Home » تعریفاتِ علوم کی مروجہ طرزِ تدریس ۔ کچھ اقتباسات ومناقشات
اسلامی فکری روایت عربی کتب مدارس اور تعلیم

تعریفاتِ علوم کی مروجہ طرزِ تدریس ۔ کچھ اقتباسات ومناقشات

مولانا محمد عبد اللہ شارق

”تعریفاتِ علوم کی ماہیت، مقصدیت اور اہمیت“ کے عنوان سے میرا مضمون اولا الشریعہ میں اور پھر کچھ ترمیمات اور عنوان کی قدرے تبدیلی کے ساتھ میری کتاب ”غزالی وابنِ رشد کا قضیہ“ کے اخیر میں ضمیمہ کے طور پر شائع ہوا۔ اس مضمون کے کچھ اقتباسات فیس بک پر شیئر کیے، جن میں درسِ نظامی کی معروف کتاب ”التوضیح والتلویح“ کے حوالہ سے مضمون میں لکھا گیا ایک پیرا گراف اور  ابن تیمیہ کی کتاب ”الرد على المنطقيين“ سے متعلقہ پیراگراف خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس پر قارئین کے کچھ تاثرات سامنے آئے، کچھ سوالات اٹھائے گئےاور اہلِ علم کے ساتھ کچھ مناقشات بھی ہوئے۔ زیرِ نظر سطور میں انہی کا ذکر کرنا مقصود ہے۔

تعریفات والے میرے اصل مضمون میں جو چیز بطور مقصود کے بیان ہوئی، وہ یہ تھی کہ تعریف کا مقصد بس ہلکا سا تعارف ہے، اس لیے کسی بھی بہتر تعریف سے جب یہ مقصد پورا ہورہا ہو تو اس پر کفایت کرلینی چاہیے اور بے عیب تعریف کا حصول جو کہ خود ماہرین ہی کے بقول ایک مشکل یا ناممکن چیز ہے، اس کی خاطر غیر ضروری طور پر لمبے چوڑے مناقشات کا انداز اختیار کرنا اور خصوصا علوم کی تعریف متعین کرنے کے لیے علوم کے آغاز میں ہی ایک تعریفاتی دنگل سجا لینا مذہبی یا غیر مذہبی علوم میں، نہ تو تعلیمی نکتہء نظر سے کچھ مناسب ہے اور نہ ہی دینی نکتہء نظر سے کوئی مناسب بات ہے۔ واضح رہے کہ طبیعیات وریاضیات جیسے سائنسی علوم یہاں زیرِ بحث نہیں تھے جن میں اشیاء کی سکہ بند تعریف ہی پر شاید سارے علم کا دارو مدار ہوتا ہے اور ان تعریفات کا تعین شاید اکتشافات وتجربات کی روشنی میں کوئی بہت مشکل امر بھی نہیں ہوتا۔

اب یہ چیز جو ہمارے مضمون کا اصل جوہری موضوع تھی، شاید بس جزوی طور سے  ہی زیرِ بحث آسکی، اس عنوان کے ساتھ کہ کیا توضیح وتلویح کے مقدمہ میں مذکور تعریفاتی دنگل جیسی چیزیں پڑھانے کی واقعتا کوئی افادیت ہے یا نہیں؟ ورنہ  زیادہ زور کچھ اور بہت ہی جزوی سے ابحاث پر صرف ہوتا رہا جو شاید میرے مضمون میں ایک بہت ہی ضمنی چیز کی حیثیت سے مذکور تھیں۔ مثلا یہ کہ کیا منطق کے بارہ میں غزالی کا غلو گزرے دور کی یادگار ہے یا یہ آخر تک برقرار رہا؟ غزالی کے قول ”من لم يعرف المنطق فلاثقة له بالعلوم كلها“ (جو منطق کو نہیں جانتا ، اس کا کسی علم میں کوئی اعتبار نہیں) کا کیا مطلب ہے؟  غزالی اپنے آخری مزاج کی رو سے ایک متکلم تھے، صوفی یا کچھ اور؟ یا یہ کہ جب منطق، گرائمر اور اصول فقہ کا مفید حصہ انسانی فطرت میں مرکوز ہے تو کیا بطور ایک اصطلاحاتی علم کے اسے پڑھانے کی کوئی ضرورت یا افادیت ہے؟ اسی طرح اس دوران ابنِ تیمیہ کی کتاب ”الرد على المنطقيين“ کے کچھ بیانات موضوع بحث بنے رہے، مثلا یہ کہ کیا ابنِ تیمیہ کا یہ دعوی درست ہے کہ مذہبی علوم میں منطقی تعریفات کی طرز غزالی کے بعد اپنائی گئی ہو؟جبکہ میرے اصل مضمون میں ابنِ تیمیہ کی عبارات کا سرے سے عمل دخل ہی بہت کم رہا۔  یہ ایک اور ضمنی گفتگو تھی جو چھڑی رہی۔

تاہم چونکہ کچھ ضمنی فوائد اس ساری گفتگو  میں بہرحال مذکور ہوئے، اس لیے اسے جمع کردیا۔

”توضیح وتلویح“ کی تدریس کا مسئلہ اور کچھ ملے جلے تاثرات

’’التوضیح والتلویح‘‘ سے متعلقہ اقتباس جو شیئر کرنے کی نوبت آئی، کچھ یوں تھا:

’’التوضیح والتلویح، درسِ نظامی کی معروف اور انتہائی درجہ کی ایک دقیق کتاب ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ’’اصول الفقہ ‘‘ کی کسی بے عیب تعریف کا تعین کرتے کرتے ’’۱۲‘‘ اور ’’۱۴‘‘ کے فونٹ میں ’’A-4‘‘سائز کے تقریباً ۱۸؍ صفحے عربی زبان میں استعمال ہوگئے جنہیں پڑھتے سمجھتے ہوئے طالب علم کو بعض اوقات مہینے اور عشرے گذر جاتے ہیں۔ پھر اسی پر بس نہیں، ’’التوضیح والتلویح‘‘ کا کوئی بھی درسی اور نصابی نسخہ لے لیں۔کتاب کے اطرف پر چڑھا ہوا حاشیہ (جو اصل کتاب سے بلا مبالغہ دس گنا بڑا ہے) وہ الگ دعوتِ مطالعہ دیتا ہے۔نیز التوضیح والتلویح کا ماہر استاد اسے سمجھا جاتا ہے جو صاحبِ کتاب کے اٹھائے گئے تنقیدی نکات واضح کرنے پر اکتفاء نہ کرے، بلکہ ان پر کچھ اور اضافے بھی کرے۔ مگر اس غیر معمولی باربرداری کے باوجود بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اصول، الفقہ اور اصول الفقہ کی کوئی بے عیب دریافت نہ ہوسکی۔ اس طرز کے جو دینی مضرات ہیں، اس سے قطع نظر کرکے صرف یہ دیکھ لیجئے کہ کیا تعلیمی نکتۂ نظر سے ایک طالبِ علم کے سامنے، علم کے آغاز میں ہی لفظی اکھاڑ پچھاڑ کا ایسا دنگل سجا لینا اس کی ذہنی تربیت اور علمی نشوونما کے لیے مفید ہے؟ (”غزالی وابنِ رشد کا قضیہ“ سے ایک اقتباس)“

یہ اقتباس شیئر کرنے پر کچھ جلے بھنے کمنٹ سامنے آئے۔ مثلا یہ کہ توضیح و تلویح کے بارے یہ رائےکسی  ناواقفِ نصاب یا نالائق طالب علم کی رائے لگتی ہے۔ ایک موصوف نے لکھا کہ کتاب میں کیا گل کھلائے ہوں گے، یہ اقتباس ہی انتہائی جاہلانہ ہے۔ یہ دقیق ابحاث کوئی پہلے درجے کا طالب علم نہیں پڑھ رہا ہوتا اور نہ ہی یہ کتاب پہلے درجے میں داخل نصاب ہے، یہ منتہی طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے!! کیسے کیسے لوگ بستے ہیں یہاں!! جبکہ بعض حضرات کے تاثرات میں دوسرے کو دبانے والی سیاست کی روح بھی کارفرما نظر آئی، مثلا یہ کہا گیا کہ ہمیں شارق صاحب کی کتاب پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن توضیح وتلویح والے اقتباس نے ہمیں مایوس کردیا۔

پھر اس طرح کے بعض تاثرات پر جواب کا اصرار بھی کیا گیا تو عرض کیا کہ ہماری کتاب واقعی ایک ایسا گلدستہ ہے جو ”نازک مزاجوں“ کو شاید بالکل پسند نہ آئے، باقی اطلاعا عرض ہے کہ ”التوضیح والتلویح“ کو بندہ تقریبا چودہ سال پہلے خود ”منتہی طلباء“ کو پڑھا چکا ہے اور اس کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے عربی میں ایک مختصر کلید بھی لکھی تھی۔ مزید اطلاع یہ ہے کہ جس ”توضیح وتلویح“ کی عقیدت میں آپ جذباتی ہورہے ہیں، اس میں زیادہ ذکر تو شاید عقلی مناقشات اور باہمی تنقیدات کا ہے اور انہی کو موضوعِ گفتگو بنایا تھا، اگر وہ آپ کو پسند ہیں تو اس طالب علم کی طرف سے بھی تو تھوڑا سا نقد ہی سامنے آیا ہے، اس پر آخر ایسی کیا پریشانی؟ شاید وہ لگاؤ محض تقدیس کا ہے، مزاج شناسی کا نہیں۔

باقی پرانے زمانہ میں بعض اساتذہ شاید اسے مکمل پڑھاتے تھے جس سے شاید پورا علم سامنے آتا تھا، اب وہ طرز تو رہی نہیں، صرف ایک منتخب حصہ پڑھایا جاتا ہے۔ اگر اس منتخب حصہ کو پڑھانے سے مقصود محض تشحیذ اذہان ہےتو چلیے، ایک درجہ میں یہ بات تسلیم کرلیتے ہیں، بلکہ اپنی لکھی ہوئی کلید کے مقدمہ میں آج سے تقریبا چودہ سال قبل خود ہی معترضین کے لیے یہ جواب بندہ نے خودلکھا تھا، لیکن اس پر بھی کچھ اعتراضات اٹھتے ہیں۔ مثلا یہ کہ کیا ذہن کو تجزیاتی بنانے اور اس میں قوت پیدا کرنے کے لیے کچھ مفید ابحاث نصاب میں شامل نہیں کی جاسکتیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے ابحاث ہی پڑھائے جائیں؟

ایک صاحب علم  نے لکھا  کہ آپ اسے تشحیذِ اذہان کا نام دیتے ہیں، جبکہ لوگ اسے تنشیطِ اذہان کہہ رہے ہیں، عرض کیا کہ کہتا تھا، لیکن اب کچھ تامل ہے۔ نیز ان کی یہ بات پڑھ کر مجھے اپنے ایک دیوبندی استاد کی ایک بات یاد آگئی۔ انہوں نے مجھ سے ایک بار کہا تھا کہ میں نے جب سے ”اقلیدس“ (جیومیٹری) کی کتاب پڑھی ہے تو کسی کو پڑھائی نہیں، میرا شوق ہے کہ وہ کسی کو پڑھا ؤں۔ سو ان کے پاس ”اقلیدس“ پڑھنا شروع کی، چند دن شاید بمشکل ہی گذرے ہوں گے کہ میں نے پوچھا: یہ سب پڑھنے کا ہمیں فائدہ کیا ہے؟ کہنے لگے کہ اور کچھ بھی نہ ہو، ”نشاطِ ذہنی“ تو ہے ہی، ان کے اصل الفاظ کچھ اور  تھے۔

بریلوی مکتبِ فکر کے مفتی انس بندیالوی کے جواب میں بندہ نے لکھا کہ منتہی طلبہ کو اس طرح کی چیزیں پڑھانے کا ایک مقصد شاید یہ قرار دیا جائے کہ تراث کی مختلف چیزوں سے انہیں کچھ آشنائی ہو، لیکن کیا یہ سب چیزیں افادیت بھی رکھتی ہیں یا ان میں غلو کا کوئی پہلو بھی ہے، تقدیس سے ماوراء ہوکر اس پہ غور وفکر اور نقد ونظر کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے تاکہ جمود نہ آئے۔  میرے خیال میں، اگر آج اہلِ مدارس کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ ”الكافية لابن الحاجب“ کے ایک ایک جملہ پر سولہ سولہ اعتراضات ڈالنے اور پھر ان کے جواب دینے کا عربی گرائمر کی تعلیم وتدریس سے کوئی تعلق نہیں تو پھر توقع کرنی چاہیے کہ جلد ہی ان شاء اللہ انہیں یہ بات  بھی سمجھ آجائے گی کہ ”توضیح وتلویح“ کے مقدمہ میں پڑھائے جانے والے تعریفاتی دنگل کا بھی شاید اصول فقہ سے کچھ خاص تعلق نہیں۔ اگر اصول فقہ کا علم پڑھانا مقصود ہے تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں منتخب حصہ پر سوال اٹھانا کوئی برائی نہیں اور یہ سوال ہم ہی نہیں، کئی استاد اٹھاتے ہیں۔

ایک عالم نے ”توضیح وتلویح“ والے میرے اقتباس کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ تقریبا 60 لوگوں کی کلاس میں سب سے زیادہ اچھے طریقے سے کتاب کو حل کرکے پڑھنے کا دعوی رکھتا ہوں اور اس اقتباس سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اضافہ یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مصنف کا مقدمہ”دیباچہ“ جو باو جوداس کے کہ اپنی جگہ علم بیان و بدیع کا شاہکار ہوسکتا ہے لیکن اصول فقہ کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں، جس طرح کئی ہفتے لگا کر ہم نے اسے پڑھا کچھ ہم ہی جانتے ہیں، ”توضیح تلویح“ پہ پہنچ کے یہ خیال مزید پختہ ہوا جو اس سے پہلے قطبی پڑھتے وقت بن گیا تھا کہ اُس دور میں اگرچہ مشکل ترین عبارت لکھنا کمال سمجھا جاتا ہوگا، اتنی صدیوں کے گیپ اور ضروریات کے فرق کو نظرانداز کرکے انہیں ”شاہکاروں“ کو پڑھاتے جانا قرین انصاف اس لیے نہیں کہ پہلے صفحے پہ ہی جس طالب علم نے یہ کہہ کر ہتھیار پھینک دیے کہ اسے سمجھنا ہمارے بس میں نہیں، وہ آگے اصل فن کو چاہ کر بھی نہ پڑھ پائے گا۔

بریلوی مکتبِ فکر کے ایک اور عالم نے ”کافیہ“ والے نکتہ کو نشان زد کرتے ہوئے تائید کی کہ واقعی یہ سب تو طلباء ”شرح جامی“ میں پڑھ لیں گے، ”کافیہ“ میں یہ سب پڑھانے کی کیا ضرورت ہے۔ جواب دیا  کہ خود ”شرح جامی“ کو بھی سولہ سولہ اعتراضات والی طرز پر پڑھانے کی کیا ضرورت ہے آخر؟ اس پر انہوں نے لکھا کہ میں امسال ”شرح جامی“ ہی پڑھا رہا ہوں، بس نفسِ کتاب حل کی ہے، کوئی خارجی سوال وجواب نہیں۔  راقم نے لکھا کہ کوئی کتاب پڑھانے پر اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن اگر پڑھانی ہے تو یہی طرز درست ہے۔

چنانچہ اصول فقہ کی کتاب ”نور الأنوار“کے طرزِ تدریس کے بارہ میں ہونے والے ایک عالم کے سوال پر بھی بندہ نے یہی لکھا کہ ”کتاب کوئی بھی ہو، اس کو پڑھانے کا سب سے اچھا انداز جو شاید ”پڑھاکو“ طالب علموں کو اول اول تو اپیل نہ کرے، لیکن وہی زیادہ مفید، مؤثر اور شاید دیر پا بھی ہے، وہ یہ کہ نفسِ عبارت کو حل کردینے اور اس کا فہم پیدا کردینے پر استاد کا درس مشتمل ہو اور تقاریر زیادہ نہ ہوں۔ باقی یہ تو ہوا کتاب کا پڑھانا، جہاں تک معاملہ ہے علم کو پڑھانے کا تو منطق اور اصولِ فقہ کو دو ہزار دس کے کم وبیش تک پڑھایا تھا اور ان دونوں کے بارہ میں اپنا پرانا تاثر شاید یہ تھا کہ ان دونوں علوم کی درسی کتابوں میں چند کار آمد ابحاث کو چھوڑ کر، زوائد شاید بہت زیادہ ہیں۔ اگر ان دونوں علوم کا خلاصہ اورمکھن  بس مختصر چارٹ کی صورت میں سمجھا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، لیکن رسوخ کے لیے شاید درسی کتابوں سے ربط بھی ضروری ہو۔“

مفتی انس بندیالوی نے لکھا کہ ”تعریف کے تدقیقی مباحث سے ہم مثلا جمہوریت کی تعریف پر اعتراض وارد کرنے کی استعداد حاصل کرتے ہیں، مثلا Democracy is the government of the people, by the people, for the people یعنی جمہوریت نام ہے عوام کی حاکمیت کا، عوام کے ذریعہ عوام پر۔ اب یہاں ”حاکمیۃ الشیء لنفسہ“ لازم آرہی ہے جو کہ باطل ہے، عوام ہی حاکم اور عوام ہی محکوم، تو یہ چیزیں ہم ان تدقیقی مباحث کے ذریعہ ہی سمجھنے کے اہل ہوئے ہیں۔“ جواب دیا کہ ”ایک غیر مسلم آپ سے پوچھے گا کہ ”حاكمية الشيء لنفسه“ کیوں باطل ہے؟ اور پھر ظاہر ہے کہ اس اصول کو واضح یا ثابت کرنے کے لیے ایک بحث شروع ہوجائے گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایسے فلسفیانہ اصولوں پر بنیاد رکھنے اور ان پر مناقشہ کرنے کی بجائے، شروع سے ہی انبیاء کی طرز پر انسانوں کو بس ان کے خالق اور پروردگار کی طرف متوجہ کریں، الفاظ کا زور جو صرف کرنا ہے وہ شروع میں ہی کوئی وضعی اصول ثابت کرنے کی بجائے ان کے دلوں میں اللہ کی پہچان اتارنے، اللہ کی عظمت وجلال اور حمد وثناء کا نبوی نغمہ گانے پر صرف کریں اور اس کے ضمن میں پھر اگر ضرورت پڑے تو بعد میں جمہوریت کے مغربی مفہوم کا غلط ہونا بھی ان کو بتادیں کہ ہم اللہ کے بندے اور غلام ہیں، خود مختار نہیں۔ یہی طرز نہجِ نبوت کی صحیح ترجمانی ہے، عام فہم ہے، زیادہ محکم ومضبوط ہے، معاند کےلیے دندان شکن ہے اور اصطلاحاتی ثقل سے پاک بھی۔“

مزید عرض کیا کہ ”توضیح وتلویح“ والے نقد کو بعض حضرات نے دل پر لے لیا اور اسے نہ جانے کس کس مفہوم میں لیا، حالانکہ ہمارے مضمون میں غیر مذہبی علوم مثلا ”معاشیات “اور ”صحافت“ کی کتابوں میں مذکور تعریفات کے اس طرزِ تدریس پر بھی برابر نقد کیا گیا تھا اور اسے تدریسِ علوم کے ایک مشترکہ سقم کی حیثیت سے بیان کیا گیا تھا۔ ایک عالم دوست نے لکھا: ”مسئلہ یہ ہے کہ علم اور معلومات کو ہضم کرنا بڑا مشکل ہے، مصنفین اپنا پورا مطالعہ پیش کر دیتے ہیں، بہت کم ایسے لکھنے والے ہوتے ہیں جو مسئلہ کا حل چاہتے ہوں اور ان کا مقصد علمیت جھاڑنے کے بجائے مسائل کا ہو، ہر مصنف کے اندر ”صلح پسند“ مزاج ہونا چاہیے اور آپ کے اندر یہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔“ ایک اور عالم نے لکھا کہ ”آج اکثر فکروں کو جمود کی دیمک لگی ہے تو ان کو یہ بات بری ہی لگنی ہے، حقیقت میں توضیح وتلویح والے اقتباس کی وجہ سے ہی کتاب کے متعلق مزید اشتیاق پیدا ہوا۔“

ایک بھائی نے کہا کہ وہ سب باتیں جو عصری تعلیم کے اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں، وہ مدارس کے سلیبس میں بھی داخل ہیں، اگر فلاں اور فلاں تبدیلیاں کردی جائیں تو معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ بندہ نے لکھا کہ عصری تعلیم کا نصاب ونظام کون سا حرف ِ آخر یا ایک معیاری نمونہ ہے کہ خود کو اس کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی جائے، دینی تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے کچھ اور معیارات بھی تو دیکھنے چاہییں۔ عصری تعلیم اور خصوصا انگلش میڈیم کا نصاب خود ایک مردِ بیمار ہے، اس میں زوائد اور لغویات کا شاید ایک انبار موجود ہے۔

کیا مذہبی علوم میں منطقی تعریفات کی طرز اپنانے والے پہلے فرد امام غزالی ہیں؟

ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:

”حافظ ابنِ تیمیہ کے مطابق تعریف (definition) کے نام پر مشکل پسندی کی ابتداء منطقیوں سے ہوئی اور باقی سب علوم اور شعبوں میں یہ اسلوب اور طرز منطق سے ہی برآمد ہوکر آیا ہے۔ انہوں نے مشہور نحوی ابن الانباری [وفات۳۲۸] کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جب سے نحویوں نے منطقی تعریفات کے اسلوب کو اپنایا ہے تو دیگر اصطلاحات سے قطع نظر، صرف ایک نحوی اصطلاح ’’اسم‘‘ کی تقریبا ستر تعریفات اب تک ان کی طرف سے سامنے آئی ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی تعریف بے عیب اور اعتراضات سے خالی نہیں۔ اپنی کتاب “الرد علی المنطقیین” میں انہوں نے امام غزالی کے بارہ میں لکھا کہ وہ مذہبی علوم میں منطقی تعریف کی طرز کو اپنانے والے شاید سب سے پہلے آدمی ہیں اور پھر انہی سے نقل کیا کہ ان کی رائے میں کسی امر یا علم کی پاک وصاف اور بے عیب منطقی تعریف دریافت کرلینا انتہائی مشکل ہے۔ (”غزالی وابن رشد کا قضیہ“ سے ایک اقتباس)“

جناب نذیر ازہر مینگل صاحب نے لکھا کہ ”غزالی سے بہت پہلے وفات پانے والا ”ابن الانباری“ جب نحوی اصطلاح ”اسم“ کے بارہ میں ستر تعریفات منقول ہونے اور ان سب کے عیب دار ہونے کی بات کرتا ہے، تو غزالی پھر اس طرز کو اپنانے والے پہلے فرد کیسے ہوئے؟ نیز  دینی علوم میں یہ طریقہ امام غزالی سے پہلے امام الحرمین، امام باقلانی اور معتزلہ وغیرہ کے ہاں موجود تھا۔ آپ مثلا امام الحرمین کی ”البرهان“ کے ابتدائی دس بیس صفحات دیکھ لیں۔ ہاں، بس میرے خیال سے امام غزالی پہلے شخص ہیں جنہوں نے باقاعدہ منطقی اصطلاحات کو دینی علوم میں استعمال کیا اور منطقی مباحث میں فقہی اور کلامی مثالوں کو استعمال کیا اور آخر میں تو اس طریقہ کار کا دفاع کرتے ہوئے یہاں تک ہوا کہ ”المستصفی“ میں منطقی مقدمہ قائم کرلیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ: جسے اس میں مہارت نہیں ہوگی ”فلا ثقة له في العلوم كلها“ یعنی اس کا کسی علم میں کوئی اعتبار نہیں۔ ”معیار العلم“ میں وہ منطق کو حق اور باطل کا ترازو سمجھتے ہیں۔ اپنے اس طرز عمل میں امام کی شخصیت یقیناً پہلی شخصیت ہی ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب ۔ اس پر تفصیلی بحث ہوسکتی ہے۔“

جواب دیا کہ ”نحو علوم لغویہ آلیہ میں سے ہے، ایک اعتبار سے اگر یہ مذہبی علوم کے اطلاق میں داخل ہے تو دوسرے اعتبار سے نہیں۔ سلف صالحین میں سے بعض حضرات تو نحو کے لفظی دقائق میں زیادہ پڑنے کو ہی سرے سے دینی مزاج کے خلاف اور دل کے صلاح وخشوع کے لیے شاید قاتل بھی سمجھتے تھے، گویا وہ اس کی دینی حیثیت واہمیت کو علی الاطلاق تسلیم کرنے سے ہی انکاری تھے۔ شاطبی کی ”الاعتصام“ میں اس حوالہ سے سلف کے کچھ اقوال مذکور ہیں اور ”نعم الوجیز“ کے مقدمہ میں اس بندہ نے بھی کلام کی ہے اس حوالہ سے۔ باقی ابن الانباری کا قول ہو یا غزالی کے بارہ میں لکھی گئی بات، ہماری کتاب میں تصریح ہے کہ وہ دونوں ابن تیمیہ کی کتاب ”الرد على المنطقيين“ سے منقول ہیں، نہ کہ میری طرف سے، اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم ابن تیمیہ کی عبارت سامنے رکھ کر ہی بات آگے بڑھائیں۔

میرے پاس ابن تیمیہ کی کتاب ”الرد على المنطقيين“ کے ”مؤسسة الريان“ کے مطبوعہ نسخہ کی پی ڈی ایف ہے، اس کے صفحہ 56 پر ابن تیمیہ نے ”يقال“ کے ساتھ بعض حضرات کی کلام نقل کی ہے کہ محققین اور جمہور اہل نظر کے ہاں بس مطلق تعریف مطلوب رہی ہے جو اسم کی طرح ”تمييز بين المحدود وغيره“ کا فائدہ دے، نہ کہ منطقی تعریف جس کا معنی ہے ”تصوير المحدود وتعريف حقيقته“ اور پھر لکھا کہ ”إنما دخل هذا في كلام من تكلم في أصول الدين والفقه بعد أبي حامد“ جس کا مطلب میں نے وہی سمجھا جو ذکر کیا کہ منطقی تعریف کی طرز علوم دینیہ میں غزالی کے بعد مروج ہوئی، اور تسامح لفظی صرف اتنا ہوا کہ غزالی کو سب سے پہلا فرد لکھ دیا جو شاید اتنا بڑا تسامح نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ابن تیمیہ کے یہاں ”فقہ واصول الدین“ کا ذکر کیا گیا ہے اور نحو تو کسی بھی طرح ان میں داخل نہیں۔

باقی باقلانی اور امام الحرمین وغیرہ کے بارہ میں شاید آپ کی بات درست ہو کہ ان کے ہاں اس کی مثالیں موجود ہیں، لیکن اس پر ایک اعتراض ہوگا کہ جنہوں نے پہلے تعریفات کیں، ہمارے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ تعریفات منطقی تعریف کے معنی میں ہیں، نہ کہ مطلق تعریف کے معنی میں، آخر منطقی تعریف اور مطلق تعریف کا ظاہر تو شاید ایک جیسا ہی ہوتا ہے، فرق تو صرف غرض ومدعا میں واقع ہورہا ہے جس کا تعلق قلب سے ہے اور قلب کی کیفیت پر ہمیں کیا اطلاع کہ باقلانی اور امام الحرمین وغیرہ کا مقصود ان تعریفات سے ” تمييز بين المحدود وغيره“ کا عام سا مفہوم رہا ہے یا ”تصوير المحدود وتعريف حقيقته“ کا منطقی مفہوم۔ مطلق تعریفات تو شاید خود ابن تیمیہ کے ہاں بھی مل جائیں گی، جیساکہ میں نے کتاب میں لکھا، جبکہ غزالی کے بعد والوں کے ہاں شاید کچھ ایسے مناقشات مذکور ہوں گے جنہوں نے دلالت کی ہوگی کہ ان کے ہاں مطلوب منطقی تعریف ہے، اس لیے ان کی طرف نسبت ہوئی۔

اگر باقلانی اور امام الحرمین وغیرہ کے ہاں اس طرح کے کوئی مناقشات ہیں جو ان کے منطقی تعریف کے طلب گار ہونے پر دلالت کریں تو آپ ان کی مثال دیں۔ روا روی میں امام الحرمین کی ”البرهان“ کے ابتدائی دس بیس صفحات دیکھنے کی نوبت آئی، تعریفات تو کچھ چیزوں کی موجود ہیں، لیکن کوئی ایسی بات بہرحال نظر نہیں آئی جس سے ابن تیمیہ کے دعوی پر زد پڑے اور آپ کا دعویٰ پورا ہو۔ ہاں، اگر پورا ہو بھی جائے آپ کا دعویٰ تو ” إنما دخل هذا في كلام من تكلم في أصول الدين والفقه بعد أبي حامد“ کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ اس چیز میں شدت وشیوع غزالی کے بعد پیدا ہوا۔ نیز آپ کا دعوی پورا ہونے کی صورت میں صرف یہی ثابت ہوگا کہ غزالی کو تعریفات منطقیہ والا پہلا فرد کہنا درست نہیں، جبکہ یہ ایک ضمنی بات تھی اور اصل بات جس پر زور دینا مقصود تھا، وہ یہ تھی کہ غزالی بھی بے عیب تعریف کے حصول کو بہت مشکل مانتے ہیں۔

باقی ابن تیمیہ کی عبارت میں ایک اور چیز تحقیق طلب باقی ہے کہ ” إنما دخل هذا في كلام من تكلم في أصول الدين والفقه بعد أبي حامد“ والی کلام جو ”محقق الکتاب“ نے نئے پیراگراف میں ڈالی ہے، آیا ابن تیمیہ کی طرف سے ہے یا ”يقال“ والے حضرات کی طرف سے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ابن تیمیہ کی طرف سے ہے اور اسی پر محقق کے انداز نے بھی دلالت کی، اسی لیے یہ بات ابن تیمیہ کے حوالہ سے نقل کی۔“

اسی مکالمہ کے ضمن میں بعد ازاں ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کی طرف سے کچھ مثالیں دیتے ہوئے کہا گیا کہ ”علم“ کی تعریف پر ابراھیم النظام (م221ھ) سے کئی مواقف موجود ہیں اور ایک کے بعد دوسرا معتزلی ایک دوسرے کی تعریف کو رد کرکے بہتر سے بہتر تعریف پیش کرتا آیا ہے۔ امام نسفی (م 508 ھ) نے ”تبصرة الأدلة“ میں ایسی متعدد تعریفات کا تجزیہ کیا ہے، ان سے قبل قاضی عبد الجبار (م 425 ھ) کی کتاب میں ایسی متعدد تعریفات مل جاتی ہیں، قاضی باقلانی (403 ھ) بھی تعریفات میں اسی طرح ترجیحات قائم کرتے ہیں۔ تو بال کی کھال اتارتے ہوئے تعریف مقرر کرنا، یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو غزالی سے پہلے نہ پائی جاتی ہو۔ آپ اصول فقہ پر کبھی قاضی باقلانی کی کتاب ”التقریب والإرشاد“ ملاحظہ کیجئے گا کہ وہ کیسے نپی تلی تعریف مقرر کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ باقلانی جس بھی تصور (اصول فقہ یا فقہ یا امر یا واجب یا حسن وغیرہ وغیرہ) پر بحث کرتے ہیں، سب سے پہلے اس کی لگی بندھی تعریف کرتے ہیں اور دیگر تعریفات پر نقد کرتے ہیں کہ اس میں فلاں خرابی ہے۔ باقی اس بات سے مجھے اختلاف نہیں کہ منطق کو جس طرح امام غزالی نے ان علوم میں شامل کیا، وہ انکا خاصہ ہے اور یہ ابن سینا کا اثر تھا۔

عرض کیا کہ جاحظ وغیرہ کی مثال مثلا لفظِ ”علم“ کی تعریف کے حوالہ سے پیش کی گئی، جبکہ ابن تیمیہ نے غزالی کے بارہ میں جو کہا وہ ”فقہ واصول الدین“ وغیرہ میں ”تعریفاتِ منطقیہ“ کو لے آنے کے حوالہ سے ہے۔ باقی تعریف مطلق ہو یا منطقی، اس میں کوشش تو نپی تلی کی رہتی ہے، اس کے بغیر تو تعریف کارآمد ہو ہی نہیں سکتی۔ باقلانی کی ”التقریب والإرشاد“ کے بعض مقامات دیکھنے کا اتفاق ہوا، بے شک بعض مقامات پر انہوں نے دو، ایک تعریفوں کے کچھ تقابلی جائزے پیش کیے ہیں، لیکن کیا وہ صرف بہتر سے بہتر تعریف کرنے کے درپے ہیں یا پھر بے عیب تعریف تلاشنے کے جس پر اصل بحث ہے، یہ دیکھنا باقی ہے، تب ہی ابن تیمیہ پر نقد مکمل ہوسکتی ہے۔ باقی اگر ثابت ہو بھی جائے وہ بات جو آپ کہہ رہے ہیں تو یہ محض ایک ضمنی بات ہوگی کہ غزالی سے پہلے بھی یہ طرز موجود تھی، اصل بات جو عرض کی گئی تھی، وہ یہ تھی کہ بے عیب تعریف کسی بھی چیز کی خود غزالی کے نزدیک بھی بہت مشکل ہے۔

بعد ازاں مینگل صاحب کی طرف سے ابو الحسن البصری المعتزلی (وفات 436ھ)  کی کتاب ”المعتمد في أصول الفقه“ میں سے ”بحث الاستحسان“ کا ایک اقتباس دیا گیا  جس میں کچھ تعریفی مناقشہ مذکور تھا ، اس پر عرض کیا کہ ”قیل وقال“ تو اس پر  بھی ہوسکتی ہے، لیکن بات پہلے ہی کافی طویل ہوگئی ہے اور ایک ضمنی وجزوی بحث ہونے کی وجہ سے اسے مزید طول دینا بہرحال مناسب نہیں، اللہ پاک سابقہ گفتگو کے لغو کو بھی معاف فرمائیں۔ مغل صاحب کے دیے گئے ”التقريب والإرشاد للباقلاني“ کے حوالہ اور آپ کے دیے گئے ”المعتمد لأبي الحسن البصري“ کے اس اقتباس سے بہرحال معلوم ہوا کہ ابن تیمیہ کا زیر بحث بیان شاید بعض اعتبار سے محلِ نظر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی تاویل وہی ہو جو پہلے عرض کی کہ ” إنما دخل هذا في كلام من تكلم في أصول الدين والفقه بعد أبي حامد“ شاید شدت وشیوع کے معنی میں ہے۔

حد ورسم اور منطقی تعریف کا اصطلاحی مفہوم

اور ابنِ تیمیہ کی عبارت پر ایک اور استدراک

ابن تیمیہ کی متعلقہ زیر بحث عبارت پر بحث کا دوسرا پہلو مغل صاحب کی طرف سے یہ اٹھایا گیا کہ تعریف کے حوالے سے جو بات شیخ ابن تیمیہ نے لکھی کہ یہ تمییز کے لئے ہوتی ہے نہ کہ بیان ماہیت و حقیقت کے لیے، منطقیین اسے حد اور رسم کا فرق کہتے ہیں اور یہ ان سے پہلے سے چلی آنے والی بات ہے۔ یہ بحث اس لئے پیدا ہوئی تھی کہ کیا کسی شے کی صفاتِ ذاتیہ کو تلاش کرلینا اور اس کا حصر ممکن ہے؟ جو لوگ اسکے عدم یا انتہائی مشکل ہونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک ہر تعریف بالاخر ”رسم“ ہوتی ہے، شیخ ابن تیمیہ نے اسی قول کو ترجیح دیا ہے۔ اسی طرح  مغل صاحب نے ا، ب، ج کی مثال دے کر شاید جامع اور مانع کی حقیقت کھولنے کی کوشش کی۔

اس پر عرض کروں گا کہ جہاں تک معاملہ ہے جامع اور مانع کے اصول کا تو یہی وہ بنیاد ہے جس پر میں نے اپنے اصل مضمون کی بنیاد رکھی تھی اور لکھا تھا کہ یہ درحقیقت ایک سنہری اصول ہے، لیکن کام تب خراب ہوتا ہے کہ جب اس کی تعمیل میں غلو برتا جاتا ہے کسی بے عیب تعریف کو تلاش کرنے کے لیے۔ اصل مضمون میں اسی پر ساری کلام کی گئی ہے۔

اس کے بعد آجائیےابن تیمیہ کی متعلقہ زیر بحث عبارت کی طرف تو اس پر یہ آپ حضرات کا دوسرا استدراک ہے اور ممکن ہے کہ یہ استدراک درست ہو، لیکن میری نظر میں اس پر بھی کچھ ”قیل و قال“ کی گنجائش موجود ہے، لیکن میں اس بحث میں زیادہ نہیں الجھوں گا اور نہ ہی میرے مضمون کا مدار ابن تیمیہ کی عبارات پر ہے۔ میں نے اپنا اصل مضمون ابن تیمیہ کی متعلقہ عبارات دیکھے بغیر ہی مکمل کیا تھا اور جیساکہ اصل مضمون کے اندر تصریح ہے، مضمون مکمل کرنے کے بعدابنِ تیمیہ کی کتاب ”الرد على المنطقيين“ کو کچھ دیکھنے کا موقع ملا تو اس کی چند مفید باتوں کا حوالہ دینے کے لیے مضمون کے اخیر میں صرف ایک آدھ ورقہ کا اضافہ کیا۔ مضمون میں اس سب کی تصریح موجود ہے۔

پورا مضمون سامنے نہ ہونے کی وجہ سے، محض اقتباسات سامنے آنے پر کچھ اشتباہات جو در اصل ابن تیمیہ کی عبارات سے متعلق تھے، بالواسطہ میرے مضمون سے متعلق بھی شاید پیدا ہوگئے۔ اصل مضمون دیکھنے سے وہ ان شاء اللہ رفع ہوں گے اور اس بات سے اتفاق کیا جائے گا کہ تعریف کے نام پر بے شک غلو ہوتا ہے اور چند مفید تجزیاتی ابحاث کو چھوڑ کر اس کا عملا کوئی موضوعاتی فائدہ نہیں ہے۔ (یہ مضمون ”الشریعہ“ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔) ہاں، تجزیاتی ابحاث اگر مفید ہیں تو ان کا محل ومقام کتاب کا آخری حصہ ہے، نہ کہ ابتدائی۔

راقم نے اپنے مضمون میں اگر کہیں ”منطقی تعریف“ کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ اس معنی میں نہیں کہ یہ بندہ ”حد ورسم“ کی منطقی اصطلاحات سے واقف نہیں اور اس لیے صرف ”حد“ کو منطقی تعریف کہہ کر ”رسم“ کےمنطقی تعریف ہونے کا انکار کر رہا ہے، نہیں۔ ”حد ورسم“ کا حوالہ تو خود میرے مضمون میں بھی موجود ہے، ”منطقی تعریف“ کا لفظ صرف ”بے عیب تعریف“ کے معنی میں اور ”مطلق تعریف“ کا لفظ باقی تعریفات کے لیے استعمال کیا۔ وجہ اس کی یہ کہ ”بے عیب تعریف“ کی تلاش کے لیے لفظی مناقشات کا انداز شاید منطقیوں سے ہی برآمد ہوکر اہلِ مذہب میں آیا ہے۔

غزالی کےمشہور قول ”فلا ثقة له بالعلوم كلها“ کا مفہوم کیا ہے؟

مینگل صاحب اور مغل صاحب نےاعتراف کیا کہ اگر چہ ہماری نظر میں منطقی تعریف کی طرز غزالی سے پہلے بھی ملتی ہے، لیکن یہ بات سچ ہے کہ جنس، نوع، فصل نیز صفات ذاتیہ وعرضیہ وغیرہ جیسی منطقی ترکیبات کے ذریعے اس منہج کو سنوارا اور اس میں گہرائی پیدا کی جسے لوگ اس کے بغیر پہلے سے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اسی مقصد کے لیے آپ نے منطق کے موضوع پر ”معیار العلم“ کتاب لکھی تھی۔ انہوں نے ہی مطقی قواعد کے لیے فقہی مثالوں اور اصولی باتوں کے لیے منطقی اصطلاحات کو استعمال کیا، انہوں نے پہلی مرتبہ ”المستصفی“ میں اسے تمام علوم کا مقدمہ قرار دیا اور یہاں تک لکھ دیا کہ جسے اس میں مہارت نہیں ہوگی ”فلاثقة له في العلوم كلها“یعنی اس کا کسی علم میں پایہ معتبر نہیں۔

اس پر راقم عرض کیا کہ امام غزالی کی بات غلط نہیں، درست ہے۔ منطقی طریق کار مفید ہی نہیں، شاید ضروری بھی ہے، لیکن یہ بات ہے منطقی طریقہ کار کی، نہ کہ منطقی اصطلاحات کی، کیا امام غزالی منطقی اصطلاحات کے بارہ میں بھی یہ کہتے ہیں کہ جو انہیں نہیں جانتا تو اس کا کسی علم میں پایہ معتبر نہیں؟ میرا نہیں خیال کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا ہو۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے میں ابنِ تیمیہ کا قول عرض کروں گا کہ منطق کا مفید حصہ تو آدمی کی فطرت اور جبلت میں موجود ومرکوز ہے اور ہر معقول آدمی منطقی طریقہء کار کو ان کی یونانی اصطلاحات سے مکمل ناواقفیت کے باوجود استعمال کرتا ہے، جبکہ غیر مفید حصہ کے لیے علم منطق کو زیادہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ راقم کی نظر میں ابن تیمیہ کی رائے کچھ اقوی معلوم ہوتی ہے۔

مغل صاحب نے لکھا کہ اصول واصطلاح وضع کرنے سے مقصود ان غلطیوں سے بچنا ہوتا ہے جو متعدد وجوہ کی بناء پر انسان عام طور پر کرجاتے ہیں۔ چنانچہ کسی شیء کے فطرت میں بالقوہ یا غیر منظم طور پر موجود ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی تدوین غیر ضروری یا غلو ہے۔ نیز ہر انسان میں یہ صلاحیت مساوی نہیں ہوتی کہ وہ غلطیوں پر نظر رکھ سکے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منطق پر نقد کے معاملہ میں آپ شیخ ابنِ تیمیہ سے متاثر ہیں ۔  عرض کیا کہ مطلق تدوین کو نہ تو میں نے غلو کہا اور نہ ہی غیر ضروری،  بلکہ اصطلاح کے جاننے کو ایک حد تک مفید کہا اور اصطلاح تدوین کے بغیر کیسے ہوسکتی ہے؟ ہاں، البتہ تدوین کے غلو اور اصطلاح جاننے کا سب کو پابند بنانے کے غلو پر ضرور نقد کیا اور اس میں کچھ برا نہیں۔ اگر اصطلاح جاننے کو  ضروری کہا جائے تو کیا علوم کا سارا کاروبار ٹھپ نہیں ہوجائے گا؟ کیا ہر علم سے پہلے منطق پڑھائی جاتی ہے اور اسے ناگزیر سمجھا جاتا ہے؟ کیا اصطلاح کا جاننا موقوف علیہ ہے؟ کیا جو نہیں جانتا، اس بے چارے کو واقعی ”لا ثقة له بالعلوم كلها“ کےکھاتے میں ڈالا جائے گا؟ کیا یہ رویہ کسی عام معقول آدمی سے بھی متصور ہوسکتا ہے کہ اسے غزالی جیسے عبقری کی طرف منسوب کیا جائے؟ اور میں خود کہاں ابنِ تیمیہ کی طرف کھڑا ہوں، میں کہہ رہا ہوں کہ اصطلاح کی تدوین اور اس کو جاننا شاید ایک حد تک مفید ہے، کیا ابنِ تیمیہ اس کے قائل ہیں؟

 

غزالی اپنے آخری مزاج کے اعتبار سے ایک متکلم  ہیں، منطقی، صوفی یا پھر کچھ اور؟

راقم نے لکھا کہ ایسی سطحی بات امام غزالی کی طرف کیسے منسوب کی جاسکتی ہے کہ وہ منطقی اصطلاحات سے واقفیت کو ایک امرِ ضروری سمجھتے ہوں اور اس کے بغیر کسی علم میں کسی کا پایہ معتبر نہ سمجھتے ہوں، جبکہ الٹا ہمیں ان کی تصانیف ”احیاء العلوم“ کے ”باب العلم“، ”الجام العوام“ اور ”المنقذ“ کے آخری حصہ جیسی چیزوں سے یونانیات کے بعض غالیانہ اسالیب  کا ان کے ہاں بالآخر قابلِ نفور ہونا شاید معلوم ہوتا ہےاور بے شک یونانیات کا ایک بڑا حصہ بہرحال قابلِ نفور ہے۔ وہ ان اسالیب کے غلو کو کیسے قبول کرسکتے ہیں جبکہ وہ فقہیات تک کے غلو پر ”احیاء العلوم“ میں شاید نقد کرتے نظر آتے ہیں۔ منطق کے بارہ میں ان کا بیان ”المنقذ“ کے اندر خاص طور پر قابلِ ملاحظہ ہے۔ ہاں، اگر وہ اصطلاحات کے علم کو بھی ضروری سمجھتے ہیں تو شاید یہ گذرے وقت کی یادگار ہے جب وہ اس طرح کی چیزوں کے غلو میں رہے ہوں۔

مینگل صاحب نے کہا کہ غزالی آخر تک منطق کے غلو میں رہے یا نہیں، اس سلسلہ میں آخری فیصلہ ”احیاء العلوم“ وغیرہ کی بناء پر نہیں، ”المستصفی“ کی بنیاد پر ہوگا کیونکہ غزالی نے خود المستصفی کے مقدمہ میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب احیاء العلوم کے بھی بعد لکھی گئی۔ وہ لکھتے ہیں: ”ثُمَّ أَقْبَلْتُ بَعْدَهُ عَلَى عِلْمِ طَرِيقِ الْآخِرَةِ وَمَعْرِفَةِ أَسْرَارِ الدِّينِ الْبَاطِنَةِ فَصَنَّفْتُ فِيهِ كُتُبًا بَسِيطَةً كَكِتَابِ “إحْيَاءُ عُلُومِ الدِّينِ” وَوَجِيزَةً كَكِتَابِ جَوَاهِرُ الْقُرْآنِ وَوَسِيطَةً كَكِتَابِ كِيمْيَاءُ السَّعَادَةِ. ثُمَّ سَاقَنِي قَدَرُ اللَّهِ تَعَالَى إلَى مُعَاوَدَةِ التَّدْرِيسِ وَالْإِفَادَةِ، فَاقْتَرَحَ عَلَيَّ طَائِفَةٌ مِنْ مُحَصِّلِي عِلْمِ الْفِقْهِ تَصْنِيفًا فِي أُصُولِ الْفِقْهِ أَصْرِفُ الْعِنَايَةَ فِيهِ إلَى التَّلْفِيقِ بَيْنَ التَّرْتِيبِ وَالتَّحْقِيقِ وَإِلَى التَّوَسُّطِ بَيْنَ الْإِخْلَالِ وَالْإِمْلَالِ عَلَى وَجْهٍ يَقَعُ فِي الْفَهْمِ دُونَ كِتَابِ ”تَهْذِيبِ الْأُصُولِ“ لِمَيْلِهِ إلَى الِاسْتِقْصَاءِ وَالِاسْتِكْثَارِ، وَفَوْقَ كِتَابِ ”الْمَنْخُولِ“ لِمَيْلِهِ إلَى الْإِيجَازِ وَالِاخْتِصَارِ.“ جبکہ منطق کے بارہ میں اپنا مشہورِ زمانہ بیان ”فلا ثقة له بالعلوم كلها“ انہوں نے اسی ”المستصفی“ میں لکھا ہے، لہذا ”احیاء العلوم“ وغیرہ کے کسی بیان کی روشنی میں ”المستصفی“ کے بیان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ نیز اسی ”المستصفی“ میں انہوں نے علم الکلام کو مرتبہ میں تمام علومِ دینیہ سے اعلی قرار دیا اور اسے علمِ کلی اور باقی تمام علوم کو اس کے مقابلہ علومِ جزئیہ قرار دیا۔

عرض کیا کہ شاید یہی وہ مخمصے ہیں جو ”غزالیات“ کے طالب علموں کو پیش آتے رہے ہیں کہ وہ غزالی کو اپنے آخری مزاج کے اعتبار سے اشعری کہیں، صوفی یا کچھ اور! میرے خیال میں ”المستصفی“ کے اقتباس نے یہ بات تو واضح کردی کہ واقعی ”احیاء العلوم“ پہلے لکھی گئی اور میں اسے تسلیم کرتا ہوں، لیکن اس سے یہ کہاں لازم آگیا ہے کہ وہ ”احیاء العلوم“ وغیرہ کے اپنے مزاج سے روگردانی کر رہے ہیں، آخر تطبیق  بھی تو ممکن ہے کہ ”المستصفی“ میں مذکور ان کا منطق کے حق والا بیان منطقی طریقہ کار کے حق میں ہو جسے ہمیشہ انسان جبلی اور فطری طور پر استعمال کرتا رہا ہے، نہ کہ منطق کے ایک اصطلاحاتی علم کے حق میں۔ آخر وہ کون معقول آدمی ہوگا جو منطق کے اصطلاحاتی علم کو جاننا اس قدر ضروری قرار دے جیساکہ سمجھا جارہا ہے؟ کیا جو لوگ ان اصطلاحات سے واقف نہیں، وہ منطقی طریقہ کار استعمال نہیں کرتے رہے؟ جب کسی متوسط معقولیت رکھنے والے آدمی سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تو غزالی جیسے عبقری کے بارہ میں اس کی توقع کرنا بھی غلط ہے۔ اس حوالہ سے ”المنقذ“ میں ان کا ”منطق“ بارے مذکور بیان قابلِ ملاحظہ ہے۔

پھر یہی معاملہ ”المستصفی“ میں مذکور ان کے ”علم الکلام“ والے بیان کا بھی ہے، اسے ”احیاء العلوم“،  ”المنقذ من الضلال“ اور ”إلجام العوام“ جیسی کتابوں میں مذکور ”علم الکلام“ بارے مذکور بیانات سے متصادم کرکے دیکھنے کی بجائے، تطبیق کے انداز میں دیکھنا چاہیے کہ ”المستصفی“ میں” علم الکلام“ سے ان کی مراد شاید محض ”علم الاعتقاد“ ہے، نہ کہ متکلمانہ ابحاث جو نبوی دعوت وپیغام کو کما حقہ بیان نہیں کرسکتے اور جن پر وہ خود اپنی دوسری تصانیف میں کلام کرچکے ہیں۔ میرے خیال میں ”غزالیات“ کے طالبِ علم اگر ان معاملات کو اسی طرح دیکھیں تو انہیں ان مخمصوں سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مغل صاحب نے میری ان تطبیقات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ” آپ جو تطبیق پیدا فرمارہے ہیں وہ اس لئے محل نظر ہے کیونکہ امام غزالی نے ”المستصفی“ میں صرف کوئی ایک آدھ عبارت نہیں لکھی جس کی کوئی توجیہہ کرلی جائے بلکہ امام صاحب نے ”المستصفی“ کا جو مبسوط (سو صفحات سے زائد) مقدمہ لکھا ہے وہ منطق کی اصطلاحات اور ساختیں وغیرہ ہی ہیں۔ امام صاحب کی کتب کی ترتیب سے واضح ہے کہ ”احیاء العلوم“ آپ نے 495 ھ تک مکمل کرلی تھی اور ”المستصفی“ تقریبا 503 ھ یا اس کے بعد لکھی، اور گمان غالب یہ ہے کہ یہ کتاب آپ نے ”المنقذ“ کے بھی بعد لکھی ہے۔ ویسے غزالی کی وہ کونسی عبارت ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انہوں نے منطق کو پسند کرنا چھوڑ دیا تھا وغیرہ؟ ”الجام العوام“ کو میں نے پڑھا ہے، اس میں علم کلام کی افادیت کو بھلے سے آپ نے کم ثابت کیا ہو مگر منطق پر ایسی بات میری نظر سے نہیں گزری۔“

عرض کیا کہ ”یہاں کچھ خلط مبحث ہورہا ہے اور بات طویل ہو جائے گی۔ ہمیں پہلے یہ واضح کرلینا چاہیے کہ منطق سے ہماری مراد محض منطقی طریقہ کار وطریقہء استدلال ہے یا پھر منطق کا مخصوص اصطلاحاتی علم۔ اگر منطقی طریقہء کار وطریقہء استدلال مراد ہے تو میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ غزالی نے کبھی اسے پسند کرنا چھوڑ دیا تھا، بلکہ الٹا خود لکھ چکا ہوں کہ یہ طریقہء کار تو مفید، ضروری اور ناگزیر ہے، بلکہ ہر معقول آدمی کے ہاں مستعمل ہے اور خود قرآن بھی تو غضب کا منطقی استدلال ہی پیش فرماتا ہے۔

تاہم اگر ہماری مراد منطق کا مخصوص اصطلاحاتی علم تھا اور بے شک یہی ہی تو زیر بحث تھا تو یہ بات درست ہے کہ میں نے اس کے غلو کو غزالی کے ایک گزرے دور کی یادگار کہا، لیکن کیا ایک دعوی کی صورت میں یا پھر امکان کی حد تک؟ اگر آپ امعانِ نظر سے میری عبارت اور اس متعلقہ پیراگراف کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ”شاید، شاید“ کے تکرار کے ساتھ کہی گئی محض ایک امکانی بات تھی اور اس پر کتابوں کا حوالہ بھی محض امکان کی حد تھا۔ یعنی عبارت کچھ یوں تھی کہ یہ غلو ”شاید“ گذرے دور کی یادگار ہو اور اسے سمجھنے کے لیے ”شاید“ فلاں فلاں کتابوں میں مذکور ان کے مزاج سے مدد لی جاسکے۔

اس کے بعد آجائیے غلو کی طرف کہ میری مراد غلو سے کیا تھی؟ کیا منطقی اصطلاحات کو استعمال کرنے کا غلو یا پھر دوسروں کو ان اصطلاحات کے استعمال کا پابند بنانے کا غلو؟ میرے خیال میں خود استعمال کرنے کا غلو تو میری مراد نہ تھا، بلکہ دوسروں کو ان کے استعمال کا پابند بنانے کا غلو ہی مراد تھا کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ ”فلا ثقة له بالعلوم كلها“ جیسے اقوال کے ساتھ دوسروں کو منطقی طریقہء کار کا ہی نہیں، منطقی اصطلاحات کا بھی پابند بنارہے ہیں تو یہ شاید گزرے دور کی یادگار ہو۔ جبکہ مجھے تو خود اسی بات میں ہی تامل ہے کہ وہ کبھی اس غلو میں رہے ہوں، بلکہ سرے سے اس کو مانتا ہی نہیں ہوں۔ جواب صرف ایک فرضیہ کا تھا شاید۔

باقی آپ نے ”المستصفی“ کی مثال پیش کی کہ وہ منطقی اصطلاحات کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ وہ ان کو استعمال کرنے کے مزاج کے حامل رہے شاید اخیر تک اور ظاہر ہے کہ باتوں کو بیان کرنے کے جس انداز کے وہ شروع سے عادی تھے، اسی کو ہی انہوں نے اب بھی اختیار کرنا تھا، لیکن یہ کیسے ثابت ہوگا کہ وہ ”فلا ثقة له في العلوم كلها“ جیسے اقوال کے ساتھ دوسروں کے لیے بھی ان اصطلاحات کے استعمال کو ضروری اور موقوف علیہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ ہے میرا مدعا۔

پہلے عرض کیا کہ اصطلاحات کے استعمال کو منطقی طریقہء گفتگو کے لیے ضروری قرار دینے کی غلطی تو کوئی متوسط درجہ کا معقول آدمی بھی نہیں کرسکتا، کجا یہ کہ غزالی جیسا عبقری۔ ”الجام العوام“ اور ”احیاء العلوم“ کا حوالہ صرف ایک مزاج بتانے کے لیے دیا کہ فرض کیجیے، اگر کسی زمانہ میں دوسروں کو اصطلاحاتی منطق کا پابند دیکھنے کا غلو رہا بھی ہو تو ان کتابوں میں نظر آنے والے مقصدیت پسند مزاج کے پیدا ہونے کے بعد وہ باقی نہیں رہا ہوگا کیونکہ جب وہ فقہیات کے غلو پر ”احیاء العلوم“ میں تنقید کر رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ منطقی اصطلاحات جیسی ثانوی چیز کو ضروری قرار دینے کے غلو میں مسلسل مبتلا رہےہوں، ہاں، ذاتی اسلوب گفتگو کی حد تک بات الگ ہے، یہ ان کا محض اپنا مزاج ہے۔

باقی رہی بات عبارت کا حوالہ دینے کی تو ”المنقذ من الضلال“ میں ”اما المنطقیات“ کے تحت جو گفتگو کی ہے، اسے دیکھ لیا جائے، اس سے بہرحال اس بات کی صراحتا تائید بھی ہوتی ہے کہ وہ یونانی منطقی اصطلاحات پر انکار کرنے سے روکتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف لفظ وتعبیر کا فرق ہے، ورنہ اصل منطقی طریقہ استدلال تو پہلے سے موجود ہے۔ یعنی منطق کے غلو میں آکر منطقی اصطلاحات کو اب علمی گفتگو کا ”موقوف علیہ“ نہیں ٹھہراتے، بلکہ ان کے بغیر پہلے سے اس انداز کی موجودگی کو تسلیم کرنے کی ہی محض بات کرتے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ شاید ”المنقذ“ کو ”المستصفی“ سے پہلے لکھا گیا تو میں اس امکان کو تسلیم کرتا ہوں، لیکن دوبارہ کہوں گا کہ جب تک تطبیق کا دروازہ کھلا ہے، تعارض کی طرف جانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟“

 

گرائمر اور اصولِ فقہ  کے قواعد  کی غالیانہ تدوین پر نقد

منطقی طریق کار مفید ہی نہیں، شاید ضروری بھی ہے، لیکن جیساکہ ابن تیمیہ نے لکھا، منطق کا مفید حصہ تو آدمی کی فطرت اور جبلت میں موجود ومرکوز ہے، جبکہ غیر مفید کے لیے علم منطق کو زیادہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ابن تیمیہ کی رائے کچھ اقوی معلوم ہوتی ہے۔ جب یہ لکھا تو زاہد صدیق مغل صاحب نے لکھا: ”شیخ کا منطق کو اس بنیاد پر غیر ضروری قرار دینا کہ یہ تو ہر شخص کی فطرت میں شامل ہے، ہلکے سے ہلکے الفاظ میں اسے منطقی بد ذوقی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہی استدلال پھر لغات کی گرائمر کے خلاف بھی لایا جاسکتا ہے، بلکہ اصول فقہ کے بھی۔“

اس پر عرض کیا کہ لغات کی گرائمر اور اصول فقہ کی بھی غالیانہ تدوین پر اعتراض اٹھنے میں آخر کیا حرج ہے، ان کے اندر ہونے والے مناقشات کا قدر ضرورت سے بڑھ کر حد غلو میں چلے جانا اور سلف کا ان پر کچھ نکتہ چینی کرنا جو شاطبی وغیرہ نے ”الاعتصام“ وغیرہ میں نقل کیا، نیز ائمہ احناف کا اصول فقہ کو مدون کیے بغیر فقہ پر کام کرنا، ان چیزوں کی اصل حیثیت کو بہرحال بیان کرتا ہے جو عموما غلو میں آکر نظر انداز ہوجاتی ہے۔ اصطلاح کا جاننا کسی درجہ میں مفید ہوسکتا ہے، ناگزیر نہیں اور ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ ہمارا نصاب کچھ عرصہ پہلے تک اس معاملہ میں کچھ متشددانہ پیرائے کا اظہار کرتا رہا ہے۔ منطق کی مفید اصطلاحاتی واقفیت کے لیے زیادہ سے زیادہ ”ایساغوجی“، بلکہ اس کی تلخیص یا پھر بہت ضروری ہو تو ”مرقات“ تک پڑھا دینا کافی ہے۔

ایک بھائی نے لکھا کہ ”میری تو اتنی حیثیت نہیں کہ ان پر تنقید کروں ، میرا مطالعہ اتنا مضبوط نہیں، غالبا آپ کا ہوگا۔ البتہ ان موشگافیوں کا بظاہر زندگی میں کوئی ظاہری فائدہ نظر نہیں آتا۔“ عرض کیا کہ ”میری بھی کوئی حیثیت نہیں اور نہ اپنی طرف سے کوئی بات کہی، بس ایک مزاج ابن سیرین وغیرہ کا، ائمہ احناف کا اور ابن تیمیہ کا بتایا کہ ان جبلتی چیزوں میں مناقشات بڑھ جائیں تو شاید یہ قریب قریب بدیہی حقائق بدل کر نظری دقایق سے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مطلق تدوین پر اعتراض نہیں، متاخرین میں اور مدرسانہ اسالیب میں آکر جو ذرا غلو سا پیدا ہوا، اس پر نکتہ چینی کی جسارت کی۔“

یہاں پر اپنے ایک عالم دوست حافظ محمد عبد الرافع کے ساتھ ہونے والے مکالمہ کا حوالہ دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں۔ انہوں نے لکھا کہ ”خیر اب تو لوگوں کو یہ میسر ہی نہیں کہ وہ ایک موضوع کی دس دس تعریفیں پڑھیں، سمجھیں یا پڑھائیں، مگر بنیادی طور پر میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ منطقی طریق کار بہر حال مفید ہے اور تشحیذ اذہان کوئی برا مقصد نہیں بلکہ قابل تعریف ہے۔ پوری بحث کو دیکھنے سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ آپ کے نزدیک تعریفی گتھم گتھیاں یا بلکہ اس طرح سے بال کی کھال اتارنا حلاوت ایمان اور لذت ایمان کے منافی ہے۔ شاید ایسا ہو بھی مگر ضروری نہیں۔ اس لئے کسی بھی موضوع کو پڑھانے کے مختلف طرق مروج رہے ہیں اور یہ ذوق ذوق کی بات ہے۔ بات صرف منطق کی نہیں منطقی طریق کار اور سوچ کا ہے۔ جو لوگ اس طریق کار کے حامی ہیں بظاہر ان کے اندر یہ خلق آنا چاہئے کہ ایک دوسرے کی بات کو ڈھنگ سے سنیں، اپنے نکتہ نظر میں بہتری کی گنجائش رکھیں ۔ ایسے نکتہ نظر کو مسترد کرنا جائز ہے مگر پھر اسی آسان فہمی کے چکر میں بہتوں نے فقہ کو بھی مسترد کیا، اجتہاد میں قیاس کو بھی۔ روایت کو بھی اور عقائد میں غلو بھی کیا۔۔۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ تدریسی مناہج بہت ہیں، مقصد فیصلہ کریگا کہ کس کے لئے کونسا منہج بہتر ہے۔“

اس پر عرض کیا کہ ”تعریفاتی مناقشات پڑھنا بالکل میسر ہے اب بھی، مدارس میں بھی اور عصری تعلیم کے اداروں میں بھی، آپ توضیح وتلویح کی مدرسی مثال کے علاوہ معاشیات اور صحافت کی درسی کتابیں مثلا دیکھ لیں۔ باقی منطقی طریق کار مفید ہی نہیں، شاید ضروری بھی ہے، لیکن یہ طریقہ کار انسان کی جبلت میں موجود ہے، منطقی اصطلاحات کا سہارا لینا ضروری نہیں، باقی آسان فہمی کے چکر میں فقہ و اجتہاد کی نفی منظور نہیں، لیکن فقہ و اجتہاد کے چکر میں نبوی دعوت وپیغام کو پہیلی بناکر پیش کرنا بھی تو درست نہیں۔ مغلق گفتگو کا غلو بعض اوقات ادھر لے جاتا ہے انسان کو شاید کہ وہ نبوی دعوت وپیغام کو کوئی علمی دریافت سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ آپ نے صحیح کہا کہ بات منطق کی نہیں، منطقی طریقہ کار کی ہے۔ مسئلہ یہی کہ جنہیں توضیح وتلویح کے تنقیدی مناقشات پسند ہیں، وہ خود توضیح وتلویح پر ذرا سی تنقید پڑھ سن کر متشوش کیوں ہوگئے۔ باقی تعریفی گتھم گتھیاں صرف حلاوت ایمان کے منافی نہیں، اگر شروع میں پڑھائی جائیں تو تعلیمی نکتہء نظر سے بھی مفسد ہیں۔ بس کسی بھی اچھی تعریف کی کچھ نوک پلک سنوار کر ابتداء میں بس اس پر کفایت کرنی چاہیے۔“

مفتی انس بندیالوی کے جواب میں لکھا کہ ” فلسفیانہ طرز کا مصنوعی انداز گفتگو بعض اوقات آدمی میں مصنوعیت بھی پیدا کردیتا ہے اور آدمی قرآن کے فطری اسلوب دلیل کو کماحقہ سمجھنے ”جوگا“ نہیں رہتا، چنانچہ علم الکلام کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ آخر بڑے بڑے متکلمین بالآخر یوں ہی تو اس راہ کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اسلام ”الحق المبین“ یعنی واشگاف حق بن کر آیا ہے۔ ماضی کے متکلمین کے مصنوعی طرز گفتگو اختیار کرنے کی صرف یہی ایک وجہ قابل فہم ہوسکتی ہے کہ جو آدمی اسی انداز گفتگو کا عادی ہے تو اسے اس کے انداز میں سمجھانے کی چلیے کوشش کرلی جائے۔ عمومی انسانیت کے لیے اس انداز کو موقوف علیہ بنانا ناقابل فہم ہے۔“ مغل صاحب کے جواب میں لکھا کہ ”کیا انبیاء پہیلیاں لے کر آتے تھے، ہمیں عقیدہ واصول کی حد تک کم از کم یہ بات پورے شرحِ صدر کے ساتھ مان لینی چاہیے کہ اسے آسان ہدایت کے انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، البتہ یہ بات کسی حد تک قابلِ تسلیم ہے کہ مناقشات میں جاکر بعض اوقات گفتگو میں کچھ علمی ثقل کی سی کیفیت بعض اوقات محسوس ہونے لگتی ہے جسے دور کرنے اور معاملہ کو آسان رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے، ”یسر“ کوئی عیب نہیں ایک خوبی ہے، لیکن انبیاء کا بنیادی پیغام ایک نکلے ہوئے سورج کی طرح واضح حقیقت ہے۔“

————————————————————————————-

مولانا محمد عبد اللہ شارق، مرکز احیاء التراث ملتان کے ڈائریکٹر اور دینی علوم کے  استاذ ومحقق ہیں۔ mitmultan@gmail.com

 

مولانا محمد عبد اللہ شارق

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں