفیذ جدید یت کو جاری رکھا گیا۔
دوسری جنگ عظیم میں ابتدائی طور پر ترکی غیر جانبدار رہا لیکن آخری مراحل میں محض خیر سگالی کے تحت اتحادیوں کا ساتھ دیا اور بعد ازاں اقوامِ متحدہ کا رکن بنا،دوسری جنگ عظیم کے بعد اشتراکی بغاوت سے نمٹنے میں یونان کی مشکلات اورترکی کی آبناؤں (در دانیال و آبنائے باسفورس) میں عسکری اڈے قائم کرنے کے سوویت مطالبات کے نتیجے میں ترکی کا جھکاؤ امریکہ اورمغرب کی جانب ہوگیا،اس سلسلے میں مغرب کی جانب سے بڑے پیمانے پر ترکی کی عسکری و اقتصادی مدد کی گئی،کوریائی تنازع میں اقوام متحدہ کی افواج میں شرکت کے بعد 1952ء میں ترکی نے شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم (نیٹو) میں شمولیت اختیار کی،جولائی 1974ء میں قبرص میں ترک مسلمانوں پر مسیحی یونانی آبادی کے وسیع مظالم پر ترکی نے قبرص میں جارحیت کی جس کے نتیجے میں ترک جمہوریہ شمالی قبرص قائم ہوئی جسے اب تک ترکی کے علاوہ کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا،آج بھی قبرص کا جزیرہ دو حصوں میں منقسم ہے،ترکی آئین کےتحت مسلح افواج کو ترک آئین و ملکی سلامتی کا محافظ قرار دیا گیا ہےاس طرح فوج کو مختلف مواقع پر بغاوت کر کے جمہوریت کو تہہ و بالا کرنے کا موقع ملا ہے اور انہوں نے متعدد بار جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا ہے جن میں 1960ء کی بغاوت سب سے اہم ہےجو وزیر اعظم عدنان میندریس کی اصلاحات کے خلاف تھی جنہوں نے ملک کو لادینیت کے نئے مفاہیم سے روشناس کرایا اور مذہب خصوصاً اسلام پر لگائی گئی بے جا پابندیاں اٹھائیں،فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے عدنان اور ان کے ساتھیوں کو تختۂ دار پر چڑھا دیا۔یہ مصطفیٰ کمال کا ہی کارنامہ ہےکہ ترکی ایک جمہوری، لادینی اورآئینی جمہوریت ہے جس کا موجودہ سیاسی نظام 1923ء میں سقوطِ سلطنت عثمانیہ کے بعد تشکیل دیا گیا،یہ اقوام متحدہ اور مؤتمر عالم اسلامی کا رکن اور 1949ء سے یورپی مجلس اور 1952ء سے شمالی اوقیانوسی معاہدے کا رکن بھی ہےجبکہ یورپی اتحاد میں شمولیت کے لیے مذاکرات طویل عرصے سے جاری ہیں، زوال کے دور کے بعد سلطنت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا اور بالآخر شکست کھا کر خاتمے کا شکار ہو گئی،جنگ کے بعد طے پانے والے معاہدۂ سیورےکے مطابق فاتح اتحادی قوتوں نے سلطنت عثمانیہ کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر آپس میں تقسیم کر لیا۔
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ
(3)موجود ہ صورت حال:
ترکی میں تہذیبِ اسلامی کے احیاء میں سیاست دانوں ،علماء و صوفیہ اور عوام الناس کا کلیدی کردار ہے۔
ترکی میں تہذیب اسلامی کے احیاء میں سیاست کا کردار:
1970ء کے عشرے میں ملک میں امن و امان قائم رکھنے میں ناکام مخلوط حکومتوں سے بیزار ہوکر ستمبر 1980ء میں فوج نے ایک مرتبہ پھر میں اقتدار سنبھال لیا،مارشل لائی ضوابط کے تحت کئی ہزار افراد پکڑ دھکڑ کی زد میں آئےان میں سے کئی ہزار کو تخریب کاری کا مجرم قرار دے کر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں اور کئی کو سزائے موت بھی دی گئی،ترکی میں نیا آئین نافذ کیا گیا۔
1989ء میں فوجی سربراہ کی جگہ طورغوت اوزال صدر بنے،صدر اوزال نے ترک معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا اور بین الاقوامی سطح پر ترکی کے رتبے کو کافی بلند کیا۔ وہ 1993ء میں انتقال کر گئے۔
مئی 1993ء میں وزیراعظم سلیمان دیمرل صدر منتخب ہوئے۔ جون 1993ء میں سابق وزیر معیشت تانسو چلر دیمرل کی جگہ راہ حق پارٹی کی سربراہ منتخب ہوگئیں اور یوں وہ ترکی کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں،اسلام پسندوں کو دبانے کے لیے استعمال کیے گئے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ترکی میں ان کی قوت بڑھتی چلی آ رہی ہے اور 1995ء کے انتخابات میں پہلی بار اسلام پسند رفاہ پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری اور واضح اسلامی نقطۂ نظر رکھنے والے نجم الدین اربکان ترکی کے وزیر اعظم بنے،رفاہ پارٹی کے اسلام پسند نظریات کے بعدقومی سلامتی کونسل کے ساتھ ان کے تعلقات میں بدمزگیاں پیدا ہوگئیں،یہ اندیشے بھی سر اٹھانے لگے کہ کہیں نئی حکومت ترکی کے لادین نظام اور مغرب کی طرف التفات کی پالیسی کو تباہ ہی نہ کردے،آخر کار قومی سلامتی کونسل کے دباؤ میں آکر جون 1997ء میں اربکان کو مستعفی ہونا پڑا اور ان پر عمر بھر کے لیے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی،اس کے باعث ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا سب سے زیادہ فائدہ بلند ایجوت کی جمہوری بائیں پارٹی کو ہوا اور انہوں نے پہلے مادر وطن پارٹی اور آگے چل کے راہ حق پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومتی بنائی۔
18اپریل 1999ء کو ہونے والے قومی اور بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں جمہوری بائیں پارٹی، مادر وطن پارٹی اور دیولت باہ چلی کی قوم پرست ایکشن پارٹی کے اتحاد نے حکومت بنائی جس میں بلند ایجوت ہی بدستور وزیراعظم رہے،ترکی کی آئینی عدالت (سپریم کورٹ) کے سابق سربراہ احمد نجدت سیزر کو 5 مئی 2000ء کو ترکی کا صدر منتخب کیا گیا،انہوں نے 16 مئی کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا،اس حکومت نے پہلے ہی برس آئینی و اقتصادی اصلاحات کا ایک منصوبہ بنایا،اس میں وہ نکات بالخصوص شامل تھے جن کے باعث یورپی اتحاد میں ترکی کی رکنیت کے امکانات بہتر ہوجاتے لیکن ان اصلاحات کو عملی شکل دینے کے بارے میں حکومت کی صلاحیت سے متعلق شکوک کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی جعل سازی کے باعث فروری 2001ء میں ترکی ایک اقتصادی بحران میں پھنس گیاجیسے جیسے یہ بحران سخت ہوتا گیا، کھلے بازار میں ترک لیرا کی فروخت بڑھ گئی،جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت میں 40 فیصد تک کمی کرنا پڑی،ساتھ ہی سود کی شرح اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع بھی کم ہونے لگے،اس بحران کا اثر جن دیگر معاملات پر پڑا ان میں اقتصادی استحکام کے لیے بلند ایجوت حکومت کے بے نظیر اقدامات اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے 11 ارب ڈالر کے قرض کی مدد سے چلنے والا مہنگائی توڑ پروگرام سرفہرست تھے۔
