امام ابو حامد الغزالی (م 1111 ء ) کی کتاب “تھافت الفلاسفۃ ” کسی تعارف کی محتاج نہیں جس میں آپ نے بعض مسلم فلاسفہ بالخصوص علامہ ابو نصر فارابی (م 950 ء ) و علامہ ابن سینا (م 1037 ء ) کے الہیاتی نظریات کا تعاقب کیا ہے۔ ان فلاسفہ کا ماننا تھا کہ عالم قدیم ہے (the universe is eternal) جبکہ متکلمین (Muslim theologians) اور عام مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہ عالم حادث (created or originated) ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں امام صاحب نے فلاسفہ کے اس نظرئیے کا تفصیلی نقد کیا ہے۔
ایک دوست نے حال ہی میں ایک ویب سائیٹ کی جانب توجہ دلائی ہے جہاں امام غزالی کی اس کتاب کے باب اول کی بحث پر نقد کرتے ہوئے “قدم عالم ” (eternity of universe) کے نظرئیے کا دفاع کیا گیا ہے۔ ناقد جناب حسنین نقوی صاحب نامی کوئی سکالر ہیں جن کا تعلق شاید کراچی سے ہے۔ دوست نے اس موضوع پر ان کے ایک مناظرے کی آڈیو بھی شئیر کی جہاں نقوی صاحب حدوث عالم (creation of universe) پر نقد کررہے ہیں اور ان کے مقابلے میں کوئی جناب فہد صاحب اس کا دفاع کررہے ہیں۔ یہاں ہم نقوی صاحب کے اہم اعتراضات کا جواب دیں گے جو انہوں نے اپنی تحریر میں اٹھائے ہیں۔ آخر میں ان کے مقدمے (یعنی قدم عالم) پر وہ اعتراضات سامنے لائیں گے جو امام غزالی نے اس پر وارد کئے۔
پہلا اعتراض: غزالی نے فلاسفہ کا مقدمہ غلط بیان کیا
قاری پر یہ تاثر قائم کرانے کی کوشش کرنا کہ امام غزالی نے ابن سینا و فلاسفہ کا مقدمہ غلط سمجھا و بیان کیا، یہ “تھافت الفلاسفۃ ” کے ناقدین کا ایک دیرینہ حربہ رہا ہے جسے امام صاحب کے ناقد علامہ ابن رشد (م 1198 ء ) نے بھی برتا ہے۔ چنانچہ نقوی صاحب بھی بحث کی ابتدا یہیں سے کرتے ہیں۔ وہ پہلے امام صاحب کی یہ عبارت لکھتے ہیں:
“They (philosophers) say, “It is absolutely impossible for a temporal to proceed from an eternal.”
اور پھر اس پر یہ اعتراض وارد کرتے ہیں:
Ghazali’s statement of the belief of the philosophers is, strictly speaking inaccurate and incomplete. The philosophers do not consider the procession of a temporal from an eternal, to be impossible, under all conditions and absolutely. That which is considered impossible by the philosophers, is the procession of a temporal from an eternal in an immediate manner, regardless of whether that eternal is the First Cause or an immaterial intellect (aql-e-mujjared). In fact, the philosophers posit the possibility of the procession of a temporal from an eternal by means of intermediaries such as the preparatory causes (illat-e-mui’ddah) that exist in the material world
ناقد کا اعتراض سمجھنے کے لئے مختصرا ابن سینا کا نظریہ پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ ابن سینا نیو افلاطونی (New Platonist) فکر کے تحت کہتے ہیں کہ ذات باری واجب الوجود (necessary being) ہے اور چونکہ وہ واحد ہے لہذا واحد سے ایک ہی شے کا صدور ہوا ، وہ واحد شے عقل اول (first intellect) ہے، پھر اس عقل اول سے نو مزید عقول ظاہر ہوئیں جن سے عالم میں کثرت ظاہر ہوئی۔ یوں کل ملا کر یہ دس عقول (عقول عشرۃ) بنیں۔ ان دس میں سے ابتدائی نو عقول قدیم ہیں، یعنی ان کی کوئی زمانی ابتدا نہیں کہ یہ عدم سے وجود پزیر نہیں ہوئیں بلکہ ازل سے موجود ہیں۔ ان نو عقول کا ظہور دراصل افلاک و سیاروں کی تہوں کی صورت ہوا (جیسے زحل کا نظام ، شمسی نظام وغیرہ)۔ اس نظام میں مختلف سیارے ازل سے گردش میں ہیں اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ صرف آخری یعنی دسویں عقلی تہہ (جسے قمری سسٹم کہتے ہیں) میں ابداع و تغیر (generation and change) کا اصول جاری ہے، صرف اسی نظام میں چیزیں وجود میں آکر فنا ہورہی ہیں۔ لیکن وجود و فنا کا یہ نظام دراصل ان اوپری افلاک کے سیاروں کی حرکات کی وجہ سے ہے جو ازل سے اٹل صولوں کی صورت جاری ہے۔ یوں ابن سینا کے نظام میں علتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آتا ہے جو دسویں عقل میں جاری تغیرات سے ہوتا ہوا عقل اول اور اس کے ذریعے خدا تک جاتا ہے۔ یہاں یاد رہے کہ ابن سینا کے نظام میں خدا عقل اول کا خالق نہیں ہے بلکہ وہ اس سے ظاہر (emanate) ہوئی ہے، بالکل اسی طرح جیسے آگ سے روشنی ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی عالم کی تخلیق خدا کا ارادی و اختیاری فعل نہیں ہے۔ چونکہ خدا کی ذات علت کاملہ ہے اور اس کے علت کاملہ ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے معلول ظاہر ہو، لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ علت (خدا) تو ہو مگر معلول (عالم) نہ ہو۔
اس تناظر کے پیش نظر ناقد کا اعتراض یہ ہے کہ امام غزالی کا یہ کہنا درست نہیں کہ فلاسفہ کے ہاں قدیم سے حادث کا مطلقا ظہور ہونا محال ہے، کیونکہ فلاسفہ کے نزدیک جس طرح خدا قدیم ہے عالم میں نو عقول بھی قدیم ہیں اور ان قدیم عقول سے عالم کے قمری نظام میں حدوث کا عمل جاری ہے۔ ایسے میں یہ بیان غلط ہے کہ قدیم سے مطلقا حادث ظاہر نہیں ہوسکتا بلکہ درست بیان یہ ہے کہ قدیم ذات سے بغیر واسطے کے حادث ظاہر نہیں ہوسکتا۔ رہا قدیم سے مطلقا کسی حادث شے کے ظہور کا امکان، تو فلاسفہ بذریعہ ثانوی اسباب اس کے قائل ہیں۔ نیز دوسری بات یہ ہے کہ نو عقول بھی قدیم ہی ہیں اور ان سے حادث ظاہر ہورہا ہے۔ اس سے گویا یہ ثابت ہوا کہ غزالی نے قدم عالم کی بحث کی ابتدا میں فلاسفہ کا مقدمہ غلط بیان کیا نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ غزالی کو ابن سینا کا مقدمہ درست طور پر معلوم نہیں تھا۔
پہلے اعتراض پر تبصرہ
اس پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ متعلقہ عبارت “تھافت الفلاسفۃ ” باب اول کی ابتدا میں آئی ہے جہاں امام غزالی قدم عالم کی بحث کی ابتدا کرتے ہوئےبتا رہے ہیں کہ فلاسفہ کے نزدیک خدا سے عالم کا حدوث (یعنی عدم سے وجود میں آنا) ناممکن ہے اور اس کے لئے وہ متعدد دلائل دیتے ہیں جن میں سے چار کا تجزیہ آپ نے اس باب میں کیا ہے۔ چنانچہ یہی بات کہتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
وهذا الفن من الأدلة ثلاثة الأول : يستحيل صدور حادث من قديم مطلقاً، لأنا إذا فرضنا القديم ولم يصدر منه العالم مثلاً فإنما لم يصدر لأنه لم يكن للوجود مرجح بل كان وجود العالم ممكناً إمكاناً صرفاً، فإذا حدث بعد ذلك لم يخل إما أن تجدد مرجح أو لم يتجدد، فإن لم يتجدد مرجح بقي العالم على الإمكان الصرف كما قبل ذلك، وإن تجدد مرجح فمن محدث ذلك المرجح؟ ولم حدث الآن ولم يحدث من قبل؟ والسؤال في حدوث المرجح قائم. وبالجملة فأحوال القديم إذا كانت متشابهة فإما أن لا يوجد عنه شيء قط وإما أن يوجد على الدوام (ص 89 – 90)
مفہوم: اس موضوع پر ان کے تین دلائل ہیں۔ پہلا یہ کہ قدیم ذات سے کسی حادث شے کا وجود پزیر ہونا مطلقاً محال و باطل ہے کیونکہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ قدیم ذات تو موجود تھی مگر اس سے کوئی وجود ظاہر نہ ہوا تو اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ وجود ظاہر ہونے کی وجہ ترجیح (یعنی علت) موجود نہ ہوگی اور نتیجتاً عالم صرف ممکن تھا (نہ کہ موجود)۔ اس عدم کے بعد جب عالم حادث ہوا تو دو میں سے کوئی ایک بات ماننا ہوگی: اس خاص وقت جب عالم حادث ہوا کوئی نئی علت ظاہر ہوئی یا نہیں ہوئی (جو پہلے موجود نہ تھی)۔ اگر اب بھی وہ علت ظاہر نہ ہوئی ہوتی تو عالم وجود میں نہ آتا(یعنی یہ آپشن غلط ہے)۔ اور اگر وہ خاص علت اب ظاہر ہوئی تو اس علت کی علت کیا ہے؟ نیز وہ خاص علت اس خاص لمحے پر کیوں ظاہر ہوئی، اس سے قبل یا بعد کیوں نہیں؟ پس (عالم کو حادث کہنے والوں کو) اس علت کے مبدا کی توجیہہ کرنا ہوگی (جو گویا ممکن نہیں، جس سے ثابت ہوا کہ دونوں ہی آپشنز غلط ہیں، لہذا حدوث عالم کی دلیل غلط ہے)۔ قدیم ذات کے احوال ناقابل تبدیل ہوتے ہیں، چنانچہ یا اس سے کچھ بھی نیا ظاہر نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو ازل سے ہوگا (پس عالم یا معدوم ہوگا اور یا قدیم، ان کے درمیان کوئی تیسرا امکان نہیں)۔
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ امام غزالی کا مقصد یہ کہنا ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک قدیم ذات یعنی ذات باری سے حادث عالم کا ظہور ناممکن ہے اور اسی لئےوہ عالم کو قدیم (غیر مسبوق بالعدم یا بغیر کسی زمانی ابتدا کا وجود) مانتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ فلاسفہ کے نزدیک ثانوی علت سے حادث امور کا ظہور جائز ہے یا نہیں، یہ عبارت اس مقصد کے لئے نہیں لکھی گئی کہ اس پر یہ اعتراض لایا جائے۔ پس ناقد کا اعتراض عبارت کو تناظر بحث سے ہٹا کر نقد کرنے کی بے سود کوشش کرنا ہے۔ جس تناظر میں عبارت لائی گئی وہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ فلاسفہ کے مطابق قدیم ذات سے مطلقا حادث عالم کا ظہور نہیں ہوسکتا، یہی فلاسفہ کا نظریہ تھا ۔ رہا ابن سینا کے نظام میں ثانوی علتوں کے ذریعے قمری نظام میں حوادث کا ظاہر ہونا تو وہ اس قدیم ذات سے ظاہر نہیں ہوتے۔
محترم ناقد کی خدمت میں دوسری بات یہ ہے کہ عبارت یوں ہے:
يستحيل صدور حادث من قديم مطلقاً (قدیم ذات سے کسی حادث شے کا وجود پزیر ہونا مطلقاً محال ہے)
اس پر ناقد کا کہنا ہے کہ قدیم سے حادث کا صدور مطلقا نہیں بلکہ تب ناجائز ہے جب وہ بالواسطہ نہ ہو، بالواسطہ ہو تو جائز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود ناقد کو قبول ہے کہ قدیم سے حادث کا ظہور مشروط طور پر جائز ہے نہ کہ مطلقا۔ یہی بات امام غزالی نے لکھی ہے۔ پس خود ناقد کے بیان کردہ فہم کی رو سے بھی عبارت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
ناقد دراصل یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ غزالی کو فلاسفہ کا نظریہ معلوم نہیں۔ اگر انہیں ایسی لفظی بحث ہی کا ذوق ہے تو ہم ان کی تسلی دوسری طرح بھی کراتے ہیں۔ قدیم دو طرح کا ہے: زمانی (وہ جس کی زمانے کی جہت میں کوئی ابتدا نہ ہو) اور ذاتی (وہ جس کی ذات کا کوئی مبدا یا علت نہ ہو) ۔ اسی طرح حادث بھی دو طرح کا ہے، زمانی (وہ جو زمانے میں ہے) و ذاتی (جس کا کوئی مبدا ہو)۔ فلاسفہ کہتے تھے کہ عالم حادث ذاتی اور قدیم زمانی ہے۔ امام غزالی کتاب “معیار العلم ” میں لکھتے ہیں:
أما القديم فهو إسم مشترك بين القديم بحسب الذات وبين القديم بحسب الزمان، فالذي بحسب الزمان هو الذي لا أول لزمان وجوده، وأما الذي بحسب الذات فهو الذي ليس لذاته مبدأ وعلة هو به موجود، والمشهور الحقيقي هو الأول، والثاني كأنه مستعار من الأول، وكأنه مجاز، وهو من إصطلاح الفلاسفة، وبهذا الإشتراك يشترك الحادث أيضا، فالحادث بحسب الزمان هو الذي لزمان وجوده إبتداء، وبحسب الذات هو الذي لذاته مبدأ هي به موجودة. والعالم عند الفلاسفة حادث بالمعنى الثاني قديم بالمعنى الأول (ص 334)
عبارت کا مفہوم اوپر ذکر ہوگیا۔
اب اگر اس تنقیح کو سامنے رکھا جائےتو “تھافت” کی عبارت میں جہاں قدیم آیا ہے وہاں قدیم سے مراد قدیم ذاتی اور حادث سے مراد حادث زمانی ہے۔ لہذا عبارت کا مطلب یہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک قدیم ذاتی سے کسی حادث زمانی کا ظہور مطلقا محال ہے۔ عبارت ملاحظہ ہو:
يستحيل صدور حادث (ای الحادث بحسب الزمان) من قديم (ای القديم بحسب الذات) مطلقاً
اس کے بعد عبارت پر کوئی اشکال نہ رہا کیونکہ ثانوی علتوں سے ظاہر ہونے والے حوادث قدیم زمانی (عقول پر مبنی نظام سیارات) سے ظاہر ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ کتاب “معیار العلم ” امام صاحب نے “تھافت الفلاسفۃ ” کے ضمیمے کے طور پر لکھی تھی،” تھافت الفلاسفۃ ” کے مقدمے میں آپ کہتے ہیں کہ ہم اس کے بعد ایک کتاب لکھیں گے جو اس کتاب کے مباحث کو سمجھنے میں مفید ہوگی اور کتاب کا نام ہم “معیار العلم ” رکھیں گے۔ اولا آپ کا ارادہ تھا کہ اس کتاب کو تھافت کا ضمیمہ بنادیا جائے مگر پھر اسے الگ سے لکھا (محققین کے مطابق یا اسی سال جب ” تھافت الفلاسفۃ” لکھی اور یا اس سے اگلے سال)۔ پس محترم ناقد کو مشورہ ہے کہ غزالی کی کم علمی ظاہر کرنے سے قبل “تھافت ” کی عبارت سمجھنے کے لئے “معیار العلم ” کی طرف بھی رجوع فرمائیں ۔ محترم ناقد اگر “تھافت ” کتاب کو بھی غور سے پڑھتے تو بھی یہ اعتراض نہ کرتے کیونکہ اس کتاب میں بھی متعدد مقامات (بالخصوص باب نمبر 1، 3، 4 اور 5) پر امام صاحب نے فلاسفہ کے نظرئیے کو کھول کر بیان کیا ہے۔ تاہم ہم ایسے لفظی قسم کے اعتراض کے جواب کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
دوسرا اعتراض : حادث کے لئے سابق زمانہ درکار ہے، لہذا غزالی کی بات میں تضاد ہے
قدم عالم (eternity of universe) کو ثابت کرنے کے لئے فلاسفہ کی دوسری دلیل یہ تھی کہ اگر عالم حادث (originated) ہے تو ماننا ہوگا کہ اس سے قبل ایک مادے سے خالی زمانہ (void time) تھا جو ازل سے شروع ہوا اور اس خاص لمحے پر ختم ہوگیا جب عالم تخلیق ہوا۔ چونکہ یہ خالی زمانہ ازل سے شروع ہوا اس لئے لامتناہی ہے، لیکن جو لامتناہی ہو وہ کسی لمحے پر پہنچ کر ختم نہیں ہوسکتا۔ ارسطوی تصور زمان کے مطابق زمانہ مادے کی حرکت کی پیمائش کرنے کا آلہ ہے، پس اگر زمانہ قدیم ہے تو معلوم ہوا کہ زمانہ جس شے کی پیمائش کرتا ہے، یعنی حرکت، وہ بھی قدیم ہے اور چونکہ حرکت مادے کی خاصیت ہے لہذا مادہ بھی قدیم ہے۔ اس دلیل کو امام صاحب نے “تھافت ” میں جوں کا توں بیان کیا ہے۔ چنانچہ ہمارے معاصر جناب نقوی صاحب حدوث عالم کے نظرئیے پر نقد کرتے ہوئے امام غزالی پر اعتراض کرتے ہیں:
The specification of a specific time instant by an eternal will, for the emergence of the world, would only be possible, if time were to exist prior to the existence of the world. But time in the Aristotelian sense, is the measure of motion, and motion is the transition of a thing from potentiality towards actuality, and matter is the substance that bears the potential; therefore, time exists due to motion, and motion exists due to matter, which is to say that in the absence of matter, there can be no motion, and in the absence of motion there can be no time; the implication being that time is dependent upon matter or the world, and exist due to it [matter/world], which is to say that given the non-existence of matter or the world, there can be no motion, and consequently, no time. (…)
Moreover, a thing is said to be temporally-originated if its existence is preceded by time (masbuq bi al zaman). Therefore, the world would be temporally-originated only if its existence is posterior to time. But as stated above, time is itself dependent upon the existence of matter or the world, hence, prior to the existence of matter or the world, there is no time; therefore, to posit the temporal-origination of the world, entails the priority of time before time, which is a contradiction.
ناقد کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ حادث کا مطلب وہ شے ہے جو مسبوق بالزمان (preceded by time) ہو، یعنی جس سے پہلے زمانے کی ساعت ہو۔ اب اگر کسی شے کے حدوث (origination) کے لئے ماقبل زمانہ درکار ہے تو ماننا ہوگا کہ زمانہ جس شے کو ماپ رہا ہے (یعنی مادے کی حرکت) وہ بھی موجود ہو اور حرکت کے لئے مادہ موجود ہو۔ پس ثابت ہوا کہ “حدوث عالم” ایک متضاد و لغو تصور ہے کہ یہاں جس چیز کی ابتداء ثابت کرنا مقصد ہے وہ پہلے سے موجود بھی فرض کی جارہی ہے۔
دوسرے اعتراض پر تبصرہ
ناقد کا اعتراض حادث کے غلط تصور پر مبنی ہے اور یہی ان کی بنیادی غلطی ہے۔ انہوں نے حادث کی تعریف “مسبوق بالزمان” کی ہے جبکہ حادث کی تعریف “مسبوق بالعدم ” (preceded by nonexistence) ہے (امام رازی نے ایک نکتے کی بنیاد پر اس تعریف کو کچھ مزید نکھارا ہے، لیکن فی الوقت وہ تفصیل و پیچیدگی ہمارا موضوع نہیں)۔ یعنی حدوث کا تصور کسی وجود سے “ماقبل زمانے ” کو فرض نہیں کرتا بلکہ “ماقبل عدم ” کو فرض کرتا ہے۔ اب اگر یہ موجود جوہر و جسم (atom and extended substance or body) ہوگا تو مکانی (spatial) ہوگا اور اس کا یہ مکانی وجود کسی زمانی ساعت یا لمحے (moment) کا دورانیہ بھی فرض کرے گا جس میں وہ ظاہر ہوا، چاہے نینو سیکنڈ پر مبنی ایک جھلک یا تجلی (flash) ہی ہو۔ اگر ایک لمحے کے بعد کسی دوسرے لمحے میں اس کا وجود نہ پایا جائے تو تبدیلی کا تصور ناقابل فہم ہوگا یہاں تک کہ وہ دوسرے لمحے میں بھی پایا جائے اور دو لمحوں میں کسی مکانی شے کے وجود کے دو ہی امکانات ہیں:
1۔ دو زمانوں میں کسی ایک مقام پر ہونا، اسے سکون (rest) کہتے ہیں
2۔ دو زمانوں میں دو مقامات پر ہونا، اسے حرکت (movement) کہتے ہیں
حرکت و سکون دونوں تبدیلی (change) کے غماز ہیں۔ اگر ایک شے عدم سے ایک ہی لمحے کے لئے ظاہر ہوکر پھر معدوم ہوجائے اور پھر کبھی ظاہر نہ ہو نیز اس کے علاوہ کوئی دوسری شے بھی کبھی وجود میں نہ آئے، تو حرکت و سکون دونوں ناقابل فہم ہوں گے۔ تاہم یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک لمحاتی وجود (یعنی حدوث) قابل فہم بھی ہے اور اس کے لئے ماقبل زمانے کو فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پس یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے کہ عالم کے حادث ہونے سے قبل زمانہ ناپید ہو، پھر جب عالم ظاہر ہوا تو ساتھ ہی زمانہ بھی ظاہر ہوا اور جب کل عالم فنا ہوجائے تو اس کے بعد کوئی زمانہ نہ ہو، اگرچہ “وہم ” قبل و بعد جیسے تصورات پیدا کرتا رہے (یہاں “وہم ” سے کیا مراد ہے، اس کی وضاحت آگے آرہی ہے)۔ چنانچہ ناقد اگر اس تصور زمان پر غور کریں جو ابن سینا و غزالی دونوں کے مابین مشترک تھا تو ان کی یہ مشکل حل ہوجائےگی کیونکہ ارسطو کے مطابق زمانہ حرکت کی پیمائش کا آلہ ہے اور حرکت مادے پر مبنی ہے، پس جب مادہ ہی نہیں ہے تو حرکت کہاں سے آئی، اور جب حرکت نہیں ہے تو زمانہ کہاں سے آگیا؟ الغرض اس مادی عالم سے قبل زمانے کا تصور ہی غلط ہے کیونکہ زمانہ عالم کے ساتھ ہی حادث (یعنی عدم سے وجود پزیر) ہوا۔ یہی وہ جواب ہے جو امام غزالی نے “تھافت الفلاسفۃ ” میں مسلم فلاسفہ کو دیا تھا:
الاعتراض هو أن يقال: الزمان حادث ومخلوق وليس قبله زمان أصلاً، ونعني بقولنا إن الله متقدم على العالم والزمان إنه كان ولا عالم ثم كان ومعه عالم. ومفهوم قولنا: كان ولا عالم، وجود ذات الباري وعدم ذات العالم فقط، ومفهوم قولنا: كان ومعه عالم، وجود الذاتين فقط. فنعني بالتقدم انفراده بالوجود فقط، والعالم كشخص واحد. ولو قلنا: كان الله ولا عيسى مثلاً ثم كان وعيسى معه لم يتضمن اللفظ إلا وجود ذات وعدم ذات ثم وجود ذاتين، وليس من ضرورة ذلك تقدير شيء ثالث، وإن كان الوهم لا يسكن عن تقدير ثالث فلا التفات إلى أغاليط الأوهام (ص 110)
مفہوم: ہمارا جواب یہ ہے کہ زمانہ بھی حادث و مخلوق ہے اور اس سے قبل کوئی زمانہ نہیں تھا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات عالم و زمان سے مقدم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا تھا مگر عالم نہ تھا، پھر خدا بھی تھا اور عالم بھی تھا۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ “خدا تھا اور عالم نہ تھا” تو اس سے ہماری مراد صرف وجود باری کا ہونا اور عالم کا نہ ہونا ہوتی ہے (زمانے کی جہت مراد نہیں ہوتی) اور اسی طرح ہماری یہ بات کہ “پھر خدا تھا اور اس کے ساتھ عالم بھی تھا” سے مراد صرف دو ذاتوں کا وجود ہونا ہے۔ پس خدا کے تقدم سے ہماری مراد اس کے وجود کا ذاتی تقدم ہونا ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے عالم کو ایک فرد تصور کرو۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ خدا تھا مگر مثلاً عیسی علیہ السلام نہ تھے پھر عیسی علیہ السلام بھی تھے، تو ان الفاظ میں ایک ذات کے ہونے و دوسری کے نہ ہونے اور پھر دو ذوات کے ہونے کے سوا کوئی تصور شامل نہیں ۔ ہماری اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی تیسری شے (یعنی زمانے) کو فرض کرنا لازم نہیں، اگرچہ وھم اس تیسری چیز کو فرض کرنے سے باز نہیں آتا تاہم اس کی ان غلطیوں کی جانب توجہ نہیں کی جائے گی
اس عبارت میں امام صاحب یہ جو بار بار فرمارہے ہیں کہ “خدا تھا اور عالم نہ تھا”میں “وجود ہونے و نہ ہونے” کے سوا کوئی اور مفہوم شامل نہیں تو وہ دراصل اس جانب اشارہ ہے کہ لفظ “تھا” زمانے پر دلالت کرتا ہے جبکہ خدا زمانے سے ماورا ہے نیز عالم سے قبل کوئی زمانہ بھی نہیں جبکہ لفظ “قبل” بھی استعمال ہورہا ہے، اس لئے ان الفاظ سے غلط فہمی لگ سکتی ہے۔ آپ ناقد کے ایک اعتراض (جو آپ کی عبارت میں عربی لفظ “کان” و “قبل” کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے) کے جواب میں واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
قلنا: المفهوم الأصلي من اللفظين وجود ذات وعدم ذات. والأمر الثالث الذي فيه افتراق اللفظين نسبة لازمة بالإضافة إلينا (ص 111)
مفہوم: ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ان دو الفاظ (خدا تھا اور عالم نہ تھا اور پھر خدا تھا اور عالم بھی تھا) میں اصلا مراد وجود کا ہونا و نہ ہونا ہے، رہا وہ تیسرا تصور (یعنی زمان) جو انہیں الگ کررہا ہے وہ (اشیاء پر) ہماری جہت یا اعتبار سے لاگو ہونے والی نسبت ہے (نہ کہ خدا کی جہت سے)
آپ بار بار قاری کی توجہ دلاتے ہیں کہ زمانے کے اس مفہوم کا ہمارے دعوے سے کوئی تعلق نہیں، ہمارا دعوی ذات کے ہونے و نہ ہونے سے متعلق ہے۔ اسے یوں کہا جاتا ہے کہ خدا کو عالم پر جو تقدم و فوقیت (priority) حاصل ہے وہ زمانی جہت میں (بحسب زمان) نہیں ہے بلکہ ذاتی جہت میں (بحسب ذات) ہے۔ ایسا اس لئے کیونکہ خدا ہر صورت زمان سے ماوراء ہے کیونکہ وہ مکان سے ماوراء ہے، مکانی شے ہونے کے لئے جسم لازم ہے جبکہ خدا جسم اور اس کے تمام لوازمات سے پاک ہے۔ امام صاحب قاری کو متوجہ کرتے ہیں کہ وھم تاہم زمانہ فرض کرنے سے باز نہیں آتا۔
یہ “وہم” کیا ہے؟ محترم ناقد کی تحریر پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے وہم سے مراد کوئی موھومی یا فرضی شے سمجھ لی ہے جبکہ متکلمین کی علمیات مں “وھم ” عقل کے پانچ فنکشنز میں سے ایک خاص صلاحیت کا نام ہےجو زمان و مکان سے متعلق موجودات کی صورت گری کرتی ہے، یعنی
It is a time and space bound aspect of reason that gives form to the sensory objects of knowledge
امام غزالی اپنی کتاب “الاقتصاد فی الاعتقاد” میں واضح کرتے ہیں کہ زمانی و مکانی موجودات کا علم حسی مشاھدے سے ہوتا ہے جن کی بنیاد پر “وھم ” صورت گری کرتا ہے، وھم کے لئے ممکن نہیں کہ وہ کسی شے کا تصور قائم کرے اور ساتھ زمان و مکان نیز رنگ و مقدار نہ فرض کرلے۔ کتاب “محک النظر ” میں آپ ایک خاص مسئلے کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہم کا یہ معاملہ اس حد تک ہے کہ اگر وہم کو وہم پر پیش کیا جائے تو وہ اس کے لئے بھی رنگ و مقدار فرض کرلے گا۔ کتاب “معیار العلم ” میں آپ کہتے ہیں کہ انسان کے پاس علمی احکام جاری کرنے کے لئے تین حاکم ہیں: (1) حس، (2) وھم اور (3) عقل اور اختلاف کے وقت حاکم عقلی کی بات درست ہوتی ہے (حاكما حسيا وحاكما وهميا وحاكما عقليا والمصيب من هؤلاء الحكام هو الحاكم العقلي)۔ یہاں عقل سے مراد اس کی وہ خاصیت ہے جو زمان و مکان سے ماوراء موجودات پر لگائے جانے والے وہم کی فیکلٹی کے خیالات کی تصحیح کرے، اگر یہ حاکم عقلی نہ ہوتا تو “وہم ” انسان کو خدا کے بارے میں بھی جسمیت کے اتھا اندھیروں میں دھکیل دیتا کیونکہ وہم ایسے وجود سے ابا کرتا ہے جو نہ کسی قابل اشارہ جہت میں ہو اور نہ ہی عالم سے متصل و منفصل ۔ لیکن جب عقل جانتی ہے کہ خدا جسمیت اور زمان و مکان سے ماوراوجود ہے تو وہ وہم کے تقاضے کو جھٹک دیتی ہے جو خدا کا تصور قائم کرتے ہوئے اس کی صورت گری کردیتا ہے۔
چنانچہ یہی معاملہ یہاں ہے کہ وہم جب کسی شے کی ابتدا کا سوچتا ہے تو ساتھ ہی اس سے قبل بھی کچھ فرض کرلیتا ہے کیونکہ مکانی اشیاء کے تصورات جہتی و زمانی تعلقات سے عبارت ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر “اول حادث سے قبل “زمانے کا تصور در آتا ہے۔ لیکن جب عقل جانتی ہے کہ اول حادث سے قبل زمانہ نہیں تھا تو وہ وہم کے خیال کو جھٹک دیتی ہے۔ اس کی مثال آپ فلاسفہ کو ان کے نظرئیے کی رو سے یوں سمجھاتے ہیں کہ تمہارے نزدیک یہ عالم متناہی ہے۔ متناہی عالم کا معنی یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ کسی مقام پر ختم ہوجاتا ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ لیکن جب وہم اس پھیلاؤ کے آخری سرے کو سوچتا ہے تو ساتھ ہی “اس سے آگے” اور “اوپر نیچے ” کا تصور بھی فرض کرلیتا ہے جبکہ عقل بتا رہی ہے کہ آگے کچھ نہیں، “آگے ” کا یہ تصور وہم کی کارستانی ہے جو مکان سے ماورا نہیں اٹھ سکتا۔ پس تم اس “آگے” کے خیال کو جھٹک کر کہتے ہو کہ آگے سوائے عدم مطلق (absolute nothing) کچھ نہیں۔ اسی طرح عالم سے قبل کوئی زمانہ نہیں کیونکہ زمانہ حرکت کے تابع ہے اور حرکت جسم کے، پس جب جسم نہیں تو حرکت نہیں اور اس لئے زمانہ بھی نہیں۔ “قبل” کا یہ تصور محض وہم کی کارستانی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
وهذا كله لعجز الوهم عن فهم وجود مبتدأ إلا مع تقدير “قبل” له، وذلك “القبل” الذي لا ينفك الوهم عنه يظن أنه شيء محقق موجود هو الزمان. وهو كعجز الوهم عن أن يقدر تناهي الجسم في جانب الرأس مثلاً إلا على سطح له فوق، فيتوهم أن وراء العالم مكاناً إما ملاء وإما خلاء. وإذا قيل: ليس فوق سطح العالم فوق ولا بعد أبعد منه، كاع الوهم عن الإذعان لقبوله، كما إذا قيل: ليس قبل وجود العالم “قبل” هو وجود محقق، نفر عن قبوله، وكما جاز أن يكذب الوهم في تقديره فوق العالم خلاء هو بعد لا نهاية له، بأن يقال له: الخلاء ليس مفهوماً في نفسه، وأما البعد فهو تابع للجسم الذي تتباعد أقطاره، فإذا كان الجسم متناهياً كان البعد الذي هو تابع له متناهياً، وانقطع الملاء والخلاء غير مفهوم فثبت أنه ليس وراء العالم لا خلاء ولا ملاء، وإن كان الوهم لا يذعن لقبوله. فكذلك يقال: كما أن البعد المكاني تابع للجسم فالبعد الزماني تابع للحركة، فإنه امتداد الحركة كما أن ذلك امتداد أقطار الجسم وكما أن قيام الدليل على تناهي أقطار الجسم منع من إثبات بعد مكاني وراءه. فقيام الدليل على تناهي الحركة من طرفيه يمنع من تقدير بعد زماني وراءه، وإن كان الوهم متشبثاً بخياله وتقديره ولا يرعوى عنه (ص 111)
مفہوم : یہ مسئلہ وہم کی اس ناچارگی کی بنا پر پیدا ہوتاہے کہ وہ کسی شے کی ابتدا “اس سے پہلے ” کسی شے کو فرض کئے بغیر سمجھ نہیں سکتا اور یہ “ماقبل ” (کا تصور)اس کے ساتھ یوں پیوست ہے گویا وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ (مفروضہ ) شے یعنی زمانہ (خارج میں) متحقق و موجو دہے۔ اس معاملے میں وہم کی یہ ناچارگی اسی طرح ہے جیسی اس مسئلے میں ہے کہ جب وہ کسی متناہی شے کی مثلا اوپری سطح کو سوچتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی سوچتا ہے کہ “اس سے اوپر ” بھی کچھ ہے، اور اس سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے گویا (متناہی) عالم سے اوپر بھی مکان ہے، چاہے ملا ہو یا خلا۔ اگر وہم سے کہا جائے کہ عالم کی اس اوپری سطح سے اوپر کچھ نہیں اور نہ ہی اس کے آخری سرے سے پرے کچھ ہے تو اس کے لئے اسے قبول کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح جب وہم سے کہا جائے کہ عالم سے پہلے والا یہ “پہلے” حقیقت نہیں تو وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ پس جس طرح وہم کے (عالم سے پرے خلا وغیرہ سوچنے کے) میلان کو اس دلیل سے رد کیا جاتا ہے کہ خلا کا اپنا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ جسم کے پھیلاؤ سے عبارت ہے اور جب جسم متناہی (یعنی اس کا سرا ) ہے تو جو شے جسم کے تابع ہے یعنی خلا وہ بھی متناہی ہے لہذا اس سے آگے کوئی قابل فہم خلا موجود نہیں اور اس سے معلوم ہوا کہ عالم سے پرے نہ خلا ہے اور نہ ملا اگرچہ وہم اسے قبول نہ کرے، بالکل اسی طرح جیسے مکانی پھیلاؤ جسم کے تابع ہے زمانی پھیلاؤ حرکت کے تابع ہے اور جب ثابت شدہ دلیل کی بنا پر جسم کے پھیلاؤ سے پرے مکان کے مفروضے کو رد کیا جاتا ہے حرکت سے پرے زمانے کے مفروضے کو بھی رد کیاجائے گا اگرچہ وہم اسے موجود فرض کرتا رہے۔
امام صاحب وہم کی اس کارستانی کو یوں بھی سمجھاتے ہیں کہ اگر ہم مستقبل کے کسی خاص لمحے میں عالم کا معدوم ہونا فرض کریں تو عقل جانتی ہے کہ اس کے بعد کوئی زمانہ نہ ہوگا کیونکہ مادہ و حرکت معدوم ہوچکے، لیکن وہم فنائے عالم کے اس لمحے کے “بعد” کا تصور قائم کرلے گا، حالانکہ اس کا کوئی مصداق (referent) موجود نہیں۔ اسی طرح عالم سے قبل وہم جو “پہلے” کا تصور قائم کررہا ہے، اس کا بھی کوئی مصداق نہیں۔ امام صاحب نے وہم کی اس کارستانی سے جنم لینے والی غلطی کو کئی جہات سے تھافت الفلاسفۃ کی اس بحث میں واضح کیا ہے، یہاں اسی قدر تفصیل کافی ہے۔ شوقین حضرات تھافۃ الفلاسفۃ مسئلہ نمبر 1 کی دلیل نمبر 2 کی بحث ملاحظہ کریں۔
بتائیے ہے کوئی ابہام؟ تاہم نقوی صاحب “وہم” سے متعلق امام صاحب کی اس تقریر سے جو بات سمجھے اور اس کا ان کےتئیں جو جواب ہے، نقوی صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں:
If it is said that the time prior to the emergence of the world was an estimative time (zaman-e-mawhum) which is not dependent upon the existence of the world, then we would respond by saying that the origination or incipience (huduth) in question will also be estimative and not real, and in reality the world is not incipient or temporally-originated, but eternal.
ہمیں نہیں معلوم کہ یہ الفاظ امام صاحب کے کس استدلال کا بیان اور جواب ہے۔ نقوی صاحب نے وہم سے مراد اردو والا عامیانہ وہم مراد لیا ہے جو حقیقت کے مقابلے پر آتا ہے جبکہ متکلمین کی اصطلاح میں وہم ایک فیکلٹی ہے جو زمانی و مکانی موجودات کے حقائق سےمتعلق اور اولیات عقلیات کی روشنی میں ان کی صورت گری کرنے والی ہے۔ چنانچہ مثلا آم کے مشاہدے سے پیلے رنگ کا تصور قائم ہونا، یہ بھی وہم کی فیکلٹی کا کام ہے لیکن اردو مفہوم والا موہومی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ البتہ عالم سے قبل زمانے کے تصور کو اردو والے مفہوم میں موہومی کہنا درست ہے کیونکہ یہ تصور وہم کی فیکلٹی کو وہاں لاگو کرنے سے قائم ہوا ہے جہاں وہم کا گزر نہیں (یعنی زمان و مکان سے ماورا)۔ اس معنی میں یہ “ماقبل زمانہ” موہومی ہے حقیقی نہیں۔ لیکن جب اس وہم کی فیکلٹی کو زمانی و مکانی موجود پر لاگو کرکے اسکی صورت حاصل ہو تو اس علم کو موہومی نہیں کہا جائے گا۔ الغرض نقوی صاحب نے متکلمین کی علمیاتی اصطلاح کو اردو مفہوم میں مراد لے لیا ہے۔
باوجود اس سے کہ امام صاحب اتنی صراحت کے ساتھ عالم سے قبل زمانے کی نفی کرتے نیز ماقبل زمانے کے بغیر حدوث عالم کا امکان بتاتے ہیں، نقوی صاحب اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
But if there was no time [in the real sense] prior to the existence of the world, then the world cannot be temporally-originated, because to posit the temporal-origination of the world, entails a period of nonexistence for the world, which is to say that it entails the existence of time before the existence of the world, and this is a contradiction
چونکہ نقوی صاحب نے حادث کا تصور ہی غلط قائم کیا ہے (یعنی مسبوق بالزمان) لہذا ان کے لئے امام صاحب کی بات سمجھنے کا دروازہ بند ہوگیا تھا اور نتیجتاً وہ پوری تحریر میں جابجا یہ بے محل اعتراض دہراتے نظر آتے ہیں:
to posit the temporal-origination of the world, entails a period of nonexistence for the world, which is to say that it entails the existence of time before the existence of the world
اور چونکہ وہ یہ بنیادی غلطیاں اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں اس لئے انہیں امام صاحب کا جواب بھی سمجھ نہیں آسکتا تھا،لہذا وہ امام صاحب کی عبارت میں “پہلے و بعد” ، “اب و تب” نیز “پھر” جیسے الفاظ سے الجھن کا شکار ہوکر لکھتے ہیں:
But what does the mysterious ‘then’ in this explanation refers to? Terms such as ‘then’, ‘when’, ‘before’, ‘after’ and ‘now’, are all temporal notions, and therefore, entail the existence of time, which is to say that if time were to be non-existent, these notions would become irrelevant. Hence, there can be no ‘then’, ‘when’, ‘before’, ‘after’ and ‘now’, given the non-existence of time. Therefore, the ‘then’ in the above explanation, and also in the second mentioned statement of Ghazali, refers to nothing but time, and consequently, once again entails the existence of time before time.
یعنی نقوی صاحب نے یہ فرض کرلیا کہ وہم جہاں بھی قبل کا تصور پیدا کرسکتا ہے، اس کا خارج میں لازما کوئی مصداق بھی موجود ہوگا علی الرغم اس سے کہ وہم کی یہ کارستانی مکان کے اندر ہے یا اس سے ماوراء جبکہ ان کا یہ مفروضہ ہی غلط ہے۔
الغرض ہماری درج بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ ماقبل زمانے کے بغیر عالم کا حدوث قابل فہم ہے اور اس میں کوئی تضاد نہیں۔ یوں سمجھئے کہ جس لمحے عالم کی ابتدا ہوئی وہ زمانے کا “صفر ” مقام ہے اور ایسا ماننے میں سوائے وہم کی کارستانیوں کے کوئی تضاد نہیں ۔ نقوی صاحب نے اس کے ناممکن ہونے کی سوائے امام غزالی کی بحث سے متعلق اپنے ناقص فہم کوئی دلیل پیش نہیں کی اور وہ بار بار یہ دہراتے ہیں کہ غزالی کے مطابق حادث وہ شے ہے جو زمانے میں پیدا ہو اور اس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غزالی کی بات میں تضاد ہے کہ جب ہر حادث سے قبل زمانہ چاہئے اور زمانے کے لئے مادے کی حرکت تو ماننا ہوگا کہ حدوث عالم سے قبل بھی عالم تھا۔ ظاہر ہے امام صاحب کی بحث سے واقف حضرات اس غلط فہمی سے متاثر نہیں ہوسکتے۔
اس تفصیل سے وہ سوالات بھی حل ہوجاتے ہیں جو قدم عالم کے حامی پیش کرتے ہیں۔ مثلا:
- عالم سے قبل کیا تھا؟
جواب : “قبل “کا سوال ہی غلط ہے، درست جواب ہے “سوائے ذات باری کچھ نہیں “، اور چونکہ وہ زمانے سے ماوراء ہے لہذا اس کی بارگاہ میں زمان کا سوال ہی لغو ہے
- عالم پیدا کرنے سے قبل خدا کیا کررہا تھا؟ کیا یہ مانا جائے کہ وہ فارغ تھا؟
جواب: ہمیں نہیں معلوم اور نہ ہی معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے۔ نیز خدا کا فعل بندے کے فعل کی طرح نہیں کہ وہاں “کرنے و نہ کرنے” کے انسانی تصورات کو لاگو کرکے حرکت پر مبنی ایکٹیوٹی و عدم ایکٹیویٹی کا سوال اٹھایا جائے۔ اس کی بارگاہ میں عمل و غیر عمل کے وہ تصورات جو حرکت جسم پر مبنی ہیں لاگو ہی نہیں کیونکہ وہ جسم نہیں۔ پس ہم اس کے فعل کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ہم صرف اس کے افعال کے متعلقات (outcomes) یعنی مخلوقات کو جان سکتے ہیں کہ وہ قابل مشاہدہ ہیں اور ان کے مشاہدے سے اس لازمی نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ مفعول ہے تو کوئی فاعل بھی ہے۔ خدا کائنات تخلیق کئے بغیر بھی اتنا ہی کامل ہے جتنا تخلیق کے ساتھ، کائنات نے اس کے کمال میں نہ کمی کی اور نہ اضافہ۔
تیسرا عتراض : ارادے کی علت کیا ہے؟
متکلمین کا کہنا ہے کہ عالم کا آغاز اللہ کے ارادے سے اسی خاص نکتے پر ہوا جب ازلی ارادے نے ایسا چاہا۔ فلاسفہ اس پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ آخر اس خاص لمحے پر عالم کے ظاہر ہونے کی علت یا وجہ ترجیح کیا ہے، اس سے پہلے یا اس بعد کیوں نہیں؟ ان کے تئیں چونکہ اس ترجیح کی کوئی وجہ ثابت نہیں کی جاسکتی لہذا ماننا ہوگا کہ عالم قدیم ہے اور ذات باری کے سوا ایسی کوئی قابل فہم علت نہیں ہوسکتی جو عالم کے وجود کو عدم پر برقرار رکھنے کے بعد پھر اسے وجود بخشے۔ امام غزالی نے تھافت الفلاسفۃ میں قدم عالم پر فلاسفہ کی جس دلیل پر سب سے تفصیلی و مختلف جہات سے بحث کی ہے وہ یہی دلیل ہے۔ جناب نقوی صاحب نے بھی اس دلیل کو بعینہہ دہرا دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
In accordance with the principle of sufficient reason, in order for an alternative to be preferred over all the other available alternatives, there must be a sufficient reason for the preponderance, that distinguishes the preferred alternative from all the other alternatives, which is to say that in the absence of a preponderating factor or sufficient reason, there is no ground or a valid basis for preferring any particular alternative over the others. For it could be argued that why does the eternal will attaches itself with a particular time instant, as opposed to all the other time instants, when all instants of time share an identical quiddity and similar characteristics, which is to say that no one particular time instant is more suitable or opportune than the others for the emergence of the world. (…)Since there is no preponderating factor that could preponderate a specific time instant over all the other time instants, as the moment of creation, no such preponderance is possible.
اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی نتیجے کے ظاہر ہونے کے لئے وجہ ترجیح یا علت درکار ہوتی ہے جو مساوی امکانات میں سے کسی ایک کی فوقیت ثابت کردے۔ لیکن جب حدوث عالم کے لئے ارادے کو ایسی علت کہا جاتا ہےتو اس سے یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ آخر اس ارادے کی علت کیا ہے کہ وہ کسی خاص لمحے کو ترجیح دے سکے؟ کیونکہ ارادے کے لئے ایسی کوئی قابل فہم وجہ ترجیح موجود نہیں، لہذا ارادے سے وجہ ترجیح قائم ہونا ممکن نہیں
تیسرے اعتراض پر تبصرہ
اس پر امام صاحب کا جواب بہت واضح ہے کہ سائل کو دراصل ارادے کا مفہوم معلوم نہیں۔ ارادے کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ یکساں یا مساوی امور میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا تاکہ وہ دوسرے سے ممیز ہو جائے۔ یعنی ارادہ نام ہی مساوی و یکساں ممکنات میں سے کسی ایک کو ترجیح دے کر اسے دیگر سے ممیز کرنا ہے، یہی اس کا تصور ہے۔ اگر ارادے سے “وجہ ترجیح ہونے” کا یہ مفہوم نکال دیا جائے تو پھر ارادے و قدرت میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ قدرت تمام امکانات کے ساتھ مساوی طور پر متصل صلاحیت کا نام ہے، قدرت از خود یہ طے نہیں کرسکتی کہ دو مساوی ممکنات میں سے کس کو وقوع پزیر کرے۔ ممکنات کے مابین جو شے یہ ترجیح قائم کرتی ہے، اسے ارادہ کہتے ہیں جس کے بعد قدرت اسے وقوع پزیر کردیتی ہے۔ پس ذات باری کا ارادہ وہ امر ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کائنات کو حادث کرنے کے تمام امکانات میں سے کس خاص لمحے نیز کس مقدار وغیرہ کا انتخاب کرکے اسے دیگر امکانات سے ممیز کرنا ہے، یہ ارادہ ہی وجہ ترجیح ہے۔ اس ضمن میں یہ مساوات یاد رکھنا چاہئے:
ارادہ = علت = وجہ ترجیح
پس ارادے کو خود اپنے سے باہر کسی بیرونی علت کی ضرورت نہیں، وہ از خود علت ہے۔ اگر ارادے کو خود اپنے جواز اور وجود کے لئے خود اپنے سے باہرکسی سبب کی ضرورت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ارادہ علت یا وجہ ترجیح نہیں بلکہ یہ بیرونی سبب موثر ہے اور ارادہ ایک تابع مہمل ہے جسے اس وجہ یا سبب کی پیروی کرنا ہے۔ امام غزالی کا فلاسفہ پر ایک بنیادی اعتراض یہی ہے کہ تم لوگ خدا کو بے اختیار وجود مانتے ہو۔ ارادے کی علت یا اس پر کیوں کا سوال اٹھانا بے معنی سوال ہے کیونکہ یہ سوال ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی یہ پوچھے کہ آخر علم سے کوئی شے سمجھ کیوں آجاتی نیز اس کا احاطہ کیوں ہوجاتا ہے جبکہ علم کی تعریف ہی یہ ہے کہ اس سے شے سمجھ آجاتی ہے، یہی اس کی حقیقت ہے۔ علم کی اس حقیقت کی علت کا سوال پوچھنا لغو بات ہے۔ اسی طرح ذات باری کے ارادے کی علت (وجہ ترجیح) کا سوال لغو ہے جبکہ ارادے کی شان ہی یہ ہے کہ وہ وجہ ترجیح قائم کرتا ہے۔ پس یہ سوال کہ قدیم ارادے نے کسی خاص لمحے سے متعلق یہ کیوں طے کیا کہ کائنات اس لمحے حادث ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ ارادہ کہتے ہی اس صفت کو ہیں جو یکساں اور مساوی امور میں سے کسی ایک کو ترجیح دے، اس پر کیوں کا سوال پیدا نہیں ہوتا کہ یہ ارادے کی ماہیت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔
دوسری بات امام صاحب یہ کہتے ہیں کہ خود فلاسفہ کے لئے بھی بعض امور میں ایسے ارادے کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں جو ایک ہی زمانے و مکان میں دو مساوی یا یکساں امور میں سے کسی ایک کی ترجیح قائم کرے۔ اس کے لئے وہ فلاسفہ کے تصور کائنات میں سے بعض امور کی تفصیلات کو بنیاد بناتے ہوئے چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً فلاسفہ کا کہنا تھا کہ یہ پوری کائنات قطب شمالی و جنوبی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ لیکن اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ کائنات میں موجود بے شمار مقامات میں سے قطب کے مقام کے لئے آخر ان دو ہی مقامات کا انتخاب کس لئے جبکہ سب مقامات اس مقصد کے اعتبار سے یکساں تھے کہ سب کچھ ان دو کے ارد گرد گھوم سکے؟ اسی طرح کائنات کے ایک جزو کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ دوسرا جزو ہوتا اور دوسرا پہلا، ان یکساں ممکنات میں یہ ترجیح کیسے قائم کی گئی کہ پہلا جزو دوسرا ہو اور دوسرا پہلا؟ اسی طرح فلاسفہ کا کہنا ہے کہ کائنات کے دس افلاک میں سے سب سے آخری یا اوپری فلک مشرق سے مغرب کی جانب جب کہ اس سے نیچے والا مغرب سے مشرق کی جانب گھوم رہا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اگر اس گردش کے برعکس آخری فلک مغرب سے مشرق اور اس سے نیچے والا مشرق سے مغرب کی جانب گھومنے لگے تو کائنات میں کوئی فرق رونما نہیں ہوگا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دو امکانات میں سے ایک کے بجائے دوسرے کی ترجیح کیسے قائم ہوئی؟ اب فلاسفہ کو یا یہ ماننا ہوگا کہ ایسے یکساں امور کے مابین یہ سب اتفاق سے ہوا اور یا یہ ماننا ہوگا کہ یہ ترجیح ایک ایسے ارادے سے قائم ہوئی جس کی صفت ہی یکساں امور میں ترجیح قائم کرنا ہے۔
امام صاحب کہتے ہیں کہ اگر اس کے جواب میں فلاسفہ یہ کہیں کہ یہ سب کچھ جوں کا توں ہونا واجب تھا تو یہ نرا تحکم ہے۔ اگر اس تحکم کے ساتھ بحث کرنا ہے تو پھر کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ عالم کا کسی خاص لمحے پر آغاز ہونا بھی واجب تھا اور تم ارادے کی علت کا سوال کرنا بند کرو۔
یہ وہ بحث ہے جو “تھافت” میں تفصیل سے مذکور ہے اور اس پر وارد ہونے والے متعدد اشکالات و اعتراضات کو امام صاحب نے خود ہی اٹھا کر ان پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی نقوی صاحب انہی اعتراضات کو صرف دہرا دینا کافی سمجھتے ہیں جن کا جواب کتاب میں موجود ہے۔ ہم نہیں سمجھ پائے کہ نقوی صاحب نے اس اعتراض کے ذریعے بحث میں کیا اضافہ کیا۔
چوتھا اعتراض : ارادہ علت ہے تو ذات واجب کی صفت ممکن ماننا ہوگی
ارادے کے مفہوم کو نہ سمجھ پانے کی بنا پر جناب نقوی صاحب ایک اعتراض یہ لاتے ہیں کہ اگر ارادہ ہی حدوث عالم کی علت و وجہ ترجیح ہے تو اس سے یہ ماننا لازم آتا ہے کہ خدا کی صفت ممکن (possible) ہو، اور یہ ماننا ناممکن و محال ہے کیونکہ جس کی صفت ممکن ہو وہ ذات خود ممکن ہوتی ہے نہ کہ واجب (necessary) جبکہ خدا “واجب الوجود” (necessary being) ہے نہ کہ “ممکن الوجود” (possible being)، ممکن الوجود ذات کسی کی محتاج ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
The eternal will [which is identical to the Divine Essence] either, in-itself, necessarily decrees a specific time instant as the moment of creation, or it does not necessarily decrees a specific instant, which is to say that, in-itself, it is possible for the will to both decree and not decree, that particular time instant as the moment of creation. If the eternal will necessarily decrees a specific instant of time, to the exclusion of all the other instants, then there must necessarily be a preponderant or a sufficient reason for the preponderance of a particular instant of time, over all the other instants, that necessitates the inclination of the will towards that specific instant of time, to the exclusion of all the other instants. In the absence of such a preponderant or sufficient reason, no one instant of time can be preferred over the other instants, as the most suitable or opportune, moment of creation, and consequently, there is no necessity. In the absence of a preponderant, the eternal will, if it acts by the sheer necessity of its nature, would either decree all instants of time as the moments of creation, or would not decree any instant of time, as the moment of creation, both of which are impossible.
Therefore, it is possible for the will to both decree and not decree, that particular time instant as the moment of creation, which is to say that the will is only possible-in-itself with respect to either decreeing or not decreeing that particular time instant as the moment of creation, and that which is possible-in-itself is dependent upon an extraneous cause for its necessitation. Hence, the will is dependent upon an extraneous cause for its necessitation with respect to either decreeing or not decreeing that specific time instant, as the moment of creation; but that which is dependent upon another is contingent-in-itself, and not a Necessary Existent, and this is a contradiction.
ان کی دلیل کا حاصل یہ ہے:
- ارادے سے کسی خاص لمحے پر کائنات کا حدوث یا تو بطریق لزوم و وجوب (necessity) ہوگا اور یا بطریق لزوم نہیں ہوگا
- اگر یہ بطریق لزوم ہوگا تو اس خاص لمحے کی تعیین کے لئے کوئی الگ علت بھی ہوگی جو ارادے پر یہ لزوم ثابت کرے کہ ارادہ اس خاص لمحے کے ساتھ متصف ہو کر اسے ترجیح دے
- اگر ارادے سے ماوراء ایسی کوئی علت موجود نہ ہو (جیسا کہ تیسرے اعتراض میں دکھایا گیا کہ وہ موجود نہیں ہوسکتی) تو پھر ارادہ کسی خاص لمحے کا تعین نہیں کرسکتا اور اس کے لئے کسی خاص لمحے کا لزوم بھی ثابت نہ ہوسکے گا
- پس اس صورت میں ارادہ یا کسی بھی لمحے کا تعین نہیں کرسکتا اور یا سب امکانی لمحات کے ساتھ مساوی طور پر متصف ہوگا اور یہ دونوں محال ہیں
- اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ارادے کے لئے کسی خاص لمحے کا تعین کرنا یا نہ کرنا صرف ممکن ہوگا، اور جو خود ممکن ہو وہ کسی کا محتاج ہوتا ہے
چوتھے اعتراض پر تبصرہ
نقوی صاحب کی یہ تقریر ارادے کے مفہوم سے عدم واقفیت کی غماز ہے، اور نتیجتاً اسی لئے انہوں نے قدرت و ارادے کو خلط ملط کردیا ہے۔ تیسرے اعتراض کے جواب میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ قدرت کی یہ شان ہے کہ وہ تمام امکانات کے ساتھ بطریق تساوی (indifference) متعلق ہوتی ہے، ارادہ وہ صفت ہے جو ان مساوی امکانات میں سے کسی ایک جانب کو ترجیح (preference) دے کر قدرت کو اس ترجیح یافتہ جانب متوجہ کرکے اسے وجود بخش دے اور یا وجود سے معدوم کردے، اور یا پھر ارادہ اسے عدم اصلی پر برقرار رکھے۔ چونکہ ارادہ از خود علت ہے لہذا کسی خاص لمحے کو ترجیح دینے کے لئے کسی خارجی علت کامحتاج نہیں، بلکہ ارادہ ازلی نے حدوث عالم کے لئے جس خاص لمحے کے لئے ترجیح قائم کی، عالم اسی لمحے وقوع پزیر ہوا۔ اور چونکہ اس خاص موقع یا لمحے سے قبل ارادہ عالم کے حدوث کی جانب متوجہ نہ تھا لہذا عالم معدوم رہا، گویا اس سے قبل ارادے نے عدم کو ترجیح دی تھی۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ایک شے لمحاتی وجود کے بعد پھر دو امکانات کے مابین معلق ہوتی ہے: یا دوسرے لمحے اس کا وجود برقرار رہے اور یا وہ عدم کا شکار ہو جائے۔ ارادہ دونوں میں سے جس جانب کو ترجیح دے، یہ شے اسی حال پر ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ناقد نے “عدم کی ترجیح ” کو “ارادے کے معدوم ہونے ” کے ہم معنی سمجھ لیا ہے جبکہ ممکن کا معدوم رہنا و ہوجانا بھی ارادے کی مقرر کردہ ترجیح کی بنا پر ہے۔ پس ان کے اس اعتراض کا کوئی مطلب نہیں کہ ارادہ تعیین کرنے و نہ کرنے کے مابین بطریق امکان معلق ہوکر کسی خارجی وجہ کا محتاج رہے گا۔ یہ غلط فہمی انہیں اس لئے لگی کیونکہ وہ ارادہ الہیہ کو از خود موثر سبب نہیں مانتے بلکہ اس کی بھی علت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ارادے کی علت کا سوال از خود متضاد بات ہے۔
ہم آگے دکھائیں گے کہ جو لوگ ذات باری کے لئے ارادے کے اس مفہوم کو نہیں مانتے، نہ صرف یہ کہ وہ عملاً خدا کے خالق ہونے کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کے لئے عالم کے ممکن ہونے اور نتیجتاً وجود باری کے اثبات کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے۔
پانچواں اعتراض : حدوث عالم سے خدا کی ذات میں تغیر ثابت ہوتا ہے ، اس لئے یہ نظریہ باطل ہے
حدوث عالم کے خلاف فلاسفہ کی ایک دیرینہ و پسندیدہ دلیل یہ تھی، جس پر امام صاحب نے تھافت میں بحث کی ہے، کہ اگر خدا کی بارگاہ میں ایسا ارادہ مانا جائے جو امور کو عدم سے وجود بخشتا ہے تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ پہلے خدا نے ایک شے کے عدم کا ارادہ کیا اور پھر وجود کا، یہ گویا خدا کی ذات میں تبدیلی و تغیر ماننے کے مترادف ہے جبکہ ذات قدیم تبدیلی و تغیر سے ماوراء ہے۔ ثابت ہوا کہ ذات باری کے حق میں ایسا ارادہ ماننا محال ہے اور نتیجتاً یہی ماننا ہوگا کہ عالم قدیم ہے جو خدا کی ذات سے طبعاً ازل ہی سے ظاہر ہوا۔ نقوی صاحب نے بھی اس دیرینہ دلیل کو دہرایا ہے۔
پانچویں اعتراض پر تبصرہ
اس اعتراض کا جواب امام صاحب اور متکلمین دو طرح دیتے ہیں: ایک اپنے اصولوں کے تحت اور دوسرا فلاسفہ کے اور اپنے مشترکہ اصول کے تحت۔ جواب سمجھنے کے لئے فعل کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے ہم چند نکات کی صورت پیش کرتے ہیں:
- فعل سے جو تصور ذہن میں ابھرتا ہے، اور جس کی وجہ سے مشکل پیدا ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ فاعل نے کچھ ایسا کیا جو وہ پہلے نہیں کررہا تھا یا اس پر کچھ ایسا حال گزرا جو اس پر پہلے طاری نہیں تھا۔ اس اعتبار سے فعل کے تصور سے فاعل میں حرکت و تغیر کا تصور ابھرتا ہے اور حرکت سے جسم لازم آتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ جو ذات جسم سے ماوراء ہے وہ حرکت سے بھی ماوراء ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کے فعل کو کیسے سمجھا جائے؟
- فعل میں تین تصورات ہیں: (1) فاعل یا مؤثر ، (2) مفعول یا اثر (یا متعلق فعل) اور (3) ان دونوں کے مابین خاص نسبت یا تاثیر۔ کیا فعل یعنی تاثیر الگ سے وجودیاتی حقیقت ہے یا یہ فاعل و مفعول کے مابین ایک اعتباری نسبت و تعلق ہے؟ اس پر ماہرین کا اختلاف ہے لیکن فی الوقت ہمیں اس تفصیل میں نہیں جانا، ہر دو صورت نتیجہ ایک ہی مانا جاتا ہے۔ اس تاثیری نسبت یعنی فعل کی ایک جانب فاعل ہے اور دوسری جانب مفعول یا اثر
- جب فعل کو مفعول کی جہت سے دیکھا جائے تو اس کا وجود اپنے مفعول یا اثر سے پہچانا جاتا ہے، مثلا مخلوق کا وجود خلق پر دلالت کرتا ہے وغیرہ۔ انسانی عقل کہتی ہے کہ جب مفعول ممکن تھا تو اس کی تقدیر و تخصیص کے ان گنت امکانات تھے اور کسی خاص تقدیر و تخصیص کے ساتھ اس کا پایا جانا لازما تقاضا کرتاہے کہ کوئی صاحب ارادہ فاعل بھی موجود ہے جو ترجیح قائم کرتے ہوئے ان کی تعیین، تقدیر و تخصیص کررہا ہے
- جب فعل کو فاعل کی نسبت سے دیکھا جائے تو مکانی و جسمانی وجود کے لئے یہ حرکت و تغیر پر دلالت کرتا ہے اور مکانی وجود کے لئے اسے ماننے میں قباحت نہیں۔ لیکن جس ذات کے لئے ماقبل دلیل سے یہ ثابت ہوچکا کہ وہ جسمیت اور اس کے تقاضوں سے ماوراء ہے اس کے حق میں فعل کے اس حرکتی تقاضے کو نہیں مانا جائے گا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ اس کا فعل اس سے پاک ہے (گویا تنزیہہ کی جائے گی)۔ رہی اس کے فعل کی کیفیت کہ وہ ذات بغیر حرکت فعل سرانجام دیتے ہوئے کیسے مفعول کو موجود کرتی ہے، تو اس بارے میں ہمیں خبر نہیں اور نہ ہی جاننے کا کوئی ذریعہ۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر ذکر ہوچکی کہ جب ذات باری پر زمان و مکان اور کمیت و کیف جیسے مقولات (modalities) لاگو ہی نہیں ہوتے، ایسے میں ہم اس کے فعل کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ البتہ چونکہ مقدر و مخصص مفعول موجود ہے، لہذا ہم فاعل کا اقرار کرتے ہیں۔
- رہے وہ متکلمین جن کی رائے میں تاثیر صرف ایک اعتباری نسبت ہے نہ کہ وجودی حقیقت، وہ فعل سے مفعول مراد لیتے ہیں جس کے بعد مطلب یہ رہ جاتا ہے کہ ذات باری سے مفعول صادر ہو رہے ہیں، رہی اس صدور کی کیفیت تو وہ ایک اعتباری شے ہے۔
الغرض دونوں آراء کے نتیجے میں ذات باری کی حدوث یا تغیر سے تنزیہہ بیان کردی جاتی ہے اور کیفیت سمجھنے کے علمی ذرائع چونکہ انسان کے پاس میسر نہیں اس لئے وہاں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے اور اسے ماننے میں کوئی استحالہ لازم نہیں آتا۔
دوسرے طریقے سے یہ مقدمہ امام غزالی فلاسفہ کو ان کے ہاں قبول شدہ اس بات سے سمجھاتے ہیں کہ تم یہ مانتے ہو کہ ذات باری نہ زمان میں ہے اور نہ ہی اس سے خارج کیونکہ وہ ذات جسم نہیں۔ جب تم یہ مانتے ہو، باوجود اس سے کہ “وہم ” ایسے وجود سے ابا کرتا ہے جو نہ زمان میں ہو اور نہ اس سے خارج، تو خدا کے فعل و ارادے کے بارے میں یہ ماننا کیوں محال ہے کہ وہ انسانی فعل و ارادے کی کیفیات سے ماوراء ہوتے ہوئے بھی مؤثر ہو؟ آخر اس میں استحالہ کیا ہے، سوائے اس بات کے کہ اس کی کیفیت سمجھ نہیں آتی؟ جس طرح اس کی کیفیت سمجھ نہیں آتی، بعینہہ اس وجود کی کیفیت بھی سمجھ نہیں آتی جو نہ مکان میں ہے اور نہ اس سے خارج کہ اس پر “اندر و باہر” کی کیٹیگری کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔
الغرض یہ بات ماننے میں کچھ محال نہیں کہ ارادہ ازلی نے ازل سے امور کو اس طور متعین کیا ہو کہ وہ خاص مقدار و لمحات میں خاص ترتیب سے حادث ہوں۔ اس بنا پر فاعل میں تغیر و حدوث کو لازم ٹھہرنا کوئی لازمی شے نہیں۔ یہ اصرار ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی یہ کہے کہ خدا کو موجود ماننے کے لئے اس کو زمانی و مکانی ماننا بھی لازم ہے کہ ہم ایسے ہی موجود سے واقف ہیں جو زمان و مکان میں ہو۔ خدا کے لئے جسمانی تقاضے ثابت کرنے والے گروہ مجسمہ کے ماہرین بعینہہ یہی دلیل دیا کرتے تھے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نقوی صاحب ایسے خیالات نہیں رکھتے ہوں گے۔
خدا کی بارگاہ میں ارادہ و فعل کے تصور سے پیش آنے والی مشکل کا حل فلاسفہ (جن کی نقوی صاحب وکالت فرمارہے ہیں) کے ہاں یہ ہے کہ خدا سے ارادے و فعل کی یکسر نفی کرکے اسے بے اختیار علت بنا دیا جائے۔ یہی وہ اصل خرابی تھی جس کا تعاقب امام صاحب نے “تھافت الفلاسفۃ” میں کیا تھا اور اس کے باب نمبر 3 میں اس کے مضمرات کو کھول کر بیان کردیا ہے کہ فلاسفہ کا نظریہ درحقیقت خدا کے خالق ہونے کے انکار کے ہم معنی ہے۔
چھٹا اعتراض اور اس پر تبصرہ: غزالی نے لامتناہی تسلسل کے امکان پر غلط نقد کیا
اب ہم نقوی صاحب کی تحریر میں ایک آخری قابل ذکر نقد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ “تھافت الفلاسفۃ ” میں امام غزالی نے قدم عالم کے نظرئیے پر جو نقد کیا ہے، نقوی صاحب نے اپنے تئیں اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غزالی علت و معلول کے دو لامتناہی تصورات میں فرق کرنے سے قاصر رہے۔ نقوی صاحب کا یہ جواب ہمارے لئے باعث حیرت ہے اور اسے سمجھانے کے لئے پہلے ہم امام صاحب کا فلاسفہ کے مقدمے پر نقد قاری کے سامنے رکھتے ہیں اور پھر نقوی صاحب کا جواب۔
امام غزالی “تھافۃ الفلاسفۃ” (اور کتاب “الاقتصاد فی الاعتقاد) ” میں کہتے ہیں کہ قدم عالم کا تصور ماننے سے تضاد جنم لیتا ہے اور جو بات متضاد ہو اسے نہیں مانا جاسکتا۔ قدم عالم کا مطلب یہ ہے کہ اب تک لامتناہی حوادثات وقوع پزیر ہوچکے ہیں اور ایسے لامتناہی تسلسل کو ماننا محال ہے۔ امام صاحب اس کی درج ذیل تین وجوہات بیان کرتے ہیں:
1۔ قابل تقسیم لامتناہی
ماہرین طبعیات کا کہنا ہے کہ ہر سیارہ اپنے مدار میں چکر لگا رہا ہے جو ایک خاص دورانئے میں مکمل ہوجاتا ہے، مسلم فلاسفہ کا بھی یہی نظریہ تھا۔ مثلا زمین (“سیارہ الف” ) پر گزرنے والے وقت کے لحاظ سے زمین سورج کے گرد ایک سال میں اپنے مدار پر گھومتی ہے جبکہ ایک اور “سیارہ ب ” مثلا دو سال کی مدت میں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ب کا ایک چکر الف کے چکر سے زمانی لحاظ سے دو گنا طویل ہے۔ فلاسفہ کا ماننا تھا کہ اوپری افلاک کے سب سیارے ازل سے یونہی گھوم رہے ہیں، لہذا کائنات کے قدیم ہونے کا مطلب یہ ماننا ہے کہ اب تک سب سیارے لامتناہی چکر مکمل کرچکے ہیں۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ب نے اب تک “لامتناہی” چکر مکمل کئے ہیں تو الف نے “دو گنا لامتناہی” مکمل کئے ہیں۔ لیکن یہ ایک لغو بات ہے کیونکہ لامتناہی قابل تقسیم نہیں ہوتا۔ یہ تضاد اس لئے جنم لے رہا ہے کیونکہ کائنات کو قدیم فرض کیا جارہا ہے۔
2۔ مختلف اعداد پر محیط لامتناہی سلسلہ
اسی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے امام صاحب کہتے ہیں کہ کسی سیارے کے اب تک مکمل شدہ چکروں کی تعداد کے چار ہی امکان ہیں اور چاروں غلط ہیں:
الف) وہ عدد ایک جفت عدد (even number)ہوگا
ب) یا وہ طاق عدد (odd number)ہوگا
ج) یا دونوں ہوگا
د) اور یا دونوں نہیں ہوگا (یعنی نہ جفت نہ طاق)
تیسرا اور چوتھا امکان بداہتاً غلط ہیں۔ اگر پہلے امکان کی رو سے وہ عدد جفت ہے تو ایک مزید چکر کے بعد وہ طاق ہوجائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ طاق ہونے سے ایک کم ہے اور اس اضافے کے بعد اپنے سے بڑے نمبر کے مساوی ہوجائے گا۔ یہی حال دوسری صورت حال کا ہے اور یہ دونوں لغو ہیں کیونکہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شے لامتناہی ہو اس میں ایک نمبر کے اضافے اور کمی سے اپنے سے بڑے یا چھوٹے کے مساوی ہونے کا کیا مطلب؟
3۔ عبور ہوجانے والا لامتناہی
تیسری وجہ امام غزالی یہ بیان کرتے ہیں کہ لامتناہی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے عبور کرسکنا ممکن نہیں، اور جو عبور ہوکر مکمل ہوجائے وہ لامتناہی نہیں۔ اس کی مثال ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہم کسی ایسی نہر کے کنارے خاص مقام پر کھڑے ہوں جس میں پانی کسی لامتناہی دور مقام سے بہہ کر ہماری جانب آتا ہو تو وہ پانی کبھی ہم تک پہنچ نہیں سکتا۔ اسے سمجھنے کے لئے یوں سمجھئے کہ فرض کریں اس نہر کا کوئی نکتہ آغاز ہے جو ہم سے مثلا دو سو چالیس کلو میٹر دور ہے اور پانی ایک خاص رفتار (مثلا دس کلو میٹر فی گھنٹہ) سے مسلسل بہتا ہوا ایک دن (چوبیس گھنٹے) میں ہم تک پہنچ گیا۔ گویا اس پانی نے “متناہی فاصلے” کو چوبیس گھنٹے میں عبور کرلیا۔ اگر اس نہر کا نکتہ آغاز مثلا دو سو پچاس کلو میٹر دور ہو تو اسے کسی خاص لمحے میں ہم تک پہنچنے کے لئے ایک دن اور ایک گھنٹہ درکار ہوگا۔ یعنی اگر نہر کے نکتہ آغاز کو دو سو چالیس سے تھوڑا پیچھے دھکیل دیا جائے تو اس کا پانی چوبیس گھنٹے بعد لمحہ حال میں ہم تک نہیں پہنچ سکے گا۔ اب اگر ہم اس نہر کے نکتہ آغاز کو مسلسل پیچھے دھکیلتے چلے جائیں یہاں تک کہ اس کا آغاز کسی لامتناہی مقام (یعنی ایسا مقام جسکی کوئی ابتدا نہیں) سے آرہا ہے تو اس کے پانی کا کسی بھی لمحے پر ہم تک پہنچنا محال ہوگاچاہے وہ کتنی ہی رفتار سے سفر کرے، کیونکہ جس بھی لمحے پر اس کا پہنچنا فرض کیا جائے اس لامتناہی نہر کے نکتہ آغاز کو اس کے ابتدائی مقام سے تھوڑا مزید پیچھے فرض کرنا ممکن ہے اور یوں اس کا پانی کبھی اس لامتناہی فاصلے کو عبور نہیں کرپائے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عالم کے اندر ماضی میں رونما ہوئے حوادثات کی تعداد لامتناہی ہے تو زمانہ حال کا وجود ممکن نہیں کیونکہ اس کے لئے لامتناہی کا عبور ہونا ضروری ہے جو ممکن نہیں۔
یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ماضی کے لامتناہی حوادث کی سیریز ممکن نہیں، بصورت دیگر متنوع تضادات کو ماننا لازم آتا ہے۔ یہ ہے قدم عالم پرغزالی کا پیش کردہ وہ نقد جس کا نقوی صاحب نے جواب دینا تھا۔ امام صاحب کا نقد صاف طور پر واقعات کی ایک ایسی سیریز سے متعلق ہے جو زمانے کے مختلف اوقات میں ظاہر ہورہے ہوں مگر ان کا کوئی نکتہ آغاز نہ ہو۔
نقوی صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ علت و معلول کے لامتناہی تسلسل کی دو صورتیں ہیں: عمودی (vertical or hierarchical) اور افقی (horizontal، نقوی صاحب اسے linear کہتے ہیں)۔ لامتناہی عمودی سیریز کا مطلب یہ ہے کہ بغیر زمانے (یا ایک ہی زمانے) میں علت و معلول کے لامتناہی سلسلے کا پایا جانا ، اس سیریز میں علل و معلول کے مابین جاری تعلقات میں اہمیت زمانے کی ساعت کو نہیں بلکہ ان کے وجودی تعلقات کے پہلو کوہے ۔ اس کے برعکس لامتناہی افقی سیریز کا معنی یہ ہے کہ زمانے کی مختلف ساعتوں میں علت و معلول کا لامتناہی سلسلہ پایا جائے، یعنی زمانے کی مختلف ساعتوں میں ایک واقعہ دوسرے کی جگہ لیتا رہے۔ نقوی صاحب کہتے ہیں کہ جو شے محال ہے وہ اول الذکر سلسلہ ہے نہ کہ موخر الذکر، اور غزالی اس فرق کو ملحوظ نہ رکھ سکے۔ وہ لکھتے ہیں:
According to Ghazali, it is impossible for temporal events to depend upon other temporal events ad infinitum, since if an infinite series of causally-related temporal events were possible, there will be no way to prove the existence of the Necessary Existent. What follows is a critical analysis of Ghazali’s statement.
Ghazali appears incapable of distinguishing between a hierarchical [vertical] causal series and a linear [horizontal] causal series. A hierarchical series__ beginning with the First Cause & ending with the material world__ consists of eternal, immaterial and immutable, causes that transcend the spatiotemporal realm. Not being temporal in nature, these entities are not dependent upon temporal causes, but eternal ones, since it is impossible for a temporal to proceed in an immediate manner from an eternal [refer to 3(b)], and it is equally impossible for an eternal effect to proceed from a temporal cause. Moreover, a hierarchical causal series consists of existential-causes. A linear causal series, on the other hand, consists of temporal, material and changeable, entities, that exist within the spatiotemporal, world of matter; a linear series is constituted by the causes of subsistence i.e. matter and form, since every member of a linear series is a matter-form composite. Therefore, that which negates the existence of the First Cause, and is consequently, impossible, is the ascending infinity of the former [hierarchical series], and not the latter [linear series], which pertains to the material world.
Now, with respect to the linear causal series, it is impossible for an infinite succession or series of causally related temporal events to exist in actuality, together, simultaneously; but it is by no means impossible for an infinite succession or series of causally related temporal events to exist as a potentiality, such that the existence of the posterior is conditioned upon the non-existence or cessation of the prior, with the prior and the posterior existing in distinct and successive periods of time and not simultaneously. In other words, that which is impossible, is an actual infinite but not a potential infinite.
نقوی صاحب نے یہاں actual and potential infinite کو جس معنی میں برتا ہے وہ بھی محل نظر ہے تاہم فی الوقت ہم بحث کو طول نہیں دینا چاہتے اور صرف اپنے مدعا تک محدود رہیں گے۔ نقوی صاحب کہتے ہیں کہ افقی لامتناہی حوادث کی سیریز قابل فہم ہے، مگر کیسے؟ نیز امام غزالی کے اٹھائے گئے تین نکات کا کیا جواب ہے؟ نقوی صاحب اس سے تعرض نہیں کرتے جبکہ غزالی کا اعتراض عمودی نہیں بلکہ لامتناہی افقی سیریز ہی کے امکان پر ہے۔ چنانچہ اصل اعتراضات سے تعرض کئے بغیر نقوی صاحب نے ایسی سیریز کے ممکن ہونے کا بس دعوی کردیا ہے اور دلیل بیان نہیں کی، ایسے میں ہمارے لئے ان کے دعوے کو جانچنا ممکن نہیں۔
درج بالا پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ممکنہ طور پر نقوی صاحب کی بات کی ایک توجیہہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے یہاں ایک اور اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ آئیے اس پہلو کو بھی کھول لیتے ہیں اور یہاں سے قدم عالم پر متکلمین کے بنیادی اعتراضات سامنے آتے ہیں جن کا جواب قدم عالم کے حامیوں کو دینا ہے۔ قدم عالم کے مقدمے سے اثبات خداوندی کی دلیل یوں چلتی ہے:
پہلا مقدمہ: ممکن الوجود کے لئے واجب الوجود درکار ہے
دوسرا مقدمہ: عالم اگرچہ قدیم ہے مگر ممکن الوجود ہے
نتیجہ: عالم کے لئے واجب الوجود لازم ہے (اور وہ واجب ذات اس عالم کی علت ہے)
امام غزالی کے اس پر چار اعتراضات ہیں۔
1۔ قدیم عالم کا تصور ماننے سے تضاد جنم لیتا ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا، تو جو مقدمہ ہی متضاد ہو اس کی بنیاد پر قائم ہونے والا نتیجہ قابل اعتناء نہیں
2۔ اگر عالم قدیم ہے اور اس میں جاری حوادث کے مابین علت و معلول کا سلسلہ جاری ہے تو یہ “ممکن ” کیسے ہے؟ جو شے قدیم ہو وہ “صرف ہوتی ہے”،اس کا معدوم ہونا محال ہوتا ہے۔ اور جو شے “صرف ہوتی ہے”، وہ ممکن نہیں واجب ہوتی ہے۔ پس اگر عالم قدیم ہے نہ کہ حادث تو اس کا امکان کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر عالم کا امکان ثابت نہیں ہوسکتا تو اس دلیل سے وجود خداوندی بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا
3۔ اگر عالم علت و معلول کے ایسے قدیم سلسلوں کا نام ہے جس کی کوئی ابتداء نہیں تو اس سلسلے کو از خود واجب ماننا کچھ مشکل نہیں اور نتیجتاً اسے کسی واجب کی ضرورت نہیں رہ جاتی کیونکہ ہر حادث کے پیچھے ایک علت، اسکے پیچھے دوسری علت، اس کے پیچھے تیسری علت لائی جاسکتی ہے اور چونکہ اس سلسلے کا کوئی آغاز ہی نہیں لہذا یہ سلسلہ خود اپنی توجیہہ کرنے لائق ہوکر واجب بن سکتا ہے
4۔ اگر عالم ارادہ خداوندی نہیں بلکہ اس کی ذات سے طبعاً ازل سے ظاہر ہوا اور بعض امور ازل سے یکساں کیفیت پر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذات باری اختیار سے عاری ذات ہے جو کوئی فعل سرانجام نہیں دیتی اور نہ ہی وہ خالق ہے ۔ مفعول جب تک حادث نہ ہو، مفعول کی جہت سے فاعل کے فعل پر استدلال کا کوئی امکان نہیں
دھیان رہے کہ قدیم عالم پر ابھی ہم نے صرف وہی اعتراضات نقل کئے ہیں جو امام غزالی نے اٹھائے ہیں، امام رازی (م 1210 ء ) اور علامہ آمدی (م 1234 ء ) نے اس پر مزید اعتراضات بھی وارد کئے ہیں۔
نقوی صاحب نے دراصل اپنے تئیں دوسرے و تیسرے نقد کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ زمانی لامتناہی واقعات کی ایسی سیریز ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ذات باری ثابت نہ ہوسکے کیونکہ اگر زمانی علت و معلول کا ہر فرد محتاج ہو ، تو اگرچہ یہ سیریز لامتناہی ہو پھر بھی یہ ماننا ممکن ہوگا کہ اس سیریز کا ہر فرد ایک واجب کا محتاج ہے۔ یوں ذات باری کی دلیل قدم عالم کے مفروضے کے ساتھ بھی ممکن ہوجاتی ہے۔ البتہ علل و معلول کی عمودی یا وجودی لامتناہی سیریز ماننے سے واجب کا اثبات ناممکن ہوجاتا ہے۔ چونکہ ابن سینا و فلاسفہ کے ہاں عمودی یا وجودیاتی سطح پر علتوں کی لامتناہی سیریز کا اقرار نہیں پایا جاتا بلکہ اس کا ایک مبدا و آغاز ہے ، لہذا فلاسفہ کا قدم عالم کا نظریہ (جو افقی یا زمانی لامتناہی سیریز کا قائل ہے) وجود خداوندی کی دلیل کے خلاف نہیں۔ گویا ممکن موجودات کی عمودی لامتناہی سیریز اثبات خداوندی میں مانع ہے نہ کہ افقی یا زمانی۔
ہمارے خیال میں یہ بحث امام غزالی کے اٹھائے ہوئے کسی بھی اعتراض کا براہ راست جواب نہیں دیتی۔ نقوی صاحب کو ابن سینا کا مقدمہ ثابت کرنے کے لئے یہ دکھانا ہے کہ:
1۔ آخر علتوں کی افقی لامتناہی سیریز ماننے سے جو تضاد لازم آتا ہے، ابن سینا کے نظام فکر میں اس کا کیا حل ہے نیز
2۔ عالم کو حادث مانے بغیر اس کا امکان کیسے ثابت ہوتا ہےنیز
3۔ افقی ہی سہی، عالم میں جاری علتوں کی ایسی لامتناہی سیریز جس کا کوئی سرا نہیں، اسے از خود کیوں نہ واجب مانا جائے؟
نقوی صاحب کا تجزیہ ان امور پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا بلکہ جس چیز کو ثابت کرنا تھا وہ اسے فرض کرکے بحث کرتے ہیں۔
اس تحریر کے آخر میں ہم ایک بات کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ امام غزالی کی “تھافت الفلاسفۃ “کتاب اپنی غیر معمولی اہمیت کے باعث مسلمان اہل علم کے مابین زیر بحث رہی اور آپ کے بعد مختلف نظریات بھی وجود میں آئے جو کسی نہ کسی صورت میں قدم عالم کے حامی ہیں مگر اپنی تفصیل میں ابن سینا کے نظریات سے یکسر مختلف ہیں (مثلا علامہ ابن رشد اور شیخ اکبر و وجودی روایات وغیرہ کا نظریہ جسے آگے چل کر دیگر اہل علم جیسے کہ ملا صدرہ وغیرہ نے بھی اختیار کیا)۔ ان مابعد نظریات پر بھلے سے تھافت کے بعض اعتراضات وارد نہ ہوتے ہیں، لیکن ان نظریات کی بنیاد پر تھافت کو جانچنا زیادہ بامعنی عمل نہیں کیونکہ یہ کتاب ایک خاص نظرئیے کے رد میں لکھی گئی تھی اور اس نظرئیے کی تفصیل کو بدل کر اس کا جواب لکھنا تھافت کا جواب نہیں۔ یہ “مہارت ” علامہ ابن رشد نے بھی جا بجا دکھائی ہے کہ ابن سینا کے نظرئیے کو بدل کر تھافت کا جواب دے دیا جائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص جدید دور میں مثلا زمانے کی اے کے بجائے “بی تھیوری ” کی بنیاد پر امام غزالی کے پہلے نقد کا جواب دے، لیکن پھر اسے بتانا ہوگا کہ کیا ابن سینا بھی بی تھیوری کے قائل تھے؟ الغرض کہنے کا مقصد یہ ہے کہ “تھافت الفلاسفۃ” کتاب ایک معین نظرئیے کے نقد میں لکھی گئی اور نئے نظریات کو بنیاد بنا کر اس پر نقد کرنے سے قبل دیکھ لینا چاہئے کہ اس کے اثرات کہاں کہاں اور کیسے پڑتے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ محترم نقوی صاحب اس تحریر کے پیش نظر امام صاحب پر اپنے نقد پر نظر ثانی فرمائیں گے۔
وما توفیقی الا باللہ
کمنت کیجے