مسلمانوں کی علمی روایت میں موجود اصولیین اور محدثین، دونوں بعض احادیث کو”متواتر” قرار دیتے ہیں۔
کیا یہ وہی “تواتر” ہے جو قرآن مجید کے نقل کے موقع پر بیان کیا جاتا ہے،اور جس کی تعریف یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ ’خبر عدد يمتنع معه – لكثرته – تواطؤ على كذب‘ ،’’یعنی ایسی خبر جو اتنے لوگوں نے بیان کی ہو جن کی کثرت کی وجہ سے ان کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا محال ہو‘‘؟یا جسے اہل علم، علم العامۃ یا نقل الکافۃ عن الکافۃ یا قداجمع المسلمون کی تعبیر میں بھی بیان کرتے ہیں۔حدیث پر تواتر کا حکم لگانے والے اہل علم اس بارے میں دو آرا رکھتے ہیں:
پہلی یہ کہ حدیث کے تواتر سے مراد یہ ہے کہ جس طرح کسی خبر کا متواتر ہونا قطعیت، یعنی یقین کا فائدہ دیتا ہے، اسی طرح اگر کوئی خبرواحد بھی قطعیت یا یقین کا فائدہ دے تو اس کی حیثیت بھی تواتر تک پہنچ جانی چاہیے۔ لہٰذا ان کے نزدیک حدیث کا “تواتر” کیفیت نقل کا نام نہیں، بلکہ ’’علم القطع” کے حصول کی بنیاد پر کسی خبر کا حکم ہے‘‘۔
اس راے کو اہل علم ’ما أفاد القطع‘ سے بیان کرتے ہیں، یعنی وہ خبر جس وقت وجود میں آئی تو ابتداء خبر واحد کے طریقہ پر ہی ہوئی اور نقل بھی وہ خبر واحد کے اصول پر ہوئی ہے، لیکن اس خبر واحد میں جو بات بیان ہوئی، وہ چونکہ قطعیت اور یقین کا فائدہ دیتی ہے، لہٰذا اس حدیث کو نتیجے کے لحاظ سے تواتر کے’’ قائم مقام‘‘ سمجھ لینا چاہیے۔
دوسری راے یہ ہے کہ اگر کسی خبر کو لوگ، معتد بہ تعداد میں بیان کرنا شروع کردیں تو وہ بات بھی اس درجہ تک پہنچ جاتی ہے جس درجہ میں کوئی متواتر خبر پہنچتی ہے۔ لہٰذا جب معاشرے میں افراد کی اتنی بڑی تعداد ان ’’اخباراحاد‘‘ کو بیان کرنے لگ جائے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہو تو اسے بھی “متواتر” مان لینا چاہیے۔
ہمارے نزدیک ان دونوں آرا کے تحت حدیث پر “تواتر” کی صفت کو شامل کرنا محل نظر ہے۔
پہلی راے کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تواتر کا تعلق کسی عمل کے نقل ہونے کی ایک خاص کیفیت سے ہے ۔اس کا تعلق نفس مضمون کے “صدق” اور “کذب” سے نہیں ہے۔
مثلاً یہ بات کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد بیان کرتی ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہے کہ محمد بن عبداللہ ایک انسان تھے، جنھوں نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو یہاں رسول اللہ کے اس دعویٰ کی صداقت زیربحث نہیں ہے ۔ یعنی چونکہ لوگوں نے اس واقعے کو متواتر نقل کیا ہے، لہٰذا آپ سچے رسول ہی تھے،آپ کی رسالت کی سچائی اس متواتر خبر میں زیر بحث نہیں ہے،بلکہ اس دعویٰ کے مطلق حدوث پر انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کا اتفاق ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا ًمحال ہے۔گویا یہ واقعات کے حدوث کے بارے میں انسانوں کا “مشترک حافظہ” ہے۔
اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قائد اعظم پاکستان کے بانی تھے۔یہ خبر متواتر ہے۔پوری قوم اسے بیان کرتی ہے،لیکن یہ بات بیان کرنے سے لازم نہیں آتا کہ آپ ہی کو بانی ہونا بھی چاہیے تھا۔اس دعوے کا تعلق دوسرے دلائل سے ہے، محض “تواتر” سے خبر نقل ہونے سے نہیں ہے۔
چنانچہ کسی قطعی حقیقت کو “تواتر” کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے،اس لیے خبر واحد کو ’ما أفاد القطع‘ کی وجہ سے “تواتر” کا قائم مقام بنانا درست نہیں ہے۔ “تواتر” نقل علم کی اصطلاح ہے، کسی بات کی قطعی صداقت کے حصول کا ماخذ نہیں ہے۔
دوسری راے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ تواتر کوئی “دینی اصطلاح” نہیں ہے، بلکہ یہ نقل علم کی اصطلاح ہے۔یہ اصطلاح علم و عقل کے مسلمات کو سامنے رکھ کر وضع کی گئی ہے ۔انسان اس ذریعے علم سے حقائق کا ادراک کرتا ہے۔لہٰذا جس واقعہ کی اپنے حدوث کے وقت سے آج تک اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے گواہی دی ہو جن کا مل کر جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہو اسے تو خبر متواتر کہا جا سکتا ہے، لیکن وہ خبریں جو حدوث کے وقت تو نہیں، لیکن اس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بیان کرنا شروع کردی ہوں وہ اس لیے متواتر نہیں قرار دی جا سکتیں کیونکہ جو چیز اس ذریعہ علم کو قطعی بناتی ہے وہ کسی واقعے کے حدوث کے وقت لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں شھادت ہے،یعنی جس وقت وہ واقعہ وجود پزیر ہو رہا ہو اس وقت سے اسے “متواتر” ہونا چاہیے نہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی خبر کے معروف یا مشہور ہو جانے سے وہ بات تواتر کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواتر کے اسی محکم ذریعۂ علم کو خدا کا دین پہنچانے کے لیے اختیار فرمایا ہے۔اللہ کے رسول نے قرآن مجید اور سنت کو اپنے حدوث کے وقت ہی سے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد تک پہنچایا جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال تھا، اسی لیے آج بھی ہم پورے اعتماد سے دنیا کو یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ قرآن و سنت دو، چار، آٹھ افراد نے نہیں، بلکہ انسانی نسلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ہم تک منتقل کیا ہے۔
چنانچہ تواتر ’’نقل علم ‘‘ کی اصطلاح ہے، یہ کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے، لہٰذا کوئی خبرواحد کسی قطعی حقیقت کو بیان کر کے متواتر بن جاتی ہے، نہ ہی بعد میں مشھور ہوجانے سے اسے متواتر قرار دیا جا سکتا ہے۔
رہی بات اخبار احاد کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ باتیں ہم تک انفرادی رپورٹنگ ہی کے طریقے پر منتقل ہوئی ہیں۔یہ آپ کی زندگی کا تاریخی ریکارڈ ہے۔اگر کسی خبر واحد کی صحت پر ہمارا اطمینان ہےاور وہ اصل دین یعنی قرآن و سنت ہی کی تفہیم و تبیین پر مبنی ہیں تو اسی بنا پر واجب اطاعت ہے۔ان سے سرمو انحراف نہیں کیا جا سکتا، قرآن مجید نے یہ بتا دیا کہ دین کے کسی بھی معاملے میں اللہ کے پیغمبر کے فیصلے کو ماننا ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے۔اس مقصد کے لیے خبر آحاد کے منتقل ہونے کی کیفیت کو تبدیل کرنا خلاف حقیقت ہے۔
کمنت کیجے