Home » جنت کی تلاش
اردو کتب

جنت کی تلاش

زبیر بن اسمعیل

جنت کی تلاش وہ پہلی کتاب ہے جسے اپنی ہم عصر کتابوں میں سب سے زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی،کتاب کا سن اشاعت 1981ہے ،1990 اور 2000کی دہائی میں شاید ہی کوئی کتاب باز شخص ایسا ہو جس نے اس کتاب کا مطالعہ نہ کیا ہو ،کتاب کا موضوع ،فطرت،سیرو سیاحت،انسانی زندگی کے نشیب و فراز ،نفسیات ،جنسیات،جغرافیہ،اور پاکستان کے مختلف علاقوں کا تہذیب وتمدن ہے ،کتاب میں،وسیم ،عاطف،اور امتل تین کردار ہیں ،اور ان تینوں میں سب سے اہم کردار امتل نامی ایک ذہین لڑکی کا ہے،جو زندگی اور اس میں پائی جانے والی تمام خوشیوں اور تکالیف سے بے نیاز ہے ،وہ حقیقی انسانیت کی تلاش میں سرگرداں ہے ،تمام مذہبی معاشرتی ،معاشی اور اخلاقی قدریں اسے متاثر کرنے میں ناکام ہیں،وسیم نامی کردار ہر موقع پر امتل کو کسی نتیجے پر لانے کی کوشش کرتا ہے ،مگر امتل کے پاس اس کے ہر فلسفے کا جواب ہے ،کتاب انسان کی نفسیاتی زندگی کا بھی احاطہ کرتی ہے کہ کس مقام پر کس انسان کی کیا ضروریات ہیں،مصنف نے یہ کتاب چھ سال سیر و سیاحت کے بعد لکھی ہے ،پہلی دفعہ پڑھنے والے کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ کتاب تخیل ہے یا حقیقت،غالب امکان ہے کہ وسیم نامی کردار مصنف نے اپنے لئے چنا ہو،اور دیگر کردار بھی مصنف کے ساتھ محو سفر رہے ہوں،کتاب سفر نامے اور ناول کا مجموعہ ہے ،اسے ہم ناول نما سفر نامہ یا سفر نامہ نما ناول کہ سکتے ہیں ،خوبصورتی کے دروازے ،یعنی مانسہرہ کے ریسٹ ہاؤس سے فوکس ویگن میں شروع ہونے والا یہ سفر گڑھی حبیب اللہ ،بالاکوٹ،ناران کاغان،جھیل سیف الملوک کا احاطہ کرتے ہوئے کوئٹہ،قلعہ عبداللہ ،چمن اور زیارت تک اور پھر سوات سے شروع ہو کر گلگت سے ہوتے ہوئے ہنزہ نلتر میں ایک بارہ سالہ لڑکی سے جنم لینے والی ایک اور لڑکی کے رونے پر ختم ہوجاتا ہے ،مصنف نے ان علاقوں کی خوبصورتی ،معاشرت اور جغرافیائی حیثیت کو بیان کیا ہے ،مصنف نے یہ سفر غالباَ 1971میں کیا ،آپ اسوقت ان علاقوں کی خوبصورتی کا تصور کر سکتے ہیں،کتاب میں مذکور چند مقامات کو میں بذات خود دیکھ چکا ہوں، سر پر سوار ہونے والی ان کیفیات سے وہاں پر موجود ہر شخص اپنے انداز میں اثر لیتا ہے،مصنف نے بس ان کیفیات کو لفظوں کی زبان دی ہے ،ہر نیا پڑھنے والا شخص کتاب کو پڑھ لینے کے بعد وسیم نامی کردار سے ضرور حسد کرنے لگتا ہے ،آج کل کی نئی پود کو یہ کتاب ایک دفعہ پڑھ لینے سے بمشکل سمجھ آئے گی،اور ممکن ہے کہ مصنف کا بے لاگ تخیل سمجھتے ہوئے کتاب کو بیچ میں ہی چھوڑ دے ،لیکن ہر اچھا قاری اسے مکمل پڑھنے کے بعد ہی کتاب کی ادبی حیثیت پر کوئی بات لکھنے یا کہنے کے قابل ہوگا ،
میں صرف اتنا کہوں گا کہ آپ اس سے زیادہ مضبوط حقیقت نما تخیل کم از کم اردو ادب میں نہیں ڈھونڈ سکتے ،اور اصل یہ کہ اس کتاب میں انسانی زندگی کی حقیقتوں پر ہی تخیلانہ بحث کی گئی ہے ،
کتاب کے مطالعے کے بعد آپ ایک عرصے تک اس کے حصار میں رہتے ہوئے اپنی مذہبی ،معاشرتی،اور نفسیاتی زندگی کے بارے میں کچھ نیا سوچنے پر مجبور ہو جائیں،
میرے خیال سے شاید زندگی کے جن سوالات کے جوابات آپ برسوں سے ڈھونڈ رہے ہوں وہ آپ کو اس کتاب میں مل جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبیر بن اسمعیل صاحب فاضل جامعہ دارالعلوم اسلامیہ ، ایم اے اردو جامعہ پنجاب ہیں ۔ جبکہ جامعہ پنجاب ہی میں بی۔ایس نفسیات کے طالبعلم ہیں۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں