Home » تاریخ مباحثہ لاہور
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار کلام

تاریخ مباحثہ لاہور

 

برصغیر پاک وہند کی اسلامی تاریخ میں قادیانیت کا فتنہ ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا۔ ویسے تو ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات بہت واضح اور صریح ہیں مگر اس فتنہ نے بہت ہوشیاری سے اپنا شر پھیلایا اور مختلف حیلے بہانوں سے اس عقیدے پر نقب زنی کی کوشش کی پھر جب یہ فتنہ ظہور پذیر ہوا تو اس وقت تک انگریزی حکومت کی عمر پچاس سال بھی نہیں تھی مگر سیاسی لحاظ سے تو وہ مستحکم ہو رہی تھی مگر مسلمانوں میں اس کی مقبولیت ابھی نہیں ہوئی تھی۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے مرزا صاحب نے اپنی خدمات پیش کیں۔یوں اس فتنہ کو مکمل طور پر سرکاری سرپرستی و تحفظ حاصل تھی۔ جیسے جیسے اہل اسلام پر اس فتنہ کی حقیقت کھلتی گئی اس کے خلاف علماء میدان میں آئے اور اس کا مقابلہ کیا۔ علماء نے مختلف انداز میں مرزا صاحب قادیانی کے فریب کا پردہ چاک کیا اور ساتھ ساتھ مرزا صاحب کو چیلنج بھی کیا۔ رد قادیانیت کی تاریخ میں مباحثہ لاہور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں مرزا صاحب نے پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ سمیت برصغیر پاک و ہند کے چھیاسی علماء کو مخاطب کر کے مباحثے کا چیلنج دیا جس کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی رح نے قبول کیا۔ گوکہ اس کے بعد ایک فریق یعنی مرزا صاحب کے فرار سے یہ مباحثہ ممکن تو نہ ہو سکا مگر اس نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت پر ایسی ضرب لگائی جس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔ جناب محمد ثاقب قادری نے اس مشہور مباحثہ کی روداد کو قلمبند کیا ہے۔ جس کو ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔ویسے بھی ختم نبوت اور رد قادیانیت جناب محمد ثاقب رضا قادری کا خصوصی موضوع ہے جس پر ان کی دیگر تالیفات بھی موجود ہیں۔
کتاب کا مختصر تعارف “تاریخ مباحثہ لاہور۔۔۔ایک نظر میں” کے نام سے ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی صاحب نے بھی کرایا ہے اور ساتھ ہی ثاقب قادری صاحب سے ایک امید ظاہر کی ہے کہ وہ مباحثہ لاہور میں شریک دیگر علماء و مشائخ کا بھی تعارف پیش کریں گے۔ ثاقب قادری صاحب اسلاف شناسی کے حوالے سے بھی کئی کام کر چکے ہیں تو ڈاکٹر ممتاز سدیدی کی ان سے امید اس ہی ضمن میں ہے۔بہرحال یہ ایک اہم اور بڑا کام ہے اور ثاقب قادری صاحب اس کام کو بخوبی انداز میں کر سکتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اس حوالے سے ڈاکٹر ممتاز سدیدی صاحب کی خواہش ثاقب قادری صاحب کے ذریعے سے پوری ہو۔
کتاب کے پیش لفظ میں ثاقب قادری صاحب نے وضاحت کی ہے کہ اس حوالے سے ان کا پہلا مأخذ تو مہر منیر ہے۔ مگر اس کے ساتھ اس وقت کے اخبارات میں اس مباحثہ کے حوالے سے جو واقعات نقل ہوئے ان کو بھی اس کتاب کا حصہ بنایا ہے تاکہ وہ پہلو جو کہ مہر منیر میں شامل نہیں وہ بھی سامنے آ سکیں۔
کتاب کے شروع میں ثاقب قادری صاحب نے اعلیٰ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رح اور مرزا صاحب قادیانی کا تعارف کرایا ہے۔
