Home » شیخ ابن عربی ؒ اور قادیانی موقف میں فرق
اسلامی فکری روایت کلام

شیخ ابن عربی ؒ اور قادیانی موقف میں فرق

ڈاکٹر زاہد مغل

برادر عمار خان ناصر صاحب نے ایک مرتبہ پھر شیخ ابن عربی کے موقف کو قادیانی موقف کے ساتھ بریکٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔  اس بار وہ علامہ ابن حزم کی بعض عبارات لائے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ نبوت و رسالت میں فرق ہے، رسالت میں بعثت  و تبلیغ کا پہلو  شامل ہے جبکہ نبوت میں یہ شامل نہیں بلکہ یہ کسی کو خاص کر لئے جانے کے بعد مخاطبت کا نام ہے۔ علامہ ابن حزم کی تعبیر جمہور متکلمین سے کچھ الگ اس لئے ہے کیونکہ آپ خواتین میں اصطلاحی نبوت کے اجراء کے قائل ہیں جس کی مثال آپ کے نزدیک حضرت مریم علیہا السلام ہیں جن کے ساتھ مخاطبت میں  اللہ کی جانب سے خاص کرلئے جانے کے علاوہ حکم شرعی کا بھی  بیان ہے جیسا کہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا:

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ‎﴿٤٢﴾‏ يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ ‎﴿٤٣﴾‏

اس بنا پر علامہ ابن حزم رسول و نبی میں فرق بتائے ہوئے اپنے موقف کو ملحوظ رکھ کر الفاظ کا چناؤکرتے ہیں، یعنی چونکہ خواتین  کو  تبلیغ کا حکم نہیں  دیا جاتا مگر وہ نبی ہوسکتی ہیں تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ انہیں انفرادی حیثیت میں کوئی ایسا حکم دیا جائے جو کسی رسول کی شریعت سے الگ ہو۔ چونکہ شیخ ابن عربی بھی خواتین کی نبوت کے قائل ہیں، لہذا وہ بھی یہ مانتے ہیں کہ کسی شخص کو انفرادی طور پر کوئی ایسا حکم دیا جائے جو رسول کی شریعت سے الگ ہو، لیکن وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ صرف آپﷺ کی بعثت سے قبل ہوا کرتا تھا، اب اس نبوت کا کوئی نام و نشان باقی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

والقسم الثانی من النبوة البشریة هم الذین یکونون مثل التلامیذ بین یدی الملک ینزل علیهم الروح الامین بشریعة من الله فی حق نفوسهم یتعبدهم بها فیحل لهم ما شاء و یحرم علیهم ما شاء و لا یلزمهم اتباع الرسل و هذا کله کان قبل مبعث محمدﷺ فاما الیوم فما بقی لهذاالمقام اثر

’’دوسری قسم نبوت بشریہ کی وہ ہے جن کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ وہ فرشتہ کے سامنے شاگردوں کی مثل ہوتے ہیں ان پر صرف ان کی ذات کے لیے رو ح الامین شریعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جس کا انہیں اللہ کی طرف سے مکلف بنایا جاتا ہے، ان کے لیے اللہ جو چاہتا ہے حلال کرتا ہے اور اور جو چاہتا ہے حرام کرتا ہے،ان پر (دیگر) رسولوں کی اتباع لازم نہیں ہوتی۔ یہ مقام محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل ہوا کرتا تھا ، اب اس مقام کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ۔‘‘

تاہم عمار صاحب کا کہنا ہے کہ علامہ ابن حزم اور بعض اہل علم کے مطابق یہ دونوں مناصب (یعنی رسالت و نبوت) ختم ہوگئے ہیں جبکہ شیخ ابن عربی کے نزدیک دوسرا منصب جاری ہے۔ یوں گویا شیخ کا موقف اہل سنت کے موقف سے الگ ہوگیا۔

اس پر پہلا تبصرہ یہ ہے کہ علامہ ابن حزم کا موقف و انداز تقسیم کب سے جمہور اہل سنت و متکلمین کا موقف ہوگیا کہ اسے پیش کرکے گفتگو کی جائے؟ دوسری بات یہ کہ اس بات کی دلیل آپ نے دینا ہے کہ شیخ نبوت کی اس قسم کے اجرا کے قائل ہیں جو اصطلاحی نبوت ہے مگر اس کی کوئی دلیل آپ نے پیش نہیں کی، محض علامہ ابن حزم کی عبارات پیش کرنے سے شیخ کا موقف معلوم نہیں ہوسکتا۔ تیسری بات یہ کہ جسے اصطلاحی نبوت کہا جاتا ہے اس کا اہم ترین پہلو تکلیف ہے مگر عمار صاحب اسے موضوع نہیں بناتے بلکہ صرف مخاطبت کی مختلف اقسام بنا کر بحث میں الجھاؤ پیدا کررہے ہیں۔ تو سب سے پہلے انہیں بتانا چاہئے کہ جسے اصطلاحا نبوت کہا جاتا ہے اور جو ختم ہوگئی، آپ کے نزدیک اس کی نوعیت  و خصوصیت کیا ہے؟ جب تک یہ واضح نہیں کیا جاتا سب گفتگو بے محل ہے۔ ہم بارہا بتا چکے ہیں کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک اصطلاحی نبوت کی حقیقت تکلیف و  تشریع ہے اور یہ ختم ہوچکی، رہی اس کے سواء مخاطبت تو وہ جاری ہے اور اسی کے حامل کو ملہم اور  محدث کہا جاتا ہے۔ شیخ کے نزدیک بھی یہ جاری ہے اور اس کے حاملین کا حکم مجتہدین کا ہے جنہیں شریعت محمدیہﷺ کے کسی مجتہد فیہ حکم کا عرفان حاصل ہوسکتا ہے یا کوئی خوشخبری وغیرہ۔ اس کے سوا شیخ کے ہاں کسی مخاطبت کا جواز موجود نہیں اور ہم نے اپنی کتاب میں اس پر دسیوں عبارات پیش کی ہیں۔ لہذا علامہ ابن حزم کی عبارات بھی مقصد حاصل کرنے میں مفید نہیں۔

چونکہ شیخ ابن عربی کے ناقدین کو شیخ ابن تیمیہ کی زبان زیادہ سمجھ آتی ہے، لہذا ہم متعلقہ موضوع پر ان کی بعض عبارات گوش گزار کرتے ہیں:

ولیس کل من اوحی الیه الوحی العام یکون نبیا، فانه قد یوحی الی غیر الناس۔ قال تعالی (وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ: النحل 68)، وقال تعالی (وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا: فصلت 12)، وقال تعالی عن یوسف وهو صغیر (فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ: یوسف 15) وقال تعالی (وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ: قصص 7) وقال تعالی (وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي: المائدة 111) ۔ وقوله (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا: شوری 51) یتناول وحی الانبیاء وغیرهم کالمحدثین الملهمین کما فی الصحیحین عن النبی ﷺ انه قال (قد کان فی الامم قبلک محدثون، فان یکن فی امتی احد فعمر منهم)،وقال عبادة ابن صامت (رؤیا المؤمن کلام یکلم به الرب عبده فی منامه)۔ فهؤلاء المحدثون الملهمون المخاطبون یوحی الیهم هذا الحدیث الذی هو لهم خطاب والهام، ولیسو بانبیاء معصومین

“ہر وہ چیز جس پر وحی عام ہو وہ نبی نہیں ہوتی کیونکہ وحی تو انسانوں کے علاوہ دیگر اشیاء پر بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے کہا (“اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ وہ بنایا کرے پہاڑوں میں اپنے چھتے اور درختوں کی شاخوں میں اور ان کے چھپروں میں جو لوگ بناتے ہیں”)، اور اللہ نے فرمایا (“اور ہر آسمان میں اسی کے کام کی وحی کی”)، اور اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا جبکہ وہ چھوٹے بچے تھے (“پھر جب انہیں لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ ڈال دیں گے اسے کسی گہرے کنویں کی تاریک تہہ میں ، اور اس وقت ہم نے اس کی طرف وحی کی گھبراؤ نہیں، تم ضرور آگاہ کرو گے انہیں ان کے اس فعل سے جبکہ انہیں احساس بھی نہیں ہوگا”)، اور اللہ نے کہا (“اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ”)۔ نیز اللہ کے فرمان (“نہیں ہے کسی بشر کی یہ شان کہ اللہ اس سے کلام کرے سوائے وحی کی صورت”) میں انبیاء سمیت دیگر انسان مثلا ملہمین بھی شامل ہیں جیسا کہ صحیحین میں آپﷺ سے روایت ہے کہ بے شک آپﷺ نے فرمایا (“تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے،اگر میری امت میں کوئی ہوا تو وہ عمر ہوگا”)، اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (“مؤمن کا خواب در اصل نیند میں بندے سے اللہ کا کلام ہے “)۔ تو یہ محدثین و ملہمین ہیں جو اللہ کے مخاطبین ہیں جن کی طرف یہ بات وحی کی جاتی ہے جو ان کے لیے خطاب اور الہام ہے۔ وہ معصوم انبیاء نہیں۔”

ایک اور مقام پر ملہمین کی طرف کی جانے والی اسی وحی کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ غیر انبیاء کی طرف جو وحی کی جاتی ہے یہ نیند اور بیداری دونوں حالت میں ہوتی ہے:

فَهَذَا الْوَحْيُ يَكُونُ لِغَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ وَيَكُونُ يَقَظَةً وَمَنَامًا

” پس یہ وحی غیر انبیاء کے لئے بھی ہوتی ہے اور جو حالت بیداری اور نیند دونوں میں ہوتی ہے۔”

ان عبارات سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:

  • ہر وہ شے یا شخص جس کی طرف وحی ہو وہ نبی نہیں ہوتا
  • وحی عام اور انبیاء پر نازل ہونے والی وحی میں فرق ہے، موخر الذکر خاص وحی ہے
  • قرآن مجید کی آیت ما کان لبشر الخ میں جس وحی کا ذکر ہے وہ انبیاء اور غیر انبیاء دونوں پر ہونے والی وحی کو شامل ہے
  • احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی غیر انبیاء پر وحی (بمعنی الہام) کرتا اور ان سے خطاب کرتا ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں ملہمین ہوں گے
  • غیر انبیاء پر یہ وحی نیند اور بیداری ہر دو حالت میں ہوتی ہے

علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک اولیاء پر بذریعہ الہام شریعت کا فہم واضح ہوجانا جائز و ممکن ہے نیز الہام کے ذریعے حاصل ہونے والا یہ علم اصول فقہ و فقہ میں بیان ہونے والے بعض دلائل سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ کہتے ہیں:

وَاَلَّذِينَ أَنْكَرُوا كَوْنَ الْإِلْهَامِ طَرِيقًا عَلَى الْإِطْلَاقِ أَخْطَئُوا كَمَا أَخْطَأَ الَّذِينَ جَعَلُوهُ طَرِيقًا شَرْعِيًّا عَلَى الْإِطْلَاقِ. وَلَكِنْ إذَا اجْتَهَدَ السَّالِكُ فِي الْأَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ الظَّاهِرَةِ فَلَمْ يَرَ فِيهَا تَرْجِيحًا وَأُلْهِمَ حِينَئِذٍ رُجْحَانَ أَحَدِ الْفِعْلَيْنِ مَعَ حُسْنِ قَصْدِهِ وَعِمَارَتِهِ بِالتَّقْوَى فَإِلْهَامُ مِثْلِ هَذَا دَلِيلٌ فِي حَقِّهِ؛ قَدْ يَكُونُ أَقْوَى مِنْ كَثِيرٍ مِنْ الْأَقْيِسَةِ الضَّعِيفَةِ؛ وَالْأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ وَالظَّوَاهِرِ الضَّعِيفَةِ وَالِاسْتِصْحَابات الضَّعِيفَةِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا كَثِيرٌ مِنْ الْخَائِضِينَ فِي الْمَذْهَبِ وَالْخِلَافِ وَأُصُولِ الْفِقْهِ

“اور جنہوں نے (حصول علم بذریعہ) الہام ایک طریقے کا کلی طور پر انکار کیا انہوں نے ویسی ہی غلطی کی جیسی خطا ان لوگوں نے کی جو اسے علی الاطلاق (بغیر کسی قید) طریق شرعی کہتے ہیں۔ لیکن اگر سالک ادلہ شرعیہ ظاہرہ میں اجتہاد کرے اور اس میں ترجیح نہ دیکھے پھر اس پر الہام ہو جب اس کا رجحان دو میں سے کسی ایک فعل کی طرف حسن نیت اور تقویٰ کے ساتھ ہو تو اس طرح کا الہام اس کے حق میں دلیل ہے ۔کبھی ایسا الہام ضعیف قیاس ، احادیث ضعیفہ، ظواہر ضعیفہ، استصحابات ضعیفہ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے جس سے بہت سے مذہب ، اختلافات اور اصول فقہ میں ڈوبے ہوئے حضرات دلیل پکڑتے ہیں ۔”

ان عبارات کی روشنی میں غور کیا جانا چاہئے کہ ختم نبوت کے بعد خود شیخ ابن تیمیہ کے نزدیک مخاطبت الہیہ کون کونسی اقسام جاری ہیں اور ان کا بھی تجزیہ کیا جانا چاھئے کہ وہ کس کس طرح قادیانی موقف کےساتھ ملتیں اور ان سے مختلف ہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں