کانٹ زدہ بزعم خود فلسفی فرماتے ہیں کہ متکلمین ارسطوی منطق کے مقولات کو خدا پر لاگو کرتے رہے جبکہ کانٹ نے بتایا کہ یہ مقولات صرف خالی ڈبے ہیں جن کی ماھیت سے متعلق علم حسی مشاھدے سے ممکن ہوپاتا ہے اور چونکہ خدا کا حسی مشاھدہ نہیں ہوپاتا لہذا خدا کی ماھیت معلوم نہیں ہوسکتی لیکن متکلمین اس کے قائل رہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
“متکلمین کی سنگین غلطی یہ تھی کہ وہ ارسطوئی منطق میں موجود آئیڈیاز کا مذہبی خدا کے تصور پر اطلاق کرتے رہے۔ وہ یہ کبھی نہ جان پائے کہ آئیڈیا مافیہا کے بغیر “خالی” ہوتا ہے اور “خالی” کا صرف تصور قائم کیا جا سکتا ہے اسے جانا نہیں جا سکتا۔ منطقی وضاحت خدا کی ماہیت کا علم فراہم نہیں کرتی۔ اس کمی کو متکلمین مذہب سے پورا کرتے ہیں۔ کیونکہ فلسفی زیادہ سے زیادہ خدا کا ایک تصور قائم کرتا ہے۔ اس تصور سے آگے بڑھنا منطقی اصولوں سے انحراف ہے اور کسی بھی یونانی فلسفی نے ایسی غلطی نہیں کی کہ خدا کی ماہیت کے علم کا دعوی کرے۔ تمام متکلمین اکٹھے ہو کر صرف کانٹین فلسفے کے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کر دیں کہ “خدا کی ماہیت” کیسی ہے؟”
موصوف کو یہ بھی معلوم نہیں کہ محقق متکلمین جیسے کہ امام غزالی و امام رازی وغیرہ نے اس پر باقاعدہ بحث کی ہے کہ جسے ماھیت کہتے ہیں خدا کی ذات کے بارے میں وہ نامعلوم ہے، امام رازی نے اس پر آٹھ دلائل قائم کئے ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ ہم نے ایک پوسٹ میں بھی کیا تھا۔ لہذا یہ بات بتا کر کانٹ نے علم کی دنیا میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا کہ خدا کی ماھیت نامعلوم ہے۔ متکلمین یہاں تک بحث کرتے ہیں کہ جب خدا کی ماھیت نامعلوم ہے تو خدا کا علم ممکن ہے سے کیا مراد ہے؟ کیا ہر قسم کا جاننا صرف ماھیت جانے جانے پر ہی موقوف ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم کانٹ کے مداحین کی جانب سے اس دلیل کے منتظر رہیں گے جو یہ ثابت کرسکے کہ موجود صرف وہی ہے اور ہوسکتا ہے جو بذریعہ حواس مشہود ہے۔ چنانچہ متعلقہ سوال کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان پہلے سامنے والے کے موقف کا مطالعہ کرے، موصوف نے اکثر و بیشتر ملحدین کی طرح الہیات کے باب میں یورپ میں ہوئی بحثوں کو متکلمین پر چسپاں کرنا شروع کردیا ہے۔
رہا کانٹ کا فلسفہ تو اس کے بارے میں ہم بارہا وضاحت کرچکے ہیں کہ وہ ایک خاص طرح کی سوفسطائیت کا پرچارک تھا اور اس لئے مشمولات پر مبنی مقولات کو خالی ڈبے کہہ کر “ہونے” و “جاننے” میں دوئی کا قائل رہا، لیکن خود اس دوئی کے “حقیقی” ہونے کا علم اسے کیسے ہوا یہ وہ نہیں بتاتا۔ اس بنیادی غلطی کی وجہ سے کانٹ نے الہیات کے باب میں ٹھوکریں کھائیں اور خود اپنے فلسفے میں اس کا پاس بھی نہ رکھ سکا اور تضادات کا شکار رہا۔
کمنت کیجے