Home » پاسکل کی الہیاتی وجودیت اور ہمارا تہذیبی آشوب ( قسط نمبر 3)
شخصیات وافکار فلسفہ کلام

پاسکل کی الہیاتی وجودیت اور ہمارا تہذیبی آشوب ( قسط نمبر 3)

ڈاکٹرعزیز ابن الحسن

اب کچھ باتیں پاسکل اور وجودیت پر۔۔

ہم نے مضمون کے آغاز میں پاسکل اور وجودیت کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں۔ اب ہم پھر اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ مگر پہلے “خواطر” سے پاسکل کا ایک خوبصورت اور ادبی معنویت کا حامل یہ ’’وجودیتی‘‘ اقتباس دیکھیے:

“انسان محض ایک سرکنڈا ہے، فطرت کی سب سے کمزور چیز۔ وہ صرف سوچنے والا سرکنڈا ہے۔ اس کو کچلنے کیلئے کائینات کو ہتھیار بند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بخار، پانی کی ایک بوند اسے مارنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن، اگر کائنات  اسے کچل ڈالتی، انسان تب بھی اپنے قاتل سے زیادہ بلند مرتبہ ہوتا کیونکہ وہ اپنی موت کو جانتا ہے اور اس حوالے سے کائنات، اس سے بڑے ہونے کا تفوق رکھنے کے باوجود، اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ بس ہمارا سارا وقار اور عظمت ہمارے سوچنے میں ہے۔ اس کے ذریعہ ہمیں خود کو بلند کرنا چاہئے ، نہ کہ زمان اور مکان کی بنیاد پر جسے ہم کبھی بھر نہیں سکتے۔ آئیے ، ہم اچھا سوچنے کی کوشش کریں۔ یہی اصولِ اخلاق ہے۔” ۲۲

پاسکل کی اس وجودیت کو بیسویں صدی کی وجودیت کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوال ہے کہ اگر ایگزسٹنشلزم کی ژاں پال سارتر ( ۱۹۰۵ء- ۱۹۸۰ء) کی ’’وجود جوہر پر مقدم ہے‘‘۲۳ والی یہ تعریف درست ہے تو پھر پاسکل جو انسان کو آزاد بھی مانتا ہے اور مجبور بھی جس کے نزدیک عقل بھی ابر آلود ہوتی ہے اس لئے اصل فیصلہ کن عامل خدائی فضل ہی ہے نہ کہ انسانی عمل تو پھر پاسکل جیسے ’’فضلی‘‘ کو وجودی کیسے کہا جا سکتا ہے؟؟

اس سوال کا کچھ جواب ہمیں وجودیوں کے ذمہ داری والے تصور میں مل سکتا ہے۔ ان کے نزدیک چونکہ  انسان دنیا میں اس کی خواہش اور مرضی کے بغیر پھینک دیا گیا اس لیے اس لئے خواہی نہ خواہی وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔

Man     is     condemned      to      be      free;      because      once       thrown       into      the      world,       he       is       responsible        for       everything        he     does. 24

’’اس جبری آزادی‘‘ سے اس کے اندر ذمہ داری کا ہولناک احساس، ’’وجودی کرب‘‘ (Existential angst)، پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو سارتر کا تصور ہوا۔ اس کے دوست اور بعد میں اس سے فکری علیحدگی اختیار کرنے والے البرٹ کامیو نے، جو وجودیوں کا دوسرا بڑا امام ہے،      The      Myth       Of Sisyphus میں اس نے دنیا اور اس میں انسانی صورتحال کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ البرٹ کامیو یہاں اس لیے بھی زیادہ بامعنی ہے کہ ’’وجودی کرب‘‘ سے نجات کے لئے ایمان کا راستہ اختیار کرنے کو وہ فلسفیانہ خودکشی کہتا ہے اور یہ بات پاسکل کے ایمانی تصور سے بالکل متضاد ہے! البرٹ کامیو کا کہنا ہے کہ میں دنیا کو دیکھ چکنے اور چھو کر اس کے موجود ہونے پر کوئی رائے قائم کر سکتا ہوں اور بس اس سے آگے میرا علم ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد جو کچھ ہے وہ بس ایک تشکیلیہ ہے۔

     This     world      I      can      touch       and      I       like wise      judge       that       it      exists.      There       end      s all       my       knowledge,       and       the      re st is construction.       For       if       I      try      to        seize      this       self       of        which       I      feel       sure,       if       I       try       to        define        and        to       summarize       it,       it        is nothing       but        water        slipping        through        my        fingers 25

یہ کائنات بس ’ہے‘، اس میں نہ کوئی معنویت ہے اور نہ کسی عقلی دلیل سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں انسان ایک ازلی بے معنی بیگار کاٹنے کے لئے آیا ہے۔ البرٹ کامیو کے نزدیک دنیا کی لایعنیت (ایبسرڈٹی) کی بہترین تمثیل سسیفس (Sysiphus) ہے جسے دیوتاؤں نے ایک چٹان کو چوٹی پر پہنچانے کی مستقل مشقت پر لگا رکھا تھا۔ بِھنچے چہرے اور بچکے گالوں والے سسیفیس کا کندھوں پر چٹان اٹھا کر چوٹی پر جانا پھر پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بے بسی سے اسے نیچے لڑکھتے دیکھنا اور ہزارویں لاکھویں دفعہ پھر اسے اوپر لے جانے کا عمل، کامیو کے نزدیک لایعنیت کی علامتی تمثیل ہے اور ازل سے جاری اس ڈرامے کا ابسرڈ ہیرو سسیفس ہے۔ جب وہ بے کسی سے نیچے لڑکھتے پتھر کو دیکھتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کی یہ مشقت کب تک جاری رہے گی تو یہ لمحۂ کرب اس کیلئے لمحۂ شعور ہوتا ہے جو مقدر پر اسکی فضیلت کا ضامن بنتا ہے۔ یہ کہانی اگر ایک المیہ اسطورہ ہے تو صرف اس لیے کہ اس کا ہیرو باشعور ہے۔  دنیا میں آج کا مشقتی انسان بھی اسی غیر مختتم لایعنیت کا شکار ہے اور وہ علامتی ابسرڈ ہیرو سسیفس سے کسی طرح کم ابسرڈ نہیں ہے۔ سسیفس اپنے دیوتاؤں کا پرولتاری تھا اسی کی طرح آج کا انسان بھی اپنے ماحول میں نامختتم مشقت اور لایعنیت کی اذیت کے شعور کی وجہ سے اپنے سر پر فتحمندی کا تاج رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ بے معنی ہے مگر اس کے باوجود وہ اس سے نظریں نہیں چراتا، لایعنیت کی اذیت کو پورے شعور کے ساتھ قبول کرکے آزادی اور کامرانی پاتا ہے۔ ۲۶

پاسکل کے درج بالا اقتباس ’’انسان محض ایک سرکنڈا ہے۔۔۔‘‘ کو اگر سارتر اور کامیو کے ذمہ داری اور شعور کے ان تصورات سے موازنہ کر کے دیکھا جائے تو پاسکل کی وجودیت اور بیسویں صدی کی وجودیت میں ہمیں انسانی فضیلت کی بنیاد علم اور شعور نظر آتا مگر اس علم اور شعور کی بنیاد پر دنیا اور کائنات کے بارے میں رویہ اختیار کرنے کے معاملے پر پاسکل اور کامیو وغیرہ میں لاکھوں فرسنگ کا اختلاف ہے۔ پاسکل بیرونی کائنات سے اپنے علم کے امتیاز کی بنیاد پر کائنات سے بلند ہوکر ماورا سے اپنا تعلق پیدا کرنے کا سامان نکالتا ہے جس کا دوسرا مطلب خدا پر ایمان ہے جبکہ اس کے برعکس ملحد (atheist) وجودیوں کے نمائندے کے طور پر کامیو کے نزدیک ایمان ایک طرح کی خودکشی ہے جس سے وہ جسمانی خودکشی کے مقابلے ’’فلسفیانہ خودکشی‘‘ کہتا ہے۔ خودکشی اور فلسفیانہ خودکشی کے بارے میں اپنے ’’سسیفس اسطورہ‘‘ میں البرٹ کامیو نے جا بجا کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں اس کے دو اجزاء بعنوان Absurdity         and        Suicide اور Philosophical       Suicide۔ خودکشی کے مسئلے سے پہلے کامیو کے لایعنیت/ ایپیسرڈ کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے مطابق انسان کے اندر زندگی اور کائنات کی حتمی معنویت کا سراغ لگانے کی انتھک خواہش ہے مگر تمام تر عقلی کاوشوں کے باوجود انسان کو جب اس کا کوئی بامعنی جواب نہیں ملتا تو اس کے اندر ایک مایوسی پیدا ہوتی ہے اس مایوسی کی شناخت لایعنیت سے ہوتی ہے۔ اس مہملیت /ایبسرڈٹی کا حاصل ایک ہولناک جذبہ خوف، دہشت یا وجودی کرب ہے۔ مگر اصل سوال اس جذبے کے ساتھ نباہ کر سکنے اور اس کے قوانین کو قبول کرسکنے کا ہے۔ ۲۷

اپنی تمام تر عقلی کاوشوں کے باوجود انسان کو جب کائنات میں کسی معنویت اور مقصدیت کا سراغ نہیں ملتا تو اس ایبسردٹی کے کرب کی سہار نہ پا کر بعض لوگ خود کشی کرتے ہیں اور بعض مذہب میں پناہ لیتے ہیں۔ کامیو ان دونوں صورتوں کو حقیقت سے فرار اور برا سمجھتا ہے(اگر کوئی خدا کو نہیں مانتا تب بھی اس کے لیے خود کشی جائز نہیں۔ مقدمہ سسیفس)۔ جسمانی خودکشی اس لیے بری ہے کہ یہ ذہن یعنی آلہ شعور کو ختم کردیتی ہے جسکا کام عقلی بنیاد پر کائنات کی معنویت کی تلاش میں وجودی کرب کی نا بجھنے والی آگ میں جلتے ہوئے ظفرمندی کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ یہ گویا دیوتاؤں کے خلاف انسان کی بغاوت ہے جو لڑتے لڑتے موت سے ہم کنار ہونیوالے آدمی کا احساسِِ تفافر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایمانی زقند(Leap      of       Faith ) یعنی مذہبی مفہوم میں خدا پر ایمان لانے کو کامیو فلسفیانہ خودکشی کہتا ہے۔ فلسفیانہ خودکشی کو کامیو اس لیے ناپسند کرتا ہے کہ یہ شعور کے لازمی اقتضا یعنی لایعنیت کے روبرو ڈٹ کر رہنے والے استدلالی عمل اور عقلی فعلیت کو معطل کرنے کاراستہ ہے۔ کامیو لایعنیت سے آنکھیں چرانے والے کسی ارضی اخلاقی نظرئیے کو قبول کرنے کا حامی ہے اور نہ ایمانی زقند والی سماوی حیات ابدی والے تصور کو قبول کرنے پر راضی ہے۔

یہاں یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب دنیا مہمل/ ایبسرڈ ہے ہر قسم کی معنویت، مقصدیت اور اخلاقی قدر سے خالی ہے اور عقل کی مدد سے اس میں کوئی معنویت پیدا بھی نہیں کی جاسکتی تو پھر ایسی کٹھور دنیا میں انسان کس برتے پر اور کب تک لایعنیت کا جوا گلے میں ڈالے کولھو کا بیل بن کر زندہ رہ سکتا ہے؟ ایبسرڈ ہیرو کو رومانویت کے سنگھاسن پر جتنا چاہے چڑھایا جائے، حقیقت یہ ہے کہ لایعنیت کا یہ بوجھ زیادہ دیر تک سارتر اور کامیو خود بھی نہیں ڈھو سکے تھے۔ تنگ آکر ایک(سارتر) نے مارکسییت کی نظریہ بازی میں پناہ لے لی اور دوسرے(کامیو) کی ’’انسان دوستی‘‘ نے الجزائری مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کر کے الجزائر کی تحریکِ حریت کی مخالفت اور فرانس کے استعماری عزائم پر خاموشی شعار کرکے اپنا ایک ’’مقصد‘‘ ایجاد کرلیا تھا۔ ایسی مزے کی انسان دوستی پر کون نہ مر جائے اے خدا!

محمد حسن عسکری (۱۹۱۹ء-۱۹۷۸ء) جو ویسے البرٹ کامیو کی ادبی وسماجی حسّیت کے بہت قائل تھے اور ادیب کی سماجی ذمہ داری کے مسئلے پر کامیو کی ادبی تحریروں کو بطور مثال پیش کیا کرتے تھے مگر جب اس نے فرانسیسی نوآبادیات سے الجزائر کی جنگ آزادی(۱۹۵۴-۱۹۶۲) کے دوران اپنے آبائی وطن الجزائر کے بجائے فرانسیسی استعمار کا ساتھ دینا شروع کیا تو سن ۱۹۵۷ء ۱۹۵۸ء کے اپنے متعدد مضامین میں عسکری نے کامیو کی اس دو عملی/ منافقت پر کھل کر آواز اٹھائی تھی۔ ۲۸ اسی طرح ایڈورڈ سعید (۱۹۳۵ء -۲۰۰۳ء) نے بھی ۱۹۹۳ء میں چھپنے والی اپنی کتاب “کلچر اینڈ امپیریلزم” میں کامیو کے ناولوں میں الجزائر کے ’’بے نام و بے چہرہ‘‘ عرب کرداروں کے تجزیے کے ذریعے کامیو کی خاموش استعمار پرستی پر سوال اٹھائے ہیں اور اس سے پہلے “اورینٹلزم” میں بھی اس پر کلام کر چکا تھا۔ ۲۹ سوال ہے کہ اس اندھی بہری اور شعور سے عاری کائنات کے مہیب اور بے کراں سناٹے میں بھٹکتے انسان کو اگر پاسکل ماورا کا راستہ دکھائے تو اسے فلسفیانہ خودکشی کیوں قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ ’’وجودی کرب‘‘ کا انجام صرف خودکشی یا زیادہ سے زیادہ کسی جعلی مقصد ایجادی کے سوا کچھ نہیں؟

جدید وجودیوں کے ہاں کائنات اور زندگی کا بنیادی اصول لامعقولیت (Irrationalism) ہے جبکہ پاسکل جیسے لوگ عقل کو رد کرنے کے بجائے اس کی محدودیت کے سبب دل سے رہنمائی پانے کا چینل کھلا رکھتے ہیں۔ ان دونوں رویوں میں بہت بنیادی فرق ہے: جدید لامعقولیت، جس کی طرف ابتدائی مگر نہایت پر اعتماد قدم، جدیدیت کے آخری سانسوں کے زمانے میں بلاشبہ، ایگزسٹنشنلسٹوں نے اٹھائے مگر جسے آخری حدوں تک مابعد جدید مفکرین لے گئے، کا المیہ یہ ہے جب یہ منہ کے بل گرتی ہے تو پھر آگے کا کام جذبے اور حیوانی جبلتیں سنبھال لیتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پاسکل جیسے لوگوں کا طریق کار نیچے گرنے کی بجائے ہمیشہ اوپر کیطرف اٹھنے کا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج کے ذہن کے لیے دل کی منطق والی بات کوئی عجوبہ ہو لیکن دیگر تہذیبوں کی طرح قرون وسطیٰ کی مسیحی تہذیب بھی دل کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے والی تہذیب تھی۔ “خواطر” میں اس طرح کے خیالات اکثر ملتے ہیں:

“دل کی اپنی عقلیں ہوتیں ہیں، جنہیں عقل نہیں جانتی۔ ہم یہ ہزاروں چیزوں میں محسوس کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ دل فطری طور پر وجود کلی سے پیار کرتا ہے، اور بالکل فطری طور پر کچھ چیزوں کو یہ اپنا آپ بھی دے دیتا ہے اور اپنی مرضی سے ہی کسی ایک یا دوسری شے کے خلاف سخت ہوجاتا ہے۔ تم نے ایک کو مسترد کردیا ہے اور دوسرے کو رکھا ہے۔ تم جو خود سے محبت کرتے ہو تو کیا یہ عقل کی بنیاد پر ہوتا ہے؟

یہ دل ہے جو خدا کو محسوس کرتا ہے نہ کہ عقل۔ پس یہ ایمان ہے: خدا کو دل نے محسوس کیا ہے نہ کہ عقل نے۔

ہم سچائی کو نہ صرف عقل سے جانتے ہیں بلکہ دل سے بھی جانتے ہیں ، اور یہ آخر والا ہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اصول اولیہ کو جانتے ہیں۔ اور عقل جس کا اس معاملے میں کوئی حصہ نہیں  ہے وہ انہیں رد کرنے کی ناحق ہی کوشش کرتی ہے۔ متشککین جن کے پاس اپنے مقصد کے لیے بس یہی عقل ہے بیکار ہی مشقت جھیلتے ہیں۔”۳۰

اب ہم اپنے اس بنیادی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ پاسکل کو کس حد تک وجودی (Existentialist) قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیکراں کائنات کی وسعتوں میں ذرے کی سی حیثیت والے انسان کی نوحہ گری کرنے اور خدائی فضل کی بنیاد پر آزادی پاکر اپنی ’’ذمہ داری‘‘  اور ’’عمل‘‘ سے مفر نہ پاسکے والا تصورِ انسان رکھنے کی وجہ سے پاسکل بے شک وجودی ہے۔  اس کے علاوہ پاسکل میں اور بیسویں صدی کے وجودیوں میں کوئی شے مشترک نہیں۔ اس طرزِ وجودیت میں اگر کوئی شخص پاسکل کے کچھ قریب پہنچا ہے تو وہ کیرکےگور ہے۔ ولیم بیریٹ(۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء) نے کیرکے گور کے بارے میں لکھا ہے کہ اپنے آبائی شہر کوپن ہیگن کے گلی کوچوں میں اپنی جھکی کمر، بدقطع جسم اور بدوضع حلیے و ہئیت کذائی کیساتھ جب وہ نکلتا تو قصبے کے لونڈے لپاڑے اس کبڑے کے پیچھے اچھلتے کودتے شور مچاتے “!Either/or! Either/or کے نعرے لگاتے جاتے مگر وہ گردو پیش سے بے نیاز اپنی سوچوں میں گم بجھگاہ بنا چلتا رہتا مگر ہیگل کا ذکر آتا تو وہ چمکتی ننگی تلوار بن جاتا!  اس کا معروف جملہ ہے:

It      was       intelligence        and       nothing         else        that        had        to        be        opposed.       Presumably         that         is       why         I,        who         had        the         job,        was  armed        with       an        immense         intelligence

 بغیر کسی بناوٹی انکسار اور بنا کوئی شیخی بگھارے اس نے اپنے بارے میں کتنی سچی بات کہہ دی ہے۔۔۔ بیرٹ کا کہنا ہے کہ کیرکے گور عقل کی بے توقیری بالکل نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس وہ اس کا ذکر احترام بلکہ تعظیم کے ساتھ کرتا ہے۔ تاہم تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر، بہترین عقلی قویٰ سے لیس کسی آدمی کی طرف سے تمام تر دستیاب وسائل اور طاقت کے ساتھ، عقل کی مخالفت ضروری تھی۔ اس سلسلے میں اس نے جو کامیابی حاصل کی اور جو کر دکھایا اس سے بہتر کچھ اور ممکن نہیں تھا! ۳۱

کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی میں سائنس کو عالم طبیعی میں اس کی تگ و تاز کے حتمی اور غیر متبدل تیقن سے باہر نکال کر عجز کی راہ پر رکھنے کا فریضہ کارل پاپر کے اصولِ بطلان و تغلیط (Falsification) نے سر انجام دیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دورِ جدیدیت کی مزعومہ  سب سے افضل انسانی صلاحیت، عقل، کو اسکی نارسائی کا یہ سبق بھی صدیوں پہلے پاسکل نے پڑھایا تھا:

“عقل کی انتہائی فعلیت یہ تسلیم کرنا ہے کہ چیزوں کی ایک لامحدود تعداد ہے جو اس کی حد سے باہر ہے۔  اب تک اگر وہ یہی نہیں جان سکی تو پھر یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن اگر طبعی چیزیں ہی اس کی حدِ رسائی سے باہر ہیں تو مافوق الطبیعت کا کہنا ہی کیا!۔”۳۲

عسکری سے مستعار ایک خیال کیمطابق کامیو اور دوسرے غیر مذہبی وجودی جب عقل کا انکار کرتے ہیں تو وہ نیجے حیوانی جبلتوں کے پاتال میں گرتے ہیں۔  ۳۳ جبکہ پاسکل جیسے اصحاب عرفان جب انسانی عقل کی محدودیت سے نکلتے ہیں تو بجائے پستی میں اترنے کے وہ اوپر ہی اٹھتے ہیں۔

ولیم بیرٹ نے پاسکل کے تصور خدا پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کہ اس کے نزدیک ہر زمانے میں ایسے ذہین لوگ موجود رہتے ہیں جو خدا کے وجود کے دلائل کو انتہائی وثوق انگیز سمجھتے ہیں اور انہی کی سطح کے ذہین لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وجود خدا کے دلائل کو انتہائی ناکافی اور غیر فیصلہ کن سمجھتے ہیں۔ اور مزے کی بات ہے کہ ان دونوں اطراف کے لوگ دوسری طرف والوں کو بدنیت بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے وجود خدا کے یہ دلائل صرف انہی کو متأثر کرتے ہیں جو انہیں قبول کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بالکل متاثر نہیں کرتے جو انہیں قبول نہیں کرنا چاہتے۔ لہذا یہ معاملہ ’’ثبوتوں” کا ہے ہی نہیں۔ کڑے عقلی استدلال کا مدلول بن سکنے والے خدا (خواہ یہ ‘استدلال’ آج موجود ہو یا گمان کرنا کہ مستقبل میں پیدا ہو جائے گا) کا سچی مذہبی ضرورت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ایسا خدا زیادہ سے زیادہ ایک مجرد دائرے یا مثلث کی طرح ایک نیوٹرل وجود ہی رہیگا جن کے بارے میں ماہرینِ جیومیٹری و ریاضی اپنے استدلالات کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہان پاسکل پکار اٹھتا ہے:

GOD       of         Abraham,         GOD        of       Isaac,         GOD         of         Jacob          not        of          the         philosophers         and         of         the        learned. 34

تو صاحبو بات یہ ہے کہ وجود خدا کے عقلی دلائل ایک صاحب ایمان کے کام کے نہیں ہوتے اور نہ ماننے والے کیلیے وہ تسلی بخش نہیں ہوتے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ عقل اور مذہب کے ہمیشہ سے جاری تنازعے میں توازن کی بات بھی پاسکل ہی نے کی ہے:

“اگر ہرشے کو عقل کے تابع کر دیا جائے تو مذہب میں کوئی پراسرار اور مافوق الفطرت عنصر نہیں رہے گا اور اگر ہم عقل کے اصولوں کی خلاف ورزی کریں گے تو مذہب مہمل اور مضحکہ خیز ہوکر رہ جائے گا۔”۳۵

***

اس طول کلامی میں پاسکل کے تصورِ خدا، انسان کی بےچارگی، دہشت اور وجودیت کے مسائل کو موضوع بنانے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے سب سے بڑے مسئلے ارتیاب و تشکیک اور الحاد کے لیے پاسکل کا یہ ذہنی سفر اور اس کے حاصلات بہت بامعنی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک وجودیت اور اس کے مباحث اردو ادب میں بھی بہت عام تھے مگر آج کل بوجوہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں وجودیت  کی بحثوں میں اگرچہ کیرکےگور کا بھی نام آتا رہا لیکن زمانے کی مخصوص رو کی ہم سمتی میں ہمارے ہاں سارتر اور کامیو کے وجودی تصورات زیادہ زیر بحث رہے ہیں۔ اپنے معروف مضمون “Existentialism       is      a       Humanism” میں سارتر نے وجودیت کے جو دو بڑے زمرے قائم کئے تھے ان میں اس نے جیسپرس (Jaspers) اور گابرئیل مارسل (Gabriel Marcel) کی گنتی مذہبی وجودیوں میں اور ہائیڈگر اور دیگر فرانسیسی وجودیوں کے ساتھ اپنا شمار ملحد (Atheist) وجودیوں میں کیا تھا۔۳۶   ساٹھ کے عشرے میں جب ہمارے ہاں وجودیت کی بحثیں عام ہوئیں ہمارے ادیبوں نے اگرچہ کھلے بندوں خدا کا انکار کبھی نہیں کیا تھا مگر انہوں نے افسردگی، اداسی، پژمردگی، مردنی، باطنی بنجر پن، انتشار، نراجیت، کرب، خوف، ایک مہیب وجودی لایعنیت اور مہمل صورت حال کے جو زیادہ اثرات قبول کیے وہ اکثروبیشتر سارتر اور البرٹ کامیو جیسے وجودیوں سے ہی آئے تھے۔ خدا و تقدیر بیزاری اور باطنی خالی پن و بے مقصدیت کے احساسات بھی ہمارے اردو ادب میں ایک زیریں اور خاموش رو کے طور موجود رہے ہیں۔

ادبی تھیوری اور اس کے ذیلی مباحث لسانیات، ساختیات، پس ساختیات، تانیثیت، نوتاریخیت، پسںنو آبادیاتی مطالعات اور ان سب کے ملغوبے ما بعد جدیدیت  کے مسائل نے ہمارے ہاں اب اگرچہ وجودیت کے مباحث کو پس پشت ڈال دیا ہے مگر مہا بیانیوں کے انہدام اور سماجی و تہذیبی تکثیریت کی نو بنو شکلوں کے باجود نراجیت، احساس تنہائی، بیگانگی، سماجی رشتوں کا کھوکھلا پن آج اور بھی زیادہ المناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ پرانا نوآبادیاتی بندوبست اگرچہ ختم ہو گیا ہے مگر چھوٹے ملک اور کمزور قومیں پہلے سے بڑھ کر شاطر طاقتوں کے اقتصادی شکنجوں میں ہیں۔ نفسی کیفیات کی زبونی اور روحانی احوال کا بنجر پن جو نفسیاتی تشکیک اور فکری ارتیابیت کا اصل سبب ہوا کرتا ہے وہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔ انسان آج بھی درماندگی اور لاچارگی کی اسی مہیب دبدھا میں مبتلا ہے جس کے کچھ نمونے ہم نے پاسکل کی خواطر میں دکھائے اور جو بعد میں ’’وجودی کرب‘‘ کے عنوان سے معروف ہوئے لیکن زمانے کا فیشن بدلنے کے سبب جو اب ان لفظیات و اصطلاحات میں زیر بحث کم آتے ہیں۔

جس طرح سارتر نے وجودیت کے مختلف مکاتب کا تجزیہ کرکے ان کا مابہ الاشتراک مسئلہ ’وجود کی جوہر پر تقدیم‘ بتایا تھا اسی طرح یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مابعد جدید مفکرین کے مابین باہمی طور پر خواہ جتنے بھی اختلافات ہوں مگر جدیدیت کے مابہ الاشتراک اور مدارالمہام عنصر، عقل، کے ’ناکافی پن‘ پر ان کے ہاں اکثر و بیشتر اتفاق پایا جاتا ہے اور اس امر کو ما بعد جدیدیت کی سب سے بڑی دین سمجھا جاتا ہے! لیکن حقیقت یہ ہے عقل کی کلی استعداد، مرکزیت اور خود مختاری پر سوالات اگرچہ کانٹ کے زمانے سے ہی اٹھنا شروع ہو گئے تھے مگر عقل کی حاکمیت  پر سب سے کڑی ضربیں دوسری بڑی جنگ کے بعد کے زمانے میں وجودیت و مہملیت پسندوں اور ایبسرڈ تھیٹر والوں نے لگائی ہیں اس لیے راقم کا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت کے سب سے بڑے سروکار، مہابیانیوں کے اختتام، کے پیچھے اصل کام وجودیت کے رویوں کا ہے۔  یعنی وہ مہم جو عیسوی روایت میں نہایت شدت کے ساتھ پاسکل نے شروع کی تھی بیسویں صدی کی وجودیت نے (اس فرق کے ساتھ جو اوپر بیان ہوا) اسے درجۂ  کمال تک پہنچادیا ہے۔

قیام پاکستان کے زمانے اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک ادب کی تہذیبی جڑوں کے سوالات کسی نہ کسی انداز میں ہمارے ادب کا موضوع بنے رہے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ پہلے اس طرف سے ایک لاتعلقی سی پیدا ہوئی اور اب ہمارے دانشور طبقے میں ان معاملات کی طرف باقاعدہ بیزاری و مخالفت کا رویہ پیدا ہو چکا ہے! آج جبکہ باقی دنیا کی طرح ہمارے پڑھے لکھے لوگ، ادیب اور دانشور بھی  اپنی مشترک تہذیبی جڑوں اور مذہبی اقدار سے بیگانہ ہوکر عموماً ایک تہذیبی آشوب کا شکار ہیں، تہذیبی اقدار کے زوال اور روحانی بنجر پن کی اس صورتحال میں کیا یہ ممکن نہیں کہ اردو ادب میں پھر سے کوئی وجودیت کی لہر پیدا ہو؟ اور اس دفعہ ہمارا ادب سارتر اور کامیو والی وجودیت کے بجائے پاسکل اور کیرکےگور والی وجودیت سے اپنا رشتہ جوڑے اور ایک ہمہ گیر تشکیک و ارتیاب سے نکلنے کا جو سامان پاسکل کی وجودیت فراہم کرتی ہے اسے اپنی بیمار دانش کا مسیحا بنائے؟

ہر زمانے کی طرح ہمارے دور کے بڑے مسئلے بھی تعقل، تشکیک، توہم اویا ضعیف الاعتقادی ہیں۔ تعقل کی حقیقی نوعیت جانے بغیر ہر شے کو تعقلات کا درجہ دینے کی بات ہو، تسلیم کی جگہ تشکیک کا ابتلا ہو، یا غور و فکر کی جگہ بے سوچے سمجھے تسلیم و رضا کی روش،  یہ تینوں رویے درحقیقت عقل کی اصل قوت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

ان تینوں مذموم و مسموم رویوں کے تریاق کے طور پر ہم پاسکل کی اس پُرحکمت بات کے آگے (بلا ترجمہ) سرِتسلیم خم کرتے ہوئے اس کتھا کھتونی کا یوں اختتام کرتے ہیں:

Submission. –      We       must      know        where       to      doubt,       where      to       feel      certain,       where     to      submit.      He      who     does       not       do      so understands       not       the      force       of      reason

There      are       some      who      offend      against        these      three       rules,       either      by      affirming      everything        as        demonstrative,      from want      of        knowing        what       demonstration      is;      or       by     doubting      everything,       from       want       of       knowing      where      to       submit;    or       by       submitting        in       everything,       from      want       of       knowing      where        they      must      judge.37

 

سر تسلیم من و خشت در میکدہ ھا
مدعی گر نکند فہم سخن گو سر و خشت

ناامیدم مکن از سابقہ لطفِ ازل
تو پسِ پرده چہ دانی کہ کہ خوب است و کہ زشت

(حافظ)

حواشی

۲۲۔

Pascal,      op.      cit.     , para 346

۲۳۔

Sartre,     “Existentialism        is        Humanism”,        in       Kaufmann,       Walter,      Existentialism         from        Dostoevsky         to        Sartre,      New York,        Meridian        Books, Inc., 1957, pp 289-290

٢٤۔

Sartre,     “Existentialism      is       Humanism”     , op.     cit,      pp 295

٢٥۔

Camus,     Albert,      The       Myth.., op.    cit, p 24

٢٦۔

Camus,     Albert,     The      Myth.., op.cit, p 108

Kaufmann,     Walter,     Existentialism      from      Dostoevsky      to     Sartre,      op.    cit,     pp11-51, 313ff

٢٧۔

Camus,     Albert,      The      Myth.., op.     cit,      pp 11, 32 & 22-2

٢٨۔

ملاحظہ ہوں عسکری کے مضامین، مشمولہ تخلیقی عمل اور اسلوب اور مقالاتِ محمد حسن عسکری۔

عسکری، محمد حسن، تخلیقی عمل اور اسلوب، (مرتبہ محمد سہیل عمر)، کراچی نفیس اکیڈمی، ۱۹۸۹ء۔

عسکری، محمد حسن، مقالات محمد حسن عسکری، جلد۱، ۲، (مرتبہ شیما مجید)، لاہور، علم و عرفان پبلشرز، ۲۰۰۱ء۔

٢٩۔

Said,     Edward      W, Culture      and      Imperialism,       London,      Vintage      Books, 1994, pp 208- 211

Said,      Edward    W,      Orientalism,      London      Penguin      Books, 2003, pp 312-14

فرانز فینون (۱۹۲۵ء-۱۹۶۱ء) اور ایڈورڈ سعید کی تحریروں سے اگرچہ مابعد نوآبادیاتی مطالعہ کا آغاز مانا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اردو کے نقاد محمد حسن عسکری نے ان سے کہیں پہلے اپنی تحریروں میں پس نوآبادیاتی مطالعات کی بنیاد رکھ دی تھی۔

٣٠۔

The     heart      has      its      reasons,     which      reason      does      not      know.     We      feel      it      in     a      thousand     things.     I     say      that      the      heart      naturally      loves      the      Universal      Being,      and     also     itself      naturally,      according      as      it      gives      itself      to      them;      and      it      hardens itself       against      one      or      the       other      at      its      will.     You      have      rejected       the      one       and      kept      the      other.     Is      it      by      reason      that     you  love     yourself

It      is      the      heart      which      experiences      God,       and       not      the      reason. This,      then,     is     faith:    God      felt      by      the      heart,      not      by      the reason

    We      know      truth,      not       only      by      the      reason,      but       also     by     the     heart,     and       it       is       in      this      last      way      that      we      know      first principles;      and     reason,       which      has       no      part      in      it,      tries      in vain      to      impugn      them. The       sceptics,       who      have       only      this      for       their      object,      labour      to      no      purpose

Pascal,     op.    cit,      para 277, 278, 282

٣١۔

Barrett,     William,      op.     cit,      p 149ff

٣٢۔

The      last      proceeding      of       reason      is      to      recognise      that      there       is      an      infinity      of      things      which       are      beyond      it.     It     is     but feeble      if      it      does      not      see      s o     far      as      to        know      this.      But      if      natural      things      are      beyond      it,      what     will      be     said     of supernatural

Pascal,      Pensées,      op.cit,      para 267

۳۳۔

عسکری، محمد حسن، تبصرہ بر اجنبی (از کامیو ترجمہ افضل اقبال)، مشمولہ مقالات محمد حسن عسکری، جلد ۱، (مرتبہ شیما مجید)، لاہور، علم و عرفان پبلشرز، ۲۰۰۱ء، ص ۵۸۲۔

٣٤۔

 Barrett,      William,      Irrational      man,     op.cit,     p 102

       Paul,     C Kegan,     The     Thoughts      of      Blaise     Pascal,     op. cit, p 3

٣٥۔

If      we      submit      everything      to      reason,      our      religion      will     have      no      mysterious      and      supernatural      element    . If we offend the principles of reason, our religion will be absurd and ridiculous

      Pascal, Pensées, op.cit, para 273

٣٦۔

Sartre,     “Existentialism        is       Humanism“,        in  Kaufmann,        op.cit, pp 289

٣٧۔

Pascal,    Pensées,      op.cit,      para 268

بشکریہ بنیاد، لمز، لاہور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر عزیز ابن الحسن صاحب شعبہ اردو، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور شعبے کے تحقیقی جریدے “معیار” کے مدیر ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں