Home » دہشت گرد شہزادہ: میر مرتضیٰ بھٹو کی کہانی
احوال وآثار تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد

دہشت گرد شہزادہ: میر مرتضیٰ بھٹو کی کہانی

راجہ انور پاکستانی سیاست دان اور مصنف ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا، وہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں گو کہ جوان اور سیاست میں نئے تھے مگر اس کے باوجود وہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو اپنا مشیر بنایا۔ وہ میر مرتضیٰ بھٹو کے بھی بہت قریب رہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کے اور میر مرتضیٰ میں گہری دوستی قائم ہوئی جو بعد میں شدید دشمنی یا پھر ناپسندیدگی میں بدل گئی۔ راجہ انور نے میر مرتضیٰ کی زندگی پر ایک کتاب “دہشت گرد شہزادہ” لکھی جس میں میر مرتضیٰ کی شخصیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بہت سے پہلوؤں پر بات کی ہے اور کچھ معاملات پر عینی شاہد اور براہ راست کردار ہونے کے باعث اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے اور تاریخ کا اپنا سچ بیان کیا ہے.خود راجہ انور نے اس کتاب کو میر مرتضیٰ یا پھر بھٹو خاندان کی داستان کی بجائے اس کو ستر اور اسی کے عشرے کی انقلابی سوچ اور قومی زندگی میں رونما ہونے والے المیے سے تعبیر کیا ہے۔تقریباً سوا تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو کلاسیک پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے۔

کتاب کا پیش لفظ طارق علی نے لکھا ہے جس میں شروع میں راجہ انور کا تعارف کراتے ہوئے ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک اور پھر بھٹو صاحب کے اقتدار سے برطرفی کے بعد ان کی جان بچانے کی ناکام کوشش میں ان کے کردار کا ذکر کیا ہے۔
طارق علی نے بھٹو صاحب سے بجا گلہ کیا ہے کہ اکہتر کی ناکامی کے بعد فوج کے سیاسی کردار کو کم کرنے کا سنہری موقع تھا۔ جس کو بھٹو صاحب جیسا مقبول سیاست دان بآسانی کر سکتا تھا مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر انہوں نے جرنیلوں کو ایک دوسرے سے الجھنے کی پالیسی اختیار کی۔
بھٹو صاحب جیسے عبقری، ذہین اور عوامی حمایت یافتہ شخص سے یہ شکوہ ہر اس فرد کا ہے جو ان کی سیاست کا منصفانہ تجزیہ کرے۔ وہ لائق آدمی تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہوس اقتدار بھی بہت زیادہ تھی اور پھر جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے وہ طاقت کو اپنی ذات تک مرتکز کرنے کے خواہشمند تھے جو کہ جمہوری مزاج کے بالکل برعکس ہے۔

کتاب کے آغاز میں راجہ انور نے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل (ر) ٹکا خان کی گفتگو کا ذکر کیا جس میں بھٹو صاحب جنرل (ر) ٹکا خان کو کہہ رہے تھے کہ آپ نے جنرل ضیاء الحق کی بطور چیف آف سٹاف کے عہدے پر تقرری کی مخالفت کی تھی، دیکھ لیں میرا فیصلہ کس قدر درست ثابت ہوا۔ ان دنوں قومی اتحاد کی تحریک عروج پر تھی اور بھٹو صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ جنرل ضیاء کے علاوہ کوئی اور آرمی چیف ہوتا تو حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قابض ہو جاتا۔ جنرل (ر) ٹکا خان نے بھٹو صاحب کی بات پر فقط یس سر ہی کہا۔
اس کو اب بھٹو صاحب کی سادہ لوحی کہیں یا پھر ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کہ تاریخ کا ایک سنجیدہ طالب علم ہونے کے باوجود وہ جنرل ضیاء الحق کے عزائم سے بے خبر تھے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو آپ جنرل ضیاء الحق کی چالاکی سے تعبیر بھی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنا کام اس خفیہ انداز میں کیا کہ بھٹو صاحب کو اندازہ ہی نہ ہو سکا۔
بھٹو صاحب کا سیاسی کیرئیر میجر جنرل اسکندر مرزا کے دور میں شروع ہوا۔ اسکندر مرزا بھٹو صاحب کی جہاں ذہانت بھانپ گئے وہاں اسکندر مرزا کی بیگم ناہید مرزا اور بھٹو صاحب کی دوسری بیگم نصرت بھٹو کا ایرانی النسل ہونا بھی اہم فیکٹر تھا۔ راجہ انور نے کہا ہے کہ قرائن بتاتے ہیں کہ اسکندر مرزا تک بھٹو صاحب کی رسائی کی وجہ ان کی ذہانت سے زیادہ ناہید مرزا اور نصرت بھٹو کا تعلق تھا۔
راجہ انور نے بھٹو صاحب کے اس خط کا بھی ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے اسکندر مرزا کو قائد اعظم رحمہ اللہ سے بھی بڑا لیڈر قرار دیا۔ گو کہ تاریخ کی شہادت ہی بھٹو صاحب کی اس بات کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے لیکن اس خط سے بھٹو صاحب کی شخصیت کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ ان کے عزائم کافی بلند تھے اور ان کو پانے کے لیے وہ چاپلوسی کی ہر حد پار کرنے سے گریز بھی نہیں کرتے تھے بھلے وہ کتنی ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو جیسے کہ یہ خط جس کا مصنف نے ذکر کیا، یا پھر ایوب خان کو ڈیڈی اور ڈیگال کہنا ہو۔ یقیناً بھٹو صاحب کے محبین کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں ہو گی مگر قرائن تو یہی بتاتے ہیں۔
جب اسکندر مرزا کو ایوب خان نے اقتدار سے باہر کیا تو بھٹو صاحب نے اپنا فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی، انہوں نے ایوب خان سے رابطے مضبوط کیے اور ایوب کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
ایوب خان نے بھٹو صاحب کو ۱۹۶۳ میں وزیر خارجہ بنایا ، اس عہدے نے بھٹو صاحب کو دنیا بھر میں پہچان دی اور وہاں دوسری طرف مسٹر بھٹو نے خارجہ پالیسی پر مثبت اثر ڈالتے ہوئے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھٹو صاحب نے کشمیر کے مسئلہ پر دنیا بھر میں خوب آواز اٹھائی۔
راجہ انور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آپریشن جبرالٹر بھٹو صاحب کی نگرانی میں شروع ہوا۔ یہاں پھر بھٹو صاحب اندازہ لگانے میں غلطی کر گئے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ متنازعہ علاقوں میں کاروائیوں کے جواب میں بھارت بین الاقوامی سرحد پر حملہ کرے گا۔ جنرل ایوب خان اس منصوبے کے خلاف تھے جبکہ بھٹو صاحب کو جنرل اختر حسین ملک کا ساتھ حاصل تھا۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ بھٹو صاحب نے بھارت مخالف بیانیہ بنا کر پنجاب میں مقبولیت حاصل کی۔
تقسیم ہند میں اگر سب سے زیادہ کوئی علاقے متاثر ہوئے تو وہ پنجاب اور بنگال تھے۔ اس میں پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے جو فسادات ہوئے اور قتل عام اور ظلم و ستم ہوا۔ اس کے زخم اہل پنجاب پر ابھی تازہ تھے۔ بھٹو صاحب کے ذہین دماغ نے اس کو محسوس کر لیا اور یہ ہی ان کے بھارت مخالف بیانیہ کی وجہ بھی بنی اور اس کی وجہ سے پنجاب میں ان کو مقبولیت بھی ملی۔
راجہ انور کہتے ہیں کہ تاشقند میں بھٹو صاحب نے محسوس کر لیا تھا کہ اب ایوب خان کا سورج غروب ہونے والا ہے اس لیے وہ اس معاہدے سے بھی غیر مطمئن نظر آئے۔ ان کی جو تصاویر سامنے آئی اس میں ان کا اظہار ناپسندیدگی صاف محسوس کیا جا سکتا۔ تاشقند معاہدے کے تقریباً چھے ماہ بعد بھٹو صاحب نے ایوب کابینہ سے استعفیٰ دے دیا جبکہ سرکاری طور پر استعفیٰ کی وجہ بھٹو صاحب کی صحت کو قرار دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اب سرعام تاشقند معاہدے پر تنقید کرنا شروع کر دی اور اس کو فتح سے شکست میں تبدیلی قرار دیا، انہوں نے وعدہ کیا کہ اس معاہدے میں ایسی باتیں عوام کے سامنے رکھوں گا جو انتہائی شرمناک ہیں۔ مگر بھٹو صاحب کا یہ وعدہ کبھی وفا نہیں ہوا۔
میرا اپنا اندازہ بھی یہی ہے کہ پینسٹھ کی جنگ نے پاکستان کو معاشی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ، ملک کی ترقی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اب اس کا برقرار رہنا ناممکن تھا۔ اس وجہ سے معاشی مشکلات سامنے کھڑی تھیں ان سب باتوں کا بھٹو صاحب نے اندازہ لگا لیا تھا اس لیے انہوں نے تاشقند معاہدے کو محض بہانہ بنایا اور ایوب خان سے علیحدگی میں ہی اپنی بقا محسوس کی۔ بھٹو صاحب کا یہ فیصلہ ان کے سیاسی کیریر کے لیے سو فیصد کامیاب ثابت ہوا اور پھر حالات نے ثابت کر دیا کہ پینسٹھ کی جنگ کے منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑنے شروع ہوئے جس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے ایوب خان کے ساتھ اب بھٹو صاحب نہیں تھے۔

بھٹو صاحب کا نیا سیاسی سفر خیبر میل سے شروع ہوا۔ وہ روالپنڈی سے لاہور جانے والی ٹرین میں سوار ہوئے تو حیران کن طور پر ان کا ہر اسٹیشن پر خوب خیر مقدم کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ وہ بھارت سے ہزار سال جنگ لڑنے کو تیار تھے مگر ایوب خان نے بزدلی دکھائی ، یہ بات لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو گئی اور بھٹو صاحب ایک ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ اس وقت ایوب حکومت کو بھی آٹھ سال ہو گئے تھے تو ویسے بھی لوگوں میں بے چینی پائی جاتی تھی، دوسری طرف سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی کی وجہ سے ایک خلا تھا جس کو طلباء نے پر کیا تو ان کی قیادت بھٹو صاحب کی جھولی میں جا کر گری ۔ طلباء کی اس تحریک سے ایوب حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ یوں اس حکومت کو گرانے میں بھٹو صاحب کا کردار بھی شامل ہو گیا۔ طلباء کے مظاہروں میں شدت بھی اس وقت آئی جب بھٹو صاحب کے ایک احتجاجی جلسے کو روکنے کے لیے پولیس کی فائرنگ سے ایک طالب علم عبدالحمید جاں بحق ہو گئے۔

یحیی دور میں مصنف مارشل لاء پر تنقید کی پاداش میں قید کر لئے گئے تو ان کے ساتھ ساتھ معراج محمد خان، مولانا کوثر نیازی ، مختار رانا اور پرویز رشید کو بھی قید کیا گیا۔
یحیی دور میں جب ڈھاکہ آپریشن ہوا تو اس وقت بھٹو ڈھاکہ تھے اگلے روز ان کے طیارے نے کراچی لینڈ کیا تو بھٹو صاحب نے اس آپریشن کی حمایت کی اور کہا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا۔ یہ بیان بھٹو صاحب کی شخصیت کے ریکارڈ کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو بالکل یقینی لگتا ہے۔ ان سے اس طرح ہی کے بیان کی توقع کی جا سکتی تھی۔
اکہتر کی جنگ کے بارے میں مصنف نے لکھا اس بار بین الاقوامی سرحد پر حملہ پاکستان کی جانب سے کیا گیا جس کے جواب میں مشرقی پاکستان میں بھارت کو اپنا کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ یہ حملہ مغربی پاکستان سے کیا گیا تھا مگر ناصرف بھارت نے اس کو مینج کر لیا بلکہ مشرقی پاکستان میں بھی اپنی فوج گھسا دی جس سے پاکستان دولخت ہو گیا۔

جب بھٹو صاحب ملک کے صدر تھے تو انہوں نے ہی ضیاء الحق کو بریگیڈیئر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔ اس میں اردن کے شاہ حسین کی سفارش شامل تھی۔ اس سے پہلے اردن میں فلسطینیوں کے خلاف آپریشن میں ضیاء الحق کا کردار شاہ حسین کے سامنے تھا۔ آگے چل کر ضیاء الحق نے بھٹو کا مزید اعتماد حاصل کرنے کے لیے 22 آرمی افسران پر مقدمہ چلایا جن پر بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام تھا۔ اس کو اٹک سازش کیس کا نام دیا گیا۔ اس کیس میں ملزمان کو سخت سزائیں دی گئیں مگر جب ضیاء الحق نے خود بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو اس کیس میں سزا یافتہ راجہ نادر پرویز کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا۔ اس کو آپ پاکستان کی تاریخ کا ایک عجب مذاق کہہ سکتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ وہ نماز روزے کے پابند ایک باعمل مسلمان تھے۔ ان کو شراب سے رغبت تھی نہ عورت سے۔ ان کے سربراہ بننے کے بعد فوج میں وہ آزاد خیالی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ان کی خشک مزاجی نے ادارے میں بھی رنگینیوں کو ختم کر دیا۔ راجہ انور لکھتے ہیں کہ ایک بار بھٹو ضیاء الحق سے ملنے گئے تو ان کے ڈرائنگ روم میں مولانا مودودی کی کتابیں پڑی ہوئی تھی۔ مصنف کہتے ہیں یہ سب دیکھ کر ہی بھٹو کو چونک جانا چاہیے تھا مگر ان کے چاپلوس درباری انہیں یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ ضیاء کی شخصیت تمام نظریات سے بالاتر ہے۔
راجہ انور تہتر کے آئین کو بھٹو کا بڑا کارنامہ کہتے ہیں تو دوسری طرف صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مزدوروں کو یہ تو سکھا دیا کہ ان کے حقوق کیا ہیں مگر ان کی محنت کی اخلاقیات سکھانے میں ناکام رہے۔ یہ وہ بات ہے جس کے اثرات آج بھی سرکاری اداروں میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مزدور کو محنت کی ترغیب اور پیدوار بڑھانے کے فوائد سے آگاہ نہ کیا جائے تو اس کے حقوق کی آڑ میں ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔
۷۷ کے انتخابات میں لاڑکانہ کی نشست پر بھٹو صاحب اور ان کی جماعت نے مولانا جان محمد عباسی کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا ذکر بھی راجہ انور نے کیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ اس اقدام کی کیا ضرورت تھی،اخر مولانا عباسی کو بھٹو صاحب کے مقابلے میں کتنے ووٹ پڑ جانے تھے؟
راجہ انور کہتے ہیں کہ بعد میں بھٹو کو بلا مقابلہ منتخب ہونے کی اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا تھا مگر اس کا وقت گزر چکا تھا۔ ۷۷ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کی کھلم کھلا دھاندلی کا راجہ انور نے اعتراف کیا ہے۔ پھر اس دھاندلی کے خلاف جب متحدہ حزبِ اختلاف نے احتجاج کیا تو ان سے مذاکرات کے سلسلے میں بھی بھٹو صاحب نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اس کو طول دینے والی پالیسی اختیار کی۔
جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو اس حد تک دھوکے میں رکھا کہ آپریشن فیر پلے میں جب فوجی وزیراعظم میں داخل ہوئے تو بھٹو سمجھے کہ کسی طالع آزما جرنیل نے جنرل ضیاء سے بغاوت کر کے یہ قدم اٹھایا ہے تو انہوں نے ضیاء کو فون کیا اور پوچھا کہ تمہیں پتہ ہے یہاں کیا ہو رہا ہے تو ضیاء الحق کا جواب تھا سوری سر مجھے یہ سب کچھ کرنا پڑا۔ اب بھٹو کو ضیاء الحق کے عزائم کا اندازہ ہوا جس اعتماد کے ساتھ انہوں نے جنرل ضیاء کو فون کیا تھا اتنی ہی حیرت سے انہوں نے فون نیچے رکھا ۔ اس سے پہلے ایک الرٹ سسٹم کی کہانی بھی راجہ انور میں لکھی ہے کہ جس کا سنگین خطرے کی صورت میں سرخ بٹن کا کنکشن وزیر اعظم ہاؤس ، آرمی چیف اور ایف ایس ایف چیف کے پاس بیک وقت پہنچنا تھا۔ فوج نے اس کو چیک کرنے کے لیے ایک بار پریکٹس بھی کی تو چند سیکنڈز میں ایف ایس ایف چیف اور وزیراعظم ہاؤس سے جواب آیا تو یہاں سے فقط اتنا کہا گیا کہ سوری غلطی سے بٹن دب گیا ۔ اس پریکٹس سے آپریشن فیر پلے کے ذریعے پہلے ایف ایس ایف چیف مسعود محمود کو گرفتار کیا گیا اور پھر وزیر اعظم ہاؤس کا گھیراؤ کیا گیا۔
بھٹو صاحب کو مری ہاوس بھیجا گیا، وہاں بارہ جولائی کو جنرل ضیاء کی ان سے ملاقات ہوئی جس میں بھٹو نے کافی سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ہی دبے الفاظ میں ضیاء الحق کو تنبیہ بھی کی کہ اگر بروقت انتخابات کروا دئیے جائیں تو وہ آئینی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں اٹھائیں گے۔ بھٹو صاحب کی یہ معنی خیز پیشکش وجہ بنی جس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لیے سوچنا شروع کیا اور ساتھ ہی انتخابات کا اگر ان کے ذہن میں کہیں خیال تھا تو وہ بھی کم از کم بھٹو کی زندگی تک تو ختم ہو گیا۔ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد جنرل ضیاء الحق اور بھٹو کی چار ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے آخری ملاقات ۲۸ اگست کو ہوئی۔ بھٹو اب تک اس چیز کو قبول نہیں کر پائے تھے کہ اقتدار ان سے رخصت ہو چکا ہے ۔ اس لیے وہ اب جرنیلوں کو بالخصوص جنرل ضیاء الحق اور جنرل فیض علی چشتی کو تحکمانہ انداز میں مخاطب کرتے۔ اس ملاقات کے چھے روز بعد تین ستمبر کو بھٹو صاحب کو نواب احمد خان قصوری کے قتل میں گرفتار کیا گیا، جسٹس ہمدانی نے ان کو ضمانت تو دے دی مگر چند روز بعد بھٹو کو مارشل لاء کے مختلف ضابطوں کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت انتخابی مہم بھی زوروں پر تھی اور بھٹو مسلسل مقبول ہو رہے تھے تو قومی اتحاد کے رہنماؤں نے پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگا کر جنرل ضیاء سے گزارش کی کہ بھٹو کو راستے سے ہٹایا جائے پھر انتخاب کی طرف جایا جائے۔ ادھر جنرل ضیاء انتخاب ملتوی کرانے کے لیے بہانے کی تلاش میں تھے۔ یوں انتخابات ملتوی ہو گئے۔
راجہ انور جماعت اسلامی کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے مارشل لاء کے ہر اقدام کی بھرپور حمایت کی، بلکہ اگر مارشل لاء کے خلاف جلوس نکلتا تو ان کی ڈنڈا بردار فورس مظاہرین سے نمٹنے کے لیے تیار ہوتی۔
بینظیر بھٹو اس دور میں ہی پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی ممبر بنیں۔ اس سے پہلے یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں ان کی اولاد اور رشتے دار اقتدار کے ایوانوں سے کوسوں دور تھے۔ اس دوران اگر کسی بیرونی دورے میں بینظیر بھٹو اپنے والد کے ساتھ گئیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خارجہ پالیسی ان کا مضمون تھا۔ لہذا یہ سیاسی سے زیادہ بینظیر بھٹو کے اکیڈمک دورے ہوتے تھے ۔ شاہنواز بھٹو کا ایک بلوچی سردار کے ساتھ تنازعہ بھی ان کے دور میں ہوا جس پر بھٹو صاحب نے شاہنواز بھٹو کو سخت سزا دی۔ بینظیر بھٹو کی مرکزی کمیٹی میں شمولیت بھی محض بیگم نصرت بھٹو کے اضافی پہیے سے زیادہ نہیں تھا۔ مگر وقت کی ستم ظریفی دیکھیے یہی بینظیر بھٹو تھیں جنہوں نے آگے جا کر نصرت بھٹو کو پارٹی سربراہی سے محروم کر کے خود کو سربراہ بنانا تھا۔
جب انتخابات ملتوی ہوئے تو پارٹی میں سے کچھ لوگ جن میں مولانا کوثر نیازی ، کمال اظفر ، غلام مصطفیٰ جتوئی اور غلام مصطفیٰ کھر شامل تھے انہوں نے نصرت بھٹو کی تصادم والی پالیسی سے اختلاف کیا اور کہا کہ اگر پارٹی کی کمان بیگم بھٹو کی بجائے غلام مصطفیٰ جتوئی کو دے دی جائے تو فوج سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں جن میں سر فہرست بھٹو کی جان بچانا اور نئے انتخابات تھے۔ مگر نصرت بھٹو نے پارٹی قیادت پر اپنا خاندانی حق سمجھتے ہوئے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور اس کو غداری سے تعبیر کیا۔ ساتھ ہی اس گروہ کو فوج کا ایجنٹ کا نام دیا۔اپنے سے مختلف سوچ رکھنے کی یہی سوچ آگے میر مرتضیٰ میں بھی تھی جیسا کہ ان کی زندگی کے بارے میں راجہ انور نے لکھا ہے۔ مصنف نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بھی نصرت بھٹو کی تصادم کی پالیسی کے شدید حامی تھے مگر کہتے ہیں کہ جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ ہی نظر آتا ہے کہ مصالحتی کمیٹی بھٹو کی جان بچانا چاہتی تھی جبکہ تصادم کی پالیسی نے بھٹو کو پھانسی کے قریب کر دیا۔کمال اظفر نے جیل میں بھٹو صاحب کو کہا تھا نصرت بھٹو ان کی حسنہ شیخ کی شادی کے بدلے میں ان کو مروانا چاہتی ہے۔ یہ بات بھٹو نے نصرت بھٹو سے کی تو انہوں نے شور مچایا اور پھر کمال اظفر کو پارٹی سے نکال دیا۔
بھٹو صاحب کو آخر دم تک یقین تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ قتل محض ان کو بدنام کرنے کے لیے ہے۔ فوجی حکومت ان کو مار نہیں سکتی، لہذا انہوں نے یہ مقدمہ قانونی کی بجائے سیاسی بنیادوں پر لڑا۔ نصرت بھٹو بھی یہی سمجھتی رہیں کہ ان کے شوہر کو بالآخر بچا لیا جائے گا لیکن جب تین اپریل کو ان کی بھٹو سے آخری ملاقات ہوئی تو ان کو پہلی بار احساس ہوا کہ بھٹو کو واقعی پھانسی ہو جائے گی۔ ملاقات کے بعد نصرت بھٹو روتی ہوئی زنداں سے نکلیں اور ضیاء الحق سے ملاقات کی اپیل کی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ بھٹو بھی یہی سمجھتے تھے کہ عالمی دباؤ کے ہوتے ہوئے ضیاء الحق میں اتنی جرات نہیں کہ وہ پھانسی کو ممکن بنا سکے۔ دراصل بھٹو صاحب کو بہت اندھیرے میں رکھا گیا اور ان کو ایک الگ تصویر پیش کی جاتی رہی۔اس لیے جب پھانسی کا وقت قریب آیا تو ان کے اعصاب جواب دے گئے اور زندگی بھر تیز چلنے والے بھٹو نے اپنا آخری سفر سٹریچر پر کیا۔
نصرت بھٹو کی سخت گیر اور تصادم کی پالیسی کے تحت پہلے فیصلہ ہوا کہ عوام کے دلوں سے مارشل لاء کا خوف دور کرنے کے لیے کارکن روزانہ کی بنیاد پر گرفتاریاں دیں گے مگر مصنف لکھتے ہیں کہ پہلے دن جنرل ٹکا خان کی گرفتاری کے بعد اگلے روز کوئی گرفتاری پیش کرنے نہیں آیا ۔ بیگم نصرت بھٹو کی اس ہی تصادم کی پالیسی کے تحت “النصرت فورس” بنائی گئی جس کا آئیڈیا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ طاہر محمد خان نے دیا تھا۔ اس کا سیاسی اور مسلح ونگ بنایا گیا۔ پانچ جنوری ۱۹۷۸ کو بھٹو کی سالگرہ پر یوم جمہوریت کا اعلان کیا گیا۔ اس روز مزدوروں سے ہڑتال کروانا تھی اور پھر مادام نصرت بھٹو نے شیخو پورہ میں ریلی سے خطاب کرنا تھا مگر یہ ہڑتال بری طرح ناکام ہو گئی اور نصرت بھٹو اس کا الزام طاہر محمد خان پر لگایا جو کہ دیانت دار اور مالی طور پر شفاف حیثیت رکھتے تھے۔ نصرت بھٹو نے طاہر محمد خان پر پیسے لینے اور فوجی حکومت کا آلہ کار ہونے کا الزام لگایا۔ اس کی وجہ سے طاہر محمد خان کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا۔
دوسری طرف مسلح ونگ کی ذمہ داری قاضی انور کو سونپی گئی مگر لاہور میں اسلحہ کی پہلی کھیپ ہی پکڑی گئیں نصرت بھٹو نے فوراً قاضی انور پر بھی غداری کا الزام دھر دیا۔ النصرت فورس میں پرویز رشید اور ڈاکٹر ظفر نیازی بھی شامل تھے ۔ قاضی انور کے ساتھ ظفر نیازی پر بھی نصرت بھٹو نے پولیس سے ملے ہوئے کا الزام لگا دیا۔ جبکہ پرویز رشید کئی سالوں تک پولیس کے آگے بھاگتے رہے ۔ یوں النصرت فورس کا آئیڈیا شروع ہی میں فلاپ ہو گیا۔
راجہ انور نے اس کتاب میں قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے لاٹھی چارج کا بھی ذکر کیا اور کہا ہے کہ بھٹو خواتین میچ کو سبوتاژ کرنے گئیں تھیں اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئیں۔ بھٹو خواتین جو کہ مراعات یافتہ طبقے کی حامل تھیں نے تیسرے درجے کے انکلوژر کے ٹکٹس بھی اس لیے لیے تھے تاکہ وہ ہنگامہ آرائی کر سکیں۔ اس لاٹھی چارج میں نصرت بھٹو پر بھی لاٹھیاں برسائیں گئیں جس وجہ سے ان کے سر سے خون بھی نکلا۔
لاہور ہائیکورٹ سے بھٹو صاحب کو پھانسی کا حکم جاری ہوا تو بقول مصنف کوئی بڑا احتجاج نہ ہوا، البتہ بھٹو صاحب کے چاہنے والوں نے مزارات پر دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ احتجاج کا نہ ہونا نصرت بھٹو کے لیے کافی تکلیف دہ تھا۔ دوسری طرف اس سزا کے بعد بیرونی دنیا سے جنرل ضیاء الحق کو رحم کی اپیلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو مساوات جیسے اخبارات نے یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا کہ فوجی جنتا بھٹو کو چھو بھی نہیں سکتی۔ اس صورتحال میں بھی نصرت بھٹو نے تصادم کی پالیسی جاری رکھی اور کسی سطح پر بھی مصالحت کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ادھر جیالوں کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی ٹرین پٹری سے بھی اتر جاتی تو اس کو اپنا کارنامہ بتانے کے لیے نصرت بھٹو کے در پر حاضری دیتے۔ ان دنوں شاٹ سرکٹ کی وجہ سے وزیر اعظم ہاؤس کے ایک کونے میں آگ لگی تو اس کو بھی جیالوں نے اپنا کارنامہ بتانا شروع کر دیا۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے آٹھ کارکنوں نے خود سوزی کی۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ نصرت بھٹو کو انہوں نے مشورہ دیا کہ خفیہ اداروں کو زچ کرنے کے لیے مختلف کارکن اپنی گرفتاریاں دیں۔ اس خفیہ تحریک نے پندرہ ستمبر سے اپنے کام کا آغاز کیا پنڈی میں فوارہ چوک کے سامنے مارشل لاء کے خلاف اور بھٹو کی رہائی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے دو کارکنوں نے اپنی گرفتاری پیش کی۔ یوں مختلف شہروں میں دو دو کرکے کارکن اپنی گرفتاریاں پیش کرتے تھے ۔ خفیہ اداروں کے لیے یہ بات تشویش ناک تھی کہ اس تحریک کے ڈانڈے کہاں سے ملتے ہیں ۔ اخبارات میں فقط راجہ انور کے نام کے بیانات شائع ہوتے تھے. پہلے پندرہ دنوں میں چالیس گرفتاریاں ہوئی تو اب ایکشن کمیٹی نے دھمکی دی کہ اگر بھٹو کو رہا نہ کیا گیا تو وہ خود سوزی کریں گے۔ اس سلسلے میں یکم اکتوبر کو کمیٹی چوک راولپنڈی میں وحید قریشی اور راشد ناگی نے خود سوزی کی۔ آگ لگانے سے پہلے طے ہوا تھا کہ خود سوزی علامتی ہو گی۔ ان دونوں نے جب خود سوزی کی تو ناگی کی آگ تو بجھ گئی مگر وحید قریشی زیادہ بھسم ہو گیا اور پندرہ روز بعد چل بسا۔ ناگی بھی ایک ٹانگ سے زندگی بھر کے لیے محروم ہو گیا۔ وحید قریشی کی فیملی کے بارے میں راجہ انور نے لکھا ہے کہ اس کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ وہ چار بچیوں کا باپ ہونے کے ساتھ ان کی ماں بھی تھا۔ اس کی سب سے چھوٹی بچی چار سال کی تھی اور اس سے بہت مانوس بھی تھی۔ایسے ہی چند اور بھی خود سوزی کے واقعات ہوئے آٹھ افراد نے خود کو آگ لگائی۔ یہ بات بھٹو نے عدالت میں بھی کہی کہ ان کی خاطر لوگوں نے خود کو جلایا ہے۔ یہ بھٹو صاحب کے کارکنوں کی ان سے بے لوث محبت تھی ،جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریک دو ماہ چلی اور راجہ انور کہتے ہیں اس پر کل پچپن ہزار روپے کا خرچ آیا ۔

ان آگ لگانے والوں میں راشد ناگی کی کہانی آگے بہت افسوناک انجام پر ختم ہوتی ہے۔ اس کو الذولفقار کے لوگوں نے کابل میں سر پر جوتے مار کر ذلیل کیا کیونکہ میر مرتضیٰ بھٹو اس کو اپنی قیادت کے لیے خطرہ سمجھتا تھا اور میر مرتضیٰ نے ناگی سے کہا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو جلا کر ہمارے اوپر کوئی احسان نہیں کیا۔

جب ہائیکورٹ سے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو میر مرتضیٰ بزور بھٹو کو جیل سے رہا کرنے کا منصوبہ بنایا، اس کے لیے میر نے یاسر عرفات سے رابطہ کیا مگر یاسر عرفات نے اپنے کمانڈوز دینے سے انکار کر دیا کیونکہ یاسر عرفات جانتے تھے کہ ایسے ایڈونچر میں بھٹو کی جان بھی جا سکتی ہے۔البتہ میر مرتضیٰ کو راضی رکھنے کے لیے یاسر عرفات نے اسلحہ فراہم کیا۔ یہ اسلحہ پاکستان میں بصورت “دوائی” سمگل ہونا تھا جس سے نصرت بھٹو آگاہ تھیں مگر یہ اسلحہ پاکستان نہیں پہنچ سکا۔ پھر جب بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی تو میر مرتضیٰ افغانستان چلے گئے اور اس وقت کے افغان صدر نور محمد ترہ کئی اور وزیراعظم حفیظ اللہ امین سے کابل میں کیمپ کھولنے کی اجازت مانگی۔ اس ہی کابل میں کیمپ بنانے کے الزام میں نیپ پر بھٹو صاحب نے ۱۹۷۶ میں پابندی لگائی تھی اور اب تین سال بعد ان کا بیٹا یہی کام کر رہا تھا۔راجہ انور نے اس پر بجا تبصرہ کیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا ملک سے محبت کا معیار اقتدار کے آنے اور جانے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
میر مرتضیٰ نے کابل میں بیٹھ کر ضیاء حکومت کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے افغان انٹیلیجنس کی مدد سے کچھ قبائلیوں کے ذریعے پاکستان میں اسلحہ بھیجنا چاہا تو وہ پکڑا گیا اور اس کو ان کے قبائلی ایجنٹ نے پکڑایا تھا یعنی کہ وہ ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا تھا ۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے ایسے بہت سے لوگ تھے جو دونوں جانب درست اطلاعات دیکر انعام پاتے تھے۔
راجہ انور اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جنوری ۷۹ میں سیاسی پناہ لینے کے لیے جرمنی چلے گئے تو مئی میں صحافی بشیر ریاض نے ان کو اطلاع دی کہ کابل میں میر مرتضیٰ نے انہیں بلایا ہے۔ راجہ انور نے میر مرتضیٰ کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنا سیاسی پناہ کا مقدمہ واپس لے لیا۔ وہاں پر جرمن حکام کے ایک فرد نے ان کو روکا مگر راجہ انور کے سر پر انقلاب کا بھوت سوار تھا۔ راجہ صاحب کہتے ہیں کہ جب وہ پانچ سالوں بعد دوبارہ سیاسی پناہ کی درخواست لے کر جرمن حکام کے پاس گئے تو اس افسر نے ان کو پہچان لیا اور کہا انقلاب برپا کر آئے ؟
مصنف اپنے اس فیصلے کو اپنی زندگی کا غلط ترین فیصلہ کہتے ہیں۔ جب اس کتاب میں آگے راجہ انور کی آپ بیتی پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کابل میں میر کے پاس جا کر انقلاب لانے کا ان کا فیصلہ کس قدر تلخ نتائج لے کر آیا۔
راجہ انور ،میر مرتضیٰ سے کابل میں ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر کو قریب سے دیکھنے کے بعد میرا تاثر یہ بنا کہ وہ کچھ خاص ذہین قسم کا انسان نہیں ہے مگر یہ بات اس کے سیاسی مستقبل کے لیے کوئی پریشان کن نہیں تھی وہ پیپلز پارٹی کو اپنی خاندانی میراث سمجھتا تھا۔ حالانکہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنے خاندان کو سیاست سے بالکل دور رکھا۔ یہاں راجہ انور اس افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ سیاسی کارکن آمروں کے خلاف تو جمہوریت کے لیے زبردست جدوجہد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو ووٹ کا حق بھی مل جاتا ہے مگر یہ ہی ووٹ کا حق اور جمہوری اقدار ان کے اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر نہیں ہے۔ یہ بالکل درست بات ہے۔ راجہ انور نے یہ کتاب ۹۷ میں لکھی تھی، آج پچیس سال گزرنے کے باوجود ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں خاندانی بادشاہت ہے اور تحریک انصاف بطور پارٹی اپنے بانی کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب گیارہ برس جماعت کے سربراہ رہے مگر اپنی جماعت کا سیاسی ڈھانچہ بنانے میں ناکام رہے۔ راجہ انور نے بینظیر بھٹو پر بھی اس حوالے سے تنقید کی ہے کہ ان کی تعلیم سے پارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔میرے خیال سے اب ہم اس بہتر پوزیشن میں ہیں کہ بینظیر بھٹو کی قیادت کے حوالے سے تجزیہ کر سکیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ان کے رویے سے پیپلز پارٹی کے بانی ارکان سمیت ان کی والدہ کو بھی شکایت رہی مگر بینظیر نے بہت کامیابی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ووٹر کو جوڑے رکھا اور پارٹی کو بھی بکھیرنے نہیں دیا۔ جنرل ضیاء الحق اور پھر ان کے قریبی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ان کی براہ راست ٹکر رہی جس میں یقیناً ان کی جماعت کو توڑنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن ان کے قتل تک پیپلز پارٹی چاروں صوبوں میں اپنا وجود رکھتی تھی۔ ان کے قتل کے بعد یہ جماعت اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اب یہ دیہی سندھ کی جماعت بن چکی ہے۔ شخصیت کی جو کشش ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو میں تھی وہ ان کے شوہر اور بیٹے میں نہیں ہے۔
میر مرتضیٰ کی شخصیت کے بارے میں راجہ انور بتاتے ہیں کہ ان کے اندر ادکاری کی صلاحیتیں خوب تھیں۔ وہ شروع میں زمین پر سوتا تھا کہ اپنے والد کے قتل کے انتقام تک وہ چین سے نہیں بیٹھے گا مگر جلد ہی اس نے فوزیہ فصیح الدین سے شادی کر لی اور یوں جلد ہی وہ زمین سے وہ ایک مکلف ڈبل بیڈ پر منتقل ہو گیا۔ مصنف کے بقول بینظیر اپنے بھائی کی نسبت زیادہ دور اندیش ثابت ہوئی اپنے بھائی کی طرح باپ کی لاش کو جوش انتقام کی بجائے انہوں نے زینہ اقتدار بنایا۔
راجہ انور پیپلز پارٹی کے جیالا کلچر پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوئر مڈل کلاس کے لوگوں میں یہ زیادہ مقبول ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ بھٹو خاندان کی خوشامد ان کے سیاسی مستقبل کی ضمانت ہے۔ بعد میں راجہ انور بھی اس خوشامدی ذہنیت میں مبتلا شخص کی وجہ سے جیل میں بھی گئے.

