Home » مدرسہ ڈسکورسز: قدیم علوم سے ربط پیدا کرنے کا جدید پروجیکٹ
احوال وآثار مدرسہ ڈسکورسز

مدرسہ ڈسکورسز: قدیم علوم سے ربط پیدا کرنے کا جدید پروجیکٹ

صدیق احمد فاروق
مدرسہ ڈسکورسز کا علم سب سے پہلے ماہ نامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے 2018 کے کسی شمارے کے ذریعے ہوا۔ یہ  اب ذہن میں نہیں کہ کس شمارے میں اور کس تحریر میں اس پروجیکٹ کے متعلق پڑھا تھا۔ البتہ مدرسہ ڈسکورسز کے متعلق ضروری جان کاری  کے بعد اسے جائن کرنے کا شوق اسی وقت دل میں پیدا ہوا، لیکن نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر اسے جوائن نہ کرسکا۔ بالآخر مدرسہ ڈسکورسز کے ایک ذیلی پراجیکٹ  “مدرسہ ڈسکورسز انکیوبیٹر پروگرام” میں شرکت کے لیے  اپلائی کرلیا اور ٹیسٹ کے بعد داخلہ بھی مل گیا۔ اس پروگرام میں تدریس کی ذمہ داری  وہ اساتذہ انجام دے رہے تھے جو خود مدرسہ ڈسکورسز   میں شریک رہے ہیں۔
مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے اور دوسرے بیج کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف حلقوں میں اس کی ضرورت اور افادیت سمیت مدرسہ  ڈسکورسز کی مختلف حیثیتوں پر بحث چھڑ گئی۔ عموماً‌ روایتی مذہبی حلقوں میں اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ خصوصاً‌ نوٹرے ڈیم جیسی مسیحی یونی ورسٹی سے تعلق، ڈاکٹر ابراہیم موسی اور ڈاکٹر عمار خان ناصر کی سرپرستی کی وجہ سے اس کے خلاف کافی منفی رائے بھی بنالی گئی، کیوں کہ پاکستان میں عمار صاحب کے خلاف پہلے ہی روایتی مذہبی حلقوں میں اچھا تاثر نہیں ہے۔
ان میں کچھ ایسی تنقیدات  بھی ہیں  جن کا لب ولہجہ علمی ہے اور نہ دلائل  معقول و وزنی ہیں۔ محمد دین جوہر صاحب بھی مدرسہ ڈسکورسز کے بڑے نقاد ہیں مگر روایتی دینی حلقوں کے نقد سے وہ بھی شاکی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے: “کچھ حلقوں میں اسے سازش بھی قرار دیا گیا ہے جو مضحکہ خیز ہے اور صورت حال کا سامنا کرنے سے انکار ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی خطیر فنڈنگ کو موضوع بنا کر بھی کچھ غیر مفید نتائج اخذ کیے گئے۔” [الشریعہ ستمبر ۲۰۰۹]
کورس سے قبل اور کورس کے دوران بھی مدرسہ ڈسکورسز کے متعلق روایتی و  غیر روایتی حلقوں کے نقطہ ہاے نظر کا مطالعہ برابر جاری رہا۔کورس کے اختتام پر جو تاثرات بنے، وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
  •  میں نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں تسلی کے بعد مدرسہ  ڈسکورسز میں داخلہ لیا اور 30 جولائی 2021 کو ہماری آن لائن تعارفی کلاس ہوئی۔ اس کے بعد ہر ماہ دو کلاسیں ہوتی تھیں۔ ہر کلاس سے پہلے ریڈنگ میٹیریل دیا جاتا جسے سب ساتھی کلاس سے قبل پڑھ کر آتے تھے۔ مطالعہ کےلیے جو مواد دیا جاتا، لیکچر بھی اسی موضوع پر ہوتا تھا۔ لیکچر کے بعد سب شرکا اساتذہ سے سوالات کرتے۔ کورس کے شرکا اور اساتذہ کے درمیان ایک قسم کی بے تکلفی ہوتی ہے۔ فکری آرا میں اختلاف کی صورت میں اساتذہ کے ساتھ بلا تکلف اختلاف کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اختلاف کو جس خوش اسلوبی سے قبول کیا جاتا ہے، اس روایت اور علمی رویے کو کم از کم میں نے کسی تعلیمی ادارے میں نہیں دیکھا۔

مثلاً‌ سائنس اور مذہب کا باہمی تصادم، اسلام اور سیکولرازم، یہ ایسے موضوعات ہیں جس پر روایتی دینی مدارس سے فارغ التحصیل علما اور جدید سائنسی علوم کے حاملین کے درمیان اختلاف کا واقع ہونا ظاہر ہے۔ کلاس کے دوران اس پر کھل کر بحث کی جاتی بلکہ اساتذہ ان موضوعات پر ایک طرح سے مکالمہ یا مباحثہ کرواتے۔ خوشگوار ماحول میں ان موضوعات کے نئے در بھی کھلتے اور تبادلہ خیالات کا ایک موقع بھی ملتا۔

  •  اکیسویں صدی میں جبکہ ہر شعبہ زندگی میں انقلاب بلکہ بھونچال آگیا ہے، ایسے میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی پوزیشن کیا ہے؟ جدید سائنسی دور میں اسلامی تعلیمات کے انطباق کی کیا صورت ہو؟ کورس میں اس کےلیے قدیم مسلم مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کروانے کے ساتھ ساتھ جدید مغربی مفکرین کے متون بھی پڑھوائے جاتے ہیں تاکہ قدیم روایت سے جڑنے کے ساتھ ساتھ جدید روایات کا علم بھی ہو جس کے نتیجے میں اسلامی احکامات کے انطباق کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
  •  کورس میں چھے مہینے پڑھنے کے بعد ہماری شعوری طور پر پختہ رائے بن گئی کہ مدرسہ ڈسکورسز جدید تہذیب سے آگہی کے ساتھ مدرسہ کو قدیم روایت سے جوڑنے کی ایک کاوش ہے نہ کہ روایت سے کٹ جانے کی۔
  •  مدرسہ ڈسکورسز کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کورس کے شرکا کو تحقیق کی راہیں بتاتی ہے۔ جس مسئلے پر مباحثہ کروایا جاتا ہے پہلے سے اس کے لیے ذہن سازی نہیں کی جاتی۔ طالب علم کو تحقیق کےلیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔
  •  یہ پروجیکٹ طالب علم کے اندر مغربی علوم پڑھنے اور اسے پرکھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ صلاحیت پیدا ہونے کے بعد طالب علم علمی بنیادوں پر مغربی فکر و فلسفہ کا رد کرے۔ اگر کوئی شخص علمی صلاحیت سے تہی دامن ہے اور وہ ایک بڑے فکر و فلسفہ کا رد کرنے بیٹھ جائے تو سوائے مایوسی اور شرمندگی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ مدرسہ ڈسکورسز اس صلاحیت کو پیدا کرنے کا ایک فورم ہے۔
  •  عموماً‌ ہمارے سماج میں یہ روایت بن گئی ہے کہ ہر جدید فکر یا رویے کو فتنہ پردازی قرار دے کر اسے رد کردیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اگر عوام میں موجود ہوتا تو بہت بڑی بات نہ ہوتی۔ افسوس تو تب ہوتا ہے کہ نامی گرامی علمی حلقے اور علمی شخصیات کا رویہ بھی جدید روایات کے ساتھ معاندانہ ہے۔ اس کے ساتھ “خذ ما صفا و دع ماکدر” کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی جوکہ انتہائی مایوس کن رویہ ہے۔ یہ رویہ ذہنی ارتقا کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز اسی جمود کو توڑنے کی ایک کوشش ہے۔
  • مدرسہ ڈسکورسز پر ایک سوال نہایت تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ: امریکا کے مسیحی یونی ورسٹی کو ہمارے مدارس کے نصاب و نظام سے کیوں کر دل چسپی ہے؟ بات یہ ہے کہ مسیحی یونی ورسٹی کو ہمارے نصاب سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، دلچسپی ابراہیم موسی صاحب کو ہے۔ وہ دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء جیسے مؤقر دینی مدارس سے پڑھے ہیں۔ دینی مدارس سے پڑھنے کے بعد انہوں نے جدید علوم کو بھی پڑھا۔ امام غزالی کے فلسفہ لسانیات میں پی ایچ ڈی کی اور امریکا کے نوٹرے ڈیم یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ قدیم و جدید علوم سے بہرور ہیں اور دینی مدارس کے ساتھ ہم دردی رکھنے والے انسان ہیں۔ امریکا کی جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن کے مہیا کردہ فنڈز سے ابراہیم موسی صاحب نے مدرسہ ڈسکورسز کے علمی پروجیکٹ کو متعارف کرایا جس کے ذریعے دینی مدارس کے طلبہ کو جدید علم الکلام، قدیم فلسفہ اور جدید مغربی فکر و فلسفہ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
  •  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل علماے کرام جدید تعلیم یافتہ سماج کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ ہی سماج ان علما کی زبان سمجھتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان ہمیشہ سے ایک خلیج حائل رہی ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز میں چھے مہینے پڑھنے کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ ڈسکورسز کا مقصد سماج اور علما کے درمیان مابہ الاشتراک کو ڈھونڈنا ہے اور دونوں طبقات کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا ہے۔
بہر حال یہ ایک مکمل علمی اور تعلیمی پروجیکٹ ہے۔ جس کا مقصد علماے کرام کو قدیم علوم سے جوڑتے ہوئے جدید مغربی فکر و فلسفہ سے بھی آگاہ کرنا ہے۔ اس کی مخالفت علمی پروجیکٹ کی مخالفت ہے اور علمی پروجیکٹ کی مخالفت علمی شخصیت کرے تو یہ کسی آفت سے کم نہیں۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔
———————————————————————————–
صدیق احمد فاروق نے  جامعہ فاروقیہ کراچی سے دینی علوم کی تحصیل کی ہے۔
siddiqulfarooq241@gmail.com

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں