پروفیسر عزیز ابن الحسن
پروین شاکر نے ایک بڑے مزے کا شعر کہہ رکھا ہے۔
ہندی روایت کی پتی ورتا سہاگن کے سے پیار والی پریمیکا اپنے پریتم کو بڑی اٹھلاہٹ سے کہتی ہے :
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری
یعنی ہار ہو یا جیت نقصان بہرحال نہیں ہونے کا؛ مطلوب دونوں صورتوں میں حاصل ہے!
سترہویں صدی کے معروف فرانسیسی ریاضی دان فلسفی اور مسیحی متکلم پاسکل (۱۶۲۳ء- ۱۶۶۲ء) نے بھی ایک کھیل کھیلنے اور بازی لگانے کی پیشکش کی تھی جسے ’’پاسکل بازی‘‘ (Pascal’ s Wager) کہتے ہیں۔
بعد از مرگ چھپنے والی اپنی معروف کتاب Pensées ( خواطر)۱ میں اس نے عمانوئیل کانٹ (۱۷۲۴ء–۱۸۰۴ء) سے کہیں پہلے بڑی قطعیت سے واضح کیا تھا کہ خدا ہے یا خدا نہیں ہے عقل اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر ازل سے جوئے کی ایک بازی لگی ہوئی ہے اس میں آپ نے شریک ضرور ہونا ہے خواہ ہار پر بازی لگائیں یا جیت پر، آپ کو ان دونوں میں سے ایک کام ضرور کرنا پڑے گا، اس سے فرار ممکن نہیں شرط تو آپ کو ہر حال میں لگانی پڑے گی۔ فرض کرو کہ ہارنے پر آپ کو کچھ زیادہ کھونا نہ ہو مگر جیتنے پر ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ پانے کا امکان ہو، آپ کے سامنے ایک مسرت بھری زندگی کی لامتناہیت ہو اور دوسری طرف کھونے کیلیے چند متناہی چیزیں ہوں اور ہار جیت کے امکانات بھی برابر ہوں تو سمجھ داری کا تقاضا کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ:
۱ ۔ “آپ کو شرط ضرور لگانی چاہیے۔ ویسے بھی یہ شرط آپ کو لگانی ہی ہے کہ ہارنے کی صورت میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ آپ مر کے مٹی ہو جائیں گے یعنی صرف جان کا ہی زیاں ہے جو ہر صورت میں ہونا ہے۔
۲ ۔ جیتنے کی صورت میں آپ کو لا انتہا فائدہ ہے اس لئے آپ لازماً ظفر مندی کیلئے شرط لگائیں گے۔ تو آئیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شرط لگا دیں کہ ’’خدا موجود ہے‘‘۔ ۲
پاسکل بازی اگرچہ پاسکل کے نام سے مشہور ہے اور اس کی تعبیر ریاضیاتی اغلبیت(probability)، فیصلہ(decision)، نتائجیت(pragmatism) اور ارادیت(voluntarism) کے نظریوں کی روشنی میں کی جاتی رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بات حضرت علی سے بھی منسوب ہے۔ حضرت علی سے اس کا انتساب اگر درست نہ بھی ہو تب بھی اتنا تو طے ہے کہ پاسکل سے پہلے اسلامی روایات میں اس طرح کے آثار معروف ہیں۔ مغربی فکر میں اس پاسکل بازی کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ پاسکل بازی پر اعتراض کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی بازی(wager) کی اغلبیت منطقی طور پر اعتقاد کے بعد ہے ، اس کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خدا پر یقین کیا اور اس کے فضل کو قبول کیا ہے ان کی بازی غیر معقول بالکل نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ابدی نجات کے ذریعہ کے طور پر ایمان کی اہمیت یا قدر کی نسبتاً غیر معقولیت کی تلافی کرتی ہے۔۳
عقل کی عدم قطعیت، نارسائی اور تشکیک کی وجہ سے بعد کے لوگوں نے پاسکل کا شمار لاعقلیت (irrationalism ) اور وجودیت (existentialism) کے فلسفیانہ اور مذہبی بنیاد گزاروں میں کیا ہے۔ انسان کو اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر کائنات کے لامتناہیت کے ہولناک ریگزاروں میں پھینک دیا جانا پاسکل کو گویا بے معنویت کی دہشت میں مبتلا کرتا رہا۔ پاسکل کی بازی کی طرح ایک اور شے، جس کی بنا پر وہ ابھی نصف صدی قبل تک کیرکےگور جیسے وجودی فلسفیوں کے باواآدم کے طور پر زیر بحث آتا رہا ہے وہ ہے پاسکل کی دہشت ( Pascal’s terror)۔ خواطر میں ہمیں جگہ جگہ اس کے ایسے نوحے سننے کو ملتے ہیں جن کی بازگشت بعد میں وجودیوں کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے:
“جب میں قبل وبعد کی ابدیت کی نگلی ہوئی اپنی زندگی کے قلیل دورانیے پر غور کرتا ہوں کہ یہ تو تھوڑی سی جگہ ہے جس کو میں بھرتا اور دیکھ سکتا ہوں ، یہ اس لامحدود بےپایاں مکانی حدود میں گھری ہوئی ہے جس سے میں قطعی لاعلم ہوں، اور جو مجھے نہیں جانتی ، تو میں دہشت سے بھر جاتا ہوں اور وہاں کی بجائے یہاں ہونے پر حیران ہوتا ہوں کیوں کہ وہاں کی بجائے یہاں ہونے اور تب کی بجائے اب ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مجھے یہاں کس نے لا پھینکا ہے؟ کس کے حکم اور ہدایت پر مجھے یہ جگہ اور وقت تفویض کیا گیا ہے؟ ان لامحدود مکانوں کی ابدی خاموشی مجھے خوفزدہ کردیتی ہے۔” ۴
’’جب میں انسان کے اندھے پن اور بدبختی کو دیکھتا ہوں ، جب میں کائنات کی خاموش پہنائیوں کو، اندھیاروں میں بھٹکتے انسان کو کائنات کے اس کونے میں سراسیمہ و تنہا گم صُم دیکھتا ہوں یہ جانے بغیر کہ اسے کس نے وہاں پھینک دیا ہے ، وہ کیا کرنے آیا ہے اور موت کے وقت اس کا کیا بنے گا، تو میں یہ سب کچھ جاننے سے عاجز و لاچار، ایک ایسے آدمی کی طرح جسے نیند میں اٹھاکر ایک دہشت ناک بنجر جزیرے میں چھوڑ دیا گیا، جو جاگنے پر فرار کا کوئی رستہ نہ پا کر دھک سے رہ جائے، میں اس طور خود کو ایک دہشت میں مبتلا پاتا ہوں۔ میں اس پر حیرت زدہ ہوں کہ اس حالت میں بھی یہ آشفتہ و خاک بسر لوگ اتھاہ مایوسیوں کا شکار کیوں نہیں ہوتے۔ میں اپنے ارد گردا گرد دوسرے افراد کو جب اسی طرح کی فطرت سے دوچار پاتا ہوں تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ اس ہولناکی سے مجھ سے بہتر آگاہ ہیں؟ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ نہیں وہ نہیں ہیں۔ اس پر بھی یہ بدبخت و حواس باختہ مخلوق ، اپنے اردگرد جب کچھ دل خوش کن چیزیں دیکھتی ہے تو خوشی خوشی ان سے دل لگا لیتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں خود کو ان سے منسلک نہیں کر پایا ہوں ، اور ، یہ دیکھتے ہوئے کہ کس شدت سے یوں لگتا ہے کہ جو کچھ مجھے نظر آتا ہے اس کے علاوہ بھی کچھ ہے تو، میں جانچ پڑتال کرنے لگتا ہوں کہ آیا خدا نے اپنی ذات کی کوئی علامت نہیں چھوڑی !’’۔ ۵
کچھ ایسی ہی باتوں کے پیش نظر ولیم بیرٹ (۱۹۱۳ء–۱۹۹۲ء) کا کہنا ہے کہ سترہویں صدی میں پاسکل نے گویا ہماری آج کی دنیا کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ۶ انسانی ارادے کی آزادی اور ذمہ داری کی یہی وہ کیفیت ہے جسے Existential angst, existential dread, anxiety, or anguish وغیرہ کہا جاتا ہے جو کیرکے گور جیسے مذہبی وجودیوں اور کامیو جیسے غیر مذہبی وجودی ایبسرڈسٹوں کا مشترک مسئلہ ہے۔ ۷ جب ہم پاسکل کو اس طرح کی کیفیات میں پاتے ہیں کہ:
’’ان لاتعداد مقامات کی ابدی خاموشی مجھ کو خوف سے بھر دیتی ہے‘‘۔۸ تو بے ساختہ اقبال کی نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ کے اشعار یاد آتے ہیں۔ ۹
پاسکل اور بعد کے غیرمذہبی وجودیوں میں فرق یہ تھا کہ وہ پاسکل کی طرح ’’ایمانی زقند‘‘ کو قبول نہیں کر سکتے۔ وہ البرٹ کامیو (۱۹۱۳ء-۱۹۶۰ء) کی طرح اسے ’’فلسفیانہ خودکشی‘‘ سمجھتے ہیں۔ غیر مذہبی و جودیوں کو یہ فلسفیانہ خودکشی قبول نہیں ہوتی، چاہے اس کے نتیجے میں لایعنیت/ ایبسرڈٹی میں ہی کیوں نہ لوٹنیا لگانی پڑیں۔ حالانکہ کامیو کو خود بھی یہ تسلیم ہے کہ:
ایک ایسا امرواقعہ موجود ہے جو بالکل اخلاقی نظر آتا ہے: یعنی ، آدمی ہمیشہ اپنی سچائیوں کا شکار رہتا ہے۔ ایک بار جب اس نے ان کو تسلیم کرلیا تو وہ خود کو ان سے رہائی نہیں دلا سکتا۔ اسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ شخص جو لا یعنیت (ایبسرڈ) سے آگاہ ہوگیا (سمجھو) وہ ہمیشہ کے لئے اس میں بندھ گیا۔ امید سے خالی اور ایسا ہونے کا شعور رکھنے والا آدمی مستقبل سے تعلق ختم کر چکا ہوتا ہے۔ یہ فطری بات ہے۔ لیکن یہ بھی عین فطری ہے کہ اسے اس کائنات سے فرار کی کوشش کرنی چاہئے جس کا وہ خالق ہے۔ تمام سابق الذکر معاملات کی اہمیت اسی قول محال کی وجہ سے ہے۔ عقل پرستی کی تنقید سے شروع ہونے والے بعض مخصوص افراد نے اس لایعنیت کے ماحول کو تسلیم کر لیا ہے۔ ۱۰
حواشی
۱۔ جدید نظریۂ اغلبیت (Probability) کا بانی کہلانے والا بلیز پاسکل ریاضی دان، ماہر طبعیات اور مذہبی فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان کا ایک منفرد اور صاحب اسلوب نثر نگار بھی تھا۔ اپنی مختصر سی عمر کے آخری حصے میں کچھ روحانی مکاشفات و واردات سے گزرنے پر اس نے اپنے ان تجربات کو لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو اس کی موت کے سبب ادھورا رہ گیا تھا۔ ۱۶۵۷ء اور ۱۶۵۸ء کے موسم گرما کے درمیان، اس کے ان شذرات اور ٹکڑوں کو اکٹھا کیا جنہیں مرتبین نے Pensées (’’خیالات‘‘) عنوان کے تحت شائع کیا۔
https://www.britannica.com/topic/Pensées
اگر یہ کہا جائے کہ ریاضی طبیعیات اور فلسفے کے علاوہ پاسکل کی شہرت بیش از بیش اس کے انتقال کے بعد ۱۶۷۰ء میں شائع ہونے والی مختلف رنگ و بو کے پھولوں جیسے بکھرے خیالات پر مشتمل اس چھوٹی سی کتاب پر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا! فرانسیسی زبان کی اس غیر رسمی کتاب Pensées کے عنوان کا مطلب افکار و خیالات ہے۔ فارسی میں اسے خواطر کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔ راقم کے پیش نظر اس کتاب کے متعدد آنلائن نسخے رہے ہیں لیکن حوالوں کے لئے زیادہ انحصار Gutenberg, 2006 والے مندرجہ ذیل ایڈیشن پر رہا ہے جو W.F Trotter کا مترجمہ ہے۔
Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958
https://www.gutenberg.org/files/18269/18269-h/18269-h.htm
Jan, 29, 2022
حوالے کے لئے صفحات نمبر کے بجائے پیرا گراف نمبر استعمال گئے ہیں تاکہ کسی بھی نسخے سے تلاش کرنے میں آسانی رہے۔ مختلف نسخوں میں پیراگراف کے نمبروں میں اگر چہ ذرا سا فرق ہے مگر یہ قابل نظراندازی ہے! راقم کے پیش نظر Pensées کے ایک انتخابی ترجمے کا منصوبہ بھی ہے جس کے لیے ’’نزہۃالخواطر‘‘ کا عنوان سوچا ہے! تاہم متن میں Pensées کا ذکر “خواطر” کے عنوان سے ہی کہا جائے گا۔
۲۔
Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958, Para 233
۳۔
https://www.gutenberg.org/files/18269/18269-h/18269-h.htm, Jan, 29, 2022
۴۔
When I consider the short duration of my life, swallowed up in the eternity before and after, the little space which I fill, and even can see, engulfed in the infinite immensity of spaces of which I am ignorant, and which know me not, I am frightened, and am astonished at being here rather than there; for there is no reason why here rather than there, why no w rather than then. Who has put me here? By whose order and direction have this place and time been allotted to me
Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958, Pera 205
۵۔
When I see the blindness and the wretchedness of man, when I regard the whole silent universe, and man without light, left to himself, and, as it were, lost in this corner of the universe, without knowing who has put him there, what he has come to do, what will become of him at death, and incapable of all knowledge, I become terrified, like a man who should be carried in his sleep to a dreadful desert island, and should awake without knowing where he is, and with out means of escape. And there upon I wonder how people in a condition so wretched do not fall into despair. I see other persons around me of a like nature. I ask them if they are better in formed than I am. They tell me that they are not. And thereupon these wretched and lost beings, having looked around them, and seen some pleasing objects, have given and attached themselves to them. For my own part, I have not been able to attach myself to them, and, considering how strongly it appears that there is something else than what I see, I have examined whether this God has not left some sign of Himself.
Pascal, Pensées, para 692.
۶۔
Barrett, William, Irrational man, New York Doubleday Anchor Books Doubleday & Company, Inc., GardenCity, 1958, p104
۷۔
Barrett, Op. cit, pp 97 ff
۸۔
Pascal, Pensées, para 206
۹۔
یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی ، میں شعلۂ سینائی!
(اقبال، محمد، علامہ، بال جبریل، مشمولہ کلیات اقبال (اردو)، لاہور، اقبال اکیڈمی، 2009، ص 49-448.)
۱۰۔
Camus, Albert, The Myth Of Sisyphus And Other Essays, Tr. Justin O’Brien, London, Penguin o Books,1955, p35
بشکریہ بنیاد، لمز ، لاہور 2022
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر عزیز ابن الحسن صاحب شعبہ اردو، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور شعبے کے تحقیقی جریدے “معیار” کے مدیر ہیں۔
کمنت کیجے