راجہ انور ، الذوالفقار کے بانیوں میں سے ہیں اور اس کے شروع کے ایام کو انہوں نے ناصرف مشاہدہ کیا بلکہ خود بھی اس کی کاروائیوں میں شریک رہے ۔ مگر راجہ انور جو کہ نصرت بھٹو کی دفعہ تصادم کی پالیسی کے حامی تھے میر مرتضیٰ کی پرتشدد کارروائیوں کے مخالف تھے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کئی بار میر کو جارحانہ اقدامات سے روکا، ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر میر مرتضیٰ انہیں قید نہ کرتا تو الذوالفقار کا وہ کردار نہ ہوتا جو اس نے ادا کیا۔ الذوالفقار کے بننے میں افغانستان کی صورتحال کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔کیونکہ اس وقت افغانستان میں اقتدار کی کشمکش جاری تھی۔ نور محمد ترہ کئی اور پھر حفیظ اللہ امین کی حکومتیں گر چکی تھیں، سویت افواج افغانستان میں داخل ہو چکی تھیں اور مجاہدین کی مزاحمت بھی شروع ہو چکی تھی۔ افغانستان کی اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا کیونکہ اس سے امریکہ کو اسے قبول کرنا مجبوری بن گئی تھی اور سویت یونین کے خلاف امریکہ کو ایک اتحادی درکار تھا جو اس کا راستہ روکے۔ ان حالات میں ببرک کارمل کی حکومت میں افغان انٹیلیجنس سربراہ نجیب جو بعد میں افغان صدر بھی بنے نے الذوالفقار کے ذریعے جنرل ضیاء الحق پر جوابی وار کا فیصلہ کیا۔
راجہ انور نے بتایا ہے کہ الذوالفقار میں کیسے لوگوں کو شامل کیا جاتا تھا اور قبائلی علاقوں کے ذریعے ان کو افغانستان بھیجا جاتا تھا۔ مگر راجہ انور کہتے ہیں کہ الذوالفقار کے کارکنوں کی تعداد کبھی سو بھی نہیں ہوئی ۔ اس حوالے سے ضیاء حکومت نے اس کے بارے میں مبالغہ آمیز خبریں اور دعویٰ کیا۔
اس کتاب میں بہت سے کارکنوں کی بابت چیزوں کو مصنف نے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ میر مرتضیٰ کا ان کے ساتھ کیا رویہ تھا۔ وہ ان کی جان پر اپنا خاندانی حق سمجھتا تھا کہ اپنے والد کے انتقام میں ان کو استعمال کرنے میں کبھی بھی اس نے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ الذوالفقار کے کیمپ میں طارق بشیر چیمہ بھی رہے ، ان کی قسمت اچھی تھی کہ کابل سے واپسی پر یہ گرفتار ہو گئے ورنہ بہت سے کارکن اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ راجہ انور الذوالفقار کے اندرونی ڈھانچے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کو کابل میں کیمپ تو میسر تھا مگر ان کی کوئی خاص ٹریننگ نہیں ہوتی تھی۔ یہاں بھی میر مرتضیٰ کی نرگسی شخصیت کارفرما تھی۔وہ کابل سے پاکستان میں ان کو بھیجنے کے لیے ایک لیکچر دیتے اور سمجھتے کہ ان کے لیکچر سے کارکن تربیت یافتہ ہو گئے ہیں

جیسے جیالے وزیر اعظم ہاؤس میں ہوئے شاٹ سرکٹ اور پٹری سے اترتی ٹرین پر کریڈٹ لینے بھٹو خواتین تک پہنچ کر شاباش لینے پہنچ جاتے تھے ۔ ایسا ہی کچھ میر مرتضیٰ بھی کرتے تھے یہ پاکستان میں ہونے کسی بھی اتفاقی حادثہ اور آتشزدگی کے واقعے کی اخبار کی کٹنگ لیکر خاد کے دفتر پہنچ جاتے کہ یہ ان کی تنظیم کی کارروائی ہے۔ جبکہ انٹیلیجنس ایجنسیاں فقط اس واقعے کا یقین کرتی ہیں جن کی اطلاع پہلے سے دی گئی ہو۔
جب سویت افواج افغانستان پہنچی تو کئی قوم پرست پشتون ، آزاد پختونستان کا خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ یہ اس چیز کی گواہی ہے کہ روس کا ہدف گرم پانی ہی تھا۔ گو کہ راجہ انور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اس معاملے پر ان کی میر مرتضیٰ سے بحث بھی ہوئی کہ روسی ایسا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روس کا گرم پانی کا ہدف فقط جنرل ضیاء الحق یا امریکہ کا دھوکہ نہیں تھا ، بلکہ خود روس کے حمایتیوں میں بھی ایسے عناصر موجود تھے جو سمجھتے تھے کہ روس گرم پانیوں ہی کے لیے آ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں ضیاء الحق کی جگہ بھٹو صاحب کی بھی حکومت ہوتی تو افغان پالیسی ایسی ہی ہونی تھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو صاحب مذہب کا تڑکا کم لگاتے یا پھر اس کو بہتر مینج کرتے مگر روس کا راستہ روکنے کا فیصلہ معقول بھی تھا اور پاکستان کی سالمیت کو قائم رکھنے کے لیے یہ ہی درست فیصلہ تھا۔ پھر افغان سرزمین پہلے پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی تھی اس بار پاکستان کو سکور برابر کرنے کا بھی موقع مل گیا۔ اس بارے میں جمعہ خان صوفی کے انکشافات بھی سامنے رہنے چاہیں کہ کس طرح افغان سرزمین سے آزاد پختونستان کی تحریک چلی ساتھ ہی پاکستان میں کئی بم دھماکوں کے لیے افغان سرزمین سے موثر کردار ادا کیا جاتا رہا۔

مرتضیٰ بھٹو نے بھارت میں اندرا گاندھی سے بھی ۱۵ دسمبر ۷۹ میں ملاقات کی، اس وقت بھارت میں انتخابی مہم جاری تھی۔ اندرا کے ساتھ ملاقات میں میر مرتضیٰ نے اپنے والد کی پھانسی کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستانی جرنیلوں پر جنگی جنون سوار ہے وہ کسی بھی وقت بھارت کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ پاکستان کے چار ٹکڑے کر دئیے جائیں۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ اندرا سمجھدار عورت تھی اس نے میر کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا، ساتھ وہ میر کے اندر کم فہمی کے عنصر کو بھی جان گئی جس کو اس نے آگے جا کر استعمال کیا۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ اس ملاقات کے بعد انہوں نے میر کو خبردار کہ آئندہ کے بعد پاکستان توڑنے کی بات نہ کرے جس پر اس نے اتفاق کیا۔ دوسری بات یہ طے ہوئی کہ آئندہ میر ایسی کسی بھی ملاقات اپنے ساتھ کسی کو رکھے گا۔جب اندرا گاندھی انتخابات میں کامیاب ہوئی تو میر نے کابل میں اس کا جشن منایا اور اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اندرا نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ پھر میر نے ازخود اندرا گاندھی کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ اس بار حسب وعدہ راجہ انور ساتھ تھے۔جون ۸۰ میں میر کی اندرا گاندھی سے ملاقات ہوئی۔ مگر اس ملاقات کے بعد میر کو اندرا سے کافی مایوسی ہوئی۔اندرا نے دراصل میر کو سبق سکھایا تھا کہ اقتدار کی دنیا میں کوئی رشتہ یا ذاتی تعلق اہم نہیں ہوتا بلکہ مفاد اور ضرورت اہم ہوتی ہے۔ اس ملاقات سے پہلے وہاں سنجے گاندھی سے مصنف اور میر کی ملاقات ہوئی، دراصل اندرا اپنے بیٹے سنجے کی سیاسی تربیت کر رہی تھیں وہ اس کو مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر تیار کر رہی تھی مگر اس ملاقات کے تین دن بعد سنجے کا جہاز کریش ہو گیا۔ میر کے کہنے پر راجہ انور ان کی طرف سے اندرا سے تعزیت کرنے گئے تو وہاں پر خان عبدالغفار خان کی آمد کی خبریں تھیں۔ خان عبدالغفار خان کے آنے پر اندرا گاندھی چھوٹے بچوں کی طرح ان سے لپٹ کر رونے لگ پڑی۔ سنجے کی موت کے بعد اندرا گاندھی کا پارٹی سربراہی کے لیے انتخاب دوسرا بیٹا راجیو گاندھی ٹھہرا۔ مطلب یہاں بھی خاندانی وراثت چل پڑی۔ راجیو کا اس سے پہلے کوئی سیاسی کردار نہیں تھا مگر بھارتی میڈیا میں اس کی ذہانت کے تذکرے شروع ہو گئے۔بعد میں سکھوں کے خلاف اندرا گاندھی کے آپریشن میں بھی راجیو کا مشورہ شامل تھا۔ اس آپریشن نے ہی آگے اندرا کی جان لے لی۔
جہاں تک بھارتی میڈیا کی جانب سے راجیو گاندھی کی پروجیکشن کی بات ہے تو اس کی عدم بلوغت کا مظاہرہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی بھارتی میڈیا پروپیگنڈہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ہمارے ہاں بھی اپنے من پسند سیاسی شخصیت کی تعریفیں ایسی کی جاتی ہیں کہ خود اس شخصیت کو اپنی صلاحیتوں کا اس دن اندازہ ہوتا ہے جب وہ اپنے بارے میں خبریں سنے۔
بھارت کے دورے کے کچھ ماہ بعد راجہ انور میر مرتضیٰ کے ساتھ لندن بھی گئے جہاں سے واپسی پر راجہ انور کا مشکل وقت شروع ہو گیا کیونکہ کسی نے میر مرتضیٰ کے ساتھ زیادہ وفاداری دیکھانے کے لیے اس کے کان بھرے کہ راجہ انور کا ہدف پارٹی قیادت ہے۔ یہ الزام جب میں نے بھی پڑھا تو ایک دفعہ ہنس پڑا کہ اس پر یقین کیسے کیا جا سکتا ہے مگر میر مرتضیٰ نے اس کو ناصرف تسلیم کیا بلکہ نجیب اللہ کو مجبور کیا کہ راجہ انور کو قید کرے۔ اس وقت راجہ انور کہتے ہیں کہ وہ خوش قسمت تھے کہ میر مرتضیٰ کو بندے مارنے کا تجربہ نہیں تھا ورنہ وہ انہیں قتل کر دیتا۔ راجہ صاحب کہتے ہیں کہ میر مرتضیٰ نے اس کا اعتراف قیوم بٹ سے بعد میں کیا۔ جس شخص نے الزام لگایا اس کو ثبوت فراہم کرنے کے لیے میر نے پاکستان بھیجا مگر وہ ثبوت نہ لا سکا تو میر مرتضیٰ نے اس کو بھی غدار قرار دیا۔
ایک اور کارکن شوکت علی رانا کو مصنف کے خلاف بطور گواہ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی مگر رانا مصنف کا گہرا دوست تھا۔ اس نے انکار کر دیا۔ ناصرف وہ بھی مرتضیٰ کے غضب کا نشانہ بنا۔ شوکت کی بیوی کا حمل بھی مرتضیٰ نے ختم کرنے کی کوشش کی، جس کو کمال ذہانت اور بیدار مغزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے ناکام بنا دیا۔ وہ بچہ جس کو دنیا میں آنے سے پہلے مرتضیٰ مارنا چاہتا تھا وہ کتاب کے سن تالیف یعنی ۱۹۹۷ تک جوان ہو چکا تھا۔
راجہ صاحب نے میر مرتضیٰ کی شخصیت کا جو تعارف پیش کیا ہے وہ ایک منتقم مزاج ، سفاک اور آمرانہ سوچ رکھنے والے مطلبی شخص کا سا ہے۔ جو اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر شخص کو بآسانی غدار قرار دے دیتا تھا۔ پھر نرگسیت کا شکار میر کی اپنی ایک خیالی دنیا تھی۔ جہاں تک میر مرتضیٰ کا علیحدگی کی جانب جانا ہے تو مصنف کے بقول اس کی ذمہ دار فوجی جنتا تھی جس نے اس کو اس جانب دھکیلا ۔ میں بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں علیحدگی پسندی میر کا مشن نہیں تھی وہ اس کا انتقام تھی ، اس لیے جب اس نے انتخابی سیاست میں حصہ لیا تو میر کا رویہ بدل گیا۔میر مرتضیٰ نے راجہ انور کو پل چرخی جیل میں نجیب اللہ کے ذریعہ قید کر دیا تھا جس کا غصہ ان کو میر پر ہے اور نظر آتا ہے کہ یہ غصہ اور ناپسندیدگی کتاب میں بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں

“اگر سفاکی قیادت کی کلید ہوتی تو مرتضی کو ایک معروف قائد بنا دیتی، لیکن بدقسمتی سے اسکے بہت سے ساتھی خوب سمجھتے تھے کہ وہ سفاک تو یقیناً ہے، لیکن اپنے آدمیوں کی زندگی کے لئے ہے ۔دشمنوں کے لئے وہ محاذ آرائی سے نابلد ہونے کی وجہ سے کسی طرح بھی ضرر رساں نہیں تھا”

مصنف نے الذوالفقار کی کاروائیوں پر تفصیل سے لکھا ہے۔ جس میں پوپ جان پال کی پاکستان آمد پر کراچی میں دھماکہ کرنا تھا جس کے لیے لالہ اسد کے کزن لالہ اسلم کو چنا گیا۔ اس دھماکے کا مقصد پوپ کو قتل کرنا نہیں تھا بلکہ محض دہشت پیدا کرنا تھا کہ عالمی برادری میں ضیاء حکومت کو رسوائی کا سامنا ہو مگر جلسے میں چیکنگ کے دوران لالہ اسلم سے بم پھٹ گیا جس کے ساتھ ہی لالہ اسلم اڑ گیا۔بعد میں ایک اور کاروائی میں لالہ اسد بھی جان کی بازی ہار گیا

الذوالفقار کا اہم کردار سلام اللہ ٹیپو کا ذکر بھی کافی تفصیل سے ہوا ہے۔ اس ہی نے کراچی سے پشاور جانے والا پی آئی اے مسافر طیارہ ہائی جیک کرکے اس کو کابل ایئر پورٹ اتارا حالانکہ پلان کے مطابق اس نے دمشق اترنا تھا، پائلٹ نے ایندھن کی کمی کی وجہ سے اس کو قریبی ائیرپورٹ پر اتارا۔ اس طیارے کے اغواء اور اس سے جڑے واقعات کو مصنف نے تفصیل سے بتایا ہے۔ اس میں میجر طارق رحیم جو بھٹو صاحب کے اے ڈی سی رہ چکے تھے اور ایک بار ان کی جان بھی بچا چکے تھے کے بارے میں میر مرتضیٰ نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو یہ باور کروایا کہ یہ ضیاء کے قریبی جنرل رحیم الدین کا بیٹا ہے۔ شروع میں میر کو غلط فہمی ہوئی تھی مگر بعد میں اسے معلوم ہو گیا تھا کہ طارق رحیم جنرل رحیم الدین کا بیٹا نہیں مگر اس کے باوجود میر کے کہنے پر ٹیپو نے اس کو قتل کر دیا۔ اس طیارے کو ہائی جیک کرنے میں سب سے موثر کردار ڈاکٹر نجیب اللہ کا تھا۔ اس نے میر سے کہا تھا کہ وہ طیارے کو اغوا کر کے شام یا لیبیا کے اڈے پر اتارے تاکہ اس کا وبال افغانستان پر نہ پڑے مگر جب طیارہ کابل اڈے پر اترا تو اس کو اب اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ بھٹو خواتین میں سے نصرت بھٹو نے طیارہ ہائی جیکنگ کے چار روز بعد ہائی جیکرز کے حق میں بیان دیا مگر بینظیر بھٹو نے کوئی بیان دیا البتہ اپنے دوستوں کے درمیان وہ اس واقعے کی تفصیلات انتہائی مسرت سے سنایا کرتی تھیں۔
طیارہ ہائی جیکنگ پر پاکستانی صحافت کی منافقت کا بھی مصنف نے ذکر کیا ہے۔ جب ضیاء الحق دور میں اس پر بات کی جاتی تو اس کو الذولفقار کا کارنامہ بتایا جاتا مگر جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو یہ تک لکھا گیا کہ ہائی جیکنگ کی کوئی واردات ہوئی ہی نہیں تھی یہ سب ضیاء حکومت کا رچایا ڈرامہ تھا۔ یا پھر اس میں کہا گیا کہ ضیاء الحق نے یہ ڈرامہ جماعت اسلامی کے ساتھ ملکر رچایا ہے۔
ٹیپو کو اس ہائی جیکنگ نے ایک نیا تعارف دیا۔ اس کو نصرت بھٹو نے اپنا تیسرا بیٹا قرار دیا مگر ٹیپو کے ساتھ کچھ ہی سالوں بعد میر کی دوستی مخاصمت میں بدل گئی ۔ ٹیپو نے ضیاء کے بھارت دورے کے دوران اس کی خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی درگاہ پر حاضری کے وقت بھی قتل کرنا تھا مگر اس کو افغانستان سے اسلحہ فراہم کرنے والا پرویز شنواری اسلحہ فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ دراصل اس آپریشن کے وقت نجیب نے بھی مدد نہیں کی اور بھارت جو اس وقت الذوالفقار کا کیمپ اپنی سرزمین پر کھول چکا تھا نے بھی میر کو خبردار کیا کہ ضیاء کے دورے کے دوران کسی کاروائی سے گریز کرے۔مصنف کہتے ہیں کہ اس نے ٹیپو کے پاس ضیاء کی تصویریں دیکھیں جو اس نے حاضری کے وقت کھینچی تھی کہ اگر اس کے پاس اسلحہ ہوتا تو بآسانی وہ اس کو نشانہ بنا سکتا تھا۔ ٹیپو نے پرویز شنواری سے بدلہ لینے کے لیے افغانستان میں اس کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا جس میں میر کی مرضی شامل تھی۔ یہ قتل ڈاکٹر نجیب کو اندھیرے میں رکھا لیکن جب شنواری کی لاش کی شناخت ہوئی اور نجیب نے شنواری کی رہائش گاہ پر ٹیپو کو موجود پایا ۔ ٹیپو نے یقین دلایا کہ یہ قتل میر کی مرضی سے ہوا ہے اس وقت میر دمشق میں تھا۔ اس کے اور نجیب کے درمیان دوستی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ نجیب اس بارے میں میر کے منہ سے اعتراف سننا چاہتا تھا جو اس نے نہ کیا۔ بعد میں جب دوبارہ میر مرتضیٰ کو نجیب کی ضرورت پڑی تو اس نے ٹیپو کو راستے سے ہٹانے کی شرط رکھی یوں ٹیپو پر مقدمہ تو طیارہ ہائی جیکنگ کا چلا مگر اس کو شنواری کے قتل کے جرم میں مار دیا گیا۔ ٹیپو کی موت پر اس کو اپنا تیسرا بیٹا کہنے والی نصرت بھٹو کا کوئی افسوس کا بیان بھی نہیں ایا۔ حالانکہ کسی بھی پیپلز پارٹی یا الذوالفقار کے کارکن کی پھانسی پر وہ بیان دیا کرتی تھیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ ٹیپو اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھا۔ طیارہ ہائی جیکنگ کے دوران جب اس کا باپ مذاکرات کرنے گیا تو اس نے کہا تھا کہ میرا باپ بھٹو اور ماں نصرت بھٹو ہے۔ آپ کی میں کوئی بات نہیں مانوں گا۔ یہ اس پر افسوس کرتا تھا ۔ پرویز شنواری، طارق رحیم سمیت جو قتل اس نے بھٹو کے انتقام کے نام پر کیے تھے ان پر افسردہ تھا۔

اس کے علاوہ مصنف نے الذوالفقار کی دیگر کاروائیاں جن میں مولوی مشتاق کا قتل جس میں اتفاقی طور پر چوہدری ظہور الٰہی بھی قتل ہوئے ۔ جے یو پی کے رہنما ظہور الحسن بھوپالی کے قتل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب ضیاء الحق نے خالصتان کی تحریک کو سپورٹ کیا تو اس کے جواب میں اندرا گاندھی نے سندھو دیش کی منصوبے پر کام شروع کیا اور کے لئے الذولفقار کو استعمال کیا۔ الذوالفقار نے ضیاء الحق کے اوپر بھی حملے کروائے مگر وہ محفوظ رہے ایک تو بھارت میں بذریعہ ٹیپو کا ذکر تو ہو چکا۔ اس کے ساتھ دو بار ضیاء الحق کے طیارے کو میزائل سے ہٹ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس میں پہلے حملے کا ضیاء الحق کو اپنی موت تک پتہ نہ چل سکا ۔ اس دن اس کی قسمت اچھی تھی کہ حملہ آور نے بٹن دبانے میں جلدی کر دی اور میزائل فائر نہ ہو سکا ۔ جبکہ دوسری بار میزائل چند گز کے فاصلے سے طیارے کے سامنے سے گزرا۔
طیارہ اغواء کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے ۵۴ سیاسی قیدیوں کو رہائی ملی۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے الذولفقار میں شمولیت اختیار کی۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ میر مرتضیٰ کو ان میں سے کسی سے اتنی دلچسپی نہیں تھی مگر کیونکہ اس سے اس کو شہرت مل رہی تھی تو اس نے ان قیدیوں پر اپنا احسان قائم کر لیا۔ اس سے میر مرتضیٰ نے الذولفقار کے لوگوں پر ایک تاثر بھی قائم کیا کہ وہ کھلم کھلا اپنی کاروائی کریں اگر بالفرض ان کو پھانسی کی سزا بھی ہو جائے تو ان کا سربراہ ان کو جیل سے چھڑا لے گا۔ جیسے چوہدری ظہور الٰہی کے قاتل جھرنا کو آخری دم تک یقین تھا کہ الذولفقار کے کمانڈوز اس کو پھانسی گھاٹ سے بھی رہا کروا لیں گے.

شاہنواز بھٹو گو کہ الذوالفقار میں اپنے بڑے بھائی کا دست راست تھا اس کے بارے میں راجہ انور کہتے ہیں کہ اپنے والد کی پھانسی کے بعد وہ نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گیا۔ اس کو سیاست سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی مگر وہ اپنے بھائی کا دست راست بنا رہا۔ وہ حساس طبعیت کا مالک تھا اس کی منگیتر نصرلی نے اس سے منگنی توڑی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔نصرلی کی شرط یہی تھی کہ وہ کابل چھوڑ دے تو وہ اس سے شادی کر لے گی۔ شاہنواز بھٹو کی کمزوری چی گویرا جیسے لمبے بال تھے۔بھٹو دور میں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ڈسپلن کے تحت وہ لمبے بال نہیں رکھ سکتا تھا جس سے وہ گریزاں رہا مگر بھٹو نے اپنا اثرورسوخ اس کے حق میں نہیں بلکہ کالج کے ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کیا اور اس کے بال کاٹے گئے جس کا اس نے بہت برا بھی منایا۔ شاہنواز کی بعد میں اپنی بیوی ریحانہ کے ساتھ کافی لڑائیاں ہوئیں۔ موت سے پہلے بھی ان دونوں کی لڑائی ہوئی جس میں شاہنواز کو اعصابی دورہ پڑا اور اس میں وہ زہر کھا گیا جس کی وائل اس کے پاس ہر وقت ہوتی تھی تاکہ ضیاء الحق کے ہتھے نہ چڑھے۔ دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ یہ زہر ریحانہ نے ہی اپنے شوہر کو دیا تھا۔ شاہنواز کی موت پر جنرل ضیاء الحق نے نصرت بھٹو کو تعزیت کا تار بھیجا۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے شاہنواز کی موت کو بھی ضیاء الحق کے کھاتے میں لکھ دیا۔شاہنواز کی موت تک ضیاء حکومت کو خبر نہ ہو سکی کہ میر اور شاہنواز کہاں چھپے ہوئے ہیں۔

میر مرتضیٰ کی الذولفقار نے سندھو دیش کے لیے بھی ملک میں کاروائیاں کیں ، جن میں سے چند کو راجہ انور نے بیان کیا ہے۔ حتی کہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں بھی یہ کاروائیاں ہوئی۔ میاں صاحب کے پہلے دور میں جب جام صادق سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے تو میر کے ساتھ ان کا رابطہ ہوا۔ میر کو بینظیر بھٹو کی جگہ سندھ سے لانچ کرنے کا پلان تھا کہ اس دوران جام صادق چل بسے۔
جب محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو میر نے بھی پاکستان آنے کی ٹھان لی، محترمہ نے بہت کوشش کی کہ میر مرتضیٰ پاکستان نہ آئے مگر میر اپنی ضد کا پکا تھا۔ اس کو آتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ البتہ بینظیر بھٹو نے میر پر قائم مقدمات ختم کرانے میں بھرپور کردار ادا کیا، اور وقت کا مذاق دیکھیں کہ اب میر مرتضیٰ الذولفقار کی کاروائیوں سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے تھے۔ انہوں نے طیارے کے اغواء کا جو پہلے کریڈٹ لیا تھا اب اس سے انکاری ہو گئے۔ سندھی قوم پرستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی مگر سندھو دیش کی بجائے اب وہ وفاق کی بات کرنے لگے۔
محترمہ اور میر میں کرسی کی جنگ جو پہلے خفیہ تھی اب کھل کر سامنے آ گئی اور محترمہ کے لیے مشکلات اس وقت کھڑی ہو گئیں جب ان کی والدہ میر کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ میر نے اپنی الگ سے جماعت بنا لی اور یہ خیال کیا جانے لگا کہ اب پیپلز پارٹی تقسیم ہو چکی ہے۔ میر مرتضیٰ محترمہ کی جماعت کو سرعام للکارتے تھے، وہ اپنے بہنوئی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے۔ اس ہی نفرت کے تعلق میں آخری موڑ میر کے قتل کے چار روز پہلے آیا جب یہ دونوں ایک ہی جہاز میں کراچی جا رہے تو میر کے کہنے پر اس کے گارڈز نے زرداری پر بندوق تانی ، یہ اس بات کی علامت تھی کہ میر زرداری سے خوفزدہ نہیں۔ اس حملے کے بعد زرداری اپنے گھر کی بجائے اپنے والد کے گھر گئے۔ اس واقعے کے بعد کہا جاتا ہے کہ زرداری نے سخت ردعمل کا فیصلہ کیا اور بیس ستمبر کو میر کا قتل ہو گیا۔ میر کے قتل کو پولیس نے غلط فہمی کی بنیاد کہا مگر جنرل نصیر اللہ بابر اس کو آئی ایس آئی کی کارروائی بتاتے ہیں اور یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ میر کو گردن میں گولی پولیس نے نہیں بلکہ ایک درخت پر موجود سنائیپر نے ماری تھی۔

میر کی بابت بینظیر جہاں بہن ہونے کے ناطے اس کی جان لینا نہیں چاہتی تھیں۔ تو دوسری طرف میر مرتضیٰ کے ساتھیوں کے حوالے سے ان کا رویہ انتہائی سخت تھا۔ ان کا خیال تھا میر کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کر کے میر کو تنہا اور کمزور کیا جا سکتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی جان کی حفاظت چاہتی تھیں مگر سیاسی وراثت میں وہ میر کو شریک نہیں کر سکتی تھیں۔
بینظیر کے دوسرے دور میں میر مرتضیٰ اور محترمہ نے بھٹو صاحب کی سالگرہ الگ الگ منائی تو المرتضیٰ ہاؤس میں پولیس فائرنگ ہوئی جس میں چار لوگ مارے گئے ۔ پولیس اور حکومت کا موقف تھا کہ یہ راء کے ایجنٹ تھے۔ جبکہ نصرت بھٹو نے بیان دیا کہ بھٹو کے گھر کا تقدس تو اتنی بے رحمی سے ضیاء الحق کے دور میں بھی پامال نہ کیا گیا۔
میر کو بینظیر بھٹو کی وجہ سے پولیس بھی کچھ نہیں کہتی تھی حتیٰ کہ اپنے ساتھ محمد علی سنارا کو چھوڑنے کے لیے اس نے پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا یہ کسی سیاسی راہنما کا پہلی بار پولس اسٹیشن پر دھاوا تھا مگر پولیس نے کاروائی سے اس لیے گریز کیا کہ میر وزیر اعظم کا بھائی تھا۔ بینظیر کی بے بسی ملاحظہ کیجیے کہ ان کے دور حکومت میں ان کا بھائی مار ڈالا گیا اور وہ کچھ نہ کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ دوسری جانب مرتضیٰ کے قتل کے ایک ماہ بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کو طالبان نے سرعام پھانسی پر لٹکا دیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے جہاں میر مرتضیٰ کے کہنے پر راجہ انور کو گرفتار کر کے قید کیا تھا وہاں بعد میں میر کے مانگنے کے باوجود راجہ انور کو اس کے حوالے نہیں کیا۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر نجیب راجہ انور کا محسن تھا کیونکہ اگر یہ بعد میں انہیں میر مرتضیٰ کے حوالے کر دیتا تو راجہ انور کا قتل یقینی تھا۔ راجہ انور نے کہا ہے کہ طالبان حکومت کے قیام میں بینظیر ملوث تھیں ان کی آشیر باد سے ہی یہ کابل پر قابض ہوئے۔میرے خیال سے یہ مبالغہ آرائی ہے۔ ٹھیک ہے پاکستان کی جانب سے خاموش حمایت حاصل رہی ہو گی مگر افغانستان کے اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور بعد میں خود آئی ایس آئی کے ذمہ داران کے بیانات کے مطابق طالبان کی تحریک ایک مقامی تحریک تھی جس کو افغان عوام کی سپورٹ حاصل تھی۔

راجہ انور کی یہ کتاب کافی دلچسپ ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے چند حقائق اور تجزیات پر مبنی ہے۔ یقیناً یہ کتاب میر مرتضیٰ یا پھر پیپلز پارٹی والوں کے لیے کچھ اچھی یادیں نہیں رکھتی مگر یہ راجہ انور کا اپنا بیان کردہ سچ ہے۔ جس میں غلط بیانی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن جس طرح صاف گوئی سے انہوں نے باتیں بیان کی ہیں تو یہ اس کتاب کے مواد کو قابل اعتبار ضرور بناتا ہے۔ باقی ہر شخص جب اپنے کردار کی تاریخ بیان کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو چھوٹ دیتا ہے جو کہ اس کتاب میں راجہ انور اپنے آپ کو دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور اہم بات اس کتاب کے حوالے سے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اپنی قید تک راجہ انور عینی شاہد اور ایک کردار ہیں جبکہ اس کے بعد کی جو باتیں بیان کی گئی ہیں اس میں وہ ایک مبصر اور secondary source ہیں۔ جس میں واقعات میں ملوث لوگوں سے کی گئی باتیں انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کی ہیں۔ بدقسمتی سے اب میر مرتضیٰ، بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو اس دنیا میں موجود نہیں ہیں کہ ان کے متعلق جو باتیں ہوئیں وہ اس کی تردید یا تصدیق کر سکیں۔لیکن اس کتاب کو پڑھ کر ایک اور بات معلوم ہوتی ہے وہ لیڈر شپ اور پرجوش کارکنوں کی نفسیات اور اخلاقیات کا فرق ہے۔ مطلب سیاسی خاندان اپنے مقاصد کے خاطر اپنی جان کو بچا کر اپنے سیاسی کارکنوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں ان کا طرز عمل کیا ہوتا ہے جبکہ پرجوش کارکن اپنی قیادت کی خوشنودی جائز و ناجائز بلکہ بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام بہت آسانی سے کر جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی قیادت کی آنکھوں کا تارا بن سکیں۔سیاسی قیادت ان کی قربانیوں کی قدر بھی کرتی ہے مگر اس کے باوجود ان کو اس حد تک آگے آنے دیتی جہاں تک وہ ان کی قیادت کے لیے مسئلہ کھڑا نہ کریں، یہ قیادت کی ریڈ لائن ہے۔ اس کو کراس کرنے والا کارکن بھلے اس نے کتنی قربانیاں کیوں نہ دی ہو کو غدار قرار دینے اور اس کا سیاسی کیرئیر تباہ کرنے میں یہ ذرا سی دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مکمل سچ اور بند کمروں کے راز شاید ہی کبھی باہر آ سکیں لیکن پھر بھی ایک بہترین کوشش ۔کم از کم اپنے حصے کا سچ اور رخ دیکھایا گیا ہے ۔