عمران شاہد بھنڈر
گزشتہ کچھ روز سے نظریہ ارتقا پر عجیب و غریب خیالات پڑھنے کو مل رہے ہیں، جن میں خیال یہ پیش کیا گیا ہے کہ نظریہ ارتقا مفروضہ ہے، حقیقت نہیں ہے۔ لوگ یہ باتیں کہاں سے پڑھتے ہیں، مجھے کچھ علم نہیں ہے۔ البتہ نظریہ ارتقا کو مفروضہ کہنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ مغربی سکولوں میں ارتقا کا نظریہ ایک حقیقت کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، اور سائنسی حقیقت سے مراد وہ حقیقت ہوتی ہے جس کے حق میں شہادت پیش کی جا چکی ہو۔ مغربی سکولوں میں نظریہ ارتقا پوری سائنسی شہادت سے پیش کیا جاتا ہے، تبھی طالب علم مطمئن ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو نظریہ ارتقا کے خلاف ہیں، ان کے اپنے پاس “تخلیق” کا مذہبی نظریہ موجود ہے، جو ایک قدیم احمقانہ متھ پر قائم ہے۔ یہ متھ اس وقت تشکیل پائی جب انسان عقل کے استعمال سے قاصر تھا۔ یہ اس حد تک احمقانہ ہے کہ اس کے حق میں ایک معمولی سی شہادت بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔
نظریہ ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ مختلف انواع حالات کی تبدیلیوں سے اپنی نوع کو تبدیل کرنے کا داخلی رجحان رکھتی ہیں۔ تبدیلی کی بے شمار اقسام ہیں۔ اس تبدیلی کو متعین کرنے سے شہادت دستیاب ہو جاتی ہے۔ قدرتی انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ فطرت خود انواع میں تبدیلی کا ذریعہ ہے۔ وہ لوگ جن کے نزدیک کائنات یا فطرت ہی خدا ہے اور انواع اسی فطرت اور کائنات کی انتہائی پیچیدہ قوتوں اور پروسیس کے تحت تشکیل پائے ہوئے انتخاب کا نتیجہ ہیں، ان وحدت الوجودیوں کو نظریہ ارتقا سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ نظریہ ارتقا فطرت کی بالادستی پر استوار ہے۔ کیونکہ سارا مسئلہ فطرت کے اندر، فطرت کے ذریعے اور فطرت کی خاطر تشکیل پاتا ہے۔ کائنات میں سے عقلی بنتر دریافت کی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ کائنات اخلاقیات سے محروم ہے۔ اخلاقیات وہ استعداد ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوئی، لیکن انسان نے اخلاقیات اپنے عمل سے سیکھی۔ اس کے لیے ارسطو “مزاولت” کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے ہی عمل کو بار بار دہراتا تھا، اپنی فعلیت پر منعکس ہوتا آیا ہے۔ لہذا اخلاقیات اس داخلی استعداد کی پیروی میں اپنے عمل پر منعکس ہو کر اس سے اکتساب کرنا ہے۔ جیسا کہ دنیا کے ہر شعبے میں پریکٹس بنیادی ہوتی ہے۔
کچھ لوگ یہ نکتہ اٹھا لیتے ہیں کہ نظریہ ارتقا کے خلاف فلاں فلاں کتاب لکھی گئی ہے، لہذا یہ غلط ثابت ہو گیا ہے۔ ان لوگوں کو علمی ارتقا کے مفاہیم کی ابجد سے بھی آگاہی نہیں ہے۔ کائنات کے ہر فلسفی نے دوسرے فلسفیوں کے خلاف بھی خیالات پیش کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے افلاطون کے خلاف لکھا۔ ڈیکارٹ اور فرانسس بیکن نے ارسطو کے خلاف لکھا۔ جرمن عقلیت پسندوں لائبنیز اور وولف نے برطانوی تجربیت کے خلاف لکھا۔ ہیگل کی مخالفت اور حمایت میں سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ جتنا مارکس کے خلاف مواد موجود ہے، اتنا کسی کے خلاف نہیں ہے۔ محض مخالفت میں کتاب لکھ دینے سے کوئی نظریہ غلط ثابت نہیں ہوتا۔ سارا سال منطق کی مخالفت میں لکھتے رہیں، لیکن اس کے لیے منطقی کی حیثیت سے لکھنا ہو گا اور وہ مخالفت منطق میں ارتقا کا باعث ہو گی۔ یہی بات معیشت اور ریاضی کے لیے لازم ہے، اور یہی بات نظریہ ارتقا پر صادق آتی ہے۔ نظریہ ارتقا کے خلاف جو بھی لکھا جائے گا وہ ارتقا کو دیکھنے کا ایک مختلف زاویہ ہو گا اور ارتقا کے احاطے میں رہ کر لکھا جائے گا۔ وہ ارتقا کو تقویت دے گا۔ صرف مذہب کی احمقانہ دیومالائی داستان سنا کر نظریہ ارتقا کو غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر مذہب اپنی “تخلیق کائنات” کی غیر عقلی کہانی کے حق میں کوئی شہادت پیش نہیں کرتا تو اس سے نظریہ ارتقا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مذہب کے پاس ایک ہی کہانی ہے جو آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے جاتی ہے۔ اس کہانی نے انسان کی علمی صلاحیتوں کو صدیوں سے مسدود کیا ہوا ہے۔ انسان کو علم حاصل کرنا ہے کہ یہ کائنات کیسے بنی؟ نہ کہ کیوں اور کس نے بنائی؟ ان سوالات کے جوابات کو متعین کرنا انسان کا کام ہے نہ کہ کسی دیو مالائی کردار کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد ہیں اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں۔
کمنت کیجے