اسمعیل حسنی
ذیل کے چار نقشوں میں سرخ رنگ فلسطین کی علامت ہے اور سفید رنگ اسرائیل کی، مجموعی طور پر یہ دونوں ممالک پہلے خلافت عثمانیہ (ترکی) کا حصہ تھے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں سقوط خلافت کے بعد عربستان کے دوسرے ممالک کی طرح اس خطے پر بھی برٹش امپائر نے کنٹرول سنبھال لی۔ برصغیر و پاک و ہند میں پونے چھ سو کے قریب ریاستیں تھیں، برٹش امپائر کی مفتوحہ ممالک اتنے زیادہ ہوگئے تھے کہ سنبھالنا مشکل تھا۔ اس بارے ایک محاورہ بھی بڑا مشہور ہوا تھا کہ انگریز کی حکومت پر سورج طلوع تو ہوتا ہے لیکن غروب نہیں ہوتا۔ مملکت برطانیہ کی روز بڑھتی ہوئی حدود اربعہ کی وُسعت خود اس کے کنٹرول سے بھی بے قابو ہونے لگا تھا۔ اس دوران لیگ آف نیشن کی تشکیل ہوئی، مولانا شیرانی کے مطابق ”لیگ آف نیشن“ مغربی ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کی تشکیل کا ٹیسٹ کیس تھا۔ مغرب نے اس فورم سے چار بڑے فیصلے کیے:
1) مغربی ممالک باہمی اختلاف جنگ کی بجائے جرگے میں حل کریں۔
2) مفتوحہ ممالک میں بطور خلیفہ اپنا ایک نظام بٹھا کر خود نکلیں اور اقتدار مقامی باشندوں کے حوالے کریں۔
3) مفتوحہ ممالک کی سرحدات کو فطری نہیں بلکہ غیر فطری رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر مزید بھی توڑ سکیں۔
4) مفتوحہ ممالک میں فوج، خود ان ممالک کی پبلک سے اپنی مفادات کی تحفظ کےلیے تشکیل دیا کریں، سرحدات کہ حفاظت کےلیے نہیں، کیوں کہ سرحدات کا فیصلہ ہم خود کریں گے۔
مولانا شیرانی کے مطابق مغرب کے اس فیصلہ کی روشنی میں سب سے پہلے اہل لغت نے اپنی ڈکشنری میں لفظ ”نیشن“ کی مفاہیم میں غیر محسوس طریقے سے وُسعت رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ ہر ایک اپنی مطلب کے مطابق اس لفظ کو کھینچ تھان کر استعمال کرنے کے لیے بروئے کار لائے اور مطالبات شروع کریں کہ ہمیں ایک الگ قومی ریاست چاہیے۔ مرکزی مفہوم یہ تھا کہ ”قومی ریاست“ ، اب قوم سے کیا مراد ہے؟ جہاں جو مفہوم مؤثر ثابت ہوسکتا تھا۔ اسی کا استعمال کیا گیا۔ یوں مغرب کی ضرورت کے پیش نظر سب سے پہلے نسلی، لسانی، مذہبی اختلافات اور تضادات کو ہوا دیکر تضاد سے تصادم کے درجے تک پہنچایا گیا۔ تصادم کے درمیان بیچ بچاؤ کے بہانے انگریز نے اپنی مفادت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے جدید ریاستوں کی جغرافیائی نقشے مرتب کیں، پھر جناح اور بن گوریاں جیسے وکیلوں اور صحافیوں کو قومی لیڈر کے طور پر بھیج کر ان کے ذریعے تقسیم کو آزادی کا عنوان دیکر نئی ریاستیں تشکیل دیں۔ ان ہی ریاستوں میں قابل ذکر ریاستیں ہندوستان و پاکستان اور اسرائیل و فلسطین بھی ہیں، سوال یہ ہے کہ دو بھائی ایک ساتھ ہوں تو زیادہ طاقت ور ہوں گے یا الگ الگ ہو؟ تقسیم تو کمزوری کی علامت ہے آزادی کا نعم البدل نہیں۔ بہر کہف یہ چار ریاستیں ایک ہی سال کے فاصلے سے (1947ء اور 1948ء میں) تشکیل پذیر ہوئیں۔ ان میں فلسطین اور پاکستان اپنے ابتدائی جغرافیہ برقرار نہیں رکھ پائے۔ ریاستوں میں توسیع پسندانہ عزائم یہ ہر ریاست کی ایک فطری جبوری اور معاشی ضرورت ہے۔ آپ غور کریں کہ افغانستان بظاہر ایک کمزور سا ملک ہے لیکن پرانے معاہدات کو بنیاد بناکر بلوچستان اور کے پی کے میں سے بیشتر حصوں اور قبائلی علاقہ جات پر اپنا دعوی ثابت کررہا ہے۔ (طلباء نے تو نیا نقشہ بھی جاری کردیا ہے، جس میں گوادر اور اٹک تک علاقوں کو افغانستان ظاہر کیا گیا ہے۔) قبائلی علاقہ جات کے مسئلے میں ہماری حالت اس قدر پست ہے کہ 1890ء میں جو علاقے سو سال کے معاہدے کےلیے افغانستان سے انگریز نے لی تھی، 1990ء سے ہم اپنی مرضی کی حکومتیں تشکیل دیکر ان کی منت ترلے کرتے ہیں کہ سرحد پر ہمارے ساتھ معاہدہ کرلیں۔ افغانستان میں خواہ کتنا ہی کمزور حکومت آجائے، سرحد بارے ہمارے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہیں۔ کل کو اگر یہ کیس اقوام متحدہ میں چلا جائے تو 1990ء کے بعد قبائل میں ہم نے جو کچھ بویا ہے، اس کا حساب چکانا پڑے گا۔ بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا۔ آدھا پنجاب ہندوستان میں شامل ہوگیا۔ بٹالہ، گورداسپور اور حیدرآباد دکن پر ہم علمداری سے عاجز رہے، کشمیر ایشو آپ کے سامنے ہے، تفتان بارڈر سے میرجاوہ تک کا حصہ ایران ہم سے لے گیا۔ یوں ملنے والی کل اراضی میں سے 40 سے 45 فیصد ہمارے پاس رہ گیا۔ اس کی حالت بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ اب یہی صورت حال فلسطین کا ہے جسے تقسیم کے وقت کل اراضی میں 44 فیصد حصہ مل گیا تھا۔ اسرائیل کے حصے میں 56 فیصد رقبہ آگیا تھا۔ اس نے ہندوستان کی طرز پر اپنے حصے کو قابو رکھ کر توسیع پسندانہ عزائم جاری رکھی، فلسطین کی قیادت سے یہ غلطی ہوگئی کہ انہوں نے اپنے ثابت شدہ حصے کو بھی دعوے میں رکھ کر بچوں کی طرح ضد پہ اڑ گئی کہ ہمیں زیادہ دیا جائے یہ کم ہے۔ اس وقت فلسطین کے پاس ٹوٹل 14 فیصد حصہ رہ گیا ہے، وہاں بھی ان کی اپنی کرنسی، پاسپورٹ، نیشنلٹی بلکہ پانی، بجلی اور ایندھن وغیرہ تک اپنی نہیں بلکہ اُردن اور اسرائیل پر انحصار کرتے ہیں۔ جب بھی ان کے درمیان کوئی جھڑپ ہوجاتا ہے، فلسطین کی سرحدیں مزید سکڑتی جاتی ہیں اور اسرائیل کی حدود میں پھیلاؤ آجاتا ہے۔ پہلے یہ کام عرب نیشنلزم کے نام پر کرتے تھے، سب ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کرچکے، جو رہ گئے ہیں وہ بھی نمبر پر کھڑے ہیں تسلیم کرنے کےلیے، تشکیل کے فورا بعد ترکی اور پھر ایران نے تسلیم کیا۔ تاہم 1979ء انقلاب کے بعد سے ایران اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ ترکی سے یہ اراضی چھن گئی تھی۔ اس نے تسلیم کرلیا۔ عرب ممالک عرب نیشنلزم کے بنیاد پر مخالف تھے، مقدمہ ہی ان کا تھا۔ سب کے سب اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے۔ اب ایران نے وہی پوزیشن سنبھال لی ہے جس پر ایک عرصے تک عرب کھڑے تھے، سمجھ نہیں آتا کہ یہ لڑائیاں فلسطین کے مفادات ہورہی ہیں یا اسرائیل کے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسمعیل حسنی صاحب جامعہ امدادیہ کوئٹہ کے فاضل ہیں اور جمیعت علمائے اسلام کے سرگرم کارکن ہیں۔
کمنت کیجے