مسلم تاریخ میں اسماعیلیوں نے ڈھائی سو سال سے زائد مشرقی افریقہ یعنی المغرب اور بعد میں مصر میں حکومت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسماعیلیوں ہی کی ایک اور شاخ نے ایران کے کچھ علاقوں میں بھی حکومت قائم کی۔ عطاء الملک جوینی جو کہ ہلاکو خان کے ملازم تھے اور صاحب علم و فضل اور مؤرخ تھے نے “تاریخ جہاں گشائی” کے نام سے تین جلدوں پر کتاب لکھی۔ جس کی تیسری جلد اسماعیلیوں کی تاریخ سے متعلق ہے۔ اس جلد کا ترجمہ پروفیسر علی محسن صدیقی صاحب نے تاریخ اسماعیلیہ کے نام سے کیا ہے جس کو ادارہ قرطاس نے شائع کیا ہے.
اس کتاب کی پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ اس کا لکھنے والا اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جب اسماعیلیوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ، پھر فتح کی صورت میں جوینی کی دسترس ان کتابوں اور مخطوطات پر ہوئی جو اسماعیلی مذہب اور اس کی تاریخ کے حوالے سے اہمیت کے حامل تھے۔ اس سے قبل اسماعیلی مذہب کے بارے میں علماء پردے میں تھے۔
اس کے علاوہ کتاب کے مترجم پروفیسر علی محسن صدیقی مرحوم جو کہ تاریخ کے حوالے سے ایک مستند نام تھے۔ اس ترجمے کے ساتھ پروفیسر صاحب کا مقدمہ اور حاشیے نے اس کتاب کی اہمیت اور وقعت کو اور بڑھا دیا ہے۔ متعدد مقامات پر جہاں جوینی کی باتیں دوسرے تاریخی حقائق کے خلاف ہیں پروفیسر علی محسن صدیقی صاحب نے ان کی نشاندھی کرکے درست معلومات فراہم کی ہیں۔ اس کے ساتھ جن شخصیات کا جوینی نے فقط ذکر کیا ہے ان کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے جس سے قاری کو اس کردار کے متعلق بھی شناسائی ہو جاتی ہے.
پروفیسر علی محسن صدیقی صاحب نے مصنف جوینی کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا خاندان سلاجقہ ، خوارزم شاہی اور منگولوں کے زمانہ اقتدار میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہا۔بلکہ جوینی کے خاندان میں سے لوگ اس سے قبل بنو عباس کے دور میں بھی سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ جوینی کے آباؤ اجداد میں سے ربیع بن یونس مہدی عباسی کے دور میں وزیر خاص تھے۔ان کا بیٹا فضل بن ربیع بھی مہدی، ہادی اور ہارون الرشید کے دور میں سرکاری عہدوں پر رہے۔جوینی کا تعلق اس لحاظ سے پڑھے لکھے خاندان سے تھے اور ان کا خاندان برسوں سے بیوروکریسی کا حصہ تھے۔ خود جوینی کی تحریریں اس کے وسعت مطالعہ کا پتہ دیتی ہیں۔ جس طرح اس نے اپنی کتاب میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا سہارا لیا ہے یہ اس کی مذہبی علوم پر گرفت کا پتہ دیتی ہیں۔ جوینی نے منگولوں کے ہاں ملازمت کی اور منگولی امیر ارغون کے دربار سے وابستہ رہے۔ منگولوں کے درمیان رہنے سے ان کو منگولوں کی معاشرت ، سیاست اور تہذیب کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ امیر ارغون کے بعد جوینی ہلاکو خان کے بھی قریب رہے اور اسماعیلی علاقوں کی فتوحات میں وہ ہلاکو کے شریک سفر رہے۔ سقوط بغداد کے بعد جوینی کو عراق کا حاکم بنایا ۔ ان کی گورنری مسلمانوں کے حق میں مفید ثابت ہوئی انہوں نے کئی فلاحی ادارے قائم کیے اور ساتھ ہی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مزار کی ازسرنو تعمیر و مرمت کروائی۔ وہ تباہی جو منگولوں کے ہاتھوں آئی اس میں کمی لانے کی جوینی نے کامیاب کوشش کی۔ پروفیسر صدیقی صاحب نے اپنے مقدمے میں یہ بھی لکھا کہ عطاء الملک جوینی اور ان کے برادر بزرگ خواجہ شمس الدین محمد کی مساعی سے منگول حاکم تکودار نے اسلام قبول کیا۔ تکودار کے خلاف منگولوں ہی نے بغاوت کی اور بعد میں تکودار کو اقتدار سے باہر کیا اور جوینی کے بھائی خواجہ شمس الدین محمد کو قتل کرا دیا گیا۔ جبکہ جوینی کا اس بغاوت سے پہلے ہی ۶۸۱ ہجری میں تین سال پہلے انتقال ہو چکا تھا۔
پروفیسر صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جوینی سقوط بغداد کا عینی شاہد تھا۔ اور اس واقعے کے بعد بھی وہ تقریباً چھبیس سال زندہ رہا مگر اس نے اس اہم واقعے کے بارے بالکل خاموشی اختیار کی اور کچھ نہ لکھا، عینی شاہد ہونے کے ناطے اگر وہ اس حادثے پر کچھ لکھتا تو وہ ایک مستند اور معتبر دستاویز ہوتی مگر شاید حکومتی ذمہ داریوں اور سازشوں کی وجہ سے وہ اس جانب متوجہ نہ ہوسکا۔ البتہ تاریخ جہاں گشائی کے بعض نسخوں میں خواجہ نصیرالدین طوسی کا سقوط بغداد کے حوالے سے ایک ضمیمہ بھی موجود ہے۔ طوسی کو بغداد کی بربادی کا براہ راست ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے تو اس کا بیان بھی لائق مطالعہ ہے۔ اس ضمیمے کو پروفیسر صاحب نے طوسی کا عذر گناہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ پہلا ضمیمہ جوینی کا اپنا تحریر کردہ ہے جس میں اختصار کے ساتھ الموت کی فتح کے بارے میں لکھا ہے۔ جبکہ دوسرا ضمیمہ رشید الدین فضل اللہ کا ہے جس میں ملاحدہ کے استیصال کے بارے میں مزید معلومات ہیں اور تیسرا ضمیمہ خواجہ نصیرالدین طوسی کا ہے۔ پروفیسر علی محسن صدیقی صاحب نے دوسرے اور تیسرے ضمیمے پر بھی حواشی لکھے ہیں۔ جو کہ اس کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔
جوینی نے سب سے پہلے اسماعیلی شیعوں کی ابتداء کا ذکر کیا کہ یہ کس طرح باقی شیعوں سے الگ ہوئے۔ یعنی حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی امامت تک یہ اثناء عشری شیعہ سے متفق ہیں۔ حضرت جعفر صادق کے بڑے بیٹے جناب اسماعیل رحمہ اللہ تھے جن کا والدہ کی طرف سے نسب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ جبکہ ایک اور بیٹے جناب موسیٰ کاظم رحمہ اللہ تھے یہ ام ولد تھے۔ اسماعیلیوں کا دعویٰ ہے کہ امامت جناب اسماعیل کو ملی کیونکہ وہ بڑے بیٹے تھے اور امامت بڑے بیٹے کا حق ہے جبکہ اثناء عشری شیعہ کہتے ہیں کہ جناب اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں انتقال کر گئے تھے اس لیے امامت جناب موسیٰ کاظم رحمہ اللہ کے پاس گئی۔ اسماعیلیوں میں سے کچھ کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ جناب اسماعیل کا انتقال حضرت جعفر صادق کے بعد ہوا۔ جبکہ کچھ شیعہ (اثناء عشری) کے نزدیک اسماعیل شراب نوشی کے مرتکب ہوئے جس کی وجہ سے وہ امامت سے معزول ہو گئے، اس کے جواب میں اسماعیلیوں کا کہنا ہے کہ ان کی شراب نوشی امامت کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ جناب اسماعیل رحمہ اللہ کی جانب شراب نوشی کا الزام جوینی نے شیعہ کے حوالے سے نقل کیا ہے مگر موجودہ دور میں شاید شیعہ اس الزام کا ذکر نہیں کرتے۔ اسماعیل کے بعد ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کو امامت ملی یہ اپنے چچا جناب موسیٰ کاظم رحمہ اللہ سے عمر میں بڑے تھے۔ اسماعیلیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ خراسان میں روپوش ہوگئے اور خفیہ طور پر اسمعیلیت کی تبلیغ جاری ہوئی۔ یہ سندھ بھی آئے اور یہاں بھی اسمعیلیت کو پھیلایا گیا۔ اس حوالے سے اسمعیلی داعیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ جبکہ حضرت اسماعیل رحمہ اللہ کے دوسرے بیٹے علی بن اسماعیل سیاسی و حکومتی معاملات سے دور تھے تو بنو عباس کی حکومت نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کی نسل شام میں موجود ہے۔ جبکہ محمد بن اسماعیل کے سیاسی عزائم بھی تھے اس وجہ سے ان کو روپوش ہونا پڑا۔ اسمعیلی داعیوں کے زور پر اسمعیلیت کو فروغ ملا مختلف علاقوں میں ان کے گروہ ظاہر ہوئے۔ ان کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ دنیا امام سے خالی نہیں ہوتی اور ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ شریعت کا ایک ظاہر ہوتا اور ایک باطن، اصل باطن ہوتا ہے جو اس سے واقف ہو جائے تو اس کو ظاہر شریعت کی مخالفت نقصان نہیں دیتی۔ اس وجہ سے ان کو باطنیہ قرار دیا گیا۔ ان ہی اسمعیلیوں میں سے قرامطہ کا ظہور ہوا جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان کے مال و اسباب لوٹ لیے۔ یہ عباسی خلیفہ معتمد کے زمانے ۲۷۸ ہجری میں ظہور پذیر ہوئے ۔ یہ کعبہ مقدسہ سے حجر اسود اکھاڑ کر کوفہ لے گئے اور اس کو بائیس سال پاس رکھا۔ یہاں جوینی نے دو تاریخی غلطیاں کیں ہیں جن کو حاشیہ میں پروفیسر صاحب نے درست کیا ہے، جوینی نے مدت بائیس سال کی بجائے پچیس لکھی ہے اور یہ لکھا ہے کہ قرامطہ نے حجر اسود کو کوفہ میں پھینک دیا جس کو مسلمانوں نے اٹھا کر دوبارہ نصب کیا جبکہ حقیقت میں قرامطہ نے پھینکا نہیں تھا بلکہ خود ہی اس کو بعد میں کعبہ مقدسہ میں نصب کیا۔
اسمعیلی داعیوں کی کوشش یمن اور افریقہ میں سب سے زیادہ کامیاب ہوئیں افریقہ میں ان کے لیے اقتدار کی راہ بھی ہموار ہوئی ۔ ابوالقاسم ابن حوشب نامی داعی نے یمن میں اسمعیلی دعوت کو فروغ دیا، ابوالقاسم ابن حوشب کی دعوت میں شامل ایک اہم نام ابو عبداللہ صوفی محتسب تھا جو افریقہ میں آباد کتامہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔اس پر پروفیسر صاحب نے حاشیہ میں بتایا کہ ابو عبداللہ الشیعی صوفی کا تعلق کوفہ یا صنعائے یمن سے تھا اس کا کتامہ قبیلے سے تعلق نہیں تھا۔یہ ۲۸۰ ہجری میں افریقہ پہنچا اور سولہ سال میں اس نے وہاں حکومت قائم کر دی۔ اس نے بنی اغلب کو شکست دی۔ اس نے حکومت عبیداللہ مہدی کے سپرد کر دی۔ عبید اللہ مہدی اپنا نسبی تعلق محمد بن اسماعیل سے بتاتا تھا۔ اس وجہ سے ان کو بنو فاطمہ کہا گیا۔ ابو عبداللہ الشیعی صوفی کا کردار فاطمی سلطنت قائم کرنے میں بالکل ایسا ہے جیسے ابو مسلم خراسانی کا عباسی سلطنت قائم کرنے میں ہے۔ عبید اللہ مہدی جو پہلے اپنے آپ کو مہدی کا نائب کہتا تھا اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد اس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ عبید اللہ مہدی کے بارے میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ واقعی وہ جناب محمد بن اسماعیل کی اولاد میں سے تھا۔اسماعیلیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ محمد بن اسماعیل کی چوتھی نسل سے تھا۔ اس بارے میں مورخین کی آراء بھی منقسم پائی ہیں۔ خود جوینی کو بھی اس کے نسب پر یقین نہیں ہے۔ اس وجہ سے کچھ مورخین اس حکومت کو فاطمی سلطنت کی بجائے عبیدی سلطنت کہتے ہیں۔ عبیدی سلطنت ۲۹۷ ہجری میں قائم ہوئی ، اس کا پہلا مرکز قیروان تھا۔ عبیداللہ مہدی نے حکومت قائم ہونے کے بعد مذہبی آزادی کا اعلان کیا۔ اس وجہ سے اور حکومتی امور میں مداخلت کی وجہ سے ابو عبداللہ الشیعی اور عبید اللہ مہدی میں اختلافات ہو گئے۔ ابو عبداللہ الشیعی نے اپنے بھائی یوسف کے ذریعے عبید اللہ مہدی کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تو عبید اللہ نے اس کو کچل کر ابو عبداللہ الشیعی اور یوسف کو قتل کروا دیا۔
عبید اللہ مہدی کے بعد اس کا بیٹا قائم حکومت میں آیا تو اس وقت ابویزید نامی ایک شخص نے بغاوت کی۔ جوینی نے ابو یزید کو سنی المذہب لکھا ہے جبکہ پروفیسر صاحب نے حاشیے میں تصیح کر کے بتایا کہ ابو یزید سنی نہیں خارجی تھا۔ قائم کو کئی مقامات پر ابو یزید سے شکست ہوئی اور اس بغاوت کو وہ نہ کچل سکا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے جانشین اور بیٹے المنصور کے عہد میں ابو یزید کو شکست ہوئی۔ المنصور کے بعد اس کے بیٹے المعز کا دور قابلِ ذکر ہے۔ اس میں عبیدی سلطنت کی توسیع ہوئی اور مصر پر ان کا قبضہ ہو گیا، مصر المعز کے ایک کمانڈر ابوالحسن جوہر کے ہاتھوں فتح ہوا۔ جوہر کو جوینی نے المعز کا غلام لکھا ہے۔ المعز کے دور میں قاہرہ شہر کی بنیاد رکھی گئی ۔ جامعہ ازہر بھی اس عہد کی یادگار ہے۔المعز کے عدل و انصاف کا جوینی نے ذکر کیا ہے، نیز اس کی شجاعت اور صاحب تدبیر ہونے کو بھی ذکر کیا ہے۔ المعز کے بعد اس کا بیٹا العزیز ابو المنصور کا دور شروع ہوا۔ اس کو بھی جوین نے بردبار اور نیک سیرت آدمی لکھا ہے۔ العزیز نے اپنے دور میں عیسائی اور یہودیوں کو حکومتی مناصب دئیے جس کو رعایا نے ناپسند کیا۔
العزیز کے بعد اس کا بیٹا حاکم خلیفہ ہوا۔ یہ عبیدی سلطنت کا ایک عجیب کردار ہے۔ اپنے باپ کے برعکس اس میں طیش و جنون تھا۔ اس نے اہل مصر پر بہت ظلم کیے۔ یہ راتوں کو شہر میں گھومتا تھا۔ اس نے بوڑھی عورتوں کو گھریلو خواتین کی جاسوسی کے لیے رکھا ہوا تھا ۔ اس بہانے اس نے کئی عورتوں کو قتل کروایا۔ اس کی اپنی موت پراسرار طریقے سے ہوئی جس میں اس کی بہن ست المک اور اس کے سپہ سالار ابنِ دواس نے ملکر اس کو قتل کروایا ۔ اس کی موت کو خفیہ رکھا گیا۔ اس کے مرنے کے بعد ست المک کے ہاتھوں اقتدار تھا مگر حاکم کے بیٹے الظاہر باللہ کو خلیفہ بنایا گیا۔ الظاہر بس نام کا خلیفہ تھا اصل حکومت اس کی پھوپھی ست المک کی تھی۔ ست المک نے ان تمام لوگوں کو قتل کروا دیا جو حاکم کے قتل میں شریک تھے۔ الظاہر باللہ کا اپنا اقتدار ست المک کی موت کے بعد شروع ہوا۔ ظاہر باللہ کے بعد اس کا سات سالہ بیٹا مستنصر باللہ حاکم ہوا ۔ یہ بھی دیوانگی اور کم عقلی میں مشہور تھا۔ یہ ایک طرف انتہاء کا فضول خرچ جبکہ دوسری طرف انتہاء کا کنجوس بھی تھا۔ اس نے اپنی کنجوسی کے باعث اپنی فوج کی تنخواہیں تک ادا نہ کیں۔ مستنصر باللہ نے ساٹھ سال حکومت کی۔
مستنصر باللہ کے بعد اس کے دو بیٹوں میں حکومت کی وجہ سے لڑائی ہو گئی، بڑا بیٹا نزار جبکہ چھوٹا مستعلی تھا۔ یہاں سے اسمعیلیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ نزار کو ماننے والے نزاری کہلائے، آج کے آغا خانی اسی نزار کو اپنا پیشوا مانتے ہیں جبکہ بوہرہ جماعت مستعلی کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ جوینی نے لکھا ہے کہ نزاریوں پر الحاد کا الزام لگا جبکہ مستعلوی ظاہر شریعت کے پابند ہیں ۔ یہ فرق آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بوہرہ جماعت میں شریعت کی پابندی آغا خانی جماعت سے زیادہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرق اس وقت سے قائم ہے۔
نزار اور مستعلی کی جنگ میں مستعلی کو فتح ہوئی۔جس میں نزار اور اس کے دونوں بیٹوں کو قید کیا گیا، یہ تینوں اپنی موت تک قید رہے۔ نزاریوں کا دعویٰ ہے کہ نزار کا ایک اور بیٹا جو امام کا نام رکھتا تھا پر مستعلی کی فوجیں قابو نہ پا سکیں۔ ان لوگوں نے پھر ایران میں حکومت قائم ہوئی۔ اس کا ذکر جوینی نے الگ سے کیا ہے۔
مستعلی کے بعد اس کا بیٹا ابو علی منصور حاکم ہوا تو نزاریوں نے اس کو مار ڈالا۔ ابو علی منصور کی اولاد نہیں تھی لہذا اس کا چچا ابوالمیمون حاکم ہوا۔ اس نے الحافظ کا لقب اختیار کیا۔ اس کے بعد بھی دو تین نسلوں تک تھوڑے تھوڑے عرصے میں اس خاندان سے حاکم آتے رہے ان کا آخری حاکم العاضد تھا۔ اس کے دور میں مصر پر صلیبیوں کے حملے بھی شروع ہو گئے،پہلے انہوں نے صلیبیوں سے صلح کی، بعد میں انہوں نے شام کے حاکم نور الدین زنگی سے مدد طلب کی، نور الدین زنگی نے حمص کے گورنر شیرہ کو کو مصر کی حفاظت کے لیے بھیجا۔ شیرہ کو کے ساتھ اس کا بھتیجا صلاح الدین ایوبی بھی تھا۔ جلد ہی عاضد کے وزیر شاور اور شیرہ کو میں فوج کے اخراجات کی وجہ سے عداوت پیدا ہو گئی۔ شاور نے شیرہ کو کو قتل کرنے کی کوشش کی جس کو صلاح الدین ایوبی نے ناکام بنا دیا۔ شاور کو قتل کر دیا گیا۔ عاضد نے شیرہ کو کو وزارت کا منصب دیا، مگر تین ماہ بعد شیرہ کو کا انتقال ہو گیا، تو شیرہ کو کے بھتیجے صلاح الدین کو یہ منصب ملا۔ عاضد کے مرنے پر صلاح الدین ایوبی نے مصر کو اپنے قبضے میں لے لیا، اور عاضد کے خاندان کو قید اور بعد میں سزائے موت دے دی۔ یوں ۵۶۷ ہجری میں اس سلطنت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ اسمعیلی حضرات اس لیے صلاح الدین ایوبی کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کو محسن کش قرار دیتے ہیں کہ اس نے اپنے محسن عاضد کے خاندان کو ختم کیا۔ دراصل اس میں کچھ معاملہ مذہبی بھی تھا۔ صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی سنی العقیدہ تھے جبکہ عبیدی اسماعیلی تھے۔ سیاسی لحاظ سے زنگی عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھتے تھے جبکہ عبیدی آزاد اور اپنے نام کا خطبہ پڑھتے تھے ۔
عبیدی سلطنت کے بارے میں پروفیسر علی محسن صدیقی نے لکھا ہے کہ یہ لوگ علم کے مربی تھے، انہوں مذہب و تمدن کو فروغ دیا۔ اس حوالے سے ان کا دور عباسیوں کے دور سے کم نہیں ہے۔
نزار بن مستنصر باللہ کے ماننے والوں میں ایک بڑا نام حسن بن صباح کا تھا۔حسن بن صباح پہلے اثناء عشری شیعہ تھا اس کے ایک اسماعیلی داعی سے مناظرے ہوتے رہتے تھے ۔ جس سے اس کے دل میں اسماعیلی مذہب کی حقانیت بیٹھتی گئی ۔پھر حسن کو کوئی بیماری لاحق ہوئی جس میں اس کو پریشانی ہوئی کہ اگر وہ حق کا اعتراف کیے بغیر مر گیا تو یہ اس کے لیے بہت نقصان دہ ہوگا۔ شفاء پانے کے بعد اس نے ایک اسماعیلی داعی ابونجم سے فرقہ باطنیہ کی معلومات حاصل کیں اور ایک اور داعی مومن کے ہاتھ پر اسمعیلیت میں بیعت ہو گیا۔ حسن بن صباح نے قزوین میں الموت جس کا معنی آشیانہ عقاب ہے کیونکہ وہاں عقاب کثرت سے پائے جاتے تھے پر قبضہ کر لیا۔ قبضہ کرنے کے بعد اس نے اطراف میں باطنیت کو پھیلانے کے لیے مختلف داعی بھیجے۔ جوینی نے حسن بن صباح کا ذکر انتہائی نفرت سے کیا ہے۔ اور اس کے تعلیمات کا بھی رد کیا ہے۔ اس نے حسن بن صباح اور اس کے ماننے والوں کو ملاحدہ سے تعبیر کیا ہے۔ حسن بن صباح کے بارے میں جوینی کو معلومات ہلاکو خان کے اس قلعہ الموت پر قبضے کے بعد وہاں سے دستیاب کتابوں میں سے ملی ہیں۔ جوینی نے لکھا ہے کہ حسن صباح انتہاء کا مکار اور ظالم انسان تھا۔ اپنی دعوت کا انکار کرنے والوں کو اپنے فدائین کے ذریعے قتل کراتا تھا۔ اس کی سلاجقہ کے ساتھ لگاتار لڑائی رہی۔ اس نے سلجوقی وزیر نظام الملک طوسی کو شہید کروایا۔ یہ اس کا پہلا فدائی حملہ تھا۔ اس کے بعد بھی اس نے اہم حکومتی شخصیات ، علماء و مشائخ کو اپنے فدائین کے ذریعے قتل کروایا۔ حسن صباح کا اقتدار جلد ختم ہو جاتا جب سلجوقی امیر ملک شاہ کی افواج نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا تھا مگر اس محاصرے کے دوران ملک شاہ کی موت کی خبر آئی جس سے اس کی افواج بغیر فتح کے قلعے سے واپس آ گئیں۔
جوینی نے لکھا ہے کہ حسن صباح انتہائی زاہدانہ زندگی گزارتا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اس فریب میں آ گئے ۔ اس نے اپنی سلطنت کی بنیاد زہد و ورع اور امر بالمعروف نہی عن المنکر پر رکھی تھی۔اس کے پینتیس سالہ اقتدار میں کسی شخص نے اعلانیہ شراب نہیں پی، ایک شخص کو محض بانسری بجانے پر قلعے سے بے دخل کر دیا گیا۔ حسن کا پہلا بیٹا استاد حسین نام کا تھا۔ ایک علوی زید حسنی جو کہ اپنی امامت کا مدعی تھا نے ایک اسماعیلی داعی حسین قاینی کو حسین احمد دنباوندی کے ہاتھوں مروا دیا ۔ اس کا الزام حسن بن صباح کے بیٹے استاد حسین پر لگا تو حسن کے حکم سے استاد حسین اور حسین دنباوندی دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ سال بعد حسن کو حقیقت کا علم ہوا تو اس نے زید حسنی کو بھی مروا دیا۔
حسن کا دوسرا بیٹا محمد تھا جس پر شراب نوشی کی تہمت لگی تو حسن نے اس کو بھی قتل کرا دیا۔ اپنے دونوں بیٹوں کو قتل کرانے کے بعد اس نے یہ توجیہ پیش کی کہ کوئی یہ خیال ہرگز نہ کرے کہ حسن نے دعوت باطنیہ کا سلسلہ جانشینی کے لئے شروع کیا ہے۔
جوینی کی حسن سے نفرت واضح محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس نے اس کے مظالم بھی لکھے ہیں مگر اس کے بارے میں مصنوعی جنت کا الزام نہیں لکھا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ افسانہ ہے۔ جوینی قلعہ الموت کے وقت منگول لشکر کا حصہ تھا اس نے وہاں پر ایسی کسی چیز کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے کہا جا سکتا ہے کہ حسن صباح کے بارے میں مصنوعی جنت محض افسانہ ہے۔
حسن صباح نے ۴۸۳ ہجری میں قلعہ الموت پر قبضہ کیا اور اس کی موت ۵۱۸ ہجری میں ہوئی۔ جوینی لکھتے ہیں کہ پینتیس سالہ اقتدار میں حسن فقط دو بار اس مکان سے باہر آیا جہاں اس کا قیام تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت مطالعہ اور اپنی بدعت کی توضیح و تشریح میں صرف ہوتا تھا۔ حسن نے قلعہ المسر سے بزرگ نامی ایک شخص کو اپنا جانشین بنایا۔
بزرگ نے بیس سال صباحی قواعد کے مطابق حکومت کی، اس کے بعد اس کا بیٹا محمد تخت نشین ہوا اس نے بھی اپنے باپ اور حسن کی اتباع کی۔ اس کے بعد محمد کا بیٹا حسن تخت نشین ہوا۔ یہ اپنے باپ کی زندگی میں مواعظ کہتا تھا اور لوگ اس کے گرویدہ ہو گئے۔ آہستہ آہستہ اس نے ایسی باتیں شروع کر دیں کہ جس امام کا حسن بن صباح وعدہ کر کے گیا ہے وہ یہی ہے۔ ان باتوں سے حسن کے باپ محمد نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ محمد نے اپنے بیٹے کے پیروکاروں پر سختی بھی ان کو قتل بھی کروایا۔ حسن پوشیدہ طور پر شراب بھی پیتا اس کے باپ نے اس کا کھوج لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ بہرحال ۵۵۷ ہجری میں حسن تخت نشین ہوا۔ ۵۵۹ھ میں اس نے قلعہ الموت میں اپنا منبر جو کہ اسلامی قواعد کے برخلاف قبلہ کی جانب تھا لگایا اس نے اعلان کیا کہ اس نے مسلمانوں پر رحمت و سکون کے دروازے کھول دئیے ہیں اور ان سے شریعت کی پابندی اٹھا لی ہے۔ یہ سترہ رمضان کا دن تھا اس نے اس دن عید کا اعلان کر دیا۔ حسن نے اپنے نسب کے بارے میں بھی ایک نئی بات گھڑی کہ وہ محمد بن بزرگ کی بجائے نزار بن مستنصر باللہ کی اولاد میں سے قرار دیا ۔ تاکہ اپنے آپ کو بنو فاطمہ سے قرار دیا جا سکے۔ اپنے اس نئے نسب کے ثابت کرنے کے لیے بھی عجیب و غریب قسم کی کہانیاں گھڑی گئیں جن کو جوینی نے ذکر کر کے ان کی تردید کی ہے۔ ملاحدہ میں حسن اور نزار کے درمیان آباء کی تعداد میں بھی اختلاف ہے۔
ملاحدہ کے عقائد کے بارے میں جوینی نے لکھا ہے کہ یہ جنت اور جہنم کو روحانی منازل مانتے ہیں۔ یہ شریعت کی پابندی اور حرام و حلال کو بھی نہیں مانتے۔
حسن کی بدعقیدگی کے باعث بہت سے مسلمانوں نے اس کے زیر انتظام علاقوں سے نقل مکانی کی۔
حسن کی بیوی کا بھائی جس کا نام حسن بن نام آور تھا۔ حسن کی گمراہی کو برداشت نہ کر سکا۔ اس نے حسن کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد حسن کا بیٹا محمد تخت نشین ہوا۔ اس نے حسن بن نام آور اور اس کے تمام قرابت داروں کو قتل کروا دیا۔ محمد اپنے باپ سے زیادہ غالی اور متشدد تھا۔ اس نے چھیالیس سال حکومت کی۔ اس کے دور میں ملاحدہ نے بہت زیادہ ناحق خون بہایا۔
محمد کے بعد اس کا بیٹا جلال الدین حسن تخت نشین ہوا ۔ اس نے اپنے آباؤ اجداد کے عقائد سے برات کا اظہار کر دیا۔ اس نے آس پاس کے مسلم سلاطین و ملوک کو دوستی کا پیغام بھیجا۔ اس نے اپنے زیر نگیں مساجد تعمیر کروائیں اور اپنی قوم کو زجر و توبیخ کر کے الحاد سے منع کیا۔ قزوین کے علماء اور قاضیوں کو پہلے جلال الدین حسن کے حسنِ اعتقاد پر یقین نہیں تھا کیونکہ انہوں نے ملاحدہ کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھائیں ، انہوں نے مختلف طریقے سے جلال الدین حسن کی آزمائش کی تو اس کو اسلام پر ثابت قدم پایا ۔ جلال الدین حسن کے اسلام کی تصدیق جب مرکز خلافت بغداد سے ہوئی تو اس کو آس پاس کے لوگوں نے بھی قابل احترام جانا۔ جلال الدین حسن نومسلم کے نام سے مشہور ہوا۔ لوگ اس کے پیروؤں کو نو مسلم کہتے تھے۔ جلال الدین حسن کے بارے میں جوینی نے قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس کی جانب سے مسلم ملوک کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ جلال الدین نے اس کے ساتھ چنگیز خان کی بھی اطاعت قبول کی اور اس سے صلاح و دوستی رکھی۔ جلال الدین حسن گیارہ سال حکمران رہا اور اس نے ۶۱۸ ھ میں وفات پائی.
جلال الدین حسن کے بعد اس کا بیٹا علاؤ الدین نو سال کی عمر میں اس کا جانشین ہوا۔ کم عمری کے باعث اس کے دور میں حکومتی امور زیادہ تر عورتوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ جو بنیاد اس کے باپ نے رکھی وہ سست ہو گئی۔ جو لوگ اس کے باپ کے ڈر سے شریعت اور اسلام کے پابند ہوئے تھے نے جب دیکھا کہ منکرات سے روکنے والا کوئی نہیں تو دوبارہ الحاد اور بے دینی کی راہ پر گامزن ہو گئے۔
علاؤ الدین پر جنون کا حملہ ہوتا تھا اس کے اپنے بیٹے رکن الدین خورشاہ کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہوئے۔ بالآخر ایک شخص حسن ماژاندنی جو کہ علاؤ الدین کا خاص الخاص تھا نے علاؤ الدین کو قتل کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ علاؤ الدین کے ماژندنی کی بیوی سے ناجائز تعلقات تھے اور وہ اس تعلق کو قائم کرتے ہوئے حسن سے ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتا۔ حسن ماژاندنی کے حالات کو بھی جوینی نے نقل کیا ہے کہ اس کو بچپن میں منگولوں نے پکڑ لیا تھا، وہ منگولوں سے بھاگ کر علاؤ الدین کے پاس آیا تھا۔ علاؤ الدین مختلف انداز میں حسن ماژاندنی کو اذیت دیتا۔ کہا جاتا ہے کہ علاؤ الدین کے قتل کی منصوبہ بندی میں اس کا بیٹا رکن الدین بھی شامل تھا،جوینی کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ مگر یہ بات ضرور ہے کہ رکن الدین کو اپنے باپ کا قتل برا نہیں لگا۔ بعد میں رکن الدین خورشاہ نے اپنے اعتماد کے ایک بندے کے ذریعے حسن کو قتل کروا دیا۔
رکن الدین خورشاہ ملاحدہ کا آخری حکمران تھا۔ اس کو ہلاکو خان نے شکست دی اور یوں اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ رکن الدین خورشاہ کو ہلاکو کئی بار اطاعت قبول کرنے کا کہا مگر خورشاہ لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ اس نے اپنی اطاعت کا یقین دلانے کے لیے ایک فرضی بیٹا ہلاکو کے پاس بھیجا مگر ہلاکو نے جان لیا کہ یہ خورشاہ کا فرزند نہیں ہے مگر اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ہلاکو نے جب قلعہ الموت کو فتح کیا تو جوینی ہلاکو کے ساتھ تھے۔ اس لیے فتح کے بعد جوینی نے وہاں کے کتب خانے میں خصوصی دلچسپی لی، قرآن سمیت اہم کتابوں کو نکلوا کر ملاحدہ و باطنیہ کے عقائد پر مشتمل کتابوں کو نظر آتش کر دیا گیا۔
اسمعیلی حکومت کے حوالے سے یہ ایک قابل اعتماد کتاب ہے۔ اس میں درج باتوں کو بعد کے مورخین نے بطور سند پیش کیا ہے۔ جوینی نے تفصیل میں جانے سے گریز کیا ہے اور اجمالی انداز میں اس کو پیش کیا ہے۔
کتاب میں شامل تیسرا ضمیمہ خواجہ نصیرالدین طوسی کا ہے جس میں بغداد پر ہلاکو کے حملے اور مستعصم باللہ کے انجام کے بارے میں مختصر معلومات دی گئیں ہیں۔ اس میں بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہلاکو نے پہلے خلیفہ کو غیر مشروط اطاعت کی پیشکش کی مگر اس کے مشیروں نے یہ نہیں ہونے دیا۔سقوط کے بعد مستعصم باللہ کے سامنے کھانے کے وقت ہیرے جواہرات رکھے گئے تو اس نے ہلاکو سے کہا میں ان کو کیسے کھاؤں تو ہلاکو نے کہا کہ تم نے ان جواہرات کو استعمال کر کے اپنا دفاع کیوں مضبوط نہ کیا اپنی فوج کیوں نہ طاقتور کی تو مستعصم باللہ نے کہا یہ تقدیر کا فیصلہ تھا تو ہلاکو نے کہا پھر یہ بھی تقدیر ہے۔ مستعصم باللہ اور اس کے دو بیٹوں کو بعد میں قتل کر دیا گیا۔
مسلم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے یہ کتاب بہت مفید رہے گی۔ اس میں پروفیسر علی محسن صدیقی کے حواشی نے اس کی قیمت میں مزید اضافہ کیا ہے جس سے ابتدائی طالب علم بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
کمنت کیجے