Home » اسرائیل کا ماضی و مستقبل۔ سورہ بنی اسرائیل
ادیان ومذاہب تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث تہذیبی مطالعات

اسرائیل کا ماضی و مستقبل۔ سورہ بنی اسرائیل

مبین قریشی

عنوان کے لحاظ سے میں سورہ بنی اسرائیل کی چار آیات ( 4-8)پر لفظا            لفظا اپنا فہم پیش کرنا چاہوں گا ۔

وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا

مفہوم : اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ تم زمین پر دو مرتبہ بڑا عروج پاکر فساد مچاؤ گے۔

اس پہلی آیت پر سوال یہ بنتا ہے بنی اسرائیل کو کب اور کس پیغمبر کی کتاب میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا؟ اس کا جواب اسی سورہ بنی اسرائیل کے آخر میں موجود ہے کہ جب موسی ع بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کو پورے مصر سے سمیٹ کر باہر نکلے اور فرعون انکا پیچھا کرتے ہوے خلیج عقبہ میں غرقاب ہوچکا تو اسکے بعد ، ارض مقدس میں داخلے سے پہلے ، انھوں نے چالیس سال مدین ( سعودی عرب جہاں نیوم سٹی بن رہی ہے ) میں پڑاو ڈالا ۔ اسی پڑاو کے دوران ہی تورات نازل ہوئ اور یہیں یہ خبر بنی اسرائیل کو دی گئ۔ اسی سورہ کی آیات 103-104ملاحظہ ہوں؛

فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًا ۔ وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا۔

مفہوم ؛ آخر کار فرعون نے ارادہ کرلیا کہ موسی اور بنی اسرائیل کو زمین سے ہی اکھاڑ پھینکے، مگر ہم نے اسے اور اسکے لشکر کو غرق کردیا۔ اور پھر اسکے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ اس زمین پر سکونت لو ، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آے گا تو ہم ( اسی طرح ایک مرتبہ پھر سے) تم سب کو ہر طرف سے سمیٹ کر لے آئیں گے۔

درج بالا آیت    104   کو کچھ مفسرین آخرت کی جانب لے گئے ہیں جبکہ اس آیت میں وہی بات دہرائ گئ ہے جو اس سورہ کی آیت 7 میں اس پیشن گوئ کے تحت کی گئ تھی۔ دونوں آیات اکھٹی دیکھیں؛

فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ (لِيَسُوؤُواْ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُواْ) 7

اور

فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ (جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا) 104

درج بالا دونوں آیات ایک ہی الفاظ کے ساتھ ہیں، مزکورہ بالا دوسری آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ جیسے آج پہلی بار تمھیں اس موعود زمین پر بسانے کے لئے پورے مصر سے سمیٹ کر اکھٹا کیا گیا ایسے  ہی یہ عمل مستقبل بعید میں ایک مرتبہ پھر سے دہرایا جاے گا۔

دوسری ضروری بات یہ ہے کہ قرآن مقدس نے جب اس پیشن گوئ کا وقت ( نزول تورات) اور مخاطبین ( بارہ قبائل ) متعین کردئے تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیشن گوئ اسفار ( کتاب موسی ع) میں کہاں بیان ہوئ ہے؟ ۔ اسفار میں ایسی پیشن گوئیاں تو موجود ہیں لیکن اتنی صراحت کے ساتھ اب نہیں ملتیں۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ پیشن گوئ نازل ہوئ تھی کیونکہ پہلے عذاب کے بعد ( جسکی وضاحت آگے آرہی ہے) اس وقت کے پیغمبر دانیال ع بھی تورات میں موقعہ کی مناسبت کے لحاظ سے اسکا حوالہ دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو صحیفہ دانیال باب ۔ ۹ سے چنیدہ آیات ؛

“ میں خداوند کی طرف رجوع ہوا اور میں نے دعا اور مناجات سے روزہ رکھ کر ، ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر خداوند سے دعا کی اور اقرار کیا ۔۔ہم نے گناہ کیا اور غلط کام کئے۔ ہم نے شرارت اور سرکشی کی ۔ ہم نے تیرے آئین اور احکام سے منہ موڑ لیا ۔ ہم نے تیرے خدمت گزار نبیوں کی بات نہ سنی جنہوں نے تیرے نام سے ہمارے بادشاہوں ، ہمارے امراء ، ہمارے آباو اجداد اور ملک کے تمام لوگوں سے کلام کیا۔ اے خداوند تو سچا ہے لیکن آج ہم بہت پیشمان ہیں ۔ یعنی یہودا (جنوبی ریاست ) کے باشندے ، یروشلم اور ( شمالی ) ریاست اسرائیل کے باشندے جو نزدیک اور دور ، ان تمام ممالک میں بستے ہیں جہاں تو نے آج ہمیں اپنے ساتھ بے وفائ کے سبب بھکیر دیا ۔۔۔چنانچہ لعنتیں اور خداوند کے خادم موسی کی شریعت میں قسم کھا کر درج ہوئی سزا ہم پر انڈیل دی گئ ۔۔ جیسا کہ موسی ع کی شریعت میں لکھا ہوا ہے یہ ساری آفت ہم پر آن پڑی۔ “

اب آیت کے آخری ٹکڑے کو دیکھیں جس میں بتایا گیا کہ دو مرتبہ علو کبیر ( بڑا عروج ) ملے گا اور دونوں دفعہ یہ اس عروج کے زریعے زمین پر فساد پھیلائیں گے۔ پہلی دفعہ یہ عروج انھیں اس زمین پر داؤد و سلیمان ع کی متحدہ ریاست ( یعنی بارہ قبائل نے مل کر ایک ریاست بنالی تھی ) کے دور میں ملا جسکی تفصیل قرآن کے مختلف مقامات سے سمیٹی جاسکتی ہے۔ اور پھر سلیمان ع کی وفات کے بعد 935 قبل مسیح یہ دوبارہ باہم لڑ جھگڑ کر جدا ہوگئے ، اس دور کے فساد کی تفصیل سلاطین کی کتابوں اور یہود کی تاریخ کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔

فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُوْلِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولاً

مفہوم: پھر جب پہلے وعدہ کا وقت آگیا تو ہم نے تم پر اپنے ان بندوں کو بھیج دیا جو بہت سخت جنگجو تھے اور انہوں نے تمہارے گھروں میں چن چن کر تمہیں مارا اور یہ ایک وعدہ تھا جو پورا ہوگیا۔

موسی ع ، ھارون ع اور انکی بہن مریم ع تینوں جو بنی اسرائیل کو لیڈ کررہے تھے وہ تینوں ہی موعود زمین کنعان کی فتح سے پہلے مدین (سعودی عرب) میں ہی وفات پاگئے۔ بعد ازاں یہ قبائل یوشع بن نون کی سربراہی میں کنعان داخل ہوے۔ یوشع بن نون کی وفات بھی کنعان کا جنوبی حصہ فتح ہونے سے پہلے ہی ہوگئ۔ اسکے بعد بنی اسرائیل کے قبیلوں میں پھوٹ پڑگئ اور وہ اپنے اپنے علاقوں ( جو موسی ع نے متعین کردئے تھے) میں اپنے اپنے قبیلہ کے سرداروں اور قاضیوں کے تحت رہنے لگے۔ ایک آدھ نسل گزری تو ان میں بگاڑ آیا، یہ کنعان کی مشرک لڑکیوں سے شادیاں کرنے لگے اور ان میں شرک بھی آنے لگا۔ یہ دور تقریباً چار سو سال پر محیط ہے جسمیں مختلف قومیں بھی انھیں مارتی پیٹتی رہیں اور یہ خود بھی ایک دوسرے کے خلاف ہر وقت سازشوں میں مصروف رہتے اور دشمنوں کا ساتھ دے کر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے رہتے۔ یعنی اس چار سو سالہ دور کی ابتداء یوشع بن نون نے متحدہ ریاست کی صورت رکھی تھی جو انکی وفات کے بعد قائم نہ رہ سکی۔

بالاخر ایک جنگ میں موجودہ اردن کے بادشاہ جالوت نے انکی آخری مذہبی نشانی تابوت سکینہ بھی چھین لی تو چار سو سالہ مار کے بعد اس حادثے نے کچھ قبیلوں کو نبی سموئیل ع کی بات سننے پر مجبور کردیا اور انھوں نے پھر سے یوشع بن نون کے دور کی طرح متحد ہوکر ایک ریاست بنانے کا سوچا۔ سموئیل ع نے بنی اسرائیل کے بارہ میں سے سب سے چھوٹے اور غریب قبیلے بنیامین سے طالوت ( Saul) کو انکا بادشاہ مقرر کردیا۔ یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخی عروج کی ایک صدی شروع ہوئ۔ 27 سال طالوت نے حکومت کی لیکن بارہ کے بارہ قبائل ان پر متحد نہ ہوسکے۔ دو سال انکے بیٹے اش بوشث ( کچھ اسے گنتے ہیں اور کچھ نہیں گنتے) پھر  ان بارہ قبائل میں سے ایک قبیلے یہودا میں سے طالوت کے داماد نبی داؤد ع نے سارے قبائل کو متحد کرکے چالیس سال اور پھر انکے بیٹے سلیمان ع نے چالیس سال حکومت کی۔ سلیمان ع نے 931 قبل مسیح میں وفات پائ۔ تو انکا بیٹا ربعام بادشاہ مقرر ہوا۔

سلیمان ع کے بیٹے ربعام کی  بادشاہت کے ایک سال بعد ہی بارہ میں سے نو قبائل ( رئبون، شمعون، دان، نفتالی، حاد، آشر، یساکار، زبولون، ماناسہ اور افرایم) نے باقی دنیا کی طرح مذہبی کی بجاے سیکولر اسٹیٹ کا نعرہ لگا کر “ اسرائیل” کے نام سے شمالی علاقوں کو متحدہ ریاست سے الگ کرکے اپنی الگ ریاست بنالی ( اسے آخری دارلخلافہ کی وجہ سے سماریہ بھی کہا جاتا ہے)۔ افراہم قبیلے نے اس توڑ میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے اس ریاست کا پہلا بادشاہ اسی قبیلے سے یربعام پھر اسکا بیٹا بنا۔ بارہ میں سے ایک قبیلے لاوی کے پاس چونکہ اپنا الگ کوئ علاقہ نہ ہوتا تھا اور وہ ہر قبیلے کے ساتھ رہتے ان کے لئے مذہبی خدمات انجام دیتے تھے اسلئے وہ دونوں ریاستوں میں بٹّے رہے ۔ متحدہ مملکت میں سے بچ جانے والی جنوبی ریاست  پر بنیامین اور یہودا دو قبیلے بسے رہے اور حکومت یہودا کے پاس رہی۔

شمالی سیکولر ریاست نے جلد ہی توحید چھوڑ کر شرک کو بھی اپنالیا اور مشرک قوموں کے ساتھ رشتے ناطے بھی کرنے لگے۔ انکی جانب مبعوث ہونے والے انبیاء کو جنوبی ریاست کے ایجینٹس کا الزام لگا کر قتل کردیا جاتا رہا۔

شمالی و جنوبی دونوں ریاستوں  نے آپس میں بھی جنگیں لڑیں۔ جنوبی ریاست پھیلتی پھولتی رہی اور بلاخر پانچ گنا تک وسیع بھی ہوی۔ شمالی ریاست جلد ہی آفات کا شکار ہوتے ہوتے بالاخر 19 بادشاہ گزار چکنے اور چار دارلخلافے بدل چکنے کے بعد نینوی ( شام و عراق کے باڈر سے اٹھ کر مڈل ایسٹ نارتھ افریقہ پر مشتمل) آشوریوں کی حکومت کی زد میں آنے لگی۔ آشوری بار بار انکا قتل عام کرتے اور کچھ علاقے چھین کر بچ جانے والوں کو غلام بناکر اپنے مفتوحہ علاقوں میں ٹولیوں کی صورت بکھیرتے چلے جاتے۔ بلاخر آشوری بادشاہ سارگون نے 722 قبل مسیح میں بچی کھچی شمالی ریاست اسرائیل پر حملہ کرکے خوب قتل عام کیا اور بچ جانے والوں کو غلام بناکر پہلے والوں کی طرح بھکیر کر بیچ دیا۔ اس طرح یہ شمالی ریاست 935 قبل مسیح میں علحیدہ ہوکر کم و بیش 200 سال گزار کر 723 قبل مسیح میں اسطرح تباہ ہوکر بکھری کہ انھیں یہودیوں کی تاریخ میں آج تک  Lost Tribes کہا جاتا ہے۔

کیونکہ بنی اسرائیل دو حصوں میں بٹ گئے تھے اس لئے قرآن کا مزکورہ بالا پہلا عذاب دونوں حصوں پر باری باری یکے بعد دیگرے الگ الگ آیا۔ جنوبی ریاست ( یہودا) پر مزکورہ عذاب 586 قبل مسیح میں بابل ( نینوی یعنی عراق کی مزکورہ ریاست پر اہل بابل یعنی عراق ہی کے دوسرے کونے سے ابھری حکومت نے قبضہ کرلیا تھا) کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں آیا جس نے اوّل تو انکا خوب قتل عام کیا دوم ھیکل سلیمانی جو انکے حصے میں تھا اسے نیست و نابود کردیا اور سوم ان سب کو اکھٹے غلام بناکر عراق ( بابل ) لے گیا۔ شمالی ریاست کی طرح اس ریاست پر بھی تباہی تک ۱۹ بادشاہوں نے ہی حکومت کی۔ بعد ازاں نوے سال کی غلامی کے بعد یہودا کے باسیوں کو خدا نے ( ذوالقرنین ۔  سائرس کے ہاتھوں ) ایک مشروط موقعہ واپس لوٹنے کا دیا ، جسمیں انکی کوئ خود مختار ریاست کبھی نہ بنی بلکہ یہ بالترتیب فارسیوں ، یونانیوں اور رومیوں کی کالونی کے طور پر نیم غلام رہے ۔ اس دوران پیغمبروں کی جانب سے انھیں بشارتیں سنائ گیں کہ اگر یہ اپنے احوال درست کرلیں تو ایک موعود بادشاہ پیغمبر ( المسیح ) کے ہاتھوں پھر سارے قبائل اکھٹے کرلئے جائیں گے اور داؤد ع کے گھرانے والا عروج لوٹ آے گا  ۔

اس دوران متعدد جھوٹے المسیح ہونے کے دعویدار بھی پیدا ہوتے رہے اور قوم کو لڑواتے مرواتے بھی رہے ۔ پھر اللہ نے  مسیح ع  کو واضح نشانیوں کے ساتھ مبعوث بھی کیا لیکن انھوں نے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح مسیح ع کی  پیشن گوئ کے مطابق رومیوں نے 70 عیسوی میں انکے ھیکل کو پھر سے تباہ کرکے مٹا دیا اور 135 عیسوی میں انھیں ان علاقوں سے اس طرح  بھگا دیا کہ یہ 1948 تک یہاں لوٹ کر نہ آسکے۔

اکثر مفسرین نے ٹائٹس رومی کے ہاتھوں تباہی کو دوسرے عذاب کے تحت لیا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ دوسری تباہی سے پہلے بارہ قبیلوں پر جس دوسرے عروج  کی پیشن گوئی کی گئ تھی نہ وہ پوری ہوئی اور نہ یہ تباہی بابل و نینوی ( جنکے ہاتھوں پہلی تباہی آئی تھی انکے ہاتھوں آئی ) اس لئے سورہ بنی اسرائیل کی درج بالا آیت نمبر پانچ کے تحت مزکورہ بالا دو واقعات ایک عذاب کی دو اقساط کے تحت آتے ہیں۔

۔ 722 قبل مسیح میں شمالی ریاست کی نینوی ( آشوریوں کے ہاتھوں تباہی )

۔ 586 قبل مسیح میں جنوبی ریاست کی  بابل ( کسدیوں) کے ہاتھوں تباہی۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس آیت نمبر 5 سے متعلق ایک علمی بحث ہے جسے سمجھ لیا جانا ضروری ہے۔ اس آیت میں بعثنا علیکم عبادا لنا ( تم پر اپنے بندے بھیجے جو نہایت جنگجو تھے) میں”  عباد “ کے لفظ سے کچھ مفسرین کا دھیان اس جانب گیا کہ بابل و نینوی ( عراق و شام ) کے  آشوری اور کسدی دونوں مشرک قومیں تھیں اسلئے انکے لئے یہ لفظ “عباد “ کیسے آسکتا ہے؟ اس اشکال سے اتفاق کرنے والے مفسرین کی دو طرح کی آراء سامنے آئیں۔ کچھ نے کہا کہ یہ دونوں عذاب قرآن مقدس کے نزول کے بعد پیش آنے تھے اور اس میں پہلی عذاب خلفاء راشدین کی فتوحات کا واقعہ ہے۔ لیکن چونکہ خلفاء راشدین کا اسطرح بنی اسرائیل کی ریاستوں سے ٹکراو ہی نہ ہوا تھا اور نہ ہی فلسطین کی فتح کے وقت وہاں بنی اسرائیل کی حکومت تھی اسلئے ان مفسرین سے کسی نے اتفاق نہ کیا۔ کچھ مفسرین جو اس اشکال کا شکار تو ہوے لیکن وہ پہلے والوں کی دلیل سے متفق نہ ہوے انھوں نے عباد کے لفظ کی وجہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ دونوں عذاب آنے تو نزول قرآن کے بعد ہیں لیکن ابھی تک یہ دونوں عذاب ہی ظہور پزیر نہیں ہوے۔ آج بھی خلیجی ممالک کے کچھ علماء جو یہ راے رکھتے ہیں انکے نزدیک یہ پہلا واقعہ 1948 میں اس نئ قائم ہونے والی ریاست کے ساتھ کسی وقت مستقبل میں پیش آے گا جبکہ دوسرا واقعہ اسکے بعد آئندہ کبھی پیش آے گا۔ دلیل پوچھو تو وہ لفظ عباد کی جانب توجہ دلوا دیتے ہیں۔

مزکورہ بالا دونوں آراء خلاف واقعہ اور ہجرت سے ایک سال پہلے نازل ہونے والی اس سورہ کی اسی آیت کے آخری ٹکڑے وکان وعدا مفعولا ( یہ وہ پہلا واعدہ تھا جو پورا ہوچکا ) کے خلاف ہیں۔

“ عبادا لنا “ کی ترکیب تو میرے علم کے مطابق اور کہیں استعمال نہ ہوئ لیکن “عباد “ کا لفظ قرآن میں نیک و بد سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلا ؛

سورہ الزمر آیت 16

لَـهُـمْ مِّنْ فَوْقِـهِـمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِـهِـمْ ظُلَلٌ ۚ ذٰلِكَ يُخَوِّفُ اللّـٰهُ بِهٖ عِبَادَهٝ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُوْنِ

اِن کے اوپر بھی آگ کے سائے ہوں گے اور ان کے نیچے بھی  آگ کے سائے ہوں گے، یہی بات ہے جس کی اللہ اپنے بندوں کو تنبیہ کررہا ہے کہ اس سے اندیشہ ناک ہوجاو۔

اس سے پہلے جنت والوں کا زکر ہے جب کہ یہاں جہنم والوں کا تزکرہ کرکے انھیں عباد کہا جارہا ہے۔ بلکہ اسی سورہ میں تھوڑا آگے پھر آیت 46 میں اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا؛

قُلِ اللّـٰـهُـمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِىْ مَا كَانُـوْا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ

کہہ دو اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ہر چھپی اور کھلی بات کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں فیصلہ کرے گا اس بات میں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔

قرآن مقدس میں اور بھی ایسے مقامات ہیں جہاں عباد کا لفظ اسی طرح فرمابردار اور غیر فرما برداروں دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ راے رکھنے والے مفسرین چونکہ ایک خاص رجحان والے لوگ ہیں اسلئے انھیں یہ لفظ روایت میں بھی مشرکوں و ملحدوں کے لئے دکھا دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں یہی لفظ یاجوج و ماجوج کے  تعارف میں استعمال ہوا کہ “ انی آخرجت عبادا لی لا یدان لاحد بقتلھم “ میں نے اپنے بندوں کو نکال دیا ہے جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں “ ۔ اس روایت میں دیکھیں کہ جو لادین بنو یافث مسیح ع سے لڑنے آرہے ہیں انکے لئے بھی یہی لفظ “عبادا لی “ میرے بندے استعمال ہوا ہے۔ اس لئے عباد کا لفظ کوئ ایسا قرینہ نہیں جو صرف مواحد و مخلص اہل ایمان کے لئے ہی خاص ہو۔

اسی رجحان کے کچھ علماء ماثورہ تفسیروں کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ چونکہ اس پر متعدد اقوال ہیں اسلئے اس آیت کے متعلق وثوق سے کوئ ایک بات نہیں کہی جاسکتی۔ اسکا جواب یہ ہے کہ اگر ان تفاسیر میں  تعدد اقوال کی وجہ سے تعین کو چھوڑ دینا ہے تو پھر شاید آدھے قرآن کے مفہوم کی تعین ہی نہ ہوسکے۔ یہود کی تاریخ کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ بدو عرب عموما یہود کی عوام سے پوچھ کر آگے بات کردیتے تھے۔ جبکہ وہاں کے بڑے اہل علم یہود بھی ایسے نہ تھے جو یہود کی تاریخ میں اتھارٹی مانے جاسکیں ۔ اس لئے اس طرح کی آیات کی تفسیر ہمیشہ براہ راست عہد نامہ عتیق کی کتابوں اور یہود کے مسلمہ مورخین کی تاریخ کی روشنی میں ہوگی۔ اور پھر ایسا بھی نہیں کہ مزکورہ تاریخ کا صحیح تعین کوئ بھی نہ کرسکا ہو۔ تفسیر طبری میں اسی آیت کے نیچے درج ذیل روایت بھی موجود ہے؛

 

حدثني يعقوب بن إبراهيم، قال: ثنا ابن علية، عن أبي المعلى، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول في قوله ( بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ ) قال: بعث الله تبارك وتعالى عليهم في المرّة الأولى سنحاريب من أهل أثور ونينوى،

سعید بن جبیر نے اس آیت کے تحت کہا کہ اللہ نے دوسرے میں سے پہلے عذاب کی باری ان پر جو جنگجو بھیجے وہ آثوری و نینوائ تھے ۔

6  ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا

اس کے بعد ہم نے تمھارے پھیرے کو ان پر پلٹایا اور دولت و قابل اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے چابک جتھے والا بنایا۔

یہ آیہ ثم سے شروع ہورہی ہے۔ “ ف” کے برعکس “ ثم “ زمانہ یعنی وقت کی تراخی ( دیر ۔ تاخیر )  کے ساتھ ترتیب پر دلالت کرتاہے ۔ جیسے قرآن كريم میں ہے ﴿وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ، ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ﴾۔ سجدہ ۷ ( اور انسان کی تخلیق کی ابتداء کیچڑ سے کی۔پھر اس کے بعد اسکی نسل کو مھین سے پانی کے نچوڑ سے شروع کیا، پھر اسکے بعد اسکا تسویہ کرکے اسمیں روح پھونکی یعنی تمھیں سمع بصر آفئدہ والا بنادیا۔

لہذا پہلے اور دوسرے واقعے میں کتنا بھی زمانہ گزرے اس پر کوئ قید نہیں۔ ردد-یرد واپس کردینے کو کہتے ہیں جبکہ الکر پھیرا دینے یا پلٹا دینے کو کہتے ہیں اسی سے لفظ تکرار بنا ہے۔ معنی یہ ہوا کہ اس کے بعد ہم نے تمھارے پھیرے یا باری کو ان پر پلٹایا ۔ علیھم کی ضمیر ( اور کچھ آگے زکر ہونے والے مزید قرآئن ) واضح کررہے ہیں کہ باری کا یہ پلٹاو انھی کے اپر ہے جنکے ہاتھوں ان پر پہلا عذاب آیا ( بابل و نینوی یعنی عراق ، سوریا، اردن، لبنان براہ راست جبکہ مصر اور کچھ علاقے بطور انکے مفتوحہ صوبے)۔ لہذا موجودہ 1948 کو وجود میں آنے والی اسرائیل ہی وہ ریاست ہے جس پر یہ الفاظ ہو بہو ٹھیک بیٹھتے ہیں جنھوں نے انکی پہلی ریاستیں تباہ کی تھیں۔ قدیم آشوری اور نینوائ ریاستوں کی اولادیں چونکہ اس دوسری باری سے قبل مسلمان ہونے جارہی تھیں اس لئے قرآن نے انکے لئے اس پیشن گوئ کو بطور ہدایت کے ذکر کیا تاکہ وہ پہلے سے معلوم پیشن گوئ کے مطابق اپنے اعمال پر نظر رکھیں۔

اگلے تین الفاظ میں انکی قوت کے دو Resources یعنی اسباب ( Money & Men )بطور نشانی کے زکر کئے جو آج کے اسرائیل کی well equipped army سے ذیادہ کبھی پہلے ان پر آج سے ذیادہ فٹ بیٹھتے نظر نہ آے۔

۱: اموال : دنیا کے بڑے فینانشل انسٹی ٹیوشنز بلکہ کرنسی کی شکلوں کے بانی ، بڑے کاروباری کارٹلز، بڑے میڈیا ہاوسز ہر چیز پر گلوبل لیول پر چھاے ہوے ہیں۔ تفصیل مختلف ریسرچ پیپرز ، ایڈیٹوریلز ، بیسٹ سیلینگ بکس اور میڈیا پروگرامز میں دیکھی جاسکتی ہے۔

۲: بنین: اناث (مونث) کی ضد ہے لیکن اسطرح عظمت کی علامت کے طور پر استعمال ہو تو اس سے ہونہار ابناے قوم مراد ہوتے ہیں۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور نوبل انعامات کی لسٹیں نکال کر اس نشانی کی وضاحت دیکھی جاسکتی ہے۔ نیز 1948 سے بھی بہت پہلے سے ابتک ستر مختلف ممالک سے مایگریٹ ہوکر یہ لوگ اسرائیل پہنچ رہے ہیں اور سیلاب کا یہ سلسلہ ابھی نہیں رکا۔ مزید ریلے سے قبل اسرائیل کو کچھ انتظامات بھی کرنے ہیں جسکے لیے وہ حیلے بہانے سے چھین لینے سے قبل دنیا کے ماڈرن ترین شہر بھی اپنی ٹارگٹ لینڈ پر بنوا رہا ہے۔ اب بھی کوئ بھی یہ ثابت کردے کہ اسکی ماں یہودیہ تھی تو وہ اس موجودہ ریاست کا رکن بن جاتا ہے۔ باپ کی بجاے ماں کی شرط کی وجہ سے انھیں اکثریت ان نوجوانوں کی حاصل ہورہی ہے جو اسرائیل کی ترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

۳: نفیر: ایسا جتھہ جو کسی کی مدد کے لئے چاک و چوبند ہوجاے، مراد فوجی طاقت۔ پہلی عرب جنگ میں عربوں نے کل ملا کر 20,000 کے قریب بندے لڑائ میں اتارے جبکہ مقابلے میں اسوقت بھی نوزائیدہ اسرائیل کے 67,000 فوجی لڑے۔ ظاہری تعداد سے ہٹ کر فوجی طاقت کے بقیہ وسائل کے لحاظ سے بھی اگلی عرب اسرائیل جنگوں کی تاریخ اس لفظ کی بہترین تشریح ہے۔

جیسے پہلی متحدہ ریاستیں دو مختلف باریوں میں تباہ ہوئیں اور یروشلم کی باری دوسرے ہلے میں آئ تھی ، ویسے ہی اب کی بار بھی شمالی ریاست کے حصوں سے پہلی عرب اسرائیل جنگ سے ابتداء ہوئ اور دوسرے حصے پر کنڑول اگلی عرب اسرائیل جنگوں میں پہلی والی تاریخی ترتیب کے ساتھ ہی اسرائیل کے ہاتھوں میں آیا۔ یونانیوں اور رومیوں میں سے کسی نے بھی انکی جنوبی اور شمالی ریاست کے تباہ کرنے میں کوئ کردار ادا نہیں کیا تھا۔ ان کے ساتھ یہود کی جو بھی معاملات ہوے وہ ان دونوں ( جنوبی و شمالی ) ریاستوں کی بابل و نینوی کی تباہی کے بعد غلامی کے دور میں ہوے۔ بلکہ مصر کا بھی اس تباہی میں یہ ہاتھ موجود تھا کہ اس نے متحدہ ریاست کو دو حصوں میں توڑانے اور کمزور کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔

جہاں تک معاملہ آیت میں perfect tenses کے استعمال سے مستقبل کے زکر کا ہے تو یہ عربی ادب میں بھی مستعمل ہے اور قرآن میں بھی کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اسکا مقصد وقوعہ کی یقین دہانی پر زور دینا ہوتا ہے۔ اگر قرآئن سے واضح ہو کہ مزکورہ واقعہ مستقبل کا ہی ہے ( جیسے قیامت سے متعلق آیات ) تو پھر ماضی کے صیغوں کو مستقبل کے تحت ہی بیان کیا جاتا ہے۔ ان آیات میں ایک قرینہ تو مزکورہ بالا “ علیھم انھی پر “ کا ہے اور دوسرا قرینہ پہلے واقعے کا اختتام “ وکان وعدا مفعولا “ کے مقابلے دوسرے واقعہ کا اختتام “ عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا” ہے جبکہ تیسرا قرینہ یہ ہے کہ جیسے جب بنی اسرائیل کی باری نے بابل و نینوی والوں پر پلٹا کھایا تو ھم کی ضمیر کے ساتھ کہا کہ “ لکم الکرہ علیھم” اسی طرح جب دوسری بار بابل و نینوی والوں کا بنی اسرائیل پر پلٹے کا زکر کیا تو “ ہ” کی ضمیر کے ساتھ واضح کیا کہ “ کما دخلوہ اوّل مرہ”۔ یہاں تک کے قرآئن کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے مقابل پارٹی نے بدلنا نہیں بلکہ وہی رہنا ہے جو پہلی باری فریق تھی۔ چوتھا قرینہ موجودہ بنی اسرائیل کا وجود ہے جبکہ پانچواں قرینہ کئ درجنوں کی تعداد میں سے قرب قیامت سے پہلے کی وہ پیشن گوئیاں ہیں ( جو دین ابراہیمی کے تینوں مذاہب میں موجود ہیں) جنکے مطابق زمینی حقائق بھی مڑتے نظر آرہے ہیں اور یہ موجودہ اسرائیلی اسٹیٹ ہی ان تمام پیشن گوئیوں کا نقطہء ماسکہ ہے۔

‎ إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ لِيَسُوؤُواْ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِيرًا

 

اب اگر تم اچھا کرو گے تو اپنے ہی نفع کے لئے کرو گے اور اگر برا کرو گے تو اسکا انجام بھی تم بھگت لو گے۔ پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آجائے گا تاکہ تمہارے چہرے مسخ کردیں اور تاکہ وہی لوگ ھیکل میں ویسے ہی دوبارہ داخل ہوں جیسے پہلی مرتبہ وہ  داخل ہوئے تھے اور اس لئے بھی کہ تمھاری جس جس برتری پر بھی انکا ہاتھ پڑے وہ اسے ملیامیٹ  کردیں۔

ان احسنتم کا مخاطب بنی اسرائیل ہیں  سے لیکن ظاہر ہے کہ اس پر انھوں نے نہ کان دھرنے تھے اور نہ ہی پہلے کبھی دھرے اسی لئے ساتھ ہی لیسوءا،لیدخلوا، لیتبروا کے تین الفاظ سے اس دوسرے وعدے کے مقاصد کو بیان کردیا۔

– جیسا کہ اسی آیت سے واضح ہے کہ ساء۔یسوءہ حسنہ کی ضد ہے۔ چنانچہ اسکے معنی بگاڑ ، ھلاکت، ضرر اور فساد وغیرہ کے ہوتے ہیں۔بظاہر اس سے مراد جسمانی نقصان ہے جیسا کہ پچھلے صحائف میں اسکی درد ناک منظر کشی کی گئ ہے۔

– ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اوّل مرہ میں دخلوہ پر “ ہ” کی ضمیر میری اس راے کے لئے دلیل فراہم کررہی ہے کہ اس ضمیر کو انھی لوگوں( گریٹر شام و عراق )  کی جانب لوٹانا ہے جو پہلی مرتبہ داخل ہوے تھے ( جیسا کہ آگے اوّل مرہ ) بھی آیا ہوا ہے۔ یہاں مسجد کے لفظ سے اندازہ ہوتا کہ شاید ھیکل تیسری مرتبہ پھر اس یافثی الحلیہ یہودی بادشاہ کے ہاتھوں بن جاے جسے المسیح الدجال کہا جاتا ہے کیونکہ یہود نے المسیح ابن مریم کو بھی یہی دجل کرکے ٹھکرانے کی راہ ڈھونڈی تھی کہ فی الحال تو ھیکل موجود ہے جبکہ المسیح اسوقت آے گا جب وہ آکر گرے ہوئے ھیکل کو تعمیر کرکے دے گا۔

– تبر کا معنی برباد کرنے، ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ہوتے ہیں۔ اسی لئے التبر معدنیات کے ان ٹکڑوں کو بھی کہتے ہیں جنھیں کھدالوں وغیرہ کے زریعے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کان سے نکالا جارہا ہوتا ہے۔ علو سرکشی کو بھی کہتے ہیں اور بلندی و عروج کو بھی۔ یعنی انکی بلندی و عروج اور نتیجتا سرکشی و فساد کے جتنے اسباب و شعائر ہونگے وہ سب ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں گے۔

مفسر اصلاحی لیسوءا وجھکم پر لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے بعثنا علیکم عبادالنا اولی باس شدید کے الفاظ مخذوف ہیں۔ چونکہ اسکا قرینہ واضح تھا اس وجہ سے اسے حذف کردیا اور لیسوءا پر جو لام ہے وہ اسکی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ بھی کررہا ہے۔ بات دل کو لگتی ہے کہ اس سے فورا ہی ایک دو آیات پہلے جب اسکا اشارہ کردیا اور جب یہاں بھی کہہ دیا کہ کما داخلوہ اوّل مرہ تو پھر اسے دہرانے کی بھلا کیا ضرورت تھی ؟ لیکن اس مقام کو اگلی سورہ الکہف سی بھی کیوں نہ جوڑا جاے جو کہ اس سورہ کا جوڑا بھی ہے وہاں شروع کی آیات میں ہی ایک طبقے کو مسیحی کہنے سے بچ کر قرآن نے ینذر الذین قالوا اتخذاللہ ولدا کی نشانی سے مخاطب کرکے ایک بڑی جنگ کا قیما لینذر باسا شدیدا ( باس شدید جنگ کے لئے آتا ہے) کی پیشن گوئ کی ہے۔ یہاں کا قیما اور سورہ بنی اسرائیل میں اس پیشن گوئ کے بعد ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم کا انداز بھی ایک سا ہے۔ سورہ الکہف اور سورہ بنی اسرائیل کے دونوں مقامات کو جوڑ لیں تو جوڈو۔کرسچین الائنس کے موجودہ انہونے واقعہ کا انجام بھی روایات کی پیشن گوئیوں کے مطابق جڑتا نظر آتا ہے۔

‎   عَسَى رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْ

‎وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرا

‎امید سے رہو کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کردے لیکن اگر

‎تم پلٹے تو ہم بھی پلٹیں گے ۔ اور ہم نے جہنم ّکو کافروں کا باڑا  بنایا  ہے۔

جیسے پہلے عذاب کے اختتام پر فرمایا تھا کہ و کان وعدا مفعولا یہ بات اس دوسرے وعدے کے بعد نہیں فرمای بلکہ “عسی “ کہہ کر ان آیات کے نزول سے بعد والے دور کے واقعہ کی جانب توجہ دلائ ہے جسکا زکر کچھ اور مقامات پر بھی ہے جیسے مثلا سورہ نساء آیت 159 میں ارشاد ہے ؛

وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا

ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ یقینا ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے پہلے اور مسیح قیامت کے دن ان اہل کتاب پر اس کے گواہ بھی بنیں گے۔‘

اگر اس فہم میں کوئ اجتہادی خطا موجود نہیں تو پھر یقین رکھ لیں کہ لبنان، اردن ، سعودی عرب کا شمالی علاقہ، مصر اور مزید وہ علاقے جو پہلے واقعے میں پارٹی تھے اب اس دوسرے واقعے سے پہلے ثم ردنالکم الکرہ علیھم کے تحت باری باری اسرائیل کے فساد کا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں