مکتب فراہی کے تصور نظم قرآن کو لے کر تنقیدی بحث جاری ہے۔ اس بحث کی ابتدا محترم جناب احمد جاوید صاحب کی ویڈیو سے ہوئی جس کا جناب ساجد حمید صاحب نے مختصرجواب دیا ہے ((گرچہ ان کا جواب غیر متعلق و کمزور ہے)۔ ہمارے ناقص فہم میں زیادہ تر اعتراضات یا کمزور ہیں اور یا لفظی نزاع کی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اکثر و بیشتر اعتراضات “قطعی ” و “ظنی” کے الفاظ کو لے کر کئے جارہے ہیں۔ تاہم جب تک ان الفاظ کا مفہوم واضح نہ ہو، یعنی وہ احکام بیان نہ کئے جائیں جو ان کے ساتھ ملحق ہیں، تب تک گفتگو بے معنی رہتی ہے۔ ہمارے علم کلام و اصول فقہ میں قطعی و ظنی کی ساری بحث بالاخر اس چیز کے اردگرد گھومتی ہے کہ کس دلیل کو کب کس پر ترجیح دینا ہے۔ اس اعتبار سے ہر قطعی اپنے سے اولی کے لحاظ سے ظنی ہوجاتا ہے۔ یوں دلائل کی ایک عمودی ترتیب سامنے آتی ہے جہاں سب سے اوپر اولیات عقلیات (first principles) یا ضروری علمی قضیایا آتے ہیں جو کسی دوسری دلیل کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتے بلکہ سب اصولوں و دلائل کا آخری جواز ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے قطعی کے دو مفاہیم ہیں:
1۔ وہ جہاں احتمال کی گنجائش بایں معنی نہ ہو کہ احتمال فرض کرنے سے تضاد جنم لے یا اس سے اختلاف کرنے والے کو مکابرہ کرنے والا قرار دیا جائے گویا وہ بالکل واضح چیز کا انکار کررہا ہے۔ قطعیت کا یہ مقام اولیات عقلیات کے چند قضایا کے سوا کسی علمی قضئے کو حاصل نہیں۔
2۔ وہ جہاں عقلا احتمال کا امکان تو ہوتا ہے تاہم کسی دلیل کی بنا پر ہم کسی ایک جانب کو کسی دوسری پر اس طرح ترجیح دینے لائق ہوتے ہیں کہ احتمال رفع ہوجائے۔ لیکن یہاں احتمال کا رفع ہوجانا اس درجے کا نہیں جو پہلی قسم کو حاصل ہے بلکہ پہلے درجے کے اعتبار سے یہ قطعیت ظنی کے حکم میں ہوتی ہے۔ امام رازی اسی اعتبار سے تمام دلائل سمعیہ کو ظنی کہتے ہیں۔ پھر یہ ترجیح دیا جانا بھی متعدد درجات کا ہے اور ہر درجے کے اعتبار سے اوپر والا درجہ قطعی کہلاتا ہے اور کم والا ظنی، اگرچہ اپنے سے نچلی سطح کی دلیل کے اعتبار سے وہ قطعی ہوتا ہے۔ پھر ان درجات کے لحاظ سے ہم بعض دلائل کے خلاف احتمال لانے پر تکفیر کرتے ہیں اور بعض میں احتمال پیدا کرنے سے تکفیر و تضلیل تو ایک طرف بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ مخالف رائے والے کو بھی ایک اجر ملے گا اور عند اللہ اس کے فرائض ادا ہوگئے، اگرچہ وہ ہمارے اجتہاد کے خلاف ہوتا ہے۔ تقریباً ساری کی ساری فقہ کی صورت یہی ہےجبکہ وہ نصوص ہی کی تشریحات پر مبنی ہوتی ہے۔
یہ بات کہ قطعی و ظنی محض دلائل کی ترجیحات کی بحث ہے، اسے آسان مثال سے یوں سمجھئے کہ احناف کے نزدیک عام کی دلالت اپنے افراد پر قطعی ہے جبکہ جمہور کے نزدیک ظنی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ احناف بعض دلائل جیسے کہ خبر واحد کے مقابلے میں عام میں شامل افراد میں کمی بیشی کے قائل نہیں ، لیکن اگر مثلاً خبر مشہور آجائے تو اب یہ کمی بیشی جائز ہوگی، اس کے برعکس جمہور کے نزدیک خبر واحد سے بھی یہ کمی بیشی جائز ہے۔ یہاں “عام قطعی ہے” کا مطلب یہ ہے کہ اسے خبر واحد پر ترجیح حاصل ہے جبکہ خبر مشہور کے مقابلے میں یہ ظنی ہے جبکہ جمہور کی بات کامطلب یہ ہے کہ عام کی دلالت خبر واحد کے مقابلے میں بھی ظنی ہے۔ ان بیانات میں قطعی و ظنی محض اضافی چیزیں ہیں۔ بعینہہ اصول فقہ میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ امر وجوب کا یا اباحت کا فائدہ دیتا ہے تو یہ بھی ترجیح دینے کا ایک اصول ہے، یعنی جب بھی ہم امر کا صیغہ پائیں گے تو ابتدائی مفروضہ یہ ہوگا کہ یہ وجوب کے لئے ہے (یعنی وجوب کے مفہوم کو ترجیح ہوگی)، الا یہ کہ کسی دلیل سے معلوم ہو کہ وجوب کے سوا دیگر امکانات کو ترجیح دی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر کوئی یہ کہے کہ امر نہ وجوب کے لئے آتا ہے اور نہ استحباب کے لئے اور نہ اباحت کے لئے بلکہ اس کا تعین دیگر قرائن کو دیکھ کر ہوگا تو وہ امر کی دلالت کو بایں معنی اصلاً ظنی کہہ رہا ہے کہ اس کا کوئی مطلب نہیں یہاں تک کہ دیگر قرآئن آکر اس کا تعین کریں۔ لیکن یہ بات کہ امر علی الرغم دیگر قرائن وجوب یا اباحت کے لئے ہوتا ہے، یہ امر کے مفہوم سے متعلق قطعیت (یعنی ترجیحی موقف معلوم ہونے) کاایک دعوی کرنا ہے۔ چنانچہ جب آپ اس پہلو سے غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ امام شافعی کے نزدیک عام کی دلالت بایں معنی قطعی ہی ہے کہ اصلاً عام اپنے افراد کو شامل ہوتا ہے، یہاں تک کہ کسی دلیل سے بعض افراد کو اس سے نکال دیا جائے، چاہے وہ دلیل خبر واحد ہی ہو۔ پس اس قسم کے تمام ڈئفالٹ مواقف بھی اصلا ترجیح مقرر کرنے کے مواقف ہوتے ہیں۔
اب اگر آپ اس سوال پر غور کریں کہ امر اصلاً وجوب کے لئے ہوتا ہے یا اباحت کے لئے، امر فوری طور پر ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں، عام کی دلالت اپنے افراد پر خبر واحد کے مقابلے میں ترجیحی ہے یا نہیں، اس قسم کے سب اصول متعدد نصوص و قرائن کے استقرا پر مبنی ہیں، یہ اصول الگ سے قرآن کے ساتھ تکملے (appendix) کے طور پر نازل نہیں کئے گئے تھے اور نہ ہی عربی لغت کی کسی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جسے مقاصد شریعت اور مصلحتی و قیاسی قواعد کہتے ہیں، وہ بھی استقرا پر قائم اصول ہیں جنہیں ایک مجتہد اس غور و فکر سے دریافت کرتا ہے کہ شارع نے فلاں فلاں احکام میں ان اصولوں کا لحاظ کیا ہے۔ پھر جس اصول کی تاثیر جس قدر مسائل میں ثابت ہو، اسی قدر وہ اصول یقینی و قابل لحاظ ہوتا ہے (اہل علم جانتے ہیں کہ اسی بنا پر ملائم کو غریب پر ترجیح دی جاتی ہے وغیرہ)۔ فراہی مکتب فکر جسے نظم قرآن کہتا ہے (یعنی سورتوں کا عمود اور سورت کے مضامین کا اس عمود کے ساتھ تعلق اور ہر سورتوں کا گروپ کی صورت اختیار کرنا اور ہر گروپ کا ایک عمود ہونا وغیرہ)، تو اصلاً یہ اسی نوعیت کا استقرا ہے جو قواعد اصولیہ نیز مقاصد شریعت کے پس پشت کارفرما ہے۔ یعنی انہوں نے دیکھا کہ فلاں سورت کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کا سنٹرل آئیڈیا یا عمود فلاں بات ہے جس کی روشنی میں سب مضامین کا ربط واضح ہوجاتا ہے، پھر اس منہج کو سب سورتوں پر لاگو کیا گیا تو یہی فائدہ حاصل ہوا وغیرہ تو اس طریقے سے ہم پر مجموعی کلام کا نظم واضح ہوگیا اور چونکہ اس منہج کو ہم نے سب آیات کی تفہیم میں مفید پایا لہذا اس کی صحت پر ہمارا یقین بڑھ گیا۔ پس اس تصور نظم پر یہ اعتراض کرنا کہ یہ خارج سے کلام پر وارد کیا گیا ہے، یہ اعتراض از خود وضاحت طلب ہے کہ یہاں “خارج ” کا کیا مطلب ہے؟ یہ اعتراض کرنے والوں کو بتانا ہوگا کہ ان کے نزدیک کلام کے داخل میں کون کونسی دلالتیں شامل ہیں اور کونسی دلالت اس کا خارج ہے۔ اگر ان کے نزدیک کلام کے استقرا سے معلوم شدہ مفہوم اس کا خارج ہے تو یہ اعتراض اصول فقہ و مقاصد شریعت پر بھی وارد ہوگا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ یہ کلام کا داخل ہی ہے مگر ظنی ہے اور ظنی کا مطلب یہ ہے کہ اس سے اختلاف کرنے والے کو نہ پاگل کہا جائے گا اور نہ ہی اختلاف کرنے والے کی تکفیر و تضلیل کی جائے گی تو اس بات سے مکتب فراہی کو بھی اختلاف نہیں اور ان کی متعدد تحاریر و بیانات سے یہ بات واضح ہے۔ اس کے بعد یہ بحث کہ نظم قرآن سے متعین شدہ آیت کے مفہوم کو خبر واحد کے مفہوم پر ترجیح ہوگی یا بالعکس، یہ از خود اسی نوعیت کی ظنی بحث ہے جیسے یہ بحث کہ عام کی دلالت قطعی ہے یا ظنی۔ حنفی اپنے اس اصول کو نہ ماننے والوں کو نہ پاگل کہتے ہیں اور نہ ان کی تکفیر و تضلیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اس وسیع تناظر میں “عام کی دلالت قطعی ہے” از خود ظنی اصول ہے۔ بعینہہ “یہ خاص نظم قرآن قطعی ہے”، اصولیین کی اصطلاح میں یہ از خود ظنی اصول ہے۔
اس بحث سے اس اعتراض کی کمزوری بھی واضح ہوجاتی ہے کہ نظم قرآن کا تصور انسانی کلام پر قیاس سے پیدا ہوا ہے۔ اگر اس بات کو جوں کا توں درست مان بھی لیں کہ یہ اس قیاس سے پیدا ہوا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ قرآن اپنے بارے میں کہتا ہے کہ یہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس سے تذکیر حاصل کرنا آسان ہے اور اپنے مخاطب سے خود پر غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔ کیا یہ غور و فکر انسانی اصول فہم کے قوانین سے ہوگا یا اس سے سوا سے؟ اگر اس کے تحت ہوگا تو ان کا اعتراض جاتا رہا، اگر اس کے سوا سے ہوگا تو انسان ایسے اصولوں سے واقف نہیں اور نیتجتا غور و فکر کا حکم بے محل ہوگا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علم کلام و اصول فقہ کا پورا ڈسکورس انسانی فہم کے قوانین ہی کی بنیاد پر قرآن کا مطالعہ کرنے کی بات کرتا ہے۔ اگر ان کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو کوئی کہے گا کہ “کہاں قرآن اور کہاں ہم انسان، ہم اسے سمجھ ہی نہیں سکتے کہ یہ انسانی فہم کے قوانین سے ماورا ہے”۔
رہ گئی یہ بات کہ اس خاص نظم قرآن کی دلالت کی قوت و ضعف کے اعتبار سے کتنی قطعیت ہے، تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اصولیین کی اصطلاح میں یہ ظنیات کی قبیل سے ہے۔ کلام کے الفاظ سے معلوم ہونے والے معنی کی دلالتوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اصول فقہ کی زبان میں سیاق کلام جس قدر بعید اور دور کے مضمون کا ہوگا ، اس کی تاثیر کسی معین نص کے لئے اتنی ہی کمزور ہوگی کیونکہ یہ “جنس بعید” بنتی ہے۔ پس جسے سورت کا عمود کہتے ہیں، اس کے پیش نظر آیت کی توجیہہ ایک کمزور قرینہ تاویل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکلیہ غیر مفید ہے۔ اگر کوئی نسبتا ً دوسری مضبوط دلیل اس کی تاثیر کے خلاف نہیں تو یہ بھی وجہ ترجیح ہوسکتی ہے۔ مکتب فراہی نظم قرآن کے تحت جس چیز کو قطعی الدلالۃ قرار دے کر بحث کرتا ہے، اصول فقہ کے مباحث میں وہ اس بحث سے متعلق ہے کہ “ہر ہر مسئلے میں حق ایک ہوتا ہے یا متعدد”۔ نظم قرآن اس ایک حق کی تعیین کے لئے وجوہات ترجیح میں سے ایک ہے۔
بہت اچھا ہے۔ لیکن اس کو فقہ کی ظنی اور قطعی کی بحث سے ہٹ کر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ایک کلام اپنی نوع کے اعتبار سے ربط کو قائم کرتا ہے۔ مثلا تقریر میں نظم، افسانے میں نظم، ناول میں نظم، قصیدے میں نظم وغیرہ۔ مکتب فراہی نے اس کلام کی جو نوع معین کی ہے احمد جاوید صاحب کواولا اس میں غلطی کی نشاندہی کرنا چاہیے تھی۔ ثانیا یہ بتانا چاہیے تھا کہ قرآن کی سورتوں کے ربط اور سورت میں مضامین کے ربط کے تعین میں یہ اور یہ غلطی ہوئی ہے۔