Home » شاہ ولی اللہ کا فکری منہج (قسط نمبر 2)
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار

شاہ ولی اللہ کا فکری منہج (قسط نمبر 2)

جس شریعت کا وجوب شاہ صاحب نوعِ انسانی کی ہیئت کے اقتضاء سے ثابت کرتے ہیں جو کہ عالمِ مثال میں جاری عنایتِ اولی کے سبب پیدا ہوئی  ، اسی نوعِ انسانی کے افراد کے افعال و اعمال کو شریعت کے احکام اور انکے فہم و نفسیات کو عقائدِ شریعت کا بنیادی مصدر قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں :

“واعلم ان الشرائع لا تنعقد الا فی العادات و هذه حکمة الله فینظر الی ما عندهم من العادات فما کان منها فاسدا سجل علی تركه وما کان صحیحا ابقی”

شریعتوں کے احکام و قواعد کی تشکیل لوگوں کی عادات کے مطابق ہوتی ہے ۔ اور اس بات میں اللہ تعالی کی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے ۔چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ  جب کسی شریعت کی تشکیل ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالی اس وقت کے لوگوں کی عادات پر نظر ڈالتا ہے ۔ اب جو عادتیں بری ہوتی ہیں ان کو ترک کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے ۔ اور جو اچھی  ہوتی ہیں انہیں اپنے حال پر رہنے دیا جاتا ہے ۔

دوسری جگہ لکھتے ہیں :

“ان الشرائع لا تنعقد الا فی العادات ، لذلک الوحی المتلو لا ینعقد الا فی الالفاظ والکلمات والاسالیب المخزونة فی ذهن الموحی الیه ولذلک اوحی الله الی العربی باللغة العربیة والی السریانی الی اللغة السریانیة”

” وحی اسی قوم کی زبان ،محاورات اور کلمات میں اترتی ہےجس قوم کی طرف وحی کی ہدایت بھیجنا مقصود ہو اور یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ شرائع میں خدا قوم کی مالوفات و عادات سے انحراف نہیں کرتا۔”

حجۃ اللہ چہارم کے مبحثِ ششم کے باب  میں لکھتے ہیں :

“المعتبر فی نزول الشرائع لیس العلوم و الحالات والعقائد المتمثلة فی صدو رهم فقط، بل اعظمها اعتبارا ، واولاها اعتدادا : ما نشاوا علیه ، و اندفعت عقولهم الیه ، من حیث یعلمون ومن حیث لایعلمون”

شریعتوں کے نزول میں معتبر صرف وہ علوم و حالات اور عقائد نہیں جو انکے سینوں میں متمثل ہیں بلکہ ان میں سب سے زیادہ اعتبار اوربدرجہء اولی لحاظ اس علم کا ہے جس پر وہ پروان چڑ ھےہیں ۔اور جس کی طرف ان کی عقلیں جاتی ہیں۔ اور جہاں سے وہ جانتے ہیں اورجہاں سے نہیں جانتے ۔

شاہ صاحب نے انسانی افعال اور مالوفات کے مصدرِ شریعت ہونے کی بہت سی مثالیں ذکر کی ہیں جنکا ذکر طوالت سے خالی نہیں لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ انسانی افعال شرائع کا بنیادی مصدر کیوں بنتے ہیں ؟ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انسان اپنے اعمال کو اپنی نوع کے تقاضے کے مطابق انجام دیتا ہے ، اسی سے انسانی رسوم کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی اصل کے لحاظ سے نہ صرف حسین ہوتی ہیں بلکہ ان پر اتفاق کا اثر حظیرالقدس والوں  کی کیفیات پر بھی پڑتا ہے۔

شاہ صاحب لکھتے ہیں :

“فاذا تقرر ذلک تقررا بینا ارتفعت ادعیة الملاء الاعلی، وتضرعات منهم ، لمن وافق تلک السنة ، وعلی من خالفها وانعقد فی حظیرۃ القدس رضا و سخط عمن باشرها او علیه”

” جب سنتِ راشدہ مستحکم ہو جائے تو ملاءِ اعلی کی دعائیں ان لوگوں کے حق میں بلند ہوتی ہیں جو ان کی موافقت کریں اور انکے حق میں بددعائیں بلند ہوتی ہیں جو انکی مخالفت کریں ۔ حظیرۃ القدس میں اس مقدس طریقہ کے حاملین کے حق میں خوشنودی کا اظہار کیا جاتاہے۔”

مذکورہ بالا سطور سے یہ بات کسی حد تک واضح ہو گئی ہے کہ شاہ صاحب کا اندازِ استدلال اور فکری پراجیکٹ کس طرح باہم مربوط ہے ۔ جسمیں عقلی ، وجدانی اور نقلی دلائل کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے منسلک ہے ۔ جنہیں جدا کر کے دیکھنے سے شاہ صاحب کی اصل فکر تک نہیں پہنچا جا سکتا۔بلکہ ان کا فکری نظام ایک دائرے میں گھومتا ہوا جہاں سے شروع ہوتا ہے وہیں پر ختم ہو کر دوبارہ وہیں سے آگے کی جانب بڑھتا ہے ۔اگر شاہ صاحب نے اندازِ استدلال اور فکری مسائل میں غور کے طریقے کو سمجھ لیا جائے تمام کلامی مسائل میں انکے بیانات کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے۔

زید حسن

زید حسن بہاولپور اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز کی ویب سائٹ کے ایڈیٹر کے طور پر ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔
hassanzadi24@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں