الشریعہ کی اشاعت کے ابتدائی سالوں (غالباً ۹۳ء یا ۹۴ء) میں بزرگوار محترم جناب قاضی محمد رویس خان ایوبی صاحب کے عربی مقالہ ’’الحصانۃ القضائیۃ فی الاسلام‘‘ کے اردو ترجمے کی متعدد اقساط انھی کے قلم سے ’’عدالتی تحفظات اسلام کی نظر میں‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئیں۔ اس میں انھوں نے بعض مسائل میں فقہی اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے دیگر مکاتب فکر کے ساتھ فقہ جعفریہ کے نقطہ نظر کا بھی حوالہ دیا۔ یہ دور سپاہ صحابہ کے عروج کا دور تھا اور حساسیت حد سے بڑھی ہوئی۔ چنانچہ اعتراض اٹھا اور شاید خود مصنف تک بھی پہنچا، لیکن بات زیادہ بڑھی نہیں، کیونکہ اس وقت خود حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ بقید حیات تھے اور الشریعہ کے مستقل قاری بھی، لیکن پاسبانان مسلک کی نظر عنایت اس جانب متوجہ نہیں تھی۔
خیر، قاضی صاحب کے مقالے سے ایک طالب علمانہ تاثر میں نے بھی یہ لیا کہ فقہ جعفری بھی دوسرے مستند فقہی مکاتب فکر کی طرح ایک فقہی مکتب ہے جس کے یقیناًاپنے مخصوص اصول استنباط ہوں گے اور فقہی ذخیرہ بھی اور یہ کہ اعتقادیات میں جتنا بھی سنگین اختلاف ہو، کم سے کم فقہیات کے دائرے میں کوئی خاص ایسا اختلاف فقہ جعفری اور باقی مکاتب فقہ میں نہیں جسے کفر واسلام کا اختلاف کہا جا سکے۔ اس کے بعد بھی مختلف حوالوں سے اس معاملے پر غور کرنے کا موقع ملا تو یہی تاثر پختہ ہوا۔ خاص طور پر بہت حساسیت رکھنے والے فقہی اختلافات کی نوعیت پر غور کرنے سے بھی یہی واضح ہوا کہ اس طرح کے ’’سنگین‘‘ اختلافات خود اہل سنت کے فقہی مکاتب فکر کے مابین بھی پائے جاتے ہیں۔ فقہ جعفری اس باب میں کوئی خاص انفراد وامتیاز نہیں رکھتی۔
غور وفکر کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ روایت حدیث کے باب میں محدثین اہل سنت نے غالی روافض کی روایت کو، بالخصوص ایسی روایات جن سے بظاہر ان کے مخصوص نظریات کی تائید کا پہلو نکلتا ہے، بالعموم قبول نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ غالی روافض کذب وافترا کے عادی ہیں اور اپنے مذہب کی تائید کے لیے اس کو عین کار ثواب سمجھتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ سوال بہرحال ذہن میں پیدا ہوتا رہا کہ فقہیات میں امام باقر اور امام جعفر صادق رحمہما اللہ اور بعد کے ائمہ اہل بیت کے اقوال کی روایت وحفاظت کا کوئی اہتمام اہل سنت کی علمی روایت میں نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے جو بھی ذخیرہ میسر ہے، وہ اہل تشیع علماء ہی کی کاوشوں کا مرہون منت ہے تو اس صورت حال میں ان اقوال کی نسبت کے معاملے میں کس حدتک شیعی ذخیرے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ مجھے بذات خود کبھی اس پر کوئی باقاعدہ تحقیق کا موقع نہیں ملا، البتہ ’’حدود وتعزیرات‘‘ کی تسوید کے دوران بعض مسائل کی تحقیق کے لیے طوسی کی ’’تہذیب الاحکام‘‘ کی مراجعت کا موقع ملا تو میں نے ایک عمومی نظر اس زاویے سے بھی کتاب کے مختلف ابواب پر ڈالی کہ ائمہ اہل بیت سے منسوب اقوال میں ’’وضع‘‘ کا پہلو کس حد تک نظر آتا ہے۔ اس طائرانہ جائزے سے بھی اسی تاثر کو تقویت ملی کہ فروعی فقہی مسائل میں وضع کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ کہ فقہیات کے باب میں اس ذخیرے پر بآسانی اعتماد اور اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
چند سال قبل برادرم مفتی امجد عباس نے کسی ملاقات میں والد گرامی کو ایک کتاب کا ہدیہ پیش کیا جو شام کے ایک سنی محقق الشیخ امین بن صالح ہران الحداء کی تصنیف کردہ ہے اور اس پر شام ہی کے پانچ جید سنی علماء کی تقریظات بھی درج ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ’’فقہ الآل بین دعوی الاہمال وتہمۃ الانتحال‘‘ اور ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب سوریا کے دار الایمان للطباعۃ والنشر کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ جیسا کہ عنوان سے واضح ہے، مصنف نے اس کتاب میں ائمہ بیت کے فقہی اجتہادات کے حوالے سے طرفین کے موقف کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اہل تشیع کو یہ شکایت ہے کہ اہل سنت کے فقہی ذخیرے میں ائمہ اہل بیت کے اجتہادات کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس ذخیرے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جبکہ سنی علماء (جن میں امام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ) سر فہرست ہیں، یہ رائے رکھتے ہیں کہ فقہ جعفری کے عنوان سے فروعات ومسائل کا ذخیرہ مستند نہیں اور اسے گھڑ کر ائمہ اہل بیت سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
مصنف نے ان دونوں دعووں کی تحقیق کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام ابواب فقہ میں سے امہات مسائل منتخب کر کے ان سے متعلق پہلے ائمہ اہل بیت سے مروی ان روایات کی نشان دہی کی گئی ہے جو سنی مآخذ میں نقل ہوئے ہیں۔ اس کے بعد فقہ جعفری کی کتب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امام جعفر صادق ودیگر ائمہ کا فتویٰ بھی اسی قول کے مطابق ہے جو سنی مآخذ میں سیدنا علی یا اہل بیت کے دیگر ائمہ سے مروی ہیں۔ اس طریقہ تحقیق کے تحت مصنف کل ایک ہزار اڑتالیس (۱۰۴۸ ) امہات مسائل کا جائزہ لیا ہے اور تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں سے نو سو نواسی (۹۸۹) مسائل میں سنی مآخذ میں ائمہ اہل بیت کا جو مسلک منقول ہے، بعینہ وہی موقف فقہ جعفری کی کتب میں بھی نقل کیا گیا ہے، جبکہ اکیاون (۵۱) مسائل میں دونوں مآخذ کا باہم اختلاف ہے، یعنی شیعہ مآخذ میں جو موقف نقل کیا گیا ہے، سنی مآخذ میں ائمہ اہل بیت کا فتویٰ اس سے مختلف مروی ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ مسائل میں طرفین کے مآخذ کا جزوی اتفاق اور جزوی اختلاف ہے۔
اس تحقیق سے مصنف نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نہ تو اہل تشیع کا یہ الزام درست ہے کہ سنی ذخیرۂ روایات میں ائمہ اہل بیت کے فقہی اجتہادات کو نظر انداز کیا گیا ہے او رنہ سنی علماء کی یہ بدگمانی مبنی بر تحقیق ہے کہ فقہ جعفری کا زیادہ تر ذخیرہ غلط نسبت پر مبنی اور ناقابل اعتماد ہے۔
مجھے مصنف کے یہ نتائج تحقیق درست اور وزنی معلوم ہوتے ہیں، البتہ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ سنی مآخذ میں ائمہ اہل بیت کے اقوال کا شاید اسی، نو ے فی صد حصہ سیدنا علی اور سیدنا عبد اللہ بن عباس یعنی فقہائے صحابہ تک محدود ہے۔ بعد کے ائمہ، خاص طو رپر امام محمد باقر، امام جعفر صادق، امام زید بن علی رحمہم اللہ کے فقہی اجتہادات سنی فقہی روایت میں زیادہ بار نہیں پا سکے، خاص طور پر ان ائمہ کو ’’فقہ جعفری‘‘ کے عنوان سے ایک خاص مذہبی عصبیت میسر آ جانے کے بعد قابل فہم وجوہ سے اس ذخیرے سے عدم اعتنا کا رویہ غالب آتا چلا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
کمنت کیجے