مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
مولانا ضیاء الدین سنامی کی پیدائش:
یہ تو کہانی ہوئی مولانا ضیاء الدین سنامی کے شہر کی جو مولانا موصوف کی جائے پیدائش ہے۔ مؤرخین میں سے کسی نے مولانا سنامی کی تاریخ پیدائش نہیں لکھی ہے۔ صرف مولانا محمد رضی عثمانی نے دار الاشاعت کراچی سے جو اخبار الاخیار شائع کی ہے اُس میں اُنہوں نے مولانا ضیاء الدین سنامی کی تاریخ پیدائش 641ھ لکھی ہے[1]۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیاث الدین بلبن کے زمانے میں قاضی ضیاء الدین اپنی عمر کی 23 بہاریں دیکھ چکے تھے کیونکہ غیاث الدین بلبن 664ھ برسرِاقتدار آیا ہے۔ قاضی صاحب نے صرف غیاث الدین کا نہیں بلکہ فخر الدین کیفباد،جلال الدین فیروز شاہ خلجی ، علاء الدین خلجی اور قطب الدین خلجی کا دور دیکھا ہے۔
مولانا سنامی کی تعلیم و تربیت:
اُن کی تعلیم و تربیت کے بارے میں اِس کےسوا کچھ معلوم نہیں کہ مولانا سنامی نے اپنی تعلیمی زندگی میں علامہ کمال الدین سنامی کے سامنے زانوئے ادب طے کیا ہے۔ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ کہ اُن کے والد محمد بن عوض استاد اور علمائے متبحرین میں سے تھے[2]۔ ظاہر ہے کہ جو شخص بلبن کے زمانے میں مستوفی کے عہدے پر کام کر رہا ہے وہ بلا شبہ بڑی قابلیت اور استعداد کا مالک ہے۔ طبقاتِ ناصری اس دور کی تاریخ ہے۔ قاضی عثمان منہاج الدین اس کے مصنف ہیں۔ اُن کی ولادت خود اُن کی تصریح کے مطابق 589 ھ ہے[3]ا ور اُن کی وفات مشہور ایرانی محقق سعیدنفیسی کے مطابق 658 ھ ہے۔ اُنہوں نے اپنی تاریخ میں 658 ھ تک کے تاریخی واقعات لکھے ہیں۔ مگر اِن واقعات کا تعلق زیادہ تر سیاسی اور فوجی حالات سے ہے۔ بدلتے ہوئے زمانے میں مؤرخین کا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا ۔ اب سیاسی اور فوجی حالات کے ساتھ لوگوں میں اُس دور کے اخلاقی،عمرانی، معاشرتی ، علمی اور اقتصادی حالت جاننے کی پیاس ہے۔ اِس حیثیت سے طبقاتِ ناصری میں بہت کمی ہے۔ فاضل مؤلف اپنے دور کے ایک جید عالم صاحب دل صوفی اور ممتاز شاعر بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ اُن کا اپنے معاصر علماء اور شعراء سے ضرور تعلق رہا ہو گا، مثلا مولانا کمال الدین سنامی، مولانا عمید مشرف سنامی، مولانا شمس الدین دبیر سنامی اور مولانا محمد بن عوض مستوفی سنامی ۔ یہ تینوں حضرات اونچے سرکاری عہدوں پررہے لیکن افسوس ہے کہ وہ اُن مشاہیر کا ذکر ہی نہیں کرتے ہیں۔ شاید اس کا سبب معاصرت ہو یا پھر فکری مسافتوں میں ہم آہنگی نہ ہونا اس کی وجہ ہو۔ اگر وہ انصاف پسندی کے ساتھ اپنے معاصرین کا تاریخ میں ذکر کرتے تو اُس دور کی علمی تاریخ بہت روشن ہوتی۔ مولانا سنامی کی تو عمر ہی 658 ھ میں 17 سال تھی۔ یہ اُن کی تعلیم و تربیت کا زمانہ تھا۔ قیاس یہی کہتا ہے کہ مولانا سنامی نے اپنی علمی طلب گاریوں کی تشنگی کا مداوا شہر سنام ہی میں مولانا کمال الدین سنامی کی صحبت میں کیا ہو گا۔ کم ا ز کم اُس دور کے درجۂ دانشمندی تک کی کتابیں اُن سے پڑھی ہوں گی۔ مولانا سنامی کے دادا سرکار میں مستوفی کے عہدے پر تھے اور اُن کا قیام دہلی میں تھا اور جن کے بارے میں خود ضیاءالدین برنی کا اعتراف ہے کہ وہ متبحر عالم اور استاد تھے۔اور شمس الدین دبیر تو مولانا سنامی کے ہم عمر ہیں لیکن عمید سنامی کی پیدائش 601 ھ ہے اور مولانا منہاج الدین کے ساتھ ناصر الدین محمود کے درباری شاعر ہیں۔ عمر میں مولانا سنامی سے 40 سال بڑے ہیں۔ اُن سےبھی مولانا سنامی کا علمی استفادہ قرینِ قیاس ہے۔ جب کہ عمید سنامی اور خواجہ محمد بن عوض دونوں ہم وطن بھی ہیں اور دونوں خواجہ بھی ہیں یعنی ہم نسب بھی ہیں اور پیچھے سے ایک ہی جگہ سے آئے ہیں یعنی دیلمی ہیں ۔ دونوں سرکاری ملازم بھی ہیں؛ مولانا سنامی کے والد اگر مستوفی ہیں تو خواجہ عمید مشرف ہیں۔ اِن حالات میں قیاس یہی ہے کہ سنام میں دانشمندی کی تعلیم کے بعد اُن کے دادا اپنے ساتھ دہلی لے گئے ہوں گے۔ آپ نے دہلی میں سلسلہ ٔ تعلیم جاری رکھا ہو گا۔ دہلی میں اُس وقت بڑے نامور اساتذہ جمع تھے۔ یہ سلطان ناصر الدین محمود کا آخری زمانہ ہے اور غیاث الدین بلبن کا عہدِ وزارت ہے۔ مولانا شمس الدین خوارزمی استاذ الاساتذہ کی حیثیت رکھتے تھے اور مستوفی الممالک تھے۔ اُصولِ فقہ اور تمام علومِ عربیہ میں یگانۂ روزگار تھے، اور حدیث کے مشہور استاذ محمد بن احمد کمال الدین زاہد تھے۔ مولانا عبد الحی لکھتے ہیں:
”كان عالما فاضلا محققا ورعا زاهدا متبحرا في الفقه و الحديث.”[4]
اُن كو مشارق الانوار (فی الجمع بین الصحیحین) اور آثار النيرين كی اِن کتابوں کے مؤلف علامہ صغانی[5] سے براہِ راست اجازتِ حدیث حاصل ہے اور فقہ میں شیخ مرغینانی صاحب ہدایہ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ شیخ المشائخ خواجہ نظام بھی اُن کے شاگرد ہیں ۔ یاد رہے کہ شیخ المشائخ کی پیدائش 636 ھ میں اور مولانا سنامی کی پیدائش 641 ہے یعنی تقریبا صرف 4 سال کا فرق ہے۔
مولانا سنامی کی علمی استعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے بڑے بڑے علمی گہواروں سے استفادہ کیا ہے اور اُس دور کے تمام مروجہ علوم میں سے ہر قسم کے علوم کی تعلیم پائی تھی۔ مولانا عبد الحی کا مولانا سنامی کے تعارف میں یہ کہنا ”الفاضل الكبير العلامة” اس کی غمازی کر رہا ہے کہ مولانا سنامی نے تمام علوم سے استفاد کیا ہے اور یہ بات توبرنی نے بھی بتائی ہے کہ اُس کے زمانہ میں مولانا سنامی کا مقام استاد کا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
“مفسر تھے، فقیہہ تھے۔ وہ خود بھی استاد تھے اور استاد زادے تھے۔ وہ عہدِ علائی کی ساری مدت میں وعظ و تفسیر بیان کرتے رہے ۔ وہ قرآن کی ہر آیت پر متعدد اقوال بیان کرتے” ۔ [6]
ظاہر ہے کہ تفسیر قرآن پر یہ عبور علمی جامعیت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور اُس علمی جامعیت کے لئے مولانا سنامی نے اپنے دور کےجلیل القدر اساتذہ کے سامنےزانوئےتلمذ ضرور طےکیا ہے۔
اُس دور کا نصاب تعلیم دو حصوں پر مشتمل تھا : درجۂ دانشمندی اور در جہ ٔ فضل۔ دانشمندی کے درجہ کا نصاب کیا تھا اس کی تصریح تو نہیں ملی لیکن میر خورد نے شیخ المشائخ کے ذکر میں جو یہ بات لکھی ہے کہ:
“علمِ فقہ اور اُصولِ فقہ میں جب کمال حاصل کر چکے تو درجۂ فضل کی کتابیں شروع کیں”۔[7]
اور میر خورد نے شیخ عثمان سراج کی تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے جو یہ بات لکھی ہے:
کاتب حروف مولانا رکن الدین اندر پتی سے کافیہ متصل قدوری اور مجمع البحرین پڑھی اور افادے کےلائق ہوا[8]۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دانشمندی کا درجہ اِن کتابوں پر ختم ہو جاتا تھا۔ اُس کے بعد درجۂ فضل شروع ہوتا تھا۔ اس درجہ میں تفسیر ، حدیث، فقہ، اُصولِ فقہ، سیر، تاریخ کا مطالعہ ہوتا تھا۔ میر خورد ہی نے مولانا قاسم کے بارے میں لکھا ہے کہ اُنہوں نےمولانا جمال الدین دہلوی سے “ہدایہ، اصول بزدوی، کشاف، مشارق، اور مصابیح السند پڑھی “[9]۔
ایک اور سندھی عالم جلال الدین نامی کے ذکر میں مولانا عبد الحی لکھتے ہیں “ہمیشہ ہدایہ، اصول بزدوی، مشارق الانوار، مصابیح السنہ اور عوارف وغیرہ کتابوں میں لگے رہے”۔[10]
بہرحال مولانا سنامی نے دانشمندی اور فضل کے نصابِ تعلیم کےمطابق اپنی تعلیمی منزلیں پوری کیں۔
یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ اُن کا تعلیمی زمانہ ناصر الدین محمود کا زمانہ ہے کیونکہ غیاث الدین بلبن 664 ھ میں تخت نشین ہوا ہے ۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف 23 سال ہے۔ اس سے پہلا زمانہ ہی اُن کا ساراتعلیمی زمانہ ہے۔ اس دور میں شیخ عماد الدین۔۔۔ جید عالم اور فقیہ تھے اُن کے علاوہ قاضی جلال الدین کاشانی، مولانا جمال الدین بسطامی، مولانا قطب الدین اُس دور میں خاص طور پر ذکر کئے جاتے ہیں اور غیا ث الدین کے ابتدائی زمانے میں یہ علماء اپنے وقت کےبہترین اساتذہ تھے۔ مولانا برہان الدین بلخی، (جن کا) پورا نام محمود بن ابو الخیر السعد بلخی ہے، اپنے زمانے کے جید عالم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ نحو ، لغت، فقہ، حدیث اور علومِ عقلی میں اُن کے زمانہ میں ہندوستان میں اُن سے بڑا عالم کوئی نہ تھا؛ فقہ، ہدایہ کےمصنف شیخ برہان الدین مرغینانی سے حدیث، امام صغانی صاحب مشارق الانوار سے پڑھی۔ اُن کی وفات 687 ھ میں ہوئی۔ مولانا نجم الدین عبد العزیز بن محمد دمشقی فلسفہ کے بڑے عالم اور فخر الدین رازی کے شاگرد تھے۔ شیخ سراج الدین ابو بکر مولانا شرف الدين دلوا لجی دہلی میں فقہ کے درس میں مشہور تھے۔ اُن کے علاوہ مولانا برہان الدین بزار، مولانا رکن الدین سامانوی اُس زمانے میں علم و دانش کے تاباں آفتاب تھے۔ اُن میں سے ہر شخص اپنی جگہ علم کا سمندر تھا[11]۔ افسوس ہے کہ اُن میں سےبیشتر علماء کا حال معاصر تذکروں اور تاریخ میں نہیں ملتا ہے۔ اور یہ صرف سلطان محمود اور غیاث الدین بلبن کے زمانے کی خصوصیت نہیں تھی بلکہ تاریخِ فیروز شاہی میں ضیاء الدین نے شمس الدین التمش کا اپنے دور کے بارے میں یہ اقرار نقل کیا ہے:
“میں اللہ سبحانہ کا اس واقعہ پر شکر کیسے ادا کروں کہ اس طرح کے مددگاروں سے اس نے میری پشت پناہی کی ہے جن میں (ہر) ایک مجھ سے کہیں بہتر ہے۔ پھر یہ لوگ عام شاہی رواج کے مطابق میرے آگے پیچھے چلتے ہیں اور دربار میں میرے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اِن لوگوں کی بزرگی کو دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے اور چاہتا ہوں کہ تخت سے اتر کر ان کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دوں”۔[12]
یہ کون لوگ ہیں؟ برنی نے ہی انکشاف کیا ہے کہ ( یہ وہ لوگ تھے ) جو ملعون چنگیز کے حادثہ سے متاثر ہو کر ہندوستان آئے [13]۔
محمد قاسم فرشتہ نے شیخ عین الدین بیجاپوری کی تصنیف ملحقاتِ ناصری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ لوگ ترکستان، ماوراء النہر، خراسان اور عراق سے آئے تھے۔ مہاجرین کا یہ ریلا شمس الدین التمش کے زمانے میں شروع ہوا ۔ ناصر الدین محمود اور غیاث الدین بلبن کے زمانے میں اُن کی تعداد اِس قدر ہو گئی تھی کہ صرف دہلی میں اُن کی آباد کاری جو ہوئی وہ پندرہ محلوں پر مشتمل تھی۔ تاریخِ فرشتہ میں اُن کے ناموں کی تفصیل دی ہے۔ محلہ عباسی، محلہ سنجری، محلہ خوارزم شاہی، محلہ دیلمی، محلہ علوی، محلہ اتابکی، محلہ غوری، محلہ چنگیزی، محلہ رومی، محلہ مستقری، محلہ یمنی، محلہ موصلی، محلہ سمرقندی، محلہ کاشغری اور محلہ خطامی[14]۔ اُن میں فوجی اربابِ فن، ہنرمند، اصحاب علم ، دانشور، فضلاء اور مشائخ سب ہی تھے ۔ یہ تو وہ تھے جو شمس الدین التمش کےزمانے سے پورے ملک کی آبادی سے سمٹ کر دہلی پہنچے۔ ظاہر ہے کہ جب تاتاریوں نے وسط ایشیاء، خراسان، ایران، عراقِ عرب اور عراقِ عجم میں اِن تمام علاقوں کو جہنم کدہ بنا رکھا تھا جہاں اسلامی علوم کے مرکز تھے ، ایسے وقت میں سلاطینِ ہند کی عام علمی قدردانیوں کو سن کو علماء کا ہندوستان کی طرف متوجہ ہونا ایک قدرتی بات تھی اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اُس وقت کا نصابِ تعلیم خراسانی تعلیم گاہوں کے مطابق پڑھاتے ہوں گے۔ دو درجے دانشمندی اور فضل اُن ہی درسگاہوں کے نصاب تعلیم کے ہیں۔
اُس زمانے کے مدارس میں قرآنِ پاک اور حدیث کی تعلیم ضروری تھی۔ درجۂ فضل میں کشاف، ایجاز، عمدۃ التفاسیر، حدیث میں مشارق الانوار اور مصباح الدجى جیسی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
قاضی ضیاء الدین برنی کے ایک افسانہ کی وجہ سے یہ غلط فہمی پھیل گئی کہ ہندوستان اُس زمانے میں حدیث سے آشنا ہی نہ تھا۔ حالانکہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف ہے۔ علامہ رضی الدین صغانی 650 ھ اسلامی ممالک میں بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔ مولانا عبد الحی نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں بدایوں کے رہنے والے ہیں۔[15] حدیث میں ان کی متعدد کتابیں ہیں، ایک کتاب مشارق الانوار فی صحیح الاخبار ، دوسری مصباح الدجی، تیسری صحیح بخاری کی شرح ، چوتھی اسماء الرجال میں در السحابة في معرفۃ الصحابة۔ مشارق میں 2246 حدیثوں کا صحیحین سے انتخاب کیا گیا ہے۔ مقطوع الاسناد حدیثوں کا اس سے بہتر مجموعہ آج تک کوئی پیش نہیں کر سکا اور پھر صرف حدیث ہی نہیں بلکہ السیوطی[16]نے بغية الوعاة میں لکھا ہے:” كان إليه المنتهى في اللغة”[17]۔ (کہ) اپنے زمانے میں لغت کی اُن پر انتہا تھی۔ انہوں نے العباب کے نام سے لغت کی کتاب لکھی۔ ابن سیدہ[18] کی محکم اور علامہ صغانی کی العباب ملا کر فیروز آبادی[19] نے قاموس کے نام سے خلاصہ لکھا ورنہ یہ دونوں کتابیں 60 جلدوں میں تھیں۔ پھر علامہ مرتضی زبیدی[20] نے قاموس کی شرح 10 جلدوں میں لکھی۔ مرتضی زبیدی بھی ہندوستانی عالم ہیں۔
علامہ صغانی کے زمانے میں دہلی کا علمی ماحول کیسا تھا؟ شیخ المشائخ نے فوائد الفواد میں بتایا:
“اُن دنوں دہلی میں بڑے بڑے علما تھے جو علوم میں علامہ صغانی کے برابر تھے لیکن علم ِحدیث میں صغانی کو سب سبے بڑا امتیا زحاصل تھا اور کوئی اُن کا مدِمقابل نہ تھا”[21]۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ لغت و ادب میں صغانی کے ہم پلہ موجود تھے مگر حدیث میں صغانی کی کوئی جوڑ نہ تھی۔ یہ مطلب نہیں کہ دہلی کے علماء حدیث سے آشنا ہی نہ تھے اور ہندوستان علمِ حدیث سے بے گانہ تھا۔ یہ تو 650 ھ سے پہلے کی کہانی ہے۔ مولانا سنامی 641 ھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ ش یخ المشائخ کے پروردوں میں مشہور عالم مولانا فخر الدین زرادی ہیں۔ شیخ المشائخ کی خانقاہ کے قریب ایک مدرسہ میں چاشت کی نماز کے بعد ہدایہ کا درس دیتے تھے۔ ایک دن کا واقعہ میرخورد نے لکھا ہے کہ مولانا عادت کے مطابق ہدایہ کا سبق پڑھا رہے تھے کہ:
“ایک روز عالمِ ربانی مولانا کمال الدین سامانی جو مشاہیر علماء میں سے تھے، سلطان المشائخ سے ملنے آئے ۔ مل کر واپس آئے تو اُس تعلق کی وجہ سے جو اُنہیں مولانا فخر الدین زرادی سے تھا، اُن سے ملے آگئے”[22]۔
غالبا مولانا سامانی کوئی غیر حنفی عالم تھے۔ مولانا زرادی نے مولانا کمال الدین کو دیکھ کر ہدایہ پڑھانے کا انداز بدل دیا۔ میر خورد لکھتے ہیں:
جب مولانا کمال الدین کو دیکھا، ہدایہ کی حدیثوں سےا ستدلال ترک کردیا[23]۔
یعنی حنفی مذہب کی تائید میں صاحبِ ہدایہ جن حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں اُن کو چھوڑ کر صحیحین کی حدیثوں سے استدلال کرنے لگے ۔ مولانا کمال الدین نے یہ انداز دیکھ کر دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ مولانا زرادی نے فرمایا کہ اگر آپ کو کوئی شبہ ہے تو فرمایئے؟ لیکن مولانا کمال الدین نہ صرف خاموش رہے بلکہ مولانا فخر الدین کے مستحکم دلائل پر دورانِ تقریر داد رہتے رہے۔
اس واقعہ کے بین السطور سے جو باتیں خود بخود معلوم ہو رہی ہیں ذرا ا ُن پر غور فرمایئے:
اول یہ کہ ساتویں صدی کے علماء صرف حدیث کی کتابوں کے شناور ہی نہ تھے بلکہ اس میں مجتہدانہ شان بھی رکھتے تھے۔ اگر حدیث کے فن پر کامل دستگاہ نہ ہو تو علامہ عینی اور شیخ ابن الہمام کا انداز کون اختیار کر سکتا ہے؟
ثانیا اِس سے اُس دور کے علما کا فقۂ حنفی میں تحقیقی انداز بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسائل میں مقلدِ جامد اور تقلیدِ اعمی کے علم بردار نہ تھے، بلکہ مسائل کا پورے محدثانہ انداز میں جائزہ لیتے تھے اور علم حدیث کی گہرائیوں اور گیرائیوں سے پوری طرح باخبر تھے۔
مولانا فخر الدین زرادی تو عالم اور محدث تھے، اُ س دور کے مشائخ کا صرف علمِ حدیث کی حد تک جائزہ لیجئے تو آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ اُن کا حدیث میں کیا مقام ہے۔ شیخ المشائخ اور مولانا سنامی میں معاصرت ہے۔ شیخ المشائخ کے بارے میں میر خورد نے لکھا ہے کہ علامہ صغانی کی مشارق الانوار اُن کو زبانی یاد تھی[24]۔ مولانا عبد الحی نے ایک سے زیادہ اُس دور کے علماء کا چہرہ لکھتے ہوئے بتایا ہےکہ فقہ و حدیث پڑھاتےتھے، کہیں لکھا ہے کہ فقہ و حدیث میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ یہ تعبیرات بتا رہی ہیں کہ ہندوستان کسی دور میں بھی علم حدیث سے بیگانہ نہیں رہا ہے۔ ہاں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدیث پڑھانے کا انداز وہ نہیں تھا جو آج ہے۔ بلا شبہ وہاں حدیث پڑھائی جاتی تھی مگر دورہ ٔ حدیث کے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حدیث کو علمِ حدیث کی حد تک پڑھایا جاتا تھا۔ شیخ المشائخ ہی کے ذکر میں سیر الاولیاء میں جہاں یہ لکھا ہے کہ اُن کو بخاری و مسلم کی 2246 حدیثیں زبانی یاد تھیں، وہاں اُن کی سند میں یہ بتایا ہے کہ حدیثیں اُنہوں نے کیسے پڑھیں تھیں ؟ لکھا ہے کہ: “قراءة بحث وإتقان وتنقيح معانيه و تنقب مبانيه”۔ یہ پڑھائی اِس طرح سے ہوئی کہ کامل بحث وتنقیح ،استواری و درستگی کی پابندی کی گئی۔ حدیثوں کے معانی کی تنقیح کی گئی اور اُن کی بنیادوں کو کھود کھود کر ظاہر کیا گیا۔
بتانا یہ ہے کہ حدیث علم کی حد تک ہندوستان میں ہمیشہ سے ہے۔ اس سے ہندوستان کبھی اجنبی اور بے گانہ نہیں رہا۔
بہرحال مولانا سنامی نے بھی شیخ المشائخ کی طرح تمام علوم میں تعلیم کی تکمیل کی۔ اور وہ سب کچھ پڑھا جو اُس دور کے نصاب و نظام کے مطابق پڑھایا جاتا تھا۔
(جاری)
حوالہ جات
[1] ۔ مذکورہ ایڈیشن ہمیں میسر نہیں ہوا تاہم اکبر بک سیلرز اردو بازار لاہور کے 2004ء میں شائع کردہ اردو ترجمے میں قاضی ضیاء الدین سنامی کی تاریخِ پیدائش یہی لکھی ہے، دیکھئے: اخبار الاخیار، ترجمہ از سبحان محمود اور محمد فاضل ص: 239
[2] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ص: 112
[3] ۔ طبقاتِ ناصری، منہاج سراج، دیکھیں مقدمہ کتاب ، مترجم غلام رسول مہر، ص: 73
[4] ۔ نزہۃ الخواطر، عبد الحی لکھنوی، جلد 1، ص: 117
[5] ۔ حسن بن محمد صغانی (577ھ تا 650ھ) کا پورا نام ابو فضائل حسن بن محمد بن حسن بن حیدر بن علی ہے۔ ان کی ولادت لاہور میں میں ہوئی اور وفات بغداد ميں ہوئی۔ ان کی دیگر تصنیفات میں مجمع البحرین، العباب الزاخر فی اللغہ ،الشوارد، الفحول،الاضداد ، العروض،اسماء العادہ، الفرائض،الضعفاء، كتاب الموضوعات، شرح البخاری اور در السحابہ فی وفیات الصحابہ شامل ہیں۔
[6] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ص: 120
[7] ۔ سیر الاولیاء، محولہ بالا ص: 206
[8] ۔ سیر الاولیاء، میر خورد کرمانی محولہ بالا ،ص: 451
[9] ۔ سیر الاولیاء، ص: 348
[10] ۔ نزهة الخواطر،عبد الحی لکھنوی، مترجم ابو یحی امام خان، مقبول اکیڈمی، لاہور، 1965ء ج: 3، ص: 325
[11] ۔ ان علماء کے میسر حالات کے لئے دیکھئے: بزمِ مملوکیہ، سید صباح الدین عبد الرحمان، دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ 2009 صفحات: 156، 173، 207، 208، 209 ۔
[12] ۔ تاریخ فیروز شاہی، محولہ بالا، ص: 31
[13] ۔ تاریخِ فیروز شاہی، ص: 50
[14] ۔ تاریخ فرشتہ، محمد قاسم فرشتہ، مترجم محمد فدا علی، مطبع جامعہ عثمانیہ، دکن، 1936ء جلد: ۱، ص؛277
[15] ۔ نزہۃ الخواطر، محولہ بالا، ج 1، ص: 99
[16] ۔ علامہ جلال الدین سیوطی( 849ا-911ا) کا پورا نام عبد الرحمن، کنیت ابو الفضل اور لقب جلال الدین تھا۔ تمام علوم میں تصانیف لکھیں جن کی تعداد ایک سو کے قریب ہے ۔
[17] ۔ بغية الوعاة في طبقات اللغويين والنحاة، جلال الدين السيوطي،المكتبة العصرية ، لبنان، ج: 1، ص: 520
[18] ۔ ابو الحسن علی ابن سیدہ ( 398ھ- 458ھ) کی پیدائش مرسیا، اندلس میں ہوئی ۔ اُن کو لغت، نحو اور منطق میں کمال حاصل تھا۔ المحکم اور المخصص اُن کی مشہور تصانیف ہیں۔
[19] ۔ أبو طاهر مجيد الدين محمد بن يعقوب بن محمد بن إبراهيم الشيرازي الفيروزآبادي( 729ھ-816ھ) ، شعر، لغت اور تاریخ میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
[20] ۔ سیدمرتضی حسین بلگرامی زبيدی(1145ھ-1205ھ) محدث، لغوی اور علم الانساب کے ماہر تھے۔ اُن کا اصل وطن بلگرام تھا، تاہم بعدازاں یمن کے شہر زبید میں مقیم ہو گئے۔
[21] ۔ فوائد الفواد از خواجہ امیر حسن سنجری ، مترجم خواجہ حسن ثانی نظامی، اُردو اکادمی دہلی ،1990ء ص: 348
[22] ۔ سیر الاولیاء، محولہ بالا، ص:423
[23] ۔ سیر الاولیاء، محولہ بالا، ص: 424
[24] ۔ سیر الاولیاء، محولہ بالا، ص:151
کمنت کیجے