Home » No is not enough
انگریزی کتب سیاست واقتصاد

No is not enough

 

ناومی کلین کینیڈا سے تعلق رکھتی ہیں۔ کینیڈا کے ساتھ ساتھ وہ امریکی شہری بھی ہیں۔ دی گارڈین اور دی نیویارک ٹائمز جیسے جرائد سے وہ وابستہ رہی ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی شدید ناقد ہیں اور اس کی سفاکیت پر وہ کئی کتابیں لکھ چکی ہیں جن کو ناؤم چومسکی ، ارون دھتی رائے سمیت کئی اہل علم نے ان کے کام کو سراہا ہے۔ No      is       not       enough ناومی کلین کی چوتھی کتاب ہے۔ جو انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد 2017 میں لکھی۔یہ کتاب ناومی کلین نے باقی تین کتابوں کی نسبت سے انتہائی کم عرصے میں لکھی۔ وہ خود کہتی ہیں کہ باقی تینوں کتابوں کو مکمل کرتے اور ان پر ریسرچ کرتے انہیں پانچ سے چھے سال لگے جبکہ یہ کتاب انہوں نے چند ماہ میں مکمل کر لی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کتاب کا حجم بھی ان کی باقی پہلی تین کتابوں سے کم ہے ۔ وہ تینوں تقریباً پانچ سو صفحات والی کتابیں ہیں جبکہ اس کے صفحات پونے تین سو ہیں۔ گو کہ کتاب کا موضوع ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی سیاست ہے مگر ٹرمپ چونکہ ایک سرمایہ دار تھے تو اس کو بطور سرمایہ دارانہ نظام کے ایک سمبل اور نمائندے کے طور پر بھی موضوع گفتگو اور ہدف تنقید بھی بنایا گیا ہے

ناومی نے کتاب کے آغاز میں اپنی تحقیق کے میدان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دو دہائیوں سے کارپوریشنز اور سیاست دانوں کی حرکیات کا مطالعہ کر رہی ہیں جو معاشرے کا استحصال کرتے ہیں اور وہ کس طرح بے خبر عوام پر حکمرانی سے اپنے مفادات کو بڑھاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے ان کو عجیب حیرت ہوئی کیونکہ یہ فقط shock      politics نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز تھی۔ شاک پالیٹکس سے مراد بہت منظم اور بے رحمی سے معصوم اور بے خبر عوام کا استحصال کرنا جس میں جنگوں ، دہشت گردانہ کارروائیوں ، مارکیٹ کریش اور قدرتی آفات کے ذریعے سے pro  corporate تبدیلیاں لائی جائیں جس کو shock      therapy بھی کہا جاتا ہے۔
ناومی نے لکھا کہ امریکہ میں بڑے عرصے سے کارپوریشنز کی حکومت ہے جس میں صدر بطور middle     man کے طور پر کام کرتا ہے۔ ٹرمپ کا انتخاب اس وجہ سے غیر معمولی ہے کہ اس دفعہ کارپوریشنز نے براہ راست اپنا بندہ سامنے لا کھڑا کیا اور بیچ میں سے میڈل مین کا یہ پردہ ہی ختم کر ڈالا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کو دیکھا جائے تو وہ مکمل کارپوریٹ طبقے کے مفادات کی مکمل عکاسی کرتی نظر آتی ہے جس میں deregulation سب سے اہم ہے تاکہ کارپوریٹ طبقے کو روک ٹوک کرنے والا کوئی نہ ہو ، ایسے ہی کارپوریٹ سیکٹر بلکہ کارپوریٹ مافیا کہنا زیادہ بہتر ہوگا کو ملک کے سوشل اور فلاحی سیٹ اپ سے تحفظات رہے ہیں اور یہی ہمیں ٹرمپ کی پالیسی نظر آتی ہے کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کو حکومت کی بجائے نجی اختیارات میں دیا جائے.
ناومی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کو سمجھنے کے لیے ہمیں shock     politics کو سمجھنا ہوگا ، تب ہمیں ٹرمپ کی جیت اتنی حیرت انگیز معلوم نہیں ہوگی۔ دوسرا اس شاک پالیٹکس کے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک مختلف اپروچ اپنانی ہوگی جہاں ہم اپنے مذہبی ، لسانی اور گروہی اختلافات کو بھلا کر اس بات پر اتفاق کریں کہ ہم نے اس سیارے کو تباہی سے بچانا ہے جس کو کارپوریٹ طبقے کی ہوس نے فضائی آلودگی اور جنگوں سے تباہ کیا ہوا ہے۔ ناومی نے بتایا ہے کہ یہ کتاب صرف ٹرمپ کی شخصیت کے بارے میں نہیں ہیں ، ٹرمپ کارپوریٹ مافیا کا ایک چہرہ یا ایک نمائندہ ہے۔ یہ پورا مافیا جس انداز سے ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے اور محض اپنے منافع کے بڑھاوے کی خاطر اس نے انسان دشمن اور ماحول دشمن اقدامات کیے ان کے خلاف آواز اٹھانے اور ان کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ایک اور شخصت جو کہ اس نیو لبرل اور کارپوریٹ حکمرانی کا مصور ہے وہ ملٹن فریڈمین ہے جو capital      ist economy کا ایک بڑا ماہر معاشیات ہے۔یہ اپنے نظریات میں بہت سخت گیر تھا۔اس کے نظریات کے اوپر ناومی کلین نے بھرپور نقد کیا ہے۔ بلکہ ملٹن فریڈمین ہی وہ شخص ہے جس نے shock      politics اور shock       therapy کے نظریات کا پرچار کیا۔ موجودہ زمانے میں کئی معاشی تباہ کاریاں اس ہی کی سوچ کی پیداوار ہیں۔ ناومی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی تنقید ٹرمپ پر ضرور ہے مگر اس کے لیے زیادہ تشویشناک وہ نظام ہے جس نے ٹرمپ کو اس اہم عہدے پر پہنچنے کا کامیاب موقع دیا۔

ناومی کہتی ہیں کہ جب ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جیتا تو وہ اس وقت ایک کانفرنس کے سلسلے میں آسٹریلیا تھیں وہاں بھی امریکی انتخابات کو بہت دلچسپی سے دیکھا جا رہا تھا کیونکہ یہ انتخاب پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے. ناومی کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی جیت سے ہم کئی خطرات کو محسوس کر رہے تھے جیسے کہ نسل پرستی ، مسلم دشمنی، جنسی امتیاز اور جبر و تشدد وغیرہ۔ جبکہ اس کے علاوہ سب سے بڑا خطرہ بے رحم کارپوریٹ حکومت تھی جس کا ہدف ماحولیات اور فلاحی پروگرام ہوں گے۔ جب ٹرمپ نے اپنی کابینہ بنائی تو وہ بھی ارب پتیوں پر تھی۔ اس کے کابینہ کے ارکان کی اس وقت کی net worth ساڑھے چودہ ارب ڈالرز تھی۔ اس میں ٹرمپ کے خصوصی مشیر Carl Icahn کی دولت شامل نہیں جس کی اپنی اکیلے کی نیٹ ورتھ پندرہ ارب ڈالرز تھی۔ ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں Steve Mnuchin کو شامل کیا اس شخص نے 2008 کے معاشی بحران میں ہزاروں لوگوں کو نوکری سے نکالا۔ اس ہی طرح سب سے بڑی نجی تیل نکالنے والی کمپنی ExxonMobil کے سابقہ سی ای او ریکس ٹیلرسن بھی ٹرمپ کی کابینہ کے حصہ بنے۔ یہ نامزدگی ٹرمپ کا واضح پیغام تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ ٹرمپ کے لیے کوئی معانی نہیں رکھتیں اور اس حوالے سے کیے گئے سابقہ حکومتوں کی قانون سازی کو اس نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ ناومی کلین نے fossil fuel کمپنیوں پر شدید تنقید کی ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے منافع کی خاطر ہماری زمین کو تباہ کر رہی ہیں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے اس سیارے کو مزید آلودہ کر رہی ہیں۔ناومی نے کہا ہے کہ اگر ہم اپنے سیارے کو رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں فوسل فیول انڈسٹری کو discourage کرنا ہو گا، انرجی سب کی ضرورت ہے مگر ہمیں clean energy کی طرف جانا ہو گا تاکہ اس زمین کو اور ماحول کو بچایا جا سکے۔ فوسل فیول کا استعمال کتنا کم ہو سکے ہمیں کرنا ہوگا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی یا پھر کارپوریٹ مافیا کی یہ سوچ نہیں ہے۔ ان کے لیے یہ زمین فقط اتنی اہم ہے کہ یہ ان کو منافع دیتی رہے اور ان کی دولت میں اضافہ کرتی رہے بھلے اس کے نتیجے میں ہمیں ماحولیاتی آلودگیوں کا سامنا کرنا پڑے۔
ناومی ٹرمپ کی جیت سے اس لیے بھی پریشان ہیں کہ اس وقت کئی میدانوں میں بائیں بازو کی تنظیموں نے کامیابی حاصل کی جیسے کہ خواتین کے حقوق کے اور جنسی ہراسانی کو بہت سنجیدہ لیا جا رہا تھا جس میں کئی خبریں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوتی تھیں۔ اس ایشو کو بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں لوگوں میں اگاہی پھیل رہی تھی اور کئی مقامات پر فوسل فیول کمپنوں سے کیسز بھی جیتے جا چکے تھے۔ اس کے ساتھ سماجی سطح پر بہت سی مثبت تبدیلیاں آ رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ چیزیں اتنی اہمیت نہیں رکھتی ، وہ ماحولیاتی تحفظ کو کچھ اہم نہیں سمجھتے، اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے بارے میں بھی ٹرمپ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے۔ ٹرمپ کی سوچ یہ تھی کہ وہ پیسوں کے بل بوتے پر کسی بھی عورت کو خرید سکتا ہے۔ جنسی ہراسانی کے بارے میں بھی ثرمپ کوئی سنجیدہ نظریات نہیں رکھتے۔ ناومی کلین نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے یہ مثبت سماجی تبدیلیاں ریورس ہو سکتی ہیں۔

ٹرمپ نے انتخابات میں دو چیزیں بھرپور بیچیں ایک کہ میں امیر اور دولت مند ہوں تو مجھے کوئی خرید نہیں سکتا ، دوسرا میں بدعنوانیوں کو اندر سے جانتا ہوں اس لیے میں ان کو بہتر انداز میں فکس کر سکتا ہوں۔
ٹرمپ کی سرمایہ دارانہ اور کارپوریٹ طبقے کو مراعات دینے کا سلسلہ ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے کے چند گھنٹوں میں ہی شروع ہو گیا، جہاں اس نے کارپوریٹ ٹیکس میں غیر معمولی کمی کرکے اس کی شرح جو پہلے پینتیس فیصد تھی کو پندرہ فیصد کر ڈالا۔ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے پہلے تین ماہ میں تقریباً ایک سو نوے کارپوریٹ ایکزیکٹیو سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں اور اقدامات ٹرمپ کی سمت کا تعین بتا رہی ہیں کہ کس قدر کارپوریٹ طبقے کو آزادی دی جا رہی اور ان کو قانونی پابندیوں سے آزاد کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو بڑھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ یہاں پر ناومی نے سرمایہ دارانہ نظام کی ایک سوچ پر بھی بات کی ہے کہ سرمایہ دار کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا موقع ملنا چاہیے، اس کی اس دولت سے اثرات نچلے طبقے کو بھی منتقل ہوں گے۔ اس پر ناومی کلین نے 2016 کے ایک سروے کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق دنیا کے دس فیصد امیر لوگوں کے پاس دنیا کی ۸۹ فیصد دولت ہے۔ جبکہ نچلے طبقہ جو کہ کثیر تعداد میں ہے کے پاس محض ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ سروے ہی سرمایہ دارانہ نظام کے اس بیانیے کو غلط قرار دینے کے لیے کافی ہے کہ امیروں کی مزید امارت غریبوں کے حالات میں بہتری لائے گی۔
ناومی کلین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس چوری پر بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ 1976 میں نیویارک میں مالی بحران کے باعث The Grand Hyatt کو بیچنا پڑا۔ اس کا خریدار ڈونلڈ ٹرمپ بنے جو اس وقت انتیس سال کے تھے۔ انہوں نے نو ملین ڈالر کا یہ ہوٹل خریدا اور پھر اس کو سٹی گورنمنٹ کو ایک ڈالر میں بیچ کر ننانوے سال کے لیے لیز پر لیا اور یہ ساتھ ہی اپنے لیے چار دہائیوں تک کا ٹیکس ریلیف لیا کہ وہ نارمل ریٹ سے کم ٹیکس دیں گے۔ 2016 میں جب چالیس سال یعنی چار دہائیاں مکمل ہوئیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہوٹل اور پراپرٹی سے 360 ملین ڈالرز کا ٹیکس بچایا۔ اس کے علاوہ ناومی کلین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے پروگرام Apprentice کے بارے میں بھی لکھا ہے جو ٹرمپ کی ذہینت کی عکاسی کرتا ہے جس میں گو کہ سب کچھ سکریپٹد ہوتا تھا مگر ٹرمپ کا بطور باس آنا اور لوگوں کو لگژری لائف سٹائل کے سپنے دکھانا اور پھر ان کو پروگرام سے فائر کرنا، یہ سب چیزیں سکرپٹ کا حصہ ضرور ہوں گی مگر یہ ٹرمپ کی ذہینت کو بھی واضح کرتی ہیں کہ وہ کس طرح لوگوں پر حکمرانی کرنے کے خواہشمند ہیں اور کسی کو بھی جب چاہے نوکری سے نکال سکتے ہیں، وہ حقیقت کو اپنی مرضی سے جب چاہے موڑ سکتی ہیں ۔وہ کسی کو بھی سوہانے خواب دکھا کر خرید سکتے ہیں۔ یہ ٹرمپ کا ہی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا طریقہ کار ہے۔ جہاں پر سرمایہ دار اپنے سے کمتر لوگوں کا استحصال کرتا ہے اور ان کو اپنی دولت اور خواہشات کی تکمیل میں استعمال کرتا ہے اور اگر کوئی اس کی منشاء کے مطابق نہیں رہتا تو اس کو نوکری سے فارغ کر سکتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے کوئی قانون اس کو اپنے ماتحت کو نکالنے کے لیے نہیں روک سکتا۔

ناومی کلین برینڈز کے حوالے سے بھی ناقدانہ رائے رکھتی ہیں جس کی تفصیل ان کی کتاب No Logo کو دیکھا جا سکتا ہے۔ برینڈز کو وہ سامراج اور نو آبادیات کے جدید شکل میں دیکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب کمپنیاں اپنی پراڈکٹ کی بجائے برینڈز کو توجہ دیتی ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کی ضروریات پورا کرنا نہیں بلکہ اپنے برینڈز کو نام دینا ہے۔ اس لیے کئی کمپنیاں اب اپنی پراڈکٹ کو outsource کرتی ہیں۔ اس سے ان کو لیبر کا خرچ بچ جاتا ہے اور ان کا بنیادی مقصد منافع کے حصول ہے۔ ناومی نے Nike اور Adidas کی مثال دی ہے کہ یہ اپنا مال ایک ہی فیکٹری سے تیار کرواتی ہیں، ان کی کمائی ان کا لوگو یعنی کہ برینڈ ہوتا ہے۔ یہ ان کمپنیوں کا منافع کمانے کا ایک الگ انداز ہے۔ جہاں وہ کم سے کم اخراجات سے زیادہ سے زیادہ کماتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی برینڈز سے گہرا تعلق ہے اور اس نے رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں اس سے خوب منافع کمایا۔ ٹرمپ نے اپنا برینڈ بیرون ملک بھی بیچا جہاں رئیل اسٹیٹ والوں نے ٹرمپ کی کمپنی کو ایک خاص شرح میں قیمت ادا کر کے اس کا نام استعمال کیا۔ یوں ٹرمپ کی مختلف ممالک میں بغیر کسی تگ و دو کے پراپرٹی کھڑی ہو گئی ۔ پھر ٹرمپ جب اپنا برینڈ بیچ رہا تھا تو وہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں فقط منافع کی حد تک شریک تھا۔ اگر ان کا پراجیکٹ ناکام ہو جاتا تو یہ ٹرمپ کا درد سر نہیں تھا۔ ٹرمپ نے اپنے برینڈ کے استعمال کرنے کی ہر صورت قیمت وصول کرنی تھی۔ ایسا نہیں کہ ناومی برینڈز کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی بات کرتی ہیں۔ ان کی تنقید اس پر ہے جب کمپنوں کی ترجیحات میں اپنے مال کی بجائے برینڈ آ جائے تو وہ صارف کے استحصال کا ایک طریقہ کار ہے جس کی مذمت کرنی ہو۔پھر یہ برینڈز فقط کاروبار نہیں کرتے بلکہ یہ ملکی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں بالخصوص قانون سازی کے حوالے سے ان کا کردار ہوتا ہے اور ان کی خواہش بھی ڈی ریگولیشن ہوتی ہے تاکہ ان کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے۔ چونکہ فی الحال میں نے No Logo نہیں پڑھی اس لیے ناومی کلین کی برینڈز پر تنقید کے کئی پہلوؤں سے میں ناواقف ہوں۔ اور پھر جس طرح یہ امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اثر انداز ہوتے ہیں اس کا درست اندازہ پاکستان کے تناظر میں لگانا مشکل ہے۔ البتہ کارپوریشن کی حکمرانی کو پاکستان کے تناظر میں بہت اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جہاں ایک مضبوط کمپنی کی منشاء کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے، ان کی مرضی کے خلاف عدالتیں فیصلہ بھی کر لیں تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ فیصلہ کرنے والوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جس ادارے یا شخص کے ساتھ کمپنی کا لوگو ہے اس کو باقیوں کی نسبت زیادہ بہتر مواقع بھی ملیں گے اور اس کو اپنے مدمقابل کے خلاف out of box جانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ ناومی کہتی ہیں کہ اگر ہم نے ٹرمپ کے ماحول دشمن اور فلاحی منصوبوں کو ختم کرنا اور انسان دشمن پالیسیوں کو لگام ڈالنی ہے تو ہمیں سرمایہ دارانہ نظام اور برینڈز کی حکمرانی کا توڑ کرنا ہو گا، جب سے ٹرمپ حکومت آئی ہے ایونکا ٹرمپ کے برینڈز اور بزنس میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ٹرمپ کا بیٹا ایرک ٹرمپ بھی اس کاروبار کو فروغ دے رہا ہے اور پراڈکٹ کی بجائے یہ برینڈز کو بیچ رہے ہیں اگر ان کے اس کاروبار یعنی برینڈ انکم میں کمی لائی جائے تو امید ہے ٹرمپ اپنے منصوبے جو کہ ماحول دشمن اور کارپوریٹ مافیا کو مزید طاقتور بنانے کا ہے کو نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ یہی وہ بنیادی چیز ہے جس کی بنیاد پر ٹرمپ کو پرامن اور پراثر انداز میں محدود کیا جا سکتا ہے یا اس کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی جیسے پاکستان میں فوج کو ماورائے آئین اقدامات سے روکنے کے لیے اس کو ان شعبوں سے بے دخل کیا جائے جو کہ اصلاً فوج کا کام نہیں جیسے کہ پراپرٹی ، لوجسٹکس، سیمنٹ ، دلیہ وغیرہ اس سے معاشی طور پر تو فوج پر ضرب پڑے گی لیکن یہ مجموعی طور پر فوج کے لیے بھی اور ملک کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
برینڈز کلچر کے بارے میں مزید ناومی کلین نے لکھا ہے کہ اس نے صارف کی سوچ میں بھی تبدیلی لائی ہے۔ اب صارف کوئی چیز فقط ضرورت کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ساتھ ہی اس نے معاشرے میں اپنے آپ کو نمایاں بھی رکھنا ہوتا ہے۔ جیسے کہ بیشتر موبائل فونز جب نئے لانچ ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو منوانے کی خاطر ایک بڑی تعداد ان کو خریدتی ہے حالانکہ جن موبائل فونز سے وہ اپنا تبادلہ کرتے ہیں وہ ان کی ضرورت بھی پوری کر رہے ہوتے ہیں مگر برینڈز کلچر نے ایک عجیب قسم کے مقابلے کو جنم دیا ہے جس پر عام صارف استعمال ہو رہا ہے اور دوسری طرف برینڈز اپنے منافع میں اضافہ کر رہے ہیں.

ٹرمپ کے بارے میں یہ رائے تو بالعموم پائی جاتی ہے کہ اس نے اپنے دور میں کوئی جنگ نہیں چھیڑی۔ ناومی اس سے متفق نہیں ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے پہلے نو ماہ میں ہی افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا نان نیوکلیئر بمب جس کو مدر آف آل بمب بھی کہتے ہیں پھینکنا ، شام میں بھی بمباری میں اضافہ کیا، اس کے ساتھ یمن میں بھی سٹرائیکس کی گئیں۔ اب ٹرمپ کا اقتدار ختم ہو چکا ہے۔ گو کہ ناومی کلین نے کچھ واقعات نقل کیے ہیں لیکن اب یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے ٹرمپ دوسرے صدور کی نسبت کم پرتشدد تھا۔ اس نے کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی بلکہ افغانستان سے بھی انخلاء کیا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ناومی کے خدشات درست ثابت نہیں ہوئے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کی وبا نے ٹرمپ کو روک دیا ورنہ وہ بھی یہ کرتے، اس پر اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے زمینی حقیقت یہی ہے کہ ٹرمپ نے کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی۔

ایسا نہیں کہ ناومی ٹرمپ پر تنقید کر کے ہلیری کلنٹن کا مقدمہ لڑ رہی ہیں۔ انہوں نے ہیلری کلنٹن کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے اور ان کی ایک پریس کانفرنس کا ذکر کیا ہے جو انتخابی مہم کے دوران ہوئی جس میں ایک صحافی نے ہیلری کلنٹن سے ماحولیاتی آلودگیوں اور اس میں فوسل فیول کمپنوں کے کردار کا ذکر کیا اور پوچھا کہ فوسل فیول انڈسٹری کو روکنے کے لیے وہ سنجیدہ ہیں جبکہ دوسری طرف ان سے کمپین کی مد میں وہ کئی ملین ڈالرز بھی وصول کر چکی ہیں تو اس پر ہیلری کلنٹن کوئی درست جواب دینے کی بجائے سیخ پا ہو گئیں اور صحافی کو کہا کہ اپنے کام سے کام رکھیں وہ صحافی ماحولیات کی طالب علم بھی تھی۔ ہیلری کلنٹن نے بھی ماحولیات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور پھر ناومی کہتی ہیں کہ اگر ڈیموکریٹک پارٹی ہیلری کلنٹن کی بجائے برنی سینڈرز کو اپنا امیدوار کھڑا کرتی تو وہ بہت آسانی سے ٹرمپ کو ہرا سکتے تھے مگر برنی سینڈرز اپنی ماحول دوست اور امن پسند خیالات کی وجہ سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں تھے، اس لیے برنی کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی خواہش پر ہیلری کلنٹن امیدوار بنیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سیاست میں بھی اسٹبلشمنٹ کا بہت اہم رول ہوتا ہے، ہمارے ہاں اس کی intensity بہت زیادہ ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو مکمل طور پر سیاست سے باہر کر دینا موجودہ سیاسی تناظر میں تقریباً ناممکن ہے، ہاں ان کے کردار کو محدود کیا جا سکتا ہے۔
ناومی ہیلری کلنٹن پر تنقید کرنے کے باوجود ٹرمپ کو زیادہ خطرناک اس لیے سمجھتی ہیں کہ ٹرمپ ہیلری کی نسبت ماحولیاتی آلودگیوں کے بارے میں زیادہ غیر سنجیدہ ہے اور پھر ایک کارپوریٹ نمائندہ ہونے کے ناطے اس کے لیے اس معاملے کو غیر اہم بنانا زیادہ سوٹ کرتا ہے۔ ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے اس پر اقدامات بھی کیے اس نے ناسا کی فنڈنگ میں کمی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو کہ زمین کے ماحول کے حوالے سے رپورٹنگ کرتا ہے۔ ٹرمپ نے فوسل فیول انڈسٹری کو مراعات دیں اور ان کے رکے ہوئے کئی پراجیکٹ منظور کیے۔ بارک اوباما کی گرین پالیسی جس میں صاف انرجی ایک اہم نکتہ تھا کو بھی وہ ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرمپ کے مشیر Scott Pruitt نے فوسل فیول انڈسٹری سے ہزاروں ڈالرز لیے، جبکہ اس کے دوسرے مشیر Rick Perry کے تیل کی کمپنوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور ان میں سے دو کمپنوں کے وہ بورڈ آف ممبر کا حصہ ہے۔
ٹرمپ نے فوسل فیول انڈسٹری کو مراعات کے سلسلے میں ایک پروگرام کو ختم کیا جس کے تحت انہیں میتھین گیس کے بارے میں رپورٹ جمع کرانا ہوتی تھی۔ یہ پروگرام اوباما حکومت کے آخری دنوں میں منظور ہوا ٹرمپ اس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ جس سے تیل کی کمپنیوں کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملے گا جس کے نتیجے میں ماحول میں آلودگی بھی بڑھنے کے یقینی خدشات ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ climate research programs کی اہمیت کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ تاکہ اگر وہ اس پر آواز بھی اٹھائیں تو اس کو غیر موثر بنا دیا جائے۔
ہیلری کو ٹرمپ سے بہتر یا پھر کم برا سمجھنے کی ماحولیات کے علاوہ اور بھی متعدد وجوہات کا ناومی کلین نے ذکر کیا ہے۔ جیسے کہ ٹرمپ نے مسلمانوں کے حوالے سے جو نفرت انگیز زبان استعمال کی وہ قابلِ مذمت تھی، اس کے ساتھ اس نے سیاہ فام افراد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور White supremacy کی بات کی یہ بھی معاشرے کے لیے انتہائی تباہی کا اعلان تھا ، اس کے ساتھ تارکین وطن کے بارے میں بھی ٹرمپ کا رویہ انتہائی نامناسب ، جارحانہ اور مخالفانہ بھی خطرے کی گھنٹی تھا۔ جب ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو پھر ملک کے دانشوروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انصاف سے کام لیں اور ملک کو ان خطرات سے آگاہ کریں جو ٹرمپ کی فتح کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں تاکہ ان کے سدباب کے لیے متحدہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے اور اس کے تباہ کن ارادوں کو عملی جامہ پہنانے سے روکا جائے۔ ٹرمپ کے خیالات ناصرف خطرناک ہیں بلکہ ٹرمپ کے ساتھی بھی کسی اچھی شہرت کے حامل نہیں ، ٹرمپ کے اردگرد کے لوگوں تشدد اور جنسی ہراسانی میں ملوث پائے گئے۔ ناومی نے ان میں سے کچھ لوگوں کا ذکر کیا جو مختلف قسم کے جرائم میں ملوث رہے ہیں اور ان پر الزامات ہیں۔

ناومی کلین نے اس کتاب میں نیو لبرلزم پر بھی شدید نقد کیا ہے۔ نیو لبرلزم جو مارکیٹ کو آزاد چھوڑنے پر یقین رکھتا ہے۔ جس کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ مارکیٹ ہمیشہ درست ہوتی ہے، ریگولیشن غلط ہوتی ہے، نجکاری ہمیشہ درست ہوتی ہے جبکہ قومیانے کی پالیسی ہمیشہ غلط ہوتی ہے۔ یہ فلاحی اداروں کو سرکاری کنٹرول سے لیکر نجی کنٹرول میں دینے کی بات کرتا ہے۔ اس نیو لبرلزم کا نفاذ آج کے سرمایہ دارانہ معیشت کا سب سے اہم ہدف ہے۔ امریکہ میں رونالڈ ریگن ، برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نے اس کے نفاذ کی بھرپور کوشش کی۔ چلی ڈکٹیٹر جنرل پنوشے بھی اس ہی کو ملک میں نافذ کر رہا تھا۔ نتیجتاً ایسے ممالک شدید معاشی بحرانوں کا شکار ہوئے۔ امریکہ اور برطانیہ تو پھر کچھ برداشت کر سکتے تھے کیونکہ وہ مضبوط معیشتیں تھیں جبکہ چلی میں اس پالیسی نے تباہی مچا دی۔ ارجنٹائن میں بھی یہ تجربہ کیا گیا جس کا نتیجہ ارجنٹائن کے عدم استحکام کا نکلا۔ نیو لبرلزم کی سفاکیت کو زیادہ بہتر اور مفصل انداز میں ناومی کلین کی دوسری کتاب The Shock Doctrine میں ذکر کیا گیا ہے۔ ارجنٹائن میں ہونے والے تجربات اور اس کے بھیانک نتائج کے بارے میں اس کتاب میں بھی ناومی نے کافی کچھ تفصیل سے لکھا ہے۔ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ساتھ ناومی نے بل کلنٹن پر بھی تنقید کی ہیں اور بتایا ہے کہ اس دور میں بھی نیو لبرل پالیسیوں کی حمایت کی گئی ۔ بل کلنٹن نے بینکوں کو ضرورت سے زائد اختیارات دئیے جس کے نتیجے میں 2008 میں مالی بحران آیا جس نے کئی لوگوں کو بے روزگار اور کئی کو مقروض کر دیا۔
ناومی نے 2008 کے مالی بحران پر بھی لکھا ہے اور بارک اوباما کی جانب سے دئیے گئے بینکوں کو بیل آؤٹ پیکیجز پر بھی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بینکس اس بحران کے ذمہ دار تھے ان کو کڑی سزا دینی چاہیے تھی مگر ان کو بھاری رقم دی گئی ۔ یہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام نے سرمایہ داروں کا تحفظ کیا۔

ناومی نے نسل پرستی بھی بات کی ہے اور امریکہ میں گوروں کا سیاہ فام پر تسلط کی ویسے بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ امریکا میں افریقہ سے اغواء کیے گئے سیاہ فام غلاموں کی بدولت یہاں پر ترقی ہوئی۔ اس سفاکیت کو بھی ناومی نے ذکر کیا ہے۔ ناومی نے بتایا ہے کہ ٹرمپ نے جو وائٹ سپرمیسی کا نعرہ لگایا اس کی جڑیں امریکی معاشرے میں کافی گہری تھیں جس کو مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد نے کم تو کر دیا تھا اور اس کو کمزور کرنے کی کچھ کامیاب کوششیں ہو چکی تھیں حتیٰ کہ ایک سیاہ فام امریکی صدر بھی بن گیا۔ ٹرمپ نے چنگاری کو دوبارہ آگ لگائی اور بدقسمتی سے یہ کارڈ چل گیا۔ اس نعرے کا اثر فقط سیاسی نہیں بلکہ یہ امریکی سماج کے فیبرک کو تباہ کرنے والا قدم تھا۔ اس کے اثرات ٹرمپ کی جیت کے بعد سامنے بھی آئے جب کچھ گوروں نے سیاہ فام لوگوں کے گھروں پر حملے کیے اور ان کو دھمکی دی کہ امریکہ کو چھوڑ جائیں۔
ٹرمپ نے مسلمانوں کے حوالے سے بھی اپنی مہم کے دوران نفرت انگیز تقاریر کیں اور صدارت سنبھالنے کے بعد سات مسلم ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی جس پر امریکہ کے لوگوں نے مسلمانوں کی حمایت کی اور امریکی عدالتوں نے بھی ٹرمپ کے اس قدم کو کالعدم قرار دیا۔ یہ ایک بڑا فیکٹر اور امید تھی، کہ ٹرمپ کی بے ہنگم خواہشات پر قدغن لگانے کے لیے امریکی عدالت اور امریکی سینیٹ جہاں ریپبلکنز کی اکثریت نہیں تھی موجود تھیں۔

ناومی کلین نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے بھی لکھا کہ ان کو گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد اس وقت کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب بش انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ۔ اس نے کوئی اور آپشن ہی نہیں چھوڑا ۔ اب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کھلم کھلا حمایت کی جانے لگی اگر اس پر کوئی مخالف آواز اٹھتی تو اس کو دہشت گردوں کا حامی کہہ کر خاموش کروایا جاتا۔ یہ بہت مشکل وقت تھا۔ یہاں ناومی نے سرمایہ دارانہ نظام اور نیو لبرل نظام کی ایک واردات کا ذکر کیا ہے کہ وہ کوئی حادثہ چاہیے وہ قدرتی ہو یا پھر پہلے سے طے شدہ کو بنیاد بنا کر اپنی رکاوٹیں دور کرتے ہیں۔ یعنی پہلے مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے حل کے نام پر ایسے ایسے کام کیے جاتے ہیں جو نارمل حالات میں نہیں کیے جا سکتے، لوگوں کو بھی یہ کہہ کر خاموش کروایا جاتا ہے کہ ہم ایمرجنسی کی حالت میں ہیں۔ ستمبر گیارہ کے واقعات کو بنیاد بنا کر بش انتظامیہ نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ایسے ہی ہم وطن عزیز میں دیکھیں تو آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام پر قانون سازی کی گئی ، آپریشن ضرب عضب کے نام پر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا گیا۔ یہ نارمل حالات میں ممکن نہیں تھا۔ ایسے ہی نو مئی کے واقعات کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے جب ایک ناپسندیدہ سیاسی جماعت جو کہ کسی طرح قابو نہیں آ رہی تھی پر پاکستانی تاریخ کا خوفناک کریک ڈاؤن ہوا ناصرف جماعت کے رہنما بلکہ پارٹی ورکرز اور سپورٹرز کو بھی پکڑا گیا۔ اس بارے میں عورتوں سے رعایت برتی نہ ہی مردوں سے، چادر اور چار دیواری کا خیال رکھا گیا نہ کسی کے کاروبار کا۔ یہ غیر معمولی حالات پیدا کیے بھی جاتے ہیں اور قدرتی حادثات بھی ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں
امریکہ میں کترینہ طوفان جو کہ ایک قدرتی آفت تھی سے نیو اور لینا میں ایسا ہی کچھ کیا گیا ، جہاں جان بوجھ کر امدادی سرگرمیاں سست رکھی گئیں تاکہ لوگ اپنے گھر چھوڑ جائیں اور یہ زیادہ تر سیاہ فام لوگوں کے گھر تھے۔ یہاں طوفان کو موقع دیا گیا کہ وہ ان کی املاک کا نقصان کرے ، یہ لوگ یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو یہاں پر انفراسٹرکچر کی تعمیر کے نام پر نئے فلیٹس بنے جن کی قیمت آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں ، اس کے ساتھ یہاں پر تعلیم جو پہلے سرکاری کنٹرول میں تھی کو نجی ہاتھوں میں دے دیا گیا یہ سب کام جس شخص کی نگرانی میں ہوا اس کا نام Mike Pence تھا جو کہ ٹرمپ کے ساتھ نائب صدر بنے۔ مائیک پینس ایک پراپرٹی ٹائیکون ہے اور وہ بھی نیو لبرلزم کا شدید حامی ہے۔ اس کو بھی فلاحی کام سرکاری کنٹرول میں دینا پسند نہیں۔ یوں ایک قدرتی حادثے اور پھر اس میں کچھ غفلت برت کر ایک علاقے میں یہ کاروائی کی گئی ۔ یہ طریقہ ممالک کی سطح پر بھی ہوتا ہے۔
ناومی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ٹرمپ کو جہاں اپنے بھیانک منصوبوں پر قانونی اور عدالتی رکاوٹوں کا سامنا ہے وہ ان کی تکمیل کی خاطر کوئی حادثہ جان بوجھ کر نہ کروائے جو اس کو غیر معمولی طاقت اور اختیارات دے جس سے وہ یہ کام بآسانی کر سکے جس کے لیے اس کو امریکی سینیٹ یا پھر عدالت سے رکاوٹ کا سامنا ہے۔ ناومی کا یہ خدشہ بھی درست ثابت نہیں ہوا ۔ گو کہ یہ ایک معروف واردات ہے مگر ٹرمپ انتظامیہ کو اتفاقی طور پر ایک قدرتی وباء کا سامنا کرنا پڑا جس کی ضرورت ہی محدود ہونے کی تھی، یہاں کھل کر کھیلنے کی بجائے محدود ہونے میں ہی بھلائی محسوس ہوئی گو کہ ٹرمپ کا رویہ مختلف تھا مگر باقی طبقات کو اس پر محدود ہونا پڑا

ناومی کلین نے نجکاری کے خلاف بھی بھرپور لکھا ہے۔ناصرف سوشل سیکٹر میں نجکاری اور سرمایہ داروں کے استحصال پر گفتگو کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی سیکیورٹی فورسز اور نجی جیلوں کی سفاکیت کو بھی لکھا ہے۔ نجی سیکیورٹی فورسز کے حوالے سے بالخصوص بلیک واٹر کے بارے میں لکھا جب عراق میں انہوں نے کنٹرول سنبھالا ہوا تھا اور ان کو عام عراقی شہریوں کے قتل کی کھی آزادی تھی۔ جب پال بریمر کو منتظم بنا کر بھیجا گیا تو اس وقت ناومی نے عراق کا دورہ کیا۔ وہاں بغداد کے اندر امریکی فورسز نے ایک الگ سے گرین ہاؤس بنایا ہوا تھا جس کے اندر آسائش کا ہر سامان موجود تھا۔ امریکی اہلکاروں کے لیے وہاں شراب کا کھلا انتظام تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی میسر تھی اور وہاں کلب بنے ہوئے تھے جبکہ اس ہی بغداد میں اس گرین ہاؤس کے باہر ریڈ زون تھا جہاں عراقی لوگ بستے تھے جن کو ضروریات زندگی بھی مکمل میسر نہیں تھے۔ ان کی جان اور مال بھی محفوظ نہیں تھا۔ ناومی نے اس بے رحم طبقاتی تقسیم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور لکھا کہ بغداد کے اندر دو جہاں تھے۔ ایک اکثریت اور وہاں کے لوگوں پر مشتمل جہاں زندگی سستی تھی جبکہ دوسرا چھوٹا سا حصہ جو قابضین کے لیے تھا وہاں ایک الگ زندگی تھی۔ ایسا ہی کچھ پاکستان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب فوجی جرنیلوں کے کے لیے الگ سہولیات ہیں ان کے لیے الگ سے ہر شے موجود ہے جبکہ عام عوام کے لیے وہ چیز میسر نہیں۔
حکومت کی منظور کردہ نجی جیلوں کا concept پاکستان کے حوالے سے سمجھ نہیں آ سکتا۔ مگر جو ناومی نے لکھا ہے اس میں حکومت کچھ رقم دیکر کمپنیوں کو نجی جیلوں کی اجازت دیتی ہے، تاکہ حکومت پر سے بوجھ کم ہوسکے۔ ان جیلوں پر عام قانون لاگو نہیں ہوتے اس لیے یہاں کے قیدیوں کے ساتھ کئی دفعہ بہیمانہ سلوک سامنے آتا ہے ۔ اس پر ناومی نے آسٹریلیا کی نجی جیلوں کا ذکر کیا ہے جہاں پر آسٹریلیا آنے والے تارکین وطن جن کے کاغذات مکمل نہیں ہوتے کو رکھ لیا جاتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے ، اس پر آسٹریلوی حکومت یہ عذر بھی پیش کرتی ہے کہ یہ جیلیں اس کے ماتحت نہیں ہیں۔

ناومی نے یہ بھی لکھا ہے کہ کرائسز میں اقوام دو طرح سے سامنے آتی ہیں یا تو وہ جبر قبول کر لیتی ہیں اور مایوس کی راہ اختیار کرتی ہیں جبکہ کئی دفعہ مشکلات اور حادثات اقوام میں نئی روح پھونک دیتے ہیں اور وہ مزید کوئی ظلم یا زیادتی برداشت نہیں کرتے۔ اس میں ارجنٹائن، اسپین سمیت کئی ممالک کی مثال دی جب انہوں نے حکومت کے عوام دشمن اقدامات کو مسترد کر دیا اور ان کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا۔ ٹرمپ کا آنا بھی ایک مشکل ہے اور اس نے امریکی عوام کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ اپنے لسانی ، نسلی اور مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملک کی بہتری کے لیے متحد ہو جائیں۔ اس لیے یہ امید کی ایک کرن بھی ہے جہاں پر عوام ناصرف ٹرمپ کے بارے میں متحد ہو بلکہ اس نظام کے خلاف میدان میں آئے جس نے ٹرمپ کو اس مقام پر پہنچایا ، بالخصوص نیو لبرلزم کو مسترد کرے جو استحصال کی ایک بدترین شکل ہے۔ وہ جنگوں کے خلاف متحد ہوں اور امریکی افواج کی دیگر ممالک کی زمین سے انخلا کی حمایت میں ایک ہوں، وہ climate change اور گلوبل وارمنگ کے بارے میں حساس ہوں اور اس سیارے کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کام کریں۔

ناومی کلین کے خیالات سے اتفاق اور اختلاف دونوں ہو سکتے ہیں مگر ناومی کلین نے جس طرح مدلل اور سنجیدگی سے یہ کتاب لکھی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ جس قدر گہرائی سے جا کر ناومی نے سرمایہ دارانہ نظام ، نیو لبرلزم اور اس کے ماحول دشمنی کے تعلق سے بات کی ہے اور مختلف انداز میں اس کی سفاکیت اور بے رحمی کو بیان کیا ہے۔ وہ قاری کو ناصرف حیرت میں ڈالتا ہے بلکہ ساتھ یہ بھی چیز سامنے آتی ہے کہ ٹھوس کام اور نقد کیا ہوتا ہے اس کے لیے کس قدر سنجیدگی ، متانت اور مطالعہ درکار ہوتا ہے۔ پھر چیزوں کو کس طرح معروضی انداز میں دیکھا جاتا ہے بالخصوص جہاں مفادات کے نام پر استحصال کیا جا رہا ہو وہاں کس طرح اس کو expose کیا جائے۔ پاکستان میں اس طرح کی تنقیدی کام کی فی الحال کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ صاف فرق نظر آتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ یا مغرب کے دانشور اور صحافی کی اپروچ میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ناومی نے یہ کتاب چند ماہ میں مکمل کی تو جن کتابوں پر اس نے چار سے پانچ سال لگائے ان کا معیار کیا ہوگا۔ابھی کتاب کی کئی مباحث کو چھوڑنا پڑ رہا ہے کیونکہ جو ذکر کر دیا گیا ہے اس میں بھی جاننے کے لیے کافی کچھ ہے۔
آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ اس کتاب کو فقط ٹرمپ کی شخصیت کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ٹرمپ جس سسٹم اور نظریے کی پیدوار ہے اس کو دیکھنا چاہیے اور پاکستان کے تناظر میں بھی بہت سی باتیں ہیں جو حقائق کی چھان بین کے لیے ایک الگ زوایہ پیش کرتی ہیں۔ اس لیے یہ پاکستان کی سیاست اور سماج کو بھی سمجھنے کے لیے ایک اہم ڈاکومنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔

 

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں