امجد عباس مفتی
(شیخ الطائفہ، محمد بن حسن طوسیؒ پانچویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ فقیہ، محدث، متکلم اور مفسر ہیں، بغداد میں آپ کا گھر، علمی سرگرمیوں اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے نمایاں تھا۔ آپ کی فقہ میں مفصل کتابوں میں “الخلاف” کا شمار فقہ مقارن کے حوالے سے بے مثال کتابوں میں ہوتا ہے، اسی طرح آپ کی “انہایۃ” اور “المبسوط” بھی اہم فقہی کتب شمار ہوتی ہیں۔ شیعی کتب اربعہ حدیث میں سے دو کتابیں؛ “تہذیب الاحکام” اور “الاستبصار” کو آپ نے ترتیب دیا۔ آپ کی تفسیر “التبیان” کا شمار بنیادی تفاسیر میں ہوتا ہے۔ عورت کے قاضی نہ بننے کے حوالے سے قدرے مفصل فقہی بحث، شیخ الطائفہؒ کے ہاں دکھائی دی، یہ رائے گزرتے وقت کے ساتھ جمہور کا نظریہ بن کر سامنے آئی۔ عصر حاضر میں بعض شیعہ فقہا، عورت کے لیے منصبِ قضا کے جواز کے قائل ہیں، پاکستان میں ڈاکٹر سید محسن نقوی بھی اسی رائے کو اختیار کیے ہوئے ہیں)
فقہ جعفری میں بھی دیگر فقہوں کی طرح، مشہور یہ ہے کہ عورت، قاضی نہیں بن سکتی۔ اس مسئلے کو سب سے پہلے، معروف فقیہ، حضرت شیخ الطائفہ، محمد بن حسن الطوسیؒ (متوفیٰ 460ھ) نے اپنی کتب؛ الخلاف اور المبسوط میں، دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
شیخؒ نے اس مسئلے پر اختصار سے عقلی و نقلی دلائل پیش کیے ہیں ، ہم بالترتیب شیخؒ کی ان دونوں کتابوں سے اصل عبارات نقل کرتے ہیں:
مسألة 6: لا يجوز أن تكون المرأة قاضية في شئ من الأحكام، وبه قال الشافعي .
وقال أبو حنيفة: يجوز أن تكون قاضية فيما يجوز أن تكون شاهدة فيه، وهو جميع الأحكام إلا الحدود والقصاص .
وقال ابن جرير: يجوز أن تكون قاضية في كل ما يجوز أن يكون الرجل قاضيا فيه، لأنها تعد من أهل الاجتهاد .
دليلنا: أن جواز ذلك يحتاج إلى دليل، لأن القضاء حكم شرعي، فمن يصلح له يحتاج إلى دليل شرعي.
وروي عن النبي عليه السلام أنه قال: ” لا يفلح قوم وليتهم امرأة “.
وقال عليه السلام: ” أخروهن من حيث أخرهن الله ” فمن أجاز لها أن تلي القضاء فقد قدمها وأخر الرجل عنها.
وقال: من فاته شئ في صلاته فليسبح، فإن التسبيح للرجال والتصفيق للنساء، فإن النبي عليه السلام منعها من النطق لئلا يسمع كلامها، مخافة الافتتان بها، فبأن تمنع القضاء الذي يشتمل على الكلام وغيره أولى.
(الخلاف – الشيخ الطوسي – ج 6 – صفحہ 213، 214)
مفہومِ عبارتِ شیخؒ کچھ یوں ہے کہ احکام میں عورت کا قاضی بننا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی نے بھی یہی فرمایا ہے اورامام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ جن موارد میں عورت گواہ بن سکتی ہے، اُن موارد میں وہ قاضی بھی بن سکتی ہے، یہ سبھی احکام میں (گواہ/قاضی) ہے سوائے حدود اور قصاص کے۔ جبکہ امام طبری کا موقف ہے کہ جس مورد میں مرد قاضی بن سکتا ہے، اُس میں عورت بھی قاضی بن سکتی ہے، کیونکہ وہ بھی مجتہدہ ہو سکتی ہے۔ شیخؒ فرماتے ہیں کہ ہماری دلیل یہ ہے کہ عورت کے لیے قاضی بننے کا جواز، دلیل کا محتاج ہے، کیونکہ قضاوت، حکمِ شرعی ہے۔ کون اس کا اہل ہو سکتا ہے، اس پر دلیل درکار ہے۔ (گویا شیخؒ کے مطابق، عورت کے قاضی بننے پر دلیل موجود نہیں لہذا وہ قاضی نہیں بن سکتی)۔
پھر شیخؒ، اس حوالے سے جمہور محدثین کی کتب سے چند روایات نقل کرتے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی حکمران عورت ہو، نیز یہ کہ اللہ نے جن امور میں عورتوں کو پیچھے کیا ہے، تم بھی انھیں مؤخر کرو۔ پھر صحیح بخاری کی ایک روایت سے مفومِ موافق نکالا ہے، روایت یوں ہے کہ نماز میں کوئی مشکل آجائے تو امام کو متوجہ کرنے کے لیے مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہیے۔ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں عورت کو ہاتھ پر ہاتھ مارکر متوجہ کرنے کا اس لیے کہا گیا تاکہ کوئی مرد اس کی آواز سن کر فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائے؛ پس قضاوت سے بطریق اولیٰ عورت کو رُک جانا چاہیے جس میں بولنا بھی پڑتا ہے۔
اب آتے ہیں شیخ کی المبسوط کی طرف، متن ملاحظہ ہو:
الشرط الثالث أن يكون كاملا في أمرين كامل الخلقة والأحكام أما كمال الخلقة فأن يكون بصيرا فإن كان أعمى لم ينعقد له القضاء لأنه يحتاج أن يعرف المقر من المنكر، والمدعي من المدعى عليه، وما يكتبه كاتبه بين يديه، وإذا كان ضريرا لم يعرف شيئا من ذلك، وإذا لم يعرف لم ينعقد له القضاء.
وأما كمال الأحكام فأن يكون بالغا عاقلا حرا ذكرا فإن المرأة لا ينعقد لها القضاء بحال، وقال بعضهم يجوز أن تكون المرأة قاضية والأول أصح ومن أجاز قضاءها قال يجوز في كل ما يقبل شهادتها فيه، وشهادتها تقبل في كل شئ إلا في الحدود والقصاص.
لا يجوز القضاء بالاستحسان عندنا ولا بالقياس۔
(المبسوط – الشيخ الطوسي – ج 8 – صفحہ 101)
مفہومِ عبارت کچھ یوں ہے کہ قاضی کی تیسری شرط یہ ہے کہ وہ خلقت اور احکام (کو بجا لانے کے لحاظ سے) کامل ہو؛ خلقت میں کمال یوں کہ وہ بینا ہو۔ اگر اندھا ہوا تو قضاوت نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ منکر اور مدعی میں فرق نہیں کر سکتا، نیز یہ نہیں جان سکتا کہ اُس کا فیصلہ لکھنے والا کیا لکھ رہا ہے۔ پس وہ قاضی نہیں بن سکتا۔ احکام میں کمال یہ ہے کہ وہ بالغ، عاقل، آزاد اور مرد ہو کیونکہ عورت کسی صورت قاضی نہیں بن سکتی۔ بعض (مراد ابوحنیفہ ہیں) کا کہنا ہے کہ وہ قاضی بن سکتی ہے۔ پہلا قول ہی صحیح ترین ہے۔ جس نے اُس کی قضاوت کو جائز قرار دیا، اُس نے کہا کہ اُن موارد میں قاضی بن سکتی ہے جن میں اُس کی گواہی قبول ہوتی ہے جبکہ اُس کی گواہی حدود و قصاص کے علاوہ سبھی موارد میں قابلِ قبول ہے۔ فرماتے ہیں ہمارے ہاں استحسان اور قیاس کے ذریعے عورت کو قاضی قرار دینا جائز نہیں ہے۔
شیخؒ کے دلائل کا جائزہ
ہم شیخ طوسیؒ کی فقہی رائے اور اس پر اُن کے دلائل کو اُن کی فقہی کتب “المبسوط” اور “الخلاف” سے نقل کر چکے ہیں کہ فقہ جعفری میں عورت، کسی مسئلے میں قاضی نہیں بن سکتی۔ اب ہم شیخؒ کے دلائل کا جائزہ پیش کرتے ہیں:
شیخؒ کے دلائل کا جائزہ پیش کرنے سے یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ شیعہ فقہاء کی اکثریت نے قضاوت کو منصبِ ولایت جان کر، بنیادی طور پر اِسے اللہ، اُس کے رسولؑ اور ائمہؑ کا حق قرار دیا ہے۔ اُن کی دانست میں قاضی، نبیؑ یا امامؑ کی نیابت میں اِس ذمہ داری کو ادا کرسکتا ہے؛ جبکہ اِن کا نائب مرد ہونا چاہیے، اس لحاظ سے اُنھوں نے عورت کے قاضی ہونے کی نفی کی ہے۔ بعض شیعہ فقہاء نے اس مسئلے کو اِس عنوان سے دیکھا ہے کہ قاضی کو جامع الشرائط فقیہ ہونا چاہیے؛ اس اعتبار سے اُن کی دانست میں عورت جامع الشرائط فقیہ نہیں ہو سکتی، اس لیے قاضی نہیں بن سکتی۔
اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو پانچویں صدی ہجری سے پہلے، شیعہ فقہاء میں یہ مسئلہ زیرِ بحث نہیں آیا۔ ہماری معلومات کی حد تک، اِسے سب سے پہلے، شیخ طوسیؒ نے ہی پیش کیا ہے۔
جہاں تک شیخؒ کے دلائل کی بات ہے تو اس سلسلے میں اس مدعیٰ یعنی عورت کے لیے قضا کے منصب کی ممانعت پر قرآن مجید سے کوئی آیت پیش نہیں کی گئی۔ بظاہر قرآن مجید میں اِس مسئلے کے حوالے سے کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے۔
شیخؒ کی عمدہ دلیلیں، روایات ہیں۔ پہلے ہم اُن پر بات کرتے ہیں:
شیخؒ کی پہلی روایت “لا يفلح قوم وليتهم امرأة ” معمولی فرق کے ساتھ، صحیح بخاری میں موجود ہے۔ شیعہ محدثین کے ہاں یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ اِسے مان بھی لیا جائے تو یہ حکومت کی نفی کرتی ہے، نہ کہ قضاوت کی۔ اس کی رُو سے عورت حاکم نہیں بن سکتی۔ قاضی بننے کی نفی اِس روایت میں نہیں ہے۔
شیخؒ کی دوسری روایت “أخروهن من حيث أخرهن الله” بھی سند کے لحاظ سے ضعیف ہے اور شیخؒ کے دعوے پر دلیل نہیں بن سکتی۔ شیخؒ کی تیسری روایت “من فاته شئ في صلاته فليسبح۔۔۔” بھی صحیح بخاری سے ماخوذ ہے اور اس کی دلالت محض اس پر ہے کہ عورت کا خود کو محفوظ رکھنا اچھا عمل ہے؛ ورنہ اُس کے نامحرموں سے مناسب بات کرنے پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس لیے یہ روایت بھی قضاوت کی نفی نہیں کرتی۔
شیخؒ کا احادیث سے ساتھ یہ فرمانا کہ ” وأما كمال الأحكام فأن يكون بالغا عاقلا حرا ذكرا فإن المرأة لا ينعقد لها القضاء بحال۔۔۔” خالص اجتہادی امر ہے۔ بعض فقہاء نے قاضی کی حریت (آزاد ہونے) اور مرد ہونے سے متعلق کہا ہے کہ یہ اور اِس جیسی دیگر شرائط جیسے قاضی کا مجتہد اور بینا ہونا، نصوص سے ثابت نہیں۔
بعض علماء نےاس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ عورت قاضی نہیں بن سکتی۔ جہاں تک اجماع کی بات ہے تو اگر اس مورد میں اجماع ہوتو، جبکہ اجماع نہیں ہے اور اجماع براے اجماع، فقہ جعفری میں حجت بھی نہیں، مزید یہ کہ روایات کے ہوتے ہوئے ایسا اجماع، مدرکی ہوگا۔ ایسی صورت میں اِس کا مدرک اور ماخذ دیکھا جائے گا جو روایات ہیں۔ جہاں تک مدرک کی بات ہے تو عورت کے قاضی نہ بن سکنے پر کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں۔
الخصال میں شیخ صدوقؒ نے اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقرؑ سے ایک معتبر روایت نقل کی ہے جس میں ہے ” ولا توّلى المرأة القضاء” کہ عورت قضاوت نہ کرے۔ جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو اسے اگر مکمل دیکھا جائے تو امام محمد باقرؑ نے بعض امور ذکر کیے ہیں جو عورتوں پر فرض نہیں ہیں، اُنہی میں سے ایک قضاوت ہے۔ اس روایت کی اِس بات پر ہرگز دلالت نہیں کہ وہ قاضی بن ہی نہیں سکتی۔
متنِ روایت ” ليس على النساء أذان ولا إقامة ولا جمعة ولا جماعة … ولا عيادة المريض… ولا توّلى المرأة القضاء۔۔۔” کہ عورتوں پر اذان، اقامت، جمعہ، جماعت، عیادتِ مریض نہیں ہے، نہ ہی اُس کے لیے منصبِ قضاوت ہے۔
ہم اختتام فقیہ، محقق اردبیلیؒ (993ھ) کی عبارت پر کرتے ہیں، آپ لکھتے ہیں: وأما اشتراط الذكورة، فذلك ظاهر فيما لم يجز للمرأة فيه أمر، وأما في غير ذلك فلا نعلم له دليلا واضحا، نعم ذلك هو المشهور. فلو كان اجماعا، فلا بحث، وإلا فالمنع بالكلية محل بحث، إذ لا محذور في حكمها بشهادة النساء، مع سماع شهادتهن بين المرأتين مثلا بشئ مع اتصافها بشرائط الحكم.
(مجمع الفائدة – المحقق الأردبيلي – ج 12 – صفحہ 15)۔
جہاں تک (قاضی کے) مرد ہونے کی بات ہے تو اُن موارد میں تو یہ بات ظاہر ہے جو عورت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ موارد میں ہم کسی واضح دلیل سے آگاہ نہیں (جو کہے کہ قاضی صرف مرد ہوگا)۔ البتہ یہ (فقہاء کے درمیان) مشہور ہے۔ اگر اس بارے میں اجماع ہوتو کوئی بحث ہی نہیں؛ ورنہ کُلی طور پر (عورت کے قاضی ہونے کی) ممانعت قابلِ بحث ہے؛ کیونکہ عورتوں کی گواہیاں سُن کر، عورتوں کے درمیان، وہ فیصلہ کرسکتی ہے اگر اُس میں حکم (منصف) بننے کی شرائط موجود ہوں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زمان و مکان کے بدلنے سے بہت سے امور میں تبدیلی آئی ہے، من جملہ ایک قضاوت کا عہدہ بھی ہے۔ ماضی میں، مسلم حکومتوں میں قضاوت کے منصب کو دیکھا جائے تو قاضی مجتہد ہوا کرتا تھا، نیز اُس کے فیصلے کو کسی دوسری عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاتا تھا۔ مسلمان فقہاء کی اکثریت نے، اس کے پیش نظر، عورت کے قاضی بننے کی نفی کی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ قضاوت کو ولایتِ عامہ پر ہی قیاس کیا کرتے تھے،یوں بھی، اُن کے پیش نظر یہی رہا کہ ولایتِ عامہ کا منصب مرد کو ہی حاصل ہے۔
بعض فقہاء جیسے امام طبری اور ابن حزم ظاہری، نے عورت کے قاضی بننے کو مطلق طور پر جائز قرار دیا تو بعض جیسے امام ابوحنیفہ، نے مشروط طور پر، (حدود و قصاص کے علاوہ) عورت کے قاضی بننے کو درست جانا۔
زمانے کے بدلنے سے منصبِ قضاوت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ عصرِ حاضر میں قاضی، مجتہد نہیں ہوتا، نہ ہی اُس کا فیصلہ یُوں حتمی ہوتا کہ اُس کے خلاف اپیل نہ کی جا سکتی ہو۔ اب ریاستی سطح پر قوانین مدون ہو چکے ہیں۔ قضاوت ریاستی عہدوں میں سے ایک عہدہ ہے، جس پر قواعد و ضوابط کے موافق، ریاست مناسب افراد (مرد و زن) کی تعیناتی کرتی ہے۔
ایسے میں جب قانون، مدون ہے، قاضی القضاة (چیف جسٹس) بھی اُسی کے تحت فیصلہ کرتا اور باقی قاضی بھی اُسی قانون کے پابند ہوتے ہیں، بقول ایک دوست کے، معاصر قاضی گویا ایک طرح سے کلرک ہے؛ عورت کے قاضی بننے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔
اُس کے فیصلے کو دیگر عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں عورتیں ججز ہیں۔ پاکستان میں اب سپریم کورٹ میں بھی ایک خاتون جج موجود ہے۔ ہمارے استاد، معروف دانشور، ڈاکٹر محسن نقوی صاحب کے مطابق قضاوت کا تعلق قانون دانی اور قانون فہمی سے ہے، جنس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے-
ہماری دانست میں، ماضی میں بھی جب قاضی کا مجتہد ہونا، لازم سمجھا جاتا تھا، عورت کے قاضی بننے میں کوئی ایسی صریح نص حائل نہ تھی جس کی بنا پر اسے اس منصب سے محروم کیا جاتا، نہ اب کوئی رکاوٹ ہے، وہ قاضی بن سکتی ہے۔
کمنت کیجے