عامر خاکوانی
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
ہنری کسنجر جدید امریکی تاریخ کے ممتاز ترین ماہر امورخارجہ رہے ہیں۔ وہ صدر نکسن کے دور میں وزیرخارجہ تھے، ان کے مستعفی ہونے کے بعد صدر فورڈ کے عہد میں یہ ذمہ داری نبھائی۔ ہنری کسنجر اس کے بعد کسی حکومتی عہدے پر نہیں رہے، مگر امریکہ سٹیٹ آفس اور مقتدر حلقوں میں ان کی رائے اور تھیوریز کی غیر معمولی اہمیت رہی ہے۔
کسنجر آج بہت ضعیف ہوچکے ہیں، مگر ان کی بات اب بھی امریکی میڈیا، تھنک ٹینکس میں سنی جاتی ہے۔ کسنجر ایک لحاظ سے ایک مکمل سکول آف تھاٹ ہیں۔کوئی اتفاق کرے یا اختلاف ، انہیں نظرانداز بہرحال نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں ہنری کسنجر بعض حوالوں سے متنازع سمجھے جاتے ہیں، خاص کر بھٹوصاحب کے حوالے سے ان کا ایک مکالمہ بہت بار دہرایا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ نے پاکستان کے دورے میں وزیراعظم بھٹو کو نرم لہجے میں یہ سخت دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی کوشش جاری رکھی تو بھٹو کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔
یہ بات بھٹو صاحب بیان کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں بھی کئی بار کہا کہ ہاتھی(امریکہ کی طرف اشارہ) میرے خلاف ہے اور ہاتھی کی یاداشت غضب کی ہوتی ہے، وہ مجھے نہیں بھولیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ ویسے ہنری کسنجر نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ ایک آدھ بار کسی مغربی صحافی نے بھی پوچھا ، کسنجر نے انکار میں جواب دیا۔
کسنجر کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بھٹو کا جب جنرل ضیا الحق نے تختہ الٹا تب امریکہ میں ری پبلکنز کی نہیں بلکہ ڈیمو کریٹ حکومت تھی، جمی کارٹر صدر تھے جو نہ صرف ایک مثالی ڈیموکریٹ تھے بلکہ وہ بیرون ملک مداخلت کے بھی شدید مخالف تھے ۔ کسنجر بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہونے سے سال پہلے ہی وزارت چھوڑ چکا تھا۔
خیر دلائل تو اس کے برعکس بھی دئیے جا سکتے ہیں ، جیسے یہ کہ اس طرح کے کام ادارہ جاتی سطح پر ہوتے ہیں اور کسی شخصیت کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا اور یہ کہ کسنجر وزیر نہ ہو ،تب بھی اس کے اثر ورسوخ میں قطعی کمی نہیں آتی وغیرہ۔
بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہنری کسنجر ایک بہت اہم امریکی دانشور، خارجہ امور کا ماہر اور مغربی دنیا کا بڑا گہرا رمز شناس ہے۔ خاص کر دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں، امریکہ اور روس جس طرح سرد جنگ میں داخل ہوئے اور لگ بھگ چار عشروں تک یہ چلتی رہی، اس سب کو ہنری کسنجر نے بڑے غور اور قریب سے دیکھا۔
کسنجر کئی کتابوں کا مصنف ہے، ان میں سے ایک اہم کتاب” ڈپلومیسی“کے نام سے شائع ہوئی، دنیا کی بہت سی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے ہیں۔ خاص کر سفارت کاروں، عالمی امور سے دلچسپی رکھنے والوں نے اس سنجیدہ اور وقیع کتاب کو پڑھنے اور عالمی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی۔
اچھی بات یہ ہے کہ اب پاکستان میں بھی یہی کتاب ترجمہ ہوچکی ہے۔ سید سعید نقوی اس کے مترجم ہیں، انہوں نے بڑی محنت کر کے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ سعید نقوی خود بھی کئی اہم کتابوں کے مترجم ہیں۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں، لکھنے سے شغف ہے، کئی افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں، تین ناول بھی لکھے۔
سعید نقوی نے بعض بہت اہم عالمی ادبی شاہکار اردو میں ترجمہ کئے جن میں البانیہ کے نامور ادیب اسماعیل کادارے کا ناول ”دو نیم اپریل“، میلان کنڈیر ا کے دو ناول (مضحکہ خیز محبتیں، وجود کی ناقابل برداشت لطافت) ،یاد مفارقت ازعبدالرزاق گرنا،ٹونی موریسن کا” دلاری“ ، ای ایم فورسٹر کا بہت مشہور ناول( انڈیا کا ایک سفر)،جان سٹین بک کا ناول (اشتعال کی فصل )نمایاں ہیں ، جبکہ یووال نوح حراری کی دو کتابوں کے تراجم (بندہ بشر: انسان کا ماضی حال اور مستقبل اور مستقبل کی تاریخ)بھی شائع ہوئے۔
حیرت ہوتی ہے کہ نقوی صاحب کیسی جانفشانی کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور اداروں جتنا کام اکیلے کر ڈالا۔
ہنری کسنجر کی کتاب” ڈپلومیسی“ بھی لگ بھگ سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ڈپلومیسی کو معروف اشاعتی ادارے بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔
بک کارنر والوں کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ کتاب کو نہ صرف خوبصورتی سے شائع کرتے ہیں بلکہ اس کے تمام ریفرنسز بھی اکھٹے کرنے میں جان مارتے ہیں ، جیسے اس کتاب کے ساتھ بہت سے حوالہ جات بھی ہیں اور دو صفحات پر مشتمل اس کتاب کے دیگر غیر ملکی زبانوں میں کئے گئے تراجم کی جھلک بھی موجود ہے۔ اس کتاب میں امرشاہد، گگن شاہد کی محنت نظر آتی ہے۔
ہنری کسنجر کی کتاب یقینی طور پر اس قابل ہے کہ اسے توجہ سے پڑھا جائے۔ سنجیدہ قارئین کے لئے اس میں بہت کچھ ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو ورلڈ پاور سسٹم کو سمجھنا چاہتے ہوں، امریکی اثرورسوخ اور اسے کس طرح قائم کیا گیا، اس کی بنیادیں کیا ہیں، ان سب کو گہرائی سے جا کر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ کسنجر کی یہ کتاب ضرور پڑھیں۔ یہ ایک اہم امریکی دانشور کا بطور عینی شاہد مطالعہ اور تبصرہ ہے۔
کسنجر کتاب کے پہلے باب میں لکھتے ہیں:”بین الاقوامی سیاست میں امریکی سفر تجربے پر عقیدے کی فتح ہے۔ جب سے1917سے امریکہ نے عالمی سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے، وہ اپنی قوت میں اتنا حاوی اور اپنے نظام کی درستی پر اتنا یقین رکھتا ہے کہ اس صدی کے بڑے بین الاقوامی معاہدے امریکی قدروں کی اساس پر کئے گئے۔ لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک اور ہلینسکی کے آخری معاہدے تک ۔
“سوویت کمیونزم کے انہدام نے امریکی نظریے کی عقلی برتری کو ثابت کر دیا ہے ۔ اس ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام میں یہ نیا ہے کہ پہلی بار امریکہ نہ دنیا سے دستبردار ہوسکتا ہے نہ اس پر حاوی آ سکتا ہے۔ امریکہ نے اپنی ساری تاریخ میں اپنے لئے جو کردار سوچا ہے، وہ اسے بدل سکتا ہے اور نہ بدلنا چاہیے ۔ “
اس باب کے آخر میں ہنری کسنجر نے تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کے موازنے کے حوالے سے جو لکھا، اسے پاکستانی تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کو بھی سمجھنا چاہیے، ہمارے آج کے حالات پر یہ منطبق ہوتا ہے ۔ کسنجر لکھتا ہے : ”مفکرین بین الاقوامی نظام کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں جبکہ سیاستدان انہیں تعمیر کرتے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار اور سیاستدان کی فکر میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ تجزیہ نگار یہ انتخاب کر سکتا ہے کہ اسے کس مسئلے کا مطالعہ کرنا چاہیے جبکہ حکمرانوں کے مسائل ان پر تھوپے جاتے ہیں۔
” تجزیہ نگار ایک واضح فیصلے تک پہنچنے کے لئے جتنا چاہے وقت لے سکتا ہے جبکہ کسی رہنما کے لئے سب سے زیادہ دباﺅ وقت کا ہوتا ہے۔
“تجزیہ نگار کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ غلط ثابت ہو تو وہ ایک اور تجزیہ لکھ سکتا ہے۔سیاست دان کو محض ایک قیاس کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کی غلطی کا ازالہ نہیں ہوسکتا ۔کسی سربراہ کو ان اندازوں پر عمل کرنا ہوتا ہے جنہیں اس وقت پرکھا نہیں جا سکتا۔
“تاریخ اسے ان بنیادوں پر پرکھے گی کہ اس نے ناگزیر تبدیلیوں کا کس طرح مقابلہ کیا اور سب سے زیادہ یہ کہ اس نے امن کیسے قائم رکھا؟ اس لئے یہ دیکھنا کہ سربراہان اور رہنماﺅں نے چیلنجز کا کیسے سامنا کیا، کیا کارگر رہا، کیا ناکام ؟ یہ عصری سیاست کو سمجھنے کی انتہا نہیں ، لیکن یہ نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔ “
کمنت کیجے