کچھ واقعات اور باتیں جن کی نسبت تاریخ سے ہوتی ہے اور وہ زبان زدِ عام ہوتی ہیں اور پھر ان کو نصاب کا حصہ بنا کر قوم کی ذہن سازی بھی کی جاتی ہے، مگر ان واقعات کی تاریخی حقیقت کیا ہے اس کو جاننے کے لیے بہت کم لوگوں ہی جستجو کرتے ہیں۔ بھارتی مصنفہ و مورخہ رومیلا تھاپر نے ایک ایسی ہی کوشش سومناتھ کے واقعے کے بارے میں کی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ پروفیسر ریاض صدیقی نے کیا جس کو فکشن ہاؤس نے شائع کیا ہے۔
کتاب کے اوپر بات کرنے سے پہلے ‘عرض مترجم’ پر بات کرنا ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسر ریاض صدیقی صاحب نے ایک اہم کتاب کا ترجمہ کیا اور پھر اس کے مندرجات پر بہت عمدگی سے گفتگو بھی کی ہے مگر اپنی عرضی میں انہوں نے تقسیم کے حوالے سے کانگریس کے بیانیہ کو تاریخی حقیقت بنا کر پیش کیا ہے اور تقسیم کے بعد بھی بھارت کے حوالے سے خوشامد کا مظاہرہ کیا ہے۔ تقسیم ہند کے بارے میں اگر انہیں کانگریسی قیادت کی غیر سنجیدگی اور ہٹ دھرمی محسوس نہیں ہوتی تو یہ ان کا زوایہ نظر ہے مگر اس کے مقابل نظریہ میں بھی کافی حقائق موجود ہیں۔ پھر تقسیم کے بعد انہیں بھارت میں تاریخ کے حوالے سے روشنی کی امید تو نظر آتی ہے اور ان کو وہاں پر تعصب اور تنگ نظری کمزور ہوتی نظر آتی ہے جس کی بجا طور پر ایک مثال رومیلا تھاپر ہیں لیکن بھارت جیسا فرقہ وارانہ ماحول اور کشیدگی سے پاکستان دوچار نہیں ہوا۔ یہاں بیشک کئی دلخراش سانحے ہوئے مگر باقاعدہ مذہبی فسادات کے حوالے سے پاکستان محفوظ رہا ہے جس کا ذکر کیا جانا چاہیے تھا۔
پھر اپنی خوشامد اور مرعوبیت کا احساس مترجم ہمیں اس وقت دلاتے ہیں جب وہ لفظ ‘ہندوستان’ کو ہمارے شعور کی ہندو دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ اصل لفظ ‘ہندستان’ ہے۔ یہ بھی ایک خلاف حقیقت بات ہے، جس کی مزید تردید کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی ہندوستان لکھتا ہے تو کافی عرصہ سے یہ نام کتابوں اور مضامین میں لکھا جاتا رہا ہے اور کسی نے اس سے ہندو دشمنی کے طور پر نہیں لیا۔ اس کے علاوہ بھی مترجم نے کئی جگہ ہندی الفاظ استعمال کیے ہیں جو کہ قاری کو مشکل میں ڈالتے ہیں بالخصوص سمتوں کے نام میں انہوں نے مشرق و مغرب کی بجائے پورب و پچھم اس ہی طرح شمال و جنوب کے بارے میں دوسرے الفاظ استعمال کیے ہیں جو کہ پڑھنے والے کو دقت میں ڈالتے ہیں۔ پورب و پچھم تو پھر سمجھ آ جاتے تھے مگر شمال و جنوب کے لیے ان کے لکھے لفظ اتری اور دکنی کے لیے مجھے بار بار انگریزی متن سے رجوع کرنا پڑا ۔ اس کے علاوہ بھی کئی جگہ اُردو ترجمہ انگریزی متن سے زیادہ مشکل ہے۔
سومناتھ کے واقعے پر رومیلا تھاپر کی دلچسپی کا سبب ایک سیمنار بنا جس میں محمود غزنوی کے حملے کے بعد اس کے اثرات کے بارے میں انہوں نے مقالہ پیش کرنا تھا تو اس کی تیاری کے لیے رومیلا تھاپر نے کئی کتب اور مضامین سے مدد لی تو اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ ترکی اور فارسی بیانیوں میں جس واقعے کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جین مت اور سنسکرت زبان میں لکھے تاریخی مواد اور کتبات میں اس واقعے کی وہ تفصیلات نہیں تھیں نا ہی اس واقعے سے جڑے دیگر مسائل پر بات کی گئی۔ بیانیوں کے اس تضاد نے رومیلا کو مزید تحقیق اور کھوج کی طرف مجبور کیا۔ لہذا اس موضوع پر تقریباً تمام اہم مواد کا انہوں نے مطالعہ کیا اور اس کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لیا۔ یہ کتاب اس ہی تحقیق اور جستجو کا نتیجہ ہے. رومیلا نے لکھا ہے کہ مورخ کی ذمہ داری فقط ماضی کے واقعے کو بیان کرنا نہیں ہوتی بلکہ تاریخ کو ادراک کی جو تہیں اور معنی دئیے گئے ہوتے ہیں ان پر بھی نظر ڈالنی ہوتی ہے۔ نیز رومیلا نے اس پر تحقیق کی ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا تو اس نے وہاں پر رہنی والی قوموں کے ذہن پر کیا اثر ڈالا، وہ اس کو کس طرح دیکھتے تھے۔
سومناتھ کے واقعہ کی تحقیق اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کو بنیاد بنا کر ہندوستان میں ہندو مسلم کشیدگی میں اضافہ ہوا اور پھر بابری مسجد کا سانحہ بھی اس ہی رویے کی وجہ سے رونما ہو جس نے ایک قوم کو نفرت پر ابھارا۔ لہذا یہ فقط ایک واقعے نہیں بلکہ اس کی بنیاد پر مشہور بیانیے نے نفسیاتی اور جذباتی سطح پر قوموں کی ذہن سازی کی ہے۔
رومیلا نے شروع میں سومناتھ کی ابتدائی تاریخ کا ذکر کیا ہے دریائے سندھ کی تہذیب کے زمانے سے ہی گجرات بندرگاہوں اور بیوپار کا مرکز تھا اس لیے مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے لوگ یہاں پر آن ملے تھے۔ قدیم مآخذ میں سومناتھ کے محل وقوع کا ذکر پربھاشا پٹن کے نام سے آیا ہے، یہ سوراشٹر کا ایک مقبول عام یاترا تھی یعنی یہ مقدس مقام تھا جس کو تیرتھ کہتے ہیں۔ رومیلا تھاپر نے بتایا ہے کہ مہا بھارت میں سومناتھ کے مندر کا کہیں ذکر نہیں ہے البتہ پربھاشا پٹن کے تیرتھ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ مشہور تھا۔ مہابھارت میں اس مقام کو کرشن جی اور پانڈووں سے منسوب کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ مرکز تھا جہاں کرشن جی اور ارجن کی ملاقات ہوئی تھی۔ ان باتوں سے ایک چیز تو یہ سامنے آتی ہے کہ سومناتھ کی مذہبی حیثیت ہندوؤں کے ہاں موجود تھی مگر یہاں پر قدیم زمانے میں مندر کے وجود کا پتہ نہیں چلتا ۔
اس علاقے میں چندر گپت موریا نے ایک ڈیم بنایا تھا جس کا مقصد زراعت کو فروغ دینا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زرعی حوالے سے بھی یہ علاقہ بہت زرخیز تھا جس کو پانی کی دولت میسر تھی۔جس کا مطلب ہے یہ علاقے تجارت اور زراعت دونوں حوالوں سے معاشی طور پر قابل ذکر تھا۔ جبکہ اس کو مذہبی حیثیت بھی حاصل تھی کیونکہ یہاں یاترا کا مقام تھا۔
رومیلا تھاپر نے ساتویں صدی عیسوی کے ایک سیاح کا ذکر کیا ہے جس نے بتایا کہ اس وقت گجرات کے علاقے میں بودھ خانقاہیں زوال پذیر تھیں۔اس نے پربھاشا پٹن میں کسی عمارت کا ذکر نہیں کیا۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی تک یہ علاقہ بودھوں پر مشتمل تھا اور اس وقت بھی کسی بڑے مندر کا وجود نہیں ملتا۔ وہاں سے ملنے والے سنسکرت کتبات کے مطابق سوراشٹر میں اس وقت مختلف راجاؤں کی حکومت تھی۔ کئی راجوں کا راج چھوٹے علاقوں میں تھا۔ نویں صدی کے کتبات میں بھی سومناتھ مندر کا وجود نہیں ملتا مگر پربھاشا پٹن یاترا کا مقام موجود تھا۔دسویں صدی عیسوی سے لیکر تیرھویں صدی عیسوی تک چولیاکیا خاندان کی حکومت تھی ۔ بعض لوگوں کا مؤقف ہے سومناتھ کا مندر چولیاکیا بادشاہ مل راج نے بنوایا تھا۔ یہ یقینی بات نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی چھوٹے سے مندر کا وجود ملتا ہے جس کی ازسرنو مرمت کروائی ۔اگر اس کے باوجود مل راج نے کوئی مندر بنوایا تو وہ چھوٹا سا ہی مندر ہو گا۔ رومیلا بتاتی ہیں کہ راج مل کا مندر بنوانے کا مقصد سیاسی تھا کیونکہ یہ اس وقت کا معمول تھا کہ اپنی حکومت کے استحکام کے لیے مقامی آبادی کا اعتماد جیتنے کے لیے راجے یہ کام کرتے تھے۔ اس عرصے میں یعنی دسویں سے تیرہویں صدی عیسوی میں گجرات کی معیشت نے غیر معمولی ترقی کی اس میں مختلف خطوں سے تاجروں نے یہاں بیوپار کیا۔ یہ زمانہ محمود غزنوی کے حملے کے بعد کا ہے اور البیرونی نے دعویٰ کیا کہ غزنوی کے حملے نے گجرات اور سوراشٹر کی معیشت کو تباہ کیا مگر رومیلا کہتی ہیں کہ یہ تباہی وقتی تھی بہت جلد اس علاقے نے اپنی مالی حیثیت بحال کر لی تھی۔ اس جلد بحالی سے بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ غزنوی کے حملے نے اس طرح تباہی نہیں مچائی جیسے کہ البیرونی کا خیال ہے۔ معاشی طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ اس علاقے میں ڈاکے بھی عام تھے، پھر اس کے اردگرد تین بندرگاہیں تھیں تو زمینی کے ساتھ سمندری ڈاکے بھی معمول تھے۔ اس وقت کی حکومتیں بیوپاریوں سے ڈاکوؤں کی حفاظت کے نام پر بھی کثیر رقم لیتی تھیں۔ کیونکہ اس کو تین مختلف بندرگاہیں ملتی تھی تو مختلف تہذیب و ثقافتی پس منظر رکھنے والے اور مختلف مذاہب کے لوگوں کا آپس میں میل جول تھا، اس لحاظ سے مذہبی حوالے سے ان میں کافی رواداری پائی جاتی تھی، بلکہ جینی مآخذ میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ جین مت کے ایک پیروکار نے اپنے مسلمان شراکت دار کے لیے اس علاقے میں مسجد بھی بنوائی تھی۔ تیرھویں صدی میں مارکو پولو نے بھی اس علاقے کا رخ کیا اور بتایا کہ لوگوں کی زندگی کا معمول بیوپار تھا جن میں سب سے اہم وہ گھوڑوں کی بیوپاری کرتے تھے۔ دیگر مآخذ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عربی النسل گھوڑوں کی اس علاقے میں بہت مانگ تھی اور ان کو لگاتار درآمد کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں گھوڑوں کی عمریں کم ہوتی تھیں تو ان کی مانگ کبھی بھی نہیں رکی۔ بیوپار کے کاروبار میں فقط وہاں کے عام افراد نہیں بلکہ مندروں کی آمدنی بھی بیوپار سے وابستہ تھی۔ کئی مندر براہ راست بیوپار سے وابستہ تھے۔ چودہویں صدی تک تجارتی لحاظ سے یہاں خوب گہما گہمی تھی، یہاں پر پندرہویں صدی میں بدلاؤ آیا اور اس کی معاشی اہمیت پہلے جیسی نہ رہی اس میں ایک بڑی وجہ دیگر مراکز کا معاشی لحاظ سے فعال ہونا تھا، جس کی وجہ سے تاجروں کی نظر میں اس کی وہ اہیمت نہ رہی پھر ایک اور بڑی وجہ عربوں نے براہ راست بیوپار شروع کر دیا یعنی انہوں نے مڈل مین کا کردار کم یا ختم کر دیا۔ اس معاشی تنزلی کے باعث بیوپار مندروں کو پہلے جیسی امداد نہیں کر سکتے تھے اس لیے بہت سے مندروں کی حالت متاثر ہوئی۔
جب غزنوی نے حملہ کیا اس وقت بھی سومناتھ میں ایک مختصر حلقہ عرب بیوپاریوں کا تھا اور یہ اسمعیلی عقائد کے حامل تھے ان کی مساجد سنی مساجد سے الگ تھیں۔ یہ معلومات انتہائی اہم ہے کیونکہ غزنوی کے حملے میں اسمعیلیوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ غزنوی کا مقابلہ کیا تھا۔ غزنوی جو کہ سنی عقائد کا حامل تھا کا یہ اقدام اسمعیلیوں کے خلاف بھی ایک حملہ تھا۔ اسمعیلیوں کے خلاف اس وقت کے سلاطین کے حملے بھی ایک حقیقت ہیں۔ اس وقت فاطمی سلطنت میں اسمعیلیوں کے اندر بھی مذہبی تقسیم ہو چکی تھی اور وہ خوجے اور بوہریوں میں منقسم ہو گئے تھے اور مصر سے بھاگ کر وہ گجرات کی طرف بھی گئے تھے۔
رومیلا تھاپر نے مزید حقیقت شناسی کے لیے ترکوں کے لکھے ہوئے بیانیوں پر بھی تفصیل سے نظر ڈالی ہے اور ان بیانیوں میں سومناتھ کی تباہی اور اس کے مندر میں سے ہوئی لوٹ مار کے ذکر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ترکوں کے لکھے فارسی بیانیوں میں محمود غزنوی کے حملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس کے مندر کے بارے میں بھی لکھا ہے جن میں مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے۔ البیرونی کا ذکر ہو چکا جس نے غزنوی کے حملے کے بعد سومناتھ کی اقتصادی بربادی کا ذکر کیا ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ غزنوی کے حملے کے کچھ ہی عرصے بعد یہ علاقہ پھر معاشی ترقی کرتا اور ابھرتا نظر آتا ہے۔
غزنوی کے حملے سے پہلے اس کی تاریخ کے بارے میں رومیلا نے بتایا ہے کہ اس زمانے میں لوٹ مار کا انداز یہ تھا کہ پہلے مویشیوں پر قبضہ کیا جاتا ہے ان کی بنیاد پر اس شخص کے گرد لوگ اکٹھے ہوتے تھے جو گروہ بنا کر مزید حملے کر کے لوٹ مار کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لوٹ مار کے لیے حملے عام تھے، غزنوی کے حملوں کے پیچھے اصل مقاصد سیاسی و اقتصادی تھے۔ اس میں مذہب کا عمل دخل فقط اتنا تھا کہ جہاں اس کو استعمال کر کے کامیابی حاصل کی جاسکتی وہاں اس کو استعمال کیا جاتا۔ اس لیے غزنوی کے لشکر میں بہت سے ہندو بھی شامل تھے۔ جبکہ کچھ ترک النسل لوگ جو کہ مذہبی بنیاد پر غزنوی کے لشکر کا حصہ بنے ان کا بھی اصل مقصد اقتصادی تھا۔ محمود غزنوی نے سومناتھ سے پہلے ملتان پر حملہ کیا جہاں اسمعیلی زیر اقتدار تھے، غزنوی نے اس حملے میں اسمعیلیوں کی مسجد کو بھی تباہ کیا۔ غزنوی نے حملوں سے حاصل ہونے والی دولت کو غزنی میں لگایا، اس نے مختلف علماء و مشائخ، دانشور اور شعراء کو غزنی میں بلایا۔ اس نے آس پاس کے کتب خانوں سے کتابیں بھی غزنی منتقل کیں اور ان میں سے ناپسندیدہ کتابوں کو نظر آتش کر دیا۔ غزنوی کا سومناتھ پر حملہ بھی اس ہی تناظر میں تھا، اس کا مذہبی مقصد کوئی نہیں تھا، کیونکہ اس سومناتھ کا علاقہ معاشی لحاظ سے مضبوط تھا اس لیے اس کو یہاں سے کثیر دولت مل سکتی تھی۔
ترک مورخین نے اس حملے کے حوالے سے مبالغہ آمیز گفتگو کی ہے اور سومناتھ کے مندر اور وہاں کے بت کے بارے میں بھی عجیب و غریب بیانات دئیے ہیں کہ یہ سونے اور ہیروں سے بھرا ہوا تھا۔ حتی کہ مسلم صوفیاء میں سے شیخ فرید الدین عطارؒ نے بھی محمود غزنوی کے بت شکن ہونے اور بت فروش نہ ہونے والے قول کو ذکر کیا ہے۔ مگر رومیلا دلچسپ بات بتاتی ہیں کہ ترکوں کا یہ بیانیہ حملے کی تین چار صدیوں میں تو بہت فخریہ انداز میں پیش کیا گیا مگر جب اجتماعی صورتحال بدلی تو اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور غزنوی کی مذمت کی گئی۔بالخصوص جب مغل اقتدار میں آئے تو اس دور میں سومناتھ والے واقعے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔
سومناتھ کے بارے میں ایک اور عجیب و غریب مگر دلچسپ بات ترکوں کے فارسی بیانیوں میں یہ آئی ہے کہ اس کا اصل نام سومنات تھا یعنی عرب کا مشہور بت منات جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے یہاں نصب تھا۔ یہ بات کہی گئی کہ فتح مکہ پر لات و عزیٰ کے بت تو توڑ ڈالے گئے مگر عرب بت پرستوں نے منات کے بت کو محفوظ کر کے ہندوستان میں سومناتھ منتقل کر دیا تاکہ مسلمان اس کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ محمود غزنوی کا سومناتھ پر حملہ اس کو تباہ کرنے کا تھا۔ رومیلا نے اس کہانی کو بھی کمزور قرار دیا ہے کیونکہ منات دیوی تھی جبکہ دیگر شواہد کے مطابق سومناتھ میں نصب بت لنگم طرز کا تھا۔ ویسے اسلامی مآخذ میں بھی اس روایت کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ منات کا بت نہیں توڑا جا سکا اور اس کو چھپا لیا گیا۔ البتہ غزنوی کے مندر پر حملے کا سیاسی پہلو ہو سکتا ہے کہ عباسی خلافت کو خوش کرنے کے لیے اس نے بت توڑے ہوں ایسے ہی اسمعیلیوں کے قتل عام کے پیچھے بھی عباسی خلافت کی خوشنودی تھی۔
ایک اور دلچسپ حقیقت کہ جب مرہٹوں کی حکومت قائم ہوئی تو تب بھی انہوں نے سومناتھ مندر کے بارے میں ادنی سی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر غزنوی کے حملے نے ہندوؤں کو متاثر کیا تھا تو مرہٹے جو کہ ہندو تھے اور اپنے مذہب کے معاملے میں شدید تھے انہوں نے اس پر توجہ کیوں نہیں دی۔
ترکوں کے فارسی بیانیوں کے علاوہ جب غزنوی کا حملہ ہوا تو اس وقت کے سنسکرت کتبات بھی دستیاب ہوئے ہیں جن پر مورخین نے توجہ نہیں دی۔حالانکہ اس واقعے کو سمجھنے اور جاننے کے لیے یہ اہم ہیں ۔ ان کتبات میں سے کچھ کتبات غزنوی کے زمانے کے سو سال بعد کے ہیں ان میں سومناتھ کے مندر کی بات تو ملتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لوگ یہاں عبادت کے لئے آتے تھے اور چولیاکیا بادشاہ اس کی تزئین و آرائش بھی کرتے تھے بلکہ یہاں پر باہر سے آنے والے یاتریوں سے ٹیکس کی مد میں بھاری رقم بھی وصول کی جاتی تھی جس کو مندر پر خرچ کیا جاتا تھا۔ مگر حیران کن طور پر ان کتبات میں غزنوی کے حملے کا ذکر نہیں ہے نہ ہی اس کے مندر توڑنے اور لوٹ مار کرنے کا ذکر ہے۔ ان کتبات اور دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مندروں پر حملے کرنا معمول تھا اور اس میں ہندو بھی پیش پیش تھے جو دوسرے علاقوں میں مندروں کو توڑتے تھے تاکہ علاقے پر اپنی دھاک بٹھا سکیں ۔ اس کے علاوہ حکمران مندروں کی تعمیر پر بھی خرچ کرتے تھے اور ایسا ہی چولیاکیا بادشاہوں نے بھی کیا۔
ان کتبات سے مندر کے گرد حفاظتی دیوار یا بند قائم کرنے کا ذکر ہے مگر یہ بند یا دیوار ترکوں کے حملے روکنے کے لیے نہیں تھی بلکہ سمندری لہروں کی وجہ سے مندر کی عمارت کو نقصان سے بچانے کے لیے تھی۔ مندروں کے خستہ ہونے کا ذکر ان کتبات میں ہے جن کی تعمیر نو کی گئی ، یہ خستگی کسی حملے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ مقامی لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے آتی تھی جیسے دیگر عمارات میں ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مندروں کی عمارت قدیم تھیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خستہ حالی کا شکار ہو گئی۔ ان سب معلومات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر غزنوی کا حملہ اتنا ہی خطرناک تھا کہ اس نے ہندو قوم کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا تو ان کتبات میں اس بڑے واقعے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر غزنوی کے حملے نے ہندوؤں کی مذہبی ساکھ کو نقصان پہنچایا تھا تو ان کتبات میں اس کو ضرور شامل ہونا چاہیے تھا۔یہ سوال اس خدشہ کو مضبوط بناتے ہیں کہ اس بارے میں ترکوں کے فارسی بیانیوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے اور بظاہر ایک معمولی واقعے کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا اور اس کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ رومیلا نے جینی مآخذ سے بھی اس واقعے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے۔ جین علماء کے سوانحی بیانیے گیارہویں سے پندرہویں صدی تک کے بیانات پر مشتمل ہیں۔ اس زمانے میں جینی متون سوانح بیانیے پر مشتمل ہے جس میں راجاؤں اور مہاراجاؤں کی زندگی کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رومیلا نے اعتراف کیا ہے کہ ان متون کی تاریخی حیثیت مستند ہرگز نہیں مگر پھر بھی تاریخ کی تفہیم کے لیے ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ان متون کے مطابق بھی سومناتھ کا علاقہ بیوپار کا مرکز تھا۔ ان متون سے یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت ہندوستان میں مختلف راجے آپس میں برسر پیکار تھے، سندھ کے راجاؤں نے بھی چولیاکیا راج پر چڑھائی کی کوشش کی۔ غزنوی کے حملے کو بھی اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ ان متون میں ایک کشمیری شاعر بلہانا کی سوانح بھی ہے جس نے غزنوی کے حملے کے پچاس سال بعد سومناتھ کا دورہ کیا۔ اس نے یہاں کے برہمنوں کی جہالت کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی باتوں کا ذکر کیا وہ چولیاکیا بادشاہ کے دربار میں بھی رہا مگر غزنوی کے حملہ کا ذکر اس کی تحریر میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ اگر یہ اتنا بڑا تاریخی واقعہ ہے جیسے کہ اس بڑھا چڑھا کر ذکر کیا گیا تو کم از کم کچھ سطور اس پر تو ہونی چاہیے تھیں۔ البتہ اس نے غزنوی کی شیعوں سے لڑائی کا ذکر ضرور کیا ہے۔
جینی متون کے علاوہ بادشاہوں کے رزمیے بھی رومیلا کے پیش نظر رہے۔ ان میں پرتھوی راج راسو اور پرتھوی راج وجے کے رزمیے قابلِ ذکر ہیں جس میں ترکوں کو بطور دشمن دکھایا گیا ہے مگر ان رزمیوں میں غزنوی کے حملوں کا ذکر نہیں ہے نہ ہی پرتھوی راج کی شہاب الدین غوری سے لڑائی میں سومناتھ کا انتقام شامل ہے۔
کچھ تاریخی متون میں سومناتھ پر محمود غزنوی سے زیادہ علاؤ الدین خلجی کے حملے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ خلجی کے حملے میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس نے سومناتھ میں مندر کو گرا کر اس جگہ مسجد بنائی۔
اس کے ساتھ متفرق ماخذ جس میں سومناتھ کے واقعے کو بیان کیا گیا ہے ان کا الگ سے رومیلا تھاپر نے جائزہ لیا ہے اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ زیادہ تر ترکوں کے فارسی بیانیوں سے متاثر ہے ۔ ان میں سالار مسعود غزنوی کے حوالے سے کچھ بیانیوں کا رومیلا نے جائزہ لیا اور ان میں ابہام کو واضح کیا ہے، کہیں سالار مسعود غزنوی کو محمود غزنوی کا چچا زاد بتایا گیا ہے اور کچھ کتب کے مطابق ان دونوں کا زمانہ بھی الگ الگ ہے۔ پھر سالار مسعود غزنوی کے مزار پر مسلمانوں کے ساتھ ہندو زائرین بھی شوق سے جاتے ہیں اور کئی بیانیوں کے مطابق ان کا ہندو آبادیوں سے اچھا میل جول تھا جو کہ بالعموم صوفیاء کے احوال میں ملتا ہے، جبکہ کچھ بیانیوں کے مطابق محمود غزنوی کو حملے کی دعوت دینے والے ہی سالار مسعود غازی تھے کیونکہ یہاں کے حکمران مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے تھے اور ایک شخص کو روز مندر کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ ان مظالم کی وجہ سے غزنوی نے ناصرف سومناتھ پر حملہ کیا بلکہ اس مندر کو بھی تباہ کیا۔ رومیلا کہتی ہیں کہ یہ باتیں گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہیں وہ ان کو مستند ماننے سے انکاری ہیں کیونکہ یہ دیگر تاریخی شواہد سے میل نہیں کھاتیں پھر ان بیانیوں کے اندر کئی تضادات ہیں جو ان کو کمزوری کو مزید واضح کرتے ہیں.
جب انگریز برصغیر میں آئے تو انہوں نے بھی ہندوستان کی تاریخ لکھی اور انہوں نے مکمل انحصار ترکوں کے فارسی بیانیوں پر کیا اور اس کے علاوہ دیگر ذرائع کو مکمل نظر انداز کیا۔ انہوں نے سومناتھ کے واقعے کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا اس کے پیچھے بنیادی مقصد ہندو مسلم تقسیم کو زیادہ واضح کرنا تھا جو کہ اپنی حکومت کے مستحکم کرنے کے لیے ان کی پالیسی تھی۔ اس واقعے پر نوآبادیاتی دور کے مورخین نے اس واقعے کو ایسا رنگ دیا جو کہ ماضی کے کسی مورخ کے بھی ذہن میں نہیں تھا۔ نوآبادیاتی مصنفین نے مسلمانوں کو بہت ظالم بنا کر پیش کیا اور بتایا کہ ہندوؤں پر مسلمانوں کے دور حکومت میں بہت ظلم ہوا ہے۔ اس پر رومیلا کہتی ہیں کہ تاریخی حوالے سے ہندو اقتدار اور مسلم اقتدار جیسے جملے کوئی حیثیت نہیں رکھتے حکمران طبقے کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ان مفادات کی خاطر ہی مذہب کو استعمال بھی کیا جاتا ہے۔بہرحال نوآبادیاتی مصنفین کا بنیادی مقصد ہندوؤں میں اشتعال پیدا کرنا تھا اور وہ اس معاملے میں کافی کامیاب بھی ہوئے بعد کے ہندو قوم پرست رہنماؤں نے سومناتھ پر نوآبادیاتی بیانیے کا خوب پرچارک کیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ابھارا۔ ان میں ایک اہم نام کے ایم منشی کا ہے۔منشی مسلمانوں کے بارے میں انتہائی متعصب تھے اور ان کی کتابوں میں یہ تعصب اور نفرت نظر آتی ہے۔ منشی کی ایک کتاب سومناتھ پر ہے جس کی بنیاد نوآبادیاتی مصنفین کے لکھے مواد پر ہے۔ سومناتھ کے مندر کی تعمیر نو پر منشی نے بڑھ چڑھ کر دلچسپی لی اور تقسیم ہند کے بعد ان کا منصوبہ عملی شکل اختیار کر گیا۔ اس کے لیے منشی کو ولبھ بھائی پٹیل کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔ سومناتھ کا مندر تعمیر کر کے اس کا سرکاری طور پر بھارتی صدر راجندر پرساد افتتاح بھی کیا۔ کہا جاتا ہے اس کی تعمیر پر سرکاری وسائل بھی خرچ ہوئے اور سوراشٹر کی حکومت نے اس کے لیے اس وقت یعنی ۱۹۵۱ میں پانچ لاکھ کی رقم دی۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اس معاملے پر خوش نہیں تھے، انہوں نے سومناتھ کے واقعے کو دوبارہ زندہ کرنے اور پھر وہاں مندر بنانے کی حمایت بھی نہیں کی کیونکہ یہ بھارت کے سیکولر ریاست ہونے کے خلاف تھا انہوں نے بھارتی صدر راجندر پرساد کو روکنے کی بھی کوشش کی مگر ان کی بات نہیں مانی گئی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ سردار پٹیل منشی کی ذاتی حیثیت میں تو حمایت کر رہے تھے مگر بطور وزیر داخلہ کے انہوں نے سرکاری مدد فراہم نہیں کی۔ سومناتھ کے مندر کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس کی تعمیر سے پہلے آثار قدیمہ کے ملبے کو ہٹایا جانا ضروری تھا تو یہ خیال پیدا ہوا کہ اس کی کھدائی کر کے ماضی کے شواہد حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر کھدائی سے پہلے ہی منشی کے قائم کردہ سومناتھ ٹرسٹ نے ملبے کی صفائی شروع کر دی۔ دراصل منشی کو اس کی تاریخ حقیقت جاننے میں دلچسپی نہیں تھی اور بعد میں کھدائی کے نتائج بھی منشی کے حق میں نہیں تھے اور اس مندر کی بار بار تباہی والا بیانیے غلط ثابت ہو رہا تھا۔ فارسی بیانیوں میں بھی اس مندر کی تباہی کی جو تفصیلات ملتی ہیں کھدائی کے نتائج اور شواہد ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ کے ایم منشی بعد میں ہندو انتہا پسند تنظیم ویشوا ہندو پریشد کا صدر بھی بنا۔ رومیلا کہتی ہیں کہ سومناتھ مندر کے ہنگامے سے ہندوستان کے سیکولر امیج کو نقصان پہنچا۔ ویشوا ہندو پریشد نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہاتھ ملا کر انتہاء پسندوں کو ابھارا جس کا نتیجہ بعد میں ایودھیا میں بابری مسجد کی تباہی کا نکلا،اور اس کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی طور متحرک ہونے کا موقع بھی ملا۔
سومناتھ کے مندر کے بارے میں ایک اور دلچسپ واقعہ برطانوی استعمار کے دور میں یہ بھی پیش آیا جب ۱۸۴۲ میں ایوانِ نمائندگان میں ایلن برو نے یہ کہا کہ غزنی میں محمود غزنوی کے دربار پر لگے دروازے سومناتھ مندر سے لوٹے گئے ہیں ہم انہیں واپس لائیں گے۔ اس بات پر ایلن برو نے کئی ہندوؤں کی حمایت بھی لینی چاہی مگر اس کو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا مگر وہ اپنی بات پر اڑا رہا، اس پر ایوان نمائندگان میں کافی بحث و مباحثہ بھی ہوا اور لوگ حیران تھے کہ ایلن برو نے یہ بات کس بنیاد پر کی مگر بالآخر ایلن برو کی بات مانی گئی اس عرصے میں غزنی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، محمود غزنوی کے مزار کے دروازے اکھاڑ کر ہندوستان لائے گئے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ دروازے بھارتی ساخت کے ہی نہیں تھے، ان کو ہندوستانی طرزِ تعمیر سے کوئی نسبت ہی نہیں تھی۔ جب معلوم ہو گیا کہ ان دروازوں کا سومناتھ سے کوئی تعلق نہیں تو ان کو آگرہ کے عجائب گھر میں رکھ لیا گیا۔ تقسیم کے بعد پشاور ریڈیو سے یہ افواہ اڑی کہ سومناتھ مندر کے لیے دروازے غزنی سے لیکر جائے جائیں گے تو پاکستان کے قبائلیوں نے کہا کہ وہ کسی صورت دروازے سومناتھ نہیں جانے دیں گے تو بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اپنے پاکستانی ہم منصب نوابزادہ لیاقت علی خان کو خط لکھا کہ غزنی سے سومناتھ دروازے لے کر جانے والی ساری کہانی جھوٹی ہے۔
ایلن برو کا چھوڑا شوشہ تو جھوٹ ثابت ہوا مگر اس نے اپنا اصل مقصد حاصل کر لیا، اس نے ہندو قوم پرستوں کے دلوں میں سومناتھ کے زخم کو تازہ کر دیا اور ان میں مسلمانوں کے لیے نفرت کا بیج بو دیا جس کے مظاہر تقسیم کے بعد بھی مختلف ہندو مسلم فسادات کی شکل میں بھی دیکھنے کو ملے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں مسلم کشی اس ہی کی کڑیاں ہیں۔
نو آبادیاتی مورخین نے جہاں استعمار کو مضبوط کرنے کے لیے ایک خاص بیانیہ بنایا اور تاریخ لکھتے ہوئے فقط ترکوں کے بیانیوں کو لیا اور دیگر بیانیے جو ان کے مقصد کو پورا نہیں کرتے تھے کو چھوڑ کر علمی بددیانتی کا ارتکاب کیا۔ اس کے پیچھے جہاں ہندو مسلم کشیدگی کو بڑھاوا دینا تھا وہاں اس کے ساتھ استشراقی اثرات بھی نمایاں تھے۔ ان انگریز مصنفین کے دلوں سے صلیبی جنگوں کے بعد پیدا ہونے والا تعصب نمایاں تھا۔۔جس کا اظہار مستشرقین کی دیگر تصانیف سے بھی ہوتا ہے۔ لہذا رومیلا نے نوآبادیاتی بیانیے کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ یہ مستشرقین کی مسلم دشمنی کی قبیل میں سے ایک واردات معلوم ہوتی ہے۔
کتاب کے آخری باب میں رومیلا تھاپر نے اجمالی طور پر اپنی مباحث کو ذکر کیا اور ایک مورخ کی ذمہ داری کو بیان کیا ہے کہ اس کو مختلف مآخذ پر نظر رکھنی ہوتی ہے اور کسی بھی واقعے کی تاریخی تفہیم کے لیے ایک ماخذ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی تحقیق کا نچوڑ یہی ہے کہ محمود غزنوی نے سومناتھ پر حملہ کیا تھا اور اس حملے میں مندر کو بھی کچھ نقصان پہنچا اور ممکن ہے کوئی بت بھی توڑا ہو مگر یہ اس دور کے لحاظ سے ایک معمولی واقعہ تھا۔ محمود غزنوی کے اس حملے کا مقصد بت شکنی نہیں تھا نہ ہی وہ ہندوؤں کو مسلمان کرنے آیا تھا بلکہ اس کے معاشی مقصد تھے، اس کے پیش نظر سومناتھ کی دولت تھی کیونکہ بیوپار کا مرکز ہونے کی وجہ سے یہ امیر شہر تھا، چونکہ مندر بھی بیوپار میں حصہ لیتے تھے اس لیے ان کے پاس دولت ہوتی تھی اور اس ہی وجہ سے مندر حملے کی زد میں آیا۔ حملے سے مندر کی عمارت کو اتنا ہی نقصان پہنچا تھا کہ کچھ سالوں بعد اس کی عمارت پہلے سے زیادہ بڑی تعمیر ہو گئی تھی اور معاشی سرگرمیاں بھی زور و شور سے جاری تھیں۔ اس دور میں ہندوؤں کے درمیان آپس میں بھی لڑائیاں ہوئیں ، جین مت اور بودھ مذہب کے پیروکاروں سے لڑائیاں ہوئیں ، جبکہ مسلمانوں میں بھی اسمعیلیوں اور سنیوں میں لڑائی ہوئی ، ان لڑائیوں کا مقصد بھی حصول اقتدار تھا اور محمود غزنوی کا حملہ بھی اس ہی کا حصہ ہے۔ ترکوں نے بعد میں اپنی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے اس واقعے میں افسانوی رنگ بھرا جس کو بعد میں انگریزوں نے اپنے مقصد کے لیے مزید افسانوی داستان بنا کر ہندو مسلم تقسیم کو پیدا کیا۔
رومیلا نے اپنی تحقیق کو حرف آخر نہیں قرار دیا اور دعوت دی ہے کہ اگر تاریخی متون اور شواہد اس سے الگ سومناتھ کے واقعے کی تصویر پیش کرتے ہیں تو اس کو سامنے آنا چاہیے۔ رومیلا تھاپر نے جس محنت اور عرق ریزی سے اس واقعے کی تحقیق کی ہے اس کے بعد یہ بات تقریباً ناممکن نظر آتی ہے کہ کوئی ان کے بیان کردہ حقائق کو جھٹلا سکے۔ اب بدقسمتی سے ہندوستان تو کیا پاکستان میں بھی سومناتھ کے واقعے کے بارے میں مشہور داستان ہی ہمارے لوگوں کو یاد ہے اور اس کو وہ محمود غزنوی کی بت شکنی کے طور پر ہی دیکھتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں سومناتھ کے مندر کا ایک خاکہ پیش کیا جاتا ہے کہ جس کا بت سونے کا تھا اور اس کے اندر ہیرے جواہرات تھے۔ رومیلا تھاپر نے ایک مشہور و مقبول بیانیے کی داستان گوئی کو تحقیق سے غلط ثابت کر کے درست انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ رومیلا کے انداز میں سنجیدگی و متانت کے ساتھ معروضیت بھی پائی جاتی ہے اور جس طرح انہوں نے مختلف مواد اکٹھا کر کے ان کا جائزہ اور نچوڑ پیش کیا ہے یہ ان کا حصہ ہے۔
کمنت کیجے