Home » ناموسِ صحابہ بل: تین توضیحات اور ایک گزارش
فقہ وقانون

ناموسِ صحابہ بل: تین توضیحات اور ایک گزارش

پہلی توضیح یہ ہے کہ “بل” اس مسودے کو کہتے ہیں جو پارلیمان میں پیش کیا گیا ہو، لیکن ابھی اس نے “قانون” کی حیثیت حاصل نہ کی ہو۔ بل پارلیمان کے کسی بھی ایوان (قومی اسمبلی یا سینیٹ) میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اسے دونوں ایوانوں سے منظور کرانا ضروری ہوتا ہے اور اس کے بعد اس پر صدر دستخط کرتے ہیں، تو پھر اسے “ایکٹ” یعنی قانون کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔
اس بل کا سفر قومی اسمبلی سے شروع ہوا جہاں مولانا عبد الاکبر چترالی نے اسے پیش کیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں سینیٹر حافظ عبد الکریم نے پیش کیا اور سینیٹ نے بھی اسے منظور کرلیا۔ ابھی صدر کے دستخط رہتے ہیں جس کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری توضیح اس موضوع پر رائج الوقت قانون کے بارے میں ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس موضوع پر یہ پہلی قانون سازی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے 1980ء میں ایک آرڈی نینس جاری کرکے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 298-اے کا اضافہ کیا تھا جس کے ذریعے امہات المؤمنین، صحابۂ کرام اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کسی کی شان میں گستاخی پر تین سال تک قید یا جرمانہ یا قید اور جرمانے دونوں کی سزائیں مقرر کی گئیں۔
آرڈی نینس عارضی قانون ہوتا ہے اور 120 دن بعد ختم ہوجاتا ہے لیکن مارشل لا دور میں یہ قانون نافذ رہا کیونکہ یہ فوجی سربراہ کا حکم تھا اور مارشل لا میں فوجی سربراہ کے حکم کو قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ 1985ء میں جب مارشل لا ختم کیا جارہا تھا، تو اس سے قبل جنرل ضیاء الحق نے یہ یقینی بنایا کہ اس کے جاری کردہ آرڈی نینس بعد میں بھی جاری رہیں۔ چنانچہ آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ان کو تسلسل دیا گیا اور دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی آج تک رائج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری توضیح اس نئے بل کے موضوع کے بارے میں ہے کہ جب پہلے سے قانون موجود ہے، تو نئے قانون کی کیا ضرورت تھی؟
بل کے محرّک جناب مولانا عبد الاکبر چترالی کا کہنا ہے کہ اس جرم پر بہت کم سزا مقرر کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ قانون صحابہ کی شان میں گستاخی کو روک نہیں سکا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے کم تر جرائم پر اس سے زیادہ سخت سزائیں موجود ہیں۔ چنانچہ نئے بل میں اس جرم پر کم از کم دس سال کی قید یا عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
سزا میں اضافے سے زیادہ اہم پہلو ضابطے کی کارروائی کا ہے۔
چنانچہ رائج الوقت قانون کی رو سے یہ جرم قابلِ ضمانت ہے، یعنی اس میں ملزم اپنے لیے ضمانت پر رہائی بطورِ قانونی حق کے طلب کرسکتا ہے اور جب تک کوئی بہت ہی سنگین معاملہ نہ ہو، اسے ضمانت پر رہا کرنے کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ نئے بل میں اسے ناقابلِ ضمانت قرار دینے کا کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف استثنائی صورتوں میں ہی ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جاسکے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ رائج الوقت قانون کے مطابق جب اس جرم پر کارروائی شروع ہو تو ابتدا میں عدالت سمن جاری کرتی ہے، اس پر ملزم حاضر نہ ہو، تو اس کے بعد عدالت پولیس کو حکم دیتی ہے کہ اسے گرفتار کرکے لایا جائے۔ نئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ عدالت پہلے قدم پر ہی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس وقت اس مقدمے کی سماعت مجسٹریٹ کرتا ہے۔ چونکہ نئے بل میں جرم پر سزا بڑھادی گئی ہے تو یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اب اس مقدمے کی سماعت سیشن کی عدالت میں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک گزارش:
میری ناقص راے میں ان ترامیم میں جرم کی روک تھام کے پہلو پر تو توجہ کی گئی ہے لیکن یہ پہلو نظر انداز کیا گیا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔
اس سوء استعمال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس جرم کی تعریف میں “نیت”، “ارادے” یا “علم” کی شرط رکھی ہی نہیں گئی۔ چنانچہ کوئی بھی شخص کسی بھی مخالف کی کسی بھی بات کو گستاخی قرار دے کر پرچہ کٹوا سکتا ہے۔ اگر جرم کی تعریف میں یہ شرط شامل کی جائے کہ کسی نے یہ فعل “جانتے بوجھتے” یا “قصداً” یا “کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی نیت سے” کیا جیسے الفاظ شامل کیے جائیں، تو اس قانون کا سوء استعمال روکا جاسکے گا اور پھر سزا کی شدت پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں