اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جہاں بے شمار انعامات سے نوازا ہے تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بدولت آپ کی اہل بیت کو بھی فضیلت بخشی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ اس ہی پر اہل اسلام نے اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب پر کتب لکھیں اور امت کی راہنمائی کی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے مفتی محمد ہاشم سندھی نے بھی اس موضوع پر تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے۔ جس کو اکیڈمی آف انٹرنیشنل صوفی اسکالرز، برطانیہ نے شائع کیا ہے۔
کتاب کے شروع میں مفتی ہاشم صاحب کے علمی پس منظر کے ساتھ ان کی دیگر تصانیف کا بھی مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں امام مہدی کے بارے میں موسوعہ قابل ذکر ہے۔ مفتی صاحب کا اس موسوعہ کو پچاس جلدوں میں شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ جس میں امام مہدی کے بارے میں عقائد اور ان کے ظہور کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کی آراء کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جائے گا اور ماضی میں بالخصوص سنی علماء کی جانب سے اس موضوع پر لکھی کتابوں کو شائع کیا جائے گا۔ نیز ظہور امام مہدی کے منکرین کے اعتراضات کا بھی تنقیدی جائزہ اس پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس موسوعہ کی چار جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔
اپنے مقدمے میں مصنف نے لکھا کہ اہلبیت سے محبت کو فقط اہل تشیع کا عقیدہ بنا دینا غلط ہے۔ کچھ لوگ رد تشیع میں اہلبیت سے محبت کو اہمیت نہیں دیتے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ مخالف مسلک کی ہر بات غلط نہیں ہوتی۔
بیشک اہلبیت سے محبت فقط اہل تشیع کا عقیدہ نہیں ہے، اہل سنت کے نزدیک بھی اہلبیت کا احترام واجب ہے اور یہ ان کے عقیدے کا حصہ ہے۔ اگر کوئی شخص اہلبیت کا احترام نہیں کرتا تو ایسے شخص کا سنیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصنف نے مقدمہ میں شیعہ اور رافضی کے فرق کو بھی ذکر کیا ہے۔ کہ متقدمین کے ہاں متشیع اور رافضی میں فرق کیا جاتا تھا۔ تشیع ایک سیاسی رجحان تھا جو کہ بنو امیہ کے مقابلے میں اہلبیت کے حامیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس میں غلو آ گیا اور لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بابت غلو سے کام لیا یہ لوگ رافضی کہلائے۔
مقدمہ میں ناصبیت کی تعریف بھی مصنف نے ذکر کی ہے کہ جو شخص حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلبیت سے بغض کو اپنا ایمان کا حصہ مانتا ہو وہ ناصبی ہے۔ مصنف نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے حوالے سے نقل کیا کہ ناصبیوں کے بانی مروان بن حکم تھے۔ مصنف نے اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن بھوپالی کے حوالے سے بھی لکھا جس میں انہوں نے نصب کو تشیع سے بدتر قرار دیا کیونکہ یہ بغض علی کو اپنے ایمان کا حصہ بتاتے ہیں۔
مصنف نے جو یہاں ناصبیت کی تعریف کی ہے اگر وہ ہی ہے تو بیشک ایسے فکر سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے اور جس شخص کا بھی یہ عقیدہ ہو اس کا اہل سنت سے تعلق نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تعریف کی حد تک ناصبیت کا تعین کرنا ہی کافی ہے یا مزید باتیں بھی ناصبیت کہلاتی ہیں کیونکہ کئی معاملات اور بھی ہیں جن کی وجہ سے ناصبیت کا فتویٰ مخالفین پر لگایا گیا ہے اور اس کی مثالیں خود کتاب میں بھی موجود ہیں۔ جن کو ہم آگے ذکر کریں گے۔
مصنف نے مقدمے کے بعد اہل بیت کی محبت کے وجوب کے لیے سورہ الشوری کی آیت نمبر 23
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ
کا ذکر کیا ہے اور آگے بھی کئی جگہ اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ اس آیت میں مودۃ فی القربیٰ سے سیدہ نساء العالمین ،سیدنا علی ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے مراد ہونے پر کچھ تفسیری اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔
میرے خیال سے اس آیت میں مودۃ فی القربیٰ سے مراد اہل بیت کی محبت مراد لینا محل نظر اور تحقیق طلب ہے۔ سورہ الشوری مکی سورت ہے اور اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ و سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔
دوسرا قرآن مجید میں دیگر انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہیں جنہوں نے تبلیغ رسالت پر اپنی قوم سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کیا مگر اپنے رب تعالیٰ سے۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے قرابت داروں کے لیے اپنی قوم سے کسی اجر کا مطالبہ کریں
اس آیت کے بارے میں ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہاں قریش کو کہا جا رہا ہے کہ تم میری رشتہ داری کی وجہ سے مجھ سے صلح رحمی سے پیش آؤ۔ کئی علماء کے نزدیک یہ زیادہ معتبر تفسیر ہے۔تفسیر صراط الجنان میں بھی یہی قول ذکر کیا گیا ہے ۔
خود مصنف کے استاد علامہ غلام رسول سعیدی نے پہلے دو اقوال کے ساتھ یہاں تقرب الٰہی مراد لیا ہے اور اس کو زیادہ معتبر قرار دیاگیا ہے۔ میرے خیال سے بھی علامہ سعیدی کی رائے زیادہ معتبر ہے اور یہ بات شان رسالت کے بھی قریب ہے۔
اس کے بعد مصنف نے آئمہ اہلبیت کے ساتھ ‘علیہ السلام ‘ لکھنے کے جواز پر تفصیلی کلام کیا ہے اور اس کے درست ہونے پر کافی کتب کا سہارا لیا ہے۔
گو کہ مصنف کے اس نظریے پر کوئی اختلاف تو نہیں مگر میں صحابہ کرام و اہلبیت کے نام کے ساتھ “رضی اللہ عنہ” کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ بیشک کتب احادیث میں اہلبیت کے مقدس افراد کے لیے “علیہ السلام” کا لفظ آیا ہے۔
اس کے جواز کی حد تک کوئی مسئلہ نہیں مگر اس کو اہلبیت سے محبت کے لیے لازم قرار دینا درست نہیں اور یقیناً مصنف کی مراد بھی یہی ہے
اس کے بعد مصنف نے فضائل اہلبیت پر ساٹھ روایات نقل کی ہیں جن کو پڑھنے سے اہلبیت کی عظمت اور احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔
نقل روایات کے بارے میں مصنف سے ایک شکایت ہے کہ انہوں نے ان کا تحقیقی جائزہ نہیں لیا، مثلاً ایک روایت جو تفسیر در منثور کے حوالے سے درج ہے جس میں سورہ الشوری کی مودۃ فی القربیٰ والی آیت کے مصداق کے بارے میں ہے کہ اس سے مراد سیدہ نساء العالمین، سیدنا علی اور سیدنا حسنین رضی اللہ عنہم ہیں تحقیق طلب ہے۔ جس پر پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔
اہلبیت کی فضیلت کے لیے ان کا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق اور ان پر ایمان ہی بہت بڑی فضیلت ہے پھر صحیح احادیث میں بھی ان کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ فضائل کے سلسلے میں بیشک ضعیف روایات کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن مصنف کیونکہ محقق ہیں تو ان کا حکم اگر حاشیہ میں یا متن میں لکھ دیتے تو پڑھنے والے کے لیے آسانی ہوتی اور وہ زیادہ بہتر نتیجے پر پہنچتا۔ البتہ مصنف نے ان روایات کی تخریج کی ہے جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ اس کے لیے کسی دوسرے محقق کے لیے ان روایات تک رسائی میں آسانی میسر ہے جس سے وہ ان روایات کی مزید تحقیق کر سکے اور اس کی سند اور متن کا جائزہ لے سکے۔
اس کے بعد مصنف نے سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے امتیازی پہلو کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ کئی ایمان افروز روایات سے بھرا ہوا ہے جس میں سیرت مقدسہ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جوامع الکلم ہونا،۔نبوت کا عالمگیر ہونا، زمین کے خزانوں کی کنجیوں کا عطاء ہونا سمیت کئی پہلوؤں پر مصنف نے یہاں روایات درج کی ہیں اور سیرت کی مختلف جہات کا تعارف پیش کیا ہے.
سیرت مقدسہ کے سلسلے کا ایک اور موضوع آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین کا تذکرہ ہے۔ اس کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کے ایمان لانے پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مسئلہ متاخرین علماء پر زیادہ بہتر انداز میں منکشف ہوا بالخصوص علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس پر بہت تفصیل سے لکھا اور والدین کریمین کے اثبات ایمان پر رسائل لکھے۔ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ پہلے عدم ایمان کے قائل تھے مگر انہوں نے بھی رجوع کیا۔ اس بارے میں مصنف نے تفصیلات بیان کی ہیں
اس کے بعد مصنف نے جناب ابو طالب ہاشمی کے ایمان کے مسئلہ پر بھی لکھا ہے اور ان کو صاحب ایمان ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں شروع میں مصنف نے ایک عجیب بات لکھی کہ یہ مسئلہ بنو امیہ نے اٹھایا ورنہ اس سے پہلے جناب ابو طالب ہاشمی کا ایمان مسلمہ مسئلہ تھا۔ میرے خیال سے یہ درست بات نہیں ہے۔ ہر بات کا الزام بنو امیہ پر لگانا درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنی مصادر میں ان کے کلمہ پڑھنے کی روایات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مگر ساتھ یہ بات بھی واضح ہے کہ ان کی بت پرستی کا ذکر بھی نہیں ملتا ساتھ ہی ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسن سلوک کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا احترام بھی کیا جانا چاہیے مگر ان کے عدم ایمان کے قول کو اموی سازش کہنا سراسر زیادتی ہے اور جمہور اہلسنت کا یہی مسلک ہے۔ یہ بھی درست کے کچھ سنی علماء نے ان کے ایمان کو ثابت کیا ہے مگر دلائل کے روشنی میں ان کا مقدمہ کچھ کمزور معلوم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں محتاط رویہ سکوت کا ہے۔
اس باب میں مصنف نے فقط سنی کتب نہیں بلکہ شیعہ کتب سے بھی ان کے ایمان کے اثبات سے مدد لی ہے۔ یہ چیز اس بحث کو کمزور کرتی ہے کیونکہ فریق مخالف کے نزدیک تو یہ مسئلہ اختلافی ہی نہیں ہے اور اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عظمت سے ملاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا عدم ایمان سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا پھر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عقیل رضی اللہ عنہ کی عظمت میں کوئی فرق نہیں ڈالتا۔
اس باب میں دیوان ابو طالب سے بھی استفادہ کیا گیا۔ جس کے مدونین کے شیعہ ہونے کے بارے میں خود مصنف نے اعتراف کیا ہے۔
اس کے علاوہ مصنف نے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تقریر جو ایمان ابو طالب کے اثبات پر ہے وہ نقل کی ہے۔ اس میں بھی جذباتی باتیں زیادہ ہیں۔
مصنف نے ایمان ثابت کرنے کے لیے قرآن کی آیات بھی پیش کی ہیں مگر ان کو کس طرح اپنا مستدل بنایا وہ بیان نہیں کیا۔ یہ اس کتاب میں ایک اور کمزوری ہے جو مجھے محسوس ہوئی۔اس کے بعد تخفیف عذاب والی احادیث ذکر کی ہیں
بنیادی طور پر مصنف کا یا قائلین ایمان کی دلیل یہ ہے کہ رب العالمین نے مشرکین کے لیے شدید عذاب کی وعید سنائی ہے کہیں بھی ان کے عذاب کے لیے تخفیف ذکر نہیں کی، جبکہ جناب ابو طالب ہاشمی کے بارے میں حدیث میں تخفیف کا ذکر ہے۔ اب اگر جناب ابو طالب ہاشمی مشرکین میں تھے تو قرآن مجید کے مطابق ان کے عذاب میں تخفیف نہیں ہو سکتی، اگر حدیث کے مطابق ان کے عذاب میں تخفیف ہو گئی تو وہ مشرکین کے زمرے میں نہیں آتے۔
یہ بات درست ہے مگر قائلین ایمان اگر اس حدیث کو مانتے ہیں تو پھر بھی مسئلہ برقرار رہتا ہے کہ کیونکہ اس کے باوجود ان کا عذاب میں مبتلا ہونا پھر بھی ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری بات پہلے بھی عرض کی کہ ان کا عدم ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مشرک ہوں، ان کا نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعلان ثابت نہیں ہے، ہاں ان سے بت پرستی کا ثبوت بھی نہیں ملتا۔ لہذا ان کو مشرکین کی فہرست میں شامل کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ پھر ایک اور حدیث میں انہوں نے اپنے وصال کے وقت دین ابراہیم پر قائم رہنے کی شہادت دی۔ اس سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ مشرک نہیں تھے۔
بہرحال یہ مسئلہ تحقیقی ہے، اس کو علی دشمنی پر محمول کرنا سراسر زیادتی ہے۔ بہت سے علماء جن کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا نے ان کے عدم ایمان کا قول کیا ہے۔ مصنف کا اس مسئلہ کو اموی سازش کہنا بھی درست نہیں، اور اہلسنت میں اکثریت کا قول عدم ایمان کا ہی ہے۔ مصنف نے جو یہاں شیعہ کتب سے مدد لی ہے تو یہ بات بھی قائلین عدم ایمان کے موقف کے لیے کچھ مضر نہیں کیونکہ ان مصادر کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر ان کو اپنے نظریے پر نظر ثانی کرنی پڑے۔
اس باب کے آخر میں جناب ابو طالب ہاشمی کے اوپر لکھی گئی کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔ جس میں سنی علماء کے ساتھ شیعہ علماء کی کتابیں بھی ہیں۔
اس باب میں ایک حاشیے میں مصنف نے اعلیٰ حضرت بریلوی رحمہ اللہ پر بھی تنقید کی ہے کہ انہوں نے والدین کریمین کے سلسلے میں جو قبولیت کا رویہ اختیار کیا وہ جناب ابو طالب ہاشمی کے سلسلے میں نہیں کیا۔ حالانکہ اس کی وجہ واضح ہے کیونکہ والدین کریمین کا انتقال زمانہ نبوت سے قبل ہوا جبکہ جناب ابو طالب ہاشمی کو یہ زمانہ نصیب ہوا۔
مصنف نے اعلیٰ حضرت بریلوی رحمہ اللہ پر دوسری تنقید یہ کی کہ جنگ جمل اور صفین بالخصوص صفین میں حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف خطاء اجتہادی کی نسبت کر کے انہوں نے سنی مسلمانوں میں ناصبیت کی راہ ہموار کی۔ شاید مولانا بریلوی یہ نہ چاہتے ہوں۔ یہ بھی مصنف کی ناانصافی ہے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی وجہ سے اس بات کے مکمل حقدار ہیں کہ ان کے عمل کی بہترین سے بہترین توجیہ اور تاویل پیش کی جائے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ مبنی بر اخلاص تھا۔
خود مصنف نے جو ناصبیت کی تعریف کی تھی وہ یہاں اس سے ہٹتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر کوئی صفین میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حق پر قرار دیتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف خطاء اجتہادی کی نسبت کرے تو یہ ناصبیت کیسے ہو گئی؟
پھر اس ہی حاشیہ میں مصنف نے سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کو بھی خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی طرف سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے کلیجے کو چبانے کی بات کی اور کہا کہ جب ایسی عورت ایمان لا سکتی ہے تو جناب ابو طالب ہاشمی کو کیوں اس شرف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ پہلی بات کہ کلیجہ چبانے والی بات بھی تحقیق طلب ہے اور اس کے غلط ہونے کو بھی کچھ علماء نے بیان کیا ہے اور مجھے وہ بات ہی زیادہ مضبوط لگتی ہے۔ پھر بھی بالفرض یہ بات درست ہو تو فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اسلام کو قبول کر لیا تو کسی امتی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر سوال اٹھائے۔
مصنف نے یہاں شیعہ اسکالر نبیل الحسین کی کتاب سے اثبات ایمان پر اقتباسات نقل کیے جن میں دعویٰ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے دستیاب لٹریچر میں جناب ابو طالب ہاشمی کی تعریف ملتی ہے اور ان کے ایمان کے متعلق کوئی بحث نہیں ملتی، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ بنو امیہ کا اٹھایا ہوا ہے۔ نبیل الحسین نے یہاں سلیم ہلالی، ابو مخنف لوط بن یحیی اور نصر بن مزاحم کی کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ اس میں سلیم ہلالی اور ابو مخنف کے بارے میں تو واضح ہے کہ وہ تبرائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ قطعاً قابل اعتبار نہیں تو ان پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ نصر بن مزاحم کا بھی یہ معاملہ ہے۔ وہ بھی شیعہ مصنف ہے۔ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ شیعہ مآخذ ایمان کے اثبات پر حجت نہیں ہیں۔
اس کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ہے۔ مصنف نے اہلسنت کے عقیدے کے مطابق ان کو اہلبیت میں شمار کیا ہے۔ یہ درست بات ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات اس بارے میں واضح ہیں کہ نبی کی ازواج ان کی اہلبیت میں شامل ہیں۔
یہاں ازواج مطہرات کے اہلبیت میں شامل ہونے کے لیے منہاج القرآن کے مفتی شبیر قادری سے پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ پھر مختصر طور پر سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کا ذکر ہے
اس کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر چالیس احادیث کو مصنف نے درج کیا ہے۔ یہاں بھی مصنف نے روایات کے نقل کرنے میں قدرے تساہل سے کام لیا ہے اور ینابع المودۃ، فرائد السمطین اور تذکرۃ الخواص جیسی غیر مستند کتابوں سے بھی روایات کی ہیں۔ ان تینوں کتابوں کے مصنفین کی حقیقت اور علمی معیار کو مولانا محمد علی نقشبندی مجددی نے میزان الکتب میں بیان کیا ہے۔
مناقب و فضائل کے لیے بہتر ہوتا کہ اگر مصنف آغاز صیحیحن کی روایات سے کرتے پھر سنن اربعہ کی روایات اور پھر اس کے بعد دیگر کتب احادیث سے روایات لیتے۔ یہاں بھی روایات کی تخریج پیش کر دی گئی ہے جو کہ لائق تحسین ہے۔ مگر بہتر ہوتا کہ مصنف تخریج کے ساتھ تحکیم بھی کر دیتے۔
فضائل علی رضی اللہ عنہ میں حدیث نور کہ
پیغمبر اور علی کی خلقت نور واحد سے ہوئی ہے
اس روایت کو مسترد کرنے والوں کو مصنف نے ناصبیت زدہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی اس روایت کے متن و سند پر اصول حدیث کی روشنی میں تنقید کرے تو وہ کیسے ناصبیت زدہ ہو سکتا ہے۔ پھر حاشیہ میں مصنف نے کافی محنت کر کے اس روایت کے مزید مآخذ ذکر کیے ہیں مگر ان میں فرائد السمطین اور کفایتہ الطالب جیسی متنازعہ اور غیر مستند کتابوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جو کہ اگر نہ پیش کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
ایک حاشیہ میں حدیث ولایت یا حدیث غدیر پر بھی حاشیہ میں مزید منابع کا ذکر ہے۔ یہ لائق تحسین کام ہے۔
تیسرا اس باب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مولود کعبہ ہونے کی بحث ہے اور کئی کتب سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اس بارے میں مصنف کا موقف قابلِ قدر ہے لیکن اس کے مخالف مؤقف بھی موجود ہے۔ قاری لقمان شاہد صاحب نے اس حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جس میں مولود کعبہ ہونے کی بابت مختلف روایات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی تحقیق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مولود کعبہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جو کہ امام حاکم رحمہ اللہ کے بے سند قول پر ہے کے بارے میں کئی جھول ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مولود کعبہ نہ بھی ہوں تو ان کے فضائل و مناقب میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ جس گھر میں ان کی ولادت ہوئی ہو اس گھر کے عزت و شرف میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک علمی و تاریخی مسئلہ ہے اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عظمت سے جوڑنا درست نہیں ہے۔
اس کے بعد آگلے باب میں سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کے فضائل پر چالیس احادیث لائی گئی ہیں۔ یہاں بھی مصنف کا انداز یہی ہے کہ انہوں نے ہر روایت مع تخریج نقل کر دی ہے مگر اس کے حکم کے بارے میں گفتگو کرنے سے گریز کیا ہے۔
سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کے فضائل کے باب میں ایک حاشیہ میں مصنف نے پروفیسر عون محمد سعیدی صاحب کا ایک مضمون نقل کیا ہے جس میں ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کا سیدہ رضی اللہ عنہا کی طرف نسبت خطاء کے حوالے سے ان پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ مسئلہ پر بات کرنے سے تو میں گریز کروں گا مگر یہ افسوسناک صورتحال ہے۔ آخر ایسے مسائل کو علماء اپنی نجی مجالس کے لیے کیوں نہیں مختص کر لیتے جس میں ایک دوسرے کو اپنے دلائل دینے کی آزادی ہو اور پھر اس کے بعد وہ اتفاق کی صورتحال نکالیں جس میں بعد ہم عوام تک ایسے مسائل کو بیان کرنے کے لیے درست الفاظ کا انتخاب کرکے بیان کر دیا جانا بھی شامل ہو۔ بیشک سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین کے ساتھ ساتھ خاتم المعصومین بھی ہیں مگر سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کی تعظیم میں کمی ایمان کو خاکستر کر سکتی ہے۔ بیشک اس بارے میں اہل ایمان کو حساس ہونا چاہیے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کے فضائل کے باب میں کئی ایسی روایات ہیں جو ان دونوں مقدس ہستیوں سے محبت میں اضافے کا باعث ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو اس کا اجر دے۔
اس کے بعد ایک مضمون سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے اوپر ہے جو کہ مصنف نے ماہنامہ دختران اسلام سے ایمن سہیل صاحبہ کا شامل کیا ہے۔ یہ مضمون تحقیق سے زیادہ جذبات کا مجموعہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ذاکر کی تقریر ہے۔ اس میں کئی باتیں تحقیق طلب ہیں ۔ اگر مصنف خود سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا پر لکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو مجھے اس کے انداز سے لگا کہ یہ مفتی ہاشم صاحب کا انداز نہیں پھر بعد میں جب اس کا حوالہ دیکھا تو اعتماد ہوا۔ اس مضمون کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں کوئی بات بھی باحوالہ درج نہیں ہے۔
بیشک سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اسلام کا ایک روشن اور باہمت کردار ہیں اور ان سے جذباتی وابستگی مسلمانوں کا شیوہ ہے مگر جب ان کا ذکر کیا جا رہا ہو تو پھر مکمل جذباتی انداز اختیار کرنا اس طرح معتبر نہیں رہتا جس طرح علمی و تحقیقی انداز میں پیش کی جانے والی بات کی حیثیت ہوتی ہے.
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب پر بھی ایک باب ہے جس میں مصنف چالیس احادیث لائے ہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ذکر میں ان کی شہادت پر بھی بات ہوئی ہے تو یزید کے بارے میں مصنف نے کلام کیا ہے۔ مصنف یزید کے کفر کے قائل ہیں اس پر انہوں نے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل نقل کیے ہیں۔
یزید ایسی شخصیت تو نہیں کہ اس پر زیادہ وقت ضائع کیا جائے مگر اس کے کفر کا قول کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ بیشک کئی علماء نے اس کی مذمت ذکر کی ہے مگر اس کے ساتھ اس کے بارے میں سکوت کا قول بھی ہے۔ جو کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے۔
مصنف نے یزید کے کفر کے بارے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اہلسنت کا متفقہ مسلک ہے جو کہ درست نہیں۔ اس کے علاوہ تعدیل یزید کو بھی انہوں نے ناصبی فکر کہا ہے۔ جبکہ امام غزالی رحمہ اللہ اور علامہ عبدالمغیث حنبلی رحمہ اللہ جیسے علماء نے اس کی تعدیل کی ہے۔ یہ ہرگز ہرگز ناصبی نہیں تھے۔
ہاں یزید کو سانحہ کربلا کے بعد اس سے بری الزمہ نہیں قرار دیا جا سکتا، اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس سانحہ کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرتا۔ اس بارے میں اس نے اپنی شرعی ذمہ داری ادا نہیں کی۔
یزید کے کفر کا اس وجہ سے بھی غیر معتبر ہو جاتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ سیدنا محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ جو کہ خاندان اہلبیت کے افراد ہیں۔ان کی سانحہ کربلا کے بعد بھی یزید سے ملاقات ہوئی ہے اور اچھے ماحول میں ہوئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایسے شخص سے ملاقات کریں جو معاذ اللہ یہ کہے کہ بنی ہاشم نے وحی کا ڈھونگ رچایا۔
یزید کا دفاع مقصود نہیں مگر کفر کا قول کرنے کے لیے انتہائی احتیاط اور تحقیق کی ضرورت ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یزید کے معاملے میں کفر کا قول عجلت کی بنا پر ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ یزید کا دور کوئی روشن دور نہیں تھا۔ سانحہ کربلاء ، واقعہ حرہ اور مکہ مکرمہ میں لشکر کشی جیسے دلخراش واقعات اس کے دور میں رو پذیر ہوئے ہیں۔وہ ناپسندیدہ شخصیت ہے مگر اس کی تکفیر ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس بارے میں سکوت کا قول زیادہ محقق و معتبر ہے.
اس ہی سلسلے میں شدت پسندی کی ایک شکل تفضیلی طبقات میں بھی پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی سنی العقیدہ شخص یہ بول دے کہ اس کے علم میں یہ بات نہیں کہ یزید نے براہ راست قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم دیا تھا تو اس پر بھی وہ خارجیت اور ناصبیت کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی اور شدت پسندی ہے، اس کا تعلق علم و تحقیق سے ہے اس بنیاد پر کسی پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے دشمنی یا یزید سے محبت قرار دینا غلط ہے۔ ایسے میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان اہل علم کے سامنے دوسرا فریق دلائل رکھے اگر ان کے دلائل قوی ہوں تو پھر ان کی غلطی فکر کو واضح کر دینا کافی ہے۔
اس کے بعد مصنف نے آئمہ اہلبیت کا ذکر کیا ہے۔ اس میں امام جعفر صادق رحمہ اللہ پر مصنف کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے باقی آئمہ کی نسبت قدرے تفصیل سے لکھا ہے۔
اس میں بھی امام علی رضا کے بارے میں ینابع المودۃ کی ایک روایت کہ جس نے طوس میں ان کی زیارت کی اس نے گویا حج انجام دیا۔ یہ روایت پہلے تو ایک غیر مستند اور متنازع کتاب میں ہے دوسرا یہ اسلام کے اصولوں کے بھی بر خلاف ہے۔ ایسے ہی فرائد السمطین جیسی ناقابل اعتبار کتاب سے حضرت علی رضا کی قبر کی زیارت پر جنت واجب ہونے کا بھی ذکر ہے۔ یہ بھی بات کسی مستند سنی کتاب میں نہیں اور نہ ہی اس کو درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ حضرت علی رضا علیہ الرحمہ کی قبر کی زیارت کے حوالے سے کئی غیر معتبر باتوں کو حدیث بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ بیشک امام علی رضا علیہ الرحمہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے مگر یہ بات کہ آپ کی قبر کی زیارت سے حج کا اجر ملنا یا جنت کا واجب ہونا خود امام علی رضا علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ ہاں آپ کی قبر پر اللہ تعالیٰ اپنے انوار کی بارش برسائے تو یہ چیز درست ہے
اس کے بعد امام مہدی کے بارے میں بھی ایک باب ہے اور ان کے ظہور کے نظرے کے اثبات پر انہوں نے احادیث پیش کی ہیں۔ یہاں مصنف کا انداز پہلے سے مختلف ہے۔ یہاں مصنف نے فقط نقل روایات کا سہارا نہیں لیا بلکہ ان پر اپنی تحقیق بھی پیش کی ہے اور ان روایات کی تخریج کے ساتھ تحکیم بھی بیان کی ہے۔ یہ باب اس کتاب کا علمی لحاظ سے سب سے مضبوط باب ہے۔ اس ہی باب کو دیکھ کر مجھے سیدنا علی، سیدہ نساء العالمین، سیدنا حسنین کریمین اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں ابواب کے بارے میں کچھ کمی محسوس ہوئی۔ مصنف اگر یہی کام ان ابواب پر کر دیں تو یہ کتاب کو زیادہ معتبر بنانے کا سبب بنے گا۔
امام مہدی کے بارے میں کچھ وضاحت ضروری ہے کہ اہلسنت کے ہاں امام مہدی حضرت حسن عسکری علیہ الرحمہ کے بیٹے نہیں ہیں۔ وہ کسی غیبت کبریٰ یا صغریٰ میں نہیں گئے۔ وہ پیدا ہوں گے ہاں وہ نسباً والد اور والدہ کی طرف سے سیدنا حسنین رضی اللہ عنہم کی اولاد سے ہوں گے۔ وہ امام عادل ہوں گے۔ اس لیے شیعہ کی امام مہدی اور سنیوں کے امام مہدی دو مختلف شخصیات معلوم ہوتی ہیں۔
اس کے بعد مصنف نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد پر بھی لکھا ہے اور اس میں حضرت حسن مثنیٰ ، حضرت عبداللہ المحض بن حسن ، امام نفس زکیہ، ادریس مراکشی اور حضرت عبداللہ الاشتر المعروف عبداللہ شاہ غازی اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ کی سیرت کے احوال پر گفتگو کی ہے۔ یہ خوش آئند پہلو ہے کیونکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد کے بارے میں اہلسنت کے ہاں بہت کم آگاہی ہائی جاتی ہے جبکہ شیعی روایات میں ان کے حوالے سے تو ویسے بھی بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مصنف داد کے مستحق ہیں۔ہاں مصنف کی پیش کردہ تفصیلات میں اختلاف ہو سکتا ہے بالخصوص حضرت نفس زکیہ کے سیاسی جدوجہد کے بارے میں تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگوں کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔
اس ہی ضمن میں محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے اوپر پر حاشیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور ان کے آمد کی وجوہات پر دیگر مآخذ سے بھی سہارا لیا گیا ہے جس سے اس حملے کے پیچھے اموی حکومت کے سیاسی مقاصد کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے کہ یہ عمان کے علافی برادران کے خلاف بھی مہم تھی جو بنو امیہ کی حکومت کے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ حجاج بن یوسف کے بارے میں مصنف نے اس کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے مقابلے میں عبدالرحمان ابن اشعت کی بغاوت کی بھرپور حمایت کی ہے۔ حجاج کے بارے میں یہ خیال کہ اس نے سب سے پہلے قرآن مجید پر نکتے اور اعراب لگائے مصنف کے نزدیک درست نہیں بلکہ یہ کارنامہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابولاسود دئلی رحمہ اللہ کا ہے۔ اس پر مصنف نے فتاویٰ رضویہ کا حوالہ بھی پیش کیا ہے۔
مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ سندھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح ہو گیا تھا۔یہ کام امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک کمانڈر حارث بن مرہ العبدی رحمہ اللہ کا ہے۔ تو فاتح سندھ اصل میں یہ ہیں۔
بہرحال یہاں مصنف نے جاندار تاریخی مباحث کیں ہیں، ان میں دوسری رائے کی گنجائش کو مصنف نے خود تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے اپنے رجحان کو بتا دیا ہے۔ ان کی پیش کردہ تفصیلات میں اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔ بالخصوص راجہ داہر کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے میں اس سے مطمئن نہیں ۔ یہ کام سب سے پہلے جی ایم سید نے شروع کیا۔ اس سے پہلے سندھی تاریخی ادب میں راجہ داہر کی منصف مزاجی، عوام دوستی، امن پسندی یا مذہبی رواداری کی مثالیں ملتی ہیں تو مصنف کو انہیں پیش کرنا چاہیے۔
مصنف نے محمد بن قاسم کے ضمن میں عطیہ بن سعد العوفی کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ان کی بھرپور تعریف کی۔ ان کو محدث و مفسر اور محب اہلبیت لکھا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ عطیہ العوفی کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ نیز حجاج بن یوسف کے کہنے پر محمد بن قاسم نے ایران میں ان سے بدسلوکی کی۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دباؤ کے باوجود گالیاں دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ جس پر محمد بن قاسم نے ان کے داڑھی کے بال کاٹ ڈالے اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عطیہ العوفی کی شخصیت تنازعات سے خالی نہیں ، ان کے اوپر آئمہ اسماء الرجال کی جرح موجود ہے۔ ان کے اوپر تدلیس کا الزام ہے یہ محمد بن سائب الکلبی کو ابو سعید کہتے تھے جس سے صحابی رسول حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا گمان ہوتا تھا۔ اس کے بعد ان کے اوپر تشیع کی وجہ سے بھی کچھ جرح کی گئی ہے۔ مولانا محمد نافع نے بھی اپنی کتاب حدیث ثقلین میں ان کے اوپر کلام کیا اور ان کے ضعف کو بیان کیا ہے۔ یہ دوسری رائے ہے اس میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ عطیہ کی تعدیل معتبر ہو جیسے کہ مصنف کا خیال ہے یا ان کا ضعف درست ہے جیسے کہ دوسرے علماء کا خیال ہے۔
البتہ محمد بن قاسم والی بات کی مجھے تصدیق نہیں ہو سکی اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا تو یہ یقیناً قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔
اس کے علاوہ مصنف نے حضرت زید بن علی رحمہ اللہ پر بھی گفتگو کی ہے اور اموی حکومت کے ان کے خروج کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ آپ رحمہ اللہ کے علمیت و فقاہت کا بھی ذکر کیا ہے۔ آپ کی طرف منسوب حدیث کی کتاب مسند زید بن علی کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کو آپ کی تالیف قرار دیا ہے مگر یہ بات بھی تحقیق طلب کیونکہ کچھ علماء کے نزدیک اس کا کتاب کا انتساب امام زید بن علی رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے اوپر بھی ایک تفصیلی حاشیہ ہے۔ جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی زندگی ، تعلیمات اور ان کی تصانیف کا ذکر ہے۔ بالخصوص غنیتہ الطالبین کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس کو مصنف نے حضرت شیخ جیلانی کی تصنیف قرار دیا ہے ۔ اس میں بھی مصنف کی رائے اپنے استاد علامہ سعیدی رحمہ اللہ کے برخلاف ہے۔ پھر بھی یہ علمی مسئلہ ہے، کئی علماء اس کو شیخ جیلانی کی تصنیف مانتے ہیں جبکہ کچھ اس کا انتساب درست نہیں سمجھتے۔ دونوں جانب اس کے دلائل موجود ہیں۔ یہ حاشیہ بھی کافی جاندار ہے جس کو پڑھنے سے حضرت جیلانی کے بارے میں مزید جانکاری ملتی ہے اور ان کی تعلیمات و افکار سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ مزید کچھ صوفی بزرگوں کے احوال مختصراً اس کتاب میں شامل ہیں۔
آخر میں اہلسنت علما کی شان اہلبیت میں کہے گئے اشعار اور کلام میں سے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش کیے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محبت اہلبیت اہلسنت کا عقیدہ کا لازمی حصہ ہے۔ یہ بات بالکل حقیقت ہے۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ، محبت اہلبیت ہمارے ایمان کی ضمانت ہے۔ اہلبیت کو جو نسبت حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اس کے بعد کسی مومن کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ ان سے محبت و دوستی کے علاوہ کوئی تعلق رکھتے۔ اہلبیت سے محبت اہلسنت کی بنیاد میں ہے۔ ہم اس محبت پر اللہ تعالیٰ کو اپنا گواہ بناتے ہیں۔اہلبیت سے محبت مراد ہرگز یہ نہیں کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپنا تعلق کمزور کر لیں۔ ان دونوں سے محبت میں کوئی تضاد نہیں جیسے کہ کچھ گمراہ کن نظریات کے حامل لوگ کہتے ہیں۔ ایسے ہی اہلبیت کے بارے میں غلو آمیز رویہ بھی ناپسندیدہ ہے بلکہ خود اہلبیت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔اہلبیت سے مراد فقط خاندان علی رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ اس میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم بھی داخل ہیں، جو ان کے بارے میں کوئی منفی سوچ رکھے ہمارے نزدیک وہ اہلبیت کا محب نہیں ہے۔ ایسی فکر سے ہمیں خدا کی پناہ مانگتے ہیں
مفتی صاحب نے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ کئی جگہ ان کی باتوں سے مکمل اتفاق ہے اور انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ جہاں مجھے ان کے کام میں کچھ کمی محسوس ہوئی وہ میں نے ذکر کی۔ وہاں مجھے محسوس ہوا کہ مصنف کا انداز محققانہ نہیں ہے اس لیے اس کو ذکر کیا۔ ممکن ہے کہ میرے سمجھنے میں کوئی غلطی ہو۔ لیکن میں نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ منصفانہ انداز میں کتاب کا ذکر کروں۔بس اتنی بات بھی ذہن میں رکھنی ہے کہ مفتی صاحب ایک عالم ہیں، یقیناً علمی لحاظ سے مجھ سے فائق ہیں میری حیثیت ایک عام سے طالب علم کی ہے۔
یہ کتاب مجھے مفتی ہاشم صاحب نے تحفتاً بھیجی تھی۔ جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں
کمنت کیجے