Home » قاضی ضیاء الدین سنامیؒ اور اُن کا عہد -3
احوال وآثار تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار

قاضی ضیاء الدین سنامیؒ اور اُن کا عہد -3

  مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ

تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داوڑ

 

سنام  کی علمی حیثیت:

ظاہر ہے کہ جو شہر اقلیم کی حیثیت رکھتا ہے ، جہاں امراء اور سرکاری ملازمین  بودوباش رکھتے ہیں، جہاں کے باشندوں کا سیاسی شعور اس قدر بالغ ہے کہ وہ سرکار کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، اُس کا علمی مقام کا بھی یہی تناسب ہو گا۔  اِس شہر کے باسیوں میں صرف  تاجر، مزارع  اور مزدور نہیں ہیں بلکہ سرکاری ملازم، بڑے زمیندار، اُونچے درجے کے کاروباری، علمائےکرام،  دانشور اور مشائخِ طریقت بھی ہیں اور شہری زندگی کے مطابق اُس میں مساجد بھی ہیں اور مدارس بھی ہیں، عدالتیں بھی ہیں ۔ اِن مساجد میں ائمہ اور مدارس میں اساتذہ، عدالتوں میں قاضی بھی ہیں اور اُس کے ساتھ اُس میں دانشور اور شعراء  بھی ہیں۔ آئیے ذرا سنام کی علمی حیثیت کا تاریخ میں کھوج لگائیں۔

سنام  میں مشائخ:

اس شہر  میں کافی مشائخِ طریقت تھے۔ سیر الاقطاب[1]

، سیر العارفین [2]اور سیر الاولیاء[3] کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ شہر مشائخِ طریقت سے مالا مال ہے۔، ان میں سے شیخ     وجیہ الدین ہیں۔

شیخ وجیہ الدین سنامی:

پورا نام شیخ المشائخ وجیہ الدین عثمان سیاح سُنامی ہے۔ شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اخبار الاخیا ر[4] میں  اور حامد بن فضل اللہ نے سیر العارفین میں اُن کا بھرپور چہر ہ لکھا ہے۔ قاضی وجیہ الدین حضرت شیخ رکن الدین عنانی سے بیعت تھے۔ ابتدائی زمانے میں بڑے پریشان حال تھے۔ جب وہ شہرِ سنام سے دہلی آئے تو ایک  روزہ وہ کیلوکہری سے گزر رہے تھے۔ وہاں انہوں نے شیخ رکن الدین کو دیکھا کہ وہ دریا ئے جمنا کے کنارے نماز پڑھ رہے  ہیں۔ جب اُن کی نظر اُن کے چہرے پر پڑی تو دوڑے اور اپنا  آپ  اُن کے قدموں پر رکھ  دیا اور حضرت کے مرید ہو گئے۔ وہ شیخ وجیہ الدین کو اپنے ہمراہ ملتان لائے ۔ وہ دو سال تک شیخ رکن الدین کے پاس رہے۔ اُنہوں نے  اُسی زماے میں قرآن حفظ کیا اور شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردیؒ کی کتاب عوارف المعارف شیخ رکن الدین سے پڑھی اور وہاں سے اجازت لے کر مکہ معظمہ چلے گئے ۔  حضرت شیخ نصیر الدین ( محمود چراغ دہلی)  سے منقول ہے کہ انہوں نے شیخ عثمان کو دیکھا تھا جس روز وہ مرید ہوئے تھے،اُسی دن ترک ِ دنیا کر دی تھی۔ ایک لُنگی کے سوا جس سے وہ ستر پوشی کرتے تھے کوئی کپڑا اُن کے جسم پر نہ تھا۔ یہاں تک کہ  سر سے پگڑی بھی اتار دی تھی، اِسی طرح شیخ رکن الدین کے پاس رہتے تھے۔ ایک روز شیخ سے اجازت لے کر اُسی تہبند کے  ساتھ روانہ ہو گئے۔  سیاحی کرتے تھے مکہ معظمہ  پہنچ گئے۔ حج کیا اور وہاں سے مدینہ منورہ گئے، زیارت سے مشرف ہوئے۔ مدینہ میں ہی قیام کیا، پھر زمانہ ٔ  حج میں بیت اللہ آئے۔  دوپہر کے وقت طواف کر رہے تھے، سخت گرمی تھی، شیخ عثمان نے دیکھا کہ حضرت خضر اپنی آستین سے اُن پر سایہ کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے فورا طواف چھوڑ دیا اور وہاں سے روانہ ہو گئے اور راستہ میں انبیاء  کےمزارات کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ سات سال کے بعد اُسی طرح پا پیادہ ملتان پہنچے اور اپنے گرد آلود چہرے کو اُسی لباس میں اپنے شیخ رکن الدین کے قدموں میں رکھ دیا۔ حضرت شیخ اُن سے بغل گیر ہوئے اور اُن کو چوما اور فرمایا: اُس روز طواف میں خواجہ خضر نے اپنے آستین کا سایہ تمہارے سر پر  کیا تھا۔ تم نے بہت اچھا کیا کہ جلدی آ گئے ورنہ مخلوق میں فتنہ پیدا ہو جاتا۔ حضرت شیخ رکن الدین نے اُسی وقت اپنا لباس پہنایا اور اپنے سر سے پگڑی اتار کر ان کے سر پر رکھ دی۔ چند روز کے بعد دہلی جانے کی اجازت دی اور  کہا کہ جاؤ حضرت شیخ نظام الدینؒ وہاں ہیں، تم بھی دہلی میں رہو۔ زیادہ تر شیخ نظام الدینؒ کی خدمت میں رہنا۔شیخ سے ملاقات کرو تو میرا سلام پہنچانا اور وہ جس جگہ فرمائیں وہاں رہنا۔ شیخ وجیہ الدین نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ دہلی پہنچے تو اول شیخ نظام الدینؒ سے ملے اور حضرت شیخ رکن الدین کا سلام پہنچایا۔ شیخ المشائخؒ اُٹھے اور جواب میں وعلیکم السلام کہا اور شیخ عثمان سیاح سے اِس قدر اظہارِ محبت کیا کہ بیان نہیں ہو سکتا[5]۔