ان حالات سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم نے عالمی بینک کے ایک سابق نائب صدر کمال درویش کو مارچ 2001ء میں وزیر اقتصادیات مقرر کیا،متعدد اقتصادی و عملی اصطلاحات اور نچلی سطح پر اقتصادی استحکام اور میزانیہ سازی میں حکومت کو سہارا دینے کے لیے انہوں نے مئی 2001ء تک مجموعی طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 10 ارب ڈالرز کے قرضوں کا انتظام کیا۔ فروری 2002ء میں عالمی مالیاتی فنڈ نے 9 ارب ڈالرز کے مزید قرضے منظور کردیئے اور اس شرط پر سال بھر کے دوران چند قسطوں پر مشتمل مزید 5 ارب ڈالرز کا وعدہ بھی کیا کہ ترکی اپنی اقتصادی اصطلاحات ان کے مشوروں کی روشنی میں مرتب کرے گاتاہم حکومتی اتحاد میں کشیدگی چلتی رہی،عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط (بالخصوص سرکاری اداروں کی نجکاری) اور سیاسی اصطلاحات کی سست روی تنازعات کی بڑی وجوہ تھیں۔ مئی 2002ء میں خرابی صحت کے آثار سامنے آنا شروع ہونے کے باوجود بلند ایجوت کے مستعفی نہ ہونے کے باعث وزیراعظم کی اپنی جمہوری بائیں پارٹی کے 60 ارکان اسمبلی، نائب وزیراعظم اور وزیر خزانہ سمیت کئی وزراء نے بھی استعفے دے دیے۔ان استعفوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں اور حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں ترک پارلیمان کو مقررہ وقت سے 18 ماہ قبل 3 نومبر 2002ء کو نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
ان ظلمات کی اب امید ستارہ سحری محسوس ہورہی ہے ۔اسی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا
جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہوَر پیدا
کمال اتاترک کے ہاتھوں جس سیکولر نظام کا بیج بویا گیا تھا اب اس کی فصل مرجھا ہوئی ، مالیاتی گھپلوں، نظم و نسق میں کمزوری اور بد عنوانی کے باعث سیکولر طبقوں کی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔ ان کے مقابلے میں مقامی بلدیاتی انتخابات میں فتوحات حاصل کرنے والی اسلام پسند قوتیں انتہائی ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کر رہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ رفاہ پارٹی کے بعد ان سے نکلنے والا ایک دھڑا عدالت و ترقی پارٹی نمایاں ہو کر سامنے آیا اور اس نے مسلسل دو انتخابات جیت کر اب تک دائیں بازوں کی سب سے بھرپور قوت کے طور پر ابھری ہے۔ 2002ء اور 2007ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی عدالت و ترقی پارٹی نے آخری انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کر لی۔ اِس وقت رجب طیب اردوغان صدر ہیں، جن کی بیگم سر ڈھانپتی ہیں۔2002ء کے انتخابات کے موقع پر انصاف و ترقی پارٹی کے سربراہ رجب طیب اردوغان کو 1998ء میں اپنی کسی تقریر میں اسلام کے حق میں کلمات ادا کرنے کے باعث انتخابات و وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا گیا نتیجۃً ان کی جگہ ان کے نائب عبداللہ گل وزیراعظم بنائے گئے تاہم بعد میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اس پابندی اور اس کی وجہ سے ہونے والی سزا کو ختم کر دیا گیا۔ 9 مارچ کو ایک ضمنی انتخاب کے ذریعے اردوگان پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ان کو حکومت میں لانے کی خاطر عبداللہ گل وزارت عظمی سے دستبردار ہوگئے۔ انہیں بعد ازاں پہلے دور میں وزیر خارجہ اور دوسرے دور حکومت میں صدر جمہوریہ کا عہدہ دیا گیا۔
