Home » اکوائناس اور متکلمین کی کاسمولوجیکل دلیل کا ایک اہم فرق
اسلامی فکری روایت کلام

اکوائناس اور متکلمین کی کاسمولوجیکل دلیل کا ایک اہم فرق

 

وجود خداوندی پر دئیے جانے والے متعدد دلائل میں سے ایک اہم دلیل “کاسمولوجیکل آرگومنٹ” یعنی (دلیل کونیات) بھی ہے۔ اس دلیل کی کئی تشریحات ہیں اور عیسائی دنیا میں اس کی وہ تشریحات مشہور ہیں جو سینٹ اکواناس (م 1274 ء) نے بیان کیں اور مغربی فلسفے میں انہی کی تشریحات نقد و دفاع کا موضوع بنیں۔ سینٹ اکواناس کی تشریحات دراصل ابن سینا (م 1037ء) اور علامہ ابن رشد (م 1198 ء ) کی روایت سے ماخوذ ہیں۔ یہاں ہم مختصراً ان کی پیش کردہ دلیل اور اس پر کئے جانے والے نقد کا خلاصہ لکھ کر متکلمین کی دلیل حدوث سے اس کا موازنہ کریں گے۔ اس کے بعد کانٹ کی ایک مشہور انٹینامی پر تبصرہ کیا جائے گا جو الہیاتی امور میں عقل کے کلی طور پر غیر مفید ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

سینٹ اکواناس کی دلیل  اور اس پر نقد

اکواناس نے اس کی جو تشریحات کیں، ان میں سے ایک علت و معلول کے تصور کے اردگرد ہے جو کچھ یوں ہے:

1) کائنات میں اشیاء کے مابین علت و معلول کا سلسلہ جاری ہے ( یعنی ایک شے دوسری کی وجہ سے اور دوسری تیسری کی وجہ سے وغیرہ)

2)  علل و معلول کی یہ سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی

3) لہذا ماننا ہوگا کہ اس سیریز کا کوئی آغاز ہے، ایسا آغاز جو خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ یہ “علت اولی” خدا ہے

علل و معلول کی سیریز لامتناہی کیوں نہیں ہوسکتی، فی الوقت ہم اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ مغربی دنیا میں لائبنیز (م 1716 ء ) نے اس کاسمولوجیکل آرگومنٹ کی نسبتاً فرق توجیہہ کی ہے، تاہم یہاں ہمیں اس سے سرو کار نہیں۔ ہم یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عام طور پر سینٹ اکواناس کی دلیل کونیات پر جو اعتراض کیا جاتا ہے، یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ وہی اعتراض متکلمین کی کاسمولوجیکل دلیل پر بھی خود بخود وارد ہوتا ہوگا جبکہ یہ غلط فہمی ہے۔ آئیے مختصراً اسے سمجھتے ہیں ۔

اکواناس کی پیش کردہ دلیل پر ناقدین کو یہ اعتراض ہے کہ یہاں ایک غیر منطقی چھلانگ لگائی گئی ہے۔ پہلے قضیے میں علت و معلول کے جس تصور کو بنیاد بنایا گیاہے، وہ تصور زمان و مکان میں موجود اشیاء کے مابین تاثیرات پر مبنی نیز مشاہدات کا رہین منت ہے۔ اس کے بعد نتیجے میں ایک ایسے تصور علت کا اقرار کیا گیا ہے جو زمان و مکان سے ماوراء ہے، گویا دلیل میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ علت کا جو تصور زمان و مکان میں ہے وہی زمان و مکان سے ماوراء بھی جاری ہے جبکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ اس دلیل پر یہ نقد اس لئے بھی متوجہ ہوتا ہے کہ پہلے قضیے میں جس شے کا نام “علت” رکھا گیا ہے، اس کا مفہوم اس دلیل میں تصور خدا تک پہنچنے سے ماقبل قضیہ اول میں متعین کیا جاچکا ہے، یعنی قضیہ اول کی صحت اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ علت و معلول کا تصور اشیاء میں از خود جاری مانا جائے اور پہلے قضیے کی توجیہہ کرتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علت و معلول کا یہ رشتہ خدا کی وجہ سے موجود ہے کیونکہ پہلا قضیہ اس استدلال کا پہلا قدم ہے اور اس قدم تک خدا استدلال میں موجود نہیں۔ لہذا اس قضئے کی صحت کے لئے تصور علت سے متعلق دو امور کو ماننا ہوگا: (1) یہ اشیاء میں پیوست تاثیرات پر مبنی تصور ہے ، (2) یہاں جس چیز کو علت و معلول کہا جارہا ہے وہ زمان و مکان میں مقید تصور ہے۔ انہی بنا پر ناقدین اس استدلال پر درج بالا نقد کرتے ہیں۔ اس استدلال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جس علت کو کائنات میں جاری مانا گیا ہے، کائنات سے ماوراء بھی اسی تصور علت کو پھیلانے کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر کائنات میں “فطری قوانین” پر مبنی علت کارفرما ہے تو اس سے پرے بھی انہی قوانین کا راج ہونا چاہئے۔ گویا اس دلیل سے اگر خدا ثابت ہوگا بھی تو اسی طرح کا خدا ہوگا جس سے “طبعاً” اشیاء کا ظہور ہو۔ یہی مسلم فلاسفہ کا تصور خدا تھا اور وہ اس نتیجے تک اس لئے پہنچنے پر مجبور ہوئے کیونکہ وہ ارسطو کے تصور علت (“اشیاء میں تاثیرات” کے وجود) کو قبول کرکے اس سے آگے نہیں جاسکتے تھے۔

اس نقد کے جواب میں عیسائی دنیا میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، تاہم فی الوقت یہ بھی ہمارا موضوع نہیں۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ نقد متکلمین کی “دلیل حدوث” پر وارد ہوتا ہے؟

متکلمین کی دلیل حدوث

دلیل حدوث کی ساخت امام غزالی کے الفاظ میں یوں ہے:

1) ہر حادث کے لئے محدث (علت) ہے

2) کائنات حادث ہے (اور حوادثات کی یہ سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی)

3) لہذا کائنات کے لئے محدث ہے

اس کا انگریزی ترجمہ یوں ہوگا:

  1. a) Anything that begins to exist must have cause
  2. b) The universe began to exist
  3. c) The universe must have cause

پہلے قضئیے میں دو اصطلاحات ہیں: حادث اور محدث (یا علت)۔ حادث سے مراد وہ شے جو عدم سے وجود میں آئے۔ جو شے حادث ہو ، نہ وہ واجب (necessary) ہوسکتی ہے اور نہ محال (impossible)۔ اگر واجب ہوتی تو معدوم نہ ہوتی (کہ واجب عدم کو قبول نہیں کرتا)، اور اگر محال ہوتی تو موجود نہ ہوسکتی (کہ محال وجود کو قبول نہیں کرتا)۔ پس حادث کو عدم اور وجود دونوں کا لاحق ہوسکنا بتارہا ہے کہ وہ ممکن   (Possible) ہے۔ ممکن وہ ہے جو دو (یا اس سے زائد) متوازی امکانات میں سے کسی ایک جانب ترجیح کے لئے کسی “وجہ ترجیح ” (preponderant) پر معلق ہو، اگر یہ وجہ ترجیح موجود نہ ہو تو عدم اس پر طاری رہے اور اگر وجہ ترجیح آجائے تو وہ عدم سے وجود میں آجائے۔ اسی طرح وجود میں آنے کے بعد بھی چونکہ وہ ممکن ہی ہے، لہذا پھر دو امکانات (وجود پر باقی رہنے اور معدوم ہوجانے) کے لئے وجہ ترجیح کا محتاج ہے۔ متکلمین اسی وجہ ترجیح کو علت کہتے ہیں جو حادث و ممکن کی اس احتیاج کو پورا کرے۔ یہ وجہ ترجیح نری طبع (nature) نہیں ہے بلکہ ترجیح کا تصور لازماً “ارادے ” (will) کو متضمن ہے۔ ارادے کا مطلب ہی دو مساوی امکانات میں سے ایک کو ترجیح دینا ہے اور حادث اسی کا محتاج ہے۔ مزید یاد رکھئے کہ جس طرح تصور “ترجیح” ارادے کو متضمن ہے، اسی طرح ارادہ قدرت و علم کو متضمن ہے کیونکہ ان دو کے بغیر ترجیح و ارادے کا کوئی مطلب نہیں۔ متکلمین کے استدلال کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ارسطو و مسلم فلاسفہ کی طرح صرف پہلی علت ثابت نہیں کرتے بلکہ ایک بااختیار و صاحب علم و قدرت ہستی ثابت کرتے ہیں جو دراصل “فاعل “(agent) ہے نہ کہ نری علت ۔ یاد رہے، ہر فاعل علت ہے مگر ہر علت فاعل نہیں۔ مثلا آگ جلانے کے عمل کے لئے علت (efficient cause) ہے مگر آگ جلانے کے عمل کی فاعل نہیں۔ اس معنی میں متکلمین جس علت کی بات کرتے ہیں، اس کا ذکر ارسطو کی چار علتوں میں کہیں موجود نہیں کیونکہ ارسطو جسے efficient cause کہتا ہے وہ فاعل نہیں ہے۔

غور کیجئے کہ اکواناس کے استدلال کی طرح پہلے قضئے کی توجیہہ میں متکلمین کائنات کے اندر کسی علت و معلول کے اجرا کا اقرار نہیں کرتے بلکہ پہلے قضئے میں جو کچھ ہے وہ سب “حوادثات” ہیں اور ان کے مابین علت کا کوئی تعلق موجود نہیں، سب مساوی طور پر اپنے سے خارج میں علت (مرجح) کے محتاج ہیں۔ یہ ماننا ہی عقل صریح کا تقاضا ہے۔

کائنات کا حدوث کیسے ثابت ہوتا ہے، یہاں ہمیں اس تفصیل میں نہیں جانا۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ حوادثات کی یہ سیریز لامتناہی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے قضئے میں بھی قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں بھی علل و معلول کی لامتناہی سیریز کی بات نہیں ہورہی بلکہ “حوادثات” کی لامتناہی سیریز کی بات ہورہی ہے۔ یعنی سینٹ اکواناس جس سیریز کے ناممکن ہونے کی بات کررہے ہیں وہ یوں ہے:

الف بوجہ ب، ب بوجہ ج، ج بوجہ د ۔۔۔۔ (جہاں تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ علت و معلول کے نظم میں مربوط ہیں)

اس کے برعکس متکلمین جس سیریز کی بات کرتے ہیں وہ یوں ہے:

الف، ب، ج، د ۔۔۔۔۔ (جہاں تمام افراد حوادثات ہیں، ہر ایک عدم سے وجود پزیر ہورہا ہے نہ کہ ایک دوسرے سے )

سینٹ اکواناس کی سیریز میں “پہلی علت” (first cause) سے آگے (یعنی سیکنڈ لاسٹ نمبر پر) ایک “علت” ہے جو کہ زمان و مکان میں جاری تاثیرات سے عبارت ہے، جبکہ متکلمین کی سیریز کے آخری کونے (یا ابتدائی مقام) پر بھی ایک حادث ہے اور اس سیریز کے تمام افراد اور ان کا مجموعہ اپنے سے باہر علت کے محتاج ہیں۔

پھر غور کیجئے کہ متکلمین کی دلیل حدوث کے دونوں قضایا کائنات میں موجود اشیاء کے مابین کسی نوعیت کی سیکنڈری یا پرائمری علت کے تعلق پر منحصر نہیں بلکہ وہ ابتداء ہی سے علت کو کائنات سے باہر ماننا عقلاً ضروری قرار دیتی ہے، اس لئےکہ پوری کائنات (زمان و مکان سمیت) ہی حادث اور اس لئے محتاج ہے اور یہی محتاجی علت کے تصور کی بنیاد ہے۔ چنانچہ متکلمین کا تصور علت نہ زمان و مکان کے تصور کو اور نہ ہی اشیاء میں جاری تاثیرات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ لہذا جو نقد اکواناس کی دلیل پر وارد ہوتا ہے، وہ متکلمین کی دلیل حدوث پر قطعاً وارد نہیں ہوتا۔ ان امور کو اچھی سمجھ لینا چاہئے۔

آخر میں ہم متکلمین کی دلیل حدوث کو ان کے تصور “علت” کو سامنے رکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

1)  ہر حادث کے لئے ایسی وجہ ترجیح درکار ہے جو عدم پر وجود کو ترجیح دے

2)  کائنات حادث (و موجود) ہے

3) لہذا کائنات کسی کی ترجیح ہے

 کانٹ کی ایک انٹینامی اور اس کا تجزیہ

مشہور فلسفی ایمانیول کانٹ (م 1804 ء) کا ماننا ہے کہ بذریعہ عقل وجود خداوندی اور اس کے خلاف استدلال قائم کرنا درست نہیں، اس لئےکہ  عقل جن تفہیمی مقولات (categories) کے ذریعے مابعد الطبعیات پر لنگر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے وہ زمان و مکان سے باہر کسی طور پر کارآمد نہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک دعوی ہے جو اپنی صحت کے لئے دلیل کا محتاج ہے۔ الہیاتی امور میں عقلاً  کسی تصدیق کے ناممکن ہونے کی دلیل کانٹ یہ دیتا ہے کہ عقل کی ان تفہیمی کیٹیگریز کو جب ہم مشاہدے سے ماوراء لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو عقل ایک “لازمی تضاد ” کا شکار ہوجاتی ہے جس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ ہر دو متضاد میں سے ہر ایک موقف کا درست و غلط ہونا دونوں لازم آتے ہیں۔ اس کیفیت کو  کانٹ antinomy  کہتا ہے۔ یہ انٹینامی  گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ عقل اس دائرے میں کسی کام کی نہیں۔

اسی نوع کی ایک انٹینامی کانٹ اس مسئلے سے متعلق پیش کرتاہے جسے قدم و حدوث  عالم کہتے ہیں، یعنی کیا کائنات قدیم ہے یا حادث؟ چنانچہ:

  • ایک طرف عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ :
    • کائنات حادث ہو، یعنی اس کی ابتدا ہو
    • کیونکہ اگر اسے قدیم مانا جائے تو اس سے یہ ماننا لازم آئے گا کہ اب تک (یا کسی خاص وقت تک) لامتناہی زمانہ گزر چکا ہے اور جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس خاص وقت تک علل و معلول کے تعلق پر مبنی واقعات گزر چکے۔ تاہم ایسی لامتناہی سیریز کا وجود ممکن نہیں کیونکہ لامتناہی کا مطلب ہی وہ شے ہے جس کا گزر چکنا ممکن نہ ہو
    • پس ماننا ہوگا کہ کائنات کی ابتدا ہے ، ورنہ کائنات موجود نہیں ہوسکتی
  • دوسری جانب عقل یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ کائنات حادث نہیں بلکہ قدیم ہو
    • کیونکہ اگر کائنات زمانے کے کسی خاص لمحے میں وجود میں آئی، تو اس سے قبل ایسا خالی زمانہ (void time) ماننا ضروری ہوگا جب کائنات موجود نہ تھی
    • اس لئے کہ کسی شے کی ابتدا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے قبل زمانے میں وہ شے موجود نہ تھی (“a beginning is an existence which is preceded by a time in which the thing did not exist.”)
    • لیکن ایسے “خالی زمانے ” میں کسی شے کا وجود میں آنا ممکن نہیں کیونکہ یہ زمانہ ان شرائط سے خالی ہے جو نہ ہونے  کے مقابلے میں ہونے کے لئے ترجیح  بن کر علت بن سکے (“no part of such time contains a distinctive condition of being in preference to that of nonbeing.”)
    • معلوم ہوا کہ کائنات کا کوئی آغاز نہیں

چونکہ ان دو متضاد مواقف  کا بیک وقت درست و غلط ہونا دونوں لازم آرہا ہے، یہ انٹینامی ہے۔  یہ نتیجہ اس لئے برآمد ہوا کیونکہ “عقل نظری ” (Theoretical reason) نے اپنی جائز حدود پھلانگنے کی کوشش کی ہے۔کانٹ اس نوع کی چند دیگر انٹینامیز بھی پیش کرتا ہے۔

تاہم کانٹ کا یہ اعتراض وزنی نہیں۔ اس اعتراض کے پس پشت دو مفروضے کار فرما ہیں: (1) حدوث عالم سے قبل کسی نہ کسی معنی میں زمانہ موجود تھا، (2) علل و معلول کا تصور زمانے میں پائی جانے والی شرائط کا محتاج ہے ۔ یہ دونوں مفروضات غلط ہیں۔ “تھافۃ الفلاسفۃ ” باب  اول میں قدم عالم کی بحث میں عالم کو قدیم کہنے والوں کی جانب سے امام غزالی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے کہ عالم حادث (یعنی اس کا آغاز ) ہے تو اس سے تضاد لازم آئے گا، اس لئے کہ اس حدوث عالم کے خاص لمحے سے قبل لامتناہی زمانہ گزرنا لازم آتا ہے  ، ایسا لامتناہی زمانہ جو اس خاص لمحے پر مکمل ہوگیا۔ تاہم یہ لامتناہی کے تصور کے خلاف ہے، لہذا ماننا پڑے گا کہ عالم قدیم ہے ، بصورت دیگر “لامتناہی کے گزر چکنے” کو ماننے کا تضاد لازم آئے گا۔ امام غزالی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدوث عالم سے قبل زمانے کا وجود نہیں تھا، بلکہ زمانہ عالم کے ساتھ ہی حادث ہوا ہے ۔ پس چونکہ عالم سے قبل زمانے کا کوئی وجود نہیں، لہذا حدوث عالم سے قبل زمانے کے وجود کے مفروضے پر اعتراض کرنا درست نہیں ( یاد رہے کہ عالم سے مراد ماسواء اللہ سب کچھ ہے)۔

اس مقام پر امام غزالی کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ “حدوث سے قبل” جیسی ترکیب زمانے پر دلالت کرتی معلوم ہورہی ہے، لہذا وہ واضح کرتے ہیں کہ ہماری مراد صرف یہ ہے کہ “خدا تھا اور عالم نہ تھا، پھر عالم خدا کے ساتھ موجود ہے”۔  اس قضیے کی درستگی کے لئے “زمانے” یا اس جیسے کسی تیسرے تصور کا وجود فرض کرنا لازم نہیں، اگرچہ بات یونہی ہے کہ انسانی ذہن  کی وہ فیکلٹی جسے “وھم” کہتے ہیں وہ جب “کسی شے کے آغاز ” کا تصور قائم کرتی ہے تو ساتھ ہی “اس سے قبل” کسی شے کا تصور بھی قائم کرلیتی ہے، مگر “عقل” یہ بات جانتی ہے کہ وھم کا یہ حکم لگانا درست نہیں۔ مدمقابل کو یہ  بات  سمجھانے کے لئے امام غزالی “مکان” کی مثال دیتے ہیں۔ فلاسفہ کا ماننا تھا کہ عالم متناہی (finite)ہے۔  آپ کہتے ہیں کہ اس “متناہی ” کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا سرا ہے جس سے پرے عدم کے سواء کچھ نہیں، تاہم وھم جب اس آخری سرے کو سوچتا ہے تو ساتھ ہی ا س سے پرے خلا وغیرہ کا کوئی تصور بھی قائم کرلیتا ہے، لیکن عقل وھم کو بتاتی ہے کہ تمہارا یہ حکم غلط ہے، اگرچہ تم اس کی کیفیت نہ سمجھ سکو تاہم تمہارا دائر کردہ یہ حکم غلط ہے۔ امام غزالی نے اس نکتے پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور ناقد کی جانب سے متعدد جہات سے اعتراض وارد کرکے بات کو واضح کیا ہے۔ پس “حدوث عالم سے قبل زمانے” کا مفروضہ ہی غلط ہے،جب یہ مفروضہ ہی غلط ہے تو انٹینامی میں جو اعتراض وارد کیا گیاہےوہ بھی غلط ہوگیا۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زمان و مکان کا تصور ختم ہوتے ہی لازما “عدم”  ماننا لازم آئے گا تو ایسا نہیں ہے کیونکہ حدوث عالم کی دلیل میں عقل یہ صریح حکم لگاتی ہے کہ عالم (نیز زمان و مکان) سے قبل عدم محض نہیں ہوسکتا بلکہ عقل قطعی طور پر ایک ایسے وجود کی تصدیق کا حکم لاگو کرتی ہے جو عالم سے ماورا ہو، اگرچہ اس کی کیفیت اس کی گرفت سے باہر ہو، اور وہ وجود “عدم محض ” نہیں ہوسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض و سوال بھی کوئی نیا نہیں کہ “کیا عقل زمان و مکان اور وضع سے ماورا ذھن سے خارج کسی وجود کی تصدیق کرسکتی ہے؟”، امام رازی نے اس سوال کو لیا ہے (آپ کے الفاظ یوں ہیں: هل یوجد فی الاعیان وجود مجرد عن الوضع و الحیز؟”)۔ یہ سوال دراصل اس گروہ مجسمہ کی جانب سے اٹھایا جاتا تھا جو اللہ کے لئے جہت کا اقرار کرتے تھے۔ یعنی یہ سوال ایک حد تک گروہ مجسمہ کے نقد سے ماخوذ ہے، اس میں بھی کوئی نیا پن نہیں۔

رہا یہ مفروضہ کہ علل و معلول زمانے میں کارفرما تصورات ہیں، یہ اعتراض اکواناس کی دلیل کونیات پر بھلے سے وارد ہوتا ہو تاہم متکلمین کی دلیل حدوث پر وارد نہیں ہوتا۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ علت کے تصور کے تحت انسانی عقل صرف اسی وجود کی تصدیق کرسکتی ہے جو زمان و مکان میں ہو، تو ہم کہیں گے کہ یہ تحکم ہے ، لہذا ہم مدعی سے پوچھیں گے کہ پہلے اپنا تصور علت واضح کیجئے اور پھر دعوے پر دلیل دیجئے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں