مولانا محمد عبد اللہ شارق
جناب زاہد مغل نے ”غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ“ پر اپنے اظہارِ خیال میں کتاب کی تین خامیاں بیان کیں۔ اس پر ان کے ساتھ ایک مناقشہ ہوا جس کا ایک منتخب حصہ یہاں ذکر کیا ہے۔
کتاب میں مذکور چند شوخ تبصرے
پہلی خامی یہ بتائی گئی کہ کتاب میں مسلم فلاسفہ کے خیالات پر جا بجا سخت تبصرہ جات (مثلا ان کے خیالات کو ”جگت بازیاں “و”چولیاں“کہنا اور اسی طرح کئی مقامات پر سخت نقد) شامل نہ کئے جاتے تو بہتر تھا کیونکہ ان سے نفس مسئلہ کی تنقیح میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
جوابا عرض ہے کہ یہ اعتراض پہلے بھی کچھ حضرات کی طرف سے ہوا تھا اور باب دوم میں آدھ صفحہ کے ایک حاشیہ (حاشیہ نمبر 21) کے اندر اس کا جواب موجود ہے۔ بے شک لفاظی کے زور پر ہی میدان مار لینے کے روایتی مناظرانہ اسالیب ناپسندیدہ ہیں لیکن دوسری طرف ”اکیڈمک رائٹنگ“ کے جدید اسلوب میں بھی کچھ خامیاں اور تکلفات ایسے ہیں جن پر متعلقہ شخصیات اور اداروں کی عموما توجہ پوری نہیں جا پاتی۔ ان میں سے ایک خامی شاید سیاہ کو کھل کر سیاہ کہنے سے کچھ گریز کا انداز بھی ہے ۔ کتاب میں جواب دیا گیا تھا کہ مسلم فلاسفہ کی کچھ نارواباتوں پر ایسے شوخ لیکن مبنی بر حقیقت تبصرے ہمیں غزالی کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ تاہم میں شاید اس پہ نظر ثانی بھی کروں۔
ابنِ رشد کے بارہ میں صحیح نکتہء نظر
دوسری خامی یہ بتائی گئی کہ کتاب کے مصنف نے علامہ ابن رشد کو مفروضے کے طور پر جدید دور کے اباحیت پسند طبقے کا اس بنا پر لیڈر فرض کرلیا ہے کہ یہ طبقہ علامہ ابن رشد کو اپنا لیڈر قرار دیتا ہے۔ اس مفروضے کے بھی ناقدانہ مطالعے کی ضرورت ہے۔ علامہ کی جانب ان کے محبین کے منسوب کردہ خیالات کو قبول نہیں کیا جاسکتا، آپ ایک وقیع فقیہ تھے۔ اسی طرح آپ نے عقائد پر ”مناہج الادلۃ فی عقائد الملۃ“ کے نام سے بھی کتاب لکھی ہے اور آپ کے خیالات کی تفہیم کے لئے اس کی جانب رجوع کرنا بھی ضروری ہے ۔ قدم و حدوث عالم کی جس بحث میں علامہ ابن رشد امام غزالی کی مخالفت کرتے ہیں، اس معاملے میں علامہ ابن تیمیہ علامہ ابن رشد کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جواب دیا کہ کیا ابن تیمیہ کے نزدیک عالم قدیم بالزمان ہے؟ میرے خیال میں علمائے عرب کے ہاں اس پر کچھ لے دے ہوئی ہے اور ابن تیمیہ کی طرف سے شاید کچھ صفائیاں بھی آئی ہیں جو اَب مستحضر نہیں، اپنے لیے تو بس مالک کا فرمان ”قل اللہ خالق کل شیء“ کافی ہے جو کائنات کے مسبوق بالعدم ہونے کا صریحا متقاضی ہے۔ باقی ابن تیمیہ اور ابن رشد قدم وحدوث عالم کی بحث میں ایک ساتھ ہیں یا نہیں، مجھے اس بحث میں بھی نہیں جانا۔ وجہ یہ کہ ہمارا اس میں کوئی دینی و دنیاوی مفاد نہیں، وہ اپنی قبروں میں گئے اور ہم نے اپنی میں جانا ہے۔ نیز ان فلسفیانہ دقائق میں پڑنے سے اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو وہ ایک الگ خطرہ ہے۔ کتاب میں بھی صرف بنیادی مقدمات کی روشنی میں دونوں کی ہار جیت کا قضیہ نمٹایا، صرف اس لیے کہ ابن رشد کے مریدوں کی طرف سے اس کے نام کو جس طرح بت بنا کر پیش کیا جاتا اور اس کے نام پر پھر اپنا ایجنڈا آگے بڑھایا جاتا ہے، اس کے تدارک میں شاید اس طالب علم کا حاصل مطالعہ کوئی کردار ادا کرے۔ کتاب کے بارہ میں میرا منہج نگارش الگ سے نیٹ پر موجود ہے، بعنوان: ”تہافت الفلاسفہ اور تہافت التہافت کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے چند راہ نما ہدایات“
باقی ابن رشد پر الزام صرف قدمِ عالم ہی کا نہیں، کچھ اور باتیں بھی ہیں جو اس کی کتابوں کے حوالہ سے یا کسی اور حوالہ سےبعض علماء نے یا اس کے چاہنے والوں نے اس کی طرف منسوب کیں جن کا کچھ تذکرہ کتاب میں موجود ہے، اب ابنِ رشد کیا واقعی ان تمام خیالات کا حامل تھا جو اس کے چاہنے والے اس کی طرف منسوب کر رہے ہیں، میں نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ ہاں، البتہ میں اسے اس طرح کلین چٹ بھی نہیں دیتا جیساکہ مغل صاحب شاید دے رہے ہیں۔ میں کتاب کے اندر اسے ملحد کہنے یا اسے کلین چٹ دینے کی دو انتہاؤں کی درمیان رہا ہوں۔ یہ بات کئی جگہ کہی، خصوصا پانچویں باب کے پہلے عنوان کے تحت ہونے والی گفتگو دیکھ لی جائے جہاں اس کے نظریات پر کچھ گفتگو کی گئی ہے۔
اس پر ان کی طرف سے کہا گیا کہ ”آپ کے جواب کا ہر جملہ ”شاید“ سے پر ہے، ظاہر ہے کہ یہ کوئی جواب نہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں علامہ ابنِ رشد کو کلین چٹ نہیں دے رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ کتاب میں علامہ ابن رشد کی جانب ثانوی ماخذات کی بنیاد پر الزامات لگانا کافی تحقیق نہیں۔ ابن رشد کی آراء جاننے کے لئے اصل مصادر سے تحقیق نہ کرنا، یہ خامی بیان کی ہے میں نے اور اس خامی کو ”شاید“ سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔“
جواب دیا کہ ”آپ کو ”شاید“ نے مضطرب کردیا۔ ”شاید“ کا لگانا جہاں علمی دیانت کا تقاضا ہو، وہاں ضرور لگانا چاہیے، خواہ سو بار ہی کیوں نہ لگانا پڑے اور میں نے ”شاید، شاید“ کرکے بھی اپنا مدعا تو کھول دیا ہے کہ ابن رشد کو کلین چٹ دینا درست نہیں اور آپ نے بھی اسے تسلیم کیا۔ باقی اگر اب آپ کے نزدیک بھی وہ نہ تو کلین چٹ کا مستحق ہے اور نہ ہی اس پر الحاد کا فتویٰ عائد کرنا درست ہے تو یہ تو وہی درمیانی بات ہوگئی جس کا میں قائل ہوں، جسے کتاب میں بھی ذکر کیا اور اپنے حالیہ جواب میں بھی۔ جب میں نے وہی بات لکھی ہے جس کے آپ قائل ہیں تو پھر یہ کتاب کی خامی تو نہ ہوئی، خوبی ہوگئی۔ پھر نہ تو آپ کا اعتراض رہا اور نہ ہی کوئی جھگڑا۔
رہی بات اصل مصادر یعنی ابن رشد کی اپنی تصانیف کی تو پہلے ان کی بھی حیثیت تو متعین ہو کہ وہ کتنے مستند طریقہ سے ہم تک پہنچی ہیں تاکہ ان سے ابن رشد کے ”قطعی“ نظریات کشید کیے جاسکیں، حوالہ مذکور یعنی باب پنجم کے پہلے عنوان کے تحت ہونے والی گفتگو میں لفطی جمعہ کا ایک اقتباس میں نے ذکر کیا ہے، اسے دیکھ لیں۔
دوسری بات یہ کہ میں عرض کر چکا ہوں، میرا مقصود ابن رشد کی حیثیت متعین کرنا اور پھر اس کو کلین چٹ دینا یا ملحد ثابت کرنا نہیں تھا، بلکہ اگر اس بحث میں پڑتا تو ظاہر ہے کہ ہماری مسلمانوں کی ایک داخلی تاریخی بحث درمیان میں گھس آتی، پھر ابن تیمیہ وغیرہ کے ساتھ تقابل کا مرحلہ بھی شاید پیش آتا جیساکہ آپ نے اس بحث کو چھیڑا۔ میں اس معاملہ میں متوسط رہنا چاہتا تھا اور اسی لیے اسے ”شاید“ کے کھاتے میں رکھا اور آپ نے خود بھی تو بالآخر اسی توسط کی تائید کی۔
میرے پیشِ نظر غزالی وابن رشد کے علمی ورثہ کی خدمت کرنا نہیں، بلکہ لبرل ایجنڈے کے سد باب کے لیے اپنا حاصل مطالعہ پیش کرنا تھا اور توپ کا رخ سیدھا اسی کی طرف رکھنے کے لیے یہ کافی مناسب تھا کہ کسی داخلی بحث کو درمیان میں جگہ دیے بغیر میں ابن رشد کی وہی تصویر اس کے چاہنے والوں کے سامنے رکھوں جو خود ان چاہنے والوں نے اپنی تصانیف میں کھینچ رکھی ہے۔ یہ طریق خصم کے لیے زیادہ مسکت معلوم ہوا، اسی لیے خصم ہی کے حوالہ سے یہ نظریات پیش کیے گئے جیساکہ کتاب میں بھی اس کا کچھ اشارہ سا غالبا مذکور ہوا، باقی غیر ضروری باتوں کو ”شاید“ ہی کے کھاتے میں رکھا گیا جس پر میں مطمئن ہوں، ورنہ اگر کوئی واقعی ضرورت ہوتی تو ابن رشد کی تالیفات دیکھنے میں کیا حرج تھا، جبکہ ”تہافت التہافت“ کی اصل عبارات تو میں نے پیش کی ہی ہیں۔
باقی یاد آیا کہ کتاب میں اگرچہ ابن رشد کے ”انحرافی نظریات“ کا ذکر اصل مصادر کے حوالہ سے تفصیلا نہیں ہوا، مگر ایک لنک البتہ پہلے باب میں ”حافظ ابنِ تیمیہ اور سلفی علماء“ والے عنوان کے تحت حاشیہ میں ذکر کیا ہے جہاں کچھ اس کی اصل تصانیف کے حوالہ سے اور کچھ ماضی کے علماءِ اسلام کے حوالہ سے اس کے انحرافی خیالات ایک سلفی عالم نے ذکر کیے ہیں اور اس کے بارہ میں شاید کوئی فتوی بھی بیان کیا ہے،تاہم میں دوبارہ کہوں گا کہ ہمیں اس کے باوجود ابنِ رشد پر کوئی فتوی عائد کرنے کی ضرورت نہیں، وہ جانے اور اس کا رب، وجہ وہی کہ وہ اللہ کے پاس چلا گیا اور ناپسندیدہ نظریات کی اس کی طرف اضافت ونسبت کا صحیح ہونا بھی شاید کچھ مشتبہ سا معاملہ ہے، واللہ اعلم!
مغل صاحب کی طرف سے کہا گیا کہ کسی خاص طریقہ بحث کو مؤثر سمجھ کر اختیار کرنے میں اگرچہ حرج نہیں، تاہم مجھے لگتا ہے کہ ہمیں علامہ ابنِ رشد جیسی شخصیت کو اتنی آسانی کے ساتھ دین بیزار طبقے کی جھولی نہیں ڈالنا چاہیے۔ جواب دیا کہ اس پہلو کا ذکر بھی پہلے باب میں مذکورہ عنوان مذکور کے تحت کچھ ہوا ہے، وہ ایسی اباحیت کا شاید قائل نہ تھا جو اس کے چاہنے والوں کے ہاں ہے! ”بدایۃ المجتہد“ جیسی اس کی کتابوں سے کیا ان جدید اباحیت پسندوں کا کچھ لینا دینا ہوسکتا ہے؟
علم الکلام اور عقلی دلائل کا فرق
تیسری خامی ان کی طرف سے یہ بتائی گئی کہ علمِ کلام نیز عقل کے ذریعے الہیاتی مسائل کی تحقیق کے ضمن میں مصنف نے جو موقف بیان کیا ہے، اس سے امام غزالی کے موقف کی پوری ترجمانی نہیں ہوسکی اور نہ ہی آپ کی اصل کتاب ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ کے منہج کو بیان کیا گیا ہے۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ مصنف علمِ کلام کے منہج کے بارے میں زیادہ مثبت تاثر نہیں رکھتے اور کتاب سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ گویا غزالی بھی یہی مزاج رکھتے تھے جبکہ یہ تاثر درست نہیں۔ تاہم چونکہ یہ امور واضح کرنا کتاب کا اصل موضوع نہ تھا، لہذا ممکن ہے کہ کتاب سے ایسا تاثر ابھارنا مصنف کی شعوری کوشش نہ ہو۔
جواب دیا کہ پہلے بھی ایک صاحب کو یہی غلط فہمی لگ چکی ہے، جب علم الکلام پر کچھ سوالیہ نشان لگایا تو انہوں نے سمجھا کہ شاید عقل اور عقلی دلائل پر سوال اٹھایا جارہا ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں اور یہ آج سے نہیں، زمانہء قدیم سے ہورہا ہے۔ ابن المعتز نے علم البدیع کے موضوع پر لکھی گئی اپنی ایک کتاب میں کہا کہ قرآن متکلمانہ طرز کے دلائل سے خالی ہے، اس پر ابن ابی الاصبع نے لکھا کہ ابن المعتز سے غلطی ہوئی ہے، قرآن تو عقلی دلائل سے بھرا ہوا ہے اور پھر ان دلائل کی کچھ مثالیں ذکر کیں۔ جبکہ ابن المعتز نے لکھا بھی تھا کہ میری مراد متکلمانہ دلائل سے پرتکلف دلائل ہیں، نہ کہ محض عقلی دلائل۔ اس حوالہ سے بندہ کا ایک مفصل حاشیہ ”نعم الوجیز“ کے عرب ایڈیشن میں ان شاء اللہ شامل ہوگا۔ مغل صاحب کوئی ایک مقام بتادیں جہاں میں نے صرف علم الکلام کی نہیں، بلکہ عقل کے ذریعہ الہیاتی مسائل کی تحقیق سے اعراض کیا ہو یا اس کی نفی کی ہو۔
میرا کہنا یہ ہے کہ قرآن ایک مجسم اور مکمل برہان ہے، اس کی دعوت ”آفتاب آمد دلیل آفتاب“ کی طرح ہے اور قرآن کا معجزہ ہونا بھی بلاغی اعتبار سے بڑھ کر برہانی اعتبار سے شاید زیادہ واضح ہے، اس حوالہ سے ”نعم الوجیز“ کے اندر ایک پورا مقدمہ لکھ چکا ہوں۔ نیز اسی کتاب میں باب سوم میں مذکور ”اسلامی ایمانیات کا عقلی اثبات اور امام غزالی“ کا عنوان ملاحظہ کرلیا جائے جس میں قرآنی پیغام کو زندگی کی ایک سادہ سی ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔اس سب کے ہوتے ہوئے میں خود ہی عقلی دلائل کا انکار کیسے کرسکتا ہوں؟ اگر وہ میرے کسی بیان کو نشان زد کرکے بتاتے کہ میں نے عقلی دلائل کا کہاں پر انکار کیا ہے یا پھر غزالی کی طرف کون سی ایسی بات منسوب کی ہے جس کا اثبات ممکن نہیں تو میرے خیال میں اس طرح ان کا اعتراض وقیع ہوجاتا اور اس پر کچھ کہنا سننا ممکن ہوتا۔
علم الکلام کے بعض مضرات
ہاں، البتہ علم الکلام کے اسلوبِ دلیل میں کچھ مضرات ہیں، ان سے نبوی پیغام اپنی پوری پوری شان اور وقعت سے واضح نہیں ہوپاتا اور بعض اوقات مخاطب کو یہ وہم بھی ہوتا ہے کہ شاید اسلام کی حقانیت کوئی الجھی ہوئی حقیقت ہے جسے سمجھنے کےلیے علم وعقل کا لمبا چوڑا اکھاڑا کھیلنے یالائبریریوں کا کیڑا بننے کی ضرورت ہے، جبکہ ضرورت تھی آنکھیں بھالنے کی، انفس وآفاق کو نصیحت کی نگاہ سے دیکھنی کی اور ربِ کائنات کے حوالہ سے اپنی حسیات میں بیداری لانے کی۔ نبی کی دعوت قرآن کے مطابق ”الحق المبین“ یعنی واضح حق ہوتی ہے اور وہ ”بینات“ یعنی صاف صاف باتیں لے کر آتا ہے۔
علم الکلام کے اسلوبِ دلیل میں موجود بعض مضرات کا اعتراف غزالی کی ”الجام العوام“، ”احیاء العلوم“ اور ”المنقذ“ میں بھی ملتا ہے، لہذا اس بات کی نسبت غزالی کی طرف کرنا بھی ایک شعوری کوشش ہے۔ ہاں، غزالی معصوم نہیں اور ان کے کئی بیانات اس حوالہ سے خود اس طالب علم کی نظر میں قابل جرح ہیں۔ ”غزالی وابن رشد کا قضیہ“ میں لکھ چکا ہوں کہ اس کتاب سے مقصود بھی محض غزالی کی شخصیت کا دفاع کم اور دین وعقیدہ کا دفاع زیادہ مقصود ہے اور خدمتِ تراث کی اسی نہج کا قائل ہوں کہ اس میں پیشِ نظر دین وعقیدہ کی خدمت کا کوئی پہلو ہو، نہ کہ خدمتِ تراث برائے خدمتِ تراث!
باقی متکلمین کی کتابوں کی یک گونہ افادیت سے انکار نہیں، خود فائدہ اٹھایا ان کی کتابوں سے اور ”غزالی وابنِ رشد کا قضیہ“ کے اندر شبلی کے مقابلہ میں متکلمینِ اسلام کا دفاع بھی کیا، نیز علم الکلام کے جو دلائل قرآنی روح کے قریب تر ہوں، انہیں تسلیم کرنے کی بات بھی وہاں لکھی ہے۔ علم الکلام کا بالکلیہ انکاری نہیں، لیکن علم الکلام کی اس شکل کے حق میں ہوں جو صرف اسلامی دعوت کا اثبات ہی نہ کرے، بلکہ خود قرآنی اسلوبِ دلیل کے کامل وشافی ہونے کا احساس بھی پیدا کرے۔ قرآنی دلائل کی متکلمانہ دلائل پر برتری کا قائل ہوں اور اس حوالہ سے اردو میں ایک طویل مقالہ زیر ترتیب ہے جس میں کچھ سلف و خلف کا بھی یہ تاثر نقل کیا گیا ہے۔
متکلمانہ طرزِ تفسیر کی بات
مغل صاحب نے کہا کہ ”غیر فطری طرز استدلال و فہم قرآن“ کا یہ اعتراض صرف علم کلام پر نہیں رکے گا بلکہ لغت، اصول، فقہ، حدیث وغیرہ پر مبنی الغرض ہر طریقہ تفسیر پر وارد ہوگا کہ گویا یہ بھی قرآن کے (قاری کے نزدیک کسی) ”فطری ربط گفتگو“ کو گدلا کردیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اسے اس طور پر نہیں دیکھتے بلکہ یوں دیکھتے ہیں کہ یہ فہم و تدبر نص کے مختلف درجات ہیں اور فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ پھر اگر یہ ”فطری و سادہ حقیقتوں کا بیان“ کوئی دلیل ہے تو مجسمہ اسی سے گمراہ ہوئے تھے کہ دیکھو جب سادہ الفاظ کی دلالت خدا کے ہاتھ پیر چہرہ وغیرہ ثابت کررہی ہے تو تم موشگافیاں کیوں نکالتے ہو؟
جواب دیا کہ یہ تو اب متکلمانہ طرزِ تفسیر کی بات درمیان میں آگئی ہے اور میرے خیال میں اس پر میں نے کوئی بات سرِ دست کی ہی نہیں۔ وہ متکلمانہ تفسیر جو قرآنی براہین ہی کی حاکمیت اور علو مرتبت کو واضح کرے، اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، اسی کا تو الٹا قائل ہوں اور اسی کے حق میں اوپر عرض کرچکا کہ اس حوالہ سے عربی واردو میں خود کافی کچھ لکھ چکا ہوں۔ پھر اس پہ اعتراض کیوں کروں گا؟ میرا مدعا شاید آپ سمجھ نہ پائے۔ یہی معاملہ باقی مناہجِ تفسیر کا ہے جنہیں آپ نے ذکر کیا یا ”نصیب ہر کس بقدرِ ہمت او“ کی بات، میں نے کہاں ان پر کوئی اعتراض کیا؟ باقی رہی بات مجسمہ کی تو ظاہر ہے کہ انہوں نے ”لیس کمثلہ شیء“ والی نص کو نظر انداز کرکے تفسیر کی، اس لیے گم راہ ہوئے۔
بعد ازاں ان کے ساتھ کچھ مزید گفت وشنید بھی ہوئی جس میں کچھ علمی فوائد مذکور ہیں، لیکن بوجوہ یہاں پر ہم اسی پہ فی الحال کفایت کرتے ہیں، باقی گفتگو شاید الگ سے ترتیب دی جائے۔
————————————————————————————-
مولانا محمد عبد اللہ شارق، مرکز احیاء التراث ملتان کے ڈائریکٹر اور دینی علوم کے استاذ ومحقق ہیں۔ mitmultan@gmail.com
کمنت کیجے