خبروں کے مطابق کراچی یونیورسٹی اپنے ملازمین کو اس ماہ بروقت تنخواہیں ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی حال بعض دیگر بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا بھی ہو چکا ہے۔ جو یونیورسٹیاں اس تک تنخواہیں ادا کر رہی ہیں وہ بھی تیزی سے اسی صورتحال کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ایچ ای سی اور متعلقہ حکومتی اداروں کے مطابق فنڈز کی فراہمی میں شدید قسم کے کٹ لگائے گئے ہیں اور جو بھی رقم دستیاب ہے وہ مخصوص فارمولہ کے تحت جامعات کو دی جا رہی ہے۔
ملک کی معیشت ویسے بھی خرابی کا شکار ہے اور اسحاق ڈار صاحب جس اعتماد کے ساتھ معیشت کو سنبھالنے آئے تھے’ وہ اب ہر انٹرویو کے ساتھ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ ملکی بینکوں نے ایل سی کھولنے سے انکار شروع کر دیا ہے اور افراط زر بھی بڑھ رہا ہے۔ برآمدات کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے وہ لوکل بزنس اور مینوفیکچرنگ بھی بند پڑی ہے جس کا خام مال وغیرہ باہر سے آتے تھے۔ اس سے جہاں ڈیفالٹ اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں پر بہت سے روز مرہ کی استعمال کی چیزیں بھی نایاب پڑ رہی ہیں۔ انتہائی سستا اور عام کوالٹی کا کاغذ بازار میں دستیاب نہیں ہے یا پھر اس کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ خریدار کی سکت ہی جواب دے رہی ہے۔ اس سے یہ بات بھی مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ جب تک ملک بنیادی خام مال بنانے کی استعداد نہیں رکھتا اس وقت اس کی انڈسٹری محض ایک واہمہ اور دھوکہ ہے۔ پیکیجنگ اور باہر کے خام مال کو پراسس کر کے کسی پراڈکٹ میں ڈھالنا کسی نوزائیدہ معیشت کے لئے تو کمال کی بات ہوسکتا ہے مگر ایک ایٹمی قوت کے لئے باعث شرم ہے۔ یہ ہماری حکومتوں’ انڈسٹری اور سائنس و ٹیکنالوجی کے جملہ اداروں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ قومیں اسی طرح اپنی خودمختاری و آزادی کو پامال کرتی ہیں۔
اس تناظر میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کو آگے چل کر مزید کرائسس کا سامنا کرنا پڑے گا کہ حکومتی فنڈز محدود ہیں اور بڑی یونیورسٹیوں کی آمدن سکڑ رہی ہے۔ اخراجات کنٹرول کرنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں اختیار کیا جاتا کہ بقایا جات کی ادائیگی کو وقتی طور پر معطل کر دیا جائے۔ ظاہر ہے یہ کوئی حل نہیں ہے۔ اسلام آباد کی تین بڑی یونیورسٹیوں کے ریکٹر و وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لئے حکومت نے جو کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے وہ آنے والے دنوں میں انٹرویوز کرے گی۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ کسی بھی بڑی و پرانی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگنا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ یونیورسٹیوں میں سنجیدہ نوعیت کا فنانشل کرائسس ہے اور جو بھی ان اداروں کا سربراہ مقرر ہو گا اسے سالانہ کئی ملین روپوں کے خسارے کا سامنا ہوگا۔ اس خسارے کے ساتھ مطالبات و مالی واجبات کی ادائیگی کے دباؤ کا سامنا بھی نئے تعینات ہونے والے سربراہان کو کرنا پڑے گا۔
یونیورسٹیوں کے موجودہ اسٹریکچر’ گورننس سسٹم اور پالیسیوں کے ساتھ انہیں پائیدار اور مالیاتی طور پر مستحکم اداروں کے طور چلانا ممکن نہیں رہا۔ اس وقت تو مالیاتی بحران ہے مگر ان اداروں کو اگر قارون کا خزانہ بھی دے دیا جائے تو کچھ عرصے بعد یہ ادارے پھر اسی کرائسس کے دہانے پر آن کھڑے ہوں گے۔ اس کی مثال سرکولر ڈیبٹ کی سی ہے کہ حکومت ہر بار کچھ نہ کچھ رقم مہیا کرتی ہے مگر کچھ عرصے بعد یہ ڈیبٹ دوبارہ عفریت کی طرح سر اٹھا لیتا ہے۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے بارے میں ہمارے پالیسی ساز اور ریگولیٹری اداروں کی خواہش یہ ہے کہ انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ وسائل کی فراہمی اور ایفی شنسی میں مقابلہ کرنا چاہیئے۔ مگر اس کام کے لئے جو قوانین و قواعد ان اداروں کے سر پر مسلط ہیں اور جس قسم کی مائیکرو منیجمنٹ سے یہ ادارے گزرتے ہیں اس کا نتیجہ یہی ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ان اداروں میں پینشن فنڈز’ ٹرانسپورٹ’ ہیلتھ و ہاسٹلز کے اخراجات سمیت انتظامی اخراجات کے بارے میں جب تک کھل کر بات نہیں کی جاتی اور اس سلسلے میں ریفارمز کر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے آگے بڑھنے کا پلان نہیں بنایا جاتا تو انجام مکمل تباہی ہے۔
حکومت کو اس بارے میں ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دے کر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے عرصے میں اس ریفارم پراسس کے خدوخال واضح کرنے چاہئیں۔ سب ہی کو ان مسائل کا ادراک ہے مگر کوئی بھی ان کے سنجیدہ حل کی طرف جانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس کمیشن میں ان خواتین و حضرات کو شامل کرنے سے گریز کرنا ہوگا جو یونیورسٹیوں کو اس حال تک پہنچانے میں کسی نہ کسی شکل میں شامل رہے ہیں۔ یہ کمیشن یونیورسٹیوں میں مالیاتی و انتظامی نوعیت کے جتنے بھی ریفارمز کی ضرورت ہے ان کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں جن پالیسیوں و قونین میں ترامیم درکار ہیں انہیں سامنے لائے۔ یاد رہے کہ یونیورسٹیوں کے اکیڈیمک معاملات کو یہ کمیشن اس اسٹیج پر بالکل نہ چھیڑے۔
کمنت کیجے