حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل و مناقب احادیث میں کثرت سےواردہوئے ہیں۔ انہی مناقب کے پیش نظر حضرات صحابہ کرام ؓ آپ ؓ کا بے حد ادب واحترام کرتے ۔ امام الانبیا ﷺ اور حضرات صحابہ ؓ کی زبانی آپ ؓ کے کچھ مناقب ملاحظہ کیجیے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک مرتبہ اپنے والد ماجد سیدنا صدیق اکبر ؓ سے ایک عجیب سوال کیا۔ پوچھتی ہیں اباجان !آپ پوری مجلس میں حضرت علی ؓ کا چہرہ دیکھتے رہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو اس کےجواب میں حضرت صدیق اکبرؓ نےفرمایا میں نے اپنےآقا ومحبوبﷺ کی زبان مبارک سے سنا تھا کہ علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔
حضرت انسؓ فرماتےہیں ایک مرتبہ حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرماتھےاورصحابہ کرامؓ آپ کےچاروں طرف بیٹھے تھےکہ اتنے میں حضرت علیؓ سامنے سے آئے۔ انہوں نےآ کر سلام کیا اورکھڑے ہو کر اپنے بیٹھنے کی جگہ دیکھنے لگے۔حضور ﷺاپنےصحابہ کےچہروں کو دیکھنےلگےکہ ان میں سےکون حضرت علی ؓ کو جگہ دیتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ حضورﷺ کی دائیں جانب بیٹھےہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی جگہ سےذرا ہٹ کر کہا ! ناے ابوالحسن ؓ یہاں آجاو۔ اس پر حضرت علی ؓ آگےآئےاور اس جگہ حضورﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کےدرمیان بیٹھ گئے۔ ہمیں ایک دم حضور کے چہرہ انور پرخوشی کےآثار نظرآئے۔ پھرحضورﷺنےحضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا!” فضیلت والےکےمقام کو فضیلت والا ہی جانتا ہے”
حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حضرت ابوبکرؓ سے محبت و عقیدت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہےکہ ابو سفیان ابن حرب ایک روز حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے قریش کے ایک عام آدمی سے بیعت کرلی۔اگر آپؓ چاہیں تو یہ خلافت آپ کو بآسانی حاصل ہوجاتی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : اے ابو سفیانؓ! تم نے زمانہ دراز تک اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کی تو کیا بگاڑلیا، مجھے تو ابوبکرؓ کی خلافت میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اس کے اہل ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں کہ جن کے فضائل ومناقب سب سے زیادہ روایات میں وارد ہوئے ہیں۔ آپ کی شان بہت بلندوبالا ہے۔ عظیم محدث حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ازالة الخفا میں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے فضائل میں سے ان کی کعبة اللہ میں ولادت ہے۔ آپ کی والد ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ عظیم المرتبت خاتون تھیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا میری والدہ ماجدہ کے بعد میری اس چچی نے مجھ سےخوب شفقت ورحمت کا برتاو کیا ۔آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کےبعد نبی علیہ السلام نے ان کے کفن کے لیے اپنا کرتہ پیش کیا مزید یہ کہ ان کی قبر میں برکت کے لیے بھی آپ ﷺ لیٹے۔
ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺحضرت علی کرم اللہ وجہ کواپنے بستر پر لٹا کر گئے حالانکہ اس وقت قریش کے سو سپہ سالار تلواریں سونتے گھر کے باہر کھڑے تھے اور بظاہر موت کا نقشہ تھا۔ رسول اللہ ﷺنےحضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکے گا۔ یہ کمال جرإت اور بہادری تھی کہ حیدر کرارؓ ذرہ برابر بھی گھبرائے نہیں بلکہ بلندہمتی اورحوصلے کا مظاہرہ کیا اورساری رات اطمینان سے پیغمبر اسلام ﷺکے بستر پر استراحت فرماتے رہے۔
حضرت علی ؓ کو نبی ﷺ کی سب سے زیادہ قربت ورفاقت حاصل تھی اورسفرو حضر میں آپ ﷺ کے رفیق تھے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ﷺنے ان سے فرمایا کہ ” کیا تم اس بات سےراضی نہیں ہو کہ میری نیابت و اعتماد کےمعاملہ میں تمہاری حیثیت ومرکزیت وہ ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ تھی؟ ہاں یہ ضرورکہ میرےبعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔
سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ” کہ ایک دن میں اور رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلےاورجب کعبہ کے دروازے پر آئے تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا، بیٹھ جاو اورمیرےکندھوں پر پیر رکھ کر اونچے ہوئے اورفرمایا کہ کھڑے ہو جاو۔ میں کھڑا ہوا تو میری کمزوری کو آپ نے محسوس کیا اور فرمایا کہ اب تم میرےکندھوں پر سوار ہوجاو۔ چنانچہ میں سوار ہوگیا اوردوجہاں کےسردار ﷺ نے جب مجھے کندھوں پر اٹھایا تومجھے ایسا لگا کہ میں آسمان کی بلندی تک پہنچ جاوں گا۔ فرماتے ہیں ا س طرح میں کعبہ کی چھت پر پہنچ گیا اوروہاں پر جو پیتل اورتانبے کا بت بنا ہوا تھا، میں نے اس کو دائیں بائیں موڑا۔ آگے پیچے جھکایا اور بالآخراس کو اکھیڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسےگرا دو۔ میں نے اسے گرایا تو وہ ایسے چُورچُور ہو گیا جیسے شیشے کے بنے ہوئے برتن۔ پھرمیں نیچے اتر آیا۔
یہ وہ مبارک شانہ رسول ﷺ تھےجن پر حسنین کے ابا اور خود حسنین کریمین نے بارہا سواری کی۔ قربان جائیں اس شان کو۔
ہجرت کے دوسرے سال رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا عقد اپنی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمة الزہرا ٕ سے کیا تو اپنی بیٹی سے فرمایا ” میں نے تمہارانکاح اپنے اہل بیت کے بہترین فرد سے کردیا ہے”۔
حضور ﷺ حضرت علی ؓ کو پیارسے ابوتراب کہا کرتے تھے ۔ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرإ ؓ کے بطن سے اللہ تعالی نے آپ کو عظیم المرتبت فخرِکائنات شہزادے امام حسن ؓ وامام حسین ؓاور شہزادیاں سیدہ زینب ؓ و سیدہ ام کلثومؓ عطاکیں جن کی خوشبو سے تا روزقیامت کائنات معطر ومنور رہے گی اور جن کی بہادری کی لازوال داستان خون پیغمبر ﷺ کی عظمت کا ڈنکا بجاتی رہے گی۔اور تاقیامت گمراہ یزیدی افکار کے سامنے سینہ سپر ہو کر ان کے غرور کو خاک میں ملاتی رہیں گی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بھی حضور ﷺ سے بے حد محبت تھی اور اپنے آقاو مولٰی ﷺ کی بھوک وپیاس گوارانہ تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتٕے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے گھرفاقہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کویہ معلوم ہواکہ میرے محبوب آقا کا شکم مبارک خالی ہٕےتو بہت بیقرار ہوئے اورفوراً کسی مزدوری کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اورایک یہودی کے باغ میں پہنچے اوراس کی باغ کی سینچائی کا کام اپنے ذمہ لیا اورایک ڈول کے بدلے ایک کھجور اجرت طے پائی۔ آپ نے 17 ڈول پانی کے نکالے اوراسکے عوض 17 عجوہ کھجوریں لے کر اپنے محبوب ﷺ کی خدمت میں پیش کیں اورجب آپ ﷺ نےاس میں سے کچھ تناول فرمالیں تو تب آپ ؓکوراحت ہوئی۔
حضرت علی کرم اللہ کی ایک صفت کمال شجاعت تھی۔ آپ کی جوانمردی اوربہادری ضرب المثل ہے۔ بدرواحد ،خندق وخیبرہر معرکہ حق وباطل میں آپ نے جرإت و بہادری کی تاریخ رقم کی۔
اکثر غزوات میں آپ علمبردار ہوتے تھے۔ غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی تلوارذوالفقارحضرت علی کرم اللہ وجہہ کےہاتھ میں دی اوراس جنگ کے بعدان کو ہمیشہ کے لئے بخش دی جس سے آپ نے دشمنان اسلام کا قلع قمع کیا۔
غزوہ خیبر میں القموص نامی قلعہ ناقابل تسخیربناہواتھا اوروہاں سے مسلمانوں کو پسپائی کا سامناتھا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ” کل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جس کو اللہ تعالی اوراس کا رسولﷺ پسند فرماتا ہےاوراسی کے ہاتھ یہ قلعہ فتح ہوگا “ ۔اس اعلان نے تمام اصحاب میں ایک تجسس کی فضاقائم کردی تھی اورہرکوئی اس اعزازواکرام کا متمنی تھا۔ چنانچہ اسی دوران ارشاد ہواکہ علی ؓکہاں ہیں؟ بتلایا گیا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کو بلاو۔ وہ حاضر ہوٸے تو آنحضرت ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں پر پنا لعاب دہن لگایااوردعا کی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میری تکلیف ایسے دور ہوگئی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں علم دیا ۔
حضرت علی ؓ قموص کے قلعہ میں داخل ہوئے۔ ادھر سے یہودیوں کا مشہورشہسوار و پہلوان مرحب آپؓ کو للکارتا ہوا آگے بڑھا۔ اس نے اپنے سر پر لوہے کا خود پہنا ہوا تھا۔ حیدر کرار ؓ نے اس کمال کا وارکیا کہ اس کا آہنی خوداورسردونوں ایک ساتھ کٹ گئےاوراس کے جبڑے بھی ٹوٹ گئے۔ اسی خیبر کی لڑائی کے دوران ایک یہودی نےآپ ؓ کو ضرب لگائی جس سےڈھال آپ کے ہاتھ سے گرگئی تو توشیرخداؓ نے قلعہ کے ایک بھاری بھرکم دروازہ کو جس کو چالیس آدمی بمشکل اٹھا سکتے تھے اکھیڑا اور اس کو اپنی ڈھال بنائے رکھا یہاں تک کے یہودیوں کو کھلی شکست ہوگئی۔
حجة الوداع کے بعد جب آپ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ واپس لوٹے۔ راستے میں جب غدیر خُم پر پہنچے تووہاں ایک خطبہ دیااوراس میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خصوصیت اورشان کا ذکر فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا کہ «من كنت مولاه، فعلي مولاه»، میں جس کا مولا وسردار ہوں علی بھی اس کے مولا و سردارہیں ۔ پھر دعا دی “اے اللہ اس کی حمایت فرما جو علی کی حمایت کرے اوراس کی دشمنی تو بھی کرجو ان کی دشمنی کرے۔” یہ کہنے کا سبب یہ تھا کہ بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیجا شکایت کی تھی اور ان پر بلاوجہ اعتراض و تنقید کی تھی۔ اس خطبہ کے بعد لوگوں کے دلوں میں جو شکوک و شبہات تھے وہ رفع ہوگئے۔
شیر خدا حیدرکرار دامادرسولﷺ ، سیدہ فاطمہ ؓ کے خاوند ، حسنین کریمینؓ کے ابا، حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شہادت تاریخ اسلامی کا ایک سیاہ باب ہے۔ سن 36ہجری میں جب امیرالمومنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ نے خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد خلافت کا بارگراں اٹھایا تو اس وقت حالات انتہائی کشیدہ اورناگفتہ بہ تھے۔ حضرت عثمان ؓ کے قصاص کے مطالبہ پر ہونے والی چپقلش بہت سنگین صورت اختیار کر گئی اور کچھ باطل اور شریر قوتوں نے اسے مسلمانوں کے آپس میں فتنہ وانتشار اور قتل وغارت کا محرک بنا دیا ۔ پراپگینڈا اورسازش اتنی خطرناک صورت اختیار کر گئی کہ جس ہستی نے رسول اللہ ﷺکے گھر میں پرورش پائی، جنہوں نے وحی کو اترتے دیکھا، جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امت کے کچھ ناعاقبت اندیشوں اورفتنہ پرورو ں نے ان کو مسلمانی سے بھی نکال دیا حالانکہ ان سے بڑا کامل ایمان والا کون تھا ۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف سارے خارجی عبداللہ بن وہب الرابسی کے مکان میں جمع ہوۓ اوراس نے اس موقع پرایک فتنہ انگیز خطبہ دیا اس دنیاکے بارے میں ان کو زہد کی تلقین کی اورجنت وآخرت کی رغبت دلائی۔ اچھے کام کرنے کا حکم دینے اور برائی سے روکنے پر ابھارااور کہا کہ اس بستی سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں، اپنے بھائیوں کو نکال لو اورپہاڑ کی کسی کھوہ میں رہ پڑو یا مدائن میں سے کسی جگہ۔ اور یہ بات طے کر کے مدائن کی طرف چلنے کی تیاری کی تاکہ اس پر قابض ہوں اور قلعہ بند ہو جائیں ۔اوراپنی ساری رشتہ داریاں قرابتیں اورتعلقات چھوڑ کر نکل پڑے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس طرح اللہ تعالی ہم سے راضی ہو جائے گا ۔
ایک اور خارجی لیڈر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس طرح بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ کہنے لگا، اے علیؓ اگرتم نے اللہ تعالی کی کتاب کے مقابلہ میں لوگوں کو حکم یعنی فیصل بنانا نہ چھوڑا تو ہم تم سے جنگ کریں گےاوراس جنگ کو اللہ تعالی کے قرب اوررضا مندی کا ذریعہ سمجھیں گے۔
کتنی عجب بات ہے کہ جس جنت کے یہ اپنے آپ کو حقدار گردان رہے تھے، کیا ان کو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ وہ سیدنا علی المرتضی ؓ ہیں جن کو خود رسول اللہ ﷺنے کئی مرتبہ جنت کی خوشخبری دی بلکہ فرمایا جنت میں تیرا گھر میرے گھر کے سامنے ہوگا۔ یہ وہی علی المرتضی ؓ ہیں جن کی زوجہ سید ہ فاطمة الزہرإ جنت کی عورتوں کی سردار اورہ ان کے دونوں شہزادے امام حسنؓ اورامام حسین ؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ تو یہ کم عقل جنت میں کس منہ سے جائیں گے ؟
بہرحال اس امت پر وہ سیاہ دن بھی آیا کہ جب تین خارجی عبدالرحمن ابن ملجم،برک بن عبداللہ تمیمی اورعمروبن بکرتمیمی تینوں ایک جگہ اکٹھے ہوئے اورجن خارجیوں کو حضرت علی ؓ نے نروان میں قتل کروایا تھا، ان کے لئے دعاۓ مغفرت کی۔ اس کے بعد کہنے لگے اگر ہم اپنی جان پیچ کر بھی گمراہوں کے سربراہوں کو قتل کردیں تو ملک کو ان سے نجات مل جائے گی اور اسطرح ہم اپنے بھائیوں کے خون کا بدلہ لےلیں گے۔ چنانچہ ابن ملجم بدبخت نے کہا کہ علی ؓکو میں قتل کروں گا۔ برک نے کہا، میں معاویہؓ کا خاتمہ کروں گا اورعمروبن بکر نے کہا، عمروبن عاص سے میں نمٹوں گا۔
چنانچہ یہ تینوں اپنے ناپاک عزائم لیے نکل پڑے اورابن ملجم اس دروازہ کے نیچے آکربیٹھ گیا جہاں سے حضرت علی ؓ نماز کے لئے نکلا کرتے تھے۔ جس وقت آپ نماز فجر کے لیے نکلے اورلوگوں کو بیدار کرنے کے لئے نماز نماز کہ رہے تھے اورلوگ نیند سے بیدار ہوکر نماز کے لئے اٹھ رہے تھے، اسی دوران اس بدبخت نے سیدناعلی المرتضیؓ کے سر کے اگلے حصےپر وارکیا آپ کے سرکے خون کے بہنے سے آپ ؓکی داڑھی کے بال رنگین ہوگئے۔ جب اس نے وار کیا اس وقت نعرہ بھی لگایا ” لا حکم الا للہ لیس لک ولاصحابک یاعلی” یعنی حکومت صرف اللہ کی ہے علی تمہاری یاتمہارے ساتھیوں کی نہیں ہے ۔
حضرت علی ؓ نے آواز دی اس کو پکڑو۔ وہ پکڑا گیا اوربعد میں آپ ؓ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا اس کو گرفتار رکھو اورقید میں حسن سلوک کا معاملہ کرو۔ اگر میں زندہ رہا تو سوچوں گا کیا کروں، معاف کروں یا قصاص لوں، اوراگر مرجاوں توایک جان کا بدلہ ایک ہی جان سے لیا جائے اوراس کا مُثلہ نہ کیا جائے۔ اپنے صاحبزادوں حضرات حسنین کریمین ؓ سے فرمایا اے عبدالمطلب کے فرزندو، مسلمانوں کا بے تکلف خون نہ بہانا۔ تم کہو گے امیرالمومنین قتل کر دیے گیے مگر خبردار سوائے میرے قاتل کے کسی اور کو قتل نہ کرنا ۔دیکھو اگر میں اس کے وار سے مرجاتا ہوں تو اس پر بھی ایک ہی وار کرنا۔ اس کا مُثلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خبردار کسی ذی روح کو مار کر اس کا مُثلہ نہ لیا جائے، خواہ وہ بھونکنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت علی المرتضی ؓ کے قاتل ابن ملجم ملعون کا کہنا تھا کہ میں نے علیؓ پرایساوار کیا ہے کہ اگر پورے شہر والوں پر یہ وار پڑتا تو سب کے سب مرجاتے۔ خداکی قسم میں نے اپنی تلوار کو ایک مہینہ تک زہر میں ڈبوئےرکھا۔ایک ہزار میں یہ تلوار لی تھی اورایک ہزار خرچ کرکے اس کو زہر آلود کیا تھا ۔مگر دوسری طرف بھی حیدر کرار اورشیر خدا تھے جو شجاعت وبلند ہمتی کے پہاڑ تھے
آپ ؓکی شہادت 21 رمضان المبارک40ہجری بروز جمعة المبارک صبح صادق کے وقت تریسٹھ سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ ؓ کے بیٹے حضرت امام حسن ؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اورکوفہ میں دفن ہوئے۔
کمنت کیجے