مارچ 2004ء میں انصاف و ترقی پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں 42 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔نومبر 2007ء میں ہونے والے دوسرے انتخابات میں انصاف و ترقی پارٹی نے سادہ ترین اکثریت حاصل کر لی اور بغیر کسی جماعت سے اتحاد کے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس دور میں سابق وزیر خارجہ عبد اللہ گل کو صدارت کا عہدہ دیا گیا۔اگست 2014ء سے رجب طیب اردوگان ترکی کے 12ویں صدرکی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں جدت پسندوں کا زور ٹوٹنے کے بعد ترکی نے اپنی اصل یعنی تہذیبِ اسلامی کی بازیافت کےلیے کوشش شروع کردی،مسلم تہذیب کے احیاء بھی ہر طبقے نے اپنی خدمات ادا کیں وہ چاہے سیاسی عظماء ہوں یا مذہبی علماء حتیٰ کے عوام الناس بھی اس میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
علماء و صوفیہ کی خدمات:
ترکی میں اسلامی تہذیب کےلیے جن علماء و مشائخ نے کاوش کی ہے ان کی خدمات کی فہرست تو طویل ہے لیکن ہم یہاں پہ صف اول کے امام کا ایک واقعہ نقل کرنے پہ اکتفاء کریں گےحضرت شیخ محمود آفندی علیہ الرحمہ ترک مایہ ناز عالم اورمفکر ہیں آپ کا تعلق جارجیا اور شام کی طرف واقع ترکی کے مشرقی علاقے سے تھا لیکن آپ وہاں سے ہجرت کر کے ترکی کے مرکزی شہر استنبول میں تشریف لے آئےیہاں پہ سلطان محمد فاتح کے نام سے منسوب علاقہ میں اسماعیل آغا نامی بستی کو اپنا مسکن بنایا جو شیخ الاسلام حضرت اسماعیل آغا فندی کے نام سے موسوم ہے،یہاں آپ کو دوچیلنج درپیش تھےایک تو یہ کہ آرتھوڈکس فرقے کے عیسائی حضرات اس شہر میں موجود چرچ کے گرد واقع عمارات کو خرید کر ویٹی کن آٹھ سٹی کے متوازی عیسائی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے دوسرا یہ کہ آپ جس مسجد کو آباد کرنے تشریف لائے تھے یہ گیارہویں صدی میں تعمیر کی گئی ایک تاریخی مسجدہےاس کے اندورنی ہال کو عین خانہ کعبہ کی اندرونی پیمائش کے مطابق بنایا گیا تھا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے وہ مسجد ویران پڑی تھی اور اس میں کوئی ایک بھی نمازی نہ تھا،شیخ آفندی نے جب یہاں ڈیرہ لگایا تو حضرت خود گھر گھر جاتے اوراہلِ علاقہ سے کہتے میں ہمہ وقت مسجد میں ہوتا ہوں اگر کوئی کام پڑ جائے تو مجھے یاد رکھنا خادم کو ہر مشکل میں اپنے ساتھ پاؤ گے آپ اٹھارہ برس تک لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے لیکن کوئی ایک بھی نمازی نہ آیا لیکن آپ یاسیت کا شکار نہ ہوئے اور اٹھارہ سال کے بعد جمود پگھلا اور شیخ کی توجہات اور دعائیں رنگ لائیں اور مسجد میں باجماعت نماز شروع ہو گئی پھراللہ وہ وقت بھی لایا کہ جب اس محلے میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جہاں داڑھی مبارک اور عمامہ شریف کے مسنون حلیے اور مکمل شرعی پردے میں خواتین موجود نہ ہوں،آپ نےچرچ کےقریب ایک اورمسجدمیں مثنوی شریف کا درس دیناشروع کردیا رفتہ رفتہ یہ درس اتنا مقبول ہوا کہ اس مسجد کا نام ہی مثنوی خانہ پڑ گیا،اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی کہ وہ مسجد جہاں جمعہ کی اذان تک نہیں ہوتی تھیں اس مسجد کو عظیم خانقاہ ، مدرسہ اور فلاحی ادارہ تعمیر کر ڈالا جو آج دنیا بھر میں احیائے اسلام اور رجوع الی الاسلام کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔
علمائے کرام کی حیرت انگیز قربانیاں اپنے مقصد سےلگن کی روشن مثالیں ہیں جوحضرات دیہات میں بچوں کو پڑھاتے تھے وہ کاشت کاری کا لباس پہنتے اور کتابوں کے ساتھ کھیتی باڑی کے آلات تیار رکھتے گاؤں سے باہر اونچی جگہ یا درخت پر دو بچوں کو بٹھا دیا جا تا تھا جیسے ہی فوجی جیپ آتی نظر آتی ،تمام طلبہ کتابیں چھوڑ کر کھیت میں پہنچ جاتے اور دل جمعی سے قومی زرعی پیداوار کے اضافے میں جت جاتے شہر کے اسا تذہ نے تو عجیب ہی طریقہ اختیار کیا تھاترکی میں یورپ کی طرح ریل کا سفرسستا اورآرام دہ ہے،یہ حضرات سستی قیمت پر مستقل نشستیں لے لیتے صبح صبح شاگردوں سمیت ریل گاڑی کا ایک ڈبہ مخصوص کر کے سفر شروع کر دیتے سفر جاری رہتااورزمینی سفر کے ساتھ علمی سفر بھی چلتا رہتاآخری منزل پر اتر نے کے بعد یہ لوگ کچھ دیر سستاتےپھر استاد اور شاگردوں پر مشتمل مسافروں کی یہ جماعت واپسی والی ریل پر سوار ہو جاتی اور وقفے کے بعد والے اسباق مکمل کرتے ہوئےشام کو بخیریت گھر پہنچ جاتے،اس دور کے بہت سے طلبہ ایسے ہیں جنہوں نے اس طرح آہنی چھکڑے پر بیٹھ کرسفر در سفر کی شکل میں تعلیمی مراحل طے کیے۔
عوام الناس کا کردار:
مفتی ابو لبابہ شاہ منصور اپنے ترکی کے سفرنامہ “ترک ناداں سے ترک دانا تک“میں لکھتے ہیں:
ایک دن ہم استنبول کے”حی الصالحین” یعنی اسماعیل آغا نامی محلے میں سلطنتِ عثمانیہ کے شیخ الاسلام حضرت اسماعیل آغا آفندی کی مسجد میں نماز پڑھ کر نکلے تو سامنے واقع ٹوپیوں ،پگڑیوں اور جبوں کی دکان میں جا وارد ہوئےحسبِ توفیق و حسبِ منشاء خریداری سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ بارش نے آ لیا ہم دکان سے نکل کر اس کے بیرونی سائبان تلے کھڑے ہوگئے ،اب کیفیت یہ تھی کہ ہماری پشت پردکان تھی اور سامنے مسجد کا دروازہ اور ہم کھڑے بارش رکنے کا انتظار کررہے تھے ،سامنے مسجد کے دروازے پر ایک شخص کھڑا غبارے بیچ رہا تھا،یہ عام غبارے نہ تھے صورتحال یہ تھی کہ اس نے ایک بڑے سے بورے میں لمبے لمبے ڈنڈے نما غبارے بھرکر بائیں بازو سے لٹکائے ہوئے تھےیہ لمبے لمبے غبارے وہ گھر سے تیار کرکے لایا تھا وہ ایک ایک کرکے ان کو بورے سے نکالتا اور ہاتھوں ہاتھ فٹافٹ ان کو مختلف شکلوں میں ڈھال کر بچوں کو دیتا ،احقر نے غور کیا تو وہ دو ہی چیز یں بنا رہا تھا تاج والی ٹوپی اور دستے والی تلوار یہ تماشا ابھی جاری ہی تھا کہ ایک اور چیز کا احساس ہوا یہ شخص یہ غبارے بچوں کے علاوہ بڑوں کو بھی دے رہا ہے اور مفت بغیر کسی قیمت کےگویا بانٹ رہا تھا،راقم نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ آپ قریب جاکر دیکھیں کہ ماجرا کیا ہے غبارے والے کا غبارہ پھٹ جائے یا ضائع ہو جائے تو اس کو صدمہ کم نہیں ہوتا یہ کیسا سخی بادشاہ قسم کا غبارہ فروش ہے کہ ہر آنے جانے والے کو مفت بانٹے جارہا ہے ساتھی قریب گئے تو اس اللہ کے بندے نے ان میں کسی ایک کوتلوار اور دوسرے کو ٹوپی تھما دی انہوں نے پیسے دینے چاہے تو وہ مسکراہٹ سے نواز کر دوسرے بچوں کی طرف متوجہ ہوگیا،انہوں نے واپس آکر تصدیق کی کہ اس کے غبارے صرف ٹوپی اور تلوار کی شکل میں ہیں اور کسی سے پیسے نہیں لے رہا بلا معاوضہ پکڑائے جارہا ہے ،ایک عجیب بات یہ بھی بتائی گئی کہ جب ہم نے پوچھا آپ پیسے کیوں نہیں لے رہے ؟