ڈاکٹر نفیس اختر، انڈیا
ایک عرصہ سے انتہا پسند ہندو تنظیمیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ مسلمان ایک خفیہ پلان کے تحت اپنے نوجوانوں کو تیار اور استعمال کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی پہچان چھپا کر ہندو لڑکیوں سے دوستی کرتے ہیں، پیار ومحبت کے دام میں گرفتار کرتے ہیں، پھر یہ ہندو لڑکیاں پیار کے نشے میں حقیقت معلوم ہونے کے بعد بھی اپنا دھرم پرہورتن کر کے ان سے شادیاں رچا لیتی ہیں اور مسلم بچے پیدا کرتی ہیں۔ اگر یہی چلتا رہا تو ایک دن ہندو تعداد میں مسلمانوں سے بہت کم ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے برسر اقتدار طبقہ بھی اس افواہ کو اپنے سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اب اس جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت کی آگ میں تیل ڈالنے کے کام میں اب گودی میڈیا کے ساتھ گودی فلم سازی نے بھی حصہ لینا شروع کر دیا ہے ۔
ادھر کچھ عرصہ سے کچھ مسلم تنظیمیں اور قیادتیں بھی مسلمانوں میں ریورس جہاد کا خوف پھیلا رہی ہیں، یعنی ان کے مطابق لو جہاد تو ایک فسانہ تھا لیکن اب ہندو نوجوان واقعی مسلم لڑکیوں سے دوستی کرکے انھیں مرتد کرکے شادیاں کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک لوگ اسے کسی منصوبہ یا سازش کا حصہ تو نہیں مانتے لیکن مسلم لڑکیوں کا ارتداد اور غیر مسلموں سے شادی کرنا ان کے نزدیک بھی ایک بڑھتا ہوا مہلک رجحان ہے، جس پر روک لگانے کے اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ نسلوں کے مرتد ہوجانے کا خطرہ درپیش ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی مسلم لڑکی کے غیر مسلم لڑکے سے دھرم بدل کر یا بغیر دھرم بدلے شادی کر لینے کے واقعات نئے نہیں ہیں اور نہ ہی کسی ہندو لڑکی کے مسلم بن کر یا بنا اسلام قبول کیے مسلم سے شادی کر لینے کے واقعات انوکھے ہیں۔ ہاں البتہ یہ گنے چنے واقعات اب سوشل میڈیا کے ذریعہ اتنی تشہیر پا رہے ہیں کہ اس کے ذریعہ سماج میں لو جہاد اور ریورس لو جہاد کا بے بنیاد خوف پھیلانے والے آسانی سے کامیاب ہو رہے ہیں۔
میں نہیں کہتا کہ بین المذاھب شادیوں کے واقعات میں تھوڑا بہت اضافہ نہیں ہوا ہے۔ یقیناً ہوا ہے لیکن اس کی وجہ بس یہ ہے کہ سماج کی عمودی تقسیم جو فرقہ وارانہ تعامل کے بیچ ایک دیوار تھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ سماج اب فرقہ و مذہب کے بجائے طبقات میں منقسم ہو گیا ہے۔ بین المذاھب میل جول، تجارت، تعامل اور تعلیم و تعلم نے ایک کو دوسرے سے اجنبی نہیں رہنے دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی باہمی شناسائی اور قربت سے بین المذاھب شادیوں میں فطری طور پر کچھ نہ کچھ اضافہ ہونا ہی تھا جو ہو رہا ہے۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نفسیاتی رد عمل دونوں طرف یکساں ہیں۔ کسی غیر مسلم لڑکی کے محبت کے نتیجہ میں اسلام قبول کر کے مسلم بہو بن جانے کے واقعات سے مسلمان بھی خوش ہوتے ہیں اور کسی مسلم لڑکی کے ہندو بن کر ہندو بہو بننے سے ہندو بھی۔ اس طرح کے واقعات کی حوصلہ افزائی بھی دونوں طرف سے کی جاتی ہے؛ البتہ سیاسی طاقت نے ایک کو کھل کر ایسا کرنے کا موقع دیا ہے تو سیاسی مجبوری نے دوسرے کو منافق بننے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ ہاں گھریلو سطح پر دونوں طرف ایک تضاد بھی ہے۔ نو مسلم بہو، مسلمان کو اپنے گھر میں نہیں صرف اپنے سماج میں پسند ہے، ٹھیک اسی طرح نو ہندو بہو بھی کسی برہمن ٹھاکر کو اپنے گھر میں نہیں، فقط اپنے سماج میں اچھی لگتی ہے۔
لو جہاد یا ریورس لو جہاد دونوں ہی نہ تو سازشی پلان ہیں اور نہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ دونوں طرف یہ محض ایک بے بنیاد خوف ہے کیونکہ دونوں اپنی بہن بیٹیوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ محض مہنگے فون اور دھن دولت کی لالچ میں ان کی لڑکیاں اور خواتین دھوکے کا شکار ہوجاتی ہیں تو اور کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گھر سے باہر آزادی کا ماحول پاتے ہی ان کی لاڈلیاں اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھتی ہیں۔۔۔
یہ سوال بھی ہے کہ کیا اکا دکا ہونے والی بین المذاھب شادیوں کے رجحان کو بڑھنے سے روکنا ضروری نہیں ہے؟
میرا جواب ہے نہیں۔۔۔ بھارت کے ہر شہری کو مرد ہو یا عورت یہ حق حاصل ہے کہ کہ وہ اپنے لیے پسند کے جوڑے کا انتخاب کرے۔ جو کوئی بھی اس کے استعمال میں رکاوٹ بنے یا زبردستی کرے وہ مجرم ہے۔ پسند کے جوڑے کے انتخاب میں اگر کسی کے لیے مذہب اہم ہے تو وہ اس کا لحاظ رکھے گا مگر جس کے لیے مذہب زیادہ سنجیدہ معاملہ نہیں وہ کیونکر اسے اہمیت دے سکتا ہے؟ اور ہم آپ کون ہوتے ہیں کسی کو اس کی مرضی پر عمل کرنے سے روکنے والے۔ ہر بالغ شہری حق خود ارادیت رکھتا ہے۔ محض اس ڈر سے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کرلے جو آپ کو پسند نہ ہو اسے اس کے بنیادی حق تعلیم سے محروم کردینے کی سوچنا بھی مجرمانہ ذہنیت ہے۔۔۔
امکان زیادہ ہے کہ اس دور میں بہن بیٹیوں پر بے جا پابندیاں انھیں مزید باغیانہ مزاج کا حامل بنائیں گی۔ ماڈرن ایج میں دو کمیونیٹیز کے اختلاط کے ( ایک تعلیم ہی نہیں ) اتنے ضروری اور غیر ضروری مواقع ہیں کہ اس پر روک لگانا ناممکن ہے ۔ کسی بیماری کی دیر پا روک تھام اب لاک ڈاؤن سے نہیں، قوت مناعت سے ہی ممکن ہے اور یہ بات صرف لڑکیوں کی نہیں ہے بلکہ خود مذاہب کی بھی ہے۔ مذاہب بھی اب اختلاط اور ایکسپوزر کے بازار میں ہیں۔ ان کی بقا بھی اب ان کی قوت مناعت پر ٹکی ہے۔ قوت مناعت ایکسپوزر بڑھانے سے ہی آتی ہے، اس لیے مذاہب کو اب تقدس کے حصار سے باہر آ کر خود کو تنقید کے لیے کھولنا ہوگا۔ جس دیے میں واقعی عقل و دانش کا تیل ہوگا وہی روشن رہے گا۔ جن کی محض بتیاں جل رہی ہیں وہ بجھ جائیں گے۔ سچائی جس کے پاس ہوگی وہ تنقید کے عمل سے نکھر کر مزید آشکارا ہوگا۔
سماج کی بقا و ترقی اسی میں ہے کہ نئی نسل کو بلا جنسی امتیاز کے تقلید و جمود کی بیڑیوں سے آزاد کر کے عقل و دانش کی روشنی عطا کی جائے۔ اب مقدس بیڑیاں ارتداد کو روک پانے میں ناکام ہی رہیں گی۔ اس لیے اگر آپ کو اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو بلا خوف نئی نسل کو عقل و دانش اور تنقید و تفحیص کی قابلیت اور مواقع سے نوازیں۔ مذہب سماجی اکراہ نہیں انفرادی آزادی کا معاملہ ہونا چاہیے۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام سچائیوں کا دین ہے۔ ہمارے بچوں میں عقل و دانش کا پیدا ہونا ہی انھیں ارتداد سے بچائے گا۔ مقدس بیڑیاں اور انھیں محض تقلید کا خوگر بنانا مسئلہ کا کاؤنٹر پروڈکٹیو حل ہے۔
کمنت کیجے