مرزا صاحب کے تعارف میں بتایا کہ ان کے والد مرزا غلام مرتضی نظریاتی طور پر شیعیت کی طرف مائل تھے اس وجہ سے مرزا صاحب کے پہلے استاد ایک شیعہ مولوی گل علی شاہ تھے۔
اس کے بعد مرزا صاحب کے سابقہ مباحثوں کی روداد بھی لکھی ہے جس میں مرزا صاحب کا طرزِ عمل بہت کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ مثلاً مرزا صاحب نے مولانا نذیر حسین دہلوی اور مولانا عبدالحق حقا نی کو ۱۸۹۱ میں مباحثہ کا چیلنج کیا جس کو دونوں حضرات نے منظور کر لیا تو مرزا صاحب نے مولانا عبدالحق حقا نی کے گھر جا کر معذرت کی کہ ان کے مخاطب وہ نہیں کیونکہ وہ حنفی ہیں ان کے مخاطب شیخ نذیر حسین دہلوی ہیں جو کہ غیر مقلد ہیں۔ جس پر مولانا نے کہا کہ بذریعہ اشتہار وہ اس انکار کو شائع کریں تو مرزا صاحب نے اشتہار شائع کیا جس میں مناظرہ سے گریز کا الزام مولانا عبدالحق حقا نی رح پر لگایا۔
اس کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب نے مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا بشیر سہسوانی اور مولانا غلام دستگیر قصوری کو بھی مباحثہ کا چیلنج دیکر عین موقع پر راہ فرار اختیار کی۔ ان مباحثوں کی شرائط میں سے ایک اہم شرط مرزا صاحب کی طرف سے تحریری مناظرے کی تھی۔ یہ شرط بڑی اہم ہے آگے مباحثہ لاہور میں اس کی آڑ لیکر مرزا صاحب نے اپنے فرار کو جواز فراہم کیا ہے۔
دوسری طرف اعلیٰ حضرت گولڑوی رح اس فتنہ سے پہلے واقف نہیں تھے اور ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۹۹ سے پہلے تک انہوں نے مرزا صاحب کی کسی تصنیف کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔جب وہ اس طرف متوجہ ہوئے تو دو کتابیں ھَدِیّة الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شمس الهِداية باثبات حیات المسیح ایک سال میں لکھ کر مرزا صاحب قادیانی کے نظریات کی تردید کی۔
مرزا صاحب قادیانی کی بابت ایک اور چیز بھی یاد رکھنے کی ہے کہ شروع میں بعض علماء ومشائخ نے ان کے بارے میں حسن ظن کا مظاہرہ کیا۔ جن میں مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب پیش پیش تھے۔ انہوں نے مرزا صاحب کی کتاب براہین احمدیہ کا ریویو لکھا، نیز ان کے تصور ‘مثلیت’ اور ‘ظنیت’ تک کی تاویل کی۔ جب علمائے لدھیانہ نے مرزا صاحب کی تکفیر کی تو بٹالوی صاحب نے مرزا صاحب کا دفاع کیا۔ ترک جہاد پر بٹالوی صاحب مرزا صاحب کے ہمنوا تھے۔ بٹالوی صاحب نے مرزا صاحب کے ساتھ اپنی اس دوستی کا بعد میں کفارہ بھی ادا کیا مگر شروع میں آپ مرزا صاحب کی حمایت میں کافی سرگرم تھے اور ان سے حسن ظن رکھتے تھے۔
علمائے دیوبند میں سے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمود الحسن بھی مرزا صاحب سے حسن ظن رکھنے والوں میں سے تھے۔ جس کا شکوہ علمائے لدھیانہ نے فتاوی قادریہ میں کیا ہے۔ بعد میں ان حضرات نے بھی مرزا صاحب کی تردید کی مگر یہ بھی ابتداء میں مرزا صاحب کے فریب کا شکار ہو گئے تھے۔
سرسید احمد خان بھی ابتداء میں مرزا صاحب کی تحریروں سے متاثر ہوئے مگر بعد میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی تصانیف ان کے الہام کی طرح ہیں جو دنیا کے کام کی ہیں نہ دین کے کام کی۔
اس کے علاوہ خواجہ غلام فرید آف چاچڑاں شریف بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو مرزا صاحب کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے مگر جب ان کو مرزا صاحب کے منفرد عقائد اور مسیح موعود اور بروزی نبوت کے دعووں کی خبر ہوئی انہوں نے بھی اعلانیہ بیزاری کا اظہار فرمایا۔
مرزا صاحب نے اعلیٰ حضرت گولڑوی رح کا پہلی بار ذکر اپنی کتاب “انجام آتھم” میں کیا۔ پھر مرزا صاحب نے اپنے ایک پیرو جناب عبد الکریم سیالکوٹی کے ذریعے ایک دعوت نامہ مرزا صاحب کے پاس بھیجا جس میں اپنے مسیح موعود اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ تھا اور پیر صاحب سے اپنے حمایت طلب کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں پیر صاحب نے لکھا کہ وہ مرزا صاحب کو مسیح موعود اور مامور من اللہ نہیں مانتے۔ اور انہوں نے مشورہ دیا کہ مرزا صاحب اپنی توجہ غیر مسلموں سے مناظروں مرکوز رکھیں اور تبلیغ اسلام میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس کے بعد پیر صاحب نے ہدیتہ الرسول تحریر فرمائی جو مرزا صاحب کی فارسی کتاب “ایام الصلح” اور “ازالہ اوہام” کا جواب تھا۔ ثاقب صاحب نے بتایا ہے کہ مؤلف مہر منیر مولانا فیض احمد فیض اس کتاب کا ذکر رد قادیانیت کے ضمن میں نہیں کیا حالانکہ یہ پہلی تصنیف ہے۔ ہدیتہ الرسول کے بعد ایک اور کتاب “شمس الہدایت فی اثبات حیات المسیح” نام سے لکھی جس میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے آسمان پر زندہ اُٹھائے جانے پر دلائل دئیے۔ اس کتاب نے قادیان میں کافی تہلکہ مچادیا۔ لہذا مرزا صاحب کے دست راست حکیم نور الدین بھیروی نے اس پر پیر صاحب کو خط لکھا اور اس میں بارہ سوالات درج کیے۔ جس کے جوابات پیر صاحب رح نے دئیے۔ حکیم صاحب کا خط مع سوالات اور پیر صاحب رح کے جوابات کو ثاقب صاحب نے اس کتاب میں “سیف چشتیائی” سے نقل کیا ہے۔
حکیم صاحب کے ساتھ مرزا صاحب کو احسن آمروہی صاحب کا بھی ساتھ میسر ہو گیا اور انہوں نے بھی اعلیٰ حضرت گولڑوی رح کو مناظرے کا چیلنج دینا شروع کر دیا۔ پیر صاحب رح نے امروہی صاحب کے چیلنج کو اتنی اہمیت نہیں دی کیونکہ دعویٰ مجددیت و مسیحیت و نبوت تو مرزا صاحب کو تھا ناکہ امروہی صاحب کو اس لیے پیر صاحب رح نے احسن امروہی کی دعوتِ مناظرہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ بہرحال امروہی صاحب کی دعوت پر پیر صاحب رح نے کیا حکمت عملی اختیار کی اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں حتمی بات اس حوالے سے تحریر نہیں ہو سکی لیکن اس خاموشی کا فائدہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب نے اس کو بنیاد بنا کر پیر صاحب رح کو چیلنج دے دیا جس میں قرآن مجید کی چالیس آیات کی عربی تفسیر لکھنے، مریضوں کے لیے دعا اور خرق عادت امر کا چیلنج تھا۔ مرزا صاحب کا خیال تھا کہ پیر صاحب رح نے جیسے امروہی صاحب کی دعوتِ مناظرہ کو درخورِ اعتنا نہیں جانا تو وہ ان کی دعوت پر بھی جواب نہیں دیں گے اس طرح مرزا صاحب اپنی یکطرفہ جیت کا بھی اعلان کر دیتے مگر مرزا صاحب کی توقعات کے برعکس پیر صاحب رح مرزا صاحب کی دعوتِ مباحثہ قبول کر لی۔
مرزا صاحب نے مقام اور تاریخ کا اختیار پیر مہر علی شاہ رح کو دیا تھا تو پیر صاحب نے ۲۵ اگست ۱۹۰۰ کو لاہور کی بادشاہی مسجد کا انتخاب کیا۔ مرزا صاحب نے دعوت مباحثہ کا اشتہار ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ کو جاری کیا اور شرط لگائی کہ دس دنوں کے اندر جواب دیا جائے تو پیر صاحب رح نے ۲۵ جولائی کو اس کا جواب شائع کرکے مرزا صاحب کی دعوت کو قبول کیا اور مرزا صاحب کو تحریری مباحثہ سے قبل تقریری مباحثہ کی بھی دعوت دے دی اس کے ساتھ ساتھ اس کو مرزا صاحب کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ وہ تقریری مباحثہ نہیں بھی چاہتے تو بھی ان کے تحریری مناظرے کی شرط منظور ہے۔
مرزا صاحب کا اشتہار اور اس پر پیر صاحب رح کے جواب کو اس کتاب میں من و عن شامل کیا گیا ہے۔ مرزا صاحب نے جن چھیاسی علماء کو مخاطب کیا ان کے نام بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا عبد الجبار غزنوی اور پروفیسر عبداللہ ٹونکی لاہوری کو بطور حکم تجویز کیا۔ ان ناموں کی تجویز سے مرزا صاحب سے حسن ظن پیدا ہوتا نظر آتا ہے کہ وہ اس دعوت مباحثہ میں اس حد تک مخلص تھے کہ اپنے تین مخالف لوگوں کی گواہی پر بھی تیار ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر مخالفت کے باوجود وہ ان تینوں کی دیانت داری کے قائل تھے کہ وہ انصاف سے کام لیں گے یا پھر انہیں یقین تھا کہ وہ اس قدر غالب آئیں گے کہ ان تینوں کے لیے مرزا صاحب کے خلاف فیصلہ کرنا ہی ناممکن ہو جائے گا۔ مگر مرزا صاحب سے یہ حسن ظن فقط تب تک قائم رہتا ہے جب تک ان کے پچھلے ریکارڈ سے واقفیت نہ ہو۔ مرزا صاحب کا پرانا وطیرہ رہا تھا کہ وہ مباحثہ کا چیلنج کرتے تھے مگر جب مباحثہ کا موقع آتا تو کوئی نہ کوئی بہانہ کرتے تھے تاکہ مباحثہ ہو ہی نہ سکے۔ اس لیے یہاں پر اگر انہوں نے ان تین حضرات جو کہ ان کے ہم خیال ہرگز نہ تھے بلکہ مخالف تھے کو بطور گواہ منظور کرنے کا مقصد فقط خود نمائی اور بڑائی کے کچھ نہیں تھا.
اعلیٰ حضرت گولڑوی رح کے جواب کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر علماء نے بھی مرزا صاحب کے اشتہار کا اپنی طرف سے جواب دیا جن میں مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبدالحق غزنوی ، حکیم محمد دین ، مولانا غلام احمد امرتسری ، مولانا محمد حسن فیضی شامل ہیں۔ مولانا حسن فیضی کا جواب ثاقب صاحب نے شامل کیا ہوا ہے ۔ مولانا فیضی چونکہ عربی ادب میں خاص مہارت رکھتے تھے تو اپنے جواب میں انہوں نے مرزا صاحب کی عربی دانی پر بھی نقد کیا ہے اور بتایا ہے کہ مرزا صاحب کی عربیت کا یہ حال ہے کہ لفظ “محصنات” کو انہوں نے “محسنات” لکھا ہوا ہے۔
جب مرزا صاحب کے اشتہار پر جواب آئے تو مرزا صاحب کی جانب سے سکوت طاری ہو گیا۔ پھر تاریخ مباحثہ سے چار روز پہلے مرزا صاحب کے ساتھی احسن امروہی نے ایک اشتہار چھاپا جس میں تقریری بحث کی شرط کو منظور نہیں کیا گیا۔ پیر صاحب رح کی جانب سے تقریری بحث کی دعوت کو امروہی صاحب نے پیر صاحب کا اعلان شکست قرار دیا۔یہ امروہی صاحب کی غیر سنجیدگی کے سوا کچھ نہیں تھا حالانکہ یہ اضافی بحث مرزا صاحب کی مرضی پر چھوڑی گئی تھی، اور مرزا صاحب کے تحریری مباحثہ کو پہلے ہی سے منظور کر لیا گیا تھا۔ دراصل مرزا صاحب اور ان کے حواریوں کو امید نہیں تھی کہ پیر صاحب رح ان کی دعوت قبول کریں گے اب جب کے دعوت ہی ان کی جانب سے تھی تو تقریری بحث کی شرط کو بنیاد بنا کر مناظرے سے انکار اپنی فیس سیونگ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ مرزا صاحب کو اپنی شکست نظر آ رہی تھی اور ان کا سابقہ ریکارڈ بھی اس بات کا گواہ تھا کہ وہ عین موقع پر راہ فرار اختیار کرنے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔امروہی صاحب کے اس اشتہار سے واضح اشارہ مل گیا تھا کہ مرزا صاحب نے مباحثے سے فرار اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
احسن امروہی صاحب کے اس اشتہار کا جواب مولانا محمد عبداللہ جلووالہ رح نے نور الانوار کے نام سے دیا۔ اس کو مرتب نے کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ مولانا محمد عبداللہ جلووالہ رح کو مرزا صاحب اور ان کے گروہ نے پیر صاحب رح کا مرید بتایا تھا۔
پیر مہر علی شاہ رح ۲۴ اگست کو گولڑہ ریلوے اسٹیشن سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ متعدد علماء و مشائخ تھے۔ لاہور پہنچنے پر مسلمانوں کی بڑی تعداد نے آپ کا استقبال کیا۔ ۲۵ اگست کو بادشاہی مسجد کے اطراف امن و امان کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس نے کافی انتظامات کر رکھے تھے۔ پیر صاحب رح علماء اسلام کے ساتھ مسجد میں حاضر ہو کر مرزا صاحب کا انتظار کرتے رہے مگر مرزا صاحب قادیان میں براجمان رہے۔ اس دوران قادیانی جماعت کے اندر کافی بے چینی پائی گئی اور بہت سے لوگوں نے کوشش کی کہ مرزا صاحب مقابلے کے لیے آ جائیں مگر مرزا صاحب نے فرار ہی میں عافیت سمجھی۔ مسلمانوں نے مرزا صاحب کا اگلے دن بھی انتظار کیا کہ ہو سکتا ہے ان کو دیر ہو گئی ہو مگر جب مسلمان مرزا صاحب کی آمد سے مکمل مایوس ہو گئے تو ۲۷ اگست کو بادشاہی مسجد میں جلسہ ہوا۔
حضرت پیر صاحب رح کے اس معرکے کے کوائف بصورت رسالہ حافظ محمد دین مالک مصطفائی پریس لاہور نے بھی قلمبند کیے جن کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ اس وقت اور اس معرکے کے حالات و واقعات کی مزید تفصیلات فراہم کرتا ہے اور مرزا صاحب کے فرار کی داستان کی تصدیق کرتا ہے۔
جب مباحثہ کی تاریخ گزر گئی اور پیر صاحب رح واپس گولڑہ چلے گئے تو مرزا صاحب نے اپنا سکوت توڑا اور دوبارہ تفسیر نویسی کا چیلنج دینا شروع کر دیا گیا۔ ۲۷ اگست کے جلسے میں علماء نے اتفاق کیا تھا کہ اب مرزا صاحب کے چیلنجوں کا کوئی جواب نہیں دیا جائے گا کیونکہ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیر سنجیدہ اور فتنہ پرور اور فیصلہ کن گفتگو سے گریز کرنے والی شخصیت ثابت ہوئے ہیں۔
تفسیر نویسی کے ایک چیلنج میں مرزا صاحب نے گھر بیٹھ کر تفسیر نویسی کا چیلنج دیا جبکہ اس سے پہلے احسن امروہی نے گھر بیٹھ کر تفسیر نویسی والی بات پر طنز کیا تھا اور قدرت نے یہ طنز احسن امروہی اور ان کی جماعت پر لوٹایا اور مرزا صاحب کی زبانی یہ چیلنج بھی آ گیا۔
مرزا صاحب نے ۵ مارچ ۱۹۰۱ میں “الصلح الخیر” کے نام سے اشتہار شائع کیا جس میں اہل اسلام کو مصالحت کی پیشکش کی گئی اور تین سال تک کوئی کسی کے لیے سخت زبان استعمال نہیں کرے گا۔
مرزا صاحب نے اس مصالحت نامے میں بھی اپنی ہوشیاری کا مظاہرہ کیا اور اپنے اختلاف کو اہل اسلام سے اختلاف کو حنفی، شافعی جیسا فقہی اختلاف کا رنگ دینا چاہا۔
مرزا صاحب کے اس اشتہار کا جواب اہل حدیث عالم مولانا عبد الاحد خانپوری نے “اظہار مخادعت مسیلمہ قادیانی” کے نام سے دیا۔اس رسالے میں مرزا صاحب کے فریب کا پردہ چاک کرتے ہوئے مولانا خانپوری نے مرزا صاحب پر بہت سخت اور زبردست گرفت کی ہے اور بہت واضح کر دیا کہ قادیانیت کے ساتھ اختلاف فقہی نہیں بلکہ کفر و اسلام کا ہے۔ جب تک مرزا صاحب اپنے دعووں مسیحیت ، نبوت و مہدویت اور مجددیت سے دستبردار نہیں ہوتے ان کو اور ان کے پیروکاروں کو ہم اہل اسلام کا فرد نہیں سمجھتے۔ مولانا خانپوری نے اس رسالے میں مرزا صاحب کے حوالے سے کسی قسم کی نرمی روا نہیں رکھی مگر اس کے باوجود مرزا صاحب کی طرح گالم گلوج سے گریز کیا ہے۔ یہ رسالہ کی ایک بڑی خصوصیت ہے اور بتایا ہے کہ دلائل کی زبان کیا ہوتی ہے۔ یہ نقد پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
احمدی حضرات کے جانب لاہور مباحثہ کی روداد صادق بھیروی نے “واقعات صحیحہ” کے نام سے شائع کی۔ ثاقب قادری صاحب نے اس کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ صادق بھیروی نے بانی مذہب کی طرح دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ جیسے پیر صاحب رح نے مطالبہ کیا کہ شکست کی صورت میں مرزا صاحب بیعت توبہ کریں گے اس کو انہوں نے بیعت ارادت کے معانی میں لیا جو کہ سراسر خلاف واقعہ ہے۔
ایک اور عذر یہ تراشا گیا کہ پیر صاحب رح کے ساتھ کچھ سرحدی پٹھان بھی تھے جنہوں نے مرزا صاحب کو مارنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اس لیے وہ نہ آئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا صاحب کا یہ فقط بہانہ ہے کہ ان کی جان کو خطرہ تھا اگر ایسی بات ہوتی تو پولیس کے ذریعے سیکورٹی کا انتظام چندہ مشکل نہیں تھا کیونکہ اس وقت مرزا صاحب کے فرزند مرزا سلطان احمد لاہور میں اہم انتظامی عہدیدار تھے۔
اس کتاب کا ناقدانہ جائزہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ احمدی جماعت کا اس مباحثہ میں اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ کتاب ہی ان کا بنیادی ماخذ ہے۔
اس مباحثہ پر معاصر اخبارات، رسائل و جرائد اور معاصر اہل علم کی آراء کو بھی نقل کیا گیا ہے۔ اس وقت کے اخبارات جن میں “پیسہ”، “شحنہ ہند”، “نور افشاں” ، “اخبار عام”، اخبار لاہور پنچ” اور “چودہویں صدی” نے اس مباحثہ کے حوالے سے رپورٹنگ کی جس کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے اور سب اخبارات میں مرزا صاحب کے نہ آنے کو اس کا فرار اور شکست قرار دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مولانا محمد علی مونگیری ، مولانا عبد الرحمن مجددی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا محمد حسین بٹالوی اور عصائے موسی کے مصنف بابو الہی بخش کی آراء میں بھی مرزا صاحب کے نہ آنے اور ان کے فرار ہونے کا ذکر ہے ۔ بابو الٰہی بخش کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہ پہلے مرزا صاحب کے معتقد تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے اور عصائے موسی کے نام سے فتنہ قادیانیت کے خلاف تحریری جہاد کیا۔
اس کے بعد ثاقب صاحب نے مولوی امام الدین گجراتی کا مرتب کردہ رسالہ “راست بیانی بر شکست قادیانی” شامل کیا ہے۔ یہ مولوی امام الدین گجراتی کی مرزا صاحب کے حواریوں سے خط و کتابت پر مشتمل ہے جو اخبار “چودھویں صدی” کی زینت بنی۔ دراصل مولوی امام الدین گجراتی صاحب نے مباحثہ لاہور کے حوالے سے اپنی گذارشات پیش کیں اور مرزا صاحب کے ماضی کے فریبوں کا بھی ذکر کیا۔ اس کے جواب میں مرزا صاحب کے حواریوں نے حسبِ معمول مولوی امام الدین گجراتی اور سرسید احمد خان کے خلاف جارحانہ زبان استعمال کی ۔ مولوی امام الدین گجراتی سرسید کے محبین میں سے تھے اس لیے انہوں نے قادیانی جماعت کے ان لوگوں کو جواب دیا۔ اس سب خط و کتابت جس میں مرزائی جماعت کے اعتراضات بھی شامل ہیں کو پڑھا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ مرزا صاحب کی جھوٹی پیش گوئیوں کا بھی پول کھولا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں “حجتہ الجبار” اور “سیف الجبار” کے نام سے مختصر رسالے بطور ضمیمہ جات جو مولانا سید عبد الجبار قادری حیدرآبادی نے تحریر کیے وہ بھی شامل ہیں، جس میں مرزا صاحب کی فریب کاریوں کو مختصراً موضوع بنایا گیا ہے۔
کتاب کو مرتب کرنے میں ثاقب صاحب کی تلاش کو داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے اس موضوع سے متعلق مواد کی ناصرف کھوج کی ہے بلکہ اس کے لیے کسی مسلکی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مثلاً اہلحدیث عالم مولانا عبد الاحد خانپوری کا رسالہ ہو یا پھر مولوی امام الدین گجراتی کا رسالہ، کیونکہ مولوی امام الدین گجراتی نے ایک طرف سرسید احمد خان کی تعریف کی ہے تو دوسری طرف وہ شاہ اسماعیل دہلوی کے محب بھی نظر آتے ہیں۔
ثاقب صاحب نے سنجیدگی و متانت کو برقرار رکھنے کے لیے ناصرف مرزا صاحب کو صیغہ واحد میں نہیں پکارا بلکہ ان کے دیگر حواریوں کا نام بھی پورا پورا لیا ہے۔ جیسے احسن امروہی صاحب کو انہوں نے “مولوی سید احسن امروہی” کہا یا پھر صادق بھیروی کو “مفتی صادق بھیروی” لکھا ہے۔ یہ انداز مجھے پسند آیا، گو کہ فتنہ قادیانیت کے حوالے سے کسی قسم کی نرمی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر جب ہم مخالف کو مخاطب کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو یہ بات زیادہ موثر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ثاقب قادری صاحب کو اس تالیف پر جزائے خیر عطا فرمائے۔یہ کتاب انہوں نے مجھے بطور تحفہ ارسال کی جس پر ان کا شکر گزار ہوں۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • اسلام علیکم
    سر مرزائیت کے خلاف مملکت پاکستان اور دوسری ریاستوں کے عدالتی فیصلوں کا کوی لنک شیئر کر سکتے ؟

  • جہاں ’’سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد‘‘ ہوں وہاں بلا خوف تردید آپ تاریخ کے نام پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔ صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب آج کہیں بھی نہیں ہیں ، ان کی مقبولیت بریلوی مکتبہ فکر کے بھی ایک مختصر گروہ تک محدود ہے جبکہ سیّدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام اور جماعت الٰہی وعدہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے مطابق دنیا بھر میں پھیل پھل اور پھول رہی ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!