شیخ عثمان سیاح سُنامی کی وفات 738ھ میں ہوئی، جب کہ اُن کے شیخ رکن الدین  کی وفات 735ھ میں ہوئی تھی۔ شیخ رکن الدین کے حالات کے لئے دیکھو سیر العارفین [6]، اخبار الاخیار[7]۔ یہ شیخ بہاء الدین زکریا کے پوتے ہیں،  اپنے زمانے کے مشہور بزرگ تھے۔ میں ملتان گیا تو دونوں بزرگوں کی زیارت کی۔ شیخ بہاء الدین کا چہرہ تو اب تک مجھے یاد ہے۔ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ: “دریائے سندھ کے قرب و جوار میں رہنے والے سب لوگ شیخ رکن الدینؒ کےآستانۂ  مبارک سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں اور ہندوستان کے بہت سے علماء اُن کے مرید ہو گئے تھے”[8]۔

مولانا جمالی نے لکھا ہے کہ شیخ رکن الدینؒ دو مرتبہ علاؤالدین کے زمانے میں دہلی تشریف لائے۔ ہر بار بادشاہ نے آتے وقت دولاکھ اور واپسی پر پانچ لاکھ تنکے دیئے۔ شیخ رکن الدینؒ نے یہ ساری رقم فقراء میں تقسیم کر دی۔[9] لیکن جناب خلیق احمد نظامی کو اس کے ماننےمیں  تامل ہے، وہ فرماتے ہیں: “علاؤ الدین کسی طقبہ یا فرد کو مال دار نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اِسی بنا پر اُس نے اپنے عہد کے کسی عالم یا بزرگ کو نہ جاگیر دی ۔ جمالی سہروردی سلسلے سے منسلک ہے،  اُس نے اِس تعلق کی بنا پر غالبا اِس روایت کی تحقیق نہیں فرمائی”۔[10]

بہرحال مجھے بتانا یہ ہے کہ سُنام شہر کو شیخ عثمان جیسے بزرگوں کی جنم بھومی  ہونے کا شرف حاصل ہے۔

حضرت شیخ نظام سنامی:

سیر الاقطاب [11]میں سُنام کے ایک اور شیخ ِطریقت جناب شیخ نظام سنامی کا  بھی ذکر کیا ہے۔ شیخ نظام سُنامی بہت بڑے عالم فاضل اور حضرت قطبِ ربانی کے خلفائے کبار میں سے تھے۔قریب تیس برس تک اپنے پیر دستگیر کی خدمت میں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول  رہے۔ پھر خلافت و اجازت سے سرفراز ہو کر سُنام رخصت ہوئے اور کچھ دنوں کے بعد وہیں واصل ِبحق ہو گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بعد وصال  ایک عرصہ  آپ کے مزار پر ایک شعلہ چراغ کی طرح روشن رہا۔ ایک بار حضرت قطب ربانی شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاء  پانی پتی وہاں تشریف لائے۔ اُسی روشنی کو دیکھ کر فرمایا: “اے شیخ نظام تم خدا رسیدہ اور بزرگ ہو ۔ تمہاری بزرگی اور کمال میں کوئی شک نہیں لیکن یہ نور جو تمہاری  قبر کے اوپر روشن ہے بہتر ہوتا  کہ اگر یہ تمہاری قبر کے اندر ہوتا اور لوگوں کی نظروں سےپوشیدہ ہوتا تا کہ بے ادبی کا امکان نہ رہتا کیونکہ اگر اِس کا برابر روشن ہونا صحیح  ہوتا تو پھر یہ حضرت رسالت پاہ ؤﷺ کے روضۂ  اقدس پر منور ہوتا ۔ اتنا کہتے ہی وہ نور قبر میں چلا گیا اور نظروں سےاوجھل ہو گیا۔ [12]

صرف مشائخ ہی نہیں بلکہ اہل علم اور فقہاء کے اعتبار سے بھی سنام کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ یہاں بڑے بڑے نامی گرامی اہلِ علم ہوئے ہیں ۔ اُن  ہی علماء میں مولانا رکن الدین ہیں۔

مولانا رکن الدین سنامی:

مولانا عبد الحی نے اُن کا چہرہ اِس طرح لکھا ہے:

شیخ فاضل کبیر رکن الدین حنفی سنامی۔ فقہ ، اصولِ فقہ اور عربی ادب  کے ماہرین میں سے ہیں۔ علاؤ الدین  کے زمانے میں درس و تدریس میں لگے رہے۔ [13]

ضیاء الدین برنی نے ہی علاءؤالدین کے دور کے علماء میں خصوصیت کے ساتھ جن کا ذکر کیا ہے اُن میں مولانا رکن الدین سنامی بھی ہیں[14]۔

مولانا نجم الدین سنامی:

سنام  کے علماء  میں مولانا نجم الدین سنامی بھی ہیں۔ فوائد الفواد[15] میں خواجہ حسن نے اورسیر العارفین میں جمالی نے مولانا نجم الدین کا ذکر کیا ہے۔ مولاناصدر الدین قونوی کہتے ہیں کہ میں ایک بار مولانا نجم الدین کے پاس تھا۔ مولانا موصف نے میرے سے پوچھا کہ آج کل کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ تفسیر ِقرآن کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ فرمایا کون سی تفسیر پڑھ رہے ہو؟ میں نے  بتایا کہ کشاف، ایجاز[16] او ر عمدہ [17]زیر مطالعہ ہیں۔ مولانا نجم الدین نے فرمایا کہ کشاف اور ایجاز دونوں کو جلا دو۔ صرف عمدہ دیکھا کرو۔ میں نے  دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں فرماتے ہیں؟ بتایا کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریاؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ اُن کی یہ بات مجھے پسند نہ آئی۔ جب رات ہوئی تو میں نےاِن تینوں کتابوں کے مطالعہ میں لگا ہوا تھا۔ کشاف اور ایجاز دونوں نیچے تھیں اور عمدہ اُن کے اوپر۔ مطالعہ کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی۔ آگ بھڑکی، میری آنکھ کھل گئی۔  میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کشاف اور ایجاز دونوں جل گئیں اور عمدہ بچ گئی[18]۔ اس سے ایک طرف یہ معلوم ہوا کہ مولانا نجم الدین کی علمی بصیرت کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ وہ صرف فنی عالم نہ تھے کہ فن کاری کی خاطر علم حاصل کرتے ہوں بلکہ اُن کے علم میں اخلاص اور دینداری کی روح تھی۔ دوسری طرف اُن کا صاحبِ باطن ہونا بھی معلوم ہو گیا۔ دونوں کتابوں کے جل جانے کو آپ چاہیں تو اتفاقی حادثہ کہہ دیں مگر میں تو  اُسے مولانا نجم الدین کا تصرف ہی کہوں گا۔

اِن کےعلاوہ فوائد الفواد میں شیخ المشائخ نے سنام کے دوسرے علماء کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثلا مولانا عماد الدین سنامی اور مولانا دولت  یار سنامی۔ آخر الذکر کے بارے میں لکھا ہے:

سنام کے دانشمند جن کا اسمِ گرامی مولانا دولت یار تھا، قرآن  اس قدر بہترین پڑھتے تھے کہ اب کوئی نہیں پڑھ سکتا[19]۔

یہاں سنام کے علماء کا استیعاب مقصود نہیں۔ صرف یہ بتانا ہے کہ سنام کی شہری زندگی اہل علم سے مالا مال تھی۔

دانشور اور شعرائے سنام میں:

سنام شہر صرف مشائخ اور علماء کا  مرکز نہ تھا بلکہ اُس کی شہری زندگی دانشوروں اور شاعروں سے بھی مالا مال تھی۔ اُس دور کی تاریخ میں دو نامی گرامی شاعروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ایک  شمس دبیر سنامی اور دوسرےعمید سنامی۔

شمس دبیر سنامی:

پورا نام شمس الدین،  دہلی کے مملوک سلاطین سے وابستہ  ہوئے تو  دبیر (سیکرٹری) کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اُسی سے اُن کے نام کا لاحقہ دبیر ہو گیا۔ تذکروں، تاریخوں  اور خواجگانِ چشت میں اُن کا ذکر عام طور پر شمس دبیرہی کے نام سے ہے۔ سنام وطن  ہے۔ تاریخ فرشتہ میں ہے:

“شمس الدین نام شاعرے کہ سان قصبہ سنام بود”[20]۔

شمس دبیر کی ابتدائی تعلیم کا ماحول معلوم نہ ہو سکا، لیکن اُن کی علمی استعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر قسم کے علوم کی تعلیم پائی تھی۔ مولانا عبد الحی نے اُن کو علماء میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے:

“الشيخ الفاضل شمس الدين السنامي الدبير كان من العلماٗ المبرزين في الإنشاء و قرض الشعر”۔[21]

بلکہ ملا عبد القادر بدایونی نے اُن کو ملک العلامی کے درجہ کا عالم قرار دیا ہے۔

اس جماعت میں جس  نے عہد ناصری میں شاعری کا ڈنکا بجایا اور ملک العلامی  کے درجہ  کو  پہنچا ایک شاعر شمس الدین دبیر تھا جس کے فضائل و کمالات حدِ بیان اور تعریف سے مستغنی ہیں[22]۔

صاحب نزہۃ الخواطر مولانا عبد الحی[23] فرماتے ہیں کہ مولانا شمس  دبیر نے  ‘ لوائح’ قاضی حمید الدین [24] ناگوری سے پڑھی تھی لیکن فوائد الفواد کی ایک روایت سےمعلوم ہوتا ہے کہ قاضی حمید ناگوری کی لوائح مولانا شمس دبیر نے فرید الدین شکر گنج ؒسے پڑھی۔ “شمس لوائح قاضی حمید بخدمت شیخ  کبیر خواندہ بود[25]“۔

اس لحاظ سے بابا فرید[26] شکر گنجؒ                اُن کے استاد تھے۔ مولانا عبد الحی نےپورے وثوق سے لکھا ہے کہ بابا فریدؒ سے بیعت کی اور بات یہی درست ہے۔ کیونکہ بابا صاحبؒ کے مجموعہ ٔ  ملفوظات راحۃ القلوب [27]میں اُن کی مجلس کی شرکاء میں مولانا شمس  سنامی کا بھی کئی بار ذکر آیا ہے۔ 27 شعبان 655ھ میں اِن الفاظ کا ذکرآیا ہے:

“شیخ بدر الدین غزنوی نے عرض کی کہ اہلِ سماع میں بے ہوشی کہا ں سے آتی۔ شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اُس روز سے جب انہوں نے ((ألست بربكم)) [28] کی ندا سنی اور بے ہوش ہو گئے وہ بے ہوشی اُن  میں اب تک سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس لئے جب بھی یہ سماع سنتے ہیں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ اُس وقت شمس دبیر نے زمین کی طرف رخ کر کے کہا کہ اُس روز جب ألست بربكم  کی ندا آئی سب روحیں ایک تھیں ، فرمایا       ہاں”۔[29]

شیخ الاسلام فریدالحقؒ کی شان میں اُنہوں نے ایک طویل قصیدہ لکھا اور اُن سے اجازت لے کر اُن کو سنایا۔ اس کے بعد شیخ الاسلام فرید الحق گنج شکرؒ  نے فرمایا کہ صلہ کیا  چاہتے ہو؟ شمس دبیر نے کہا کہ بوڑھی ماں ہے اور تنگی ٔ معاش ہے ، فرمایا جاؤ شکرانہ لے آو۔ مولانا شمس دبیر نے پچا س جیتل[30]   لا کر پیش کئے۔ بابا صاحبؒ نے اپنے دستِ مبارک سے سارے پیسے  حاضرین میں تقسیم کر دیئے۔ اُن میں سے چار شیخ نظام الدین بلخیؒ کو دیئے۔ پھر بابا صاحب نے دعا کی۔ اس کے بعد مالی پریشانی  جاتی رہی۔ یہ روایت فوائد الفواد، سیر العارفین[31] اور تاریخ فرشتہ کی ہے لیکن راحۃ القلوب میں  ہے کہ شیخ الاسلام کی دعاؤں  کے چند روز بعد مولانا شمس الدین،  غیاث الدین بلبن کے دبیر ہو گئے۔ فوائد الفواد اور سیر العارفین میں  ہے کہ غیاث الدین کے لڑکے کے دبیر ہوئے۔ تاریخ فرشتہ میں ہے کہ شمس الدین  التمش کے لڑکے کے وزیر ہوئے۔ لیکن درحقیقت مولانا  شمس الدین دبیر جیسا کہ فوائد الفواد  میں ہے  حضرت بابا صاحب کی دعا سے سلطان  غیاث الدین کے لڑکے کے دبیر ہوئے [32]۔ اِس کی تصدیق امیر خسرو[33] کے دیوان غرۃ الکمال سے بھی ہوتی ہے۔ مگر اِس دنیوی اعزاز کے باوجود مولانا شمس دبیر نے شیخ الاسلام کے دربار  کی حاضری نہ چھوڑی۔  کبھی کبھی اجودھن شیخ المشائخ نظام الدینؒ کے ساتھ ہی جانا ہوتا ۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں :

“میں اور شمس دبیر ، شیخ جلال الدین ہانسوی ایک ہی وقت میں شیخ کے بیان سے  واپس ہوئے۔ چند منزل ہم لوگ ساتھ چلے۔ پھر ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سے روانہ ہوتے ہی مولانا شمس  دبیر نے سنام کی راہ لی۔ او ر ہم لوگ سرستی کی طرف روانہ ہوئے۔ جب ہم اُن سے جدا ہوئے تو شیخ جلال نے اُن کی طرف منہ کر کے یہ مصرعہ پڑھا:

“اے یارِ قدیم راست مے روی” اس وقت اس  مصرعہ نے عجیب کیفیت پیدا کر دی”۔ [34]

سیر الاولیاء میں میر خورد نے ایک اور واقعہ لکھا ہے، وہ بھی پڑھ لیجئے۔ سلطان المشائخؒ                   فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا  کہ میں اور شیخ جمال  الدین  ہانسوی اور خواجہ شمس الدین دبیر اور بعض دوسرے مرید اور عزیز شیخ الشیوخؒ سے مل کر اکٹھے رخصت ہوئے۔ رخصت کے وقت شیخ جمال  الدین نے  شیخ شیوخ العالم سے درخواست کی کہ انہیں کوئی وصیت فرمائیں۔ پیری مریدی کے آداب میں یہ ہے کہ جب سفر کے لئے شیخ سے رخصت ہوتے ہیں تو اُن سے وصیت کی درخواست کرتے ہیں۔ شیخ جمال کی درخواست پر شیخ  شیوخ العالم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری وصیت  یہ ہے کہ  اِس سفر میں اِن کو خوش رکھو۔

مقصود توئی             دگر بہانہ است

چنانچہ شیخ جمال الدین اس حکم کے مطابق  مجھ پر مہربانی فرماتے تھے اور خواجہ شمس الدین دبیر جو معدنِ لطافت اور کانِ ظرافت تھے وہ  بھی میرے ساتھ نہایت لطف و مدارات سے پیش آتے تھے۔ [35]

ملا عبد القادر بدایونی  نے منتخب التواریخ میں اُن کا جو قصیدہ نقل کیا ہے وہی اُن کی کل کائنات ہے:

اين ہمه كار دلم از تو بناداني خام داده دوش مرا وعده مہماني خام

بختہ كردم ہمه شب جشم وندانستم كآن طمعى بود ازان كونہ كہ ميداني خام

(یہ)  23 اشعار پر مشتمل قصیدہ ہے[36]۔

سیر الاولیاء میں اُن کا ایک دلچسپ شعر محبتِ الہی کے موضوع پر ہے:

زہ نہ بستہ من  اشک مرا در دل گفت

خیز ناز ہے تو بروں رو کہ گذر یافتہ[37]

ان کی وفات 707 ہجری میں ہوئی ہے۔

عمید سنامی:

ملا عبد القادر بدایونی نے عمید سنامی کا خطاب  و نام  ایک جگہ پر تو ملک الکلام، فخر الملک، عمید تولکی اور دوسری جگہ ملک الملوک و الکلام امیر فخر الدین تولکی لکھا ہے[38]۔ تذکروں میں سے عرفات العاشقین میں خواجہ فخر الدولہ عمید الدین الدیلمی،  مجمع الفصحاء، فخر الملک، خواجہ عمید الدین تولکی،  گلِ رعنا میں عمید الدین تولکی سنامی۔ آتشکدہ میں فخرالدولہ عمید الدین اور مخزن  الغرائب میں مفخر الفضلا مرقوم ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمید الدین نام اور ملک الکلام، فخر الدین، فخر الدولۃ، مفخر الفضلا خطاب تھا۔ عرفات العاشقین میں  ہے کہ نام عمید الدین، لقب فخر الملک ہے۔ اور گلِ رعنا میں ہے کہ فخر الملک کا خطاب غیاث الدین بلبن کے لڑکے سلطان محمد نے دیا لیکن اس بات پر یقین کرنے میں اس  لئے تامل ہے کہ سلطان محمد اپنے باپ کی موجودگی میں کسی کو خطاب نہیں دے سکتا تھا۔ امیرخسرو اور حسن دہلوی کے ساتھ برسوں رہے لیکن اس نے ان دونوں ارباب ِکمال کو کسی خطاب سے سرفراز نہیں کیا۔

اُن کی وطنی نسبت تولکی، تونکی، بولکی، دیلمی اور سنامی لکھی گئی۔ لوبکی تو کتابت کی غلطی ہے۔ غالبا تولکی صحیح ہے جو شاید دیلم میں قصبہ ہے۔ اسی سے بعض تذکرہ نویسوں نے اُن کو دیلمی لکھا ہےلیکن مجمع الفصحاء میں ہے :

“فخر الملک خواجہ عمید الدین گویند نہ از دیلم رشتہ  است و از ہندوستان است   منشأ                  ش سنام بود”[39]۔

اُن گنجلک  بیانات کی بنیاد پر شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ شاعر کا آبائی وطن دیلم کا قصبہ تولک بنا لیکن اُس کے آباء و اجداد جب ہندوستان  آئے تو سنام میں سکونت پذیر ہوئے اور یہیں اس کی نشو ونما ہوئی۔ عرفات میں  ہے:

منشأ       ش سنام بود  لہذا گفتہ اند

تا ابد از وی گرفت سنام نام[40]

اُن کی تاریخِ ولادت 601 ہے۔ عرفات العاشقین کے مؤلف نے یہ تاریخ ولادت، 601 ،  عمید کے ایک شعر سے نکال کر بتائی ہے۔ شعر یہ ہے:

در سر نون و دال عمر از پس خا و  نون ھا

شکر کہ مرغ ہمتم  رستہ بہ جہد ا زین سرک[41]

یعنی 65ھ سے 54 کو گھٹا دیا جائے تو 601ھ ہوتا ہے۔ نون اور دال کے 54 ہوئے اور خ ن ہ کے 655۔ 54 حذف کرنے کے بعد 601ھ ہے۔

عمید بلبن کے زمانے میں مشرف (اکاؤنٹنٹ) کے عہدے پر مامور ہوئے۔عرفات  العاشقین میں ہے:  “معاصر سلطان محمد بلبن  ووی ملازمت آن  پادشاکردی  و در دیوانِ دولت او بہ ا شراف مفوض بودی”[42]۔

ریاض الشعراء میں ہے:  “در تواریخ مذکور است کہ در ہندوستان ملازمت سلطان محمد بلبن میکرد و اشراف دیوانش بوےمفوض بودہ”۔

منتخب التواریخ میں ملا عبد القادر بدایونی نے اُن کے نام کے ساتھ مستوفی  جمیع ممالک لکھا ہے اور اُن کا ذکر سلطان ناصر الدین محمود کے زمانے میں  کیا ہے۔ اِس سے خیال ہوتا ہے کہ عمید ناصر الدین کے زمانے میں مستوفی ہوں اور بلبن کے زمانے میں ترقی کر کے مشرف ہو گئے اور مستوفی کے عہد ے پر مولانا سنامی کے والد محمد عوض رہ گئے ہوں۔  یہ بات خود عمید سنامی نے ایک قصیدہ میں بتائی ہے۔ اس میں عمید نے بلبن کو مخاطب کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلبن کے زمانے میں مشرف  الممالک کے عہدے پر فائز تھا، لیکن فرائض کو ایمانداری سے سر انجام دینے کے نتیجے میں  کسی چشمک کا شکار ہوکر قید کردیا گیا۔ جیل میں تھا اور اسی حالت میں انہوں نے بلبن کو مخاطب کر کے  اپنا دکھ ایک قصیدے کے ذریعے بیان کیا ہے کہ اُس کے دور میں ایسا فاضل اور طوطی سخن جیل کی زندگی قیدی بن کر گزار رہا تھا۔

ہمدمانم ہر کئے در شغل   و من  در بند حبس

حاش لله زيں سخن تنها گنه من كرده ام

كار برعكس است ورنه خود كه روز بدكشد

شغل اشراقى كه من بروجه احسن كرده ام

آخر میں اس سلسلے میں کہ اُس نےا شعار میں توحید کے نغمے ہی گائے ہیں اللہ سبحانہ و عالی سے رحمتوں کا طلب گار ہوتا ہے:

یار ب از نخل کرم برگ و نوائے من  بده

مرغ جان را چوں بتوحيدت  نوازن كرده ام

یہ اُس قصیدے کے اشعار ہیں جو مولانا عبد الحی نے نزہۃ الخواطر میں ملا عبد القادر بدایونی کی منتخب التواریخ کے حوالہ  سے پورا قصیدہ نقل کر دیا ہے۔ مولانا سید صباح الدین عبد الرحمن نے عمید سنامی کی شاعری پر بھرپور کلام کیا ہے[43]۔

( جاری ہے)

حوالہ جات

[1]۔ سیر الاقطاب     از الہدایہ الچشتی العثمانی فاسی زبان میں   خواجگانِ مشائخِ چشت کا تذکرہ ہے ۔  جن اہم بزرگانِ دین  کے احوال اس میں درج ہیں  اُن میں  خواجہ فرید الدین شکر گنجؒ، خواجہ علاءؤالدینؒ  ، حضرت شمس الدین ترکؒ،  شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء ؒ،  شیخ احمد عبد الحق ردولویؒ، شیخ  نظام سنامیؒ، شیخ  عبد القدوس  گنگوہیؒ،  حضرت نظام الدین اولیاءؒ            شامل ہیں ۔  تذکرہ کے  ساتھ ساتھ یہ کتاب تصوف کے موضوع پر بھی ایک اہم دستاویز ہے۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ  بعنوان:   تذکرہ خواجگانِ چشت محمد معین‌الدین دردائی نے کیا اور اُسے 1972 میں نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا۔

[2] ۔ سیر العارفین حامد بن فضل  اللہ جمالی ( متوفی 942ھ) کی برِ صغیر پا   ک و ہند کے اجل مشائخِ            چشتیہ وسہر وردیہ پر مشتمل فارسی تصنیف ہے۔  ایوب قادری کے اُردو ترجمہ کو  مرکزی اُردو بورڈ لاہور نے1976ء میں شائع کیا۔

[3]۔ سیر الاولیاء  سید محمد مبارک علوی المعروف امیر خورد کرمانی کی  مشائخِ چشت کے  احوال پر مشتمل فارسی تصنیف ہے۔  مولانا اعجاز الحق قدوسی نے سب سے پہلے اس کا اُردو ترجمہ کیا ، پھر   غلام احمد بریاں نے اس کا ترجمہ کیا جسے  الکتاب لاہور نے 1978 ء میں شائع کیا۔

[4] ۔ اخبار الاخیار  شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ   ( متوفی 1052ھ)   کی فارسی  کتاب  جس میں انہوں نے  مشاہیر  مشائخ ،صلحا  ءاور   علماء کے حالات لکھے  ہیں جو ابتدائے اسلام سے لے کر دسویں صدی ہجری کے اختتام تک  بر صغیر میں ہو گزرے ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا سبحان محمود اور مولانا  محمد فاضل نے کیا اور جسے  اکبر بک سیلرز  لاہور نے 2004ء میں شائع کیا۔

[5] ۔ دیکھیئے  اخبار الاخیار از   شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ ، اردو ترجمہ مولانا سبحان محمود اور مولانا  محمد فاضل،   اکبر بک سیلرز  لاہور 2004 ءص: 285 ، اور   سیر العارفین از  حامد بن فضل  اللہ جمال، اُردو ترجمہ   ایوب قادری،   مرکزی اُردو بورڈ لاہور1976ء  صفحات : 119، 204 تا 208۔

[6] ۔  دیکھئے سیر العارفین ،  اردو ترجمہ   ایوب قادری،   مرکزی اُردو بورڈ لاہور1976ء  صفحات: 101، 119،  164، 171 تا 172 ، 201 تا 209، 228 تا 229 ۔

[7] ۔  دیکھئے اخبار الاخیار  ، اردو ترجمہ مولانا سبحان محمود اور مولانا  محمد فاضل،   اکبر بک سیلرز  لاہور 2004 ء  صفحات 148 تا 154۔

[8] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان،   سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ص: 341۔شیخ الاسلام رکن الدین ؒ کے  بارے میں برنی کی فراہم کردہ معلومات کے لئے دیکھئے صفحات: 249، 392، 479 ۔

[9] ۔ سیر العارفین،   ص: 201

[10] ۔ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، خلیق احمد نظامی، مطبوعہ الجمعیۃ پریس، دہلی، 1958 ص: 270  تا 271۔

[11] ۔ سير الاقطاب، الہدایہ الچشتی العثمانی، ناشر منشی نول کشور، لکھنو،  1906، ص: 225

[12] ۔ سیر الاقطاب،  اُردو ترجمہ   سید محمد علی جویا،  مطبوعاتِ منشی نول کشور، کانپور، 1906ء   ص:181

[13] ۔ نزهة الخواطر،عبد الحی لکھنوی،  مترجم  ابو یحی امام خان، مقبول اکیڈمی،  لاہور، 1965ء ج: 2، ص:159

[14]۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، ص: 241

[15]۔ فوائد الفواد  حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے ملفوظات اور  تعلیمات  پر مشتمل  فارسی کتاب جسے  خواجہ امیر حسن سنجری نے مرتب کیا ۔ اِس کا اُردو ترجمہ خواجہ حسن ثانی  نظامی نے کیا ہے  جسے  اُردو اکادمی دہلی نے 1990ء میں شائع کیا۔ مولانا نجم الدین سنامی کے تذکرے کے لئے دیکھئے  اس کتاب کا  ص: 187

[16]۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی( 560ھ تا 620ھ) کی تفسير إيجاز البيان في الترجمة عن القرآن

[17]۔ یعنی عمدۃ التفسیر از ابنِ کثیر

[18]۔ سیر العارفین،   ص:161-162

[19]۔ فوائد الفواد از  خواجہ امیر حسن سنجری ، مترجم خواجہ حسن ثانی  نظامی،  اُردو اکادمی دہلی ،1990ء  ص: 275

[20]۔ تاریخِ فرشتہ از  محمد قاسم فرشتہ،  مترجم محمد فدا علی،   مطبع جامعہ عثمانیہ، دکن، 1936ء جلد: 1، ص: 407

[21] ۔ نزهة الخواطر، عبد الحی لکھنوی، ج: 2، ص: 164

[22]۔ منتخب التواریخ از عبد القادر بدایونی، مترجم  احتشام الدین، منشی نول کشور، لکھنو،  ص: 36

[23]۔ نزهة الخواطر، عبد الحی لکھنوی ماحولہ بالا، ج: 2، ص: 164

[24] ۔  قاضی حمید الدین  ناگوری( متوفی 641ھ) شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ کے مرید اورحضرت خواجہ بختیار  کاکیؒ  سے محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ اُن کی کتاب’ لوائح’               کا ذکر سیر العارفین میں ملتا ہے۔   اُن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں  دیکھئے: سیر العارفین ،محولہ بالا، ص:  210تا 215

[25]۔ فوائد الفواد، محولہ بالا ص:625

[26] ۔ حضرت بابا فرید الدین گنجَ شکرؒ           کا اصل نام مسعود اور لقب فرید الدین تھا۔ آپ کی پیدائش 589ھ اور وفات 666ھ میں ہوئی۔ ساتویں صدی ہجری کے مسلمان مبلغان اور مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا مزار پاکپتن، پاکستان کے اندر ہے۔

[27] ۔   راحۃ  القلوب حضرت بابا فرید گنجِ شکرؒ کے ملفوظات  ہر مشتمل فارسی کتاب ہے جسے حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے مرتب کیا۔ اس کتاب کا  اردو ترجمہ ملا  محمد الواحدی نے ‘بزمِ فرید’ کے نام سے کیا اور پہلی بار  1912ء میں دفتر نظام المشائخ نے دہلی سے شائع کیا۔

[28] ۔   سورۃ الاعراف، آیت: 172

[29] ۔ راحۃ القلوب،  مترجم ملا محمد الواحدی، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، 1406ھ ص: 101۔

[30] ۔ اس زمانے میں رائج ایک طرح کا سکہ تھا۔

[31] ۔ دیکھئے: فوائد الفواد، محولہ بالا، ص:622-623، سیر العارفین، محولہ بالا، ص:   72

[32] ۔ فوائد الفواد، محولہ بالا، ص: 623

[33] ۔ یمین الدولہ امیر خسرو( 1253ء تا 1325ء)   فارسی اور اُردو کے شاعر تھے۔  اُنہوں نے ہر صنفِ شعر مثنوی، قصیدہ، غزال، اُردو دوہے، پہیلیاں اور گیت میں طبع آزمائی کی۔ بر صغیر کی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔اُردو               دوہوں کی وجہ سے  عوام میں بڑی شہرت ملی۔ وہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ  کے چہیتےمریدتھے ۔

[34] ۔ فوائد الفواد، محولہ بالا، ص:  625 ۔ فوائد الفواد  کا  جو  اُردو ترجمہ  میرے پیشِ نظر ہے اس میں یہ شعر یوں لکھا ہے:   “اے یارِ قدیم راست میرو” اور ترجمہ  بھی کیا ہے:  اے پرانے دوست سیدھے جاؤ۔

[35] ۔ سیر الاولیاء، امیر خورد کرمانی، اردو ترجمہ   مولانا اعجاز الحق قدوسی،  ناشر خواجہ حسن نظامی، ص:312

[36]۔ مکمل قصیدے کے لئے دیکھئے: منتخب التواریخ، محولہ بالا،  ص: 36

[37] ۔ سیر الاولیاء، ص: 193

[38] ۔دیکھئے منتخب التواریخ، محولہ بالا ص: 39، 42

[39]۔ مجمع الفصحاء، رضا قلی ھدایت،  امیر کبیر، تہران،  1382ھ،  جلد :2، ص: 1297

[40] ۔عرفات العاشقین،  تقی الدین اوحدی،  مرکز پژوهشی ميراث مکتوب، تهران،  1389ھ، جلد: 5، ص: 2705

[41] ۔ مرجع سابق

[42] ۔ مرجعَ سابق

[43]۔ بزم ملوکیہ، مولانا سید صباح الدین عبد الرحمن،  دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، 2099ء، ص: 175 تا 197

منتظمین

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • بہت عمدہ تحقیقی کام نہایت عرق ریزی سے کیا گیا ہے ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
    کچھ الفاظ مثلاً جنم بھونی کی جگہ جائے پیدائش لکھنا چاہیے تھا مگر ڈاکٹر صاحب بہتر جانتے ہیں