حواس یا حسی تجربہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ایک حصہ تو ظاہری حواس کا ہے یعنی سماعت ، بصارت ، لمس وغیر متقدمین فلاسفہ انہی ظاہری حواس پر لفطِ حس کا اطلا ق کرتے ہیں لیکن جدید نفسیات اور فلسفے میں حسِ باطنی کو ظاہری حواس سے بالکل الگ کیا گیا ہے جیسے رنج و غم اور خوشی کے جذبات محسوس کرنے کی اندرونی قوت وغیرہ ۔
حصولِ علم کے ذرائع میں سے سب سے واضح ذریعہ حسی تجربہ ہی ہے ۔ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں علم اسی قوت سے حاصل کرتے ہیں ۔ حسی تجربات ہی ہم پر عالمِ طبیعی میں پائے جانے والے وجود اور انکے اوصاف کو ظاہر کرتے ہیں ۔ حسی تجربات کبھی غلط نہیں ہوتے لیکن ان سے حاصل شدہ علم میں غلطی کا بہرحال امکان موجود ہوتا ہے کیونکہ ان سے ملنے والا ادراک ایسے قضیہ کی طرف راہنمائی کرنے کا امکان رکھنا ہے جو درحقیقت کاذب ہوتے ہیں ۔ جیسے کسی پیاسے کو اگر ریگستان پانی نظر آتا ہے تو یہ اسکی بصارت کی غلطی نہیں ہے بلکہ قوتِ باصرہ نے اسی چیز کا تجربہ کیا ہے جو اسکے تئیں موجود ہے لیکن اس تجربہ نے جس ادراک کو آشکار کیا ہے وہ کاذب ہے ۔
عموما یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارے حواس غلطی کرتے ہیں لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ۔درست بات یہ ہے کہ حواس دھوکہ نہیں دیتے کیونکہ وہ صرف تجربات کے ذرائع ہیں ۔ اصل غلطی ان ادراکات کی ہوتی ہے جو ایسی تصدیقات کی طرف مائل ہو جائیں جو بعد میں کاذب ثابت ہوں ۔
حسی تجربات میں ادراکات کی غلطیاں یہ ثابت نہیں کرتیں کہ ان تجربات سے حاصل کیے جانے والے ممکنہ علم کو کسی اور ذریعے سے حاصل کرنا ممکن بنایا جائے کیونکہ یہ محال ہے ۔ بلکہ اسکا علاج توقف ہے یعنی تصدیقات کی صحت تک مزید حسی تجربات میں مشغول رہنا ہی اس غلطی کی درستگی کے بعد صادق قضایا تک راہنمائی کر سکتا ہے ۔لیکن متواتر تجربات سے صادق قضایا تک رسائی اس تصور پر منحصر ہے کہ عالمِ خارجی کے نفسِ وجود کو معروضی حیثیت سے تسلیم کیا جائے ۔عبد الماجد دریابادی لکھتے ہیں :
“حس شعور کی بسیط ترین کیفیت کا نام ہے جسکی مزید تحلیل ممکن نہیں ۔اور جس میں کسی قسم کی تشخیص اور تعیین نہیں ہوتی ، حس اور ادراک میں یہی فرق ہے ۔ادراک متعین اور مشخص ہوتا ہے جبکہ حس کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔نفس کی بالکل ابتدائی حالت انفعالی ہوتی ہے خارج کی تاثیرات سے کچھ نقوش نفس پر مرتسم ہوتے ہیں اور معا جو کیفیت ِ شعوری پیدا ہوتی ہے اسی کا نام حس ہے ۔ اگر نفس اس میں ترمیم کرے تو وہ ادراک بن جاتا ہے لیکن جب تک فعلیتِ نفس کی مداخلت نہ ہو اس پر حس کا اطلاق ہوتا ہے۔”
عام انسان اپنی زندگی اور تجربات کے متعلق جیسے سوچتا ہے اس فہم پر سب سے پہلے تصوریتی فلاسفہ میں سے ڈیکارٹ اور جان لاک نے اپنے فلسفہء استحضاریت میں نقد کیا ۔ جو ہیوم اور برکلے کی نفسی تصوریت سے ہوتا ہوا کانٹ اور ہیگل تک جا پہنچا ۔سی ۔ای ۔ایم ۔جوڈ اپنی کتاب “Introduction to modern philosophy ” میں لکھتے ہیں :
The first step in the departure from common-sense view is taken in the so-called Representationalism of Descartes and Locke. These philosophers conceived of consciousness not as a beam of light illuminating the outside world, but as a photographic plate upon which object are represented. Mind, therefor, perceives its own ideas, but does not perceive the external objects which stimulate consciousness and cause the ideas to arise. It is believed that a world of external objects exists, but it is denied that it can ever be directly known
ترجمہ: عام تفہیم سے سب سے پہلے ڈیکارٹ اور لاک نے اپنے استحضاریت کے فلسفہ میں انحراف کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ شعور روشنی کی کوئی ایسی کرن نہیں جسکے اثر سے خارجی دنیا منور ہو جائے بلکہ وہ ایک فوٹوگرافی کی پلیٹ ہے جس پر شکلیں مرتسم ہوتی ہیں ۔اس پلیٹ پر جو شکلیں مرتسم ہوتی ہیں وہی ہمارے ذہن میں اجاگر ہوتی ہیں اور انہیں کو تصورات کہا جاتا ہے ۔ذہن خود اپنے ہی تصورات کا ادراک کرتا ہے اسے ان خارجی اشیاء کا کوئی ادراک نہیں ہوتا جو شعور میں تحرک کے بعد تصورات کو جنم دیتی ہیں ۔۔خارجی اشیاء کی ایک دنیا موجود ہے لیکن اس کا براہِ راست علم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔
حواس کی دوسری قسم باطنی حواس ہیں ۔ مثلا دکھ کا احسا س ، فرحت کا احساس وغیرہ ۔ ایسی کیفیات کے وجود اور انکے علم میں کسی خارجی حس کا عمل دخل نہ ہونا واضح ہے ۔ ان حواس کے وجود کی دلیل یہ ہے کہ ایسے حواس جن تجربات کا سبب بنتے ہیں ان کو بطور علم اور قضیہ بیان کرنا درست ہے ۔جیسے میرا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے ۔ ایسے قضایا کی صداقت اور علم کا وجود انسان کی حالت پر منحصر ہے یعنی اگر میرے سر میں درد ہے تو میرا یہ قضیہ “میرے سر میں درد ہے ” بالکل درست ہو گا ۔ ایسے قضیے کے علم کا وجود تجربہ ہی سے منسلک ہوتا ہے جسے صداقت کیلئے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
لیکن یہ نکتہ اہم ہے کہ یہ بات ہر طرح کے احساس پر لاگو نہیں کی جا سکتی مثلا اگر کوئی کہے کہ کل تم بیمار ہو جاو گے تو یہ قول صرف اس وجہ سے درست نہیں ہو سکتا کہ قائل کو اس چیز کا باطنی احساس ہوا ہے ۔
کمنت کیجے