تو اس وقت اس سے ایک راہ گیر بچہ غبارہ لے رہا تھا ،اس نے بچے کے رخصت ہونے تک کوئی جواب نہ دیا جب وہ خود چلا گیا تو بتایا کہ شاید کوئی یتیم بچہ بھی ان میں ہواور وہ خوش ہو کہ مجھے دعا دے اس لیے مفت تقسیم کررہا ہوں اور بچے کے سامنے اس لیے جواب نہ دیا کہ کہیں وہ یتیم نہ ہو اس کی دل شکنی یا بے تو قیری نہ ہو جائے،صورتحال تجسس بڑھانے والی تھی کئی قرائن صاف بتا رہے تھے کہ یہ محض اس نے ہمیں مطمئن کرنے کے لیے وجہ گھڑی ہے وہ تو بڑوں کو بھی بلا روک ٹوک غباروں سے نواز رہا تھا پھر یتیموں کو ہی دینا تھا تو یہ پوش علاقہ ہے یہاں اکثریت سے یتیم بچے کہاں ؟نیز ٹوپی اورتلوار دو چیزوں پر ہی اکتفاء و اصرار کیوں ؟راقم نے اس کے غباروں نما ” دستی گودام” کے خالی ہونے کا انتظار کیا اور پھر ساتھیوں کو دوبارہ اس کے پاس بھیجاانہوں نے جاکرکہا ہمارے ساتھ ایک پاکستانی شیخ ہےوہ تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہےاس نے تب تک خالی بورا لپیٹ کر جیب میں اڑس لیا تھا وہ مسکراتا ہوا سائبان کے نیچے آگیااحقر نے چھوٹتے ہی ترجمان سے کہا کہ اس سے کہیں اب سچ سچ بتائے کہ کیا ماجرا ہے؟ ترک پاکستانیوں کےلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور خوش مزاج بھی ہوتے ہیں اس نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں نے بھی سڑک کی دوسری جانب سے تاڑ لیا تھا یہ شیخ بارش رکنے سے زیادہ میرے فارغ ہونے کے انتظار میں ہےمیں نے پچھلے سوال پر گرہ لگائی کہ آپ نے غریب بچوں سے دعائیں لینی ہیں تو صرف ٹوپی اور تلوار ہی کیوں بناتے ہیں ؟بچے تو دوسری چیزوں سے بھی بہل جاتے ہیں اس نے سنجیدگی اختیار کر تے ہوئے بڑی درد مندی سے کہا:”خلافتِ عثمانیہ کا سایہ سر سے ہٹنے اور سیکولر نظام کے مسلط ہونے کے بعد ہمارے سر سے عزت کی ٹوپی اتر گئی ہے اور ہمارے ہاتھ سے بہادری اور انصاف کی تلوار چھن گئی ہےمیں اس امید پر یہ کھلونے تھماتا ہوں کہ شاید ان بچوں میں سے کوئی عزت کی یہ علامت اور اس کے حصول کا ذریعہ واپس لوٹا دے”۔اس کا یہ ایمان افروز جملہ سن کر ہم تھوڑی دیر کےلیے سکتے کی سی کیفیت میں اسے دیکھتے رہ گئے وہ ظاہری اعتبار سے معروف معنوں میں متشرع نہ تھا ،ڈاڑھی منڈی ہوئی ،پتلون پہنی ہوئی اور عام وضع قطع میں تھا ،کہنے لگا:“جب سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تلوار آجاتی ہے تو پھر گنبدمسجدوں پر سج جاتے ہیں اور مینار افق سے بلند ہو جاتے ہیں”۔
اس واقعہ سے وہاں کے عوام کی نفسیات اور ان کی اسلام سے محبت اور نفاذ اسلام کی خواہش نیم روز کی طرح عیاں ہے،اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو سر بلندی عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید محمد علی شاہ شیرازی، جامعہ معظمیہ معظم آبادشریف میں دینی علوم کے استاذ ہیں۔
ماشاءاللہ ترکی کے بارے میں معلومات کے لیے بہترین تحریر
شاہ صاحب آپ کی محبتوں کا شکریہ