Home » سیرت رسول اللہ ﷺ کا پیغام سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے نام
اسلامی فکری روایت سیاست واقتصاد

سیرت رسول اللہ ﷺ کا پیغام سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے نام

 

جناب میاں محمد نواز شریف صاحب

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته

امید ہے کہ آپ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے خیریت سے ہوں گے۔ میں ربیع الاول 1444 ہجری میں اس امید کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوں کہ آپ اور آپ کی پارٹی کی اہم عہدیدار ان معروضات پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصری معنویت اور تقاضوں کے حوالے سے پاکستان کے صف اول کے سیاسی لیڈر اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہونے کے ناطے آپ کی ذمہ داری غیر معمولی طور پر زیادہ اور حساس نوعیت کی ہے۔ تذکیر اور یاددہانی کے باب میں یہ چند باتیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

میاں صاحب! آپ کی سیاسی زندگی کی جدوجہد بہت سے نشیب فراز اور متنوع تجربات سے گزر کر آج جس مقام پر کھڑی ہوئی ہے اس پر سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ سے پہلا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ ذاتی طور پر بھی اور آپ کا خاندان و جماعت بھی شکر بجا لاتے ہوئے اللہ کے سامنے جھک جائیں۔ اس عمل میں تشکر’ عاجزی اور اعتراف خطا کے جذبات شامل ہونے چاہئیں۔ بحیثیت انسان ہم خطا کے پتلے ہیں اور اکثر دانستہ و غیر دانستہ طور پر ہم ایسے فیصلے کر گزرتے ہیں جن کا خمیازہ بعد میں ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔ آپ نے ذاتی طور پر بھی اور خاندان و جماعت کے دیگر افراد کے ہمراہ جو سخت اور مشکل وقت دیکھا ہے’ آج اللہ کریم نے آپ کو اس سے نکال کر دوبارہ ایک ایسے مقام پر آن کھڑا کیا ہے جو تاریخ میں بہت ہی کم لوگوں کو اس تواتر کے ساتھ نصیب ہوا۔ اللہ نے آپ پر بار بار کرم کیا ہے اور یقینا اسے آپ کی کوئی ادا پسند ہے۔ آپ کے سیاسی مخالفین کے بیانیہ سے قطع نظر آپ کو اس وقت سراپا شاکر بندے کے روپ میں نظر آنا چاہیئے۔ اپنے مخالفین کے لئے آپ کے دل میں وہی جذبات ہونے چاہئیں جن مظاہرہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے اور نبی مکرم علیہ السلام نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا تھا۔

پاکستان اس وقت جس سیاسی خلفشار اور پولورائزیشن کے دور سے گزر رہا ہے اس میں احتساب اور مخالفین کو ان کے کردہ و ناکردہ جرائم کے سزا کی نام پر پکڑنے اور جیلوں میں بند کرنے سے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف اور اس کے پہلے اپنی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ آپ نے یہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ اس سے سوائے انتشار اور بربادی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کے بعض ذمہ داران نے ماضی میں آپ کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی روا رکھی مگر آپ اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اس روش کو ختم کرنے کا اعلان کریں۔

جناب میاں صاحب! آپ کا تعلق ایک ایسے روایتی دین دار طبقے سے ہے جسے ہماری سماجی و معاشرتی اقدار کا مکمل ادراک اور لحاظ رہا ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے آپ کی سیاسی جماعت کی قیادت میں ایسے لوگوں کی غیر معمولی پذیرائی دیکھنے میں آ رہی ہے جو کسی بھی طور پر اپنے رکھ رکھاؤ’ طرز زندگی اور نظریاتی جھکاؤ میں مسلم لیگ کے مزاج سے موافقت نہیں رکھتے۔ آپ کی پارٹی کے صوبائی ممبران اسمبلی سمیت مرکزی عہدیداروں اور وفاقی حکومت میں شامل کئی اہم لوگ اپنے فکر و عمل میں دینی اقدار سے گریز کرنے والے اور الٹرا لبرل سوچ کے ہمنوا ہیں۔ میں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا مگر مسلم لیگ کو “سینٹر -رائٹ پولیٹیکل الائنمنٹ” رکھنے والی جماعت کے طور پر پاکستان بھر میں پذیرائی حاصل رہی ہے۔ مگر کچھ عرصے سے جماعت کے عوامی چہرے تیزی سے اس تاثر کی نفی کر رہے ہیں۔ اب مسلم لیگ کے عوامی ڈسکورس میں اسلام اور نظریہ پاکستان کی بات خال خال ہی سننے کو ملتی ہے۔ بہت سے سماجی’ قانونی اور معاشی مسائل پر مسلم لیگ کا موقف کسی بھی دوسری سیکولر سیاسی جماعت کی طرح ہی دکھائی دیتا ہے۔

گو کہ یہ موضوع آپ کے لئے ذاتی طور پر حساس ہوگا مگر مجھے کہنے دیجئے کہ آپ کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ کا سیاسی ڈسکورس’ ان کی کور ٹیم اور کنڈکٹ بھی مذکورہ خدشات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میاں نواز شریف صاحب! آپ کی شخصیت کی وضعداری اور جماعت کی اسلام سے وابستگی کی وجہ سے آپ کو ملک کے تمام حصوں میں پذیرائی حاصل تھی۔ آپ کی جماعت کے بدلتے ہوئے سیاسی ڈسکورس اور نظریاتی تصورات نے آپ کے روایتی مذہبی ووٹ بینک کو کم کر کے ایک سیاسی خلا پیدا کیا ہے جسے پر کرنے کے لئے ملک کے بعض حصوں میں شدت پسند تنظیمیں مصروف عمل ہیں۔ یہ ملک و قوم کے لئے دوہرے نقصان کا پیش خیمہ ہے۔ پاکستان میں ایک اسلام پسند’ معتدل اور قومی جماعت کے وجود کا باقی رہنا اس کی تمام تر عملی کوتاہیوں کے باوجود غنیمت تھا اور آپ کو مسلم لیگ کے اس پہلو سے بقا کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آپ کی سیاسی حکمت عملی کے لئے بہت واضح اور دو ٹوک ہے کہ اللہ کی خوشنودی اور رضا کو مطمح نظر بنائیں اور کسی بھی وقتی مصلحت کا شکار ہو کر دنیاوی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے انسان کو اپنے بنیادی اصولوں سے روگردانی نہیں کرنی چاہیئے۔

جناب میاں صاحب! اللہ نے ایک بار پھر آپ کی جماعت کو ملک میں اقتدار عطا کیا ہے۔ یہ اللہ کی خاص عنایت اور فضل و کرم ہے اور اقتدار میں اتنی بار آنے کے بعد اب آپ کے پاس اس ملک کے نظریاتی تشخص کی حفاظت اور غریب لوگوں کی خدمت کا کماحقہ کام نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کو کسی زمانے میں آپ بہت اہتمام کے ساتھ اپنی گفتگو اور پالیسیوں میں مدنظر رکھتے تھے جو اب وقت کے ساتھ مدھم پڑ گیا ہے۔ ملک کے دستوری اداروں کے تحفظ کی بات آپ سے اکثر سننے کو ملتی ہے مگر اب آپ کی گفتگو کا محور جمہوریت کی بحالی اور دستوریت (constitutionalism) کے عمومی تقاضے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دستور پاکستان کے تحت جمہوری اقدار کی بحالی اور ریاستی اداروں کو آئینی دائرہ کار میں محدود رکھنے کی اشد ضرورت ہے مگر آپ اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دستوریت کا نمایاں ترین پہلو آئین میں شامل اسلامی شقیں ہیں۔ دستوریت کا بنیادی وظیفہ ریاست کے اداروں کو ایک ایسے بندوبست کے ذریعے ان کے دائرہ کار تک محدود رکھنا ہوتا ہے جس کا تعین آئین میں کیا گیا ہے۔

پاکستان میں عدلیہ’ مقننہ اور انتظامیہ کو جن دائروں میں اختیارات دے کر محدود کیا گیا ہے ان سب کے اوپر آئین کی اس اسلامی دفعہ کو فوقیت حاصل ہے کہ ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ یہ دراصل ہماری دستوریت کی آفاقی اساس ہے جو آئین پاکستان کو ہماری طرح کے دوسرے ممالک کے دساتیر سے ممتاز کرتی ہے۔ بدقسمتی سے دستوریت کا یہ تقاضا وقت کے ساتھ پامال ہوتا جا رہا ہے اور اس بارے میں کوئی تشویش بھی آپ کی جماعت سمیت ملک کی صف اول کی سیاسی قیادت میں نہیں پائی جاتی۔ اس وقت ملک میں کتنے ہی قوانین اور پالیسیاں تشکیل پا رہے ہیں جو اپنی ساخت اور اورینٹیشن میں دستور کی اسلامی شقوں کی روح سے متصادم ہیں۔سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے زریں اصول آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک اہم ترین لیڈر ہونے کے ناطے آپ آئین پاکستان کی اسلامی شقوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں کہ اس دستور کی پاسداری کا آپ نے بار بار حلف اٹھایا ہے۔ دستور میں جن آئینی اداروں کو اسلام کی تعلیمات و ترویج کے لئے تشکیل دیا گیا تھا انہیں مضبوط بنانے کے لئے آپ کو سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کے گزشتہ دور حکومت میں اسلامی نظریاتی کونسل’ سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ’ وفاقی شرعی عدالت’ بیت المال’ زکوة کے اداروں سمیت دیگر قومی ادارے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہے اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال درپیش ہے۔

مجھے امید ہے کہ آپ ان معروضات پر غور فرمائیں گے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

خیر اندیش

ڈاکٹر حافظ عزیزالرحمن
اسلام آباد
azeez.rehman@gmail.com

26 ربیع الاول 1444 ہجری

ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن

ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن قانون کے ممتاز اسکالر ہیں اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون میں  ڈائریکٹر اسکول آف لاء  کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔
azeez.rehman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں