مفتی محمد اویس پراچہ
“مال کسے کہتے ہیں؟ مال کی خصوصیت کیا ہے اور کیا کسی چیز کا مال ہونے کے لیے حسی یا مادی وجود رکھنا ضروری ہے؟ کیا کمپیوٹر میں موجود اشیاء (سافٹ وئیر، تصاویر وغیرہ) مال ہیں؟”
مال کی تعریف:
اصطلاح فقہ میں اور خصوصاً فقہ حنفی کی اصطلاح میں “مال” کسے کہتے ہیں؟ اس پر کچھ تفصیلی گفتگو حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی “فقہ البیوع” میں دیکھی جا سکتی ہے۔ میرےالفاظ میں خلاصہ اور کچھ اضافی تشریح یہ ہے کہ مالیت اور مالیت کا محل، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
مالیت سے علامہ شامیؒ کے الفاظ میں مراد یہ ہے کہ “جس کی طرف طبیعت مائل ہواور اسے وقت ضرورت تک کے لیے رکھا جاسکے، اسے مال کہا جائے گا۔” یہ چیز لوگوں کے کسی چیز کو مال سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام لوگ اس چیز کو مال سمجھتے ہوں یا بعض لوگ سمجھتے ہوں۔ جب لوگ کسی چیز کو مال سمجھیں گے، یعنی اس کی جانب میلان ظاہر کریں گے تو وہ “مال” کہلائے گی۔
مالیت کا محل کیا ہے یعنی وہ چیز جو مال بن سکتی ہے وہ کیسی ہوگی؟ فقہاء شوافع، حنابلہ اور مالکیہ کے یہاں کوئی “عین” بھی مال بن سکتی ہے اور کوئی “منفعت” بھی۔ جب کہ ائمہ احناف نے مال میں “عین” ہونے کی قید لگائی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ “عین” کیا ہے؟ لفظ عین کے لغت کے اعتبار سے کئی معانی ہیں اور فقہ میں عموماً اس کا معنی اس چیز کا کیا جاتا ہے جس کا کوئی حسی وجود ہو۔لیکن یہ معنی اصل میں “منفعت” کو نکالنے کے لیے کیا گیا ہے۔
“منفعت” کہتے ہیں سروس کے نتیجے یعنی فائدے کو۔ مثلاً ایک شخص نے دوسرے کو ملازمت پر رکھا تو وہ اس کی منفعت حاصل کرتا ہے یعنی اس کے عمل سے ہونے والا فائدہ حاصل کرتا ہے۔ احناف کے یہاں یہ چیز مالیت کا محل نہیں بنتی، یعنی اگرچہ یہ معاملہ درست ہے لیکن اس منفعت کو مال نہیں کہا جائے گا۔ یہ مالیت کا محل کیوں نہیں بنتی؟ اس کے لیے اوپر علامہ شامیؒ کی تعریف دوبارہ دیکھیے: “اسے وقت ضرورت تک کے لیے رکھا جا سکے۔”
منفعت کو ہم عام حالات میں وقت ضرورت تک کے لیے نہیں رکھ سکتے۔ “عام حالات” کی قید اس لیے لگائی کہ اگر منفعت کا حق ایسا ہو جس کا تعلق کسی باقی رہنے والی چیز سے ہو یا اسے عرف یا قانون سے ایسی مضبوطی مل جائے کہ وہ باقی رہے تو وہ بعض معاصرین کے یہاں مال کی حیثیت رکھتا ہے۔
معلوم ہوا کہ احناف کے یہاں باقی رہنے والی چیز مالیت کا محل ہے اور “عین” سے وہی مراد ہے۔ اس سے تمام تعریفات میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
مال اور مادی وجود:
جب یہ طے ہو گیا کہ مالیت کا محل وقت ضرورت تک باقی رہنےوالی چیز ہے تو اب اگر کوئی چیز ایسی ہے جس کا کوئی حسی وجود نہیں ہے لیکن وہ باقی رہ سکتی ہے تو وہ بھی مالیت کا محل ہوگی۔ اس کی سب سے عام فہم مثال “بجلی” اور “گیس” کی ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بجلی کو مال فرمایا ہے جیسا کہ فقہ البیوع میں مذکور ہے۔
بجلی کا کوئی مادی وجود نہیں ہوتا، وہ اپنے وجود میں تاروں اور آلات کی محتاج ہوتی ہے اور اسے دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ محسوس بھی اس صورت میں کیا جا سکتا ہے جب والٹیج زیادہ ہو۔ تکنیکی طور پر بھی وہ ایک توانائی ہے یعنی ایک چارج، اس کے علاوہ کچھ موجود نہیں ہوتا۔ اس کو مال قرار دینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مال ہونے کے لیے مادی وجود ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح گیس بھی ہے لیکن اس کا مادی وجود ہے، البتہ حسی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم بجلی کو اس کے آلات کا اجارہ نہیں کہہ سکتے؟ یعنی آلات سے ملنے والا نفع؟ اور اس کی قیمت اس نفع کی اجرت ہو؟ اس پر ان شاء اللہ کل گفتگو کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی محمد اویس پراچہ نے شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ کراچی سے ایم فل کیا ہے اور جامعۃ الرشید کراچی میں افتاء کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
Owais Paracha | Facebook
کمنت کیجے