اسلام کا سیاست مرکزی تصور اسلامی نظام کے قیام کواسلامی عقیدے اور عمل کا بنیادی پہلو قرار دیتا ہےاوراس کے مقابلے میں جمہوریت اور سیکولرزم کے تصورات کومسترد کردیتا ہے۔پچھلی تقریبا نصف صدی سے علمی و سیاسی حلقوں میں اس پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔نائن الیون کے بعد اس پر بحث میں تیزی آئی اور اس سے متعلق موضوعات پر مختلف زبانوں میں اتنی کتابیں لکھی گئیں جو شاید گزشتہ کئی دہائیوں میں بھی نہ لکھی گئی ہوں ۔عرفان احمدکی زیرتبصرہ کتاب اس سوال سے بحث کرتی ہے کہتقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں سیکولر جمہوری نظام کے ساتھ جماعت اسلامی کے تعلق اور کش مکش کی کیا شکل و نوعیت رہی اور اس کے کیا مثبت یا منفی اثرات اس کے فکری وعملی منہج پر مرتب ہوئے ؟
اس کتاب میں غالبا پہلی مرتبہ تفصیل کے ساتھ اس پہلوکو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عالم اسلام کی دیگر انقلابی جماعتوں سے قطع نظر،گزشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے جماعت اسلامی خود کوجمہوریانے کے عمل میں پوری طرح کوشاں رہی ہے۔مصنف کے مطابق ،جماعت کی بنیادی فکر میں تبدیلی کی شروعات ۱۹۶۰ سے ہوئی جب علما وعوام کی اکثریت کی طرف سے ،جس میں علمائے دیوبند پیش پیش تھے ،پوری طرح جماعت کے سیکولرجمہوریت کی مخالفت کے نظریے کو مسترد کردئے جانے کےبعد جماعت نے دو الیکشن کے مکمل بائکاٹ کے بعد تیسرے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا(ص:۲۱۸) یہ دل چسپ بات ہے کہ ۱۹۵۱۔۵۲ کے الیکشن میں امیر جماعت نے الیکشن میں مسلمانوں کے حصہ نہ لینے کے لیے باضابطہ مہم چلائی ۔لیکن ۱۹۸۰ میں خود اپنے ارکان کو اس کی اجازت دینی پڑی (ص:۱۹۷)جب کہ۲۰۰۲ کے الیکشن میں اس نے سیکولرپارٹی کی جیت کے لیے باضابطہ انتخابی مہم چلائی۔(ص:۲۲۰)
اس کے بعد مصنف کے بقول نصف صدی کے عرصے میں حکومت الہیہ کو اپنا اولین ہدف قرار دینے والی اورسیکولر جمہوریت کو’طاغوت ‘ ،’ جاہلیت ‘اور’خنزیر کی طرح حرام‘ تصور کرنے والی جماعت اسی سے اپنا رشتہ استوار کرتی رہی ہے ۔مولانا مودودی نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سمیت تمام جمہوری عصری اداروں کو ’’قتل گاہ ‘‘ قرار دیا تھا لیکن اب انہی قتل گاہوں میں جماعت اسلامی زندگی کی تلاش میں ہے۔ مصنف نے کتاب کے ساتویں اور آخری باب(ص:۱۸۸۔۲۱۶) میں جماعت کے اس قلب ماہیت کا مدلل ومفصل تجزیہ پیش کیا ہے جو نہایت دل چسپ اورقابل مطالعہ ہے۔جماعت کی سر پرستی میں چلنے والے علی گڑھ کے ’گرین اسکول ‘کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس پر سرے سے کسی آئڈیالوجی کا کوئی اثر نہیں ہے ۔اس میں اور عام اسکولوں میں کوئی فرق نہیں۔طلبہ کے والدین کی اکثریت اسکول کے پس منظر سے واقف بھی نہیں اس کے کارکنان کو اس کا احساس بھی نہیں۔ افراد اور ادارے کی سطح پر جماعت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جماعت کا دعوی خواہ جو بھی ہو، لیکن جماعت کی خاموش ترجیح سیکولر جمہوریت سے ہی قربت تلاش کرنا رہی ہے۔ اپنی تحقیق وتجزیے کی بنیاد پر مصنف ا س خیال کو غلط ٹھہراتے ہیں کہ جماعت کے اندر یہ تبدیلی محض ظاہری ہے ۔ان کی نظر میں اس تبدیلی کا تعلق جماعت کے اندرون سے ہے ۔خود اس کے فکری ڈھانچے میں گہرائی کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔(ص:۲)
کتاب کا چوتھا ،پانچواں اور چھٹاباب جماعت اسلامی کی فکر کی بنیاد پر قائم ہونے والی دو طلبہ تنظیموں:سیمی (SIMI) اور ایس آئی او(SIO)کے تقابلی مطالعےپر مشتمل ہے۔ اس کے لیے مصنف نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اعظم گڑھ میں جماعت کی طرف سے قائم مدرسے جامعۃ الفلاح میں فیلڈ ورک کے طور پر کافی وقت گزارا اور دونوں تنظیموں سے منسلک طلبہ کی تنظیمی و اجتماعی سرگرمیوں کا قریب سے مطالعہ کیا۔وہاں کے طلبہ اور کارکنان واساتذہ سے ملاقات و گفتگو کے ذریعےدونوں گروپ کے طلبہ وکارکنان کی ذہنی ساخت اور اس کے تشکیلی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کی تاکہ ایک ہی پس منظر رکھنے والے دونوں طلبہ گروپوں میں سے ایک(ایس آئی او) کی اعتدال پسندی اوردوسرے(سیمی) کےریڈیکلزم کے رویے کے بنیادی اسباب وعوامل کاجائزہ لیا جاسکے۔مصنف کی نظر میں ’’سیمی‘‘ کی انتہاپسندانہ ذہنی تشکیل میں بنیادی طور پر ہندوتو طاقتوں کے اسی(۸۰) اور نوے (۹۰)کی دہائیوں کے عروج نے اہم رول ادا کیا ہے ۔خاص طور بابری مسجد کے انہدام اور اس کےبعد ملک گیر فسادات نے سیمی کو ہندوستان جیسے ملک میں بھی جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، جہاد کا راستہ اختیار کرنے پرمائل کیا۔ قابل غور ہے کہ مصنف کے مطابق ،۱۹۹۱ سے قبل سیمی کے اندر جہادی رجحان نہیں پایا جاتا تھا۔ مصنف کی نظر میں سیمی کا ظاہرہ (phenomenon) ہندوستان کے سیکولر جمہوری نظام کی ناکامی کی پیداوار ہے۔ اسی کے ساتھ جماعت اسلامی کی سر پرستی سے سیمی کی محرومی کوبھی اس میں اہم دخل رہا ہے ۔سیمی کے کارکنان شہری علاقوں اورخوش حال خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد اور سرپرستوںکی تعلیم مدارس کے ساتھ عصری درس گاہوں میں بھی ہوئی ہے۔وغیرہ۔ایس آئی او کی صورت حال بہت حد تک اس کے برعکس ہے۔جس کی تفصیلات مصنف نے پیش کی ہیں۔
اس مطالعے سے معلوم ہوتا ہے اور یہی مصنف کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ اسلام پسندی کا نظریہ کوئی جامد اور بے لچک نظریہ نہیں ہے۔بلکہ وہ بہت سے دوسرے نظریات کی طرح ایک متحرک نظریہ ہے۔ جس میں زمانی و مکانی احوال وواقعات کے نتیجے میں ہمیشہ تبدیلی کی گنجائش رہتی ہے۔ہم اسے اس پورے مطالعے کا حاصل کہہ سکتے ہیں۔اسلام پسندی سے متعلق خاص طورپر مغرب کے سیاسی وفکری حلقوں میں اس وقت جونظریات پائے جاتے ہیں ،یہ نظریہ بہت حدتک ان سے مختلف اور حوصلہ افزا ہے۔اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ عرصے میں مختلف ملکوں کی اسلامی تحریکات کے اندر جو انتہا پسندانہ رجحانات سامنے آرہے ہیں وہ عبوری ہیں مستقل نہیں ہیں۔مشرق وسطی میں ان رجحانات کی پرورش میں وہاں کے غیر جمہوری سیاسی ماحول کا بنیادی دخل رہا ہے جس کی بقا انہی عالمی طاقتوں کی رہین منت ہے جوان تحریکات سے سب سے زیادہ خائف ہیں۔یہ پیراڈاکس ، غوروفکر کا اہم مقام ہے۔
اسلامی اور سیاسی حلقوں کے لیے یہ مطالعہ ایک اہم بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ ان کمزوریوں اورکا جائزہ لے سکیں جو بعض مسلم گروپوں میں انتہا پسندی کے فروغ کا سبب بنی ہیں یا بن رہی ہیں۔ عرفان احمد کا تجزیہ بتاتا ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں ریڈیکل رجحانات کی پیدائش اور افزائش کا تعلق مذہبی نظریات سے نہیں ،جیساکہ ہن ٹنگٹن اور برنارڈ لوئس جیسے لوگ کہتے رہے ہیں ،بلکہ اس کا تعلق سماجی حالات سے ہے۔مذہبی نصوص کی تشریح و تطبیق افراد او ر جماعتوں کی خود اپنی تاثر پذیر ذہنیت کا مر ہون منت ہوتی ہے۔یہ بشریاتی مطالعہ انتہا پسندی کی جڑوں کی تلاش و دریافت کے لیے کیے گئے حالیہ مطالعات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ ہندوستان کے تعلق سے اپنی نوعیت کا یہ پہلا مطالعہ ہےجواس موضوع پرکا م کرنے والوں کے لیے ایک مضبوط زمین فراہم کرتا ہے۔امید ہے کہ اس مطالعے سے موضوع سے دل چسپی رکھنے والے اصحاب علم ودانش کو غور وفکر کی نئی جہت ملے گی اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گا۔
کمنت کیجے