علامہ لالکائی رحمہ اللہ کی کتاب کے دو بنیادی مسائل کیا ہیں؛ ایک تو تکفیری بیانیہ ہے یعنی پورے پورے گروہوں کو کافر کہا گیا ہے اور کتاب کفر کے فتووں سے بھری پڑی ہے۔ معتزلہ، قدریہ، جہمیہ سب کافر ہیں۔ معتزلہ اور قدریہ کافر ہیں یا نہیں؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ لیکن صرف اس پر اکتفا نہ کیا گیا کہ وہ کافر ہیں، ساتھ میں اس پر بھی اصرار کیا گیا کہ وہ واجب القتل اور مباح الدم ہیں۔ یہ بہت ہی خطرناک گھاٹی ہے۔ پھر کتاب میں صرف عقیدے پر کافر نہیں بنایا بلکہ بعض عملی مسائل پر بھی کافر اور واجب القتل ہونے کا فتوی لگا دیا۔
علامہ لالکائی رحمہ اللہ تارک صلوۃ یعنی نماز چھوڑنے والے کے بارے سلف کے اقوال نقل کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف کافر ہے بلکہ مباح الدم ہے یعنی اسے قتل کر دو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا معاصر اہل حدیث علماء کا یہی موقف ہے؟ اگر ہے تو اسے منبروں پر بیان کیوں نہیں کرتے؟ حق چھپا کیوں رہے ہیں؟ جب ایک بات اتنی تفصیل سے سلف سے بطور عقیدہ اور منہج ثابت ہو رہی ہے تو آپ سلفی عقیدے اور منہج سے انحراف کیوں کر رہے ہیں۔ کتاب کے مطابق سلفی عقیدہ یہ ہے کہ بے نمازی کافر ہے۔ اور سلفی منہج یہ ہے کہ بے نمازی کو قتل کر دیں۔ چلیں، قتل کا کام حکمران کرے گا، آپ یہ توجیہ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جو سلفی عقیدہ ہے، اور یہ منہج جو کہ سلفی منہج ہے، منبروں سے کیوں نہیں بیان ہو رہا؟ اگر آپ کو اس عقیدے اور منہج سے اتفاق نہیں ہے تو پھر آپ وہی کام کر رہے ہیں جو میں کر رہا ہوں کہ علامہ لالکائی کے بیان کردہ سلفی عقیدے ومنہج سے انحراف کی جرات۔
اسی طرح علامہ لالکائی رحمہ اللہ خلق قرآن کے مسئلے میں بہت تفصیل سے سلف کے اقوال لائے ہیں اور وہ سب کفر کے فتوے ہیں۔ جو قرآن مجید کو مخلوق کہے تو وہ کافر ہے، ایسا کافر ہے جو ملت اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔ جو کافر کے کافر ہونے میں شک کرے تو وہ بھی کافر ہے، مباح الدم ہے، واجب القتل ہے یعنی اس کو قتل کر دیں۔ اور جو یہ کہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق، تو وہ ان سے بھی بڑا کافر ہے۔ اور جو یہ کہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے میرے لفظ مخلوق ہیں تو وہ بھی کافر ہے۔ اس عقیدے کے حامل کی وراثت جاری نہ ہو گی، اس کا نکاح ختم ہو جائے گا، اس کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔ خالد القسری نے جعد بن درہم کو اسی عقیدہ کے رکھنے کے سبب عید الاضحی والے ذبح کیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے اللہ کی جناب میں قربانی ہے۔ یہ سارے فتوے جس گروہ کے بارے نقل ہوئے ہیں، انہیں معتزلہ کہتے تھے۔
اسی طرح علامہ لالکائی رحمہ اللہ نے قدریہ کے بارے کہا جو کہ تقدیر کو نہیں مانتے کہ وہ کافر ہیں، مباح الدم ہیں، واجب القتل ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو ایک میدان میں جمع کریں، اور انہیں توبہ کا کہیں، جو مان جائے تو ٹھیک، ورنہ گردن اڑا دیں۔ یا ایسا کریں کہ کسی پل پر کھڑے ہو جائیں، قدریہ ایک ایک کر کے آئیں، ان سے رجوع کا کہیں، اگر مان جائیں تو ٹھیک، ورنہ قتل کر کے پل سے نیچے دریا کے پانی میں پھینک دیں۔ یار کمال ہے، کوئی دوسری جنگ عظیم ہو رہی ہو کہ اس کا سین کھینچا جا رہا ہے۔ کس زمانے میں آپ کیسا عقیدہ اور منہج بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اچھا، ثور بن یزید کا گھر اس عقیدے کے سبب جلا دیا گیا تھا، یہ بھی لکھا ہے۔
جبر، جبر پیدا کرتا ہے۔ ایک زمانے میں معتزلہ نے اہل سنت کی تکفیر کی اور ان پر ملوک اور سلاطین کے ذریعے تشدد کروایا اور اپنی رائے ان پر زور زبردستی سے ٹھونسا چاہی۔ تو جب ان کا زور ٹوٹا تو اہل سنت یہ کام شروع کر دیا۔ ہمارے نزدیک یہ علمی طور درست رویہ نہیں تھا، بھلے رد عمل میں تھا۔ اور فی زمانہ تو ایسے فتوے پڑھنا پڑھانا دین کو مزید بدنام کرنے والی بات ہے۔ آج آپ نماز ترک کرنے والوں کو کافر بنائیں گے۔ اعتزال جدید کے حاملین کو کافر کہیں گے۔ پھر انہیں واجب القتل اور مباح الدم بنائیں گے۔ تو باری آنے پر وہی لوگ آپ کے ساتھ پھر یہی کام کریں گے۔
ہمارے نزدیک اصل مسئلہ مذہبی جبر اور اس کا پیدا کردہ ماحول ہے۔ یہاں کتنے علماء ہیں جو اپنی رائے اپنے ساتھ سینے میں لیے قبروں میں چلے جاتے ہیں، اس ڈر اور خوف سے کہ ان کے حلقے میں جو ریسپانس آنا ہے، وہ اس کے لیے ذہنا تیار نہیں ہیں۔ ہر دور میں فتووں اور سلاطین کی حمایت کے ذریعے علمی جبر کا ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری رائے میں آپ علمی مباحثے اور ڈسکشن کا ماحول پیدا کریں۔ اور اہل قبلہ کی تکفیر سے حتی الامکان گریز کریں۔ جو شخص بھی قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہا ہے تو وہ مومن ہے۔ ٹھیک ہے کہ بعض سلفی علماء نے معتزلہ اور قدریہ وغیرہ کو کافر کہا ہے لیکن مجھے اس مسئلے میں فقہائے احناف کی رائے زیادہ بہتر اور محتاط معلوم ہوتی ہے جو ان فرقوں کو گمراہ تو کہتے ہیں لیکن کافر نہیں بناتے۔ اب دیکھیں، زمخشری جیسے علماء بھی معتزلہ میں سے ہیں کہ تفسیر کشاف بلاغت کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔
تو پہلا مسئلہ یہ ہے کہ علامہ لالکائی کی کتاب پڑھنے پڑھانے سے طلباء میں تشدد کا رویہ پیدا ہو گا، بات بات پر کافر بنا دینا، پھر کلمہ گو کا خون حلال کر لینا، پھر اس کی عزت حلال کر لینا، پھر اس کا نکاح ختم کروانا، اس کی وراثت جاری نہ کرنا، پھر حکمرانوں کو اس کے قتل کی ترغیب دینا، یہ سب کچھ پڑھنا پڑھنا اور وہ بھی سلفی عقیدے اور منہج کے نام پر، بہت سے مفاسد پیدا کرے گا۔ اور یہ سب کچھ قرآن حدیث میں بھی تو نہیں ہے کہ جس کو گلے لگانا ضروری ہے۔ سلف کے فتوے ہی تو ہیں۔ اور ان میں سے بھی اکثر کی سندیں ثابت ہی نہیں ہیں۔ ضعیف اور منکر روایتیں ہیں۔ اور اگر ثابت ہو بھی جائیں تو سلف کا قول حجت نہیں ہے۔ اگر حجت ہے تو بے نمازی کو کافر اور واجب القتل قرار دیں۔ مرد بنیں۔
دیکھیں، ماحول کو سمجھیں۔ وقت کے تقاضوں کو سمجھیں۔ سعودی عرب کے ماحول میں شاید اس قسم کے فتوے اور آراء سلفی عقیدے اور منہج کے نام سے پڑھائے جا سکتے ہوں لیکن بر صغیر پاک وہند کا ماحول بہت مختلف ہے۔ یہاں مسلک بھی بدنام ہو گا اور مذہب بھی۔ اور خواہ مخواہ ایک مذہبی جبر کا ماحول پیدا ہو گا کہ جس فرقے اور مسلک کو قوت ملے گی، وہ دوسرے کو بزور بازو دبا کر رکھ دے گا۔ سب کو ایک ہی رائے رکھنے پر مجبور کیا جائے۔ مذہبی آزادی متاثر ہو گی۔ اور بر صغیر پاک وہند میں ولی اللہی تحریک آزادی فکر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ آپ دلیل سے قائل کریں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس مذہبی جبر نے کریئیشن آف نالج کو روک دیا ہے اور اب صرف نالج کی ری پروڈکشن ہو رہی ہے۔ سب نے اتنا ڈرا دھمکا کر رکھا ہوا کہ اگر ذرا سا اختلاف کیا تو وہ مسلک سے باہر۔ اور نہ صرف باہر بلکہ ہر جگہ اس کے بارے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ رائے عامہ کو اس کے خلاف کرتے ہیں۔ بہت ہی عجیب صورت حال ہو چکی ہے۔ اس سے چڑ پیدا ہو گئی ہے۔
آپ تحذیر یعنی ڈرانے دھمکانے کے بیانیے کا سہارا کیوں لیتے ہے، اگر آپ کی دلیل قوی ہے۔ یعنی آپ کے پاس بس یہی دلیل باقی بچی ہے کہ فلاں فلاں عقیدہ رکھا تو مار دیں گے، یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ یہ کیا نان سینس بات ہوئی۔ اور پھر اسے نان سینس بات یہ ہے کہ اسے سلفی عقیدے اور منہج کے نام سے پڑھا رہے ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ سلفی عقیدہ اور منہج کتاب وسنت سے باہر بابوں کی آراء کا نام نہیں ہے کہ فلاں کو کافر بنا دو، اور فلاں کو قتل کر دو۔ اور حالت یہ ہو جائے کہ گھروں میں بچوں کا قتل شروع ہو جائے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے ہیں اور سلف کا عقیدہ اور منہج یہ ہے کہ بے نمازی کو قتل کر دو۔ فاین تذھبون۔
پھر کتاب کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ضعیف اور منکر روایتوں سے بھری پڑی ہے۔ کیا سلفی منہج یہ ہے کہ ضعیف اور منکر روایتوں سے منہج ثابت ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو یہ روایتیں یہاں کیا کر رہی ہیں؟ اور یہ اکثر روایتیں وہی ہیں جو تشدد پر ابھارنے والی ہیں یا متشدد مزاج پیدا کرنے والی ہیں۔ ملحق امیجز میں دیکھ سکتے ہیں کہ حواشی میں محقق نے کتنی ہی روایتوں کو ضعیف اور منکر کہا ہے۔ اور یہ تو کتاب کے چند ایک صفحے ہیں۔ ساری کتاب کو دیکھیں تو بلاشبہ سینکڑوں روایتیں ضعیف اور منکر ہیں۔ ایک جگہ دو صفحوں میں پانچ روایتیں نقل ہوئیں۔ پانچوں کی پانچوں ہی ضعیف اور منکر ہیں۔ ایک طرف ضعیف روایتوں سے اتنی چڑ اور یہ دعوی کہ اہل حدیث کا موقف قرآن اور صحیح حدیث پر مبنی ہوتا ہے۔ دوسری طرف اس کتاب سے اگر سلفی منہج لیں گے تو وہ تو یہی ہے کہ عقیدہ اور منہج دونوں ضعیف اور منکر روایتوں سے ثابت ہوتے ہیں۔ اب آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہے کہ اہل حدیث عقیدہ اور منہج ضعیف اور منکروں روایتوں کا محتاج ہے؟
کیا اسے نصاب میں داخل کیا گیا ہے؟ وفاق المدارس یاکسی دوسرے ادارے کے نصاب میں؟